Tag: turtles

  • کچھوؤں کی گزرگاہ خطرے کا شکار

    کچھوؤں کی گزرگاہ خطرے کا شکار

    ویسے تو اس وقت تمام دنیا میں جنگلی و آبی حیات مختلف خطرات کا شکار ہے لیکن سمندر میں ایک راستہ جسے شارکس اور کچھوؤں کی آبی گزرگاہ کہا جاتا ہے، ختم ہونے کے قریب ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گلاپا گوس جزائر اور کوکوس جزیروں کے آس پاس سمندر کے نیچے سے ایک راستہ گزررہا ہے جسے شارک اور کچھوؤں کی آبی شاہراہ کہا جاتا ہے، لیکن یہ شاہراہ اب خطرے کا شکار ہے۔

    سمندری جانوروں کی یہ ہائی وے 750 کلومیٹر طویل ہے جس پر لیدر بیک اور سبز کچھوے کے علاوہ انواع و اقسام کی شارک بھی آتی جاتی رہتی ہیں، یہاں موجود مرجانی چٹانوں اور پہاڑیوں کو یہ جاندار بطور سنگ میل استعمال کرتے ہیں۔ بعض جانور یہاں رک کر کھانا کھاتے ہیں اور آرام بھی کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق سمندر کے نایاب ترین جاندار اس راستے پر آتے اور جاتے ہیں، لیکن یہاں کا سمندر کھلا ہے اور ماہی گیر ادارے اپنے جہاز اور کشتیاں لا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ حساس رہگزر شدید متاثر ہوسکتی ہے۔

    یہاں پر تحقیق کرنے والے ماہر ایلیکسا اس علاقے کو مکمل طور پر محفوظ قرار دینا چاہتے ہیں جس کا رقبہ 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر ہوگا یعنی برطانیہ کے رقبے کے برابر ہوسکتا ہے۔

    سمندر کے فرش پر سمندری پہاڑیوں کے ابھار ہیں جو ایک زمانے میں لاوا اگلتے تھے اور اب مقناطیسی سگنل خارج کرتے ہیں۔ ان کی مدد سے بعض جانور مثلاً ہیمرہیڈ شارکس اور سمندری کچھوے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ علاقہ ان بے زبان جانورں کے لیے ایک سنگ میل فراہم کرتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ اس اہم آبی راہگزر کو بچانے کی ضرورت ہے۔

  • ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    کیا آپ جانتے ہیں مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے تاہم ان انڈوں میں سے نکلنے والا صرف ایک بچہ ہی زندہ رہ پاتا ہے اور طویل عمر پاتا ہے؟

    ان ننھے بچوں کو انڈوں سے نکلنے کے بعد اپنی بقا کی جدوجہد خود ہی کرنی ہوتی ہے جس میں اکثر یہ اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    مادہ کچھوا ساحل پر ایک گڑھے میں انڈے دینے کے بعد اس گڑھے کو ڈھانپ کر چلی جاتی ہے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آتی، وقت پورا کرنے کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں، اب ان بچوں کو سمندر تک پہنچنا ہوتا ہے اور یہ ان کے لیے خطرناک چیلنج ہوتا ہے۔

    سمندر تک پہنچنے کے راستے میں ساحل پر موجود مختلف جانور اور پرندے ان بچوں کی تاک میں ہوتے ہیں۔ ساحل پر پھرتے آوارہ کتے اور کوے باآسانی ان ننھے بچوں کو پکڑ لیتے ہیں اور انہیں کھا جاتے ہیں۔

    اسی طرح ساحل پر موجود کیکڑے بھی گو کہ جسامت میں ننھے کچھوؤں سے چھوٹے ہی ہوتے ہیں تاہم یہ نومولود بچوں کے مقابلے میں طاقتور ہوتے ہیں اور آرام سے انہیں کھینچ کر اپنے بل میں لے جاسکتے ہیں۔

    ننھے کچھوے ان کیکڑوں سے جان چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کھینچا تانی میں کبھی وہ ناکام ہوجاتے ہیں اور کبھی کامیاب۔

    ایسے موقع پر اگر ساحل پر کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    سمندر تک پہنچنے کے بعد بھی کم گہرے پانی میں کوئی چیل غوطہ لگا کر انہیں اپنے پنجوں میں دبا کر لے جاتی ہے۔ اپنے انڈے سے نکلنے کے بعد جب یہ کچھوے سمندر تک پہنچتے ہیں تو ان کی تعداد بہ مشکل ایک یا دو ہوتی ہے۔

    ننھے کچھوؤں کی اس ساری جدوجہد کو آپ بی بی سی کی اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق خطرات کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں

  • اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی وہیل مچھلی

    اپنے بچوں کو شکار کرنا سکھاتی وہیل مچھلی

    وہیل کی ایک قسم اورکا سمندر میں اپنے بچے کو کچھوے کا شکار کرنا سکھا رہی ہے جس کی ویڈیو نے جنگلی حیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب راغب کرلیا۔

    نیشنل جیوگرافک کی جانب سے جاری کی جانے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اورکا اپنے شکار یعنی کچھوے کے پیچھے جارہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ وہیل اپنے ننھے بچوں کو کچھوؤں کا شکار کرنا سکھا رہی ہے۔

    یہ ویڈیو فرانس سے تعلق رکھنے والے میرین سائنس کے 2 طلبا نے بنائی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہیل تقریباً آدھے گھنٹے تک کچھوے کو گول گول گھماتی رہی اور بعد ازاں اسے ہڑپ کرلیا۔

    اس طرح سے وہ اپنے بچوں کو زندگی بچانے کی تکنیک بھی سکھا رہی تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کو مختلف عادات سکھانے کی تربیت چند ہی جانور دیتے ہیں اور وہیل ان میں سے ایک ہے۔

    اورکا بہت کم کچھوؤں کا شکار کرتی ہے تاہم اس کے جبڑے کچھوؤں کی پشت کا مضبوط خول توڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

  • کراچی سے نایاب نسل کے 62 کچھوے برآمد

    کراچی سے نایاب نسل کے 62 کچھوے برآمد

    کراچی: ورلڈ وائلڈ لائف پاکستان اور سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی مشترکہ ٹیم نے نایاب نسل کے 62 کچھوے بچالئے۔

    تفصیلات کے مطابق نایاب نسل کے کچھوے کراچی کے علاقے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع ای بی ایم کاژوے سےبرآمد کئے گئے۔

    وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کےمطابق 62 کچھوے زندہ پکڑے گئے جبکہ 25 مردہ حالت میں پائے گئے جو کہ ممکنہ طور پر گاڑیوں کے نیچے آکر کچلے گئے تھے۔

    کچھووں کو کیرتھر نیشنل پارک میں واقع حب ڈیم مین میں چھوڑدیا گیا ہے۔

    وائلڈ لائف ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ نسل کے نایاب کچھوے کراچی میں نہیں پائے جاتے اور یقینی طور پر نایاب جانوروں کی اسمگلنگ کرنے والوں نے سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی سخت نگرانی سے عاجز آکر رات کے اندھیرے میں انہیں یہاں چھوڑدیا۔

    برآمد کئے گئے کچھووں میں نایاب نسل کے افغان کچھوے اور بلیک پونڈ کچھوے شامل ہیں۔

    کچھوے جس جگہ سے پکڑے گئے ہیں وہاں سے کچھوے رکھنے کے لئے جوٹ کے بنے ہوئے تھیلے بھی ملے ہیں۔

  • لاہور: نایاب اور قیمتی کچھوؤں کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام

    لاہور: نایاب اور قیمتی کچھوؤں کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام

    لاہور : کسٹم حکام نے لاہورعلامہ اقبال ائیر پورٹ پر نایاب کچھوؤں کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق چھوٹے بڑے 120نایاب انتہائی قیمتی کچھوے پاکستان سے اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنادی گئی، لاہورعلامہ اقبال ائیرپورٹ پر کسٹم حکام نے کامیاب کارروائی کرکے بنکاک جانے والے مسافر کے بیگ سے ایک سو بیس نایاب کچھوے برآمد کرلئے۔

    بیگ میں موجود کچھوو ں کو ٹیپ کی مدد سے باندھا ہوا تھا۔ کسٹم حکام نے کچھو ے وائلڈ لائف کے حوالے کردیئے اور  بکنگ کرانیوالی کمپنی کیخلاف غیر قانونی طور پر اسمگلنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

    کسٹم حکام کا کہنا ہےکہ کچھوؤں کی اسمگلنگ میں ملوث اصل ملزمان تک پہنچنے کیلئے ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ اس سے پہلے بھی لاہور ایئرپورٹ پر سو کے قریب کچھوے اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنائی گئی تھی۔