Tag: Treen Group

  • بڑی پیش رفت: حکومت جہانگیر ترین گروپ سے رابطے میں کامیاب

    بڑی پیش رفت: حکومت جہانگیر ترین گروپ سے رابطے میں کامیاب

    اسلام آباد: اسلام آباد میں سیاسی ہلچل جاری ہے، ایسے میں حکومت اپنے ناراض گروپ سے رابطے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

    ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کا جہانگیر ترین گروپ کے اہم رہنما عون چوہدری سے رابطہ ہوگیا ہے، ٹیلی فونک رابطے میں پرویز خٹک نے ارکان کی ناراضی کے معاملات پر بات چیت کی ہے۔

    جہانگیر ترین گروپ کے رہنما عون چوہدری نے حکومت سے رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رات گئے پرویز خٹک سے رابطہ ہوا، انہوں نے بتایا کہ
    پرویز خٹک نےترین گروپ سےفوری طور پر انتہائی قدم نہ اٹھانے کی درخواست کی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک نے عون چوہدری سے کہا کہ اہم فیصلے روک لیں،جلد اہم ہیش رفت سے آگاہ کریں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:جہانگیر ترین گروپ کو منانے کی حکومتی کوششیں موثر ثابت نہ ہوسکیں

    بعد ازاں عون چوہدری سے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز یہ خبریں زیر گردش تھیں کہ جہانگیر ترین گروپ کو منانے کی حکومتی کوششیں موثر ثابت نہ ہوسکیں، جس کے بعد ترین گروپ نے آئندہ کسی حکومتی شخصیات سے ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    ذرائع نے بتایا کہ چند روز قبل گورنر سندھ عمران اسماعیل نے جہانگیر ترین کو منانے کے لیے فون کیا تھا تاہم فون پر رابطے کی کوشش بھی کارآمد نہ ہوسکی تھی۔

    دوسری جانب تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر پی ٹی آئی کے ناراض رہنما علیم خان کی سیاسی ملاقاتیں جاری ہے ، ذرائع نے بتایا کہ علیم خان گروپ بھی سیاسی صورتحال میں انتظار کرو کی پالیسی پرگامزن ہے‌۔

    ذرائع کے مطابق علیم خان نے اپنا پیغام وفاقی وزرا اور اعلیٰ قیادت کو پہنچا دیا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سےپرویز الٰہی بطوروزیراعلیٰ قبول نہیں، پرویزالٰہی وزیراعلیٰ بنےتو علیم خان سمیت ان کے راستےمیں کافی رکاوٹیں ہوں گی۔

    یاد رہے لندن واپسی پر وفاقی وزرا فواد چوہدری، پرویزخٹک اورعامر کیانی نے علیم خان سے رابطہ کیا تھا ، جس میں وفاقی وزرا نے علیم خان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

  • ‘عثمان بزدار قبول نہیں’، جہانگیر ترین گروپ کا پرویز الہیٰ کو جواب

    ‘عثمان بزدار قبول نہیں’، جہانگیر ترین گروپ کا پرویز الہیٰ کو جواب

    لاہور: جہانگیرترین گروپ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی سے ملاقات میں اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک اعتماد جمع ہونے کے بعد پنجاب میں بھی بزدار کی تبدیلی کی بازگشت میں تیزی آگئی ہے۔

    پی ٹی آئی کے تین ناراض گروپ سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ عثمان بزدار نے بھی سیاسی حکمت عملی کے تحت اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں کرنا شروع کردیں ہیں۔

    اسی تناظر میں آج جہانگیر ترین گروپ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سے ان کی خواہش پر ملاقات کی ، ملاقات کرنے والوں میں نعمان لنگڑیال، عون چوہدری ،لالہ طاہر رندھاوا، عبد الحئی دستی ،اجمل چیمہ اور دیگر شامل تھے۔

    ملاقات میں چوہدری پرویزالٰہی نے جہانگیر ترین کی خیریت دریافت کی اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا, ملاقات میں ترین گروپ نے پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹری میں جمع ہونے پر استفسار کیا، جس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ ابھی عدم اعتماد کی تحریک پنجاب اسمبلی میں جمع نہیں ہوئی۔

    ملاقات میں جہانگیر ترین گروپ کے وفد نے پرویز الٰہی کو مائنس ون ایجنڈے پر آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گروپ کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ ہمیں عثمان بزدار قبول نہیں،  پنجاب تباہ ہو چکا ہے عوام کے مفاد کے لئے سامنے آنا ہوگا، ہم عثمان بزدار کو ہٹانے نکلے ہیں ہمارا ساتھ دیا جائے کیونکہ عثمان بزدار نے تحریک انصاف کے مخلص ساتھیوں کو مایوس کیا۔

    اس موقع پر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ تمام تر صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کرکے ہی تمام فیصلے کریں گے۔

    یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ ق تحریک عدم اعتماد پر کس کا ساتھ دے گی ؟ حکومت یا اپوزیشن، واضح ہوگیا

    ملاقات میں صوبے اور عوام کی بہتری کیلئےترین گروپ اور پرویزالٰہی نے رابطےجاری رکھنےپر اتفاق کیا، یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ترین گروپ کے رہنما جلد چوہدری شجاعت حسین سے بھی ملاقات کریں گے۔

    اس سے قبل آج پنجاب کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی ہوئی تھی جہاں حکمران جماعت کی اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) نے بھی حکومت کےاتحادی کے طور پر نظرثانی کا اشارہ دے دیا تھا۔

    گزشتہ روز تین وفاقی وزرا سے مونس الہیٰ اور طارق بشیرچیمہ کی دوسری ملاقات ہوئی، جس میں رہنماؤں نے واضح کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے اپنے ہی پندرہ سے بیس ارکان فلورکراسنگ کرکے اپوزیشن کے ساتھ ہوگئے تو پھر ہمارے لیے مشکل ہوگا کہ ہم مزید حکومت کا ساتھ دیں ، ہم مجبور ہوں گے کہ اپوزیشن کے ساتھ ہوجائیں۔