Tag: UK

  • لیڈیا ڈیانا کے ہاتھ سے لکھے خطوط کتنے پونڈز میں نیلام ہوئے؟ (خطوط کےعکس)

    لیڈیا ڈیانا کے ہاتھ سے لکھے خطوط کتنے پونڈز میں نیلام ہوئے؟ (خطوط کےعکس)

    لندن: لیڈی ڈیانا کے تحریر کردہ خطوط 67 ہزار 900 پونڈز میں فروخت ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق آنجہانی شہزادی ڈیانا کے ایک خاندانی دوست راجر بریمبل کو 1990 سے 1997 تک لکھے گئے خطوط آج نیلامی میں فروخت کر دیے گئے۔

    یہ خطوط لیڈی ڈیانا نے ہاتھ سے لکھے تھے، اور ان کا عرصہ سات سال پر مشتمل ہے یعنی ان کی موت تک۔ ان میں مبارک باد کے کارڈ بھی شامل تھے اور ان کی مجموعی تعداد تقریباً 40 تھی۔

    خطوط میں جو خط سب سے زیادہ مہنگا فروخت ہوا وہ 1996 کا تھا جو 7 ہزار 200 پونڈز میں نیلام ہوا، خط میں ملکہ برطانیہ کو ’دی باس‘ لکھا گیا تھا۔

    خاندانی دوست راجر بریمبل

    ڈیانا نے ان خطوط میں راجر بریمبل کو اس دل خراش ہفتے کی ذہنی اذیت کے بارے میں بھی لکھا جو انھوں نے 1992 میں اینڈریو مورٹن کی لکھی گئی بائیو گرافی ’ڈیانا کی سچی کہانی‘ کی اشاعت کے بعد برداشت کی تھی، اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ڈیانا نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔

    1996 میں لکھا گیا ایک خط جس میں مسٹر بریمبل سے ملاقات کو نہایت خوش آئند قرار دیا گیا تھا، کیوں کہ وہ ملاقات پرنس چارلس سے طلاق کے آمدہ خطرے سے جڑی ہوئی عام سرگرمیوں سے ان کی توجہ بانٹنے میں مددگار ثابت ہوئی تھی، 6 ہزار 500 پونڈز میں فروخت ہوا۔

    1995 کا ایک کرسمس کارڈ جس میں شہزادی ڈیانا کے ساتھ شہزادہ ولیم اور ہیری بھی ہیں، 2 ہزار 300 پونڈز میں نیلام ہوا۔

    اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم ان اداروں کو عطیہ کی جائے گی جن کے ساتھ شہزادی ڈیانا اور بریمبل نے تعاون کیا تھا۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے اور حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 10 میں سے 3 مریض ان علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں علم ہوا کہ کووڈ سے متاثر ہر 10 میں سے ایک مریض کو 3 یا اس سے زیادہ مہینے تک کووڈ کی علامات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    ایسے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن میں بیماری کی علامات صحت یابی کے بعد بھی کئی ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) کی اس تحقیق میں متعدد تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کے اعضا پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کو بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ ممکنہ طور پر 4 مختلف سنڈرومز کا مجموعہ ہوسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان سنڈرومز میں پوسٹ انٹینسیو کیئر سنڈروم، اعضا کو طویل المعیاد نقصان، پوسٹ وائرل سنڈروم اور ایک نیا سینڈروم شامل ہے جو دیگر سے مختلف الگ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ لانگ کووڈ ایک متحرک بیماری ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے بیماری کے مختلف پیٹرنز کو سمجھنے میں مدد ملے گی، مگر ہمیں اس کی ہر وجہ کو جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 10 فیصد افراد کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا 3 ماہ بعد بھی ہوتا ہے، مگر ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا عمل محدود ہونے کے باعث ہوسکتا ہے کہ یہ شرح زیادہ ہو۔

  • آن لائن ٹیکسی ڈرائیورز کے لیے بڑی خوش خبری

    آن لائن ٹیکسی ڈرائیورز کے لیے بڑی خوش خبری

    لندن: امریکی کمپنی اوبر نے 70 ہزار ڈرائیورز کو ورکرز کا درجہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، اب ان کو پنشن بھی ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق اوبر نے برطانیہ میں اپنے ڈرائیورز کو باقاعدہ کارکنوں کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے انھیں کم از کم اجرت سمیت ماہانہ چھٹیاں اور پنشن جیسی مراعات بھی ملیں گی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اوبر کے ڈرائیورز کو یہ سہولت دنیا میں پہلی بار فراہم کی جا رہی ہے۔

    ٹیکسی ایپلیکیشن اوبر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بدھ سے اوبر کے برطانیہ میں ستر ہزار سے زیادہ ڈرائیورز کو ورکرز کا درجہ دے دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ فیصلہ برطانوی سپریم کورٹ کی اس رولنگ کے بعد کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اوبر کے ڈرائیورز کو کارکنان کے حقوق ملنے کا حق ہے، اور اس فیصلے سے برطانیہ کے ڈرائیورز اور اوبر کے درمیان قانونی جنگ چھڑ گئی تھی۔

    سروسز ایمپلائز انٹرنیشنل یونین امریکا نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے، ایک ماہ قبل امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک ریفرنڈم میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اوبر ڈرائیورز کو بھی ورکرز کا درجہ دیا جائے۔

    واضح رہے کہ ٹیکسی ایپلی کیشن کمپنیوں کے ڈرائیورز نے پروپوزیشن 22 کے نام سے مشہور ایک مقدمہ درج کیا تھا، جو نومبر میں منظور ہو گیا، اس میں کہا گیا تھا کہ ڈرائیور خود مختار کنٹریکٹرز ہیں، تاہم انھیں کچھ مراعات ملنی چاہیئں، جیسا کم از کم اجرت، صحت اور انشورنس کی سہولیات وغیرہ۔

  • کرونا وائرس سے موت کا خطرہ کن افراد کو زیادہ ہے؟

    کرونا وائرس سے موت کا خطرہ کن افراد کو زیادہ ہے؟

    اب تک دیکھا جاچکا ہے کہ کرونا وائرس بعض افراد کو بہت زیادہ اور بعض افراد کو بہت کم متاثر کرتا ہے، ماہرین نے اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کن افراد میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق سست رفتاری سے چلنے کے عادی افراد میں کووڈ 19 سے موت کا خطرہ لگ بھگ 4 گنا جبکہ سنگین حد تک بیمار ہونے کا امکان 2 گنا سے زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 4 لاکھ 12 ہزار سے زیادہ درمیانی عمر کے افراد کو شامل کیا گیا، ان افراد کے جسمانی وزن اور چلنے کی رفتار کا موانہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے اور موت کے خطرے سے کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تیز رفتاری سے چلنے والوں کے مقابلے میں نارمل وزن کے حامل سست روی سے چلنے والے افراد میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے اور موت کا خطرہ بالترتیب ڈھائی گنا اور 3.75 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم یہ پہلے سے جانتے ہیں کہ موٹاپا کووڈ 19 کے نتائج کو بدترین بنانے والا عنصر ہے، مگر یہ پہلی تحقیق ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ سست روی سے چلنے والے افراد میں بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، چاہے وزن جتنا بھی ہو۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ تیز رفتاری سے چلنے والے فربہ افراد میں اس بیماری کی زیادہ شدت اور موت کا خطرہ سست روی سے چلنے والے لوگوں سے کم ہوتا ہے، تاہم جسمانی وزن زیادہ ہو اور چلنے کی رفتار بھی کم ہو تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں عوامی صحت اور تحقیقی رپورٹس میں جسمانی وزن کے ساتھ جسمانی فٹنس کے عام اقدامات جیسے چلنے کی رفتار کو شامل کرنے پر غور کیا جانا چاہیئے کیونکہ یہ کووڈ 19 کے شکار ہونے پر نتائج کی پیش گوئی کرنے والے عناصر ہیں۔

  • برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں موجود کرونا وائرس کی نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا اور متعدی ہے۔ ماہرین نے کرونا کی اس قسم سے اموات کی شرح کا تعین بھی کیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ جان لیوا ہے۔

    برسٹل، لنکا شائر، واروک اور ایکسٹر یونیورسٹیوں کی اس مشترکہ تحقیق میں یکم اکتوبر 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران کرونا وائرس کی برطانوی قسم سے متاثر 54 ہزار مریضوں کا موازنہ اتنی ہی تعداد میں پرانی قسم سے بیمار ہونے والے افراد سے کیا۔

    ماہرین نے عمر، جنس، نسل، علاقے اور سماجی حیثیت جیسے عناصر کو مدنظر رکھ کر یقینی بنایا کہ اموات کی وجہ کوئی اور نہ ہو۔

    یہ کسی طبی جریدے میں شائع ہونے والی پہلی تحقیق ہے جس میں کرونا کی برطانوی قسم سے اموات کی شرح کا تعین کیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اصل قسم سے شرح اموات ہر ایک ہزار میں 2.5 تھی مگر برطانوی قسم میں یہ شرح ہر ایک ہزار میں 4.1 تک پہنچ گئی، جو 64 فیصد زیادہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے بلکہ یہ زیادہ جان لیوا بھی نظر آتی ہے۔

    اس نئی قسم کے نتیجے میں اموات کی شرح میں اضافے کی وجوہات کو مکمل طور پر واضح نہیں کیا گیا، تاہم حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والے کچھ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ بی 1.1.7 سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہے، جس کے باعث وائرس نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے بلکہ مخصوص طریقہ علاج کی افادیت کو بھی ممکنہ طور پر متاثر کرسکتا ہے۔

    برطانیہ میں یہ نئی قسم سب سے پہلے ستمبر میں سامنے آئی تھی اور اس کی دریافت کا اعلان دسمبر 2020 میں کیا گیا تھا، جو اب تک درجنوں ممالک تک پہنچ چکی ہے اور امریکا میں یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں 35 سے 45 فیصد زیادہ آسانی سے پھیل رہی ہے۔

    امریکی حکام کا اندازہ ہے کہ یہ نئی قسم رواں سال مارچ میں امریکا میں سب سے زیادہ پھیل جانے والی قسم ہوگی۔

    اس نئی قسم سے لاحق ہونے والا سب سے بڑا خطرہ اس کا زیادہ تیزی سے پھیلنا ہی ہے، ایک اندازے کے مطابق یہ پرانی اقسام کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے، تاہم کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ شرح اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

  • برطانوی عدالت نے لارڈ نذیر احمد کو باعزت بری کر دیا

    برطانوی عدالت نے لارڈ نذیر احمد کو باعزت بری کر دیا

    مانچسٹر: برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے سابق رکن لارڈ نذیر احمد کو ہراسانی کیس میں عدالت نے باعزت بری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے سابق رکن لارڈ نذیر کے خلاف ہراسانی کیس میں آج تفصیلی فیصلہ جاری ہوا، اور انھیں الزامات سے باعزت بری کر دیا گیا۔

    شیفلڈ کراؤن کورٹ میں 15 جنوری سے اس کیس کی سماعت جاری تھی، آج تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، لارڈ کے سابق ممبر پر 5 سال قبل جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

    26 فروری کو لارڈ نذیر کیس پر مختصر فیصلہ سنایا گیا تھا، تاہم عدالت نے لارڈ نذیر احمد کو آج جنسی ہراسانی کیس میں الزامات جھوٹے قرار دے کر باعزت بری کر دیا۔

    لارڈ نذیر احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات تحقیقات کے بعد جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے، میں ہرجانے سمیت ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔

    انھوں نے کہا میری شہرت کو ایک سازش کے تحت داغدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن آج برطانوی عدالت سے انصاف کی توقع آج پوری ہوئی، آج حق و سچ کی فتح ہوئی ہے۔

    لارڈ نذیر نے کہا کہ وہ دنیا بھر مظلوم مسلمانوں کا مقدمہ مؤثر انداز میں لڑیں گے، انھوں نے کہا کشمیریت میرے خون میں ہے، آخری سانس تک کشمیر کا مقدمہ لڑوں گا۔

  • ملکہ برطانیہ کا میگھن مارکل کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟

    ملکہ برطانیہ کا میگھن مارکل کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟

    لندن: شاہی خاندان چھوڑنے والی امریکی اداکارہ میگھن مارکل اپنے ساتھ ملکہ الزبتھ کے رویے کے بارے میں کہتی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک تھا جب شاہی اداروں نے حالات بگاڑ دیے، ملکہ برطانیہ کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا۔

    امتیازی سلوک پر اپنے شوہر برطانوی شہزادہ ہیری کے ساتھ محل اور شاہی خاندان چھوڑنے والی میگھن مارکل نے چند دن قبل معروف میزبان اوپرا ونفرے کو ایک تہلکہ خیز انٹرویو میں کئی شاہی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔

    شاہی خاندان اور محل کے انتظامات کنٹرول کرنے والے اداروں سے متعلق میگھن نے بہت کچھ کہا، لیکن ان سب کے برعکس ملکہ الربتھ کا رویہ انھوں نے ’اچھا‘ قرار دیا۔

    انٹرویو میں شاہی خاندان کے افراد سے متعلق انھوں نے کہا ’شاہی خاندان کے افراد کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا، حالات تو شاہی اداروں کے سبب بگڑے، جنھوں نے مجھے نیچا دکھایا۔‘

    شاہی محل میں رہنے کے دوران خودکشی کرنا چاہتی تھی: میگھن مرکل کا تہلکہ خیز انٹرویو

    میگھن کا کہنا تھا کہ ایک طرف شاہی خاندان کے ارکان تھے، دوسری طرف شاہی اداروں کو چلانے والے افراد تھے، یہ دونوں ہی مختلف چیزیں ہیں، شاہی خاندان کے ارکان میں سب سے اہم ملکہ الزبتھ بھی میرے ساتھ بہتر رویہ رکھتی تھیں۔

    اس سنسنی خیز انٹرویو میں شاہی خاندان کی بہو میگھن مارکل نے نسلی تعصب کا بھی ذکر کیا، انھوں نے کہا جب وہ پہلی بار ماں بننے والی تھیں، تو اُس وقت گہری رنگت کے سبب اُن کی اولاد کو شہزادہ یا شہزادی کا درجہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا، یہ بحث بھی شروع ہو گئی کہ آیا اُن کی اولاد کو شاہی القاب، سیکیورٹی اور پروٹوکول دیا جائے گا یا نہیں۔

    برطانوی شاہی خاندان میں ساس بہو کے جھگڑے عروج پر

    رنگ و نسل پر ہونے والی یہ بحث کس کی جانب سے کی گئی تھی، میگھن نے کہا کہ یہ بتانا بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔

  • برطانوی شاہی خاندان میں ساس بہو کے جھگڑے عروج پر

    برطانوی شاہی خاندان میں ساس بہو کے جھگڑے عروج پر

    لندن: برطانوی شاہی خاندان میں ساس بہو، دیورانی جیٹھانی کے جھگڑے عروج پر پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق شاہی خاندان چھوڑنے والے شہزادہ ہیری کی اہلیہ میگھن مارکل نے کہا ہے کہ جب وہ شاہی خاندان کا حصہ تھیں، اس دوران شاہی خاندان کے افراد نے ان کی ویڈیوز لیک کی تھیں۔

    ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ان کی ساس کمیلا پارکر، جیٹھانی کیٹ مڈلٹن اور جیٹھ شہزادہ ولیم نے ان کی ویڈیوز لیک کر کے پریس کو جاری کی گئی تھیں۔

    واضح رہے کہ میگھن مارکل کے اس بیان سے دو ہی دن قبل برطانوی اخبار ٹائمز نے ایک تہلکہ خیز رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ میگھن مارکل نے محل میں قیام کے دوران شاہی دربار کے عملے کو دھمکیاں دیں اور ہراساں کیا، اس واقعے کی بکنگھم پیلس تحقیقات بھی کر رہا ہے۔

    شہزادہ ہیری اور میگھن کے نئے انٹرویو پر برطانوی میڈیا بے چین

    رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ 2018 میں کنگسٹن پیلس میں قیام کے دوران میگھن نے شاہی عملے کے 2 افراد کو محل سے بے دخل کر دیا تھا جب کہ تیسرے اسٹاف کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا تھا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل میگھن معروف امریکی ٹی وی ہوسٹ اوپرا ونفرے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں برطانوی شاہی خاندان کو تنبیہ کی تھی کہ وہ ان کے بارے میں جھوٹ بولنا بند کر دے ورنہ وہ اور ان کے شوہر اپنی خاموشی توڑ دیں گے۔

    میگھن کا کہنا تھا بکنگھم پیلس ان کے بارے میں مسلسل غلط بیانی سے کام لے رہا ہے، لیکن اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔

    انھوں نے انٹرویو میں کہا وہ اور ان کے شوہر پہلے ہی شاہی حیثیت سے دست بردار ہو چکے ہیں اور وہ بہت سے اعزازات سے محروم بھی کر دیے گئے ہیں، نہیں معلوم شاہی خاندان اب ان سے کیا توقع کرتا ہے۔

    میگھن نے کہا ہم ابھی بھی خاموش ہیں، لیکن اگر ان کے خلاف پروپیگنڈا بند نہیں کیا گیا تو یہ خاموشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گی۔

  • برطانیہ: گھر بیٹھے تنخواہ لینے والے افراد کے لیے خوش خبری

    برطانیہ: گھر بیٹھے تنخواہ لینے والے افراد کے لیے خوش خبری

    لندن: برطانوی حکومت نے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرنے والوں کے لیے فرلو اسکیم میں ستمبر تک توسیع کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں کرونا وبا کے باعث کام نہ کرنے والوں کوگھر بیٹھے 80 فی صد تنخواہ دی جا رہی ہے، اب حکومت نے رخصت کی اسکیم میں ستمبر تک توسیع کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    برطانیہ میں لاکھوں ملازمین فرلو اسکیم (Furlough Scheme) میں توسیع سے مستفید ہوں گے، اسکیم میں توسیع کا باقاعدہ اعلان وزیر خزانہ رشی سُناک کریں گے۔

    حکومتی مدد کی اس اسکیم سے 6 لاکھ آزاد پیشہ (سیلف امپلائیڈ) افراد بھی مستفید ہوں گے۔

    کرونا وائرس وبا کے دوران نوکری برقرار رکھنے کی یہ اسکیم گزشتہ مارچ میں شروع کی گئی تھی، اور اس کے ذریعے 1 کروڑ سے زائد ملازمتوں کو محفوظ بنایا جا چکا ہے، یہ اسکیم اگلے ماہ اپریل میں ختم ہونی تھی۔

    جب ہزاروں کاروبار بند پڑے ہوئے تھے، اسکیم کی وجہ سے ملازمتیں کھونے کا عمل سست ہوا، مالکان سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ اپنے اسٹاف کو جولائی میں کام کے ان گھنٹوں کے لیے 10 فی صد ادائیگی کریں گے جن میں انھوں نے کام نہیں کیا، اور اگست میں اسے 20 فی صد تک بڑھا دیں گے، کیوں کہ معیشت پھر سے کھل رہی ہے۔

    بجٹ سے قبل گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا کو وِڈ سپورٹ اسکیم لاکھوں لوگوں کے لیے لائف لائن رہا ہے، جو برطانیہ بھر میں ملازمتوں اور آمدنیوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

  • آسمان پر روشنی کے چمکتے گولے نے برطانوی شہریوں کو خوفزدہ کردیا

    آسمان پر روشنی کے چمکتے گولے نے برطانوی شہریوں کو خوفزدہ کردیا

    برطانیہ کے کئی شہروں میں آسمان پر روشنی کا گولہ دیکھا گیا جو دھماکے سے پھٹ گیا، شہریوں نے اپنے خوفزدہ تاثرات سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر شیئر کیے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق روشنی کا یہ گولہ ایک شہاب ثاقب تھا جو زمین کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس کا نظارہ کارڈف اور مانچسٹر سمیت کئی برطانوی شہروں میں کیا گیا۔

    ٹویٹر پر اس کی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ اسے دیکھ کر پہلے وہ اسے کوئی روشن ستارہ یا طیارہ سمجھے، پھر رفتہ رفتہ وہ بڑا ہوتا گیا اور روشنی کے گولے کی صورت اختیار کرگیا، اس کے بعد روشنی کا زوردار جھماکہ ہوا اور یہ گولہ اپنے پیچھے روشن نارنجی لکیریں چھوڑتا ہوا فضا میں غائب ہوگیا۔

    کچھ افراد نے اس سے ہونے والے دھماکے کی آواز بھی سنی۔

    یو کے میٹی اور نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ اس شہاب ثاقب کے بارے میں 120 سے زائد افراد نے رپورٹ کیا۔

    میٹی اور نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب زمین کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد جل اٹھتے ہیں اور بعض اوقات دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں، یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔