Tag: turkey

  • سابق ترک صدر کنعان ایورن انتقال کرگئے

    سابق ترک صدر کنعان ایورن انتقال کرگئے

    انقرہ: ترکی کے سابق صدر کنعان ایورن 97 سال کی عمرمیں انتقال کرگئے،انہوں نے 1980 میں ہونے والی فوجی بغاوت میں اہم کردارادا کیا تھا جس کے نتیجے میں گزشتہ سال عدالت نے انہیں مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی تھی۔

    ترکی کے ساتویں صدر اورریٹائر فوجی جنرل کنعان ایورن انقرہ کے جی اے ٹی اے ملٹری اسپتال میں 2012 سے زیرعلاج تھے ہفتے کے روز ان کی طبعیت انتہائی ناساز ہوگئی اور ڈاکٹروں نے انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے اہلِ خانہ اور وکلاء کو اسپتال طلب کرلیا گیاتھا۔

    کنعان ایورن کوترک عدالت نے گزشتہ سال انیس سو اسی میں فوجی بغاوت پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔کنعان ایورن نے انیس سو اسی میں حکومت کے خلاف فوجی بغاوت میں اہم کردار ادا کیا جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    ترکی کے سابق صدر 35 سال قبل کی جانے والی بغاوت کے جرم میں گزشتہ سال سابق ایئر فورس کمانڈر تحاسن سہنکایا کے ہمراہ سزا کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔

  • پاکستان اور ترکی یمن کے تنازعے کا پرامن حل نکالنے پرمتفق

    پاکستان اور ترکی یمن کے تنازعے کا پرامن حل نکالنے پرمتفق

     

    اسلام آباد: ترکی کے صدررجب طیب اردگان نے وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا اورمشرق وسطیٰ کی صورتحال پرتبادلہ خیال کیا۔

    دونوں ممالک کے رہنماؤں نے یمن میں جاری جنگ کا مذاکرات کے ذریعے پرامن حل نکالنے پر اتفاق کیا۔

    تفصیلات لے مطابق دونوں رہنماوں کے درمیان مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر پینتالیس منٹ تک بات چیت جاری رہی۔

    دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ امور، مشرق وسطی کی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا اور اس دوران یمن کےمسئلے کےپرامن طریقےسےحل کیلئےکوششیں جاری رکھنے پراتفاق کیا۔

    ترک صدر اور وزیر اعظم نواز شریف نے اس امر پر بھی اتفاق کیاکہ اگر سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو دونوں ملک مل کرخطرے کا منہ توڑ جواب دیں گے۔

    واضح رہے کہ ترکی کھل کر سعودی عرب اور اس کے اتحادی خلیجی ممالک کی حمایت کرتا رہاہے جبکہ پاکستانی پارلیمنٹ نے جمعے کے روز ہونے والے اجلاس میں یمن اور سعودی عرب کی جنگ کے تنازعے میں اس وقت تک غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک سعودی عرب کی سلامتی کو کسی نوعیت کا کوئی خطرہ نہ ہو۔

  • ایران اورترکی کے درمیان یمن جنگ رکوانے پراتفاق

    ایران اورترکی کے درمیان یمن جنگ رکوانے پراتفاق

    تہران: ترکی اورایران نے یمن کی جنگ کا سیاسی حل نکالنے کے لئے اتفاق کرلیا ہے، اس بات کا اعلان ایرانی صدر نے اپنے ترکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کیا۔

    دونوں ممالک کے درمیان یمن کے معاملے پر کشیدگی تھی اور انقرہ کی جانب سے تہران پرحوثی قبائل کی مدد کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

    ایرانی صدر حسن روحانی نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے ایراق، شام اور فلسطین کے مسئلے پر گفتگو کی ، ہمارے درمیان یمن میں جاری جنگ پر طویل مذاکرات ہوئے اور ہم اس امر پر متفق ہیں کہ خطے میں خون ریزی ختم ہونی چاہیئے لہذا یمن میں فوری اور قطعی جنگ بندی کی جائے اور حملے روکے جائیں‘‘۔

    ترکی کے صدر طیب اردگان نے اس موقع پر ایران اور ترکی کے درمیان دو طرفہ تعلقات پر طویل خطاب کیا لیکن یمن کے معاملے پر خاموشی اختیار کی۔

    ایران جو کہ یمن جنگ میں حوثی قبائل کا حمایتی ہے اس نے ترکی کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد کی جانب سے فضائی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔

  • ترکی نے ٹویٹر پرعائد پابندی ختم کردی

    ترکی نے ٹویٹر پرعائد پابندی ختم کردی

    استنبول: ترکی نے بالاخر ٹویٹر، فیس بک اور یو ٹیوب پر عائد پابندی اٹھالی، پابندی ترکش پراسیکیوٹر کے قتل کی تصاویر جاری کرنے کے بعد عائد کی گئی تھی۔

    ترکی کے مقامی اخبار کے مطابق سروس مہیاکرنے والوں کو یہ حکم موصول ہوا کہ انٹرنیٹ کی یہ تین بڑی ویب سائٹس بند کردی جائیں جس کے بعد ترکی کے صارفین ان ویب سائٹس تک رسائی سے محروم ہوگئے تھے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ ٹویٹر، فیس بک اوریوٹیوب کو متنازعہ مواد ہٹانے کے لئے چار گھنٹوں کی مہلت دی گئی تھی۔

    ترکی کی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے سربراہ طیفور نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فیس بک نے سب سے پہلے ترکی کا مطالبہ پورا کیا اور یہ ویب سائٹ بحال کردی گئی۔

    انٹرنیت سروس مہیا کرنے والے اداروں کی یونین کے سیکریٹری جنرل بلنٹ کنٹلیس کا کہنا ہے کہ ٹویٹر نے بھی حکومت کا مطالبہ پورا کردیا جس کے بعد اس پر سے بھی پابندی ختم کردی گئی حالانکہ ٹویٹر نے ابی تک اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے بلکہ ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا کمپنی ترکی کی عدالتوں سے رجوع کرنے بابت سوچ بچار کررہی ہے۔

    بلنٹ کنٹلیس کے مطابق یوٹیوب سے تاحال اس معاملے پر گفت و شنید جاری ہے۔

  • مجھے تم سے محبت نہیں کہنے پر جرمانہ

    مجھے تم سے محبت نہیں کہنے پر جرمانہ

    ترکی : ایک شخص کو بیوی سے یہ کہنے پر جرمانہ ہوگیا کہ مجھے تم سے محبت نہیں۔

    ترک اخبار کی ویب سائٹ کے مطابق یہ جوڑا طلاق کے لیے عدالت پہنچا تھا، میاں بیوی ایک دوسرے پر بےعزتی کرنے کےالزام عائد کر کے ہرجانہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔

    عدالت نے قرار دیا کہ دونوں ہی ایک جتنے برے ہیں لیکن شوہر کی جانب سے بیوی سے محبت نہ ہونے کا دعوی ’جذباتی تشدد‘ ہے اور اسے اپنی بیوی کو ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ اس کے شوہر اکثر گھر سے چلے جاتے تھے, شوہر کے منہ سے یہ بات سن کر ’جذباتی طور پر تباہ‘ ہوگئی ہوں جبکہ شوہر کا مؤقف ہے کہ بیوی اسے گالیاں اور بددعائیں دیتی تھیں۔

    ترکی میں خواتین سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔

    ایک سروے کے مطابق ترکی میں نوکری پیشہ خواتین میں سے 40 فیصد کو کم از کم ایک بار بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

  • پاک ترکی تجارت کو فروغ دیں گے، خرم دستگیر خان

    پاک ترکی تجارت کو فروغ دیں گے، خرم دستگیر خان

    اسلام آباد : وفاقی وزیر تجارت انجینئرخرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ مستقبل کے تجارتی معاہدات میں تحقیق، شفافیت اور ملکی مفاد کو مد نظر رکھا جائے گا ۔

    پاک ترکی آزاد تجارتی معاہدے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں گے اور تمام سیکٹروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے حتمی معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے۔

    اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستان ترکی ایک دوسرے کیلئے اپنی منڈیوں تک برابر رسائی فراہم کریں۔

    انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں مینوفیکچرنگ کا تحفظ اونچے ٹیرف سے نہیں بلکہ تجارتی دفاع کے قوانین کے ذریعے کیا جا رہا ہے ،۔

    دنیا کے تمام ممالک تجار ت میں اضافے کیلئے ٹیرف میں تیزی سے کمی لا رہے ہیں، اس معاہدے کے ذریعے پاکستان سے ٹیکسٹائل ،زرعی اجناس اور ڈیری اور لائیو سٹاک کی برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔

  • ترکی کی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی، 5 ارکان زخمی

    ترکی کی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی، 5 ارکان زخمی

    انقرہ: ترکی کی پارلیمنٹ اس وقت میدان جنگ میں تبدیل ہوگئی جب سیکورٹی بل پربحث کرتے ہوئےارکان ایک دوسرے سے گھتم گھتاہوگئے، ہاتھا پائی میں پانچ ارکان زخمی بھی ہوئے۔

    ترک پارلیمنٹ میں کرسیاں چل گئیں۔ سیکورٹی بل پربحث کرتے کرتے ارکان جذباتی ہوگئے اورکرڈالی ایک دوسرے کی تواضح وہ بھی لاتوں، گھونسوں اورمکوں سے۔ ہرکوئی اپنے مخالف کوزیرکرنے کی تابڑتوڑ کوشش میں مصروف نظرآیا۔

    ایک رکن نے تواپنے مخالف کو کرسی مارنے کی کوشش بھی کی جوکامیاب نہ ہوسکی، ہنگامہ آرائی سےپارلیمنٹ مچھلی بازار کامنظر پیش کرنےلگا۔

    جہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اوراسپیکر بھی بے بسی کی تصویربنے بیٹھے رہے، ہنگامہ آرائی اور دھکم پیل نے پانچ اراکین کو اسپتال پہنچا دیا ۔

  • ترکی کے وزیراعظم کل دوروزہ دورے پر پاکستان پہنچیں گے

    ترکی کے وزیراعظم کل دوروزہ دورے پر پاکستان پہنچیں گے

    اسلام آباد :ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو دوروزہ دورے پر کل پاکستان پنہچ رہے ہیں۔ ترک وزیراعظم کے وفد میں اہم کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں۔

    وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے مطابق ترک وزیراعظم احمد اوغلوکے ساتھ ترک وزرا، سینئرحکومتی ارکان اورکاروباری شخصیات پاکستان کا دورہ کریں گی۔

    ترک وزیراعظم احمداوغلوصدرممنون حسین اوروزیراعظم نوازشریف سے ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات اوراہم علاقائی اوربین الاقوامی امورپرتبادلہ خیال کریں گے۔ ترک وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ پاکستان ترک بزنس فورم میں شرکت کرینگے۔

  • آج سلطنتِ عثمانیہ کےعظیم تاجدار’سلیمانِ اعظم‘ کی سالگرہ ہے

    آج سلطنتِ عثمانیہ کےعظیم تاجدار’سلیمانِ اعظم‘ کی سالگرہ ہے

    کراچی (ویب ڈیسک) – سلطنت عثمانیہ کے عظیم ترین تاجدار سلیمان اعظم 6 نومبر 1494ء (900ھ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلیم اول دولت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے اور انکی والدہ کا نام عائشہ تھا۔ سلیم اول نے 8 سال تک (918ھ تا 926ھ) حکومت کی تھی۔ سلیمان نے اپنے والد سے 16سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے اپنے بیٹے کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سلیمان کی انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت جلا ملی جب انہیں مختلف صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے دادا سلطان بایزید ثانی کے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے مغنیسیا، ادرنہ اور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ سلیم اول نے جب ایران پر حملہ کیا تو سلیمان ہی نائب کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں موجود تھے۔

    سن 1520ء میں سلیم اول کے انتقال کے بعد عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سلیمان اول کے ہاتھوں میں آئی اور یہیں سے دولت عثمانیہ کے اس دور کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی خوشحالی، استحکام اور وسعت کے اعتبار سے یادگار ہے۔ سلیمان نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے جو کوشش کی وہ بلاشبہ لائق صد تحسین ہے ان کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ اس دور میں مسیحی و مغربی طاقتیں بیدار اور متحد ہورہی تھیں اور بڑی بڑی شخصیات عثمانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آگئی تھیں مثلا شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ اسپین، بیلجیئم، ہالینڈاور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔
    یہ یورپ کی بیداری کا زمانہ تھا۔ فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے اپنے اختلافات ختم کر لئے تھے اور مسیحی طاقت متحد ہونے کی فکر میں تھیں۔ چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 26 سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے اگرچہ درمیان میں مختصر وقفے بھی آئے لیکن جہاد کاجو جذبہ سلیمان کے سینے میں موجزن تھا اس نے انہیں آخر وقت تک میدان عمل میں مصروف رکھا حتی کہ جنگ کے دوران ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انہوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئی اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔

    سن 1521ء میں سلیمان نے ہنگری کے مشہور شہر بلغراد کو فتح کیا۔ بلغراد ایک انتہائی اہم شہر تھا جو دریائے ڈینوب پر اہل یورپ کا دفاعی مورچہ تھا۔1522ء میں رہوڈس کے جزیرہ کا محاصرہ کیا جو پانچ ماہ تک جاری رہا۔ اور جب سلیمان نے دیکھا کہ محصورین کی قوت مزاحمت ختم ہوچکی ہے تو سلطان نے انتہائی فراخ دلانہ شرائط کی پیشکش کی۔ اس نے اہل رہوڈس کو اس کی اجازت دے دی کہ بارہ دن کے اندر اپنے تمام اسلحہ اور سامان کے ساتھ اپنے جہازوں میں ہی جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اکثریت نے ترکوں کے ماتحت جزیرہ ہی میں رہنا منظور کیا۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ پانچ سال کے لیے ان کے ٹیکس معاف کردیے گئے۔ رہوڈس کی فتح کے بعد ’’بہادر نائٹوں‘‘ کی خاندانی روایات کی حامل ڈھالیں (جو ان کے مکانوں پر آویزاں تھیں) ویسے ہی لگی رہنے دی گئیں۔

    سن 1526ء میں سلیمانِ اعظم نے ہنگری کی جانب قدم بڑھایا جو اس کی فتوحات میں تیسرا بڑا محاذ تھا۔ ہنگری کو فوجی نقطۂ نظر سے عیسائیوں کی ایک مضبوط طاقت خیال کیا جاتا تھا۔ دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہنگری کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور ہنگری سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔1529ء میں سلیمان نے آسٹریا کی جانب پیش قدمی کی۔ آسٹریا جرمنی کی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔ سلیمان کے دور میں چارلس پنجم یورپ کا سب سے بڑا حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی فرڈیننڈ کو آسٹریا کا حکمران مقرر کیا ہوا تھا۔ ستمبر1529ء کو سلیمان اعظم آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی دیواروں تک پہنچ گیا۔آسٹریا نے ہر دسویں آدمی کو فوجی خدمت کے لیے طلب کرلیا۔ ہمسایہ ریاستوں سے امدادی دستے طلب کرلیے۔ شہرکے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ اپنے دفاع کو مزید تقویت دینے کے لیے شہر کے نواحی علاقے بھی تباہ کردیے تاکہ ترک ان علاقوں سے فائدہ اٹھاکرپایۂ تخت ویانا کو فتح نہ کرسکیں۔ لیکن آسٹریا والوں کی تمام دفاعی تیاریوں کے باجود سلیمان نے ویانا کا محاصرہ کرلیا۔ فرڈیننڈ محاصرے سے پہلے ہی فرار ہوگیا۔27ستمبر سے14اکتوبر1529ء تک ویا نا کا محاصر ہ جاری رہا۔اگرچہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر (ایک طویل عرصے سے جنگ میں مصروف رہنے، موسم کی شدت، ’’ینی چری‘‘ کی حکم عدولی اور اپنی قوت کو مزید ضائع ہونے سے بچانے کے لیے) سلیمان اعظم کو یہ محاصر ہ اٹھا ناپڑا لیکن اس کی فتوحات نے اب وسطی یورپ میں اپنی آخری حد مقرر کردی تھی۔

    سن 1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہوگئی جس میں عیسائیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انہیں گنٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود مردانہ وار افواج کی قیادت کے لئے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ زیگیٹوارکا محاصرہ 2 اگست 1565ء کو شروع ہوا اور 8 ستمبر تک جاری رہا اور قلعہ فتح ہوگیا اور اس وقت جب لشکر اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہورہا تھا لیکن سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انہیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیراعظم صوقوللی پاشانے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانے فوراًموقوف ہوگئے اور فضا سوگوار ہوگئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انہیں سپردخاک کیا گیا۔

  • کینیڈا میں داعش پرحملوں کے حق میں قرارداد منظور

    کینیڈا میں داعش پرحملوں کے حق میں قرارداد منظور

     اوٹاوا:کینیڈا کی پارلیمنٹ نے داعش پرفضائی حملوں کی قرارداد منظورکرلی،کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہارپرکا کہنا ہے اتحادیوں کےساتھ مل کرداعش کے خطرے کا سامنا کیا جائے گا۔

    غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق کینیڈا کی پارلیمنٹ میں شدت پسند تنظیم داعش پرحملوں کے خلاف ووٹنگ میں داعش پرحملوں کے حق میں ایک سوستاون اورمخالفت میں ایک سوچونتیس ووٹ ڈالے گئے۔

    کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہارپرنے کہا کہ داعش بین الاقوامی خطرہ ہے اورکینیڈا بھی اس سے محفوظ نہیں،شدت پسند تنظیم کے خاتمے کے لئے اتحادیوں کےساتھ مل کرکارروائی کریں گے،دوسری جانب ترکی میں داعش کے خلاف مظاہروں کے دوران پولیس سے جھڑپوں میں چودہ افراد ہلاک ہوگئے جس کے بعد تین شہروں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ۔