Tag: True Story

  • ٹیڈ بنڈی : خوفناک قاتل کی کہانی، جس نے درجنوں لڑکیوں کا انتہائی بے رحمی سے قتل کیا

    ٹیڈ بنڈی : خوفناک قاتل کی کہانی، جس نے درجنوں لڑکیوں کا انتہائی بے رحمی سے قتل کیا

    تھیوڈور رابرٹ بنڈی جسے عام طور پر ٹیڈ بنڈی کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی اصل پہچان ایک خطرناک قاتل (سیریل کلر) کی ہے جو خصوصاً لڑکیوں کو نشانہ بناتا تھا۔

    وہ بظاہر شریف، خوش شکل نوجوان اور قانون کا طالب علم تھا لیکن اندر سے وہ ایک ایسا درندہ تھا جس نے کم از کم 30 لڑکیوں کو 7 مختلف ریاستوں میں قتل کیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹیڈ بنڈی 24 نومبر 1946 کو ورمونٹ، امریکہ میں پیدا ہوا، نوجوانی میں ایک لڑکی سے محبت میں ناکامی نے اس کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ 1967 میں اس کی ملاقات اسٹیفنی بروکس نامی لڑکی سے ہوئی جو اس کی محبت کی پہلی بڑی ناکامی تھی۔ کچھ عرصے دوستی کے بعد اسٹیفنی نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی جو بنڈی کے لیے ایک شدید صدمہ تھا۔

    اس ناکامی نے اس کی شخصیت میں غصے اور نفرت کو جنم دیا، جس نے اس کے مجرمانہ رویے کو تقویت دی۔ ٹیڈ بنڈی نے 1970 کی دہائی کے اوائل میں نوجوان خواتین کو نشانہ بنانا شروع کیا، وہ انتہائی ذہین، پرکشش اور بات چیت میں ماہر نوجوان تھا، جو اس کے شکار کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا۔ اس نے پہلا شکار 1974 میں کیا اور اگلے چند سالوں میں اس نے درجنوں خواتین کو قتل کردیا۔

    سال 1974میں امریکہ کی شمال مغربی ریاستوں (خاص طور پر واشنگٹن اور اوریگن) میں پولیس سخت پریشان تھی۔ نوجوان لڑکیاں کالجوں سے پراسرار طور پر غائب ہو رہی تھیں، اور پولیس کے پاس کوئی خاص سراغ نہیں تھا کہ یہ وارداتیں کر کون رہا ہے؟۔

    صرف چھ ماہ کے دوران میں چھ لڑکیاں اغوا ہوئیں، شہر میں خوف کی فضا اس وقت اپنی انتہا کو پہنچی جب دو لڑکیاں دن دہاڑے ایک مقامی جھیل پارک سے غائب ہوگئیں۔

    ان لڑکیوں کے اغوا کے بعد سے پولیس کو پہلا بڑا سراغ ملا، تحقیقات کے دوران متعدد لڑکیوں نے پولیس کو بتایا کہ ایک خوبصورت نوجوان ان سے مدد مانگ کر اپنی گاڑی تک لے جانے کی کوشش کر رہا تھا، اس کی گاڑی براؤن رنگ کی ووکس ویگن بیٹل تھی اور اس نے اپنا نام ٹیڈ بتایا تھا۔

    اس دوران پولیس نے چھان بین کی تو چار افراد نے ٹیڈ بنڈی کے بارے میں بتایا ان چار افراد میں اس کی سابقہ گرل فرینڈ، اس کا ایک دوست، ایک ساتھی ملازم اور ایک نفسیات کا پروفیسر شامل تھے لیکن ابتدائی طور پر پولیس نے ٹیڈ بنڈی کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ ان کے خیال میں ایک صاف ستھرا قانون کا طالب علم قاتل نہیں ہو سکتا تھا اور وہ ان کے بنائے ہوئے مجرم کے پروفائل پر پورا نہیں اترتا تھا۔ یہی غلطی ٹیڈ بنڈی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی۔

    اس کے بعد اس نے مسلسل نوجوان، خوبصورت، زیادہ تر کالج کی طالبات کو نشانہ بنایا، وہ لڑکیوں کو اپنی ظاہری معصومیت اور میٹھی باتوں سے بہلا پھسلا کر اپنی گاڑی تک لے جاتا تھا۔ اس کا نشانہ زیادہ تر وہ لڑکیاں ہوتیں جو آزاد، خود مختار اور اکثر اکیلی ہوتی تھیں یہ اس کا خاص طریقہ بن گیا تھا۔

    وہ ان مغوی لڑکیوں کو جنگل میں لے جا کر زیادتی کے بعد بے رحمی سے قتل کردیتا، کولوراڈو اور ایڈاہو میں بھی اس نے یہی طریقہ اپنایا۔ لڑکیاں غائب ہوتیں اور ان کی لاشیں سنسان مقامات سے پولیس کو ملتیں۔

    بالآخر ٹیڈ بنڈی کو 1975 میں گرفتار کرلیا گیا، وہ دو بار جیل سے فرار ہونے میں بھی کامیاب رہا۔ 1978 میں فلوریڈا میں دوبارہ گرفتار ہونے کے بعد اس پر متعدد قتل کے مقدمات چلائے گئے۔ اس کے مقدمے نے میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کی اور اس کی چالاکی اور بے گناہ نظر آنے کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوئے کہ کیا واقعی وہ اتنے سنگین جرائم کا مرتکب بھی ہو سکتا ہے؟۔

    موت کی درد ناک سزا 

    بالآخر 24 جنوری 1989 کو کئی برسوں کی اپیلوں اور التواء کے بعد ٹیڈ بنڈی کو عدالت نے موت کی سزا سنائی اور فلوریڈا کی ایک جیل میں برقی کرسی پر بٹھا کر اسے موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ اس کی لاش کو اس کے اہلِ خانہ نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے جیل حکام نے اس کی مقامی قبرستان میں تدفین کردی۔

    لوگ آج تک سوچتے ہیں کہ کیا بنڈی خود بچپن میں ظلم کا شکار تھا؟ اگر تھا بھی تو کیا وہ اس درندگی کی وضاحت کر سکتا ہے؟ یا واقعی اس کے اندر کوئی چیز بنیادی طور پر ٹوٹ چکی تھی؟

    ٹیڈ بنڈی کی کہانی ایک سبق آموز مثال ہے جو ہمیں اس بات سے باخبر کرتی ہے کہ ہر چہرے کے پیچھے سچائی چھپی نہیں رہتی، بعض اوقات سب سے معصوم دکھائی دینے والا شخص بھی اندر سے درندہ نما شیطان ہو سکتا ہے۔

  • تین ٹن سونا : برطانیہ کی سب سے بڑی اور تاریخی ڈکیتی کی سچی کہانی

    تین ٹن سونا : برطانیہ کی سب سے بڑی اور تاریخی ڈکیتی کی سچی کہانی

    دنیا بھر میں بنائی جانے والی اکثر فلمیں کسی مشہور اور حیرت انگیز واقعات پر مبنی ہوتی ہیں جنہیں مزید دلچسپ بنانے کیلیے ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، ان ہی میں ایک تاریخی ڈکیتی پر مبنی فلم پیرا ماؤنٹ پلس کی سیریز "دی گولڈ” بھی ہے۔

    اس مشہور فلم سیریز کا پس منظر درحقیقت برطانیہ کی تقریباً 40 سال پرانی اور سب سے بڑی واردات ہے جسے تاریخی ڈکیتی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

    یہ سچا واقعہ سال 1983 میں لندن میں پیش آیا جس میں چھ مسلح ڈاکوؤں نے 26 نومبر 1983 کو لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب واقع برنکس میٹ کے ویئر ہاؤس میں تاریخی ڈکیتی کی کامیاب واردات کی۔

    ان ملزمان کا منصوبہ ایک عام طرز کی مسلح ڈکیتی کرنا تھا لیکن قسمت نے انہیں ان کی سوچ سے کہیں بڑھ کر ایک غیر متوقع خزانہ دے دیا، جس میں یہ ملزمان لگ بھگ 10 کروڑ پاؤنڈ مالیت کا سونا لے اڑے۔

    تین ٹن سونے کے بسکٹ۔ جی ہاں !! یہ تاریخی چوری کی یہ واردات پیرا ماؤنٹ کی سیریز ’دی گولڈ‘کی بنیاد بنی، جو پہلے برطانیہ میں بی بی سی پر نشر ہوئی اور پھر 17 ستمبر کو امریکہ میں اسٹریمنگ سروس پر پیش کی گئی۔

    The Gold Season

    چوری کیسے کی گئی؟

    برطانوی تاریخ میں برنکس میٹ ڈکیتی کے نام سے جانی جانے والی یہ واردات لندن کے ہیتھرو انٹرنیشنل ٹریڈنگ اسٹیٹ میں صبح 6 بج کر 40 منٹ پر کی گئی جس میں 6 مسلح ملزمان ملوث تھے۔

    یہ ڈاکو برنکس میٹ کے وئیر ہاؤس میں داخل ہوئے اور اس وقت کے مطابق 26 ملین پاؤنڈ مالیت کی سونے کی اینٹیں، ہیرے، اور کیش لے کر فرار ہوئے۔ آج کے حساب سے یہ لگ بھگ 10 کروڑ پاؤنڈ کی رقم بنتی ہے۔

    اصلی برنکس میٹ ڈکیتوں نے اصل میں صرف ایک ملین ڈالر کی غیر ملکی کرنسی چرانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن جب انہیں وہاں سونا اور ہیرے ملے تو ان کی خوشی اور حیرت کی انتہا نہ رہی، ان ہیرے جواہرات کی مالیت اُس وقت کے لحاظ سے 32 ملین ڈالر تھی، جو آج کے حساب سے تقریباً 124 ملین ڈالر بنتی ہے۔

    چوری شدہ سونے کو ٹھکانے لگانے کے عمل نے بین الاقوامی منی لانڈرنگ کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی، اس واردات نے تمام چھوٹے اور بڑے مجرموں کو یکجا کیا اور لالچ کے سبب قتل و غارت گری کے کئی واقعات نے جنم لیا۔

    یہ ڈاکو برنکس میٹ کے یونٹ 7 میں ایک سیکیورٹی گارڈ، انتھونی بلیک کی مدد سے داخل ہوئے، جو ان کے ساتھ پہلے سے مِلا ہوا تھا، اندر موجود دیگر گارڈز کو اسلحے کے زور پر مجبور کیا گیا کہ وہ تجوری کھولیں۔ خزانہ اتنا زیادہ تھا کہ اسے وین میں لوڈ کرنے میں کئی گھنٹے لگ گئے لیکن ڈاکو صبح 8:30 بجے پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہوگئے۔

    چوری شدہ سونے کا کیا ہوا؟

    ڈاکو سونا چرا تو لے گئے مگر انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیسے اور کہاں فروخت کریں؟ اس کام کے لیے انہوں نے برطانیہ کے بدنام زمانہ مجرم کینتھ نوئے کی مدد لی۔

    کینتھ نوئے اور اس کے ساتھی جن میں "گولڈ فنگر” کے نام سے مشہور جان پامر بھی شامل تھا، نے سونے کو پگھلا کر اس میں تانبا ملا دیا تاکہ اسے پہچاننا مشکل ہو جائے، بعد میں تفتیش کے دوران پولیس کو نوئے کے سابقہ گھر کے قریب ایک نالے میں کپڑے میں لپٹے 11 سونے کے بسکٹ بھی ملے۔

    کینتھ نوئے پر منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ چلا لیکن اس سے پہلے کہ وہ گرفتار ہوتا، اس نے اپنے گھر پر ایک خفیہ پولیس افسر کو چاقو مار کر قتل کر دیا۔ حیران کن طور پر اس نے عدالت میں اپنے دفاع میں درخواست دی اور ٹھوس ثبوت کی عدم فراہمی پر الزام سے بری ہوگیا۔

    مجرموں کا انجام

    اس تاریخی چوری کے ایک ماہ بعد انتھونی بلیک جو رابنسن کا بہنوئی تھا، پولیس کے سامنے اعتراف کر بیٹھا کہ اس نے ڈاکوؤں کو گودام میں داخل ہونے کی خفیہ معلومات دی تھیں، اس اعتراف کے باوجود اسے 6 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    انتھونی بلیک کے اعتراف کے دس دن بعد پولیس نے میکاوائے اور رابنسن کو بھی گرفتار کرلیا۔ نومبر 1984 میں ان پر مقدمہ چلا اور جج نے دونوں کو 25 سال قید کی سزا سنائی، لیکن 2000 میں انہیں پیرول پر رہا کر دیا گیا۔

    رابنسن 2021 میں 78 سال کی عمر میں انتہائی غربت کے عالم میں چل بسا، جبکہ میکاوائے 2023 میں 71سال کی عمر میں اسپین میں کینسر کے باعث مرگیا۔

    دیگر چار ڈاکوؤں کو کبھی سزا نہیں ہوئی، لیکن اس واردات سے جُڑے 20 سے زائد افراد قتل کر دیے گئے کیونکہ برطانیہ کی جرائم پیشہ مافیا آپس میں دست و گریباں ہوگئی کیونکہ ہر کوئی اس مسروقہ سونے کا پتہ لگانے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش میں تھا۔

    چوری شدہ سونا کہاں گیا؟

    پولیس کو نوئے کے گھر کے قریب سے جو سونا ملا، اس کے علاوہ زیادہ تر خزانہ کبھی برآمد نہ ہو سکا۔ ماہرین کے مطابق چوری شدہ سونے کا تقریباً نصف حصہ قانونی مارکیٹ میں واپس آگیا ہے۔

    بی بی سی کی سیریز دی گولڈ کے مطابق اگر آپ نے 1984 کے بعد برطانیہ میں سونے کے زیورات خریدے ہیں، تو ان میں برنکس میٹ کے سونے کے ذرات ہونے کا قوی امکان ہے۔”