Tag: TREES

  • پہاڑی درختوں کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف

    پہاڑی درختوں کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف

    امریکا میں پہاڑی سلسلے کے جنگلات اور درختوں پر نئی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ خشک سالی میں درخت ندی نالوں کا پانی چرانے لگتے ہیں۔

    جستجو کسی تحقیق کا محرک ہوتی ہے اور ہر کسی بھی معاملے پر ہونے والی تحقیق علم کا ایک در وا کرتی ہے، موجودہ دور میں سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے اور تحقیق کی دنیا اتنی وسیع ہوچکی ہے کہ آئے دن نئی تحقیقی انکشافات لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔

    امریکا میں بلیورج ماؤنٹین کے پہاڑی سلسلے پر لگے جنگلات اور درختوں پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پہاڑی علاقے میں خشک موسم زیادہ دیر برقرار رہے تو پیاسے درخت اطراف کے ندی نالوں کا پانی چُرانے لگتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ درخت جتنی بلندی پر ہوں گے وہ خشک سالی کے دور میں اتنا ہی زیادہ پانی استعمال کریں گے۔

    اسی اسٹڈی کی بنیاد پر امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ارضی تجزیاتی مرکز سے وابستہ طالبہ کیٹی مک کوئلن نے بھی پہاڑی سلسلے کے جنگلات اور درختوں پر تحقیق کی ہے جس کے نتیجے میں حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا ہے۔

    اس حوالے سے گریٹ اسموکی ماؤنٹین پارک پر تحقیق کی گئی ہے جو اوک رج پہاڑی سلسلے کا ہی حصہ ہے۔ 1984 سے 2020 تک سیٹلائٹ تصاویر اور ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا ہے جوتھرمل انفراریڈ پر مبنی تھیں، اس تحقیق کیلیے 15000 مربع میل جنگلات کا ڈیٹا پڑھا گیا تھا جو کئی امریکی ریاستوں پر محیط ہے۔

    پڈیٹا کے مطابق جب جب خشک سالی آئی درختوں نے پانی زیادہ استعمال کیا اور یوں پانی کا بہاؤ شدید متاثر ہوا کیونکہ یہ پانی ہزاروں لاکھوں درختوں سے گزرتا ہے اور ہر درخت اس میں سے اپنا حصہ حاصل کرتا ہے۔

    ماہرین نے کہا ہے کہ اس کیفیت کو سمجھ کر ہم پہاڑی جنگلات کے دامن میں موجود آبادیوں، جانداروں اور کھیتوں میں پانی پہنچنے یا اس کی قلت کی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ یہ پیشگوئی بالخصوص خشک سالی کے دوران بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

  • انسانوں جیسا ردعمل دینے والے حیرت انگیز درخت

    انسانوں جیسا ردعمل دینے والے حیرت انگیز درخت

    نئی دہلی: فطرت کے مظاہر عجیب تر ہیں جو انسانوں کو حیران کردیتے ہیں، بھارت میں ایک درخت بھی عجوبہ ہے جو انسانوں جیسی حرکات کرتا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست اترا کھنڈ میں واقع جنگل میں ایک ایسا درخت موجود ہے جو انسانوں جیسا ردعمل دیتا ہے، اس درخت کو چھونے پر اسے گدگدی ہوتی ہے۔

    اترا کھنڈ کے ضلع نینی تال میں واقع کالا ڈھونگی جنگل میں ایسے پیڑوں کی تعداد 2 ہے جبکہ رام نگر کے کیاری جنگل میں بھی ایسا ہی ایک درخت موجود ہے۔

    ان درختوں کے تنوں کو چھوا جائے تو ان کی شاخیں حرکت کرنے لگتی ہیں، مقامی افراد انہیں کانپنے والے درخت اور ہنسنے والے درخت بھی کہتے ہیں۔

    ماہرین ان درختوں پر تحقیق کر رہے ہیں کہ ان کے تنے اور شاخ ایسا ردعمل کس وجہ سے دیتے ہیں۔

  • ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ

    ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ

    افریقی ملک ایتھوپیا نے ایک دن میں 35 کروڑ پودے لگا کر سب سے زیادہ پودے لگانے کا عالمی ریکارڈ قائم کرلیا، اس سے قبل ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے کا ریکارڈ بھارت کے پاس تھا۔

    ایتھوپیا نے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے تاریخ ساز قدم اٹھاتے ہوئے صرف 12 گھنٹوں میں 35 کروڑ پودے لگائے ہیں۔ اس شجر کاری مہم کا افتتاح ایتھوپین وزیر اعظم ابی احمد نے کیا۔

    ایک دن میں سب سے زیادہ پودے لگانے کا ریکارڈ اس سے قبل بھارت کے پاس تھا جس نے سنہ 2017 میں ایک دن میں ساڑھے 6 کروڑ پودے لگائے تھے۔

     

    ایتھوپیا رواں برس اکتوبر تک 4 ارب پودے لگانے کا عزم رکھتا ہے تاکہ ملک میں سبزے میں اضافہ کیا جاسکا اور کلائمٹ چینج کے نقصانات میں کمی کی جاسکے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق 19 ویں صدی کے آخر تک ایتھوپیا میں جنگلات کے رقبے میں 30 فیصد کمی دیکھنے میں آئی، ملک میں موجود جنگلات کو بڑے پیمانے پر کاٹا گیا تاکہ جلانے کے لیے لکڑی اور زراعت کے لیے زمین حاصل کی جاسکے۔

    اس وقت ایتھوپیا کے 4 فیصد سے بھی کم رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق جنگلات میں کمی کے باعث ایتھوپیا سمیت دیگر افریقی ممالک میں خشک سالی اور قحط کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

  • یہ ’درخت مصطفیٰ کمال‘ کون سے ہیں؟

    یہ ’درخت مصطفیٰ کمال‘ کون سے ہیں؟

    دنیا بھر میں بڑے اور کامیاب لوگوں کے نام پر مختلف سائنسی ایجادات و دریافتوں کا نام رکھنا کوئی نئی بات نہیں، سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کے نام پر بھی ایک درخت کا نام رکھ دیا گیا۔

    یہ واقعہ دراصل گزشتہ روز سامنے آیا جب صوبہ بلوچستان کے ضلع واشک میں ڈپٹی کمشنر کا جاری کردہ حکم نامہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔

    واشک کے ڈپٹی کمشنر نے حکم جاری کیا کہ ضلع بھر میں سفیدے کا درخت یعنی یوکپلٹس اور ’درخت مصطفیٰ کمال‘ یعنی کونو کارپس لگانے پر پابندی عائد کی جارہی ہے لہٰذا اس ضمن میں ان دونوں درختوں کی شجر کاری سے پرہیز کیا جائے۔

    خیال رہے کہ کسی علاقے میں کسی مخصوص قسم کے درخت لگانے پر اس وقت پابندی عائد کی جاتی ہے جب وہ درخت اس علاقے کے لیے موزوں نہ ہوں اور وہاں کے ماحول، جانور و پرندوں اور مقامی آبادی کے لیے نقصان پیدا کرنے کا سبب بنے۔

    کونو کارپس کے درختوں کا نام اس وقت سامنے آیا تھا جب سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے شہر کو سرسبز کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر شجر کاری کروائی تاہم مقامی انتظامیہ کی نااہلی کہ شہر کی آب و ہوا اور درختوں کی مطابقت کا خیال کیے بغیر پورے شہر کو کونو کارپس کے درختوں سے بھر دیا گیا۔

    کونو کارپس درختوں کی مقامی قسم نہیں ہے جس کے باعث یہ کراچی کے لیے مناسب نہیں۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ان درختوں کے باعث پولن الرجی فروغ پانے لگی۔

    یہ درخت دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درخت زیر زمین اپنی جڑیں نہایت مضبوط کر لیتے ہیں جس کے باعث یہ شہر کے انفرا اسٹرکچر کو متاثر کر رہے ہیں۔ زیر زمین موجود پانی کی پائپ لائنیں ان کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں ہیں؟

    ان درختوں کی تباہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ درخت نا موزوں ہیں جس کی وجہ سے ضلع واشک میں بھی اسے لگانے پر پابندی عائد کردی گئی۔

    قطع نظر اس سے کہ ان درختوں کو لگاتے ہوئے سابق میئر کراچی کی کم علمی آڑے آئی یا جانتے بوجھتے اس کے نقصانات سے صرف نظر کیا گیا، کونو کارپس کو مصطفیٰ کمال کا دیا ہوا تحفہ کہا جاتا ہے جو کراچی والوں کے لیے کسی زحمت سے کم نہیں۔

  • نئی دہلی میں درختوں کی کٹائی کے خلاف مہم کا آغاز

    نئی دہلی میں درختوں کی کٹائی کے خلاف مہم کا آغاز

    نئی دہلی : بھارت میں سماجی کارکنوں نے درختوں کی کٹائی کے خلاف مہم کا آغاز کرتے ہوئے درختوں کے گرد بینرز اور پوسٹرز آویزاں کردیئے ہیں جن پر ’مجھے بچاؤ‘ کے الفاظ تحریر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں درختوں کے تحفظ کے سلسلے میں ’درختوں کو بچاؤ‘ نامی مہم کا آغاز کردیا گیا۔ تحفظِ ماحول کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ دہلی میں تعمیراتی مقاصد کے لیے درختوں کی بے دریغ کٹائی کی جارہی ہے۔

    بھارتی میڈیا ذرائع کا کہنا تھا کہ دہلی میں ماحولیات کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں خدمات انجام دینے والے سماجی کارکنوں نے شہر میں درختوں کی کٹائی کے خلاف مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سرکاری فلٹیس تعمیر کرنے کے لیے 16 ہزار 5 سو درختوں کو کاٹ رہی ہے۔

    میڈیا کا کہنا تھا کہ سماجی امور انجام دینے والے کارکنوں نے درختوں کی حفاظت کے لیے درختوں کے گرد بینرز اور پوسٹر آویزاں کردیئے ہیں جن پر ’مجھے بچاؤ‘ کے الفاظ تحریر ہیں۔

    خیال رہے کہ دہلی کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، تاہم بھارت میں ہونے والی حالیہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دہلی کی موسمی صورتحال بھی خراب ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔

    واضح رہے کہ بھارت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی حکام بھی ترقیاتی منصوبوں اور رہائشی آبادیوں کی تعمیر کے سلسلے میں درختوں اور جنگلوں کی کٹائی کثرت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    پاکستان میں درختوں کی کٹائی کے خلاف ملک کے کئی بڑے شہروں میں درختوں کی بے رحمانہ کٹائی کے خلاف مظاہرے بھی ہوچکے ہیں۔

    بھارتی میڈیا ذرائع کے مطابق دہلی کے رہائیشوں کی ایک بڑی مشکل شہر کی فضائی آلودگی ہے، جس نے عوام کو شدید بے چینی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

    تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نئی دہلی کی فضائی آلودگی شہر میں زہریلی ہوا کے پیدا ہونے کا سبب بنتی ہے، جس سے ہر سال 10 ہزار سے 30 ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بنتے ہیں، جبکہ 44 لاکھ بچوں میں تقریباً نصف بچوں کے پھیپھڑے زہریلی ہوا کے باعث ہمیشہ کے لیے خراب ہوچکے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کسی شہر میں جنگلات کی موجودگی اس شہر کی خوشحالی، خوبصورتی اور باشندوں کی صحت و تندرستی میں اضافہ کرسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ملکہ برطانیہ درختوں کی شوقین نکلیں

    ملکہ برطانیہ درختوں کی شوقین نکلیں

    لندن: برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم یوں تو بے شمار نجی و سرکاری سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں تاہم انہیں درختوں کا بھی بے حد شوق ہے اور شجر کاری کے لیے بھی وہ کسی نہ کسی طرح وقت نکال ہی لیتی ہیں۔

    حال ہی میں ملکہ برطانیہ کے بارے میں پیش کی جانے والی ایک دستاویزی فلم میں ملکہ کے اس شوق کا انکشاف ہوا۔

    اس فلم میں جس کا نام ’دا کوئنز گرین پلینٹ‘ ہے، ملکہ کی جانب سے شروع کیے گئے اس منصوبے کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں جنگلات کے تحفظ پر کام کیا جارہا ہے۔

    مذکورہ پروجیکٹ کا نام ’دا کوئنز کامن ویلتھ کنوپی‘ ہے۔

    فلم کے مطابق ملکہ نے دنیا بھر میں جس جس ملک کا دورہ کیا، وہاں انہوں نے شجر کاری ضرور کی۔

    فرانس میں ہونے والے کینز فلم فیسٹیول میں فلم کی نمائش کے موقع پر ہدایت کار نے بتایا کہ ملکہ کو یہ شوق اپنے اجداد سے ورثے میں ملا ہے۔

    ان کے مطابق شاہی محل بکھنگم پیلیس کے باغ میں ملکہ وکٹوریہ کے ہاتھ سے لگائے گئے درخت بھی موجود ہیں اور ملکہ الزبتھ کی ہدایت پر ان کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔

    دستاویزی فلم میں وہ مناظر بھی موجود ہیں جب ملکہ ایک ماہر نباتات سر ڈیوڈ اٹنرگ کے ساتھ شاہی محل کے باغ کا دورہ کر رہی ہیں۔ سر ڈیوڈ طویل عرصے سے ملکہ کے اس شوق میں ان کا ساتھ دیتے آرہے ہیں۔ دونوں ہم عمر ہیں اور ان کے درمیان کافی گہرا تعلق موجود ہے۔

    فلم کے مطابق پودوں اور درختوں کا شوق نہ صرف خود ملکہ بلکہ ان کے پورے خاندان میں ہے۔ ان کے صاحبزادے اور تخت کے ولی عہد شہزادہ چارلس بھی درختوں کا شوق رکھتے ہیں۔

    فلم میں سر ڈیوڈ سے گفتگو کرتے ہوئے ملکہ کہتی ہیں کہ ان کے باغ میں موجود زیادہ تر درخت انہیں تحفتاً موصول ہوئے ہیں۔ ’تحفے دینے کے حوالے سے میں ایک مشکل شخصیت سمجھی جاتی ہوں، چنانچہ جب لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ مجھے کیا تحفہ دیں تو وہ مجھے ایک پودا تحفے میں دے دیتے ہیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بھارت کی 105 سالہ درختوں کی ماں

    بھارت کی 105 سالہ درختوں کی ماں

    اولاد نہ ہونا کسی شادی شدہ جوڑے کے لیے بہت بڑی محرومی بن سکتا ہے تاہم بھارت میں ایسے ہی ایک محروم جوڑے نے اپنی محرومی کا نہایت انوکھا اور فائدہ مند متبادل ڈھونڈ نکالا۔

    بھارتی ریاست کرناٹک کا رہائشی یہ جوڑا جب 25 سال تک اولاد سے محروم رہا تو انہوں نے درخت اگانے شروع کردیے۔ وہ ان درختوں کی بالکل اپنے بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں۔

    اس جوڑے کے اگائے ہوئے درختوں کی تعداد 300 ہوچکی ہے جو افزائش پا کر اب سایہ اور پھل فراہم کر رہے ہیں۔

    ان درختوں نے کرناٹک کے اس گاؤں کو نہایت ہرا بھر اور سر سبز بنا دیا ہے جہاں یہ جوڑا رہائش پذیر ہے۔

    درختوں کو اگانے والی تھماکا جن کی عمر 105 سال ہے، ان درختوں کی ماں کہلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ ہماری قسمت ہے کہ ہمیں اولاد نہ ہوسکی۔ لیکن ان کی جگہ ہم نے درخت اگائے اور بالکل اپنے بچوں کی طرح ان کی دیکھ بھال کی اور انہیں بڑا کیا‘۔

    زمین کو سرسبز بنانے کی اس بے مثال کوشش کے اعتراف میں اس جوڑے کو اب تک کئی قومی اعزازات سے نواز جا چکا ہے ہے۔ یہی نہیں بالکل ناخواندہ ہونے کے باوجود اب ان دونوں کا نام بھارت کے تعلیمی نصاب میں بھی شامل ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چترال میں واپڈا نے ہزاروں درخت کاٹ دیے

    چترال میں واپڈا نے ہزاروں درخت کاٹ دیے

    چترال: ملک کے خوبصورت ترین علاقے میں واپڈا نے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے جنگلا ت اور زرعی زمین کا بے دریغ صفایا کردیا‘ ہزاروں کی تعداد میں قد آور پھل دار درخت کاٹ ڈالے ‘ متاثرین نے نقصان کے ازالے کے لیے معاوضے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گولین گول پن بجلی گھر سے مین ٹرانسمیشن لائن لے جانے کے لیے واپڈا کا ٹھیکیدارچترال کے مختلف علاقوں میں جنگلات کی کٹائی میں مصروف ہے۔ بروز کے بعد بیر بولک کے مقام پر ہزاروں درخت کاٹے جارہے ہیں اور متاثرین کے بارہا احتجاج کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک تین ہزار درخت کاٹے جاچکے ہیں جبکہ مزید دو ہزار درخت کٹنا باقی ہیں۔

    متاثرین کا کہنا ہے کہ واپڈا کے ٹھیکیدار صرف پیسہ بچانے کے لیے بنجر زمین اور پہاڑی علاقے چھوڑ کر ہمارے زرعی زمین اور جنگلات میں سے بجلی کی ٹرانسمینش لائن گزاررہے ہیں‘ جس کے لیے اب تک ہزاروں تناور درخت کاٹے جاچکے ہیں۔ ان درختوں میں نہایت نایاب قسم کے درخت جسے شاہ بلوط کہتے ہیں وہ بھی شامل ہیں جن کی افزائش نہایت سست رفتاری سے ہوتی ہے اور اس کی عمر دس ہزار سال تک بڑھ جاتی ہے۔ ان کے علاوہ قومی درخت دیار، اخروٹ، خوبانی، ناشپاتی، املوک، شاہ توت اور دیگر میوہ دار درختوں کو بھی کاٹا گیا اور ان کو معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔

    اس سلسلے میں انسپکٹر جنرل فارسٹ سید محمود ناصر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان درختوں کی اس طرح بے دریغ کٹائی پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے اسے ماحولیات کے لیے خطرناک بتایا۔

    گولین گول کے پراجیکٹ ڈائریکٹر جاوید آفریدی سے جب اس حوالے سے استفار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم فارسٹ رولز کے مطابق ان درختو ں کی ادائیگی کرتے ہیں اور ڈپٹی کمشنر چترال کے اکاؤنٹ کے ذریعے ان متاثرین میں یہ رقم تقسیم ہوتی ہے ۔

    دوسری جانب متاثرین کا کہنا ہے کہ صرف بجلی کے ٹاور کے نیچے جو زمین آتی ہے اس کی مالیت سے کچھ کم قیمت ادا کی گئی ہے تاہم واپڈاایک ٹاور سے دوسرے ٹاور تک جو بجلی کا تار بچھارہا ہے ان کے نیچے بھی درختوں صفایا کیا جارہا ہے اور ان کی ادائیگی نہیں کی جارہی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف صوبائی حکومت اربو ں کی تعداد میں درخت لگانے کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری طرف واپڈا و الے علاقے کے حسین ترین جنگل کو کاٹ کر تباہ کررہے ہیں جن میں کئی سال پرانے درخت بھی موجود ہیں اور قانون کے مطابق جس درخت کی عمر ستر 70 سال ہوجائے وہ قومی اثاثہ تصور ہوتا ہے۔

    محکمہ جنگلی حیات کے سابق سب ڈویژنل آفیسر عنایت الملک کا کہنا ہے کہ یہ درخت اور جنگل پرندوں کا مسکن تھے جہاں بہت نایاب پرندے رہتے تھے تاہم درختوں کی کٹائی سے ان کی افزائشِ نسل متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

    ان متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان ، وفاقی وزیر پانی و بجلی اور چیئرمین واپڈا سے اپیل کی ہے کہ ان کی زرعی زمین اور جنگل میں ہزاروں کی تعداد میں جو درخت کاٹے گئے ہیں ان کے عوض ان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دیا جائے کیونکہ یہ نہایت پسماندہ لوگ ہیں اور یہ جنگل اور زمین ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا جسے واپڈا نے کاٹ کر ختم کردیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ملک بھر میں اگلے 5 برسوں میں 10 کروڑ درخت لگانے کا فیصلہ

    ملک بھر میں اگلے 5 برسوں میں 10 کروڑ درخت لگانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اگلے 5 سالوں میں ملک بھر میں 10 کروڑ درخت لگائے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹر میر محمد یوسف بدینی کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کا اجلاس منعقد ہوا۔

    اجلاس میں آئی جی جنگلات محمود ناصر نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اگلے 5 برسوں میں ملک بھر میں درختوں کے کنارے 10 کروڑ درخت لگائے جائیں گے جبکہ تیمر (مینگرووز) کے جنگلات میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

    محمود ناصر نے بتایا کہ سنہ 2011 سے 2106 تک چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا میں 7 کروڑ سے زائد درخت لگائے گئے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک درخت کی کوئی خاص تعریف مقرر نہیں تھی، تاہم اب سے ہر 3 میٹر سے اونچا پودا درخت میں شمار کیا جائے گا۔

    کمیٹی کے اجلاس میں ارکان کو گرین کلائمٹ فنڈ کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔

    اس موقع پر سینیٹر محمد علی خان سیف کا کہنا تھا کہ یہ ایک عام بات ہے کہ ماحولیات کی مد میں ملنے والے فنڈز سے پرتعیش گاڑیاں خرید لی جاتی ہیں جس سے فنڈ دینے والوں کی نظر میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔

    کمیٹی نے وزارت کلائمٹ چینج کے حکام کو ہدایت کی کہ اس مد میں ملنے والے تمام فنڈز کو درست جگہ پر استعمال کیا جائے اور انہیں ضائع نہ ہونے دیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی کے عوام گرمی کی شدت خود کم کرسکتے ہیں

    کراچی کے عوام گرمی کی شدت خود کم کرسکتے ہیں

    گزشتہ کچھ دنوں سے کراچی میں قیامت خیز گرمی کی لہرجاری ہے جس سے اب تک 850 کے لگ بھگ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ قیامت کی اس حدت کے جہاں دیگر بہت سے عوامل ہیں وہیں گلوبل وارمنگ بھی ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ موسم کب اپنی حدت کم کرے اوربرسات کب ہوگی یہ تو قدرت پرمنحصر ہے لیکن بتدریج بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت پرقابو پانے کے لئے شہریوں کو بھی کچھ اقدامات کرنے ہوں گے اور یہ انتہائی آسان اقدامات ہیں جن پرعمل پیرا ہوکرہم نا صرف یہ کہ گرمی کی شدت کو کم کرسکتے ہیں بلکہ کراچی سے روٹھے ہوئے مون سون کے موسم کو بھی واپس مناسکتے ہیں۔


    اپنی چھتوں کو سرسبز کیجئے


    گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لئے دنیا کے کئی ممالک میں چھتوں کو سرسبزکیا جارہا ہے اوراس مقصد کےلئے ترقی یافتہ ممالک میں چھتوں پر سبزہ اگایا جاتا ہے۔ سبز رنگ کیوںکہ گرمی کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہےلہذا چھتوں پرسبزرنگ کرکے بھی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیواروں پر ٹھنڈے رنگ کرکے گرمی کی شدت میں کمی ک واقع ہوسکتی ہے۔ عوام اوراداروں کو چاہئیے کہ اپنی چھتوں کو سبز کرکے معاشرے کو گرمی سے بچانے میں اپنا حصہ شامل کریں۔


    گاڑیوں کی مرمت


    گاڑیوں سے نکلتا دھواں نہ صرف یہ کہ حدت میں اضافہ کرتا ہے بلکہ انسانی صحت پربھی اس کے فوری اور خطرناک نتائج مرتب ہوتے ہیں لہذا بحیثیت ذمہ دار شہری ہمیں چاہئیے کہ اگرہماری گاڑیوں میں سے دھواں خارج ہوتا ہے تو فی الفوراس کی مرمت کرالیں تاکہ کم سے کم ہماری گاڑی گرمی کی شدت میں اضافے کا سبب نا بنے۔


    کچرے کا کیا کیا جائے


    ہمارے معاشرے میں حکومت کی جانب سے صفائی کے انتظامات مناسب نہ ہونے کے سبب کچراجلانے کا رحجان بہت زیادہ ہے، کچرا جلنے سے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار بے پناہ بڑھ جاتی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ متاثرہ جگہ پر گرمی میں اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ اطراف میں رہنے والے افراد کی صحت پر بھی شدید نقصانات مرتب ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں چاہئیے کہ اپنی گلیوں میں کچرے کے ڈھیر جمع کرنے کے بجائے اپنے اپنے علاقوں میں کچرے کی مخصوص جگہیں بنائیں اور ضلعی انتظامیہ پر زور دیں کہ وہ ازخود وہاں سے کچرا اٹھوانا یقینی بنائے تاکہ ہم ایک کم گرم اور صاف ستھرے ماحول میں سانس لے سکیں۔


    بجلی کے آلات کا استعمال


    بجلی سے چلنے والے آلات کے استعمال سے بھی بہت زیادہ حدت پیدا ہوتی ہے جو کہ ماحول پراثرانداز ہوتی ہے جیسے ٹی وی، مائیکرو ویو، جنریٹر، کمپیوٹر وغیرہ بے پناہ گرمی پیدا کرتے ہیں لہذا اپنی زندگی میں ان آلات کا استعمال حتی الامکان کم کیجئے تاکہ بجلی جیسی قیمتی سہولت ہو اور وہ بجلی جو ہم ٹی وی پر ڈرامے دیکھنے یا اپنے ہاتھ پیروں کو آرام دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں کسی اسپتال میں مریضوں کے علاج کے میں استعمال ہو اور کوئی شخص گرمی میں لوڈ شیڈنگ کے سبب موت کے منہ میں نا جائے۔


    درخت اگائیے


    درخت ماحول کو صاف رکھنے کی ایک قدرتیی مشین ہے اور اسکی افادیت سے کوئی بھی نابلد نہیں ہے کراچی شہرمیں اس وقت درختوں کی تعداد شہر کے رقبے اورآبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہے۔ شہر میں نوجوانوں کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد ہے اگرآج ان نوجوانوں کی کل تعداد میں سے 5 فیصد بھی کم سے کم ایک درخت لگا کر اسے بڑا کرنے کا اعزم کرلیں تو چند سالوں میں شہر میں لاکھوں نئے درخت لہرارہے ہوں گے اور یہ لاکھوں درخت شہر کے موسم کو ایسے تبدیل کریں گے کہ گرمی کی شدت میں نا صرف کمی آئے گی بلکہ کراچی سے روٹھا مون سون کا موسم بھی لوٹ آئے گا۔

    اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آپ یہ سب کیوں کریں تو یاد رکھئے جن ترقی یافتی مہذب ممالک کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے وہاں شہریوں کے جتنے حقوق ہیں اتنی ہی ذمہ داریاں بھی ہیں ، لگ بھگ 800 افراد اپنی جان سے جاچکے ہیں لہذا اب وقت آگیا ہے کہ سوچنا ترک کرکے عمل شروع کیا جائے۔