Tag: UN human rights

  • یوکرین سے متعلق اقوام متحدہ کا ہولناک انکشاف

    یوکرین سے متعلق اقوام متحدہ کا ہولناک انکشاف

    اقوام متحدہ نے یوکرین کے شہر ماریوپول میں اجتماعی قبروں کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک قبر میں 200 لاشیں ہونے کا انکشاف کیا ہے۔

    روس یوکرین جنگ شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے اس دوران کئی لرزہ خیز واقعات رونما اور ہولناک  انکشافات ہوئے ہیں حال ہی میں اقوام متحدہ نے یوکرین کے شہر ماریوپول میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کی انکشاف کیا ہے۔

    اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ایک ٹیم کی سربراہ نے یوکرین کے مشرقی شہر ماریوپول میں اجتماعی قبروں کے مزید انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی ہی ایک اجتماعی قبر میں 200 لاشیں ملی ہیں۔

    مذکورہ عہدیدار نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ اجتماعی قبر میں لاشیں تو ہیں لیکن سیٹلائیٹ تصاویر سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ مرنے والے فوجی تھے یا عام شہری؟ عہدیدار کے مطابق مرنے والوں میں بہت کم کا تعلق ماریوپول سے ہے کیونکہ شدید بمباری کی وجہ سے وہاں تصدیق کا عمل مشکل ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد اور تباہی کے حجم سے شدید خدشات پیدا ہوتے ہیں اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہاں عالمی انسانی ہمدردی قانون کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اور بلاامتیاز حملے کیے گئے۔

    گزشتہ روز ہی عالمی ادارہ خوراک نے ماریوپول شہر میں خوراک کے حوالے سے بھی شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ محاصرے کی وجہ سے ابھی تک کسی بھی قسم کی غذائی امداد شہر تک نہیں پہنچائی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق 24 فروری کو روسی حملے کے آغاز کے ایک ماہ کے دوران یوکرین میں کم از کم 1081 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

  • بھارت میں‌ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا  نشانہ بنایا جارہا ہے، اقوام متحدہ

    بھارت میں‌ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اقوام متحدہ

    نیویارک : اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں کو آئے روز ظلم، و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی جانب سے جینیوا میں بھارت میں اقلیتی برادری باالخصوص مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔

    انسانی حقوق کونسل کی سربراہ مشعل باچلے نے سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کونسل کو ایسے شواہد ملے ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ تشدد واقعات بڑھ رہے ہیں۔

    مشعل باچلے کا کہنا تھا کہ بھارت میں سیاسی ایجنڈے کے باعث کمزور طبقہ نشانے پر ہے، جس میں دلت اور آدھی واسی بھی شامل ہیں۔

    اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت میں جہاں غربت انتہا کو ہے وہی عدم مساوات، مذہبی انتہا پسندی، لسانیت برستی اور ذات پات کے مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

    گزشتہ روز بھی ہندوؤں انتہا پسندوں نے سڑک پر خشک میوہ جات فروخت کرنے والے کشمیری مسلمان کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا لوگوں نے بیچ بچاؤ کروایا تو ہندو انتہا پسندوں نے جواب دیا کہ ’کشمیری مسلمان ہے اس لیے مار رہے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں : بھارت: گائے کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے رپورٹ جاری کردی

    خیال رہے کہ اس سے قبل ہیومین رائٹس واچ کی جانب سے گزشتہ ماہ فروری میں بھارت میں بڑھتے ہوئے تشدد کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں عالمی تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت میں بڑھتے ہوئے تشدد کو فی الفور روکے۔

    عالمی تنظیم کی جانب سے 104 صفحات پر مبنی رپورٹ جاری کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ گائے کے گوشت کے استعمال اور جانوروں کے کاروبار سے منسلک تاجروں کو حکمراں جماعت کے رہنماؤں نے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے نشانہ بنوایا تھا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے درمیان بھارت میں 44 لوگ گائے ذبیحہ یا گوشت کھانے کے الزام میں مارے گئے، مقتولین میں سے بیشتر مسلمان تھے جبکہ پولیس نے بھی حملہ آوروں کی معاونت کی اور حکمراں جماعت نے اس قتل کو عوامی ردعمل قرار دیا تھا۔

     بھارت: گائے چوری کا الزام، ایک اور مسلمان مشتعل ہندوؤں کے ہاتھوں قتل

    اسے بھی پڑھیں: انسانوں کی طرح گائے کو بھی شناختی کارڈ جاری کرنے پر غور

    رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومتی پشت پناہی اور مدد سے انتہاء پسندوں چار بھارتی ریاستوں ہریانہ، اترپردیش، راجستھان اور جھار کھنڈ میں حملے کیے، جن میں 14 لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔

    یاد رہے کہ بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد 2016 میں ریاست جھاڑ کھنڈ میں اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں انتہاء پسندوں نے 12 سال مسلمان لڑکے کو گائے لے جانے پر قتل کر کے اُس کی لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔

  • روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

    روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

    اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی مدت مکمل کرنے والے زید کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ملٹری کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آنگ سان سو چی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے زید رعد الحسین جو کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ ہیں ، کہا کہ میانمار کی نوبیل انعام یافتہ وزیراعظم کو اپنی فوج کے مظالم کی توجیہات پیش کرنے کے بجائے ایک بار پھر نظر بند ہوجانا چاہیے تھا ( یاد رہے کہ برمی فوج نے طویل عرصہ انہیں نظر بند رکھا تھا)۔

    اقوام متحدہ نے حالیہ دنوں ایک میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم منظم تھے، تاہم میانمار نے اس رپورٹ کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے رد کیا ہے۔

    بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت پر مبنی ملک کی آرمی پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ برس بدھسٹ اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان ہونے والے فسادات میں منظم طریقے سے نسل کشی کی ہے، رپورٹ میں ملک کی وزیراعظم آنگ سان سوچی کو بھی فسادات روکنے میں ناکام رہنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

    زید حسین نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’ وہ اس پوزیشن میں تھیں کہ ان حالات کی روک تھام کرتیں لیکن وہ اپنی فوج کی صفائیاں دیتی رہیں۔ کم از کم انہیں خاموش رہنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بہتر تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتیں۔ ان کو فوج کا ترجمان بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی یہ کہنے کی کہ اس معاملے میں غلط معلومات کا پورا آئس برگ ہے اور یہ سب جعلی اور تراشیدہ ہیں۔

    ا س کے بجائے انہیں اپنی فوج سے کہنا چاہیے تھاکہ میں اس ملک کی سربراہ ہوں لیکن ایسے حالات میں نہیں رہ سکتی، آپ کا شکریہ ، میں استعفی دے رہی ہوں اور میں ایک بار پھر نظر بندی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔

    یاد رہے کہ آنگ سان سوچی نے انسانی حقوق کے معاملے پر تحریک چلانے کےجرم میں سنہ 1989 سے لے کر 2010 تک کل سترہ سال نظر بندی میں گزارے تھے، اس دوران میانمار میں ملٹری کی حکومت تھی۔ سنہ1991 میں نوبیل پرائز کمیٹی نے انہیں امن کا نوبیل انعام دیا تھا، کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان سے یہ ایوارڈ واپس نہیں لیا جائے گا۔