Tag: UK

  • بریگزٹ ڈیل مسترد، ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا

    بریگزٹ ڈیل مسترد، ڈونلڈ ٹسک نے برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا

    برسلز : یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے پر برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنے کا مشورہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کو دارالعوام میں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا، پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے انخلا کی مخالفت میں فیصلہ دے دیا، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ پڑے، 118 حکومتی ممبران نے بھی ڈیل کے خلاف ووٹ دیا۔

    ڈونلڈ ٹسک نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ پر ٹویٹ کیا کہ اگر معاہدہ ناممکن ہے اور کوئی بھی ڈیل نہیں چاہتا، تو پھر کس میں یہ کہنے کی ہمت ہوگی کہ مثبت حل کیا ہے؟

    یورپی حکام اور سیاست دانوں کی جانب سے بریگزٹ ڈیل مسترد کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل مسترد ہونے پر بڑا دکھ ہوا: صدر یورپین کمیشن

    اس سے قبل یورپین کمیشن کے صدر جان کلاڈی جنکر نے کہا تھا کہ بریگزٹ ہونے میں بہت کم دن رہ گئے ہیں ایسے میں برطانوی پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل مسترد کی جس پر بڑا دکھ ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے کے تیار کردہ بریگزٹ معاہدے کی مخالفت میں حکمران جماعت کے ہی 118 ایم پیز نے ووٹ دئیے جو برطانوی تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہے۔

    برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ نے بریگزٹ کے عمل کو مزید مشکوک کردیا ہے جبکہ اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن نے تھریسامے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ ڈیل مسترد، تھریسامے کو تاریخی شکست

    دوسری جانب شکست کے بعد تھریسامے کا کہنا ہے کہ غیریقینی میں گزرنے والا ہر دن برطانیہ کو نقصان دے رہا ہے، اب بھی حکومت کو پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہے۔

    برطانوی وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہماری حکمت عملی 29 مارچ تک وقت گزارنا نہیں، 2 سال تک بریگزٹ ڈیل پر کام کیا، مستقبل سے متعلق سوچ رہے ہیں۔

  • بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یعنی کہ یورپین یونین اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، مارچ 2019 میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرناطے ہوچکا ہے اورتاحال برطانیہ اور یورپی یونین اس حوالے سے کسی حتمی معاہدے پر دستخط نہیں کرپائے ہیں۔

    بریگزٹ مسودہ نامی دستاویز جسے برطانوی حکومت اور یورپی یونین کے اعلیٰ ترین دماغوں نے ماہ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد تیار کیا ہے، برطانیہ کی پارلیمنٹ اس پر راضی نہیں ہیں ، حد یہ ہے کہ خود حکومتی پارٹی کے کئی ارکان، جو کہ بریگزٹ کے حامی بھی ہیں ، تھریسا مے سے منحرف ہوچکے ہیں ۔

    یورپی یونین کا ماننا ہے کہ وہ اپنی جانب سے جس حد تک برطانیہ کو رعایت دے سکتے تھے ، وہ اسے بریگزٹ مسودے میں دی جاچکی ہے اور اس سے آگے ایک انچ بھی بڑھنا یورپ کے لیے ممکن نہیں ہے لہذا اب تھریسا مے کی حکومت اسی مسودے کو پارلیمنٹ سے منظور کروائے یا پھر برطانیہ’نوڈیل‘ کاراستہ اختیار کرے۔

    بریگزٹ ڈیل پر گزشتہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ میں رائے شماری کی جانی تھی تاہم ممبران پارلیمنٹ کے تیور دیکھ کر تھریسا مے نے اسے ملتوی کیا اور اب یہ رائے شماری 15 جنوری کو منعقد کی جائے گی۔ اس دوران پارلیمنٹ میں برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتما د بھی لائی گئیں لیکن وہ اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے سالِ نو کے آغاز پراپنی تقریر میں ہاؤس آف کامنز کے ممبران سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مواہدے کی حمایت کرکے برطانیہ کو آگے بڑھنے کا موقع دیں، تاہم ممبران نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ووٹنگ سے پہلے اپنا پلان بی پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں کہ اگر ان کا مسودہ پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ آگے کیا لائحہ عمل اختیار کریں گی۔

    یورپی یونین کیا چاہتی ہے؟


    تھریسا مے اس معاملے پر یورپین یونین سے بھی اپیل کرچکی ہیں کہ بریگزٹ مسودے پر آئرش بارڈر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازعے میں ان کی حکومت کو کچھ رعایت دی جائے لیکن یورپی بلاک کا اس معاملے میں ماننا ہے کہ وہ اس معاملے میں پہلے ہی بہت رعایت دے چکے ہیں اور اس سے زیادہ یورپی یونین کے بس میں نہیں ہے۔

     ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    جرمنی اور آئرلینڈ اس معاملے پر وہ سب کچھ کرچکے ہیں جو وہ کرسکتے ہیں تاہم کسی سیاسی اعلامیے کی گنجائش فی الحال موجود نہیں ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے صرف یقین دہانی ہی کرائی جاسکتی ہے کہ وہ آئرش بارڈر پر بیک اسٹاپ کو روکنے کے لیے 2021 تک تجاری معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی، لگتا نہیں ہے کہ یہ یقین دہانی برطانیہ کی ٹوری اور ڈیموکریٹ یونینسٹ پارٹی کو مطمئن کرپائے گی۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    لیبرپارٹی کی مشکلات


    دریں اثنا حکومتی جماعت یعنی کہ لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے لیے اس مسودے کی حمایت میں بے پناہ مشکلات ہیں۔ سیاسی اعشارئیے بتار ہے کہ ہیں لیبر پارٹی کے ارکان نے اگراس مسودے کی حمایت کی تو ان کے لیے آئندہ الیکشن میں اپنےلیے عوامی حمایت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے اس معاہدے پراپنی حکومت کوسپورٹ کیا تواس صورت میں وہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے حکومت سے ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار واپس لے لیں گے، جس کے سبب پارٹی قیادت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    معاشی افراتفری


    جہاں ایک جانب سیاسی میدان میں ہلچل مچی ہوئی ہے وہیں اس ساری مشق کے اثرات برطانیہ کی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں ۔ سال 2018 کی آخری سہہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف ایک فیصد رہی ہے ۔ پیداوار کرنے والے گزشتہ تیس سال کی تاریخ میں کارکنوں کے سب سے بڑے کال کا سامنا کررہے ہیں اور گھروں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    دوسری جانب اگر یورپی یونین اور برطانیہ بریگزٹ کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں کرپاتے ہیں تو شمالی آئرلینڈ میں حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنا پڑے گی جو کہ مسائل کا شکار برطانوی حکومت کے لیے ایک سنگین بوجھ ہوگا۔

    اب ہوگا کیا؟


    صورتحال یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ بریگزٹ مسودے پر رائے شماری کرنےجارہی ہے، سو اگر تھریسا مے کی حکومت مطلوبہ مقدار میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تب تو پھر تمام چیزیں منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں گی، لیکن ا س کے امکانات فی الحال کم ہی ہیں۔

    دوسری جانب یورپی یونین اس وقت تک برطانیہ کو مسودے پر مزید کوئی رعایت دینے پر آمادہ نظر نہیں آرہا جب تک موجودہ مسودہ کم از کم ایک بار رائے شماری میں شکست سے دوچار نہ ہوجائے ۔ ووٹنگ کے نتائج پر ہی آگے کے حالات منحصر ہیں، اگر شکست کا مارجن سو ووٹ سے کام کا ہوا تو تھریسا مے کی حکومت کم از کم اس پوزیشن پر ہوگی کہ ایک بار پھر یورپی یونین سے رجوع کیا جائے اور مسودے کو کسی دوسرے تناسب کے ساتھ ایک بار پھر ووٹنگ کے لیے لایا جائے۔ لیکن اگر پہلی رائے شماری میں ہی بھاری اکثریت سے شکست ہوتی ہے یا دوسری بار بھی یہ مسودہ شکست سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یقیناً یورپ ایک بڑے بحران کا سامنا کرے گا۔

    اس معاملے میں کچھ بھی ممکن ہے کیبنٹ واک آؤٹ کرسکتی ہے، حکمت عملی میں مستقل تبدیلی لائی جاسکتی ہے، کسٹم یونین کی جانب پیش رفت بھی ممکن ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے ریفرنڈم یا پھر برطانیہ میں انتخابات کا انعقاد بھی ممکنات میں شامل ہے۔ آخرالذکردونوں صورتیں یورپی یونین کے آئین کے آرٹیکل 50 سے متصادم ہیں لہذا ان پریورپی یونین کی رضامندی لازمی ہوگی۔

    اب پندرہ جنوری کو ہونے والی ووٹنگ کا نتیجہ کچھ بھی آئے لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ اس کرہ ارض پر یورپ وہ خطہ ہےجو ماضی میں بات بات پر برسرِ پیکار ہوجایا کرتا تھا، آج اپنی تاریخ کے حساس ترین دور اور پیچیدہ ترین تنازعے کو بھی جمہوری طریقے سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    برطانوی حکومت اپنے عوام کی رائے کا احترام کررہی ہے اور یورپی یونین برطانوی حکومت کو اس کے عوام کی جانب سے حاصل آئینی اعتماد کا احترام کرتے ہوئے بنا کسی جنگ و جدل کے برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ چھوڑنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس وقت بھی جو تنازعات ہیں، وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں اور امید ہے کہ 15 جنوری کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ان کا حل کیا نکلے گا۔

  • برطانیہ میں مہاجر پرندے کی آمد

    برطانیہ میں مہاجر پرندے کی آمد

    ہر سال کی طرح اس سال بھی ویکس ونگ نامی مہاجر پرندے نے ہجرت کر کے برطانیہ میں اپنا ڈیرہ جمایا تو فوٹو گرافر اور عام افراد انہیں دیکھنے کے لیے جوق در جوق پہنچ گئے۔

    چڑیا کی جسامت رکھنے والا یہ زرد و سنہری پرندہ اپنی ہجرت کے موسم میں برطانیہ کے علاقے جنوبی نور فوک میں آیا ہے۔

    یہ پرندہ وسطی، شمالی امریکا اور کینیڈا کا مقامی پرندہ ہے تاہم سال میں ایک سے دو بار یہ ہجرت کر کے دوسرے ممالک میں بھی جاتا ہے۔

    ویکس ونگ کی عمومی خوراک پھل ہیں تاہم جب پھل دستیاب نہیں ہوتے تو یہ کیڑے مکوڑے اور پھول کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

    ان کی برطانیہ کی طرف ہجرت کا مقصد بھی خوراک کی تلاش ہی ہوتا ہے۔

  • برطانیہ : کار سوار نے شہریوں کو روند دیا، دو افراد زخمی

    برطانیہ : کار سوار نے شہریوں کو روند دیا، دو افراد زخمی

    لندن : برطانیہ میں تیز رفتار گاڑی نے سڑک کنارے کھڑے شخص کو روند دیا، گاڑی کی زد میں دو افراد شدید زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے علاقے بریڈ فوڈ میں تیز رفتار گاڑی نے سڑک کنارے کھڑے شخص پر جان بوجھ کر گاڑی چڑھا دی، اس ہولناک حادثے کے نتیجے میں دو افراد گاڑی کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئے۔

    عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر زخمی ہونے والے شہریوں کی ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں جبکہ جسم کے دیگر حصّوں میں بھی شدید زخم آئے ہیں، چوٹیں اتنی شدید ہیں جو باقی کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہیں۔

    واقعے کے عینی شاہد کا کہنا ہے کہ کار سوا شہری کو کچلنے کے بعد تیز رفتاری سے فرار ہوگئی، تاہم جائے حادثہ پر موجود ایک شخص نے گاڑی میں ملزم کا پیچھا کیا لیکن ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

    برطانوی پولیس حادثے کے کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی خطرناک ڈرائیونگ کرنے والے شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ فٹ پاتھ پر موجود شخص کو کچلنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگئی، جس میں سرخ رنگ کی تیز رفتار گاڑی کو مجمے پر چڑھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے کار سوار نامعلوم وجوہات کی بنا پر فٹ پاتھ پر کھڑے شخص کو جان بوجھ کر کچلنے کی کوشش کرتا ہے اور ناکامی کی صورت میں دوسری مرتبہ پھر مذکورہ شخص پر گاڑی چڑھاتا ہے جس کی زد میں آکر ایک اور راہ گیر بھی زخمی ہوا۔

    ذرائع کے مطابق جائے حادثہ پر موجود دیگر افراد نے متاثرین کو زخمی افراد کو اٹھا کر فوری طور پر اسپتال منتقل کردیا۔

    مزید پڑھیں : برطانیہ: کار سوار نے عوام پر گاڑی چڑھادی، چار افراد زخمی

    یاد رہے کہ رواں برس برطانیہ میں تیز رفتار گاڑی نے نیو پورٹ کلب کے باہر کھڑے سیکڑوں لوگوں روند دیا تھا، گاڑی کی زد میں آکر چار افراد شدید زخمی ہوئے تھے، کار سوار کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔

  • ڈرون اڑانے کےلیے سول ایوی ایشن کی رجسٹریشن لازمی قرار، برطانوی وزیر

    ڈرون اڑانے کےلیے سول ایوی ایشن کی رجسٹریشن لازمی قرار، برطانوی وزیر

    لندن : برطانوی حکومت نے گیٹ وک ایئرپورٹ حادثے کے بعد ہوائی اڈوں کو محفوظ بنانے کےلیے ڈرونز کا سراغ لگانے والی جدید ڈیوائسز نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات ک مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے گیٹ وک انٹر نیشنل ایئرپورٹ کے رن وے کے قریب دو ڈرونز کی پرواز کے باعث 36 گھنٹے مسلسل پروازوں کی آمد و رفت منسوخ رہی تھی، جس کی وجہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب مسافروں کو پریشانی کا سامان کرنا پڑا۔

    برطانیہ کے وزیر برائے سیکیورٹی بین ویلز خبردار کیا ہے کہ آئندہ جو بھی شخص ’غیر ذمہ دارایہ‘ طریقے سے ڈرون اڑائے گا یا اس کا ’جرائم پیشہ مقاصد‘ کے لیےاستعمال کرے گا اسے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    بین ویلز کا کہنا تھا کہ رن وے کے قریب پرواز کرتے ڈرونز کو عوامی مقام پر مار گرانا فوج کے لیے مشکل ہوگیا تھا، اس لیے ہم نے ایسی ڈیوائسز نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو باآسانی ڈرونز کو پکڑ سکے۔

    برطانوی وزیر برائے سیکیورٹی کا اعلان کیا کہ ہوائی اڈوں کی حفاظت کےلیے ڈرونز اڑانے والے افراد کو سول ایوی ایشن اتھارٹی میں رجسٹرڈ ہونا پڑے جس کے لیے آن لائن ٹیسٹ بھی ہوگا۔

    مزید پڑھیں : برطانیہ کے گیٹ وک ایئرپورٹ پر ڈرونز کی اطلاع، فلائٹ آپریشن معطل

    یاد رہے کہ بدھ کی رات سے گیٹ وک ایئرپورٹ پر پرواز کرنے والے ڈرونز کی وجہ سے 36 گھنٹوں میں 1 ہزار فلائٹ کینسل ہوئی تھیں اور ایک لاکھ 40 ہزار افراد متاثر ہوئے تھے۔

    مزید پڑھیں : لندن: ڈرون اڑانے کے الزام میں گرفتار جوڑے کو عدم شواہد پر رہا کردیا گیا

    یاد رہے کہ سینتالیس سالہ پاؤل گئیت،57 سالہ ایلائنی کرک کو برطانوی پولیس نے شک کی بنیاد پر جمعے کی شب 10 بجے گرفتار کیا تھا جنہیں ثبوت کی عدم موجودگی کے باعث رہا کردیا گیا تھا۔

    برطانوی پولیس نے گیٹ وک ایئرپورٹ کے قریب سے ایک ناکارہ ڈرون برآمد کرلیا ہے۔

    مزید پڑھیں: گیٹ وک ایئرپورٹ پر مشکوک ڈرونز اڑانے والا جوڑا گرفتار

    واضح رہے کہ گیٹ وک ایئرپورٹ پر پروازیں مسلسل 36 گھنٹے تک منسوخ رہی تھیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق مشکوک ڈرونز کو کنٹرول کرنے پولیس کی ناکامی کے بعد حکومت نے فوج کی خدمات حاصل کی تھیں۔

    خیال رہے کہ ایئرپورٹ انتظامیہ نے گیٹ وک آنے والی پروازوں کا رخ ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں کی جانب موڑ دیا تھا، جن میں لندن ہیتھرو، لوٹن، برمنگھم، گلاس گلو اور مانچیسٹر بھی شامل ہیں۔

  • دانت کا علاج موت کا سبب بن گیا

    دانت کا علاج موت کا سبب بن گیا

    لندن: برطانیہ میں دانتوں کا علاج کرانے کے لیے اسپتال جانے والی معذور خاتون کئی دن زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئیں ، ڈینٹسٹ نے خاتون کے تمام دانت نکال دیے تھے۔

    تفصیلات کےمطابق یہ واقعہ برطانیہ کے علاقے ورسسٹرشائر میں پیش آیا جہاں رواں سال اکتوبر میں 49 سالہ رشل جونسٹون اپنے دانت کی خراب حالت کے سبب آپریشن کے لیے گئی تھیں۔

    یہ کہا جارہاہ ہے کہ ڈاکٹر نے دانتوں کی حالت خراب ہونے کے سبب ان کے تمام دانت نکال دیے جس کے سبب ان کی طبعیت خراب ہوئی اور آپریشن کے چند گھنٹوں بعد وہ اپنے حواس میں نہ رہیں۔ کئی دن انہوں نے اسپتال میں جان بچانے والی مشینوں کے سہارے گزارے اور بالاخر نومبر کے آخر میں اسپتال انتظامیہ نے ان کے اہل خانہ کو کہہ دیا کہ وہ اب ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔

    برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق دو اورخاندانوں نے اسی نوعیت کی شکایت کی ہے کہ ان کے بچوں کے ساتھ بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ دونوں بچے ذہنی طور پر متاثر تھے اور ان کا خیال تھا کہ خرابی کے سبب ان کے کچھ دانت نکالے جائیں گے تاہم جب بچے واپس آئے تو ان کے منہ میں کوئی دانت نہیں تھا۔

    مریضوں کے ورثا ء کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں مریض کے اہل خانہ کو ہر صورت اعتماد میں لینا چاہیئے اور ایسا کوئی عمل بغیر اجازت ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔

    ڈینٹل سروس چلانے والے سرکاری اداےکا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال کا شکار مریضوں کے ساتھ جو طریقہ کار اپنانا لازمی ہے وہ مکمل طریقےسے اپنایا گیا ہے اور خاتون کے علاج میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی ہے۔ خاتون کی موت کی تحقیقات کے لیے تین طبی ماہرین پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے ۔

    اس معاملے پر مہم چلانے والے کچھ لوگوں کا کہنا ہے خصوصی توجہ کے طالب مریضوں اور ان کے اہل خانہ میں عموماً رابطے کے مسائل پیش آتے ہیں ، ایسی صورتحال میں ڈاکٹر کو چاہیئے کہ سارے دانت نکالنے سے قبل اہل خانہ سے گفتگو کرے اور اس کے لیے لازمی اجازت حاصل کرے۔

  • صبر آزما دن کے اختتام پر خوش ہوں کہ ساتھیوں نے حق میں ووٹ دیا: برطانوی وزیر اعظم

    صبر آزما دن کے اختتام پر خوش ہوں کہ ساتھیوں نے حق میں ووٹ دیا: برطانوی وزیر اعظم

    لندن: برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کا کہنا ہے کہ طویل اور صبر آزما دن کے اختتام پر خوش ہوں کہ ساتھیوں نے تحریک عدم اعتماد کی رائے شماری میں میرے حق میں ووٹ دیا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نےلندن میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، تھریسا مے کا کہنا تھا کہ بریگزیٹ ڈیل برطانوی عوام کے خوش حال مستقبل کی ضامن اور ملک کے وسیع ترمفاد میں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بریگزیٹ ڈیل ملک کے وسیع ترمفاد اوربرطانوی عوام کے حق میں ہے، ڈیل سے برطانیہ معاشی طور پر مستحکم ہوگا۔

    برطانیہ: تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے کو ایک سال کی سیاسی لائف لائن مل گئی

    برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس ڈیل سے برطانوی عوام کو روزگار کے لاتعداد مواقعے ملیں گے، آئندہ انتخابات میں پارٹی کی قیادت نہیں کرنا چاہتی۔

    خیال رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی، جس کے بعد انہیں ایک سال کی سیاسی لائف لائن مل گئی۔

    تحریک عدم اعتماد کے حق میں ایک 117 اور مخالفت میں 200 ووٹ ڈالے گیے، بریگزٹ پر روکی گئی رائے شماری میں حکومت کو لاحق خطرات بظاہر ٹل گئے۔

    واضح رہے کہ تھریسامے کے حق میں فیصلہ آنے کی صورت میں پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں شامل سابق میئر لندن بورس جانسن، وزیرداخلہ ساجد جاوید، مائیکل گوو، ڈومینک گریو، جیریمی ہنٹ کی امیدوں پر بھی اوس پڑگئی۔

  • برطانیہ: تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے کو ایک سال کی سیاسی لائف لائن مل گئی

    برطانیہ: تحریک عدم اعتماد ناکام، تھریسامے کو ایک سال کی سیاسی لائف لائن مل گئی

    لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی، جس کے بعد انہیں ایک سال کی سیاسی لائف لائن مل گئی۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک عدم اعتماد کےحق میں ایک 117 اور مخالفت میں 200 ووٹ ڈالے گیے، بریگزٹ پر روکی گئی رائے شماری میں حکومت کو لاحق خطرات بظاہر ٹل گئے۔

    تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد تھریسامے کو ایک سال کی سیاسی لائف لائن مل گئی ہے، اب نہ ان کے خلاف ایک سال تک تحریک عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے اور نہ ہی کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی دوڑ سےالگ کیا جاسکتا ہے۔

    تھریسامے کو اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ایک سوانسٹھ ارکان کی حمایت درکار تھی، رائے شماری سے قبل پارٹی کے ایک سوستاسی ایم پیز نے کھلے عام اور دوسو اراکین نے ووٹ کے ذریعے ان پر اعتماد کا اظہار کردیا۔

    برطانوی وزیراعظم نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا

    خفیہ رائے شماری برطانوی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے تک جاری رہی، جس کے نتیجہ میں تھیریسامے کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔

    تھریسامے کے حق میں فیصلہ آنے کی صورت میں پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں شامل سابق میئر لندن بورس جانسن، وزیرداخلہ ساجد جاوید، مائیکل گوو، ڈومینک گریو، جیریمی ہنٹ کی امیدوں پر بھی اوس پڑگئی۔

    تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے سوال پربریگزٹ پر روکی گئی رائے شماری میں حکومت کو لاحق خطرات بظا ہرٹل گئے۔

    خیال رہے کہ بریگزٹ ڈیل کے لیے کشمکش میں مبتلا برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

  • بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    برطانیہ نے سنہ 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سنہ 1975 میں اسے ریفرنڈم کے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نے سنہ 2016 میں ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت ایک گھاٹے کا سودا تھا، لہذا اب اس یونین سے قطع تعلقی کی جائے۔ 23 جون 2016 میں برطانیہ کے 51.9 فیصد عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔

    [bs-quote quote=”بچھڑنا ہے توجھگڑا کیوں کریں ہم” style=”style-9″ align=”left” author_name=”جون ایلیا”][/bs-quote]

     

    یہاں سے شروع ہوتا ہے عالمی منظر نامے کا سب سے دلچسپ اور منفردسیاسی عمل جس میں یورپی یونین اور برطانیہ نے وہ فارمولا طے کرنا تھا کہ جس کےذریعے علیحدگی کا عمل خوش اسلوبی سے طے پاجائے ۔ بقول شاعر

     

    ریفرنڈم کے وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس علیحدگی کے حق میں نہیں تھے ، سو انہوں نے جمہوری روایات نبھاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ایسے وزیراعظم کے لیے نشست خالی کردی جو کہ عوامی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے یورپین یونین سے علیحدگی کے اس عمل کو سہولت سے انجام دے ۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس عمل کے لیے تھریسا مے کو بطور وزیراعظم چنا اور ا ن کی سربراہی میں شروع ہوا مشن بریگزٹ جس میں برطانیہ کی پارلیمنٹ ان سے امید رکھتی تھی کہ وہ برطانیہ کے اس انخلا ء کے لیے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیں جو کسی بھی صورت برطانیہ کے لیے نقصان کا سودا نہ ہو۔

    سافٹ یا ہارڈ بریگزٹ


    جب یہ طے پاگیا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سےعلیحدہ ہونا ہی ہے تو برطانیہ کے سامنے دو ہی راستے تھے ، ایک یہ کہ سافٹ انخلا کرے یعنی جس میں یورپ کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے جائیں کہ برطانیہ کا انخلا بھی ہوجائے اور یورپی یونین کی شکل میں تشکیل پانے والی دنیا کی یہ واحد سنگل ٹریڈ مارکیٹ بھی متاثر نہ ہو۔ دوسری صورت کو ماہرین ’طلاق‘ کا نام دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں برطانیہ کوئی خاص معاہدے کیے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے ، اس عمل کو اپنانے میں برطانیہ کو واضح نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھا جائے تو سافٹ بریگزٹ ہی برطانیہ کے لیے فائدہ مند ہے لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مےنے یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک مسودہ تیار کیا جسے برطانوی ہاؤس آف کامنز سے منظوری درکارہے۔

    یورپی یونین اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پانے والے 585 صفحات پر مشتمل معاہدے کے بنیادی نکات میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات اور دوسرے تجارت اورسیکیورٹی کے معاملات۔ساتھ ہی ساتھ اس میں شہری حقوق، مالی معاملات اور آئریش بارڈر کے مسائل بھی شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ آئر لینڈ کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ برسلز کے ساتھ ہونے والی اس ڈیل میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔تھریسا مے کے وزراء کا ماننا ہے کہ مسودے کے مطابق آئر لینڈ تجارتی طور پر یورپین یونین کے زیادہ قریب ہوجائے گا جو کہ کسی بھی صورت برطانیہ کے حق میں نہیں ہے۔خیال رہے کہ معاہدے کے دونوں ہی فریق آئرلینڈ کے ساتھ کوئی سخت بارڈر نہیں چاہتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے ساتھ بارڈر کا معاملہ ہی اس مسودے کا ایسا حصہ ہے جس پر برطانیہ کے عوامی نمائندو ں کوشدید قسم کے تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یا تو یہ معاملہ حل کیا جائے یا پھر وہ ہارڈ بریگزٹ کو اس معاہدے پر ترجیح دیں۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    مسودہ کیا کہتا ہے؟


    تھریسا مے اور یورپی حکام کے درمیان طے پانے والے بریگزٹ مسودے میں طرفین نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ فی الحال شمالی آئرلینڈ کو غیر معینہ مدت تک ایسے ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ ابھی ہے ، لیکن اس مسودے میں کوئی حتمی مدت طے نہیں کی گئی ہے ۔ یہی وہ سارا معاملہ ہے جہاں برطانیہ کے عوامی نمائندے آکر رک گئے ہیں اور خود تھریسا مے کی اپنی جماعت کے ممبران پارلیمنٹ میں بھی اس مسودے کو منظور کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

    تھریسا مے نے اس معاملے پر 11 دسمبر کو ہاؤس آف کامنز میں ووٹنگ کروانی تھی لیکن حد درجہ مخالفت دیکھ کر انہوں نے ووٹنگ ملتوی کرکے یورپی حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل ہوجائے کہ اس معاملے پرمن وعن ایسے ہی عمل ہوگا جیسا کہ برطانوی عوام کی خواہش ہے۔ یورپی یونین کے صدر نے اس معاملے پر کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے میں اب مزید کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، ہاں اس کی شقوں کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔

    تھریسا مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد


    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد لانےکے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    اگر تھریسا مے کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو ان کی جگہ بورس جانسن اورپاکستانی نژاد ساجد جاوید وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط ترین امیدوارہیں، لیکن یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اگر تھریسا مے نہیں رہتی ہیں اوران کی جگہ کوئی وزیراعظم برسراقتدار آتا ہے تو پھر اس بریگزٹ مسودے کی کیا حیثیت رہے گی اور آیا یہ کہ اسی کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا یا پھر برطانیہ 19 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے طلاق کی جانب جائے گا۔

    دیکھا جائے تو یورپ اور بالخصوص یورپی یونین اور برطانیہ اپنی تاریخ کے انتہائی اہم اور حساس ترین دور سے گزرررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی یورپ ہے جو کبھی بات بات پر توپ وتفنگ لے کر میدان میں نکل آیا کرتا تھا اور کبھی سات سالہ جنگ تو کبھی تیس سالہ جنگ اور کبھی سو سال کی جنگ لڑتا تھا، جنگِ عظیم اول اور دوئم کے شعلے بھی یورپ سے ہی بھڑکے تھے لیکن اب یہ اس حساس ترین مرحلے سے جمہوریت کی اعلیٰ ترین اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے گزررہا ہےاورہر معاملہ مشورے اور افہام و تفہیم سے حل کیاجارہاہے۔

    امید ہے کہ برطانیہ اور اہل یورپ اس مرحلے سے نبٹ کر جب آگے بڑھیں گے تو ایک تابناک مستقبل ان کا انتظار کررہا ہوگا اور اپنی آئندہ نسلوں کو سنانے کے لیے ان کے پاس ایک ایسی تاریخ ہوگی جس پر وہ بلاشبہ فخر کرسکیں گے۔

  • بریگزٹ کیس، برطانیہ اپنا فیصلہ منسوخ کرسکتا ہے، یورپی عدالت انصاف

    بریگزٹ کیس، برطانیہ اپنا فیصلہ منسوخ کرسکتا ہے، یورپی عدالت انصاف

    لیگزمبرگ : یورپی عدالتِ انصاف نے فیصلہ دیا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کی اجازت کے بغیر بریگزٹ منسوخ کر سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لیگزمبرگ سٹی میں قائم یورپی کورٹ آف جسٹس کے جج نے بریگزٹ کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ برطانیہ بریگزٹ کی منسوخی برطانوی رکنیت کی شرائط میں ترمیم کے بغیر کرسکتا ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے مخالف سیاست دانوں کے ایک گروہ نے حکومت اور یورپی یونین کی مخالفت کرنے کے باوجود زور دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کو یک طرفہ طور پر بریگزٹ کو روکنے کا متحمل ہونا چاہیے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی عدالت انصاف کا فیصلہ ایم پیز کی جانب سے تھریسامے کے بریگزٹ معاہدے کے مسودے پر حق رائے دہی استعمال کرنے سے ایک روز پہلے آیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایم پیز منگل کی شب ہاوس آف کامنز میں معاہدے کی منظوری کے لیے ہونے والے اجلاس میں معاہدے کے مسودے کو مسترد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

    مزید پڑھیں : برطانوی عوام کا تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف کے احتجاج

    خیال رہے کہ برطانوی دارالحکومت لندن میں برطانوی شہری وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کے خلاف شدید احتجاج کر رہے ہیں، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں جس پر حکومت مخالف نعرے درج تھے۔

    مزید پڑھیں : بریگزٹ‘ برطانوی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہوگی

    یاد رہے کہ برطانوی وزیرِ سیکیورٹی نےخبردار کیا ہےکہ بریگزٹ پر کوئی معاہدہ نہ ہونا برطانیہ اور یورپی یونین کے سیکورٹی تعلقات پر نہ صرف اثر انداز ہوگا بلکہ عوام کی حفاظت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

    واضح رہے کہ لیبر پارٹی بریگزٹ معاہدے کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ میں قرار داد لارہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ برطانیہ ایک دم سے یورپی یونین سے علیحدہ ہوکر افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔