Tag: tuberculosis

  • تپ دق (ٹی بی) اموات کی سب سے بڑی وجہ بن گئی

    تپ دق (ٹی بی) اموات کی سب سے بڑی وجہ بن گئی

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تپ دق (ٹی بی) سال 2023میں کوویڈ 19 کی جگہ اموات کی سب سے بڑی وجہ بن گئی۔

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ سال2023 میں تقریباً 8.2 ملین افراد میں مرض کی تشخیص کی گئی تھی۔

    یہ تعداد ڈبلیو ایچ او کے 1995 میں عالمی سطح پر کی گئی ٹی بی مانیٹرنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے زیادہ ریکارڈ تعداد ہے جو کہ سال 2022 میں رپورٹ ہونے والے 7.5 ملین سے زائد ہے۔

    tuberculosis

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ تپ دق (ٹی بی) اب بھی ہر سال 13 لاکھ جانیں لے رہی ہے جس کی روک تھام کے لیے مالی وسائل کی فراہمی میں اضافہ کرنا ہوگا۔

    ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ یہ ایک المیہ ہے کہ ٹی بی اب بھی بہت سے لوگوں کی جانیں لے رہی ہے اور انہیں بیمار کر رہی ہے جبکہ آج دنیا کے پاس اِس ہزار سالہ مہلک متعدی بیماری کا خاتمہ کرنے کے لیے علم، ذرائع اور عزم موجود ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ‘ڈبلیو ایچ او’ ٹی بی کے خلاف اقدامات کے لیے تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرتا رہے گا یہاں تک کہ ہر فرد، خاندان اور معاشرہ اس مہلک بیماری سے محفوظ نہ ہوجائے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک جو کہ اس بیماری کے 98 فیصد بوجھ کا سامنا کرتے ہیں ان ممالک کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔

  • کرونا وائرس کم ہونے کے بعد ایک اور مرض تیزی سے پھیلنے لگا

    کرونا وائرس کم ہونے کے بعد ایک اور مرض تیزی سے پھیلنے لگا

    کرونا وائرس کے کم ہونے کے بعد دنیا بھر میں تپ دق کے مرض میں تشویش ناک اضافہ دیکھا جارہا ہے، گزشتہ برس 1 کروڑ افراد ٹی بی سے متاثر ہوئے۔

    اے پی کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ٹی بی (ٹیوبر کلوسس) یا تپ دق کے حوالے سے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کرونا کی وبا کو ٹی بی کے بڑھنے کا بڑا سبب قرار دیا۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2019 میں عالمی سطح پر ٹی بی کے کیسز میں نمایاں کمی ہونے لگی تھی اور اس وقت دنیا بھر میں 70 لاکھ لوگ اس سے متاثر تھے مگر 2020 میں یہ کم ہوکر 55 لاکھ تک رہ گئے تھے۔

    تاہم کرونا وائرس کی وبا آنے کے بعد ٹی بی میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا اور 2021 میں دنیا بھر میں اس سے ایک کروڑ لوگ متاثر ہوئے جبکہ اس سے 16 لاکھ اموات بھی ہوئیں۔

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کرونا کی وبا کے بعد جہاں ٹی بی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، وہیں پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری کے خلاف طویل جدوجہد بھی ناکام ہوگئی اور سالوں بعد پھر سے ٹی بی ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں ٹی بی کے کیسز میں ساڑھے فیصد تک اضافہ دیکھا گیا جب کہ اسی سال ہونے والی 16 لاکھ میں سے ساڑھے 4 لاکھ اموات وہ تھیں جو خطرناک ٹی بی کے باعث ہوئیں۔

    ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں ساڑھے 4 لاکھ اموات ادویات سے بھی کنٹرول نہ ہونے والی ٹی بی سے ہوئیں۔

    ادارے کے ماہرین نے ٹی بی میں خطرناک اضافے کو جہاں کرونا وائرس سے جوڑا، وہیں دنیا کی معاشی تنگ دستی اور دنیا بھر میں جاری کشیدگیوں کو بھی اس کے بڑھنے کے اسباب قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر کرونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ٹی بی کے مریض علاج سے پرہیز کرتے رہے، جس سے یہ بیماری خطرناک حد تک پھیل گئی۔

    عالمی ادارہ صحت نے یوکرین پر روسی جنگ کو بھی ٹی بی کے بڑھنے کا ایک سبب قرار دیا اور کہا جنگ سے قبل یوکرین میں ٹی بی تیزی سے پھیل رہا تھا اور وہاں کے لوگ جنگ کے بعد اس کے علاج سے محروم رہ جائیں گے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے ممالک کو ٹی بی سے نمٹنے کے لیے بر وقت انتظامات کرنے اور اس کی ادویات سستی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

  • ٹی بی کا عالمی دن: پاکستان تپ دق کا شکار ممالک میں چھٹے نمبر پر

    ٹی بی کا عالمی دن: پاکستان تپ دق کا شکار ممالک میں چھٹے نمبر پر

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تپ دق یا ٹی بی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، پاکستان ٹی بی کے شکار ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    ٹی بی ایک ایسا مرض ہے جو پھیپھڑوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور ہوا کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ٹی بی کا مرض دنیا بھر میں ہر روز 5 ہزار جانیں لے لیتا ہے، صرف 2018 میں اس مرض سے دنیا بھر میں 15 لاکھ افراد کی ہلاکت ہوئی۔

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ایک تہائی ٹی بی کے مریضوں میں مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی، یا وہ علاج کی سہولیات سے محروم ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غربت، غذائی قلت، گندے گھروں میں رہنا اور صفائی کا انتظام نہ ہونا ٹی بی سمیت بہت سی بیماریوں کا آسان شکار بنا دیتا ہے۔

    اسی طرح پہلے سے مختلف امراض جیسے ایڈز یا ذیابیطس کا شکار ہونا، اور طویل عرصے تک تمباکو نوشی اور شراب نوشی کا استعمال بھی اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ٹی بی کے شکار ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ 70 ہزار افراد ٹی بی کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ٹی بی کے باعث موت کا شکار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔

    تاہم پاکستان نے اس مرض کے خاتمے کے لیے قابل تعریف کوششیں کیں ہیں، ٹی بی کے خاتمے کی جدوجہد میں پاکستان کو عالمی رول ماڈل تسلیم کیا جاچکا ہے اور سنہ 2016 میں یو ایس ایڈ چیمپئینز آف ٹی بی ایوارڈ بھی پاکستان نے اپنے نام کیا۔

    پاکستان میں سنہ 2025 تک تپ دق کی شرح میں 50 فیصد کمی کا ہدف رکھا گیا ہے جس پر کام جاری ہے۔

  • ٹی بی کی تشخیص میں برطانوی سائنسدانوں کی اہم پیش رفت

    ٹی بی کی تشخیص میں برطانوی سائنسدانوں کی اہم پیش رفت

    لندن : برطانوی سائنسدانوں نے تپ دق کی تشخیص میں اہم پیش رفت حاصل کرلی ہے جس سے علاج مزید موثر ہو جائے گا۔

    تفصیلات کےمطابق اوکسفرڈ اور برمنگھم کے سائنس دانوں نے ٹی بی کی تشخیص میں جینوم سیکونسنگ کا طریقہ استعمال کر کے اہم پیش رفت حاصل کر لی ہے۔

    برطانوی سائنسدانوں کی اس اہم پیش رفت کےبعد جن مریضوں کو درست دوا کےانتخاب کے لیےمہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا اب ان کے اندر بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کی شناخت چند دنوں کے اندر اندر ہو سکے گی۔

    برطانوی وزیرِ صحت جیریمی ہنٹ کاکہناہے کہ اس پیش رفت سے زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔

    خیال رہےکہ برطانیہ میں ٹی بی کےمریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے،لیکن اس کے باوجود انگلینڈ میں اس مرض کی شرح یورپ کےدوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔


    مزید پڑھیں: پاکستان ٹی بی کا شکار پانچواں بڑا ملک


    سائنس دانوں کےمطابق جینوم سیکونسنگ کی مدد سے وہ ایک ہفتے میں مختلف نمونوں کے اندر ڈی این اے کی شناخت کر سکتے ہیں۔مرض کی جلد تشخیص کی بدولت مریضوں کا علاج جلد شروع کیا جا سکتا ہے۔

    مائیکرو بیالوجسٹ پروفیسر گریس اسمتھ نےکہاکہ ہم یہ معلومات دے سکتے ہیں کہ بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کون سے ہیں اور ان پر کون سی ادویات اثر نہیں کرتیں۔

    واضح رہےکہ اس وقت دنیا بھر میں تشویش ہے کہ ٹی بی کے ایسے جراثیم سامنے آ رہے ہیں جن پر اینٹی بیاٹک ادویات اثر نہیں کرتیں۔اس کے باعث اس مرض کو دنیا سے ختم کرنے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔