Tag: UK

  • ارمینا خان اور ان کے شوہر کے لیے برطانوی ایوارڈ

    ارمینا خان اور ان کے شوہر کے لیے برطانوی ایوارڈ

    لندن: برطانوی نژاد پاکستانی اداکارہ ارمینا خان اور ان کے شوہر کو برطانیہ میں عوامی خدمات پر مقامی حکومت کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانوی نژاد پاکستانی اداکارہ ارمینا خان اور ان کے شوہر کو عوامی خدمات کیے جانے پر برطانیہ کی مقامی حکومت نے ایوارڈ سے نوازا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Armeena Khan (@armeenakhanofficial)

    ارمینا خان کی پیدائش اور پرورش برطانیہ میں ہی ہوئی اور انہوں نے پاکستانی شوبز انڈسٹری میں کام سے قبل برطانیہ میں ہی کام کیا تھا، ارمینا خان اپنی زندگی کا زیادہ وقت برطانیہ میں ہی گزارتی ہیں، تاہم شوبز منصوبوں کے سلسلے میں وہ پاکستان بھی آتی رہتی ہیں۔

    برطانیہ میں رہائش کی وجہ سے وہ وہاں سماجی مسائل سمیت ہر طرح کی عوامی خدمات کے لیے متحرک دکھائی دیتی ہیں، وہ جہاں سوشل میڈیا پر برطانیہ کے اندرونی سماجی مسائل پر بات کرتی رہتی ہیں، وہیں وہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسائل کو بھی اپنا موضوع بناتی ہیں۔

    برطانیہ میں عوامی خدمات اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے صلے ہی میں انہیں اور ان کے شوہر فیصل خان کو برطانوی ریاست انگلیڈ کی کاؤنٹی لنکا شائر کے ٹاؤن برنلے کے میئر نے ایوارڈ سے نوازا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Fesl Khan (@feslkhan)

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Armeena Khan (@armeenakhanofficial)

    ارمینا خان نے برنلے ٹاؤن کے پاکستانی نژاد میئر اور ہاؤس آف لارڈز کے رکن واجد خان اور ان کی اہلیہ انعم خان سے ملاقات سمیت ان کی جانب سے ایوارڈ وصولی کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے مداحوں کو بتایا کہ انہیں ان کی عوامی خدمات کے عوض ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ارمینا خان نے برنلے کے میئر اور ان کی اہلیہ سے شوہر کے ساتھ ملاقات کی تصاویر شیئر کیں اور بعد ازاں انہوں نے دوسری پوسٹ میں خود کو ایوارڈ دیے جانے کی تصویر بھی شیئر کی۔

    عوامی خدمات کے اعتراف پر ایوارڈ دیے جانے پر ارمینا خان نے برنلے کے میئر کا شکریہ ادا کیا جب کہ متعدد شوبز شخصیات نے بھی اداکارہ کو مبارکباد پیش کی۔

  • پرنس ہیری نے نئے انکشافات کر دیے

    پرنس ہیری نے نئے انکشافات کر دیے

    لندن: شاہی خاندان سے دست بردار شہزادہ ہیری نے انکشاف کیا ہے کہ والدہ کے انتقال کے بعد وہ شراب اور منشیات کی لت میں مبتلا ہو گئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق دماغی صحت سے متعلق دستاویزی سیریز کے لیے پرنس ہیری نے اوپرا ونفرے کو انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے عمر کی 20 ویں دہائی کے آخر اور 30 ویں دہائی کے اوائل میں شاہی زندگی کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے کثرت سے شراب نوشی کی، اور منشیات کا استعمال کیا، اس کے ساتھ ان پر بے چینی اور گھبراہٹ کے حملے ہوتے رہے۔

    والدہ کے انتقال اور اپنی دماغی صحت کے حوالے سے اوپرا ونفرے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا والدہ کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، انھیں اس پر شدید غصہ تھا، جب کہ ان کی موت کے چند برسوں بعد تک آس پاس لوگ ان کی موت پر تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے۔ واضح رہے کہ 1997 میں لیڈی ڈیانا کے موت کے وقت شہزادہ ہیری کی عمر 12 سال تھی۔

    پرنس ہیری نے بتایا کہ والدہ کی وفات کے بعد شاہی خاندان نے انھیں مکمل نظر انداز کیا، بلوغت کی عمر میں بھی ان پر شدید گھبراہٹ اور بے چینی کے حملے ہوتے رہے، 28 سے 32 سال کے درمیان کا عرصہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔

    انھوں نے کہا کہ میگھن سے تعلقات منظر عام پر آتے ہی ٹیبلائڈ پریس کی جانب سے ان کا تعاقب اور ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور تسلسل کے ساتھ ان کی تصاویر شائع کی جاتی رہیں، سوشل میڈیا اور اخبارات نے ان پر حملے کیے، اور اس دوران خاندان کی جانب سے بہت تھوڑی حمایت ملی۔

    پرنس ہیری نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ خاندان کے افراد میری مدد کریں گے، لیکن میں نے اس صورت حال میں خود کو بے بس پایا، ہم نے چار برس تک کوشش کی کہ برطانیہ میں رہ کر ہی اپنے فرائض سر انجام دیں، لیکن شاہی کردار میری دماغی صحت کو تباہ کر رہا تھا اس لیے میں نے اس سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

  • برطانیہ میں قرنطینہ سے بچنے کے لیے غیر ملکی انوکھا راستہ اختیار کرنے لگے

    برطانیہ میں قرنطینہ سے بچنے کے لیے غیر ملکی انوکھا راستہ اختیار کرنے لگے

    لندن: برطانیہ کی جانب سے ریڈ لسٹ میں شامل ممالک کے شہری وہاں پہنچنے کے لیے ترکی کا راستہ اختیار کرنے لگے، برطانیہ جانے والے مسافر ترکی میں 10 روز گزار کر برطانیہ پہنچ رہے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث پابندی کا شکار ملکوں سے برطانیہ آنے والے مسافر لازمی قرنطینہ سے بچنے کے لیے ترکی کا راستہ استعمال کر رہے ہیں۔

    برطانیہ پہنچنے سے قبل سیاح اور مسافر ترکی میں قیام کرتے ہیں کیونکہ برطانیہ نے تاحال ترکی کو اپنی ریڈ لسٹ میں شامل نہیں کیا۔

    ٹریول ایجنسیاں پاکستان اور بھارت سمیت ان دیگر ممالک کے مسافروں کو قرنطینہ پیکج فروخت کر رہی ہیں جن کو برطانیہ نے سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ میں شامل کیا ہے۔

    اس پیکج کے تحت ٹریول ایجنسیاں برطانیہ کا سفر کرنے والے افراد سے کہتی ہیں کہ وہ ترکی میں دس دن بطور سیاح گزاریں اور اس کے بعد وہ لندن سمیت کسی بھی برطانوی ایئرپورٹ پر اتر سکتے ہیں جہاں ان کو قرنطینہ کی پابندی کا سامنا نہیں ہوگا۔

    رپوٹ کے مطابق تاحال ترکی نے کسی بھی ملک سے آنے والے مسافروں پر قرنطینہ کی پابندی عائد کی ہے اور نہ ہی اسے برطانیہ کی سفری پابندیوں کی ریڈ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

    برطانیہ کی سفری پابندیوں کے ضوابط کے تحت قرنطینہ پیکج قانونی ہے تاہم ترکی میں یہ اس وقت متنازعہ حیثیت اختیار کر گیا جب کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے بعد وقتی طور پر لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا۔

    ترکی میں سیاحوں اور مسافروں کو پابندیوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے اور وہ ملک میں باآسانی گھوم پھر سکتے ہیں۔

    ترکی کی اپوزیشن پارٹی کے ایک رہنما مراط امیر نے کہا ہے کہ پاکستان و بھارت سے آنے والے مسافروں پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں جیسے دیگر یورپی ممالک نے عائد کی ہیں۔

    ترکی کے وزیر صحت فاحریتن کوسا نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ استنبول میں کرونا وائرس کی بھارتی قسم کے 5 کیسز سامنے آئے ہیں۔

  • پاکستانی نوجوان نے کیمبرج کی طرح امتحانی بورڈ بنا لیا!

    پاکستانی نوجوان نے کیمبرج کی طرح امتحانی بورڈ بنا لیا!

    پاکستانی نوجوان نے کیمبرج کی طرح امتحانی بورڈ بنا لیا ہے، جسے برطانیہ، یو اے ای، آسٹریلیا، اور کینیڈا میں بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں مقیم ماہر تعلیم پاکستانی نوجوان زوہیب طارق نے کیمبرج انٹرنیشنل کی طرح امتحانی بورڈ ایل آر این (لرننگ ریسورس نیٹ ورک) بنا لیا ہے، برطانیہ میں انھیں کوئنز ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام شام رمضان میں زوہیب طارق نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا لرننگ ریسورس نیٹ ورک ایسا ہی ایک امتحانی بورڈ ہے جس طرح پاکستان میں کراچی بورڈ ہے، سندھ بورڈ ہے، اور جیسا کہ برطانیہ کا کیمبرج بورڈ ہے۔

    زوہیب طارق نے بتایا کہ ایل آر این برطانیہ کا امتحانی بورڈ ہے، اور میرے پاس اس کے بالکل اُسی طرح اس کے اوارڈنگ پاورز ہیں، جیسا کے کیمبرج کے پاس اپنے بورڈ کے لیے ہوتے ہیں، اور یہ برطانوی حکومت سے منظور شدہ ہے۔

    انھوں نے کہا ہمارے امتحانی بورڈ کا اطلاق دنیا کے 58 ممالک میں ہو چکا ہے، ان ممالک میں ہمارے ٹیسٹ سینٹرز ہیں، جہاں ہم امتحانات لیتے ہیں۔

    زوہیب طارق یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اس سے طلبہ کو فائدہ حاصل ہو، انھوں نے کہا اس سے پاکستانی طالب علموں کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ پاکستان میں برطانوی اہلیت حاصل کر سکیں گے، یعنی اگر وہ برطانیہ نہ جانا چاہے تو وہ پاکستان میں بیٹھے بیٹھے بھی وہی کوالیفکیشن لے سکتے ہیں جو ایک طالب علم برطانیہ جا کر لیتا ہے، اور یہ کوالیفکیشن عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔

    انھوں نے کہا یہ کوالیفکیشن طلبہ کو امیگریشن میں مددگار ثابت ہوگی، اگر وہ کینیڈا یا کسی اور ملک جائیں گے تو یہ کوالیفکیشن امیگریشن کے لیے تسلیم شدہ ہے۔

    زوہیب نے بتایا کہ انھوں نے طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے بھی کام کیا ہے، کہا ہم ٹیچرز ٹریننگ کے کوالیفکیشن بھی آفر کرتے ہیں، اگر وہ اچھی طرح تربیت یافتہ ہوں گے تو وہ بچوں کو بھی سکھا سکیں گے۔

  • بورس جانسن فلیٹ پر بھاری رقم خرچ کر کے مشکل میں پڑ گئے

    بورس جانسن فلیٹ پر بھاری رقم خرچ کر کے مشکل میں پڑ گئے

    لندن: برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے فلیٹ کی تزئین و آرائش پر آنے والے اخراجات کی تحقیقات کا آغاز ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں واقع برطانوی وزیر اعظم کے فلیٹ کی تزئین و آرائش پر 2 لاکھ پاؤنڈز خرچ کر دیے گئے، جس پر سرکاری سطح پر تحقیقات شروع ہو گئی ہے۔

    سیاسی اور انتخابی معاملات کے اخراجات کو دیکھنے والے برطانوی کمیشن نے شواہد کے تناظر میں رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کیے جانے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔

    برطانیہ میں اعلیٰ سرکاری سطح پر اب اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ مذکورہ فلیٹ کی مرمت کی مالی اعانت کیسے کی گئی۔

    واضح رہے کہ بورس جانسن اور ان کی منگیتر کیری سیمنڈز نے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں اپنی نجی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر 2 لاکھ پاؤنڈز خرچ کیے ہیں، جب کہ سرکاری طور پر برطانوی وزیر اعظم کو اپنے گھر کی تزئین و آرائش اور دیگر اخراجات کے لیے سالانہ صرف 30 ہزار پاؤنڈز گرانٹ ملتی ہے۔

    بورس جانسن کے سابق چیف ایڈوائزر ڈومینک کمنگز کا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ وزیر اعظم نے ڈونرز کو ’خفیہ طور پر ادائیگی‘ کرنے کا کہا تھا، انھوں نے الزام لگایا کہ ٹوری کے ڈونرز سے فلیٹ پر ہونے والے کام کی ادائیگی کرانے کی منصوبہ بندی کی گئی، یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ بورس جانسن نے 58,000 پاؤنڈز کا عطیہ وصول کیا۔

    سابق اٹارنی جنرل ڈومینک گریو نے کہا ہے کہ بورس جانسن کو اب یہ واضح کردینا چاہیے کہ ان کے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے فلیٹ کی تزئین وآرائش کے لیے کس نے ادائیگی کی۔

  • برطانوی حکومت نے 22 کرپٹ افراد پر پابندیاں عائد کر دیں

    برطانوی حکومت نے 22 کرپٹ افراد پر پابندیاں عائد کر دیں

    لندن: برطانوی حکومت نے 22 کرپٹ افراد پر پابندیاں عائد کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا ہے کہ عالمی انسداد بدعنوانی اقدامات کے تحت بائیس کرپٹ افراد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

    ڈومینک راب کے مطابق بدعنوان افراد کا تعلق روس، جنوبی افریقا، سوڈان، اور لاطینی امریکا سے ہے، یہ انٹرنیشنل کرپٹ افراد ہیں جن کے اثاثے بھی ضبط کر کے ان کے سفر پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔

    برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کرپٹ افراد میں 14 کا تعلق روس کے سب سے بڑے ٹیکس فراڈ سے ہے۔

    انھوں نے کہا کرپشن غریب ممالک کی ترقی کی رفتار سست کر دیتی ہے، کرپشن سے غریب ممالک کا پیسا باہر نکلتا ہے اور غربت بڑھتی ہے، یہ جمہوریت کو بھی زہر آلود کر دیتی ہے۔

    ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ پابندی کے شکار افراد کرپشن کے انتہائی بد نما کیسز میں ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ نے یہ پہلی بار بین الاقوامی کرپشن کے لیے کسی پر پابندی لگائی ہے۔

    مجموعی طور پر 6 ممالک کے کرپٹ افراد پر پابندی عائد کی گئی ہے، جن میں 14 روسی ہیں جو ایک بڑے ٹیکس فراڈ میں ملوث تھے اور جنھیں ایک وکیل سرگی میگنسکی نے بے نقاب کیا تھا جو بعد ازاں دوران حراست مر گیا۔

    3 تاجر بھائیوں اجے، اتل اور راجیش گپتا پر جنوبی افریقا میں سنگین کرپشن کا الزام ہے، سوڈان کا ایک بزنس مین اشرف سعید احمد حسین علی بھی ان میں شامل ہے جس نے جنوبی سوڈان کے ریاستی اثاثوں میں خردبرد کی، جب کہ 3 افراد کا تعلق لاطینی امریکا کے تین ممالک ہونڈراس، نکاراگوا اور گوئٹے مالا سے ہے۔

  • کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کو خطرناک سمجھا جارہا تھا لیکن اب حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے اس کی نفی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117 سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع شدہ انفیکشیز ڈیزیز تحقیق میں اسپتالوں میں زیر علاج رہنے والے کووڈ 19 کے مریضوں کے ایک گروپ کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا ڈیٹا حقیقی دنیا پر مبنی ہے جس سے ابتدائی یقین دہانی ہوتی ہے کہ بی 117 سے متاثر مریضوں میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    تحقیق میں 496 مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو نومبر اور دسمبر 2020 کے دوران برطانیہ کے اسپتالوں میں کووڈ 19 کے باعث زیر علاج رہے تھے۔

    ان میں سے 198 مریضوں میں بی 117 قسم کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 72 میں بیماری کی شدت سنگین ہوئی جبکہ گروپ کے دیگر 141 افراد (جن میں کرونا کی دیگر اقسام کو دریافت کیا گیا تھا) میں سے 53 مریضوں کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوا۔

    بی 117 سے متاثر 31 جبکہ دیگر اقسام سے متاثر 24 مریض ہلاک ہوئے۔ جن افراد میں بیماری کی شدت زیادہ ہوئی یا ہلاک ہوئے، وہ معمر تھے یا پہلے سے کسی اور بیماری کا شکار تھے۔

    اگرچہ محققین بی 117 کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت یا موت کے نمایاں خطرے کو دریافت نہیں کرسکے تاہم ان میں وائرل لوڈ کی سطح زیادہ تھی، جس سے وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا عندیہ ملتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے سابقہ تحقیق کو توقع ملتی ہے کہ برطانیہ میں دریافت یہ قسم زیادہ متعدی ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • برطانوی پارلیمنٹ کے 34 ارکان کا ریڈ لِسٹ پر بڑا ردِ عمل

    برطانوی پارلیمنٹ کے 34 ارکان کا ریڈ لِسٹ پر بڑا ردِ عمل

    لندن: پاکستان اور بنگلا دیش کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے کے معاملے پر 34 ممبران پارلیمنٹ نے وزیر اعظم بورس جانسن کو خط لکھ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ کے چونتیس ممبران نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر توجہ دلائی ہے کہ پاکستان اور بنگلا دیش کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے سے برطانوی شہری متاثر ہوں گے، برطانیہ میں 11 لاکھ سے زیادہ پاکستانی مقیم ہیں۔

    ممبران پارلیمنٹ کا خط میں کہنا تھا کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالے جانے کا واضح جواز نہیں دیا گیا، ریڈ لسٹ میں ڈالے جانے کے طریقہ کار پر شدید تحفظات ہیں۔

    انھوں نے خط میں کہا ہے کہ پاکستان میں انفیکشن ریٹ برطانیہ سے بھی کم ہے، پاکستان میں کرونا کیسز دیگر ممالک سے بہت کم ہیں جو ریڈ لسٹ پر نہیں۔

    ناز شاہ کے بعد ایک اور برطانوی رکن پارلیمنٹ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے پر وضاحت مانگ لی

    خط میں کہا گیا ہے کہ ہمیں بتایا جائے کن شواہد پر پاکستان اور بنگلا دیش کو ریڈ لسٹ میں ڈالا گیا، نیز یہ بھی بتایا جائے کہ ریڈ لسٹ کا دوبارہ جائزہ کب لیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ برطانوی ریڈ لسٹ کی وجہ سے 9 اپریل کے بعد کوئی غیر برطانوی شہری برطانیہ داخل نہیں ہو سکے گا۔

  • برطانوی ممبر پارلیمنٹ ناز شاہ نے ریڈ لسٹ پر سوالات اٹھا دیے

    برطانوی ممبر پارلیمنٹ ناز شاہ نے ریڈ لسٹ پر سوالات اٹھا دیے

    لندن: برطانوی ممبر پارلیمنٹ ناز شاہ نے وزیر خارجہ ڈومینک راب کو خط لکھ کر برطانوی ریڈ لسٹ پر سوالات اٹھا دیے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے وزیر خارجہ کو خط میں سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں کس سائنٹفک بنیاد پر ڈالا گیا، جب کہ فرانس، جرمنی اور بھارت کی نسبت پاکستان میں کرونا کیسز کی شرح کم ہے۔

    انھوں نے خط میں لکھا کہ برطانوی حکومت اپنے عوام کے تحفظ کی بجائے سیاسی فیصلے کر رہی ہے، حکومت کا یہ اقدام پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کے خلاف ہے۔

    ناز شاہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ریڈ لسٹ پر پارلیمنٹ میں بھی سوال اٹھایا لیکن جواب نہیں دیا گیا، کہا گیا کہ یہ بتانے میں وقت لگے گا، میں اپنے سوال کے جواب کا اب بھی انتظار کر رہی ہوں۔

    پاکستان برطانوی ریڈ لسٹ میں، پی آئی اے کا مسافروں کے لیے بڑا اعلان

    انھوں نے کہا تازہ اعداد و شمار کے مطابق فرانس، جرمنی اور بھارت میں کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے، فرانس میں ہر ایک لاکھ میں سے 403 افراد روزانہ، جرمنی میں ہر ایک لاکھ میں سے 137 افراد، جب کہ بھارت میں ہر ایک لاکھ میں سے 24 افراد روزانہ متاثر ہو رہے ہیں۔

    خط ناز شاہ نے لکھا فرانس، جرمنی اور بھارت کی نسبت پاکستان میں کرونا کیسز کی شرح کم ہے، پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے 13 افراد روزانہ کرونا سے متاثر ہو رہے ہیں، جنوبی افریقا سے کرونا کی نئی قسم پاکستان کو متاثر نہیں کر رہی، اس پس منظر میں برطانیہ نے فرانس، جرمنی، بھارت کو ریڈ لسٹ میں کیوں شامل نہیں کیا؟

    انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا برطانوی حکومت ریڈ لسٹ سے متعلق مربوط لائحہ عمل نہیں رکھتی؟ برطانوی حکومت اپنے عوام کے تحفظ کی بجائے سیاسی فیصلے کر رہی ہے، حکومت کے فیصلوں میں حقیقی اعداد و شمار نظر انداز ہو رہے ہیں۔

  • اچانک کروڑ پتی بننے والی لڑکی کا انجام

    اچانک کروڑ پتی بننے والی لڑکی کا انجام

    لندن: دولت اور بے تحاشا دولت کی تمنا ہر شخص کرتا ہے، لیکن جب قسمت سے دولت ہاتھ لگتی ہے تو اسے سنبھالنا بھی ایک بڑی اور مشکل ذمہ داری ہوتی ہے۔

    ایک برطانوی لڑکی ایسی ہی صورت حال سے گزری، قسمت نے اسے اچانک کنگال سے کروڑ پتی بنایا، اور پھر وہ اسے سنبھال نہ سکی، اور کروڑ پتی سے پھر کنگال ہو گئی۔

    کیلی راجرز نے 2003 میں 16 سال کی عمر میں 18 لاکھ ڈالرز کی لاٹری جیتی تھی، اس وقت وہ یہ لاٹری جیتنے والی کم عمر ترین لڑکی تھی۔

    تاہم کیلی راجرز اتنی بڑی رقم کو سنبھال نہ سکی، اور اس نے یہ رقم نشہ کرنے اور پارٹیوں میں اڑا دی، وہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں پر بے دردی سے رقم خرچ کرتی تھی۔

    کیلی راجرز جس کی عمر اب 33 سال ہے اور وہ چار بچوں کی ماں ہے، کو نشے کی ایسی لت پڑ چکی ہے کہ حال ہی میں اس نے کوکین کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اپنی فور بائی فور گاڑی ٹکرا دی تھی، جس کی وجہ سے اس پر ڈرائیونگ کی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

    کروڑ پتی سے واپس کنگال بننے کے بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ دوستوں اور رشتہ داروں کو قصور وار ٹھہرانے لگی، کیلی راجرز نے کہا دوستوں اور رشتے داروں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور بعد میں اسے اکیلا چھوڑ دیا۔

    تاہم کیلی راجرز نے اپنی بھی غلطی تسلیم کی، اس کا کہنا تھا کہ ہر شخص غلطی کرتا ہے اور مجھ سے بھی ہوئی، جب میں نے لاٹری جیتی تو صرف سولہ سال کی تھی، میں کسی کی سننے کو تیار ہی نہیں تھی۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ چوٹ کھانے کے بعد کیلی راجرز نے لاٹری مالکان سے درخواست کی ہے کہ لاٹری جیتنے کی عمر کی کم سے کم حد 18 سال کی جائے۔