Tag: United Nation

  • غزہ میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر حملے، اقوام متحدہ کا تحقیقات کا مطالبہ

    غزہ میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر حملے، اقوام متحدہ کا تحقیقات کا مطالبہ

    اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد شہادتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کی جانب سے بھی نہتے فلسطینیوں کا قتل عام ناقابل قبول قرار دے دیا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز غزہ میں بھوک کے ستائے نہتے شہریوں پر امداد لینے کے دوران اسرائیلی فورسز نے گولیاں برسادیں۔

    فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ شہر کے جنوب میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کم از کم 104 فلسطینی شہید اور 700 سے زائد زخمی ہو گئے۔

    کھانے کو ترستے بھوکے پیاسے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے امدادی ٹرکوں کے درمیان خون میں نہلا دیا۔ درجنوں ممالک اور عالمی اداروں کے مسلسل وارننگ کے باوجود اسرائیل نے ظلم و ستم کے نئے پہاڑ توڑ دیے۔

    اسرائیلی میڈیا نے فوجی اہلکار کے حوالے سے بتایا فوجیوں نے غزہ شہر میں فلسطینی امداد کے متلاشیوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کر دی جو ”خطرناک طریقے سے”ان کے قریب پہنچے۔

    نیوزی لینڈ نے حماس کو دہشت گرد تنظیم نامزد کردیا

    ٹائمز آف اسرائیل کے حوالے سے ایک فوجی اہلکار نے کہا کہ ہجوم کے کچھ ارکان نے اسرائیلی فورسز کی طرف بڑھنا شروع کیا جو امداد کی ترسیل کی نگرانی کر رہے تھے کہ اس دوران انہیں خطرہ محسوس اور فوجیوں نے فائرنگ کر دی۔

  • عالمی اوسط درجہ حرارت : اقوام متحدہ نے دنیا کو خبردار کردیا

    عالمی اوسط درجہ حرارت : اقوام متحدہ نے دنیا کو خبردار کردیا

    اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم ڈبلیو ایم او کے مطابق، آئندہ پانچ سالوں کے دوران عالمی اوسط درجۂ حرارت صنعتی ترقی سے قبل کی سطح سے 1.5 فیصد اوپر تک پہنچنے کا امکان 50 فیصد ہے۔ سنہ 2015 میں اس بات کا امکان صفر فیصد کے قریب تھا۔

    ڈبلیو ایم او نے دنیا بھر کی موسمیاتی ایجنسیوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر عالمی آب و ہوا کی موجودہ صورتحال کے تجزیئے پر مبنی آب و ہوا کی سالانہ اپ ڈیٹ جاری کیا ہے۔

    اس رپورٹ کے مطابق موازنے کے لیے صنعتی ترقی سے قبل کے دور کی سطح کی نسبت گزشتہ سال عالمی اوسط درجۂ حرارت کی سطح 1.1 فیصد زائد تھی۔

    رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ عالمی اوسط درجۂ حرارت میں اضافہ 1.5 ڈگری کی سطح کے نزدیک پہنچ رہا ہے۔ سائنسدانوں کے خیال میں یہ وہ سطح ہے، جب موسمیاتی تبدیلیوں کا ناقابل واپسی انداز میں پھیلاؤ شروع ہو جاتا ہے۔

    اس میں 2022ء اور 2026ء کے درمیان کسی ایک سال کے گرم ترین سال رہنے کے 93 فیصد امکان کی پیشگوئی بھی کی گئی ہے۔ گرم ترین سال کا گزشتہ ریکارڈ 2016ء میں قائم ہوا تھا۔

    موسمیاتی تبدیلیوں پر گزشتہ سال منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس کوپ26 میں دنیا کے رہنماؤں نے عالمی اوسط درجۂ حرارت میں اضافے کو 1.5 فیصد تک محدود رکھنے کے لیے اخراج کی سطح کے اہداف پر نظرثانی کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

  • یاسین ملک کی سزا: صدر آزاد کشمیر نے عالمی اداروں کو جھنجھوڑ ڈالا

    یاسین ملک کی سزا: صدر آزاد کشمیر نے عالمی اداروں کو جھنجھوڑ ڈالا

    مظفرآباد: حریت رہنما یاسین ملک کی سزا کے خلاف اقوام متحدہ کےجنرل سیکریٹری کوخط لکھ دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صدر آزاد کشمیربیرسٹر سلطان محمود نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کوخط لکھا،خط بیرسٹرسلطان محمودنےاقوام متحدہ کےکمیشن انسانی حقوق کوخط ارسال کیا، جس میں حریت رہنما یاسین ملک کو بھارتی عدالت سےعمرقید کی سزا پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

    صدر آزاد کشمیر نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق پامالی پر توجہ مبذول کرائی، صدرآزاد کشمیر نے یاسین ملک کی غیر منصفانہ عمرقید کی سزا پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حریت رہنما کو مسئلہ کشمیر کی آزادی پر آواز اٹھانے کی سزا دی گئی۔

    یہ بھی پڑھیں: بھارتی عدالت نے کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنادی

    خط میں کہا گیا کہ حریت رہنما یاسین ملک پوری دنیا میں آزادی کی علامت ہے، انہیں عمرقید کی سزا بھارت کی روایتی سوچ کی غمازی کرتی ہے، اقوام متحدہ حریت رہنمایاسین ملک کی رہائی کیلئےفوری اقدامات اٹھائے۔

    اس کے علاوہ صدر آزاد کشمیر نے یورپی یونین کے صدر، یورپی پارلیمنٹ کےصدر کوخط لکھا، بیرسٹرسلطان محمود نے یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کےچیئرمین کو خط لکھا، عالمی انسانی حقوق تنظیموں کو یاسین ملک کی رہائی کےسلسلےمیں خطوط لکھے، خطوط میں مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق پامالی پردنیاکی توجہ مبذول کرائی ہے۔

  • اقوام متحدہ میں پاکستان کی حق خودارادیت کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور

    اقوام متحدہ میں پاکستان کی حق خودارادیت کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور

    واشنگٹن : اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی حق خودارادیت کی قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا، پاکستانی قرارداد کو 81ممالک کی حمایت حاصل رہی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کو اقوام متحدہ میں بڑی کامیابی مل گئی، جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی جانب سے حق خود ارادیت سے متعلق پیش کی جانے والی قرارداد اکثریت رائے سے منظور کی گئی، پاکستانی قراردادکو 81ممالک کی حمایت حاصل رہی۔

    مذکورہ قرارداد پاکستان کے مستقل مندوب منیراکرم نے پیش کی، قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ نو آبادیاتی تسلط میں پھنسے لوگوں کو حق خودارادیت دیا جائے، حق خودارادیت بیرونی قبضے کے شکار افراد کا بنیادی حق ہے، غیرقانونی جارحیت پر بھی حق خودارادیت دیا جائے۔

    منیراکرم کا کہنا تھا کہ حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے والو ں کی مدد کرنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے، جارحیت اور کرفیو سے مقبوضہ علاقوں میں حق خودارادیت غصب نہیں ہوسکتا، مقبوضہ علاقوں میں غیرقانونی پابندیاں حق خودارادیت ختم نہیں کرسکتیں۔

    اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کے مطابق حق خودارادیت پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں، سلامتی کونسل کی قراردادیں انسانوں کو حق خودارادیت دیتی ہیں، حق خودارادیت اقوام متحدہ چارٹر اور عالمی قوانین میں رہنما اصول ہے۔

  • مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    آج تقریباً پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پاکستان اور بھارت کے درمیان ازل سے موجود مسئلہ کشمیر پر خصوصی اجلاس منعقد کرنے جارہی ہے، ساری دنیا اس وقت نیویار ک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز پر نظریں جمائیں بیٹھی ہے کہ وہاں آج کیا طے پاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسئلہ کشمیر اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ یہ دونوں ممالک خود، تقسیم کے فوراً بعد ہی یہ مسئلہ شروع ہوگیا تھا۔

    اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت اب تک چار بڑی جنگیں لڑچکے ہیں ، جن میں سے پہلی جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے وہ علاقہ حاصل کیا تھا جو کہ اب آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر کہلاتا ہے جبکہ بٹوارے سے آج تک بھارت وادی ٔ جموں اور کشمیر اور لداخ کے علاقے پر قابض ہے جبکہ اسکائی چن اور شکسگام کا غیر آباد علاقہ چین کے زیرِ انتظام ہے۔

    پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اورچوتھی 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی جسے دنیا کا سب سے بلند ، دشوار گزار اور مہنگا ترین میدانِ جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان عارضی سرحدی اہتمام جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ میں اکثر پاکستان کی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے، پاکستان کی جانب سے بھی بھارتی توپوں کو فی الفور جواب دیا جاتا رہا ہے۔

    رواں سال 27 فروری کو بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار کرکے پاکستان کے زیر اہتمام علاقوں میں فضائی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی جس کا بروقت جواب دیتے ہوئے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے اور پاکستانی حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ ابھیندن کو گرفتار بھی کرلیا تھا۔ بعد ازاں بھارتی پائلٹ کو امن کے پیغام کے طور پر واپس بھیج دیا گیا۔

    اب ذرا چلتے ہیں ماضی میں اور جائزہ لیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر در حقیقت ہے کیا اور آج تک کیوں یہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے؟؟۔

    برصغیر کی تقسیم کے وقت ایک برطانوی وکیل ریڈ کلف کو ہندوستان کے بٹوارے کا ٹاسک سونپا گیا، ریڈکلف نے ہندوستان کے دوصوبوں پنجاب اور بنگال کو آبادی کی بنیاد پر پاکستان اورہندوستان میں تقسیم کیا جبکہ ریاستوں کو اختیاردیا گیا کہ آیا وہ ہندوستان میں شمولیت اختیار کریں یا پھر پاکستان کا حصہ بن جائیں، ریاستوں کے اختیار میں بھی ریاست کی آبادی کے مذہب کو ملحوظ ِخاطررکھا گیا۔ اس کلیے کے تحت کشمیر جو کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن یہاں ہری سنگھ نامی سکھ راجہ کی حکومت تھی اور اس نے پہلے ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی تاہم بعد میں بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کرلیا۔

    اس موقع پر 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے مجاہدین نے کشمیر پر بھارتی تسلط سے بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی جس کے جواب میں بھارت نے اپنی مسلح افواج میدان میں اتار دیں، قبائلی مجاہدین بھارت سے گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر کو چھین کر پاکستان کے ساتھ انضمام کرنے میں کامیاب رہے جبکہ بھارت اپنی بھاری بھرکم فوج کے ساتھ
    مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگیا۔

    دسمبر 1947 میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ایک ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب بھارت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تو یکم جنوری، 1948 کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان ( یو این سی آئی پی ) کی تشکیل کی
    گئی۔

    21اپریل، 1948 کوسلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 47 منظورکی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لائی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں علاقے سے نکل جائیں، تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے ’اور کشمیری لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ‘۔.

    تاہم، مکمل فائر بندی کا نفاذ یکم جنوری 1949 کو عمل میں آیا جب پاکستان کی طرف سے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی اور بھارت کی طرف سے ان کے ہم منصب جنرل رائے بوچر نے دستخط کیے۔ تاہم اس موقع پر بھی دونوں ملک سلامتی کونسل کی قرادداد کے مطابق فوجی انخلا پر متفق نہ ہو سکے۔ اتفاق نہ ہونے کا سبب بھارت کا اصرار تھا کہ پاکستان کو جارح ملک قرار دیا جائے، جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ برابری کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔

    اقوام متحدہ کے مذاکرات کار بھی برابری کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ تاہم، بھارت کے انکار کے بعد فوجی انخلا پر کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلے کے حل میں ناکامی کی کلیدی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ نے قانونی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سیاسی پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا۔

    دسمبر 1949ء میں سلامتی کونسل نے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سلامتی کونسل کے صدر، جنرل مکنوٹن سے درخواست کی کہ تنازعے کے حل کے لیے دونوں ملکوں سے رجوع کریں۔

    مکنوٹن نے 22 دسمبر کو اپنی تجاویز پیش کیں۔ اور جب 29 دسمبر کو سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر ان کی میعاد مکمل ہو رہی تھی، انھوں نے کونسل کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ اس پرسلامتی کونسل نے انھیں ثالثی جاری رکھنے کے لیے کہا۔ انھوں نے تین فروری 1950ء کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔

    انھوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ اپنی فوجیں واپس بلائیں۔ دونوں ملکوں کو تنازعے میں ’مساوی پارٹنر‘ قرار دیا گیا، جب کہ یہ تجویز بھارت کو قابل قبول نہیں تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ صرف اسےکشمیر میں موجود رہنا چاہیے۔ اس پر امریکہ نے بھارت کو تنبیہ کی کہ اسے یہ فیصلہ ماننا ہوگا۔

    سرد جنگ کے تاریخ نویس، رابرٹ مک ہان نے لکھا ہے کہ ’’امریکی اہل کاروں نے محسوس کیا کہ قانونی و تیکنیکی بہانوں سے بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مصالحت کی کوششوں کی مخالفت کرتا رہا ہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ استصواب رائے سے بچا جا سکے‘‘۔

    اس کے بعد سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں علاقے سے پانچ ماہ کے اندر اندر فوج کو ہٹائے جانے کے لیے کہا گیا۔

    بعدازاں، 14 مارچ 1950 میں بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم کیا۔ جس پر اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں کے لیے نمائندہ خصوصی کے طور پر سر اوون ڈکسن کو تعینات کیا، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ جموں و کشمیر سے دونوں ملکوں کی فوجوں کو واپس بلایا جائے۔

    اقوام متحدہ نے اپنے اہلکار تعینات کیے۔ اگلے مرحلے میں ڈکسن نے دونوں ملکوں میں شیخ عبداللہ اور غلام عباس کی اتحادی حکومت تشکیل دینے یا پھر قلم دان مختلف سیاسی جماعتوں میں باٹنے کی سفارش کی۔

    پھر ڈکسن نے پاکستانی وزیر اعظم کے سامنے بھارتی ہم منصب، نہرو سے پوچھا کہ علاقے میں استصواب رائے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ بھارت نے اس تجویز کے حق کی حامی بھری۔

    دراصل نہرو نے ہی ’بٹوارہ اور استصواب رائے‘ کے پلان کی تجویز دی تھی، یعنی جموں اور لداخ بھارت کا ہوگا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پاکستان کے ساتھ ہوں گے۔ ڈکسن نے اس منصوبے کی حمایت کی۔

    ڈکسن کے جانشین، ڈاکٹر فرینک گراہم 30 اپریل، 1951 میں علاقے میں پہنچے۔ 16 جولائی، 1952ء کو گراہم نے تجویز دی کہ علاقے میں پاکستان اپنی فوجیں 3000 سے 6000 تک کر دے، جب کہ بھارت یہ تعداد 12000 سے 16000 کے درمیان کر دے۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کی قراردداد پر عمل درآمد کیا جب کہ بھارت نے کسی جواز کے بغیر اسے مسترد کردیا تھا۔

    گراہم نے تنازع میں مصالحت کی بھی کوشش کی۔ فوجیں کم کرنے کے معاملے پر گراہم کو کسی قدر کامیابی ہوئی۔ لیکن، اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت رک گئی۔

    اس کے بعد، گراہم نے حتمی رپورٹ پیش کی اور ثالثی کی کوششیں رک گئیں۔ فوجوں کی تعداد کم کرنے اور استصواب رائے کے منتظم کی تعیناتی کے معاملے پر دونوں ملک رضامند نہیں ہوئے۔

    اس سے قبل، 1948 میں سلامتی کونسل نے قرارداد 47 منظور کی تھی جس کے بعد 1951ء میں بھارت اور پاکستان نے ’کراچی معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے، جس میں جنگ بندی اور مبصرین کی تعیناتی کے لیے کہا گیا تھا۔

    سال 1951 میں قرارداد 91 منظور ہوئی جس کے تحت بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ قائم کیا گیا، تاکہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر کنٹرول کیا جا سکے۔

    سال 1971 کی بھارت پاکستان لڑائی کے بعد دونوں ملکوں نے 1972ء میں شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے، ساتھ ہی، کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کا مبصر گروپ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

    سنہ 1999 میں پاکستان اور بھارت کی افواج ایک بار پھر کارگل کے محاذ پر آمنے سامنے آئیں ، اس جنگ کے بارے میں آج تک حقائق ابہام کے پردے میں ہیں۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے ، تاہم جنگ کے اختتام پر دونوں ممالک سنہ 1972 کی طے شدہ کنٹرول لائن پر واپس چلے گئے اور کوئی بھی خطے کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کرپایا تھا۔

    مسئلہ کشمیر جنرل مشرف کے دور میں

    پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد ابتدا میں دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی دوسری مدت کے دوران صدر مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی جہاں سنہ 2001 میں دونوں رہنماؤں میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں جامع مذاکرات ہوئے۔

    اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب ‘Neither a hawk nor a dove’ میں لکھا ہے کہ آگرہ سمجھوتے میں دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے جس قدر قریب پہنچ گئے تھے، اس سے قبل کبھی نہیں پہنچے تھے۔

    امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ واجپائی اور مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے خد و خال طے کر لیے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان یہ دیرینہ مسئلہ حتمی حل کے انتہائی قریب پہنچ گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں حکومت پر مشرف کی گرفت کمزور پڑنے اور بھارت میں واجپائی کی اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں انتہا پسند مؤقف رکھنے والوں کی مزاہمت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

    جولائی 2015 میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف اے ایس دولت نے انکشاف کیا تھا کہ آگرہ سمٹ کا ناکام بنانے میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    اس کے بعد سے آج تک ایل او سی پردونوں ممالک کی جھڑپیں جاری ہیں اور سنہ 2016 میں مقبوخہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوان برہان وانی کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر تحریک آزادی میں نئی جان پڑ گئی اور بھارت کے خلاف احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے ۔

    آرٹیکل 370 کی منسوخی

    حال ہی میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذآرٹیکل 370 اے جو کہ کشمیر کو ایک جداگانہ حیثیت دیتا تھا، اسے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو اپنی یونین ٹیریٹری قرار دے دیا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

    بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔

    اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

    اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں کرفیو

    اس بل کو لانے سے قبل ہی بھارت نے بھاری تعداد میں اپنی تازہ دم فوجیں مقبوضہ کشمیرمیں اتاردی تھیں جس کے سبب وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ، لوگ گھروں میں محصورہوکررہ گئے، کشمیری رہنما محبوبہ مفتی،عمرعبداللہ اورسجاد لون سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی نظربند کردیاگیا ہے۔

    مقبوضہ وادی میں 4 اگست کو دفعہ ایک چوالیس کے تحت کرفیو نافدکر کےوادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بنداور لوگو ں کی نقل وحرکت پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیرمیں موبائل فون،انٹرنیٹ،ریڈیو، ٹی وی سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز کےاہلکاروں نےپولیس تھانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    پاکستان نے اس معاملے پر فوری ردعمل دیتے ہوئے تیز ترین سفارت کاری شروع کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے چین کا ہنگامہ دورہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں موثر آواز رکھنے والے ممالک سے بھی رابطے تیز کردیے، پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے 14 اگست کوآزاد کشمیر کا دورہ کیااور وزیر اعظم پاکستان نے کشمیری عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ساری دنیا میں کشمیر کےسفیر بن کرجائیں گے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے لیے درخواست دی جسے قبول کرلیا گیا، اقوام متحدہ ، امریکا ، برطانیہ اور چین سمیت کئی اہم ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ آج اس اجلاس میں پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے مستقل ممبران
    مسئلہ کشمیر پر گفتگو کریں گے۔

    سلامتی کونسل کا طریقہ کار

    سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔

    قرارداد پاس کرنے کا طریقۂ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔

    کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔

    غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔

    جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے۔


    پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ سلامتی کونسل میں کوئی بھی ہمارے لیے پھولوں کے ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا، لیکن پچاس سال بعد اس مسئلے کا ایک بار پھر سلامتی کونسل میں آجانا، یقیناً پاکستان کی جانب سے کامیاب سفارت کاری کی نوید ہے کیونکہ بھارت شروع سے کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا آیا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اسے ایک بین الاقوامی تنازعہ قراردیا ہے اور اقوام متحدہ کی اس پر پہلے سے موجود قراردادوں کی تائید کی ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی طاقتیں کشمیر کے عوام کو بھارت کے ریاستی ظلم و جبر سے بچانے اور کشمیریوں کو آزادی ٔ استصوابِ رائے کا حق دلانے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔

  • یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن مشرقِ وسطیٰ کا وہ رستا ہوا زخم ہے جو اب اس حالت میں آگیا ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بھی ہوسکتا ہے، اس منظرنامے میں سویڈن سے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ آئینی حکومت اور برسرِ پیکارِ حوثیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئےہیں۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر کیے جارہے تھے ، جن میں سے تین پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ دو پر حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ یمن کی آئینی حکومت اور فی الحال ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ان حوثی قبائل کے درمیان کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوسکا ہے اور کون سے موضوعات ابھی بھی سرد خانے کی نظر ہوئے؟ اس پر ہم بعد میں نظر ڈالتے ہیں ، پہلے یہ دیکھ لیں کہ یمن تنازعہ آخر ہے کیا اور اس کی عالمی منظر نامے پر کیا اہمیت ہے۔

    یمن جنگ کا پس منظر


    یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکزکیاہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج کئی سال سے جنگ کی عبرت ناک آگ میں جھلس رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی طاقتیں رواں سال سامنے آئیں اور مملکت میں متحارب دونوں گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا گیا۔

    القاعدہ کے حملوں سے بے حال اس ملک میں عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا اور عبد اللہ صالح کے بعد یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے القاعدہ نے بھی فائدہ اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ داعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر میدان حوثی قبائل کے ہاتھ رہا۔

    مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثی قبائل کو شکست دینے اور ہادی کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حملے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی حکومت عدن نامی علاقہ چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن ملک کا مرکزی علاقہ صنعا تاحال حوثی قبائل کے قبضے میں ہے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ایران ان کی درپردہ مدد کررہا ہے۔

    بد ترین انسانی المیہ


    اس ساری خانہ جنگی کے سبب یمن ایک ایسے انسانی المیے میں تبدیل ہوگیا جس کی جنگوں جدید تاریخ میں دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    آئینی حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان امن معاہدہ


    سنہ 2016 میں ایک بار حوثی قبائل اور آئینی حکومت نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات بری طرح ناکام ہوئے اور فریقین ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا سبب گردانتے رہے ۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی جس کے سبب مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رواں سال سب سے پہلے امریکا نے معاملے کے دونوں فریقوں کو جنگ بند کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا گیا جس کی برطانیہ اور اقوام متحدہ دونوں کی جانب سے حمایت کی گئی۔ امریکا میں یمن کےمعاملے پر سعودی عرب کی حمایت ختم کرنا آپشن بھی موضوع ِ گفتگو رہا جس کے بعد بالاخر دسمبر 2018 میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کے لیے سویڈن میں اکھٹے ہوئے۔

    یمن کی آئینی حکومت کا وفد پانچ دسمبر کو سویڈن آیا جبکہ حوثی قبائل کا وفد پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ مذاکرات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں منعقد ہوئے ، یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر ہورہے تھے جن میں ایئرپورٹ کا کنٹرول، قیدیوں کا تبادلہ ، معیشت کی بہتری، حدیدہ میں قیام امن اور بحیرہ احمر کنارے واقع القصیر کی بندرگاہ کا کنٹرول شامل ہیں۔

    ایک ہفتہ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر طے پایا ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ سے ملکی پروازیں چلانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے پر طے پایا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کو دوبارہ بحال کیا جائے گا تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ۔ یہ تین نکات ایسے ہیں جن پردونوں فریق مکمل طور پرراضی ہیں لیکن اصل مسئلہ حدیدہ شہر اور اس سے جڑے پورٹ کا ہے جو کہ یمن کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی حکومت چاہتی ہے کہ شہر کا اختیار ان کے پاس ہو جبکہ پورٹ کے معاملے پر فریقین اقوام متحدہ کی نگرانی پر رضامند ی کا اظہا رکررہے ہیں تاہم اس کا فارمولا طے ہونا باقی ہے۔ حوثی باغی چاہتے ہیں کہ حدیدہ شہرکوایک نیوٹرل حیثیت دی جائے ۔

    سنہ 2016 کے بعد سے اب تک یمن کے معاملے پر ہونے والی یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے اور یمن کے عوام کے لیے اس وقت کی سب سے زیادہ مطلوبہ شے ، یعنی امن کیونکہ امن ہی وہ چابی ہے جس سے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں، یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یمن صرف داخلی شورش کا شکار نہیں بلکہ سعوودی عرب اور ایران بھی اس ملک میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کررہے ہیں اور اگر اس معاہدے سے ان دونوں طاقتوں کے مفادات پر ضر ب آتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک بھی ایسے معاشی دور سے گزر رہے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہی سب کے لیے بہتر ہے۔

  • انسانی حقوق کی کونسل منافق اور اسرائیل سے متعصب ہے، امریکی سفیر

    انسانی حقوق کی کونسل منافق اور اسرائیل سے متعصب ہے، امریکی سفیر

    واشنگٹن : اقوام متحدہ میں تعینات امریکا کی سفیر نیکی ہیلی نے انسانی حقوق کی کونسل سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امریکا ایسی کسی بھی کونسل کا حصّہ نہیں بنے گا جس میں انسانی حقوق کا تمسخر اڑیا جائے اور منافقت کی جائے‘۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں تعینات امریکا کی سفیر نیکی ہیلی نے یو این کی انسانی حقوق کی کونسل سے علیحدگی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مذکورہ کمیشن اسرائیلی ریاست سے متعصب اور منافق کونسل ہے‘۔

    نیکی ہیلی سے اپنے خطاب کے دوران روس، چین، کیوبا اور مصر پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ایسی کسی بھی تنظیم کا حصّہ نہیں بنے گا جس میں انسانی حقوق کا تمسخر اڑایا جائے اور منافقت کی جائے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی حقوق کی کونسل اپنے نام اور اعلیٰ رتبے کے قابل ہی نہیں ہے، امریکا نے ماضی میں کونسل میں تبدیلی کرنے کے حوالے سے کئی تجاویز فراہم کی لیکن ان پر کوئی عمل نہیں ہوسکا۔

    نیکی ہیلی کا کہنا تھا کہ کونسل کی جانب سے اسرائیل کو تعاصب کا نشانہ بنائے جانے سے واضح ہے کہ کونسل انسانی حقوق کے بارے میں فکر مند ہونے زیادہ اسرائیلی تعصب میں مبتلا ہے۔

    امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں روس، چین، وینزویلا، کیوبا، کانگو جیسے ممالک بھی شامل ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سر فہرست ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی کونسل سے علیحدگی کا فیصلہ کونسل کے سربراہ زيد رعد الحسين کی امریکا میں تارکین وطن بچوں کو ان کے والدین سے الگ کرنے کی پالیسی پر تنقید کے بعد سامنے آیا تھا۔

    نیکی ہیلی کا کہنا تھا کہ 47 رکنی انسانی حقوق کی کونسل نے اسرائیل کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہوا ہے، امریکا گذشتہ ایک برس سے کونسل میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے علیحدگی کی دھمکی دے رہا تھا لیکن تبدیلی نہیں کی گئی۔

    امریکا کی انسانی حقوق کی کونسل سے علیحدگی پر تنقید کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ ’امریکی اقدامات سے لگ رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صرف اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کی فکر میں ہیں‘۔

    دوسری جانب یو این کی انسانی حقوق کی کونسل کے سربراہ زید راعد الحسین نے امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امریکا کا کونسل سے دستبرداری کا اعلان انتہائی مایوس کن ہے، امریکی حکومت کو کونسل میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیئے تھا‘۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل متعدد عالمی معاہدوں سے دستبرداری کا اعلان کرچکے ہیں جن میں ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کا پیرس معاہدہ، سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ طے ہونے والا جوہری معاہدہ اور اقوام متحدہ کی تعلیم اور ثقافت کے ادارے سے بھی دست برداری اختیار کرچکا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے نتائج عالمی امن کے لیے خطرہ ہوں گے، انتونیو گتریس

    جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے نتائج عالمی امن کے لیے خطرہ ہوں گے، انتونیو گتریس

    نیویارک : اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے کہا ہے کہ اگر امریکا نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے معاہدے کو ختم کیا تو عالمی امن کو خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے بیان پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے کہا ہے کہ امریکا نے اس جوہری معاہدے کو ختم کردیا تو دنیا کو جنگ کے خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا سنہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے سے اس وقت تک باہر نہ نکلے، جب تک جوہری معاہدے سے بہتر کوئی اور متبادل نہ ملے۔

    انتونیو گتریس نے گذشتہ روز غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا بین الااقوامی جوہری معاہدے کو ختم نہ کرے، اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

    دوسری جانب یورپی یونین کے رکن ممالک بھی امریکی صدر ٹرمپ کو معاہدے پر باقی رہنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ برطانیہ فرانس اور جرمنی کے سربراہوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ ہونے والا جوہری معاہدہ ہرگز ختم نہ کرے، مذکورہ معاہدے کے ذریعے ہی تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر اوبامہ کے دور میں ہونے والے جوہری معاہدے کو ’دیوانگی‘ کا قرار دیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ منگل کے روز اسرائیل نے وزیر اعظم نتین یاہو نے الزام عائد کیا تھا کہ ایران معاہدے کے باوجود جوہری اسلحے کی تیاری میں لگا ہوا ہے، اس حوالے سے نتین یاہو نے 55 صفحات پر مشتمل کچھ خفیہ ایٹمی دستاویزات شائع کی تھیں۔

    نیتن یاہو کی جانب سے ایران پر الزامات عائد کیے جانے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی پیش کردہ خفیہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران نے جوہری منصوبوں کے حوالے عالمی طاقتوں کو اندھیرے میں رکھا۔

    ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ اسرائیل نے مذکورہ اقدامات جوہری معاہدوں کے حوالے آئندہ دنوں کے جانے والے ٹرمپ کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش تھی۔

    واضح رہے کہ فرانس کیہ جانب امریکی صدر کو مشورہ دیا گیا تھا کہ ایران کے ساتھ نیا جوہری معاہدہ کیا جاسکتا ہے، جس پر ایرانی صدر نے کہا تھا کہ موجودہ جوہری معاہدے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ چھ امریکا اور روس سمیت چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان سنہ 2015 میں ایران کے جوہری منصوبوں کی روک تھام کےلیے ایک معاہدہ کیا گیا تھا جس کے بعد مغربی ممالک نے ایران پر گذشتہ کئی برس سے عائد اقتصادی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شام میں کیمیائی ہتھیار کا استعمال سنجیدہ نوعیت کا جرم ہے، سلامتی کونسل نوٹس لے: اقوام متحدہ

    شام میں کیمیائی ہتھیار کا استعمال سنجیدہ نوعیت کا جرم ہے، سلامتی کونسل نوٹس لے: اقوام متحدہ

    نیو یارک: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار کا استعمال سنجیدہ نوعیت کا ایک جرم ہے، سلامتی کونسل اس کے سدباب کے لیے موثر اقدامات کرے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا، اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے شام میں کیمائی ہتھیاروں کے استعمال کی خبروں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

    انہوں نے  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ شامی فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے الزامات انتہائی خوف ناک ہیں، سلامتی کونسل سنجیدہ نوعیت کے ان جرائم کے سدباب کے لیے موثر حکمت علمی تیار کرے۔

    داعش کی کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کی فیکٹری تباہ ہوگئی ،برطانوی اخبار

    خیال رہے کہ انتونیو گوٹیرش کی جانب سے سلامتی کونسل سے یہ اپیل اس وقت سامنے آئی جب سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل نے گذشتہ دنوں کیمیائی ہتھیاروں کی تخفیف کی عالمی تنظیم ’او پی سی ڈبلو‘ کے سربراہ ’احمت اومچو سے ملاقات کی، یہ تنظیم 2014 سے اب تک شام میں زہریلی گیس سے کیے جانے والے 70 سے زائد حملوں کی تفتیش کر رہی ہے۔

    دوسری جانب ’او پی سی ڈبلو‘ کے سربراہ احمت اومچو نے کہا ہے کہ شامی حکومت گذشتہ طویل عرصے سے محصور علاقے غوطہ میں قبضے کے لیے بڑی عسکری کارروائیوں میں مصروف ہے، جبکہ شام میں ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات ہیں۔

    داعش نے کیمیائی ہتھیاراستعمال کرنا شروع کردیے، دوسو افراد متاثر

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومتی فورسز کی پیش قدمی کے دوران چند دیہات پر زہریلی گیس کلورین کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • غربت کے سبب افریقی نوجوان شدت پسند بن رہے ہیں

    غربت کے سبب افریقی نوجوان شدت پسند بن رہے ہیں

    رسلز : اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان شدت پسندی کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے صومالیہ، نائجیریا، کینیا، سوڈان، نائجر اور کیمرون میں سرگرم عسکری گروپوں کے تقریبا 5 سو اراکین کے انٹرویو کے بعد کہا گیا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے افریقہ میں عسکری کارروائیاں کرنے والے گروپوں میں اضافہ غربت اور بے روزگاری کی باعث ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ براعظم افریقہ دنیا کا دوسرا بڑا اعظم ہونے کے علاوہ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا براعظم بھی ہے۔

    نائیجیریامیں بوکوحرام کا مسجد پرحملہ‘100 افراد ہلاک

    افریقا کے نمایاں شدت پسند گروہوں میں القائدہ افریقا‘ بوکو حرام‘ الشباب‘ انصار الشریعہ اور البرکات جیسے گروہ شامل ہیں ‘ ان میں سے بوکو حرام اپنی سفاکانہ کارروائیوں کے ساتھ سرفہرست ہے ‘ جس نے ایک طویل عرصے تک نائجیریا میں دہشت اور بربریت کا باز ار گرم رکھا تاہم اب وہاں کی حکومتی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ تنظیم دفاعی جنگ لڑنے تک محدود ہوگئی ہے‘ دوسری جانب عراق اور شام میں برسرِ پیکار داعش نے بھی افریقا میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کردیے ہیں ۔

    غربت کی شرح زیادہ ہونے کے سبب افریقہ کے 5 سے 14 سال کی درمیانی عمر کے 40 فیصد بچے مزدوری کرتے ہیں اور ان کا شمار چائلڈ لیبر میں ہوتا ہے‘ ان کی اوسط آمدن بھی انتہائی کم ہوتی ہے ۔یہی بچے دہشت گرد تنظیموں کا آسان شکار ہوتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔