Tag: treatment and precautions

  • چہرے کی جھریاں : بچاؤ کیلیے ان ہدایات پر عمل کریں

    چہرے کی جھریاں : بچاؤ کیلیے ان ہدایات پر عمل کریں

    بڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی کمزوریاں اور تبدیلی فطری عمل ہے، ان تبدیلیوں سے صحت زیادہ متاثر ہوتی ہے، خاص طور پر چہرے کی جھریاں انسان کی ظاہری شخصیت کو متاثر کرتی ہیں۔

    چہرے پر جھریاں پڑجانا باعث تشویش ہے لیکن کچھ اقدامات ایسے ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے بڑھاپے کی اس علامت کو کافی حد تک دور رکھا جاسکتا ہے۔

    جلد پتلی ہونے کی وجہ سے خواتین کے چہروں پر جھریاں زیادہ جلدی پڑتی ہیں۔ مردوں کی جلد نسبتاً زیادہ موٹی ہونے کے باعث ان کے چہروں پر جھریاں دیر سے پڑتی ہیں۔

    اس کے علاوہ ہارمونز کے مسائل اور بچوں کی پیدائش کے وقت کمزوری کی وجہ سے خواتین کے چہروں پر جھریاں پڑنا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

    علاج اور احتیاطی تدابیر

    ماہرین صحت کے مطابق والدین کو چاہیئے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو سن بلاک استعمال کرنے کی عادت ڈالیں۔ جلد سے متعلق کسی بھی قسم کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور علاج کرائیں۔ شروع سے بچوں کو متوازن غذا کھلائیں اور متوازن طرز زندگی اپنانے میں ان کی مدد کریں۔

    جھریاں پڑنے کی صورت میں چند بنیادی امور پر عمل ضروری ہے۔ ان کاسمیٹکس کا استعمال کریں جس میں وٹامن سی کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے موئسچرائزر کا استعمال کریں جن میں سیرامائڈ مقدار زیادہ ہو۔

    اس سب چیزوں کے ساتھ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی چیز کا استعمال ایک دن میں فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا، لہٰذا بہتر نتائج کے لیے ان تمام چیزوں کو عادت بنانے کی ضرورت ہے۔

    چہرے کے معاملے میں گھریلو ٹوٹکے استعمال کرنے سے گریز کریں، کوئی بھی چیز ہاتھ یا بازو پر ٹیسٹ کیے بغیر چہرے کی جلد پر استعمال نہ کریں۔

  • پاکستان میں کینسر مریضوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ وجہ سامنے آگئی

    پاکستان میں کینسر مریضوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ وجہ سامنے آگئی

    دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک شخص میں زندگی میں کبھی نہ کبھی کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ سال 2022 میں 2 کروڑ افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی اور 97 لاکھ افراد کینسر سے زندگی کی بازی ہار گئے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں ہر 9 میں سے ایک مرد اور ہر 12 میں سے ایک خاتون کی موت کینسر کے باعث ہوتی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کنسلٹنٹ میڈیکل انکولوجسٹ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مریم نعمان نے کینسر کی بیماری سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ کینسر کے بڑھنے کی بڑی وجہ ہمارا طرز زندگی تبدیل ہونا ہے، جس میں ناقص غذائی اشیاء تمباکو نوشی، مختلف اقسام کی پان گٹکا چھالیہ وغیرہ شامل ہیں۔

    ڈاکٹر مریم نعمان نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں خواتین چھاتی کے کینسر میں بڑی تعداد میں مبتلا ہورہی ہیں، خواتین میں چھاتی کے کینسر کی وجہ گلٹی کا ابھرنا ہے، بد قسمتی سے اس کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہر نو میں سے ایک پاکستانی عورت کو چھاتی کے کینسر کا خطرہ ہے۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ 40 سال کی عمر سے تمام خواتین اپنا معائنہ ضرور کروائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر سرکاری اسپتالوں میں کینسر کے مرض کی تشخیص کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ شہروں کے علاوہ دور دراز علاقوں کی خواتین بھی کینسر جیسے موذی مرض سے محفوظ رہ سکیں۔

  • پیٹ کی چربی ختم کرنے کا درست و آسان طریقہ کیا ہے؟

    پیٹ کی چربی ختم کرنے کا درست و آسان طریقہ کیا ہے؟

    جسم میں نکلتی ہوئی توند یا موٹاپا کسی کو اچھا نہیں لگتا خواتین ہوں یا مرد دونوں اپنی پھیلتی کمر اور نکلتے پیٹ سے پریشان رہتے ہیں کیونکہ بڑھتا ہوا پیٹ ہماری شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیگر بیماریوں سمیت اضافی وزن اور موٹاپے میں دن بہ دن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اس کی بڑی وجہ ماہرین کی جانب سے انسانی زندگیوں میں دیسی، صاف، سادہ غذاؤں کا استعمال کم اور مارکیٹ سے تیار مرغن، تلی ہوئی غذاؤں اور فاسٹ فوڈ کا استعمال کا بڑھ جانا اور غیر متحرک زندگی کو قرار دیا جاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر غذائیت حنا انیس نے پڑھتے پیٹ کی چربی کم کرنے کے طریقے اور احتیاطی تدابیر سے ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ چربی صرف آپ کے پیٹ پر ہی نہیں اندرونی اعضاء پر بھی چڑھ جاتی ہے جو بہت خطرناک بات ہے اس نوعیت میں دیگر بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں، اس قسم کی چربی صرف موٹے افراد ہی نہیں بلکہ بظاہر دبلے پتلے نظر آنے والے افراد میں بھی موجود ہو سکتی ہے۔۔

    حنا انیس نے بتایا کہ پروٹین ہماری غذا کا اہم جزو ہے اور اس کے بہت سے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ آسانی سے جان نہ چھوڑنے والی چربی کو کم کرتی ہے۔ پروٹین سے ہمیشہ پیٹ بھرنے کا احساس ہوتا ہے اور باربار کھانا نہیں کھانا پڑتا۔ اس کے لیے آپ دہی، انڈہ، پنیر اور سفید گوشت (مرغی اور مچھلی) استعمال کرسکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ باجرے کی روٹی مکئی کا آٹا یا ڈائیٹ آٹے کی روٹی اضافی چربی کے خاتمے کیلئے بہت مفید ہے اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں۔

  • فوڈ پوائزنگ کے مریض کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟

    فوڈ پوائزنگ کے مریض کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں اوسطاً 16 لاکھ افراد ہر سال فوڈ پوائزننگ کا شکار ہوجاتے ہیں یا آلودہ کھانا کھانے کے بعد بیمار ہوجاتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں اوسطاً یومیہ 340بچے آلودہ کھانا کھانے سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    جان لیوا فوڈ پوائزنگ کی کیا علامات ہیں اور متاثرہ شخص کو اس سے بچاؤ کیلئے کونسی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس کا علاج کیسے کرنا چاہیے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض معدہ و جگر ڈاکٹر حسان لیاقت میمن نے ناظرین کو فوڈ پوائزنگ سے بچنے کیلیے مفید مشورے دیئے۔

    فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے آپ کو الٹی، ڈائریا اور پیٹ میں شدید درد ہوسکتا ہے۔ اس کی علامات عام طور پر چند دنوں میں ختم ہوجاتی ہیں لیکن کچھ خطرناک حالات میں فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے آپ کی صحت پر بہت برا اثر پڑسکتا ہے، خاص طور پر حاملہ خواتین، بوڑھے افراد اور چھوٹے بچوں کو مشکلات پیش آسکتی ہیں

    انہوں نے بتایا کہ فوڈ پوائزننگ ایک ایسی عام حالت ہے جو تقریباً ہر گھر میں کسی نہ کسی کو ہو چکی ہوگی، اس کا علاج تو آسان ہے لیکن چند مخصوص حالات میں اس میں کچھ پیچیدگیاں شامل ہوسکتی ہیں۔

    ڈاکٹر حسان لیاقت نے بتایا کہ صاف ستھرا رہنے سے بھی انسان بہت سی بیماریوں سے بچ سکتا ہے۔ اپنے ہاتھ، کھانے کے برتن وغیرہ اچھی طرح بار بار دھوئیں، اس کے علاوہ سبزیاں اور بھل کھانے سے پہلے پانی سے اچھی طرح دھولیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ گھریلو خواتین اس بات کو یقینی بنائیں کہ پکے ہوئے کھانے کو دو گھنٹے کے اندر اندر فریج یا فریزر میں لازمی رکھ دیں، عام طور پر جب کھانا زیادہ دیر تک باہر پڑا رہتا ہے تو کھانے کے قابل نہیں رہتا اس میں لاکھوں بیکٹیریاز پیدا ہوجاتے ہیں جس سے فوڈ پوائزننگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ڈاکٹر حسان لیاقت میمن نے بتایا کہ فوڈ پوائزنگ کے مریض کو چاہیے کہ مکمل بیڈ ریسٹ کرے اور جسم میں ہونے والی توانائی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے او آر ایس کا پانی لازمی استعمال کرے اور دو دن کے بعد اگر طبیعت میں بہتری نہ آرہی ہو تو ڈاکٹر رجوع کریں۔

  • کتا کاٹ لے تو پلٹ کر اسے کاٹنا نہیں، ویکسین لگوانا چاہیے

    کتا کاٹ لے تو پلٹ کر اسے کاٹنا نہیں، ویکسین لگوانا چاہیے

    دو روز قبل شکار پور کا ایک بچہ لاڑکانہ میں مبینہ طور پر کتے کے کاٹنے ( اینٹی ریبیز) ویکسین نہ ملنے کے سبب جاں بحق ہوگیا، سگ گزیدگی کے واقعات پاکستان میں عام ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف سندھ میں ہر سال 1500 لوگ مختلف جانوروں کے کاٹنے سے ریبیز کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    حالیہ واقعے میں سندھ حکومت کا موقف ہے کہ بچے کو کئی دن قبل کتے نے کاٹا تھا ، گھر والے گھر میں ہی مختلف طریقوں سے علاج کرتے رہے جس سے وہ صحت یاب نہیں ہوا، اور جب اسے اسپتال لایا تو اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے ویکسین دی جاسکتی۔

    اس مخصوص واقعے میں کیا ہوا اور اصل غفلت کس کی ہے ، اس کا تعین تو تحقیقاتی کمیٹیاں کریں گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو معلوم ہونا چاہیے کہ کتے کے کاٹنے کی صورت میں کیا کام فوری طور پر کرنے چاہیے ، یہ بنیادی معلومات کسی انسانی جان کے بچاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔

    یاد رکھیں کہ ہر کتے کے کاٹنے سے ریبیز نہیں ہوتا لیکن کتے کے کاٹنے کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ، یہ ایک سنگین واقعہ ہے اور اس میں ذرا سی غفلت جان سے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔

    کتے کے کاٹنے کے بعد فوری اختیار کی جانے والی تدابیر

    اگر کسی شخص کو کتا کاٹ لے تو چاہیے کہ فوری طور پر زخم کا معائنہ کیا جائے کہ آیا صرف جلد پر خراشیں ہیں یا کتے کے دانتوں نے گوشت کو پھاڑ دیا ہے۔ معمولی خراشیں ہوں تو ان کا علاج گھر میں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کتا دانت گاڑنے میں کامیاب ہوگیا ہے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔

    زخم کو دھونا کیوں ضروری ہے؟

    جس جگہ کتے کے کاٹنے کا زخم ہو، اس متاثرہ حصے کو بہت زیادہ صابن اور نیم گرم پانی سے کئی منٹ تک دھوئیں، اس عمل سے زخم میں موجود کتے کے منہ سے منتقل ہونے والے جراثیموں کو صاف کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے لیے کوئی بھی صابن استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم اگر جراثیم کش صابن موجود ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

    خون روکیں

    زخم کسی جانور کے کاٹے کا ہو یا کوئی اور ہر دو صورت میں زخم سے خون کا بہاؤ روکنا بے حد ضروری ہے ، بصورت دیگر زیادہ خون بہہ جانے سے بھی بعض اوقات جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ خون روکنے کے لیے زخم کو کسی صاف تولیے یا کپڑے سے دبائیں اور کچھ دیر دبائے رکھیں۔ خون کا بہاؤ رک جانے کے بعد اینٹی بایوٹک مرہم لگا کر بینڈیج کریں۔

    اگر خون کا بہاؤ نہیں رک رہا تو ایسی صورت میں کتے کے کاٹنے سے متاثرہ شخص کو فوری طبی امداد کی ضروری ہے ، جس کے لیے قریبی صحت مرکز یا اسپتال سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

    زخم کا باقاعدگی سے معائنہ

    ابتدائی طبی امداد اور ویکسینیشن کے بعد زخم بھرنے کے دورانیے میں انفیکشن کی دیگر علامات پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہے، اگر زخم میں انفیکشن کا امکان نظر آئے تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں، عام طور پر انفیکشن کی علامات کچھ ایسی ہوسکتی ہیں؛ درد بڑھ جانا سوجن، زخم کے ارگرد سرخی یا گرمائش کا احساس، بخار اور پیپ جیسا مواد خارج ہونا۔

    ریبیز کیا ہے؟

    ریبیز ایک وائرس ہے جو کہ پالتو اور جنگلی جانوروں بالخصوص کتوں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہو کر سنٹرل نروس سسٹم کو تباہ کر دیتاہے اگر بروقت علاج نہ کروایا جائے تو دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت ہو جاتی ہے۔ کتے کے علاوہ یہ بندر ، بلی ، گیدڑ، لومڑی اور چمگادڑ کے کاٹنے سے بھی انسان کے جسم منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ منتقل ہونے والا مرض ہے اور ریبیز کے متاثرہ مریض سے تعامل کی صورت میں یہ دوسرے انسان کو بھی منتقل ہوسکتا ہے۔

    علامات

    اس بیماری ابتدائی علامات میں بخار اورجانور کے کاٹنے سے متاثرہ مقام پر سنسناہٹ شامل ہو سکتی ہے اور ان علامات کے بعد پرتشدد سرگرمی، بے قابو اشتعال، پانی کا خوف، جسم کے اعضاء کو ہلانے کی ناقابلیت، ذہنی انتشار اور ہوش کھونا جیسی کوئی ایک یا کئی علامات ہو تی ہیں۔

    علامات ظاہر ہونے کے بعد، ریبیز کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے ۔مرض کی منتقلی اور علامات کے آغاز کے درمیان کی مدت عام طور پر ایک سے تین ماہ ہوتی ہے۔ تاہم، یہ وقت کی مدت ایک ہفتے سے کم سے لے کر ایک سال سے زیادہ تک میں بدل سکتی ہے۔

    اینٹی ریبیز ویکسین

    کتے کے کاٹنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو اینٹی ریبیز ویکسین دینا بے حد ضروری ہے ، یہ صرف اسی صورت میں نہیں دی جاتی جب متاثرہ شخص کو حتمی طور پر معلوم ہو کہ جس کتے نے اسے کاٹا ہے ، اس کی ویکسینیشن ہوچکی ہے اور بالخصوص اسے اینٹی ریبیز ویکسین لگائی گئی ہے ، پاکستان جیسے ممالک میں جہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہے وہاں مریض کو اینٹی ریبیز ویکسین نہ لگانے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔

    ویکسین کا پہلا شاٹ جانور کے کاٹنے کے بعد جس قدر جلد ممکن ہو مریض کو لگ جانا چاہیے ، جتنی زیادہ تاخیر کی جائے گی اتنا زیادہ مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ویکسین کی مقدار اور شاٹس کی تعداد کا تعین ڈاکٹر مریض کی جنس ، عمر اوراس کے جسمانی خدو خال جیسا کہ قد اور وزن کو دیکھتے ہوئے طے کرتا ہے ، لہذا ویکسین کسی مستند ادارے سے ہی لگوانی چاہیے۔


    یاد رہے کہ ریبیز کی ویکسین مرض کی علامت ظاہر ہونے سے پہلے لگوانا ہوتی ہیں ، یہ وائرس دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے ، ایک بار اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے تو پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہوں نے علامات ظاہر ہونے کے بعد ویکسین لی اور وہ بچ گئے۔

    اگر مریض کو گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں ٹیٹنس کا انجکشن نہیں لگا ہے اورزخم کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں انفیکشن کا امکان ہوسکتا ہے تو ضروری ہے کہ اینٹی ریبیز ویکسین کے ساتھ مریض کو ٹیٹنس کا انجکشن بھی دیا جائے۔

    اس معاملے میں سب سے زیادہ ضرورت آگاہی کی ہے ، اکثر لوگ غربت یا اپنی ذمہ داریوں میں مشغول ہوکر متاثرہ شخص کو ویکسین لگوانے میں تاخیر کردیتے ہیں، ایک شخص جس کی جان بچائی جاسکتی ہے وہ محض اس لیے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے کہ اس کے لواحقین نے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

    دوسری جانب سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں کو بھی چاہیے کہ جب کوئی سگ گزیدگی سے متاثرہ مریض ان کے پاس آئے تو بے شک اس کا زخم چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، کتے کے کاٹنے کے بعد علاج کا جو مروجہ پراسس ہے ا سے پورا کریں اور مریض کے لواحقین کو مکمل آگاہی فراہم کریں کہ یہ معاملہ کس قدر سنجیدہ ہے اور انہیں اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرنا ہے۔

    یاد رکھیں! اینٹی ریبیز کی بروقت ویکسین ایک قیمتی انسانی جان بچا سکتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر شخص اپنے حصے کی ذمہ داری بروقت ادا کرے۔