Tag: trash

  • سعودی عرب: سڑک پر کچرا پھینکنے کا ہزاروں ریال جرمانہ مقرر

    سعودی عرب: سڑک پر کچرا پھینکنے کا ہزاروں ریال جرمانہ مقرر

    ریاض: سعودی حکام نے کچرے کو جاری کردہ ہدایت کے مطابق ٹھکانے نہ لگانے پر جرمانے مقرر کردیے، گاڑی کی کھڑکی یا عمارت سے کچرا پھینکنے پر 200 سے لے کر ایک ہزار ریال تک کا جرمانہ ہوگا۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی عرب میں ویسٹ مینجمنٹ ریگولیشن کی خلاف ورزی پر ہزاروں ریال کے جرمانے متوقع ہیں۔

    سعودی عرب میں ویسٹ مینجمنٹ کے قومی مرکز کا کہنا ہے کہ ری سائیکلنگ کے لیے کچرے سے چیزیں نکالنا اور ان کی درجہ بندی کرنا قابل سزا جرم ہے۔

    قومی مرکز کا کہنا ہے کہ ڈسٹ بن سے کچرا نکالنے اور ری سائیکلنگ کے لیے ان کی درجہ بندی کرنے پر کم از کم 1 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 10 ہزار ریال جرمانہ ہوگا۔

    جو تعمیراتی سامان کا ملبہ یا اصلاح و مرمت کے دوران نکلنے والا سامان کسی اور کے پلاٹ یا پبلک مقامات پر پھینکے گا اسے 50 ہزار ریال کا جرمانہ ہوگا۔

    علاوہ ازیں اگر تعمیر یا انہدام کی وجہ سے جمع ہونے والے کچرے کو صاف نہیں کیا گیا تو اس پر 20 ہزار ریال تک کا جرمانہ ہوگا۔

    مرکز کا یہ کہنا بھی ہے کہ اگر کسی شخص نے چلتے ہوئے، گاڑی کی کھڑکی یا عمارت سے کچرا پھینکا تو اس کو 200 سے لے کر ایک ہزار ریال تک کا جرمانہ ہوگا۔

    ویسٹ مینجمنٹ ریگولیشن کی خلاف ورزیوں پر جرمانوں کا چارٹ رائے عامہ کے جائزے کے بعد جاری کیا جائے گا۔

  • کچرے سے آلودہ کراچی کے لیے سنگاپور بہترین مثال

    کچرے سے آلودہ کراچی کے لیے سنگاپور بہترین مثال

    کراچی کے کچرے نے نہ صرف شہریوں بلکہ ارباب اختیار کو بھی پریشان کر رکھا ہے کہ روزانہ پیدا ہونے والے لاکھوں ٹن کچرے کو کیسے اور کہاں ٹھکانے لگایا جائے۔

    نہ صرف کراچی بلکہ کچرے سے پریشان دنیا کے ہر شہر کو اس معاملے میں سنگاپور کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے۔

    براعظم ایشیا کا سب سے جدید، ترقی یافتہ اور خوبصورت ترین ملک سنگاپور نہایت چھوٹا سا ملک ہے اور یہاں کچرے کے بڑے بڑے ڈمپنگ پوائنٹس بنانے کی قطعی جگہ نہیں۔

    سنگاپور کی صفائی ستھرائی مغربی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے، آئیں دیکھتے ہیں کہ سنگاپور اپنے کچرے کو کس طرح ٹھکانے لگاتا ہے۔

    سنگاپور میں روزانہ کی بنیاد پر ہر جگہ سے کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ پورے ملک سے اکٹھا کیا جانے والا کچرا ایک بڑی سی عمارت میں لایا جاتا ہے۔

    اس عمارت میں اس کچرے کو جلایا جاتا ہے، یہاں جلنے والی آگ سال کے 365 دن جلتی رہتی ہے، 1000 ڈگری سیلسیئس پر جلنے والی یہ آگ سب کچھ جلا دیتی ہے۔

    کچرے جلانے کے اس عمل سے بجلی پیدا کی جاتی ہے، یہ عمارت سنگاپور میں توانائی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

    اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس عمارت سے نکلنے والا دھواں ماحول کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔

    دراصل اس عمارت میں صرف مزدور یا کاریگر موجود نہیں ہوتے جو آگ جلا کر کچرا اس میں پھینک دیں، یہاں سائنسدان اور اپنے شعبے کے ماہرین موجود ہوتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہاں سے نکلنے والا دھواں صاف ستھرا ہو۔

    زہریلے دھوئیں کو صاف یا فلٹر کرنے کا عمل جدید سائنسی بنیادوں پر استوار اور نہایت پیچیدہ ہے، اور اس مشکل عمل کے بعد اس عمارت کی چمنیوں سے خارج سے ہونے والی ہوا بالکل صاف ستھری ہوتی ہے۔

    اس عمارت میں 90 فیصد کچرا جل کر غائب ہوجاتا ہے، صرف 10 فیصد راکھ کی صورت میں باقی رہ جاتا ہے۔ اس راکھ کو دور دراز واقع انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے ایک جزیرے پر لے جایا جاتا ہے اور پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔

    یہ پانی سمندر اور دریاؤں سے بالکل الگ تھلگ ہے لہٰذا اس میں ڈالی جانے والی راکھ یہیں رہتی ہے۔

    سنگاپور کی اس حکمت عملی سے وہ پلاسٹک جسے غائب ہونے میں 500 برس لگتے ہیں، 1 دن میں غائب ہوجاتا ہے۔

    اور یہ سارا عمل اس قدر صاف ستھرا ہے کہ سنگاپور کا قدرتی ماحول اور حسن برقرار ہے، جنگلی و آبی حیات اور نباتات تیزی سے نشونما پا رہے ہیں اور جنگل سرسبز ہیں۔

  • ماحولیاتی خطرات کو اجاگر کرتے کچرے سے بنے فن پارے

    ماحولیاتی خطرات کو اجاگر کرتے کچرے سے بنے فن پارے

    دنیا بھر میں تیز رفتار صنعتی ترقی جہاں معاشی بہتری لائی، وہیں ماحول کو ناقابل نقصان پہنچنا شروع ہوگیا۔

    اس ترقی کے باعث ہر شے تک ہماری رسائی نہایت آسان ہوگئی اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے نہایت بے دردی سے مختلف اشیا کا استعمال کر کے انہیں پھینکنا شروع کردیا اور نتیجتاً چند ہی دہائیوں میں ہماری زمین کچرے کا ڈھیر بن گئی۔

    کئی ایسی اشیا وجود میں آگئیں جو ایک بار استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں لیکن زمین پر وہ طویل عرصے تک موجود رہتی ہیں، ان اشیا میں پلاسٹک سر فہرست ہے۔

    اب جبکہ زمین کا کوئی کونا ایسا نہیں جو کچرے سے اٹ نہ چکا ہو، اور سمندر کی معلوم گہرائی تک بھی پلاسٹک پایا جاچکا ہے تو اس کچرے کو صاف کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    عملی اقدامات کے علاوہ کئی افراد ایسے بھی ہیں جو مختلف کوششوں سے اس مسئلے کو اجاگر کر رہے ہیں تاکہ ہر شخص انفرادی طور پر اس کام میں اپنا حصہ ڈال سکے۔

    اسٹیفنی کلگسٹ بھی ایسی ہی فنکارہ ہیں جو کچرے سے مختلف فن پارے تشکیل دے رہی ہیں۔

    اس سے ایک طرف تو وہ کچرے کو دوبارہ استعمال کر کے اپنے حصے کا کام کر رہی ہیں تو دوسری جانب اپنے فن پاروں سے لوگوں میں ماحولیاتی خطرات کا شعور بھی بیدار کر رہی ہیں۔

    اسٹیفنی ان جانوروں اور نباتات کو اپنے فن پاروں میں جگہ دیتی ہیں جو ماحولیاتی خطرات کا شکار ہیں اور تیزی سے معدومی کی طرف گامزن ہیں۔ ان کا موٹیو ہے، ’ فطرت کو واپس پلٹنے دیں، کم خرچ کریں‘۔

    آئیں آپ بھی ان کے کچھ فن پارے دیکھیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    Hey there! 😄 I will be taking over @theotherartfair today! While I am most known for my sculptures, I also paint in watercolors, acrylics, oils and do murals. I am most interested in colors, the climate crisis we are facing and the small things in nature. (think mushrooms, insects, bacteria and so on) My work has a cheerful post-apocalytic feel to it, humans have left only their stuff behind and nature is striving again. I am super excited to share a little more about my daily creative live, so be sure to check in at @theotherartfair during the day to know more about my interests and inspirations! #TOAF #toaflondon #TheOtherArtFair #TOAFtakeover #TakeoverTuesday #stephaniekilgast #realartstudio #artstudio #contemporaryartist #artistofinstagram

    A post shared by Stephanie Kilgast (@petitplat) on

  • متعلقہ ادارے سوتے رہے، شہر قائد گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل

    متعلقہ ادارے سوتے رہے، شہر قائد گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل

    کراچی: شہر قائد میں بارشیں اور عید ختم ہونے کے باوجود کچرا اٹھانے کا کام نہ شروع ہوسکا، شہر گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں بدل گیا۔ شہر بھر کے گٹر ابل پڑے ہیں اور سیوریج کے پانی میں خون کی آمیزش اور باقیات سڑنے سے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں اضافہ متوقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے معاشی حب کراچی سے کچرا اور آلائشیں نہ اٹھائی جانے کی وجوہات سامنے آگئیں۔ ذرائع کے مطابق شہر میں 13 ہزار ٹن کچرا نکلتا ہے، 8 ہزار ٹن بمشکل اٹھایا جاتا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں بارش کے دوسرے سلسلے کے بعد سے کچرا اٹھانے کا کام بند تھا۔ ڈی ایم سیز اور سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ آلائشیں اور کچرا اٹھانے میں ناکام رہیں۔

    لینڈ فل سائٹس کے داخلی و خارجی راستے کیچڑ اور پھسلن کے باعث بند تھے۔ روزانہ اٹھایا جانے والا 8 ہزار ٹن کچرا بھی 4 دن سے نہیں اٹھایا جا رہا۔

    ذرائع کے مطابق سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور حکومت سندھ نے کچرا اٹھانے اور ڈمپنگ کا متبادل نہیں بنایا، 2 لینڈ فل سائٹس جام چاکرو اور گوند پاس گزشتہ شب 4 بجے فعال ہوئیں۔

    ذرائع کے مطابق شہر میں ٹنوں کے حساب سے جمع کچرا اٹھانے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے، بلدیہ وسطی، کورنگی، شرقی، جنوبی اور غربی حصے میں صورتحال ابتر ہوگئی، سیوریج کے پانی میں خون کی آمیزش اور باقیات سڑنے سے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    دوسری جانب بلدیاتی نمائندوں نے فوری طور پر سندھ سالڈ ویسٹ بورڈ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

  • کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    ایک مصری فنکار نے بھی ایسا ہی ایک طریقہ نکالا ہے۔

    مصر سے تعلق رکھنے والا فنکار شیدی رباب کچرے سے آلات موسیقی بناتا ہے۔ رباب ایک موسیقار ہے جبکہ وہ آلات موسیقی بھی بناتا ہے۔

    وہ کچرے سے مختلف پلاسٹک و شیشے کی بوتلوں کو اکٹھا کر کے ان سے ڈرمز، گٹار اور بانسریاں بناتا ہے۔

    رباب کا کہنا ہے کہ اس طرح سے وہ لوگوں کی توجہ مصر میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کے ڈھیروں کی طرف دلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ دریاؤں اور سمندروں میں کچرا پھینکنا کس قدر نقصان دہ ہے۔

    دریائے نیل کے مغربی کنارے پر رباب کی سازوں کی دکان موجود ہے جہاں ہر وقت موسیقی کے شیدائیوں کا ہجوم رہتا ہے۔

    رباب ان آلات کو موسیقی سیکھنے والے بچوں میں مفت تقسیم کرتا ہے اور جو بچے موسیقی سیکھنا چاہتے ہیں انہیں سکھاتا بھی ہے۔ اسے اقوام متحدہ سے ینگ چیمپئن آف دا ارتھ پرائز بھی مل چکا ہے۔

    رباب کا عزم ہے کہ وہ اپنے ملک میں پھیلی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس لیے نہ صرف وہ خود کچرے سے آلات موسیقی تیار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے مشن کا حصہ بن سکیں۔

  • ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    ماؤنٹ ایورسٹ پر صفائی مہم کا آغاز

    کھٹمنڈو: نیپالی حکومت نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی مہم کا آغاز کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق پہاڑ پر کوہ پیماؤں کا پھینکا گیا ٹنوں کچرا وہاں موجود ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کے بلند ترین کچرا گھر کا نام بھی دیا جارہا ہے۔

    سلسلہ کوہ ہمالیہ میں موجود ماؤنٹ ایورسٹ نیپال اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 8 ہزار 8 سو 48 میٹر ہے۔ ہر سال درجنوں کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

    ماؤنٹ ایورسٹ سے اس سے قبل 3 ہزار کلو گرام کچرا اٹھایا جا چکا ہے، اس کچرے میں آکسیجن کے خالی ٹینکس، الکوحل کی بوتلیں، خراب شدہ خوراک، اور خیمے شامل تھے۔ اب ایک بار پھر یہاں کی صفائی مہم شروع کی گئی ہے۔

    گزشتہ ماہ 14 اپریل سے شروع کی جانے والی اس صفائی مہم کا اختتام 29 مئی کو ہوگا، یہ وہ تاریخ ہے جب اس چوٹی کو پہلی بار سر کیا گیا۔

    حکام کو امید ہے کہ 45 دنوں میں یہاں سے 10 ہزار کلو گرام کچرا صاف کرلیا جائے گا۔ اس بلند ترین مقام پر کی جانے والی صفائی مہم پر 2 لاکھ ڈالر اخراجات آرہے ہیں۔

    نیپال نے سنہ 2014 کے بعد سے کوہ پیماؤں پر اپنے ہمراہ کچرا واپس نہ لانے پر جرمانہ بھی عائد کر رکھا ہے۔ اس سے قبل کچرا اکٹھا کی جانے والی مہم میں کچرے کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نیچے لایا گیا تھا۔

    حکام کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر سخت موسم کے باعث وہاں ہلاک ہوجانے والے مہم جوؤں کی لاشیں بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد کم از کم 200 ہے، تاہم ان لاشوں کو فی الحال نیچے نہیں لایا جارہا۔

    ماہرین کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ پر کچرے کی وجہ صرف کوہ پیماؤں کا کچرا چھوڑ جانا نہیں۔ جس طرح سے ہم اپنی زمین کو کچرے سے آلودہ کر رہے ہیں اور یہ کچرا اڑ اڑ کر سمندر کی تہوں اور دور دراز برفانی خطوں تک جاپہنچا ہے، اسے دیکھتے ہوئے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی بھی کچرے سے اٹ چکی ہے۔

  • فلپائنی صدر نے کینیڈین سفارت خانے میں کوڑا ڈالنے کی دھمکی دے دی

    فلپائنی صدر نے کینیڈین سفارت خانے میں کوڑا ڈالنے کی دھمکی دے دی

    منیلا : فلپائنی صدر نے کینیڈین حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کینیڈا کی حکومت نے منیلا کو بھیجے گئے کوڑے کرکٹ کے کنٹینر واپس نہ لیے تو حکومت اس پر جوابی کارروائی کی مجاز ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق فلپائن کے صدر روڈو ریگو دوتیرتے نے کینیدا سے مطالبہ کیا ہے کہ کچھ برس قبل غلطی سے فلپائن بھیجے کوڑا کرکٹ کے کنیٹر فوری واپس لے ورگرنہ فلپائنی حکومت اس پر جوابی کارروائی کی مجاز ہوگی۔

    فلپائنی حکام کا کہنا ہے کہ اگر کینیڈا کی حکومت نے منیلا کو بھیجے کوڑے کرکٹ کے کنٹینر واپس نہ لیے تو ان کنٹینرز میں موجود کچرا و فضلاء کینیڈین سفارت خانے پر پھینک دیں گے۔

    فلپائنی صدر کا کہنا تھا کہ ’اس شرط پر یہ کوڑا کرکٹ قبول ہوگا، اگر کینیڈا فلپائن کو تعلیم کی مد میں رقم فراہم کرے‘۔

    دوتیرتے کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے کے دوران کینیڈین حکام نے کوڑے کو واپس لیں ورنہ اسے جبراً واپس بھیجا جائے گا۔

    خیال رہے کہ سنہ 2013ء اور 2014ء کے دوران کینیڈا کی طرف سے گھروں میں جمع ہونے والے پلاسٹک، بیگز، بوتلیں استعمال شدہ ڈائپرز اور دیگر فالتو چیزوں پر مشتمل کوڑے کرکٹ کے 100 کنٹینر فلپائن پہنچا دیئے گئے تھے۔

    کینیڈین حکام کا کہنا ہے کہ یہ کوڑا کرکٹ ایک نجی کمپنی ریسائیکلنگ لے جانا چاہتی تھی مگر غلطی سے وہ منیلا پہنچ گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ اس پر فلپائن کی جانب سے متعدد بار سفارتی سطح پر احتجاج کیا گیا مگر کینیڈا ابھی تک فلپائن بھیجے گئے کوڑے کرکٹ کا معاملہ حل نہیں کرسکا ہے۔

    کینیڈا کا کہنا ہے کہ کوڑا کرکٹ ایک نجی کمپنی کے تجارتی معاہدے کے تحت منتقل کیا گیا جس میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ منیلا میں قائم کینیڈین سفارت خانے کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں کوڑے کرکٹ کے معاملے کے حل کےلیے کوشش کر رہی ہیں۔ جلد ہی ہم اس کا کوئی مناسب حل نکال لیں گے۔

  • سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    آبی آلودگی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے جو سمندروں اور دریاؤں میں رہنے والی آبی حیات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ سمندر کی مچھلیوں کا آلودہ پانی میں افزائش پانا اور پھر اس مچھلی کا ہماری غذا میں شامل ہونا ہمیں بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔

    علاوہ ازیں دریاؤں کے قابل استعمال میٹھے پانی کی آلودگی بھی انسانی صحت کو شدید خطرات کا شکار بنا رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    تاہم حال ہی میں امریکی ماہرین نے ایسا پہیہ ایجاد کیا ہے جو دریاؤں اور سمندروں کی صفائی کر کے اس میں سے ٹنوں کچرا باہر نکال سکتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کے ساحلی شہر بالٹی مور میں آزمائشی تجربے کے موقع پر اس پہیہ نے سمندر سے 50 ہزار پاؤنڈ کچرا نکالا۔

    یہ تجربہ بالٹی مور کی بندرگاہ پر انجام دیا گیا جہاں جہازوں کی آمد و رفت اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بے تحاشہ کچرا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

    اس پہیہ پر شمسی توانائی کے پینلز نصب کیے گئے ہیں جو اسے فعال رکھتے ہیں۔ پہیہ استعمال کے لیے کسی بحری جہاز یا چھوٹی کشتی پر نصب کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ تیرتے ہوئے سمندر میں سے کچرا نکالتا جاتا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کو بنانے کا مقصد سمندر کی آلودگی میں کمی کرنا اور بندرگاہ کو تیراکی کے لیے محفوظ بنانا ہے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کچرا زمین پر نئی تہہ بچھانے کا سبب

    کچرا زمین پر نئی تہہ بچھانے کا سبب

    دنیا بھر میں کچرے کی وجہ سے آلودگی اور گندگی میں اضافہ اور کچرے کو تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یہ اس قدر خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے کہ ہماری زمین پر کچرے کی نئی تہہ بچھتی جارہی ہے۔

    ارتھ فیوچر نامی جریدے میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے مطابق ہم انسانوں کا پھینکا ہوا کچرا ایک نئی ارضیاتی تہہ تشکیل دے رہا ہے یعنی زمین پر ایک غیر فطری اور گندگی سے بھرپور تہہ بچھا رہا ہے۔

    یاد رہے کہ ارضیاتی تہہ اس وقت تشکیل پاتی ہے جب کسی زمانے میں کسی بڑی آفت یا معدومی کی صورت وہاں موجود تمام جاندار بشمول جانور اور نباتات ختم ہوجائیں، اور ان کے اجسام پر وقت کے ساتھ مٹی کی تہیں جمتی جائیں تو ہزاروں لاکھوں سال بعد وہ پورا دور زمین پر ایک نئی تہہ کی صورت میں اس کا حصہ بن جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    اس تہہ کی بعد ازاں کھدائی بھی کی جاتی ہے جس میں سے آثار قدیمہ اور مختلف جانداروں کی باقیات برآمد ہوتی ہیں جس سے اس دور کے مطالعے میں مدد ملتی ہے۔

    زیر نظر تصویر سے آپ کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح وقت کے مختلف دور اپنے خاتمے کے بعد ایک ارضیاتی تہہ کی صورت اختیار کر گئے۔ ان ادوار کو ہم مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے ہم انسان اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ سامان تیار کر رہے ہیں جو بالآخر پھینک دیا جاتا ہے اور یوں ہمارے دور کی ارضیاتی تہہ کچرے سے تشکیل پا رہی ہے۔

    ہم جو کچھ بھی خریدتے ہیں ان میں سے 99 فیصد سامان 6 ماہ کے اندر پھینک دیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 2.12 ارب ٹن سامان کچرے کی صورت پھینک دیا جاتا ہے۔

    گویا اب سے ہزاروں سال بعد کا انسان جب ہمارے دور کی باقیات دریافت کرنا چاہے گا تو اسے کچرے کی تہہ کھودنی پڑے گی تب جا کر وہ ہمارے موجودہ دور کے بارے میں جان سکے گا۔

    کچرے کے نقصانات کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ہم کچرے سے زمین پر نئی تہہ بچھا رہے ہیں؟

    ہم کچرے سے زمین پر نئی تہہ بچھا رہے ہیں؟

    دنیا بھر میں کچرے کی وجہ سے آلودگی اور گندگی میں اضافہ اور کچرے کو تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یہ اس قدر خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے کہ ہماری زمین پر کچرے کی نئی تہہ بچھتی جارہی ہے۔

    ارتھ فیوچر نامی جریدے میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے مطابق ہم انسانوں کا پھینکا ہوا کچرا ایک نئی ارضیاتی تہہ تشکیل دے رہا ہے یعنی زمین پر ایک غیر فطری اور گندگی سے بھرپور تہہ بچھا رہا ہے۔

    یاد رہے کہ ارضیاتی تہہ اس وقت تشکیل پاتی ہے جب کسی زمانے میں کسی بڑی آفت یا معدومی کی صورت وہاں موجود تمام جاندار بشمول جانور اور نباتات ختم ہوجائیں، اور ان کے اجسام پر وقت کے ساتھ مٹی کی تہیں جمتی جائیں تو ہزاروں لاکھوں سال بعد وہ پورا دور زمین پر ایک نئی تہہ کی صورت میں اس کا حصہ بن جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    اس تہہ کی بعد ازاں کھدائی بھی کی جاتی ہے جس میں سے آثار قدیمہ اور مختلف جانداروں کی باقیات برآمد ہوتی ہیں جس سے اس دور کے مطالعے میں مدد ملتی ہے۔

    زیر نظر تصویر سے آپ کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح وقت کے مختلف دور اپنے خاتمے کے بعد ایک ارضیاتی تہہ کی صورت اختیار کر گئے۔ ان ادوار کو ہم مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے ہم انسان اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ سامان تیار کر رہے ہیں جو بالآخر پھینک دیا جاتا ہے اور یوں ہمارے دور کی ارضیاتی تہہ کچرے سے تشکیل پا رہی ہے۔

    ہم جو کچھ بھی خریدتے ہیں ان میں سے 99 فیصد سامان 6 ماہ کے اندر پھینک دیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 2.12 ارب ٹن سامان کچرے کی صورت پھینک دیا جاتا ہے۔

    گویا اب سے ہزاروں سال بعد کا انسان جب ہمارے دور کی باقیات دریافت کرنا چاہے گا تو اسے کچرے کی تہہ کھودنی پڑے گی تب جا کر وہ ہمارے موجودہ دور کے بارے میں جان سکے گا۔

    کچرے کے نقصانات کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں