Tag: Uk prime minister

  • برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کل اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی

    برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کل اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی

    لندن : برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے کل اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی، حکمران پارٹی کے نئے لیڈر کے چناؤ میں ایک ماہ لگ سکتا ہے، انھوں نے بریگزٹ ڈیل پر پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں ناکامی کے بعد وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کل اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی، نئے پارٹی لیڈر کے انتخاب تک قائم مقام وزیراعظم رہ سکیں گی، حکمران پارٹی کے نئے لیڈر کے چناؤ میں ایک ماہ لگ سکتا ہے۔

    وزارت عظمٰی کی دوڑ میں کئی نامی گرامی سیاستدانوں کے نام بھی سامنے آگئے ہیں ، جن میں کنزرویٹیو پارٹی کے رکن اور نو منتخب وزیر داخلہ ساجد جاوید ، بورس جانسن، ایستھر میک وی، روری سٹیورٹ اور جیرمی ہنٹ شامل ہیں۔

    یاد رہے 24 مئی کو برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے بریگزٹ معاہدے کے معاملے پر اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے سات جون کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

    مزید پڑھیں :  برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مستعفیٰ ہونے کا اعلان

    لندن میں 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر اپنے خطاب میں برطانوی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے شدید پشیمانی کی بات ہے کہ وہ بریگزٹ نہیں کروا سکیں، میں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی یہ کوشش رہی کہ برطانیہ صرف چند لوگوں کو فائدہ نہ دے بلکہ سب کے لیے ہو۔

    برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا تھا میں نے ریفرینڈم کے نتائج کو عزت دینے کی کوشش کی اور ہمارے انخلا کے لیے شرائط پر مذاکرات کیے، میں نے ارکان پارلیمان کو قائل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اس معاہدے کی حمایت کریں لیکن افسوس میں اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بطورجمہوری لیڈرعوام کی رائےکااحترام اورنفاذان کی ذمہ داری تھی، لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکتا لہذا بہتر ہے کہ وہ وزارت ِ عظمیٰ کا منصب کسی ایسے شخص کو سونپ دیں جو ان سے زیادہ اس عہدے کا اہل ہو۔

  • برطانوی وزیراعظم پارلیمنٹ کوجوابدہ ہیں، نہ کہ امریکی صدر کو، جیریمی کوربن

    برطانوی وزیراعظم پارلیمنٹ کوجوابدہ ہیں، نہ کہ امریکی صدر کو، جیریمی کوربن

    لندن : برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم تھریسا مے کو ارکان پارلیمان نے منتخب کیا ہے اس لیے وہ امریکی صدر کے سامنے نہیں بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں.

    تفصیلات کے مطابق امریکا، فرانس، اور برطانیہ کی جانب سے شام میں مبینہ کیمیائی حملوں کے جواب میں کی جانے والی فوجی کارروائی کے خلاف برطانوی رکن پارلیمنٹ اور لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن نے برطانیہ کی وزیراعظم کو کھلا خط لکھا ہے۔

    برطانوی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی خط میں لکھتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ برطانیہ کی وزیر اعظم پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے جوابدہ ہیں تو انہیں شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے سے پہلے اراکین پارلیمان سے مشورہ کرکے ووٹنگ کروانی چاہیے تھی‘۔

    جیریمیی کوربن کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کی وزیر اعظم کو برطانوی پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہے اس لیے وہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں نہ کہ امریکی صدر کی خواہشات و مرضی کی‘۔

    انہوں نے خط میں لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ شام کے خلاف کی جانے والی برطانیہ، فرانس اور امریکا کی تازہ کارروائیاں قانونی طور پر مشکوک ہیں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس بات کی طرف نشاندہی کی تھی کہ تمام ممالک عالمی قوانین کے چارٹر کے مطابق چلیں‘۔

    جیریمی کوربن نے خط میں برطانوی وزیراعظم سے کہا کہ ’آپ نے مجھے یقن دہانی کروائی تھی کہ اٹارنی جنرل نے شام پر حملے کے حوالے واضح مشورہ دیا تھا، میں چاہوں کا گا کہ آپ آج اس منظوری کو شائع کردیں‘۔

    جیریمی کوربن نے لکھا ہے کہ ’اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے ’او پی سی ڈبلیو‘ نے تاحال ڈوما میں کیمیائی حملوں کی نہ ہی تحقیق کی ہے اور نہ ہی حملوں کی تصدیق کی ہے، اس لیے یہ بات تو واضح ہے کہ تمام سفارتی اور غیر فوجی ذرائع کا مکمل طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے‘۔

    لیبر پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’یہ بات بہت ضروری ہے کہ تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار(او پی سی ڈبلیو) کے تفتیش کار جو ڈوما پہنچیں گے، پہلے انہیں ان کا کام کرنے دیا جائے اور کیمیائی حملوں سے متعلق مرتب کردہ رپورٹ کو شائع کرنے دیا جائے‘۔

    جیریمی خط میں کہتے ہیں کہ ’میں آپ کی جانب سے کروائی گئی یقین دہانی کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ جب تک او پی سی ڈبلیو کے تحقیق کار شام میں موجود ہیں مزید بمباری نہیں کی جائے گی۔ انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے دیا جائے‘۔

    جیریمی کوربن نے خط میں لکھا کہ ’مجھے یقین کہ برطانیہ اقوام متحدہ کے ذریعے اس بدترین تنازعے کو روکنے کے لیے اہم سفارتی کردار ادا کرے گا، جس میں لاکھوں افراد قتل کردیئے گئے اور کروڑوں شامی شہریوں کو بے گھر ہونا پڑا‘۔

    خیال رہے کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے جیریمی کوربن کو جمعے کی رات بلا کر شام پر کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی تھی۔

    لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کے اس خط سے یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ وہ شام پر حملے کے حوالے سے برطانوی وزیراعظم کی بریفنگ سے مطمئن نہیں ہیں۔


    شام میں حملے کا ہدف کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنا تھا‘ برطانوی وزیراعظم


     

    واضح رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے تعاون کے ساتھ شام میں کیمیائی تنصیبات پر میزائل حملے کیے تھے، جس کے نتیجے میں شامی دارالحکومت دمشق دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانوی وزیر اعظم نے اپنے بلیک بیری سے جان چھڑالی

    برطانوی وزیر اعظم نے اپنے بلیک بیری سے جان چھڑالی

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے اپنے پرانے فون بلیک بیری سے جان چھڑالی، اب تھریسامے آئی فون استعمال کررہی ہیں۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق وزیر اعظم تھریسامے ان دس سربراہان کے گروپ کی آخری رکن تھیں جو ابھی تک بلیک بیری کا استعمال کررہے تھے۔

    بلیک بیری بنانے والی کینیڈا کی کمپنی نے فروخت میں شدید مندی کے سبب 2016 میں بلیک بیری کی تیاری روک دی تھی اور اس نام سے موبائل تیار کرنے کے لیے دیگر کمپنیوں کو لائسنس دے دیا تھا۔

    واضح رہے کہ امریکی سابق صدر بارک اوباما نے 2013 میں انکشاف کیا تھا کہ انہیں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر آئی فون کے استعمال کی اجازت نہیں ہے تاہم وہ اپنے لیے ذاتی بلیک بیری برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔

    جنوری 2017 میں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ قومی سلامتی کی ایجنسی کی ہدایت پر اپنے ذاتی موبائل فون سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوگئے جو اینڈرائیڈ سسٹم کا حامل تھا۔

    جرمن چانسلر انجیلا مرکل ان دنوں نوکیا کا فون استعمال کرتی ہیں جس کا ماڈل نوکیا 6260 ہے، روسی صدر ولادی میر پیوٹن ان دنوں آئی فون 4 استعمال کرتے ہیں، فرانس کے صدر نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے آئی فون فائیو کا انتخاب کیا ہے۔

    نارتھ کوریا کے سربراہ کم جانگ ان 2013 سے تائیوان کی کمپنی ایچ ٹی سی کا موبائل فون استعمال کررہے ہیں، اٹلی کے وزیر اعظم میتھیو رینزی کے زیر استعمال ان دنوں آئی فون ہے۔

    پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے زیر استعمال ایپل کمپنی کا آئی فون اور سام سانگ کا اسمارٹ فون ہے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی بلیک بیری فون استعمال کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی اٹارنی اور ایف بی آئی نے یہ انکشاف کیا تھا کہ کینیڈا سے تعلق رکھنے والے فینٹم سکیور نامی ادارہ معروف کمپنی بلیک بیری کے موبائل فون ڈیوائس میں تبدیلی کرکے عالمی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ کے لیے فروخت کررہا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔