Tag: UK inflation

  • برطانیہ میں مہنگائی کی شرح دوسال کی کم ترین سطح پر

    برطانیہ میں مہنگائی کی شرح دوسال کی کم ترین سطح پر

    لندن : برطانیہ میں افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی سامنے آئی ہے، برطانوی قومی ادارہ شماریات کے مطابق افراط زر گزشتہ دو سالوں میں سب سے کم ترین شرح پر ہے۔

    برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات نے بتایا ہے کہ مذکورہ شرح نومبر سے 3.9 فیصد تک گرگئی ہے، مہنگائی میں گراوٹ کا بڑا عنصر پیٹرول اور ڈیزل کی اوسط قیمتوں میں کمی ہے۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق سالانہ شرح اکتوبر میں 4.6 فیصد سے کم ہو کر 3.9 فیصد رہ گئی ہے جو پیٹرول سستا ہونے کی وجہ سے ستمبر 2021 کے بعد سب سے نیچے چلی گئی تھی۔

    ماہرین اقتصادیات نے رواں ماہ کے لیے افراط زر کی شرح 4.4 فیصد تک کم ہونے کی پیش گوئی کی تھی، جو اکتوبر 2023 میں 4.6 فیصد تھی۔

    واضح رہے کہ اکتوبر 2022 میں مہنگائی 11.1 فیصد کی 41 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جو کہ یوکرین روس جنگ کے بعد توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوئی۔

  • برطانیہ : اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ

    برطانیہ : اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ

    لندن : برطانیہ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مہنگائی سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

    برٹش ریٹیل کنسورشیم (بی سی آر) کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں گزشتہ 12 مہینوں کے دوران 15.7 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جو کہ 2005کے بعد سے سب سے بڑا اضافہ ہے۔

    برٹش ریٹیل کنسورشیم (بی سی آر) کا کہنا ہے کہ اس سے قبل سال 1977 میں منہگائی کی شرح 19.1ریکارڈ کی گئی تھی، گزشتہ اکتوبر میں برطانیہ میں مہنگائی کی شرح 11.1 فیصد تک پہنچ گئی تھی، جو 40 سال سے زائد عرصے میں سب سے زیادہ ہے۔

    UK retailers report record food inflation but see falls ahead

    بی آر سی کے مطابق کافی کی پھلیاں اور تیار کھانوں کی پیکنگ اور پیداوار نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو بڑھایا ہے لیکن مکھن اور سبزیوں کے تیل کی قیمتیں کچھ کم ہونے کے امکانات ہیں جس سے صارفین کو کچھ ریلیف ملنے کی امید ہے۔

    برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات کے مطابق تقریباً نصف برطانوی شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ معمول سے کم خریداری کررہے ہیں اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں بجلی اور دیگر کے بلوں کے ساتھ منسلک ہیں جو ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔

  • برطانیہ : مہنگائی کی شرح میں معمولی کمی

    برطانیہ : مہنگائی کی شرح میں معمولی کمی

    لندن : برطانیہ میں مہنگائی کی شرح میں 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد معمولی سی کمی سامنے آئی ہے، تاہم عوام تاحال شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد وشمار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں مہنگائی کی شرح ماہ اکتوبر میں 11.1 فیصد تھی جو نومبر میں صرف چار پوائنٹ کم ہوکر 10.7 فیصد ہوگئی ہے۔

    لیکن پھر بھی یہ اعداد و شمار 40 سال کی بلند ترین سطح کے قریب ہیں جو سال 1981 کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح ہے حالانکہ مارکیٹ کی توقعات نومبر میں 10.9 فیصد تک تھیں۔

    بینک آف انگلینڈ کی جانب سے شرح سود کے فیصلے کے موقع پر شائع کی گئی اعداد و شمار رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توقع کی جارہی تھی کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے گا کیونکہ متعلقہ حکام اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔

    برطانوی وزیرخزانہ جیریمی ہنٹ نے اس مہنگائی کا سبب روس یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ کی وجہ سے توانائی کی ہوشربا قیمتوں میں اضافے کو قرار دیتے ہوئے کوویڈ 19 کی پابندیوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

    اپنے ایک بیان میں جیریمی ہنٹ نے کہا کہ کوویڈ19 کے آفٹر شاکس اور روس کی جانب سے گیس کو ہتھیار بنانے کا حربہ یورپی ممالک کی معیشتوں کو شدید متاثر کررہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ برطانوی عوام اپنے اہل خانہ کی کفالت کیلئے کتنی جدوجہد کررہے ہیں، میری اولین ترجیح ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ اور مہنگائی کو مزید کم کیا جائے۔

  • برطانیہ میں مہنگائی کا بحران اساتذہ کو بھی سڑکوں پر لے آیا

    برطانیہ میں مہنگائی کا بحران اساتذہ کو بھی سڑکوں پر لے آیا

    لندن: برطانیہ میں مہنگائی کا بحران اساتذہ کو بھی سڑکوں پر لے آیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں مہنگائی کے خلاف ہزاروں یونیورسٹی اساتذہ بھی سڑکوں پر آ گئے ہیں، اساتذہ نے تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاجی مارچ کیا۔

    یونیورسٹیوں کے ملازمین اور طلبہ نے بھی اساتذہ کے مارچ میں حصہ لیا، سراپا احتجاج اساتذہ نے مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں اور پینشن کو بڑھانے کا مطالبہ کیا۔

    گزشتہ ایک ہفتے سے برطانیہ میں ہزاروں یونیورسٹی لیکچررز اور اسکول ٹیچرز احتجاج کر رہے ہیں، اساتذہ نے ملک میں مہنگائی کے بحران میں بہتر تنخواہ اور کام کے بہتر حالات کا مطالبہ کرتے ہوئے ہڑتال بھی کی۔

    واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں برطانویوں کو سفری رکاوٹوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے بھرے ہوئے ڈبوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیوں کہ متعدد صنعتوں کی نمائندگی کرنے والی یونینوں نے لگاتار ہڑتالیں کی ہیں۔

    وکلا، نرسیں، پوسٹل ورکرز اور بہت سے دوسرے لوگ اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ چکے ہیں۔ اس سال گھریلو توانائی کے بل اور خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جس سے مہنگائی اکتوبر میں 11.1 فی صد کی 41 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

  • برطانیہ: دودھ، پنیر، دیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں

    برطانیہ: دودھ، پنیر، دیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں

    لندن: برطانیہ میں دودھ، پنیر، دیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں اشیاے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے نتیجے میں افراطِ زر 41 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کے لیے گھریلو بجٹ تیار کرنا مشکل ہو گیا۔

    اکتوبر کے مہینے میں افراط زر 11.1 فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچنے سے لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں، خوراک، ٹرانسپورٹ اور توانائی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے عام شہریوں اور کاروباروں کو نچوڑ کر کے رکھ دیا ہے۔

    روئٹرز کے ذریعے رائے شماری کرنے والے ماہرین اقتصادیات نے صارفین کی قیمتوں کے اشاریے میں 10.7 فی صد کے سالانہ اضافے کی پیش گوئی کی تھی۔

    حکومت کے انرجی پرائس گارنٹی پروگرام کے متعارف ہونے کے باوجود، دفتر برائے قومی شماریات کے مطابق مہنگائی میں سب سے زیادہ اضافہ بجلی، گیس اور دیگر ایندھنوں کی قیمتوں سے آیا۔

    برطانوی حکومت کی جانب سے توانائی کی قیمتوں کی ضمانت ختم ہونے کے بعد بلوں میں فی الحال پانچ ماہ کے عرصے میں تیزی سے اضافہ ہونے والا ہے، تاہم حکومت کی جانب سے گھرانوں کی توانائی کے اخراجات کے حوالے سے مدد کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔

  • برطانیہ میں بجلی کے بل دگنے، لندن، برمنگھم، مانچسٹر میں احتجاجی ریلیاں

    برطانیہ میں بجلی کے بل دگنے، لندن، برمنگھم، مانچسٹر میں احتجاجی ریلیاں

    لندن: برطانیہ میں بجلی کے بل دگنے ہو گئے، بے تحاشا مہنگائی سے پریشان عوام سڑکیوں پر نکل آئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں مہنگائی سے پریشان عوام سڑکوں پر نکل آئے، بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف پُر زور احتجاج کیا گیا۔

    لندن، برمنگھم، مانچسٹر سمیت دیگر شہروں میں ہزاروں افراد نے ریلیاں نکالیں، اور حکومت سے قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کیا۔

    احتجاج میں شریک افراد نے کہا بجلی کے بل دگنے ہو گئے ہیں، اشیا خور و نوش کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں، حکومت فوری طور پر قیمتوں میں کمی کرے۔

    حالیہ ہفتوں میں 40 سال کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا کرنے والے ملک برطانیہ میں زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے، اس بحران نے لوگوں کو ملک بھر میں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔

    کچھ مزدور یونینوں اور موسمیاتی تبدیلی کے کارکنوں کے زیر اہتمام ریلیاں دارالحکومت لندن سمیت تمام بڑے شہروں میں نکالی گئیں۔ لندن کے ایک اہم ٹرین اسٹیشن، کنگز کراس اسٹیشن کے باہر سینکڑوں لوگ جمع ہوئے، جو اس وقت ریلوے کارکنوں کی ہڑتال کی وجہ سے بند ہے۔

  • 30 سال بعد بڑی پریشانی، برطانوی صارفین کی چیخیں نکل گئیں

    30 سال بعد بڑی پریشانی، برطانوی صارفین کی چیخیں نکل گئیں

    لندن: برطانوی صارفین کی چیخیں نکل گئیں، ملک میں مہنگائی کا 30 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

    برطانوی دفتر شماریات کے مطابق جنوری 2022 میں برطانیہ میں مہنگائی 5.5 فی صد پر پہنچ گئی ہے، 1992 کے بعد برطانیہ میں پہلی بار اتنی مہنگائی ریکارڈ کی گئی ہے۔

    بینک آف انگلینڈ نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافے کا اعلان کر دیا، شرح سود کو بڑھا کر 0.5 فی صد کر دیا گیا، 2004 کے بعد 3 مہینوں میں دوسری بار شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے، جب کہ دسمبر 2021 میں سود کی شرح 0.25 تھی۔

    برطانیہ میں توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے اثرات اشیائے صرف اور سروسز کی قیمتوں میں زبردست اضافے کی صورت میں نمودار ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے گھریلو معیار زندگی پر بڑا دباؤ پڑا ہے۔

    دفتر برائے قومی شماریات (او این ایس) کے مطابق کنزیور پرائسز انڈیکس یعنی مہنگائی کا پیمانہ مسلسل 13 ویں مہینے بڑھ کر گزشتہ ماہ 5.5 فی صد پر پہنچ گیا ہے، اور یہ کپڑوں، جوتوں اور فرنیچر کی قیمتوں کی وجہ سے ہے۔

    واضح رہے کہ ماہرین اقتصادیات نے افراط زر کی شرح 5.4 فی صد رہنے کی پیش گوئی کی تھی، ادارہ قومی شماریات کے مطابق افراط زر آخری مرتبہ مارچ 1992 میں سب سے زیادہ تھا، جب اس کی شرح 7.1 فی صد پر پہنچی تھی۔