Tag: UK election 2015

  • نئی برطانوی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس 18مئی کو ہوگا

    نئی برطانوی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس 18مئی کو ہوگا

    لندن :برطانیہ میں عام انتخابات کے بعد نئی کابینہ کی تشکیل کیلئے صلاح مشورے جاری ہیں، کنزرویٹوپارٹی نے عام انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرلی ہے۔ پارلیمنٹ کا افتتاحی اجلاس اٹھارہ مئی کوہوگا۔

    برطانیہ میں چھ سو پچاس نشستوں پر مشتمل دارالعوام کے لئے عوام نے نمائندے منتخب کرلئے، کنزرویٹوپارٹی تین سواکتیس نشستیں جیت کر ایک بار پھرحکومت بنائے گی ۔

    کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ ڈیوڈ کیمرون نے انتخابات جیتنے کے فورا بعد سابقہ کابینہ کے چاراہم وزیروں کو نئی کابینہ میں بھی رکھنے کا اعلان کیا ہے، ان میں وزیر خزانہ جارج اوسبورن، وزیرداخلہ تھریسا مے، وزیرخارجہ فلپ ہیمنڈاوروزیردفاع مائیکل فیلن شامل ہیں۔

    نئی برطانوی پارلیمنٹ کا افتتاحی اجلاس اٹھارہ مئی کو ہوگا، نئی پارلیمنٹ میں خواتین اور نسلی اقلیتوں کی نمائندگی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ خواتین ارکان کی تعداد ایک سوتینتالیس سے بڑھ کرایک سواکیانوے ہوگئی ہے جبکہ نسلی اقلیت کے نمائندوں کی تعدادستائیس سے بیالیس ہوگئی۔

    اپوزیشن جماعتوں کے رہنما ایڈ ملی بینڈ، نک کلیگ اور نائجل فیراج نے انتخابات میں ناکامی کے بعد استعفی دے دیا ہے اور یہ جماعتیں نئے رہنما منتخب کریں گی جو حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گے۔

  • خواتین سمیت 10پاکستانی نژاد برطانوی پارلیمان کا حصہ بن گئے

    خواتین سمیت 10پاکستانی نژاد برطانوی پارلیمان کا حصہ بن گئے

    برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں پانچ خواتین سمیت دس پاکستانی نژاد برطانوی پارلیمنٹ میں پہنچنے میں کامیاب رہے، زیادہ ترامیدوار پہلے بھی ایوان کے رکن رہ چکے ہیں۔

    برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں پانچ خواتین سمیت دس پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں نے بھی نشستیں حاصل کیں۔

    تسمینہ احمد شیخ

    اسکاٹش نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والی پاکستانی نژاد تسمینہ احمد شیخ پرتھ شائر سے کامیاب ہوگئی ہیں، تسمینہ احمد شیخ نے 26 ہزار 620 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔

    تسمینہ شیخ 1970ء میں لندن میں پیدا ہوئی اور ایڈنبرا میں پلی بڑھیں ہیں، وہ اسکاٹ لینڈ کی معروف کاروباری خاتون اور وکیل ہیں۔

    انھیں شاہی اعزاز ‘او بی ای’ اور ‘وومن آف دا ایئر’ کے اعزاز بھی مل چکے ہیں ، انھیں پاکستان ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل ہے

    ناز شاہ

    برطانوی شہر بریڈفرڈ سے دو پاکستانی نژاد امیدوار عمران حسین اور ناز شاہ لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں۔

    بریڈ فورڈ ویسٹ سے ناز شاہ نے رسپیکٹ پارٹی کے مشہور سیاست دان جارج گیلووے کو شکست دیدی ہے۔

    بریڈ فورڈ ویسٹ سے ناز شاہ نے رسپیکٹ پارٹی کے مشہور سیاست دان جارج گیلووے کو شکست دیدی ہے۔

    نازشاہبریڈ فورڈ مینٹل ہیلتھ کی وائس چیئر اور ذہنی معذوروں کے حقوق کی وکالت کرتی ہیں، اکتالیس سالہ ناز شاہ تین بچوں کی سنگل ماں ہیں جبکہ انتخابی مہم کے دوران ناز شاہ کو لیبر کے اہم سیاستدانوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔

    عمران حسین

    برطانوی شہر بریڈفرڈ سے پاکستانی نژاد عمران حسین لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوگئے ہیں۔

     پاکستانی نژاد عمران حسین مغربی یورکشائر میں بریڈ فورڈ ایسٹ سے لیبر کے نامزد امیدوار ہیں، انھوں نے وکالت کی ڈگری حاصل کی ہے ، اس حلقے میں عمران حسین کا لب ڈیموکریٹ کے امیدوار کے ساتھ مقابلہ تھا،  جو پچھلے انتخابات میں لیبر کے امیدوار کے مقابلے میں معمولی اکثریت سے کامیاب قرار پائے تھے۔

    یاسمین قریشی

    بولٹن سے پاکستانی نژاد یاسمین قریشی کو فتح حاصل ہوئی۔

    لیبر پارٹی کی یاسمین قریشی بولٹن ساؤتھ ایسٹ سے 20 ہزار 555 ووٹ لیکر کامیاب ہوئیں۔

       صادق خان


    برطانوی تاریخ کے سب سے پہلے پاکستانی نژاد وزیر ٹرانسپورٹ اور لندن کے علاقے ٹوئنگ سے تعلق رکھنے والے صادق خان نے بھی حالیہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔

    لندن میں ٹوٹنگ کے علاقے سے لیبر پارٹی کے صادق خان دوبارہ دارالعوام کے رکن بننے میں کامیاب رہے ہیں۔ پاکستانی نژاد صدیق خان 25 ہزار 263 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

    صادق خان کا شمار برطانیہ کے سینئیر سیاستدانوں میں ہوتا ہے وہ شیڈو جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں، بعد میں انھیں شیڈو منسٹر فار لندن کے عہدے پر فائز کیا گیا ان کے والد بس ڈرائیور تھے جبکہ صادق خان نے اپنی محنت اور لگن سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔

    خالد محمود

    برمنگھم پیری بار کے حلقے سے لیبر پارٹی کے خالد محمود جیتے ، جنہوں نے جنہوں نے 23 ہزار 967 ووٹ حاصل کیے۔

    شبانہ محمود

     برمنگھم لیڈی ووڈ سے لیبر پارٹی کی شبانہ محمود نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی ۔

    ساجد جاوید

    برومز گرو سے کنزرویٹو پارٹی کے ساجد جاوید کامیاب ہوئے۔

    رحمان چشتی

    کنزرویٹو پارٹی کے رحمان چشتی ایک بار پھر الیکشن جیت گئے۔

    نصرت غنی

     نصرت غنی کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر ویلڈن سے منتخب ہوئیں، انہوں نے 32 ہزار 508 ووٹ حاصل کیے۔

    نصرت غنی ایک عرصے سے ٹوری جماعت کے ساتھ ہیں، وہ اپنے خاندان کی واحد خاتون ہیں جنھوں نے لیڈز یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔

    نصرت غنی برمنگھم سے پچھلے انتخابات میں بھی حصہ لے چکی ہیں جبکہ نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ بھی کام کرچکی ہے۔

  • برطانوی انتخابات، کنزرویٹو پارٹی فاتح، ڈیوڈ کیمرون ایک بار پھر وزیرِاعظم

    برطانوی انتخابات، کنزرویٹو پارٹی فاتح، ڈیوڈ کیمرون ایک بار پھر وزیرِاعظم

    لندن: برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے تین سوپچیس نشستیں جیت کر اکثریت حاصل کرلی، کنزرویٹو پارٹی کی حریف لیبرپارٹی کو بڑے مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    برطانوی پارلیمانی انتخابات کا نتیجہ آگیا، حکمرانی کا تاج ایک بار پھر کنزرویٹوپارٹی کے قائدین کے سر پر سجے گا، ڈیوڈکیمرون کی دوبارہ ٹین ڈاؤؤننگ اسٹریٹ کے وزیراعظم ہاؤس میں واپسی ہوگی ۔

    کانٹے کے مقابلے کی امید کے باوجود لیبرپارٹی عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ کنزرویٹو پارٹی کی کامیابی کا گراف بلند ہوا اور وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔

    لیبرپارٹی کے ایڈملی بینڈ اپنی نشست بچانے میں کامیاب رہے لیکن پارٹی کی شکست کومایوس کن قراردیا۔

    اسکاٹش نیشنل پارٹی نے انسٹھ نشستوں میں سے چھپن نشستیں جیت کرتاریخی کامیابی حاصل کی۔

    کنزرویٹو پارٹی نے دوہزاردس کے الیکشن میں تین سوسات نشستیں جیتی تھیں اورلبرل ڈیموکریٹس کو ساتھ ملا کر پانچ سال حکومت کی، جبکہ لیبرپارٹی نے دوسواٹھاون نشستیں جیتیں تھیں۔

  • پاکستانی ہونے پر فخر ہے، ناز شاہ

    پاکستانی ہونے پر فخر ہے، ناز شاہ

    بریڈ فوڈ: برطانوی الیکشن میں بریڈفورڈ سے انتخاب جیتنے والی نازشاہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی ہونے پرفخر ہے۔ خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا میرا مقصد ہے۔

    برطانیہ کے انتخابات میں کامیابی پانے والے پاکستانی نژادبرطانوی شہریوں میں نمایاں نام نازشاہ کا ہے۔ لیبرپارٹی کی نازشاہ نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی جہاں بھی ہوں، اچھے کاموں کے ذریعے ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں، پاکستانی ہونے پرفخر ہے۔

    نازشاہ نے منجھے ہوئے سیاستدان جارج گیلوے کوبریڈ فورڈ میں شکست دی۔

    نازشاہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچپن میں کافی مشکلات سہیں، ان کی والدہ کو قتل کے جرم میں چودہ سال قید کی سزا کاٹنی پڑی، جس نے ان کی شخصیت کو تبدیل کردیا۔ پندرہ سال کی عمر میں جبری شادی کردی گئی، تمام ناموافق حالات سے گزر کر بھی ہمت نہیں ہاری۔

    نازشاہ کا کہنا ہے کہ ہرتکلیف نے انہیں اسٹیٹس کو کے خلاف لڑنے کے لئے طاقت دی، نازشاہ کا کہنا ہے میری والدہ چاہتی تھیں کہ خواتین خصوصاًجیل میں قید خواتین کے لئے کام کروں، ظلم ونا انصافی کے خلاف کام کرتی رہوں گی۔

  • برطانوی الیکشن ، 5 پاکستانی امیدوار بھی کامیاب

    برطانوی الیکشن ، 5 پاکستانی امیدوار بھی کامیاب

    لندن: برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات میں 60 پاکستانی نژاد برطانوی امیدواروں نے بھی حصہ لیا۔

    نتائج کے مطابق پانچ پاکستانیوں نے فتح  حاصل کرلی ہے، جن میں نازشاہ ، عمران حسین ، تسمینہ شیخ ، یاسمین قریشی اور صادق خان شامل ہیں جبکہ سابق گورنر پنجاب کے بیٹے انس سرور کو شکست ہوئی۔

    تسمینہ احمد شیخ

    اسکاٹش نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والی پاکستانی نژاد تسمینہ احمد شیخ پرتھ شائر سے کامیاب ہوگئی ہیں، تسمینہ احمد شیخ نے 26 ہزار 620 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔

    تسمینہ شیخ 1970ء میں لندن میں پیدا ہوئی اور ایڈنبرا میں پلی بڑھیں ہیں، وہ اسکاٹ لینڈ کی معروف کاروباری خاتون اور وکیل ہیں۔

    انھیں شاہی اعزاز ‘او بی ای’ اور ‘وومن آف دا ایئر’ کے اعزاز بھی مل چکے ہیں ، انھیں پاکستان ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل ہے

    ناز شاہ

    برطانوی شہر بریڈفرڈ سے دو پاکستانی نژاد امیدوار عمران حسین اور ناز شاہ لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں۔

    بریڈ فورڈ ویسٹ سے ناز شاہ نے رسپیکٹ پارٹی کے مشہور سیاست دان جارج گیلووے کو شکست دیدی ہے۔

    بریڈ فورڈ ویسٹ سے ناز شاہ نے رسپیکٹ پارٹی کے مشہور سیاست دان جارج گیلووے کو شکست دیدی ہے۔

    نازشاہبریڈ فورڈ مینٹل ہیلتھ کی وائس چیئر اور ذہنی معذوروں کے حقوق کی وکالت کرتی ہیں، اکتالیس سالہ ناز شاہ تین بچوں کی سنگل ماں ہیں جبکہ انتخابی مہم کے دوران ناز شاہ کو لیبر کے اہم سیاستدانوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔

    عمران حسین

    برطانوی شہر بریڈفرڈ سے پاکستانی نژاد عمران حسین لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوگئے ہیں۔

     پاکستانی نژاد عمران حسین مغربی یورکشائر میں بریڈ فورڈ ایسٹ سے لیبر کے نامزد امیدوار ہیں، انھوں نے وکالت کی ڈگری حاصل کی ہے ، اس حلقے میں عمران حسین کا لب ڈیموکریٹ کے امیدوار کے ساتھ مقابلہ تھا،  جو پچھلے انتخابات میں لیبر کے امیدوار کے مقابلے میں معمولی اکثریت سے کامیاب قرار پائے تھے۔

    یاسمین قریشی

    بولٹن سے پاکستانی نژاد یاسمین قریشی کو فتح حاصل ہوئی۔

    لیبر پارٹی کی یاسمین قریشی بولٹن ساؤتھ ایسٹ سے 20 ہزار 555 ووٹ لیکر کامیاب ہوئیں۔

       صادق خان


    برطانوی تاریخ کے سب سے پہلے پاکستانی نژاد وزیر ٹرانسپورٹ اور لندن کے علاقے ٹوئنگ سے تعلق رکھنے والے صادق خان نے بھی حالیہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔

    لندن میں ٹوٹنگ کے علاقے سے لیبر پارٹی کے صادق خان دوبارہ دارالعوام کے رکن بننے میں کامیاب رہے ہیں۔ پاکستانی نژاد صدیق خان 25 ہزار 263 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

    صادق خان کا شمار برطانیہ کے سینئیر سیاستدانوں میں ہوتا ہے وہ شیڈو جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں، بعد میں انھیں شیڈو منسٹر فار لندن کے عہدے پر فائز کیا گیا ان کے والد بس ڈرائیور تھے جبکہ صادق خان نے اپنی محنت اور لگن سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔

    انس سرور

    اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں لیبر پارٹی کے امیدوار اور سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کے صاحبزادے انس سرور کو شکست ہوگئی۔

    سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے بیٹے انس سرور سمیت 14 پاکستانی نژاد امیدواروں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

  • برطانوی انتخابات،  ڈیوڈ کیمرون کے ایک بار پھر وزیراعظم بننے کا امکان

    برطانوی انتخابات، ڈیوڈ کیمرون کے ایک بار پھر وزیراعظم بننے کا امکان

    برطانیہ : برطانوی وزارت عظمٰی کا سہرا کس کے سر سجے گا فیصلہ آج ہو جائے گا، عام انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے، اب تک  650میں سے 495 حلقوں کے نتائج کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

    نتائج کے مطابق اس وقت کنزرویٹو پارٹی 215 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے ہے جبکہ اس کی روایتی حریف لیبر پارٹی نے 197 نشستیں جیتی ہیں، وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون اپنےحلقے سے کامیاب ہوگئے۔

    برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج میں ایک بارپھرکنزرویٹوپارٹی سبقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور توقع ہے کہ ڈیوڈکیمرون کے ایک بارپھروزیراعظم بننے کے امکانات ہیں۔

    برطانوی دارالعوام میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک بار پھرراج کرنے کے امکانات واضح ہیں۔ نزرویٹو پارٹی کے رہنما ڈیوڈ کیمرون بھی منتخب ہوگئے ہیں اوران کے دوسری بار وزیرِ اعظم بننے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

    انتخابی نتائج کے مطابق نکولا اسٹرجن کی اسکاٹش نیشنل پارٹی ایک بڑی پارٹی کی حیثیت سےابھر کر سامنے آئی ہے، اسکاٹش نیشنل پارٹی کی کارکردگی نے نقادوں اورتجزیہ کاروں کو حیران کردیا ہے۔

    ایڈ ملی بینڈ کی جماعت کو اسکاٹ لینڈ میں بھی  جھٹکا لگا، وہاں اس کی حریف اور برطانیہ سے آزادی کی حامی کی اسکاٹش نیشنل پارٹی اب تک 54 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے، ان میں سے 40 ایسی نشستیں بھی ہیں جن پر گذشتہ الیکشن میں لیبر پارٹی جیتی تھیں۔

    لیبرپارٹی کے سربراہ خود تو انتخاب جیت گئے لیکن اپنی پارٹی کے لئے نتائج کو مایوس کن قراردیا۔

    دوہزاردس میں کنزرویٹو کے ساتھ حکومت میں شامل لبرل ڈیموکریٹس کے لئے الیکشن ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے اوروہ گذشتہ انتخابات میں جیتنے والی سینتیس نشستیں گنوا بیٹھی۔ حکومت بنانے کے لئے کسی بھی جماعت کو تین سوچھبیس نشستیں جیتنا ضروری ہیں

    گزشتہ روز برطانیہ میں صبح سات بجے سے رات دس بجے تک پولنگ ہوئی تھی، پاکستانی وقت کے مطابق رات دوبجے پولنگ کا وقت ختم ہوا اور ایک گھنٹے بعد پہلا نتیجہ لیبرپارٹی کے حق میں آیا۔

    دارلعوام کے چھ سو پچاس ارکان کے چناؤ کیلئے ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، ساڑھے چار کروڑ ووٹرز کیلئے پچاس ہزارسے زائد پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے، لیبراور کنزرویٹوپارٹی کےدرمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔

    دارلعوام کی چھ سو پچاس نشتوں پر تین ہزار نوسو اکہتر امیدواروں میں ایک ہزار بائیس خواتین نے بھی قسمت آزمائی کی، برطانیہ میں پہلی بار عوام نے آن لائن ووٹنگ کےزریعے اپناووٹ کاسٹ کیا۔

     ایگزٹ پول کے نتائج کے مطابق کنزرویٹو پارٹی تین سو سولہ، لیبر پارٹی دوسو انتالیس ، لبرل ڈیموکریٹس دس، ایس این پی اٹھاون اور یو کے آئی پی کی دونشتوں پر جیتنے کا امکان ہے۔

    برطانیہ میں کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت حاصل کرنےمیں ناکام رہی، نتائج مکمل ہوتے ہی مخلوط حکومت کی جوڑتوڑکےلئے اتحادیوں کی تلاش شروع ہوگی۔

    ماہرین ایگزٹ پول کے نتائج کو حیران کن قرار دے رہے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے پول نتائج پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    برطانوی الیکشن میں اسکاٹش نیشنل پارٹی کی 20 سالہ امیدوار میری بلیک بھی کامیاب ہوئی ہیں جو کہ 1667 کے بعد دارالعوام کی سب سے کم عمر رکن ہوں گی۔

    اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں لیبر پارٹی کے امیدوار اور سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کے صاحبزادے انس سرور کو بھی شکست ہوئی ہے۔

    اسکاٹش نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والی پاکستانی نژاد تسمینہ احمد شیخ پرتھ شائر سے کامیاب ہوگئی ہیں۔

    برطانوی شہر بریڈفرڈ سے دو پاکستانی نژاد امیدوار عمران حسین اور ناز شاہ لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں۔ ناز شاہ نے رسپیکٹ پارٹی کے مشہور سیاست دان جارج گیلووے کو شکست دیدی ہے۔

    اس کے علاوہ بولٹن سے یاسمین قریشی کو فتح حاصل ہوئی جبکہ لندن میں ٹوٹنگ کے علاقے سے لیبر پارٹی کے صادق خان دوبارہ دارالعوام کے رکن بننے میں کامیاب رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کے موجودہ وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو جماعت نے 2010 کے الیکشن میں 307 نشستیں جیتی تھیں اور انھوں نے لبرل ڈیموکریٹس کو ساتھ ملا کر پانچ سال حکومت کی۔

    لیبر پارٹی نے 2010 کے انتخابات میں 258 نشستیں جیتیں تھیں لیکن اس بار اسے پہلے سے بھی کم نشتیں ملنے کا امکان ہے۔

  • برطانیہ: پارلیمانی انتخابات، 159 ایشیائی باشندے امیدوار

    برطانیہ: پارلیمانی انتخابات، 159 ایشیائی باشندے امیدوار

    لندن : برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں ساٹھ پاکستانیوں سمیت مجموعی طورپرایک سوانسٹھ ایشیائی باشندے امیدوار ہیں ۔

    برطانوی دارالعوام تک رسائی کے لئے ساٹھ پاکستانیوں سمیت ایک سوانسٹھ ایشیائی امیدوار میدان میں ہیں، بائیس امیدوار بڑی پارٹیوں سے ہیں جبکہ باقی چھوٹی پارٹیوں سمیت آزاد امیدوار کے طورپرانتخاب لڑ رہے ہیں۔

    کنزرویٹو پارٹی 36 ایشیائی امیدواروں کی نمائندگی کرنے والی سب سے بڑی جماعت ہے،  لیبر پارٹی 34 جبکہ لبرل ڈیمو کریٹس 32 ایشیائی امیدواروں کی نمائندگی کرے گی۔

    امیگریشن کی مخالف جماعت نے 21 ایشیائی امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ 8 ایشین امیدوار گرین پارٹی کی نمائندگی جبکہ آزادانہ الیکشن لڑنے والوں کی فہرست میں صرف 5 ایشیائی امیدوار شامل ہیں، ایشیا سے تعلق رکھنے والے 22 امیدوار ایسے ہیں جو برطانیہ کی چھوٹی جماعتوں کی نمائندگی کریں گے۔

    سابق گورنرپنجاب چوہدری سرور کے بیٹے انس سرور گلاسگو سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ انکا مقابلہ اسکاٹش نیشنل پارٹی سے ہیں۔

    لندن سے صادق خان امیدوار ہیں ۔

    آمنہ احمد جنوبی لندن کے انتخابی حلقے اسٹریتھم سے حکومت کی اتحادی جماعت لبرل ڈیموکریٹ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔


    آمنہ مقامی سوشل ورکر اور لائبریری میں خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے۔ ان کا بچپن فوسٹر اسکول میں گزرار ہے۔

    برمنگھم میں خالد محمود اورشبانہ محمود مخالفین کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے ۔

    بریڈ فورڈ میں نازشاہ اور جارج گیلوے کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

    نازشاہبریڈ فورڈ مینٹل ہیلتھ کی وائس چیئر اور ذہنی معذوروں کے حقوق کی وکالت کرتی ہیں، اکتالیس سالہ ناز شاہ تین بچوں کی سنگل ماں ہیں جبکہ انتخابی مہم کے دوران ناز شاہ کو لیبر کے اہم سیاستدانوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔

    نتاشہ اصغر کنزرویٹیو کی نتاشہ اصغر نیو پورٹ ایسٹ سے امیدوار نامزد کی گئی ہیں، لیبر کی رکن پارلیمنٹ جیسیکا مورڈ انکے مدِ مقابل ہیں، نتاشہ لندن میں بینک میں ملازم ہیں، اس اس سے پہلے وہ کئی ایشین ٹی وی چینل پر میزبانی کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں۔

    نتاشہ اصغر 2009ء کی یورپین پارلیمنٹ کی امیدوار بھی رہی ہیں جبکہ ویلش پارلیمانی انتخابات میں دو بار حصہ لیا ہے۔

    ساجد جاوید ووسٹرشائرسے امیدوار ہیں۔

    تسمینہ احمد شیخ اسکاٹش نیشل پارٹی کی امیداوار ہیں، ان کے مدمقابل امیدواروں میں لیبر کے مضبوط امیدوار گورڈن بینک اور اسکاٹش کنزرویٹو کے امیدوار لیوک میٹرک گراہم ہیں۔

    تسمینہ شیخ 1970ء میں لندن میں پیدا ہوئی اور ایڈنبرا میں پلی بڑھیں ہیں، وہ اسکاٹ لینڈ کی معروف کاروباری خاتون اور وکیل ہیں۔

    انھیں شاہی اعزاز ‘او بی ای’ اور ‘وومن آف دا ایئر’ کے اعزاز بھی مل چکے ہیں ، انھیں پاکستان ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل ہے

    انتخابات میں چھیانوے مسلمان امیدوار ہیں، ان میں سے چوبیس لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے، بائیس لیبر پارٹی اورانیس کنزرویٹوپارٹی کے امیدوار ہیں، یوکے انڈیپینڈنٹ پارٹی کے دس امیدوار ہیں۔

  • برطانیہ: پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری

    برطانیہ: پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری

    لندن: برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری ہے، چھپن ویں پارلیمنٹ کے انتخاب کیلئے رجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد پانچ کروڑ ہے۔

    مقامی وقت کے مطابق ووٹنگ صبح سات بجے شروع ہوئی، جو بغیر کسی وقفے کے رات دس بجے تک جاری رہے گی، پانچ کروڑ اہل ووٹرز کے لئے ملک بھر میں پچاس ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔

    پہلی بار برطانیہ میں آن لائن ووٹ ڈالنے کیلئے بھی رجسٹریشن ہوئی، انتخابات میں چھ سو پچاس نمائندے چنے جائیں گے، برطانوی آئین کے مطابق ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان کےافراد ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔

    انتخابات میں حصہ لینے والی اہم پارٹیوں میں ڈیوڈ کیمرون کی لیبر پارٹی، ایڈملی بینڈ کی کنزرویٹو پارٹی، نک کلیگ کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اورنائیجل فراج کی یوکے انڈیپینڈنٹ پارٹی نمایاں ہیں تاہم لیبرپارٹی اور کنزرویٹو پارٹٰی میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔

    سیاسی جماعتوں کو حکومت بنانےکے لئے تین سوچھبیس نشستیں جیتنا ضروری ہے۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق کوئی موجودہ صورتحال میں کوئی بھی ضماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی گی، مخلوط حکومت کے قیام کے زیادہ امکانات ہیں۔

    انتخابات کے مکمل نتائج جمعے تک متوقع ہیں، برطانیہ کے موجودہ وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو جماعت نے دو ہزار دس کے الیکشن میں تین سو سات نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

    برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی 650 نشستوں کے لیے انتخابی تاریخ کا سخت ترین مقابلہ متوقع ہے، برطانیہ کی چار ریاستوں انگلینڈ، آئرلینڈ ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں چار کروڑ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرینگے، ایک امیدوار کو انتخابی مہم میں تیس ہزار سات سو پاؤنڈ خرچ کرنے کی اجازت ہے، عام انتخابات میں ایشین نژاد شہریوں کے ووٹ کی اہمیت بڑھ گئی ہیں۔

    چھپن ویں انتخابات میں پانچ نمایاں سیاسی جماعتیں کنزرویٹو یعنی ٹوری پارٹی، لیبر پارٹی، لبرل ڈیموکریٹ پارٹی، اسکاٹش نیشنل پارٹی اور یوکے انڈیپینڈنس پارٹی حصہ لے رہی ہیں، 2010 میں کنزرویٹوپارٹی نے 307 نشستیں لے کر 57 نشستوں والی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ پانچ سال کے لئے اتحادی حکومت بنائی تھی جبکہ لیبرپارٹی نے 258 اور نیشنل اسکاٹش پارٹی نے 6 نشستیں حاصل کی تھیں۔

    وزیراعظم کیمرون کو معیشت کی بحالی، 20 لاکھ نئی نوکریوں کے مواقع پیدا کر نے، عام آدمی کے لیے اپنا گھر اسکیم، پہلی اقلیتی مسلم خاتون کی کابینہ میں شمولیت، کم از کم تنخواہ میں اضافہ سمیت ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے بل کی وجہ سے برتری حاصل ہے جبکہ ویلفیئر اخراجات میں کٹوتی، یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف ٹھوس مؤقف اور ہیومن رائٹس ایکٹ بل پر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

    ان انتخابات میں سب سے کم عمر امیدوار بیس سالہ خاتون مہیری بلیک ہیں جبکہ عمررسیدہ امیدوار چوراسی سالہ جیرالڈکوف مین ہیں، جو بارہویں بارانتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، ان امیدواروں میں چھبیس فیصد امیدوار خواتین ہیں، انتخابات میں حصہ لینے والے اکتیس فیصد امیدواروں نے نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے، انیس سو اکتیس کے بعد پہلی بار جمعرات کے دن انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

  • برطانوی انتخابات: مسلم خواتین امیدوار بھی میدان میں

    برطانوی انتخابات: مسلم خواتین امیدوار بھی میدان میں

    لندن: برطانیہ کے عام انتخابات میں کئی نئے چہرے پارلیمان کا حصہ بنیں گے، ان نئے چہروں میں کئی مسلم خواتین کے شامل ہونے کا بھی امکان ہے۔

    برطانیہ میں عام انتخابات کا دن آہی گیا، کئی نئے چہرے پارلیمان کا حصہ بنیں گے، ان نئے چہروں مٰیں مسلم خواتین کی بھی شامل ہیں، جو کامیابی کی صورت میں برطانوی پارلیمنٹ کی رکن بن جائیں گی۔

    امینہ لون لنکا:

     امینہ لون لنکا شائر سے لیبر کی نامزد امیدوار ہیں، ان کا مقابلہ کنزرویٹو کے مضبوط امیدوار ڈیوڈ تھامس مورس سے ہے۔

    امینہ لون پچھلے 20 سالوں سے کمیونٹی خدمات کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ سوشل ایکشن ریسرچ فاونڈیشن کی شریک ڈائریکٹر ہیں۔ تینتالیس سالہ امینہ نے برمنگھم میں ایک پاکستانی گھرانے میں آنکھ کھولی، وہ چار بچوں کی والدہ اور سنگل ماں ہیں۔

    امینہ مانچسٹر میں رہائش پذیر ہیں، جہاں وہ مقامی کونسلر کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔

    ڈاکٹر روپا حق

    ڈاکٹر روپا حق کے مدِ مقابل کنزرویٹیو کی انجی برے ہیں، اس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

    چالیس سالہ روپا حق کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، انھوں نے یونیورسٹی آف ایسٹ لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور وہ کنزنگٹن یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی پروفیسر ہیں جبکہ وہ ایلنگ بارو کی سابقہ نائب مئیر بھی رہ چکی ہیں۔

    نصرت غنی

     نصرت غنی حکمراں جماعت کنزرویٹو کے ان امیدواروں میں سے ہیں، جن کی جیت کےاچھے امکانات ہیں۔

    نصرت غنی ایک عرصے سے ٹوری جماعت کے ساتھ ہیں، وہ اپنے خاندان کی واحد خاتون ہیں جنھوں نے لیڈز یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔

    نصرت غنی برمنگھم سے پچھلے انتخابات میں بھی حصہ لے چکی ہیں جبکہ نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ بھی کام کرچکی ہے۔

    تسمینہ احمد شیخ

    تسمینہ احمد شیخ اسکاٹش نیشل پارٹی کی امیداوار ہیں، ان کے مدمقابل امیدواروں میں لیبر کے مضبوط امیدوار گورڈن بینک اور اسکاٹش کنزرویٹو کے امیدوار لیوک میٹرک گراہم ہیں۔

    تسمینہ شیخ 1970ء میں لندن میں پیدا ہوئی اور ایڈنبرا میں پلی بڑھیں ہیں، وہ اسکاٹ لینڈ کی معروف کاروباری خاتون اور وکیل ہیں۔

    انھیں شاہی اعزاز ‘او بی ای’ اور ‘وومن آف دا ایئر’ کے اعزاز بھی مل چکے ہیں ، انھیں پاکستان ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل ہے۔

    نتاشہ اصغر

    نتاشہ اصغر کنزرویٹیو کی نتاشہ اصغر نیو پورٹ ایسٹ سے امیدوار نامزد کی گئی ہیں، لیبر کی رکن پارلیمنٹ جیسیکا مورڈ انکے مدِ مقابل ہیں، ننتاشہ لندن میں بینک میں ملازم ہیں، اس اس سے پہلے وہ کئی ایشین ٹی وی چینل پر میزبانی کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں۔

    نتاشہ اصغر 2009ء کی یورپین پارلیمنٹ کی امیدوار بھی رہی ہیں جبکہ ویلش پارلیمانی انتخابات میں دو بار حصہ لیا ہے۔

      ان مسلم خواتین امیدواروں کے علاوہ ناز شاہ ،آمنہ احمد ،رضوانہ صدیقی ، عطرت علی سمیت نتاشہ اصغر بھی برطانوی پارلیمانی انتخابات میں مضبوط امیدوار تصور کی جارہی ہیں۔

  • برطانیہ میں نئے وزیرِاعظم کا چناؤ آج ہوگا

    برطانیہ میں نئے وزیرِاعظم کا چناؤ آج ہوگا

    لندن: برطانیہ میں انتخابات کی گھڑی آن پہنچی ہیں، چند گھنٹوں بعد پولنگ شروع ہوجائے گی۔

    برطانیہ میں چھپن ویں پارلیمانی انتخابات میں چند گھنٹوں بعد ووٹرز اپنے پسندیدہ امیداروں کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے، ملکہ سمیت شاہی خاندان ووٹ نہیں ڈال سکے گا۔

    برطانیہ میں نئی حکومت بنانے کے لئے ایڈ ملی بینڈ، ڈیوڈکیمرون، نک کلیگ اور نائیجل فاراج میں تگ و دو جاری ہیں۔

    برطانیہ کے انتخابات کے لئے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، برطانوی ووٹرز آج چالیس ہزار پولنگ اسٹیشنز میں صبح سات بجے سے رات دس بجے تک اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

    برطانیہ کے انتخابات میں چالیس ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔ یہ پولنگ اسٹیشنز اسکولوں کی عمارتوں کے علاوہ فٹبال اورباکسنگ کلبس میں بھی بنائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ چرچ، مساجد،اور بودھ مذہبی عمارتوں کو بھی پولنگ اسٹیشنز کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

    برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی 650 نشستوں کے لیے انتخابی تاریخ کا سخت ترین مقابلہ متوقع ہے، برطانیہ کی چار ریاستوں انگلینڈ، آئرلینڈ ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں چار کروڑ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرینگے، عام انتخابات میں ایشین نژاد شہریوں کے ووٹ کی اہمیت بڑھ گئی ہیں۔

    چھپن ویں انتخابات میں پانچ نمایاں سیاسی جماعتیں کنزرویٹو یعنی ٹوری پارٹی، لیبر پارٹی، لبرل ڈیموکریٹ پارٹی، اسکاٹش نیشنل پارٹی اور یوکے انڈیپینڈنس پارٹی حصہ لے رہی ہیں، 2010 میں کنزرویٹوپارٹی نے 307 نشستیں لے کر 57 نشستوں والی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ پانچ سال کے لئے اتحادی حکومت بنائی تھی جبکہ لیبرپارٹی نے 258 اور نیشنل اسکاٹش پارٹی نے 6 نشستیں حاصل کی تھیں۔

    دو ہزار پندرہ کے انتخابات میں ڈیوڈ کیمرون کی ٹوری 280، ایڈ ملی بینڈ کی لیبر 268، نکولا سٹرجن کی نیشنل اسکاٹش پارٹی 50، نک کلیگ کی لبرل ڈیموکریٹ 27 اور یوکے انڈیپینڈنس پارٹی کو 3 نشستیں ملنے کی توقع ہے۔

    وزیراعظم کیمرون کو معیشت کی بحالی، 20 لاکھ نئی نوکریوں کے مواقع پیدا کر نے، عام آدمی کے لیے اپنا گھر اسکیم، پہلی اقلیتی مسلم خاتون کی کابینہ میں شمولیت، کم از کم تنخواہ میں اضافہ سمیت ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے بل کی وجہ سے برتری حاصل ہے جبکہ ویلفیئر اخراجات میں کٹوتی، یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف ٹھوس مؤقف اور ہیومن رائٹس ایکٹ بل پر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

    اسی طرح لبرل ڈیموکریٹ بھی اپنے سابقہ اتحادی سے دور جاتی نظر آتی ہے، ٹوری پارٹی کو یو کے انڈیپینڈنس پارٹی کے ساتھ الحاق پر بھی تنقید کا سامنا ہے، جو برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کرنے کی حامی ہے۔

    انتخابات میں لیبر اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کے مابین اتحادی حکومت تشکیل دیئے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    ایک امیدوار کو انتخابی مہم میں تیس ہزار سات سو پاؤنڈ خرچ کرنے کی اجازت ہے۔

    ان انتخابات میں سب سے کم عمر امیدوار بیس سالہ خاتون مہیری بلیک ہیں جبکہ عمررسیدہ امیدوار چوراسی سالہ جیرالڈکوف مین ہیں، جو بارہویں بارانتخابات میں حصہ لےرہے ہیں، ان امیدواروں میں چھبیس فیصد امیدوار خواتین ہیں، انتخابات میں حصہ لینے والے اکتیس فیصد امیدواروں نے نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے، انیس سو اکتیس کے بعد پہلی بار جمعرات کے دن انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

    سنہ دوہزار دس میں پینسٹھ فیصد ووٹرز نے اپناحق رائے دہی استعمال کیا تھا۔