Tag: trial

  • جونی ڈیپ اور امبر ہرڈ کے درمیان مقدمے کے مناظر دنیا بھر کے ناظرین دیکھ سکیں گے

    جونی ڈیپ اور امبر ہرڈ کے درمیان مقدمے کے مناظر دنیا بھر کے ناظرین دیکھ سکیں گے

    نیویارک: معروف ہالی وڈ اداکار جونی ڈیپ اور ان کی سابق اہلیہ امبر ہرڈ کے درمیان چلنے والا مقدمہ، جو دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنا رہا، اب فلمی صورت میں پیش کیا جائے گا۔

    برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق معروف ہالی وڈ اداکار جونی ڈیپ اور ان کی سابق اہلیہ امبر ہرڈ کے درمیان امریکی عدالتوں میں چلنے والے گھریلو تشدد اور ایک دوسرے کی عزت خراب کرنے کے مقدمے پر فلم بنا دی گئی۔

    دونوں اداکاروں کے درمیان چلنے والے ٹرائل پر فاکس نیٹ ورک کی اسٹریمنگ ویب سائٹ ٹیوبی اسٹریمنگ سروس کی جانب سے فلم بنائی گئی ہے۔

    ہاٹ ٹیک میں جونی ڈیپ کا کردار مارک ہپکا جب کہ امبر ہرڈ کا کردار میگن ڈیوس ادا کرتی دکھائی دیں گی۔

    فلم کی کہانی گے نکولوشی نے لکھی ہے اور اس کی ہدایات سرا لوہمن نے دی ہیں اور اسے رواں ماہ ستمبر کے اختتام پر اسٹریمنگ ویب سائٹ ’ٹیوبی‘ پر ریلیز کیا جائے گا، جہاں شائقین اسے مفت میں دیکھ سکیں گے۔

    ہاٹ ٹیک کی کہانی امبر ہرڈ اور جونی ڈیپ کے درمیان چلنے والے ٹرائل کے کرد گھومتی ہے، اس میں عدالتوں کی سماعتیں دکھانے کے علاوہ مذکورہ ٹرائل کے دوران اداکاروں کے ساتھ ہونے والے واقعات کو بھی دکھایا جائے گا۔

    ممکنہ طور پر فلم میں پس منظر کے طور پر دونوں کے درمیان تعلقات استوار ہونے، شادی ہونے اور پھر تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد طلاق اور پھر ایک دوسرے پر تضحیک اور تشدد کے الزامات کو بھی دکھایا جائے گا۔

    فلم میں امبر ہرڈ اور جونی ڈیپ کے وکلا کے کرداروں کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ممکنہ طور پر فلم میں امبر ہرڈ کے مبینہ بوائے فرینڈز کو بھی شامل کیا جائے گا، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

    ہاٹ ٹیک کو دونوں کے ٹرائل کے ختم ہونے کے محض تین ماہ بعد ہی ریلیز کیا جا رہا ہے، امبر ہرڈ اور جونی ڈیپ کے ٹرائل کا فیصلہ یکم جون کو سنایا گیا تھا۔

    عدالت نے طویل سماعت کے بعد جونی ڈیپ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اداکار نے اپنے خلاف تمام شواہد پیش کیے اور ثابت کیا کہ امبر ہرڈ نے ان کی توہین اور بدنامی کی۔

    عدالت نے ہتک عزت کے دعوے کے تحت امبر ہرڈ پر ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا، تاہم جونی ڈیپ پر بھی 15 سے 20 لاکھ تک جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

  • فرانس کی سب سے بڑی ڈکیتی کے ملزمان کا ٹرائل شروع

    فرانس کی سب سے بڑی ڈکیتی کے ملزمان کا ٹرائل شروع

    امریکی ماڈل کم کارڈیشین کے گھر ہونے والی لاکھوں یورو مالیت کی چوری کے ملزمان کا ٹرائل شروع کردیا گیا، یہ فرانس میں گزشتہ 20 برسوں میں کسی انفرادی شخص کے گھر پر ہونے والی ڈکیتی کی سب سے بڑی واردات ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرانس کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کی واردات کی سماعت شروع ہوگئی، ذرائع نے بتایا کہ کارڈیشین پیرس میں ہونے والی اس ڈکیتی میں ملوث 12 ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کا حکم دو تفتیشی مجسٹریٹس نے دیا ہے۔

    ذرائع نے انکشاف کیا کہ اکتوبر 2016 میں مشہور ماڈل اور امریکن میڈیا پرسنالٹی کم کارڈیشین کے اپارٹمنٹ سے زیورات اور ہیرے لوٹنے کی واردات میں فرانس میں 12 افراد پر مقدمہ چلایا جائے گا۔

    یاد رہے کہ یہ فرانس میں گزشتہ 20 برسوں میں کسی انفرادی شخص کے گھر پر ہونے والی ڈکیتی کی سب سے بڑی واردات تھی جس میں تقریباً 60 لاکھ یورو (7 ملین ڈالر) کے زیورات ان کے گھر سے لوٹے گئے تھے۔

    یہ واردات اس وقت ہوئی تھی جب کم کارڈیشین پیرس فیشن ویک کے دوران ایک پرتعیش رہائش گاہ پر مقیم تھیں۔

    مشتبہ افراد کو پیرس اور جنوبی فرانس سے 4 ماہ بعد گرفتار کیا گیا، ان میں عمر ایٹ کھڈاشے نامی شخص بھی شامل ہے جسے اولڈ عمر کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس گروہ کا سرغنہ ہے۔

  • کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    پیرس: فرانسیسی دوا ساز کمپنی والنیوا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کرونا کی تمام اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق والنیوا کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے ٹرائل کے جاری اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں 95 فیصد تک کام کرتی ہے۔

    کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ والنیوا ویکسین کرونا کی تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے اسپتال لے جانا پڑا۔

    کمپنی کا دعویٰ ہے کہ والنیوا ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ایسٹرا زینیکا جتنی مؤثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    والنیوا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین کا تیسرا آزمائشی پروگرام ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ برطانیہ میں کرونا کی خطرناک قسم ڈیلٹا عروج پر تھی۔

    کمپنی کے مطابق ویکسین لگوانے والے کسی بھی شخص میں کرونا کی تشخیص نہیں ہوئی جب کہ ان میں اینٹی باڈیز بننے کی گنجائش 95 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔

    کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی ویکسین میں ان ایکٹویٹ کی پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین میں پہلے سے ہی مردہ کرونا وائرس شامل ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کی پیدائش کو ناکام بناتا ہے۔

    کمپنی کے مطابق یہی ٹیکنالوجی پولیو اور فلو ویکسین میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔

    اہم ترین ٹرائل کے حوصلہ افزا نتائج آنے کے بعد کمپنی جلد ہی برطانوی حکومت کو ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت کی درخواست دے گی جب کہ کمپنی یورپین یونین کے ڈرگ ریگولیٹر ادارے کو بھی درخواست دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

    کمپنی کو امید ہے کہ برطانوی حکومت ڈیٹا کی بنیاد پر رواں برس کے اختتام یا پھر 2022 کے آغاز تک ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے گی جب کہ یورپین یونین مارچ 2022 تک ویکسین کے استعمال کی اجازت دے گا۔

  • کرونا کی نئی اقسام کے خلاف نئی ویکسین کا ٹرائل شروع

    کرونا کی نئی اقسام کے خلاف نئی ویکسین کا ٹرائل شروع

    لندن: ایسٹرا زینیکا ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے کرونا کی نئی اقسام کے خلاف نئی کووڈ ویکسینز کا ٹرائل شروع کردیا، ٹرائل میں 2 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایسٹرا زینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے کرونا وائرس کی اقسام کے خلاف تدوین شدہ ویکسین کی آزمائش شروع کردی ہے۔ 27 جون کو اس بوسٹر ویکسین کا ٹرائل شروع کیا گیا جس میں جنوبی افریقہ، برطانیہ، برازیل اور پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 2 ہزار 250 افراد کو شامل کیا جائے گا۔

    یہ بوسٹر ویکسین کرونا کی بیٹا قسم کے خلاف آزمائی جائے گی جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آئی تھی۔

    ٹرائل میں ایسے افراد کو بھی شامل کیا جائے گا جو پہلے ہی ایسٹرازینیکا ویکسین یا ایک ایم آر این اے ویکسین جیسے فائزر کی 2 خوراکوں کو استعمال کرچکے ہیں، جبکہ اب تک ویکسین استعمال نہ کرنے والے لوگوں کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے گا۔

    اس نئی ویکسین کو ابھی اے زی ڈی 2816 کا نام دیا گیا ہے جو اولین ایسٹرازینیکا کووڈ ویکسین پر ہی مبنی ہے مگر اس میں معمولی سی جینیاتی تدوین کی گئی ہے جو بی قسم کے اسپائیک پروٹین پر مبنی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ویکسین گروپ کے چیف انویسٹی گیٹر اینڈریو پولارڈ نے بتایا کہ موجودہ ویکسین کی بوسٹر خوراکوں اور نئی ویریئنٹ ویکسینز کرونا وائرس کی وبا کے خلاف تیار رہنے میں اہم کردار ادا کریں گی، ہوسکتا ہے کہ ان کی ضرورت ہو۔

    برطانیہ میں کووڈ کی روک تھام کے لیے ویکسی نیشن کی شرح بہت اچھی ہے مگر ماہرین ابھی اس سے واقف نہیں کہ لوگوں کو ملنے والا تحفظ کب تک برقرار رہے گا۔

    اس ٹرائل کا ابتدائی ڈیٹا رواں سال ہی کسی وقت جاری کیا جائے گا۔

  • کرونا وائرس کا علاج: ایک اور دوا کے بارے میں ماہرین کا دعویٰ سامنے آگیا

    کرونا وائرس کا علاج: ایک اور دوا کے بارے میں ماہرین کا دعویٰ سامنے آگیا

    ملیریا کی دوا کلورو کوئن کے کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ہونے کے دعوؤں کے بعد، آسٹریلوی ماہرین نے ایک اور دوا کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جوڑوں کے درد کی دوا ہائیڈرو آکسی کلورو کوئن کرونا وائرس کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

    آسٹریلوی شہر میلبرن کے ماہرین طب کا کہنا ہے کہ قوت مدافعت کو متاثر کرنے والی بیماری لیوپس، اور جوڑوں کے درد آرتھرائٹس (گٹھیا) میں استعمال کی جانے والی دوا ہائیڈرو آکسی کلورو کوئن ممکنہ طور پر کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

    ان کے مطابق لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات کے دوران اس دوا نے موذی وائرس کا مکمل خاتمہ کردیا۔

    اب وہ اس کی انسانی آزمائش پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، دوا کی آزمائش 22 سو 50 افراد پر کی جائے گی جن میں ڈاکٹر اور نرسز بھی شامل ہیں۔

    والٹر الیزا ہال انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ڈاؤگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ اس دوا کے نتائج 3 سے 4 ماہ میں سامنے آجائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ دوا اس وائرس کا علاج کر سکتی ہے تاہم یہ بطور ویکسین، یعنی وائرس کے حملہ آور ہونے سے قبل حفاظت کے لیے استعمال نہیں کی جاسکے گی۔

    ڈاکٹر ہلٹن کے مطابق اس دوا کے بہترین اثرات اس وقت سامنے آئیں گے جب مریض اسے روزانہ استعمال کرے گا۔

    خیال رہے کہ ملیریا کی دوا کلورو کوئن کے حوالے سے ایک امریکی سرمایہ کار جیمز ٹوڈرو نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دوا کرونا وائرس کا اہم علاج ثابت ہو رہی ہے تاہم گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کلورو کوئن کے بارے میں ایسا کوئی ثبوت نہیں جو کرونا کے علاج سے متعلق ہو۔

    کلورو کوئن 85 سال پرانی دوا ہے جسے جنگ عظیم دوم کے وقت استعمال کیا گیا تھا، یہ سنکونا درخت کی چھال سے تیار کی جاتی ہے اور نہایت کم قیمت دوا ہے۔

  • ملازمت نہ ملنے پر پی ایچ ڈی اسکالرنے چوریاں شروع کردیں

    ملازمت نہ ملنے پر پی ایچ ڈی اسکالرنے چوریاں شروع کردیں

    ابوظبی : پی ایچ ڈی اسکالر نے عدالت میں بیان دیا کہ خراب مالی حالات اور ملازمت نہ ملنے کے باعث چوری کرنے پر مجبور ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق سیاحتی ویزہ پر متحدہ عرب امارت کا دورہ کرنے والے پی ایچ ڈی اسکالر کو اماراتی کورٹ نے چوری، تشدد اور خود کو پولیس والا ظاہر کرنے کے الزام میں ٹرائل پر بھیج دیا، ملزم نے موبائل فونز چوری کرنے کےلیے لوگوں کے ہجوم پر اعصابی گیس کا بھی استعمال کیا تھا۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق شکایت کنندہ کا کہنا ہے کہ عرب شخص نے ہمارے پاس آکرراس الخیمہ کے پولیس افسر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئےشناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ کیا اور جب لوگوں نےعربی سے پولیس آئی ڈی کارڈ دکھانے کاسوال کیا تو مذکورہ شخص نے ہم پر حملہ کردیا۔

    متاثرہ شخص کا کہنا تھا کہ ملزم نے ہم پر اعصابی گیس کا اسپرے کیا اور تین موبائل فون لےکر فرار ہوگیا۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ راس الخیمہ پولیس نے واقعے کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرتےہوئے ملزم کو گرفتار کیا بعد از گرفتاری ملزم نے اعتراف جرم کیا۔

    زیر حراست ملزم نے دعویٰ کیا کہ وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہے اور اس کے پاس سوائے چوری کے کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا پی ایچ ڈی اسکالر نے عدالت میں اپنے اوپر بنائے گئے چوری، جعلی پولیس افسر بننے اور اعصابی گیس کا حملہ کرنے کے الزامات کو درست قرار دیا۔

    مدعی نے شکایت کنندہ سے معافی مانگتے ہوئے کیس واپس لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے اہلخانہ کا واحد کفیل ہوں اور گھر میں ہنگامی صورتحال کےباعث واپس جانے کےلیے پیسوں کی ضرورت تھی‘۔

    ملزم نے بتایا کہ وہ پہلی مرتبہ ایسے جرم کا مرتکب ہوا ہے اور دعویٰ کیا کہ’ وہ ایک عزت دار شخص ہے جس نے پی ایچ ڈی بھی کررکھی ہے‘۔

    ملزم نے عدالت کو بتایا کہ وہ وزٹ ویزے پر امارات آیا تھا اور ریاست راس الخیمہ مقیم اپنے کچھ دوستوں کے پاس رُک گیا تاکہ کوئی مناسب سی ملازمت تلاش کرسکے۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عدالت نے ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد کیس کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔

  • خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    ریاض/استنبول : ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ذرائع نے 2 شاہی مشیروں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے جن میں سے ایک کو رِنگ لیڈر قرار دیا گیا ہے جبکہ 11 مشتبہ ملزمان کے بند کمرہ ٹرائل میں دوسرے کی غیر موجودگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

    سعودی پراسیکیوٹرز نے کہا کہ ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العصیری نے استنبول کے قونصل خانے میں سعودی صحافی کے قتل کی نگرانی کی جس کی ہدایات سعود القحطانی نے دی تھیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ چار مغربی حکام کے مطابق دونوں افراد سعودی ولی عہد کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اور انہیں باقاعدہ طور پر برطرف کیا جاچکا ہے، احمد العصیری ہی جنوری سے لے کر اب تک ہونے والی 5 سماعتوں میں پیش ہوئے۔

    ایک عہدیدار نے بتایا کہ جن 11 افراد کا ٹرائل ہورہا ہے، ان میں سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس غیر موجودگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا سعودی ان کی حفاظت کرنا چاہتے یا ان کے خلاف علیحدہ کاررروائی کریں گے؟ کوئی نہیں جانتا۔

    سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے گزشتہ برس نومبر میں 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں 5 کو سزائے موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس سمیت ترکی کے سفارت کاروں کو جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف جاری سماعتوں میں آنے کی اجازت ہے جو کہ صرف عربی زبان میں منعقد ہوتی ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ انہیں مترجم ساتھ لانے کی اجازت نہیں اور انہیں شارٹ نوٹس پر مدعو کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے خاندان کے ایک فرد نے، جنہوں نے سعودی حکومت سے تصفیہ کی تردید کی تھی،صرف ایک عدالتی سیشن میں شرکت کی ہے۔

    عہدیداران نے کہا کہ انٹیلی جنس رکن ماہر مطرب جو غیرملکی دوروں پر سعودی ولی عہد کے ہمراہ سفر کرتے تھے، فارنسک ایکسپرٹ صلاح الطبیغی اور سعودی شاہی گارڈ کا رکن فہد البلاوی ان 11 افراد میں شامل ہیں جنہیں سزاے موت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    ان تمام 11 افراد کو اپنے دفاع کے لیے لیگل کونسل کی اجازت حاصل ہے۔عہدیداران کا مطابق ان میں سے اکثر نے عدالت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے احمد العصیری کے احکامات پر عمل کیا اور انہیں آپریشن کا رِنگ لیڈر قرار دیا۔

    سعودی عرب کی میڈیا منسٹری نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی رد عمل نہیں دیا، اور ملزمان کے وکلا سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

    مغربی عہدیداران نے کہا کہ احمد العسیری کو سعودی فوج میں جنگی ہیرو کا درج حاصل ہے، انہیں سزائے موت کا سامنا نہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ماضی میں امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودیوں پر پابندی سےمتعلق جاری کی گئی امریکا کی دو فہرستوں میں بھی ان کا نام شامل نہیں۔

    دوسری جانب سعود القحطانی جنہوں نے سعودی عرب پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی اور جنہیں سعودی ولی عہد کا اہم ساتھی سمجھا جاتا ہے ان کا نام دونوں فہرستوں میں موجود ہے۔

    جمال خاشقجی قتل، اقوام متحدہ کا سعودی حکومت سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ

    سعودی پراسیکیوٹر آفس کے مطابق سعودی اسکواڈ کی ترکی روانگی سےقبل انہوں نے میڈیا اسپیشلائزیشن پر مبنی مشن سے متعلق اہم معلومات بتانے کے لیے ملاقات کی تھی۔ تاہم جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے وہ اب تک سامنے نہیں آئے اور اس وقت وہ کہاں ہیں کیسے ہیں یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔

    بعض سعودی افراد کا دعوی ہے کہ وہ پسِ منظر میں ان تمام حالات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دیگر افراد کا کہنا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی برادری کے ردعمل ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

  • سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش

    سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش

    ریاض : سعودی حکام نے انسانی حقوق کے لیے سماجی خدمات انجام دینے والی 10 خواتین رضاکاروں کو تقریباً ایک سال قید میں رکھنے کے بعد آج دوسری مرتبہ عدالت میں پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے انسانی حقوق کی علمبردار متعدد خواتین رضاکاروں کو ایک برس قبل سعودی حکومت کے خلاف اور خواتین کی آزادی کےلیے آواز اٹھانے پر گرفتار کیا تھا جن میں سے دس رضاکار خواتین کو آج مقدمات کی سماعت کےلیے دوسری مرتبہ عدالت میں پیش کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ عدالت میں پیش کی گئی خواتین میں لجین الھذلول، بلاگر ایمان النفجان اور یونیورسٹی پروفیسر ھنون الفاسی شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اگر استغاثہ نے مذکورہ خواتین پر عائد الزامات ثابت کردئیے تو انسانی حقوق کے لیے خدمات انجام دینے والی رضاکاروں کو پانچ پانچ برس قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گرفتار خواتین کو سعودی عرب کی کرمنل کورٹ میں پیش کیا گیا، حکام نے عدالت میں غیر ملکی سفیروں اور صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی تاہم مذکورہ خواتین کے اہلخانہ کو عدالت میں آنے کی اجازت تھی۔

    خیال رہے کہ کچھ ماہ قبل برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں : سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

  • جرمنی نے 94 سالہ نازی کیمپ کے گارڈ پرمقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا

    جرمنی نے 94 سالہ نازی کیمپ کے گارڈ پرمقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا

    جرمنی نے جنگ ِعظیم دوئم میں اس وقت کی نازی حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے ایذا رسانی کیمپ کے بزرگ گارڈ کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی میں 94 سالہ بزرگ شہری کے خلاف دائر ہونے والا یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہوگا، جنگ ِعظیم کو ختم ہوئے 70 سال سے زائد ہوچکے ہیں۔

    یورپ کے مقامی میڈیا ذرائع کے مطابق یہ شخص جس کی عمر اب 94 سال ہے جنگ عظیم کےد وران اسٹیتھوف نامی نازی ایذا رسانی کیمپ کا گارڈ تھا اور وہاں ہونے والے تمام جنگی جرائم کے طریقہ کار اور واقعات سے واقف تھا ۔ یاد رہے کہ یہ کیمپ اب جرمنی کے بجائے پولینڈ کی حدود میں آتا ہے۔

    عدالت کی جانب سے اس شخص کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے لیکن ڈائی والٹ نامی جریدے کے مطابق ا س شخص کا نام جان آر ہے ،اور وہ ایک زمانے میں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے سرکاری حکام کے تحت کام کرچکا ہے۔

    اس بزرگ شخص پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ گارڈ کی حیثیت سے وہ اس کیمپ میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں قیدیوں کی ہلاکت میں بطور آلہ ٔ کار شامل رہا۔ جن میں سو سے زائد پولش قیدی بھی شامل ہیں جنہیں سنہ 1944 کی 21 اور 22 جون کو گیس کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔

    جنگ عظیم کے دوران اس گارڈ کی عمر 18 سے 20 سال تھی اور یہ ان کیمپوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں شامل تھا۔ نجانے کتنوں کو گیس چیمبر کے سپرد کیا گیا، گولی ماری گئی یا پھر بھوکا مرنے کےلیے چھوڑدیا گیا ۔

    بتایا جارہا ہے کہ گارڈ پر مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلایا جائے گا ، اس وقت اس کی عمر 21 سال سے کم تھی اور قانون کے تحت 21 سال سے کم عمر والے افراد کا مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلتا ہے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس شخص کی یاد داشت حیرت انگیز طور پر کام کررہی ہے تاہم وہ کیمپ کے اندر ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں کچھ جاننے سے انکاری ہے ، امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر یہ شخص شریکِ جرم ثابت ہوا تو اسے 15 سے 20 سال کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔