Tag: UK

  • والدین نے شیرخوار کے غذائی چارٹ پر عمل کرتے ہوئے بڑی غلطی کر دی

    والدین نے شیرخوار کے غذائی چارٹ پر عمل کرتے ہوئے بڑی غلطی کر دی

    لندن: برطانیہ میں والدین نے شیر خوار بچے کے غذائی چارٹ پر عمل کرتے ہوئے ایسی غلطی کی، جس نے لوگوں کو حیران کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں والدین اپنے شیر خوار بچے کو ایسی چیز کھلاتے رہے جس نے لوگوں کو سر پکڑنے پر مجبور کر دیا، انھوں نے 7 ماہ کے بچے کو 6 ماہ تک آئس کیوب (برف کے ٹکڑے) کھلائے۔

    معلوم ہوا کہ والدین نے ایسا قصداً نہیں کیا تھا، بلکہ انھوں نے ایک ایسی غلطی کی جس نے لوگوں کو حیران کیا، انھیں یقین نہ آیا کہ کوئی ایسی غلطی بھی کر سکتا ہے۔

    یہ معاملہ تب سامنے آیا جب گزشتہ روز ایک برطانوی جوڑے نے ویب سائٹ ’ریڈٹ‘ پر دیگر لوگوں سے سوال کیا کہ ان کا بچہ سبزیاں اور پھل تو شوق سے کھا لیتا ہے لیکن ’آئس کیوب‘ کھانے میں بہت نخرے کرتا ہے۔

    دراصل ان والدین کو ایک غذائی چارٹ دیا گیا تھا، والدین کا خیال تھا کہ بچوں کے غذائی چارٹ میں پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ آئس کیوب کھلانے کا بھی کہا گیا ہے، برطانوی اخبار دی مرر کے مطابق ویب سائٹ پر دیگر افراد نے اس جوڑے سے غذائی چارٹ کی تصویر شیئر کرنے کا مطالبہ کیا۔

    جب انھوں نے غذائی چارٹ شیئر کیا تو لوگوں نے اسے دیکھ کر سر پکڑ لیا، کیوں کہ غذائی چارٹ میں آئس کیوب کی تصاویر بچے کو دی جانے والی غذا کی مقدار کا تعین کرنے کے لیے بطور حوالہ دی گئی تھیں، یعنی آئس کیوب دوا کے سرونگ سائز کے حوالے کے طور پر تھے۔

    چارٹ میں واضح لکھا ہوا تھا کہ بچے کو ایک آئس کیوب کے سائز کے حساب سے مٹر کے دانے کھلائیں، دو آئس کیوب کے برابر گاجر کھلائیں۔

    تاہم والدین غلط فہمی میں مٹر، ڈیری مصنوعات، انڈوں، اناج اور گاجر کے ساتھ ساتھ بچے کو 6 ماہ تک تین آئس کیوب  روزانہ کھلاتے رہے۔ معلوم ہوا کہ والدین نے غذائی چارٹ کا ہدایت نامہ ایسی حالت میں پڑھا تھا جب انھیں نیند کی ضرورت تھی لیکن وہ نیند سے محروم تھے، اس وجہ سے انھوں نے اسے غلط پڑھ لیا۔

  • ویکسینیشن کروانے والوں میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت بڑھانے کے لیے برطانیہ کا اہم فیصلہ

    ویکسینیشن کروانے والوں میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت بڑھانے کے لیے برطانیہ کا اہم فیصلہ

    لندن: کرونا کے 2 ٹیکے لگوانے والوں کے لیے برطانیہ نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے انھیں تیسری ڈوز کی فراہمی کے لیے تیاری شروع کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ویکسینیشن کروانے والوں میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت مزید بڑھانے کے لیے برطانیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ لوگوں کو ویکسین کا تیسرا ٹیکہ لگایا جائے گا۔

    برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ غیر محفوظ لوگوں کو وائرس کے خلاف تحفظ بڑھانے کی غرض سے، موسمِ سرما سے قبل ستمبر سے ویکسینز کا تیسرا ٹیکہ لگانے کی پیش کش کی جائے گی۔

    این ایچ ایس کے مطابق پہلی 2 ڈوزز سے پیدا ہونے والی مدافعت کو طوالت دینے، اور وائرس کی متغیر اقسام کے خلاف دفاعی قوت کو بڑھانے کے لیے ویکسین کا اضافی ٹیکہ لگایا جائے گا۔

    یہ تیسرا ٹیکہ پہلے جن لوگوں کو لگے گا ان میں معمر افراد کی دیکھ بھال کے مراکز کے رہائشی، 70 سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہر فرد اور فرنٹ لائن طبی کارکنان شامل ہیں۔

    اس کے بعد پچاس سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہر فرد کو، اور 16 سے 49 سال کی عمر کے اُن لوگوں کو کی تیسرے ٹیکے کی پیش کش کی جائے گی، جو متاثر ہونے کے بعد شدید بیماری میں مبتلا ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

    تاہم ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ مذکورہ تیسری ڈوز کے لیے کون کون سی ویکسین استعمال کی جائے گی۔

    حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ تیسری ڈوز کا ٹیکہ لگوانے والوں کو انفلوئنزا کا ٹیکہ بھی لگوانا چاہیے، تشویش پائی جاتی ہے کہ کرونا وائرس سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ موسمِ سرما میں فُلو لوٹ آئے اور ایک اضافی مسئلہ بن جائے۔

  • جھگڑے کے بعد پڑوسی نے عجیب و غریب حرکت کر ڈالی

    جھگڑے کے بعد پڑوسی نے عجیب و غریب حرکت کر ڈالی

    شیفلڈ: پڑوسیوں میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، لیکن برطانیہ میں ایک پڑوسی نے عجیب و غریب حرکت کر ڈالی، اس نے غصے میں آ کر گھر کے سامنے کھڑے چیڑ کے درخت کا اپنی گھر کی طرف کا آدھا حصہ ہی کاٹ ڈالا۔

    یہ واقعہ برطانوی کاؤنٹی ساؤتھ یارکشائر کے شہر شیفلڈ میں پیش آیا، دو پڑوسیوں میں اس بات پر جھگڑا ہوا کہ دروازے کے پاس کھڑے درخت پر کبوتر آ کر بیٹ کر جاتے ہیں جو گھر کے دروازے کے پاس گرتی ہے اور راستہ گندا ہو جاتا ہے، جھگڑے کے بعد ایک پڑوسی نے اپنی طرف کا درخت کا آدھا حصہ کاٹ دیا۔

    صفائی سے بالکل نصف کٹنے کے بعد درخت کی شکل عجیب لگنے لگی ہے، جس کے سبب اب لوگ اسے دیکھنے آنے لگے ہیں، اور درخت سیاحوں کے لیے دل چسپی کا سامان بن گیا ہے۔

    معلوم ہوا کہ چیڑ کا درخت 25 سال سے وہاں کھڑا تھا، 56 سالہ بھرت مسٹری اور اس کی فیملی یہ دیکھ کر سخت مایوسی کا شکار ہو گئی، جب اس کے پڑوسی نے اسپیشلسٹس کو بلوایا اور درخت کی نصف شاخیں کٹوا دیں۔

    ان پڑوسیوں کے درمیان ایک سال سے اس بات پر جھگڑا چل رہا تھا کہ درخت پر کبوتر آ کر شور مچاتے ہیں اور بیٹ کر جاتے ہیں، جس سے ڈرائیو وے میں گندگی پھیل جاتی ہے۔

    بھرت مسٹری نے بتایا کہ ہم پڑوسیوں نے متفقہ طور پر درخت کو گیند کی شکل میں ترشوایا تھا، لیکن حال ہی میں اس پر پرندے آنے لگے، کیوں کہ سال کے اس وقت پرندوں کا آنا متوقع ہوتا ہے، لیکن پڑوسی نے پرندوں کو وہاں بیٹھنے سے روکنے کے لیے سیاہ شاپنگ بیگز رکھنا شروع کر دیا۔

    بھرت مسٹری کے مطابق گزشتہ ہفتے پڑوسی نے اچانک ایک ٹری سرجن بلوایا اور ہمارے منع کرنے کے باوجود اس نے درخت کی اپنی طرف والی شاخیں کٹوا دیں، ہمیں سخت دکھ ہوا اس سے، ہم نے منتیں کر کر کے روکا لیکن وہ نہ مانا۔

    بھرت کا کہنا تھا کہ پڑوسی کو درخت کاٹنے کا حق تھا کہ وہ اس کی پراپرٹی پر مسئلہ پیدا کر رہا تھا لیکن 25 سال سے کھڑے درخت کو کاٹنا تکلیف دہ ہے۔

    تاہم جب اس باقی ماندہ درخت کی تصویر آن لائن پوسٹ کی گئی تو انٹرنیٹ صارفین میں یہ تیزی سے وائرل ہو گئی، اور اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ اس درخت کو ایک نظر دیکھنے آنے لگے ہیں۔

  • نیٹ فلکس سمیت آن لائن اسٹریمنگ سروسز کے لیے سخت ضابطہ اخلاق

    نیٹ فلکس سمیت آن لائن اسٹریمنگ سروسز کے لیے سخت ضابطہ اخلاق

    لندن: برطانیہ نے نیٹ فلکس سمیت آن لائن اسٹریمنگ سروسز کو سخت ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی حکومت نے آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کو سخت ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کی غرض سے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

    اے ایف پی کے مطابق برطانوی حکومت کی جانب سے بدھ کو پیش کی گئی تجاویز کے تحت نیٹ فلکس، ڈزنی پلس اور ایمازون پرائم ویڈیوز پر بھی وہی قواعد و ضوابط لاگو ہوں گے، جن کے تحت بی بی سی، آئی ٹی وی اور اسکائی سمیت دیگر روایتی نشریاتی ادارے کام کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانیہ میں نیٹ فلکس اور ایپل ٹی وی کو کسی بھی ضابطے کے تحت ریگولیٹ نہیں کیا گیا ہے، اور بی بی سی کی آئی پلیئر سروس کے علاوہ تمام آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کو سخت قوانین کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

    برطانوی سیکریٹری برائے ثقافت آلیور ڈاؤڈن کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی نے براڈکاسٹنگ کو تبدیل کر دیا ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ پبلک سروس براڈکاسٹرز کی صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے غور کیا جائے، صارفین کی حفاظت کو یقینی بنانے اور روایتی چینلز کو مقابلہ کرنے میں مدد فراہم کی جائے۔

    برطانیہ میں نگران ادارے ’آفس آف کمیونیکیشنز‘ کی جانب سے طے کیے گئے نشریاتی قوانین پر عمل درآمد کرنا ٹی وی چینلز کے لیے لازمی ہے، آفس آف کمیونیکیشنز نے نقصان دہ مواد اور نیوز پروگرامز میں غیر جانب داری کے حوالے سے قوانین وضع کیے ہوئے ہیں۔

    برطانیہ میں میڈیا کے حوالے سے کی جانے والی اصلاحات کا مقصد پبلک سروس براڈکاسٹرز کی آن لائن موجودگی کو مزید نمایاں کرنا بھی ہے، تاکہ اسمارٹ ٹی وی اور دیگر ڈیوائسز پر ان کے پروگرامز تک رسائی کو آسان بنایا جا سکے۔

  • برطانیہ میں ڈائناسورز کے حوالے سے اہم دریافت

    برطانیہ میں ڈائناسورز کے حوالے سے اہم دریافت

    لندن: برطانیہ میں ایک ماہر حجریات نے لاکھوں سال قبل زمین سے معدوم ہونے والے عظیم الجثہ جانور ڈائناسور کے قدموں کے نشان دریافت کر لیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی برطانیہ میں ڈائناسور کے 110 ملین سال ( 11 کروڑ سال ) قدیم قدموں کے نشان دریافت ہو گئے، ماہر حجریات کا کہنا ہے کہ یہ نشان ڈائناسور کے زمین پر چلنے سے بنے تھے، یہ نشان ہیسٹنگز میوزیم اینڈ آرٹ گیلری کے کیوریٹر اور یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے ایک سائنس دان نے دریافت کیے۔

    اس حوالے سے کہا گیا کہ قدموں کے نشانات 3 قسم کے ڈائناسورز کے ہیں، جن میں تھیروپوڈ، آرنیتھوپوڈ، اور اَنکلوسور شامل ہیں۔

    زمین سے ختم ہونے والے عظیم الجثہ جان دار ڈائناسور کے قدموں کے یہ نشان کینٹ میں واقع فوکس اسٹون کے ساحل کے قریب واقع علاقے اور چٹانوں میں دریافت ہوئے ہیں، جہاں طوفانی صورت حال اور ساحل کے قریب پانی نے چٹان کو متاثر کیا، جس کی وجہ سے اس پر مسلسل نئے فوسلز سامنے آ رہے ہیں۔

    پورٹس ماؤتھ کے پروفیسر ڈیوڈ مارٹل کا کہنا ہے کہ فوکس اسٹون میں ڈائناسورز کے قدموں کے نشان ملنے کا یہ پہلا موقع ہے اور یہ نہایت غیر معمولی دریافت ہے، کیوں کہ یہ ڈائناسورز زمین سے معدوم سے ہونے سے قبل آخری تھے جو اس علاقے میں پائے جاتے تھے۔

    ماہر حجریات کا خیال ہے کہ قدموں کے نقوش انکلوسورز (دکھنے میں ناہموار بکتربند جیسا ڈائناسور، جو زندہ ٹینکوں کی طرح تھے)، تھیروپوڈز (تین انگلیوں والے گوشت خور ڈائناسور)، اور آرنیتھوپوڈز (پودے کھانے والے ڈائناسورز جن کی پشت پرندوں جیسی تھی) کے ہیں۔

    زیادہ تر نشانات الگ الگ پائے گئے ہیں تاہم ان میں سے 6 قدموں کے نشان ایک جگہ ہیں۔ سب سے بڑے قدم کا نشان 80 سینٹی میٹر (31.5 انچ) چوڑا، اور 65 سینٹی میٹر (25.6 انچ) لمبا ہے۔

  • برطانیہ: ایک اور قسم کا وائرس لوگوں کو متاثر کرنے لگا (خوفناک تصاویر بچے نہ دیکھیں)

    برطانیہ: ایک اور قسم کا وائرس لوگوں کو متاثر کرنے لگا (خوفناک تصاویر بچے نہ دیکھیں)

    لندن: کرونا وائرس کے ہنگامی حالات کے دوران ایک اور قسم کا وائراس منظر عام پر آ گیا ہے، جسے منکی پاکس کا نام دیا گیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں نارتھ ویلز میں کمیاب بیماری منکی پاس کے 2 کیسز سامنے آئے ہیں، جس کے حوالے سے شمالی ویلز کے صحت حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ دونوں مریضوں کا خصوصی نگرانی میں علاج کیا جا رہا ہے، جب کہ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ اگر اب نہیں تو مستقبل میں یہ نیا خطرہ پھیل سکتا ہے، تاہم فی الوقت حکام نے کہا ہے کہ مریضوں سے صحت مند افراد تک اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ کم ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا اس بیماری سے متعلق کہنا ہے کہ منکی پاکس ایک زونوٹک وائرس کی بیماری ہے، یعنی یہ وائرس متاثرہ جانوروں سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے، اور اس کے زیادہ تر کیسز وسطی اور مغربی افریقا کے بارانی جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق منکی پاکس وائرس ایک متاثرہ جانور کے خون، پسینے یا تھوک کے ذریعے انسانوں میں پھیلتا ہے، اور اس وائرس کا تعلق چیچک (اسمال پاکس) کے گروپ سے ہے، اس لیے علامات بھی ویسی ہی ہیں۔

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی کو بخار، سر درد، کمر درد، پٹھوں میں درد اور تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ چھالوں اور جلدی امراض کا سامنا ہے تو وہ ہوشیار ہو، کہ یہ علامات منکی پاکس (Monkeypox) کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انفیکشن کے ایک سے پانچ دن کے بعد جلد پر آبلے اور گھاؤ بن جاتے ہیں، اس کا آغاز چہرے سے ہوتا ہے، اور آہستہ آہستہ جسم کے دیگر حصوں تک پھیل جاتا ہے، جلد پر بننے والے چھالوں میں سیال بھی بھر جاتا ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق منکی پاس کے کیس میں موت کا خطرہ 11 فی صد ہے، اس سے بچاؤ کے لیے بھی اسمال پاکس کی ویکسین استعمال کی جاتی ہے۔

  • برطانوی ملکہ کی پراسرار جائیداد، اصل مالک کون؟

    برطانوی ملکہ کی پراسرار جائیداد، اصل مالک کون؟

    لندن: برطانوی شاہی خاندان کی جائیدادیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، اور شاہی خاندان ایسی پراسرار جائیدادوں کا مالک ہے جن سے متعلق یہ پیچیدگی بھی موجود ہے کہ یہ نہ تو ملکہ الزبتھ دوم کی ملکیت ہے نہ ہی برطانوی حکومت کی۔

    ایک کلو میٹر لمبائی سے زائد لندن شہر کی ایک مشہور گلی ’ریجنٹ اسٹریٹ‘ کے ایک ایک مربع انچ کی ملکیت ایک کمپنی کے پاس ہے، جس کا نام برطانوی شاہی خاندان (دی کراؤن اسٹیٹ) ہے، یہ گلی کاروباری و حکومتی دفاتر، ریسٹورنٹس اور بڑی دکانوں کے لیے مشہور ہے۔

    برطانیہ کے طول وعرض میں کراؤن اسٹیٹ یا شاہی خاندان کی کئی مقامات پر قیمتی جائیدادیں موجود ہیں، ان میں بڑے قلعے، کاٹیجز اور زرعی علاقے بھی شامل ہیں، برطانیہ کی ساحلی پٹی کا نصف بھی کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت ہے۔

    دل چسپ امر یہ ہے کہ یورپ کا یہ سب سے بڑا پراپرٹی گروپ ملکہ الزبتھ II سے براہ راست جڑا ہوا ہے، کراؤن اسٹیٹ یا شاہی خاندان کی کُل جائیداد کی مالیت 14 ارب پاؤنڈ (تقریباً 18 بلین ڈالرز) سے زیادہ ہے۔

    ملکہ الزبتھ دوم

    اس اربوں ڈالر مالیت کے رئیل اسٹیٹ کا اصل مالک کون ہے؟ برطانیہ میں کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت شاہی تخت پر براجمان فرد (ملکہ یا بادشاہ) کے نام پر ہوتی ہے، گویا جو بھی تخت نشین ہوگا اور تمام جائیداد اسی کے نام پر ہوگی، تاہم یہ جائیداد تخت نشین کی نجی یا ذاتی پراپرٹی نہیں ہوتی، نہ ہی وہ اسے فروخت کرنے کا اختیار رکھتا ہے، نہ حاصل ہونے والی آمدن پر اس کا تصرف ہوتا ہے۔

    دوسری طرف برطانوی حکومت بھی اس کراؤن اسٹیٹ کی مالک نہیں ہے، بلکہ یہ ایک کارپوریشن کے طور پر قائم آزاد ادارہ ہے، جس میں شاہی خاندان کا کوئی فرد شامل نہیں، اور یہ تمام ریئل اسٹیٹ کے انتظام و انصرام کا نگران ہے۔

    ملکہ برطانیہ کی نجی دولت اور کراؤن اسٹیٹ کی دولت میں فرق ہے، ملکہ کی مجموعی دولت کا حجم 365 ملین پاؤنڈ ہے، جس میں انھیں ورثے میں ملنے والے بالمورل اور سینڈرنگھم قلعے بھی شامل ہیں، ملکہ کو ڈاک ٹکٹوں ’رائل فیلیٹیلک کلکیشن‘ کی مد میں 100 ملین پاؤنڈ بھی حاصل ہوتے ہیں۔

    مختصر یہ کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت واضاح نہیں، یہ ادارہ کاروبار میں بھی منافع بخش ہے، اس کو 2019/2020 کے مالی سال میں 345 ملین پاؤنڈ کا منافع حاصل ہوا تھا۔

    فی الوقت تو برطانیہ میں 61 فی صد عوام بادشاہت کے حق میں ہیں، تاہم جب کبھی برطانیہ کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا، تو اس وقت سب سے مشکل سوال کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت کا ہوگا۔

  • برطانوی اور آسٹریلوی وزرائے اعظم میں خوشی کے موقع پر بسکٹ کا تبادلہ

    برطانوی اور آسٹریلوی وزرائے اعظم میں خوشی کے موقع پر بسکٹ کا تبادلہ

    لندن: بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی آسٹریلیا سے پہلی فری ٹریڈ ڈیل ہو گئی۔

    برطانیو ی میڈیا کے مطابق برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان بریگزٹ کے بعد پہلی آزاد تجارت کا معاہدہ ہو گیا ہے، دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے ڈیل پر خوشی میں بسکٹ کا تبادلہ کیا۔

    برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ٹوئٹ میں بھی خبر دی کہ آسٹریلیا کے ساتھ ڈیل ہو گئی ہے، جب کہ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی، سیکیورٹی، سائنس، اور موسمیاتی تبدیلیوں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔

    برطانوی حکومت نے منگل کو کہا کہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا مطلب ہے کہ برطانوی کمپنیوں کو آسٹریلیا میں کاریں، سرامکس، بسکٹ اور مٹھائیوں جیسی مصنوعات کی فروخت پر کم لاگت اٹھانی پڑے گی۔

    اس ڈیل کے سبب برطانوی صنعتوں کو فروغ ملے گا جہاں ملک بھر میں 35 لاکھ افراد کام کر رہے ہیں، بورس جانسن نے کہا کہ یہ ڈیل برطانیہ اور آسٹریلیا کے تعلقات میں ایک نئی صبح کی طرح ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ یہ نیا فری ٹریڈ ایگریمنٹ برطانوی کاروبار اور صارفین کے لیے شان دار مواقع فراہم کرے گا۔

    یہ معاہدہ پیر کو رات گئے کیا گیا تھا، آسٹریلیا کے وزیر تجارت نے کہا تھا کہ بورس جانسن اور آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے لندن میں ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ایک عشائیے کے موقع پر معاہدے کی وسیع شرائط پر اتفاق کر لیا ہے۔

  • انگلینڈ میں قاتل بھڑوں کی بھرمار

    انگلینڈ میں قاتل بھڑوں کی بھرمار

    لندن: انگلینڈ میں قاتل ایشیائی بھڑوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، یہ بھڑ، بھڑوں سے الرجی والے افراد کو صرف ایک ڈنک سے مار سکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انگلینڈ میں قاتل ایشیائی بھڑوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔

    ماہرین نے جزیرہ جرسی میں 70 سے زائد قاتل ایشیائی بھڑوں کا پتہ چلایا ہے۔

    زرد ٹانگوں والی یہ بھڑ، بھڑوں سے الرجی والے افراد کو صرف ایک ڈنک سے مار سکتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے قاتل بھڑ کہا جاتا ہے۔

    یہ بھڑ یومیہ 50 شہد کی مکھیوں کو کھا سکتی ہے اور یہ مقامی شہد کی مکھیوں کی تعداد کے لیے نہایت خطرناک صورتحال ہے۔

  • کرونا ویکسین پر سب سے زیادہ بھروسہ کرنے والا ملک کون سا ہے؟

    کرونا ویکسین پر سب سے زیادہ بھروسہ کرنے والا ملک کون سا ہے؟

    لندن: دنیا بھر میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن جاری ہے، حال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے سے پتہ چلا کہ برطانیہ ان ویکسینز پر سب سے زیادہ بھروسہ کرنے والا ملک ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں برطانیہ کووڈ ویکسین پر سب سے زیادہ اعتماد کرنے والا ملک ہے، 15 ممالک کے لوگوں سے کیے گئے ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ کووڈ ویکسینز پر سب سے زیادہ اعتماد برطانیہ میں کیا جاتا ہے۔

    برطانیہ میں 10 میں سے 9 افراد نے کہا کہ وہ ویکسین پر بھروسہ کرتے ہیں، اس حوالے سے اسرائیل دوسرے نمبر پر رہا جہاں 83 فیصد افراد نے ویکسینز پر اعتماد کا اظہار کیا۔

    جاپان میں ویکسین پر اعتماد کی شرح کم ترین سطح 47 فیصد پر پائی گئی۔

    امپیریئل کالج لندن کی ٹیم جو نومبر سے ویکسین کے بارے میں لوگوں کے رویوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ویکسینز پر اعتماد بڑھانے کے لیے اب بھی کام کرنا باقی ہے۔

    یہ سروے یوگوو کے تعاون سے کیا گیا جس میں 68 ہزار سے زائد افراد شامل تھے۔ ان ممالک میں جہاں ابھی تک ویکسین وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں تھی، وہاں حفاظت سے متعلق خدشات کا بھی انکشاف ہوا۔

    ویکسین نہ رکھنے کی سب سے عام وجہ اس کے لیے اہل نہ ہونا تھا۔ برطانیہ اور اسرائیل ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے آج تک اپنے شہریوں کو ویکسین کی زیادہ سے زیادہ خوراکیں دیں۔

    سروے کے مطابق جاپان میں ویکسی نیشن کی مہم دیر سے شروع ہوئی اور رسد کی قلت اور تنظیمی مشکلات کی وجہ سے رکاوٹ ہوئی، سروے میں جن دیگر تشویش آمیز ممکنات پر روشنی ڈالی گئی ان میں ویکسین کے ممکنہ مضر اثرات اور حفاظت پر تحفظات شامل تھے۔

    اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ مختلف ممالک میں صحت کے حکام پر اعتماد مختلف ہے۔

    امپیریل کالج لندن کی پروجیکٹ لیڈر سارہ جونز نے کہا کہ ہمارے سروے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کرونا وائرس ویکسین کی حفاظت اور اس کی تاثیر کے بارے میں عوام کو یقین دلانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ لوگوں نے جو خدشات اٹھائے ہیں حکومتوں کی جانب سے انہیں دور کرنے کے لیے بروقت اقدامات کیے جائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ سروے کے اعداد و شمار سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ کووڈ 19 کے لیے مختلف ویکسینز پر مختلف انداز میں بھروسہ کرتے ہیں۔