Tag: Universe

  • سورج سے کئی گنا زیادہ روشن ’بلیک ہول‘ دریافت

    سورج سے کئی گنا زیادہ روشن ’بلیک ہول‘ دریافت

    ماہرین فلکیات کائنات میں ایک ملین کے قریب تیزی سے بڑھتے ہوئے سپر میسیو بلیک ہولز کو تلاش کرچکے ہیں جو کہکشاؤں کے مراکز میں پائے جاتے ہیں۔

    سائنسی جریدے نیچر آسٹرونومی میں شائع ہونے والے ایک نئے مضمون میں اب تک دریافت ہونے والی گیس اور دھول کی سب سے بڑی اور روشن ترین ڈسک سے گھرے ہوئے بلیک ہول کے وجود کو بیان کیا گیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے سورج سے 500 ٹریلین گنا زیادہ روشن ’کواسر‘ دریافت کرلیا ہے، خیال کیا جارہا ہے کہ یہ کائنات میں سب سے زیادہ روشن اور سب سے زیادہ طاقتور جگہ ہوسکتی ہے۔

    غیر معمولی طاقت کے حامل اس بلیک ہول کو ’جے0529-4351‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ بلیک ہول بنیادی طور پر ’کواسر‘ یعنی کہکشاں کا مرکزی حصہ ہے، فلکیات کی اصطلاح میں اسے اے جی این یعنی ’ایکٹیو گیلیکٹک نیوکلیس‘ کہا جاتا ہے۔

    یہ غیر معمولی طور پر بڑی مقدار میں توانائی خارج کرتا ہے، ان میں وسیع پیمانے پربلیک ہولز ہوتے ہیں، جو سورج سے لاکھوں یا اربوں گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور مادے کی بڑی مقدار کو نگل رہے ہیں۔

    دی گارڈین کے مطابق آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ابتدائی طور پر آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے قریب واقع قصبے میں کواسر کی اطلاع دی تھی، جس کی تصدیق بعد میں یورپی سدرن آبزرویٹری نے کی تھی۔

    نیچر آسٹرونومی نامی جریدے کے مصنف کرسچن وولف نے یورپی سدرن آبزرویٹری کو بتایا کہ ہم نے اب تک کا سب سے روشن بلیک ہول دریافت کیا ہے جو سورج کی کمیت سے 17 سے 19 ارب گنا کے درمیان ہے جو روزانہ ایک دن میں سورج کے برابر مادہ نگل رہا ہے کیونکہ یہ گیس کی بڑی مقدار کو کھینچتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان بلیک ہولز سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ اس روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 12 بلین سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کا پھیلاؤ بہت پہلے رک چکا ہوگا۔

  • ماہرین فلکیات نے کائنات کا سب سے بڑا 3 ڈی نقشہ تیار کرنے میں تاریخی کامیابی حاصل کر لی

    ماہرین فلکیات نے کائنات کا سب سے بڑا 3 ڈی نقشہ تیار کرنے میں تاریخی کامیابی حاصل کر لی

    یوٹاہ: ماہرین فلکیات نے 20 برس کی مسلسل محنت کے بعد کائنات کا سب سے بڑا 3D نقشہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں کی 20 برس کی محنت رنگ لے آئی، کائنات کا ایک 3 ڈی (سہ ابعادی) نقشہ تیار ہو گیا، ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ 11 ارب سال سے موجود نظامِ فلکیات کو سمجھنا اب آسان ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق نقشہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کائنات، جو زیادہ تر چپٹی ہے، کے مختلف حصے مختلف رفتار سے پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، اور اس کی تاریخ میں 11 بلین سال کے فاصلے کو بھرتی جا رہی ہے۔

    امریکی ریاست یوٹاہ کی یونی ورسٹی کے کوسمولوجسٹ ڈاکٹر کیلی ڈاسن کا کہنا ہے کہ ہم کائنات کی قدیم ترین تاریخ اور اس کے پھیلاؤ کی حالیہ تاریخ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں تاہم گیارہ ارب سالوں کے بیچ ایک پریشان کن خلا موجود ہے۔

    Scientists Just Revealed The Largest-Ever 3D Map of The Universe ...

    اس تحقیق میں دنیا بھر سے 100 ماہرین فلکیات نے حصہ لیا، تحقیق کے دوران 20 لاکھ سے زیادہ کہکشاؤں اور کواثر (quasars) کی تفصیلی پیمائش کی گئی، جس میں 11 بلین سال کے کائناتی خلائی وقت کا احاطہ کیا گیا ہے۔

    نقشے سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح، جب کائنات کی عمر صرف 3 لاکھ سال تھی، مادے کے دھاگوں (filaments) اور خالی حصوں سے کائنات کا ڈھانچا واضح ہوا۔ ہبل دوربین کے ذریعے ہم یہ جانتے ہیں کہ جو کہکشائیں زمین سے زیادہ دوری پر ہیں وہ زمین سے قریب کہکشاؤں کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ حرکت کر رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی اس بات پر اتفاق نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کتنی تیزی سے پھیل رہی ہیں، اب کہکشاؤں کی اس نئی سروے میں یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ مختلف حصے مختلف رفتار سے پھیل رہے ہیں۔

    اس نقشے کا وہ حصہ جو 6 ارب سال پرانا تھا، اسے بنانے کے لیے ٹیم نے بڑی اور سرخ کہکشاؤں کو استعمال کیا، مزید آگے جانے کے لیے انھوں نے چھوٹی اور نیلی کہکشاؤں کا استعمال کیا، اور پھر آخر کار کائنات کی 11 ارب سالہ پرانی تاریخ کو نقشے کا حصہ بنانے کے لیے ماہرین فلکیات نے کواثرز کا استعمال کیا، جو روشن تر کہکشائیں ہیں اور یہ ایک مرکزی سپر میسو (یعنی وہ جو سورج سے 106 سے 109 گنا بڑے ہیں) بلیک ہول پر گرنے والے مادے سے روشن ہونے والی کہکشائیں ہیں۔

  • اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    ہم کئی نسلوں سے اس زمین پر آباد ہیں، ہم روز بروز ہوتی ترقی کی بدولت اپنے پڑوسی سیاروں اور اپنے نظام شمسی سے باہر کے حالات بھی کچھ نہ کچھ جانتے رہتے ہیں لیکن ان پر غور کرنے کا وقت ہمیں بہت کم ملتا ہے۔

    آئیں آج ہم اپنے اس گھر یعنی زمین اور کائنات کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ہماری کائنات ایک بہت بڑے دھماکے جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے، کے نتیجے میں 13 ارب 80 کروڑ سال قبل وجود میں آئی۔ کائنات ابتدا میں بہت سادہ تھی۔ یہاں کچھ ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسیں موجود تھیں جبکہ بہت ساری توانائی بھی موجود تھی۔

    اس وقت کائنات میں ستارے، کہکہشائیں اور سیارے موجود نہیں تھے جبکہ کسی جاندار کا بھی وجود نہیں تھا۔

    کچھ وقت بعد کائنات میں کچھ پیچیدہ اجسام ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ کائنات میں پہلی بار ستارے اور کہکہشاں بگ بینگ کے 20 کروڑ سال بعد نمودار ہوئے۔

    کچھ بڑے ستارے بنے اور پھر ختم ہوگئے، یہ دھماکے سے پھٹے اور اس دھماکے سے نئے اجسام وجود میں آئے۔ ان اجسام نے مزید نئے عناصر کو جنم دیا جیسے مٹی، برف، پتھر اور معدنیات۔ پھر ان عناصر سے سیارے بننا شروع ہوئے۔

    ہمارا سورج اور نظام شمسی ساڑھے 4 ارب سال قبل نمودار ہوا۔

    4 ارب سال قبل زمین پر زندگی نے جنم لیا۔ اس زندگی کا ارتقا ہونا شروع ہوا مگر تب بھی زیادہ تر جاندار بہت چھوٹے اور یک خلیائی (ایک خلیے پر مشتمل) تھے۔ 1 ارب سال قبل پہلی بار کثیر خلیائی (بہت سارے خلیوں پر مشتمل) زندگی نے جنم لیا۔

    50 کروڑ سال قبل زمین پر بڑے اجسام عام ہوگئے تھے جیسے درخت یا ٹائرنا سارس۔ ان سب میں انسان جدید ترین مخلوق ہے۔ انسان کا ظہور صرف 2 لاکھ سال قبل اس زمین ہوا۔

    انسان کی آمد اس زمین پر ایک اہم واقعہ تھی، کیونکہ انسان اس سے قبل آنے والی تمام مخلوق سے منفرد اور بہتر تھا۔ انسان نے اپنے آس پاس کی معلومات اور اپنے خیالات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا شروع کیا جس سے آنے والی نسلیں پرمغز ہونا شروع ہوئیں۔

    اب، صرف چند سو سال میں انسان نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ پورے کرہ ارض اور اس میں بسنے والے تمام جانداروں کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

    بے تحاشہ ترقی، ٹیکنالوجی اور دولت سے انسان موسموں کا رنگ، دریاؤں اور ہواؤں کا رخ تک بدلنے پر قادر ہوگیا ہے اور اس جنون میں اپنے ہی گھر کو نقصان پہنچانا شروع ہوگیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف اگلے چند سال میں انسان کی ترقی اس بات کا تعین کرلے گی کہ آیا یہ کرہ ارض اور اس پر موجود جاندار صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے یا اگلے کئی لاکھ سال تک موجود رہیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام سیارے کی مخلوق کی بقا، ایک مخلوق (انسان) کی مرہون منت ہے۔ اس بقا کی جنگ لڑنا ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ چیلنج 4 ارب سال میں ایک ہی بار درپیش ہے۔

  • انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈا ہماری روزمرہ کی غذا میں استعمال ہونے والا عام جز ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ انڈا ہماری کائنات کے کئی رازوں کا امین ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس کے کیلشیئم کاربونیٹ سے بنے چھلکے اور اس کے اندر کی دنیا کو غور سے دیکھیں تو اس کے اندر ہماری کائنات کی چھوٹی سی جھلک نظر آئے گی۔

    لوک کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں انڈے کا ذکر ثابت کرتا ہے کہ انڈا ہم سے بہت پہلے سے اس کائنات پرموجود ہے۔ قدیم مصری، یونانی، رومی اور انکا تہذیبوں سمیت مختلف مذاہب اور روایات میں انڈے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

    امریکا میں جنوبی کیلی فورنیا میں موجود ایک قبیلے کی دیو مالائی کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ جس طرح انڈا ٹوٹتا ہے بالکل ویسے ہی ہماری کائنات تخلیق ہوئی۔

    اسی طرح امریکی ریاست آئیووا کا ایک اور قبیلہ اوماہا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کروڑوں سال قبل ایک انڈا سمندروں میں پھینکا گیا جس کی حفاظت ایک سانپ کے پاس ہے، اس انڈے میں وہ تمام افراد آرام کر رہے ہیں جنہیں ابھی دنیا میں آنا ہے۔

    کیا ہماری کائنات بھی انڈے جیسی ہے؟

    سنہ 2006 میں ناسا کے ولکنسن سیٹلائٹ کی حاصل کردہ معلومات سے یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ کائنات (انڈے کی طرح) بیضوی شکل کی ہے۔ سائنسی طبقے نے آج تک اس مفروضے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

    تاہم اس سے قبل سولہویں صدی عیسوی میں جرمن ماہر فلکیات جوہانس کیپلر اس بات کی تصدیق کر چکا تھا کہ ہمارے سیارے سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گول دائرے میں نہیں بلکہ بیضوی دائرے میں گھومتے ہیں۔

    اسی طرح ماہرین کے مطابق انڈے کے خول اور چاند کی زمینی سطح میں بھی بے حد مماثلت ہے، دونوں کھردرے اور دانے دار ہیں۔

    انڈے کی بیضوی ساخت اپنے اندر یہ خصوصیت بھی رکھتی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک سرے پر بیرونی دباؤ ڈالا جائے تو وہ دباؤ تمام حصوں پر یکساں تقسیم ہوجاتا ہے جس کے بعد اندر موجود زندگی محفوظ رہتی ہے۔

    اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ہم ایک بڑے سے انڈے میں رہ رہے ہیں جو مسلسل پھیل رہا ہے، تاہم تمام تر ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ماہرین اس بات کا حتمی تعین نہیں کرسکے۔

  • پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    آج کی جدید سائنس ایسے ایسے میدان سر کررہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، آج انسانی ایجادات خلا کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے نظامِ شمسی سے باہر نکل چکی ہیں اور بہت جلد ہی یہ انسان پڑوسی سیارے پر آباد ہونے کی تیاری کررہا ہے۔

    آج سے ایک صدی پہلے تک یہ سب خواب و خیال کی باتیں تھی اور اگر کوئی ایسے نظریات پیش کرتا تو اسے دیوانہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن آج کی دنیا میں یہ سب حقیقت ہے۔

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک صدی پہلے تک یہ سب دیوانگی سمجھا جارہا تھا تو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں ہمارے نبی ﷺ مدینے کی مسجد کے منبر سے افلاک کی وسعتوں کے بارے میں ایسی آیات مسلمانوں کو حفظ کرارہے تھے جن کے بارے میں صدیوں ابہام رہا اور اب انسانی ارتقاء کی اس جدید ترین صدی میں ان کی تصدیق ممکن ہوئی ہے۔

    یہاں ہم پیش کررہے ہیں کچھ ایسی آیات جو کہ کائنات کی وسعتوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو بھی حیران کیے ہوئے ہیں۔


    جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ چاند اور سورج ایک مقررہ حساب سے اپنا کام انجام دے رہیں تب سورہ رحمان کی آیت پانچ میں قرآن کہتا ہے

    [bs-quote quote=”والشمس والقمر بحسبان

    آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    سورہ رحمان کی آیت 19 اور 20میں خالق ِ کائنات زمیں پر موجود نمکین اور میٹھے پانی کے فرق کو بیا ن کرتا ہے۔

    [bs-quote quote=”مرج البحرین یلتقیان۔ بینھما برزخ لا یبغن

    اور اس نے دو دریا جاری کردیے جو آپس میں مل جاتے ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان برزخ) ہے کہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    قدیم زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد طواف کرتا ہے، ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے ، لیکن قرآن نے دونوں نظریات سے ہٹ کر سورہ یس کی آیت نمبر 38 میں بیان کیا کہ

    [bs-quote quote=”والشمس تجری لمستقر لھا ۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم

    اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالٰی کا” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آج سائنس داں جانتے ہیں کہ سورج جسے ساکن تصور کیا جاتا ہے درحقیقت اپنے پورے نظامِ شمسی اور اس سے بڑھ کر یہ پوری کہکشاں ایک نامعلوم سمت میں رواں دواں ہے۔

    آج سے14 سو سال قبل جب عرب میں اسلام ، محمد عربی ﷺ کے زیر سایہ نمو پارہا تھا ، اس زمانے کے ماہرینِ فلکیات سمجھتے تھے کہ چاند ، سورج اور ستارے درحقیقت آسمان میں لٹکے ہوئے چراغ ہیں اور اپنی جگہ ساکن ہیں لیکن قرآن نے سورہ یس کی آیت نمبر 40 میں انکشاف کیا کہ

    [bs-quote quote=”لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر والا اللیل سابق النھار۔ وکل فی فلک یسبحون

    نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آسمان کے لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ اپنی جگہ پر جامد ہے لیکن جب جدید سائنس نے انسان کو اس آسمان یعنی خلا کی وسعتوں تک رسائی دی تو انکشاف ہوا کہ یہ مسلسل پھیل رہی ہے، اس امر کو اللہ قرآن کی سورہ الذریات کی آیت نمبر 47 میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ

    [bs-quote quote=”والسما بنینا ہا باید وانالموسعون

    اس آسمان کو ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اسے مسلسل پھیلاتے چلے جارہے ہیں” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]


    یقیناً بحیثیتِ مسلم ہمارے لیے یہ امر قابلِ ا فتخار ہے کہ آج جو کچھ سائنس دریافت کررہی ہے اس کے اشارے ہمیں قرآن نے 14 صدیوں قبل ہی دے دیے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ یہ قرآن ہمارے لیے ہی نازل کیا گیا تھا۔ ہمارے رب نے اسے انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات قرار دے کر ہم سے کہا تھا کہ اس ( قرآن ) میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

    کیا ہی اچھا ہو کہ ہم محض غیر مسلموں کی دریافتوں کو قرآن سے سند عطا کرنے کے بجائے خود آگے بڑھیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایسے ایسے کام کرجائیں کہ دنیا قرآن کا مطالعہ کرکے ایک دوسرے سے کہیں،  کہ دیکھو! مسلمانوں کو ان کے رب نے جو نشانی قرآن میں بتائی تھی وہ انہوں نے دریافت کر ڈالی ہے۔

    آج کی دنیا علم و فن کی دنیا ہے، تیز رفتار سائنسی ترقی کی دنیا ہے اگر ہم نے اس میدان کی جانب توجہ نہیں دی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا حشر بھی ویسا ہی ہو، جیسا کہ ہم سے اگلوں کا ہوا اور ان کے قصے بھی اسی قرآن میں ہمیں کھول کھول کر بیان کیے گئے ہیں کہ ہم ہدایت حاصل کرسکیں۔

  • خلا میں ایسی دھات دریافت جس کے سامنے اسٹیل موم ہے

    خلا میں ایسی دھات دریافت جس کے سامنے اسٹیل موم ہے

    خلا میں تیرتے ایک نیوٹران ستارے پر ہونے والی تحقیق میں ایک ایسی دھات کی موجودگی کا انکشا ف ہوا ہے جو کہ زمین پر استعمال کی جانے والی مضبوط ترین دھات اسٹیل سے دس ارب گنا مضبوطی کی حامل ہے۔

    یہ تحقیق انڈیانہ یونی ورسٹی آف بلومنگٹن میں انجام دی گئی ہے ، تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہیں کہ نیوٹران تیاروں پر پائی جانے والی ایک دھات جسے نیوکلئیر پاستا کا نام دیا گیا ہے اس قد ر ٹھوس ہے کہ اس توڑنے کے لیےدرکار قوت اسٹیل کو توڑنے کے لیے درکار قوت سے دس ارب گنا زیادہ ہے۔

    تحقیق میں شریک مصنف اور ماہرِ فزکس چارلس ہوروٹز کا کہنا ہے کہ سننے میں یہ پاگل پن کی حد تک بڑا لگتا ہے لیکن دریافت کا گیا مادہ اس قدر ٹھوس ہے کہ زمین پر موجود کسی شے سے اس کا موازنہ ممکن نہیں ، اور نہ ہی یہاں کسی لیبارٹری میں اس کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ نیوٹران ستارے اس وقت جنم لیتے ہیں جب کوئی مردہ پڑتا ستارہ ایک دھماکے سے پھٹ جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ وافر مقدار میں نیوٹران سے بھرپور غبار پید ا کرتا ہے ، اس غبار پر انتہائی طاقتور کششِ ثقل کی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں ، جس کے سبب اس غبار میں موجود مٹیریل انتہائی غیر معمولی خصوصیات رکھتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ دھات نیوٹران اسٹار کی سطح سے ایک کلومیٹر نیچے ہے جہاں ایٹمی نیوکلیائی مادے اس حد تک دباؤ کا شکار ہیں کہ وہ نیوٹران اور پروٹان کے اس مکسچر کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔ تاحال یہ ساری تحقیق نظریے کی بنیاد پر ہے اور کسی بھی سائنسی لیبارٹری میں اس کا تجزیہ ممکن نہیں ہے۔

    یہ مادہ ستارے کی تہہ میں مختلف اشکا ل میں موجود ہے اور اس کی نوڈلز سے ملتی جلدی شکل کے سبب اسے ’نیوٹران پاستا ‘کا نام دیا گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ستارے کی تہہ میں جیسے جیسے اندر جاتے جائیں گے یہ مادہ اور سخت اور ٹھوس ہوتا جائے گا۔

  • کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق

    کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق

    ہماری ماں زمین جہاں ہم رہتے اور زندگی گزارتے ہیں، ہماری کائنات کا پانچواں بڑا سیارہ ہے، اور شاید یہ واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی موجود ہے۔

    زمین ہمارے لیے بہت بڑی ہے، لیکن ہم کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر ہیں۔ اس وسعت میں ہماری زمین کی حیثیت ایک معمولی سے ریت کے ذرے کے برابر ہے۔

    universe-2

    آج ہم آپ کو کائنات کے ایسے ہی چند حیران کن حقائق بتا رہے ہیں جنہیں جان کر آپ خود کو نہایت حقیر محسوس کرنے لگیں گے، اور ساتھ ہی دنگ بھی رہ جائیں گے۔

    کائنات میں لگ بھگ 100 ارب ستارے اور سیارے موجود ہیں اور ہماری زمین ان میں سے ایک ہے۔

    universe-1

    اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تب بھی ہمیں پوری کہکشاں کی سیر کرنے کے لیے 1 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار 1 لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔

    کائنات کا 70 فیصد حصہ اندھیرے میں چھپا ہوا ہے۔ زمین سے باہر جو کچھ ہم اب تک دریافت کر چکے ہیں وہ کائنات کا صرف 5 فیصد حصہ ہے۔

    ہماری خلا کا زیادہ تر حجم سورج نے گھیرا ہوا ہے۔ سورج کے علاوہ بقیہ تمام سیارے کائنات کا صرف 0.2 فیصد رقبہ گھیرے ہوئے ہیں۔

    sun

    ووئیجر 1 اس وقت انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی وہ واحد شے ہے جو زمین سے سب سے زیادہ فاصلے پر موجود ہے۔ یہ سورج سے 11 ارب میل کے فاصلے پر ہے جبکہ خود زمین سورج سے 14.96 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

    universe-3

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ماہرین فلکیات نے خلا میں زمین جیسے 7 سیارے دریافت کیے تھے۔

    مزید پڑھیں: زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    ایک ستارے اور اس کے گرد گھومتے 7 سیاروں پر مشتمل اس نئے نظام کو ٹریپسٹ 1 کا نام دیا گیا تھا۔

    سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں میں سے 3 پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے جن کے باعث یہ سیارے قابل رہائش ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ جانتے ہیں‘ ہماری زمیں کیسے پیدا ہوئی؟

    کیا آپ جانتے ہیں‘ ہماری زمیں کیسے پیدا ہوئی؟

    زمین سورج سے دور جاتے ہوئےتیسرے نمبر کا سیارہ جس پر ہم رہتے ہیں، ہمارا تمام علم، ہماری تہذیب، تمدن، مذہب، سائنس اور رہن سہن سبھی اس چھوٹے سے پتھریلے سیارے کی وجہ سے ہے، اگر زمین نہ ہوتی تو ہم نہ ہوتے، ہم نہ ہوتےتو نہ ہمارے ہونے کا سوال پوچھا جاتا نا ہی ہم خود کو اہم اور اشرف المخلوقات سمجھتے، زمین کی پیدائش کیسے ہوئی؟ اس سے متعلق بہت سے اساطیری قصے و کہانیاں زمانہ قدیم ہی سے موجود ہیں، ہر زمانے کے انسان نے اپنے زمانے اور سوچ کے مطابق مختلف کہانیاں گھڑیں جن میں اس نے زمین و آسمان کی پیدائش کیسے ہوئی اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ مگر آج ہم سائنس کے ذریعے سے حاصل کیے گئے علم کے ذریعے زمین کے وجود میں آنے کے سوال کا جواب انتہائی احسن طریقے سے دے سکتے ہیں۔

    جب زمین کے وجود کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ وسیع و عریض سیارہ کیسے وجود میں آیا کیسے بنا ؟ اس سوال کا جواب وقت کے لحاظ سے انتہائی طویل ہے، کیونکہ زمین کی پیدائش کے لئے بنیادی محرکات زمین کی پیدائش سے کہیں پہلے وجود میں آ چکے تھے، بلکہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے وجود کے لئے محرک اول خود بگ بینگ تھا۔ بگ بینگ کے بعد جب کائنات پیدا ہوئی تو اس وقت 99 فیصد سے بھی زیادہ مقدار ہائڈروجن گیس کی تھی، باقی 1 فیصد سے بھی کم مقدار میں ابتدائی طور پر ہیلئیم اور لیتھئیم بھی وجود میں آئی تھیں۔ ہماری زمین غالب طور پر لوہے، آکسیجن، فاسفورس، کاربن، سلیکان سے مل کر بنی ہے۔ بگ بینگ کے وقت لوہا اور آکیسجن توموجود ہی نہیں تھے، پھر یہ عناصر زمین میں کیسے موجود ہیں؟ اس کا جواب ہمیں ستاروں کے اندر ہونے والے نیوکلیائی فیوژن کے عمل اور ان کی موت میں ملتا ہے، بہت سے ستارے جو سورج سے تقریباً تین گنا بڑے ہوتے ہیں وہ اپنا ہائڈروجن ایندھن انتہائی تیزی سے استعمال کرتے ہوئے بھاری عناصر بناتے ہیں اور آخر میں ایک دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں، اور جتنے بھی بھاری عناصر وہ اپنی موت کے دوران بناتے ہیں ان کو کہکشاں میں گیسوں کی صورت میں پھیلا دیتے ہیں۔ ہائڈروجن، ہیلئیم اور لیتھئیم کے علاوہ تمام ہی عناصر اس عمل کے دوران بنتے ہیں۔

    اس عمل کے ہی مطابق زمین کے وجود سے کہیں پہلے کچھ ستارے تھے، جو اپنا نیوکلائی فیوژن کا تابکار عمل کرتے رہے اور آخرکار اپنی موت کے وقت لوہا، آکسیجن اور دوسرے عناصر ملکی وے کہکشاں میں پھیلا گئے، جو عناصر ان قدیم ستاروں کی موت پر بنے وہ گیس کے بڑے بڑے بادلوں کی شکل میں ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش تھے، ہم نہیں جانتے کہ یہ گیسوں کا بادل کتنا عرصہ کہکشاں کے مرکز کے گرد محو گردش رہا، مگر آج سے تقریبا 4.7 ارب سال پہلے اس گیسوں کے بادل کے قریب ہی میں کسی سوپر نووا ستارے کے پھٹنے سے ایک ایسا دھماکا پیدا ہوا جس سے اس گیسوں کے بادل میں ازتزلال کی لہریں دوڑ گئیں اور انہی لہروں کے باعث یہ گیسوں کا بادل اپنی ہی ثقالت کے باعث سمٹنے لگا، اس وقت اس گیسوں کے بادل میں گیس نے آپس میں مل کر کھربوں کی تعداد میں شہابیوں کو جنم دیا۔ یہ شہابیے اس گیسوں کے بادل میں ہائڈروجن اور دوسری ہلکی گیسوں کے علاوہ پائے جانے والے عناصر کے ملنے سے بنے، مگر اس گیسوں کے بادل کے مرکز پر موجود گیس اندر کی جانب گرنے سے سورج کی پیدائش ہوئی، مگر دوسرے ایسے مراکز جہاں پر گیس گری وہاں ہمارے بڑے گیسی سیاروں یعنی، مشتری، زحل اور نیپچون کا جنم ہوا، یہ ہمارے نظام شمسی کا بیرونی حصہ ہے۔

    مگر سورج اپنی پیدائش کے دوران تابکاری خارج کر کے اپنے قریب میں مادے کی صفائی کرنے لگا، یعنی قریب میں پائی جانے والی ہائڈروجن گیس یا تو سورج نے خود جذب کر لی یا پھر اس کو اپنے ابتدائی دنوں میں انتہائی قوی تابکاری خارج کرنے کے دور پرے دھکیل دیا جس کے باعث یہ گیس جا کر مشتری کے مدار تک پہنچ گئی ۔ مگر دوسری جانب پتھریلے شہابیے جو نظام شمسی کی پیدائش کے عمل کے دوران پیدا ہوئے تھے سورج سے خارج ہونے والی تابکاری کے باوجود سورج سے قریب یعنی اندرونی نظام شمسی میں موجود رہے، اس وقت اندرونی نظام شمسی یعنی ہمارے نظام شمسی کا وہ حصہ جو سورج سے سیارے مریخ تک ہے سورج کے گرد محو گردش کھربوں شہابیوں کی آماج گاہ تھی، یہ شہابیے اپنے اپنے مداروں میں سورج کے گرد گھوم رہے تھے۔ اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے تھے، یہ نومولود نظام شمسی ہمارے نظام کے مقابلے میں انتہائی غیر مستحکم تھا، کوئی بھی شہابیہ اپنی اصل حالت میں رہ پانا ممکن نہ تھا، اسی دوران کشش ثقل کے باعث مختلف حصوں میں بڑے شہابیوں نے چھوٹے شہابیوں کو کشش ثقل کے باعث کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کرنا شروع کر دیا۔ اسی باعث نظام شمسی میں چھوٹے چھوٹے سیاروں جن کو پروٹو پلینٹ کہا جاتا ہے کا جنم ہوا، اس دوران ہزاروں کی تعداد میں سیارے پیدا ہوئے مگر یہ ایک دوسرے کے مداروں میں مداخلت کرتے تھے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے، ساتھ ہی یہ شہابیوں کو بھی اپنی طرف کھینچتے رہتے تھے، اس وقت میں ہر سیکنڈ میں نظام شمسی میں کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں اجسام ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، شہابیے شہابیوں سے ٹکراتے، سیارے سیاروں سے، شہابیے سیاروں سے، اور پھر چھوٹے سیارے بڑے سیاروں سے ٹکرا کر ان میں زم ہو جاتے، اس وقت نظام شمسی میں پائے جانے والے تمام ہی سیارے جلتی ہوئی پتھر کی گیندوں کی طرح تھے، یہ اپنے اردگرد کے مادے کو کھینچ کھینچ کر اپنے اندر شامل کر رہے تھے، اور ہر بار جب یہ کسی شہابیے کو اپنے اندر شامل کرتے تو ٹکراؤ کے باعث درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا کہ پورے کے پورے سیارے آگ کی لپیٹ میں آ جاتے۔ یہ عمل کروڑوں سال تک چلتا رہا۔

    حتی کے سورج سے باہر جاتے ہوئے دائروں میں چھوٹے سیاروں کے ملاپ سے چار بڑے سیارے یعنی، عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ بن گئے مگر ان کے علاوہ ابھی بھی اندرونی نظام شمسی میں بہت سے چھوٹے چھوٹے سیارے اور شہابیے موجود تھے جو ان سیاروں سے مسلسل ٹکرا رہے تھے۔ ہمارے چار سیارے اپنے بڑے ہجم کے بجائے ان باقی چھوٹے سیاروں سے کہیں زیادہ کشش ثقل رکھتے تھے جس کے باعث جب چھوٹے سیارے ان سے ٹکراتے تو وہ ان سیاروں میں زم ہو کر بڑے سیاروں کے مادے اور ہجم میں اضافہ کرتے جاتے۔ آنے والے کروڑوں سالوں تک یہی عمل چلتا رہا حتیٰ کہ یہ چار سیارے اپنے اردگرد شہابیوں کو کشش ثقل سے کھینچ کھینچ کر اپنے اندر زم کرتے رہے ایسا ہونے سےاندرونی نظام شمسی کا مطلع صاف ہو گیا، یہی عمل بیرونی نظام شمسی میں بھی ہوا، گیسوں کو سورج سے ابتدائی دور میں خارج ہونے والی تابکاری نے پرے دھکیل دیا باقی کا مادہ اور گیسیں سیاروں نے اپنے اندر جذب کر لیں اس طرح سے نظام شمسی ایک شفاف جگہ بن گئی۔

    اسی عمل کے دورن سورج سے تیسری دوری پر ہماری زمین کا جنم ہوا، اس وقت زمین پگھلے ہوئے پتھروں سے بنی ہوئی ایک گیند تھی، اس کی سطح پر ٹھوس پتھروں کے بجائے لاوے کا ایک سمندر موجزن تھا، کروڑوں سال تک یہ عمل چلا اور زمین کچھ ٹھنڈی ہوئی مگر پھر ہمارے ہی قرب و جوار میں موجود ایک چھوٹا سیارہ جس کو سائنسدان تھیا کے نام سے پکارتے ہیں محو گردش تھا، اس سیارے کا مدار زمین کے مدار سے میل کھاتا تھا جس کے باعث یہ سیارہ زمین سے ٹکرا گیا، اس سے زمین کی باہری سطح یعنی کرسٹ علیحدہ ہو کر خلاء میں چلی گئی اور زمین اور تھیا دونوں کے آہنی مراکز آپس میں مل گئے اس سے زمین کے ہجم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور زمین اپنے موجودہ ہجم جتنی بڑی ہو گئی۔ مگر زمین کے کرسٹ کا وہ حصہ جو خلاء میں معلق ہوا ایک گیند کی شکل اختیار کر کے زمین گے گرد محو گردش ہو گیا، اس گیند کو ہم آج چاند کہتے ہیں۔ ابتدائی طور پر چاند زمین کے انتہائی قریب تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زمین سے قدرے دور ہو گیا۔ جب زمین اور تھیا آپس میں ٹکرائے تو زمین ایک بار پھر پگھلی ہوئی حالت میں آگئی اور لاوے کا سمندر ٹھنڈا ہونے میں لاکھوں سال لگے، اس کے بعد ہی زمین کی سطح ٹھنڈی ہوئی اور مگر آج بھی زمین اندر سے گرم ہے کیونکہ اس کی پیدائش کے دوران ہونے والے ان گنت ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی حرارت آج بھی اس کے اندروں میں موجود تابکار مادوں کی حرارت کے ساتھ مل کر اس کو اندر سے گرم رکھتے ہیں اور یہی عمل پلیٹ ٹکٹانک کے عمل کو چلاتا ہے۔

    زمین کی پیدائش آج سے تقریباً 4.54 ارب سال پہلے ہوئی، زمین پر پائے جانے والے قدیم ترین پتھر ریڈیو میٹرک ڈیٹنگ کے مطابق تقریباً 4.5 ارب سال پرانے پائے گئے ہیں، ساتھ ہی مختلف شہابیوں کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ کے ذریعے ان کی عمر تقریباً 4.6 ارب سال پائی گئی ہے، اب جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شہابیے نظام شمسی کی پیدائش کے وقت ہی وجود میں آئے تھے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ سے ہمیں زمین اور نظام شمسی کی پیدائش کے وقت کا درست تعین ہوتا ہے۔


    یہ تحریر ’ماہرینِ فلکیات‘ نامی واٹس ایپ گروپ سے لی گئی ہے اور معلوماتِ عامہ کے فروغ کے جذبے کے تحت اسے یہاں شایع کیا جارہاہے۔

  • کیا بلیک ہول خلائی مخلوقات کا مسکن ہیں؟

    کیا بلیک ہول خلائی مخلوقات کا مسکن ہیں؟

    بچپن سے خلا میں ہمیں جو چیز سب سے زیادہ پراسرار دکھائی دیتی ہے ‘ وہ بلیک ہول ہیں۔ ہم میں سے اکثر نے ان کا محض نام سنا ہے‘ اور ہم میں سے کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ییہ غیر مرئی یا خلائی مخلوقات کا مسکن ہیں‘ آئیے آج جانتے ہیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟۔

    وسیع و عریض خلا میں بے شمار راز چھپے ہیں جن میں سب سے حیران کن بلیک ہو ل ہے‘ خلا میں یہ ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جس کے اندر اتنی کمیت اور مادہ اکٹھا ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی چیز اس سے نہیں گزر نہیں سکتی یہاں تک کہ روشنی بھی نہیں۔

     Universe

    آئیے سمجھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ زمین چونکہ الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران سے مل کر بنی ہے اور الیکٹران اور پروٹان بہت ہی ہلکے ہوتے ہیں‘ لیکن ان کے ملاپ سے بنا ہوا ایٹم بہت جگہ گھیرتا ہے‘ اس لئے زمین کا حجم اس کی کمیت کے تناسب سے بہت زیادہ ہے۔

    زمین پر سطحی کشش ثقل کم ہوتی ہے جس کی وجہ زمین کی سطح اس کے مرکز سے بہت دوری ہے۔ اس لئے زمین کی کشش ِثقل سے نکلنے کے لئے ہمیں جو رفتار درکار ہے‘ وہ 11 کلو میٹر فی سکینڈ ہے۔

    دوسری جانب سورج میں چونکہ زمین کے مقابلے میں بہت زیادہ مادہ ہے اس لئے اس کی کشش ثقل سے نکلنے کے لئے ہمیں 600 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار درکا ر ہے۔

    اب آتے ہیں نیوٹران سٹار کی طرف


    نیوٹران سٹار اس وقت بنتے ہیں جب حجم میں سورج سے بھی بڑا ستارہ اپنا ایندھن ختم کردیتا ہے تو نیوکلئیر فیوژن کے تحت اس کے مرکز میں بھرپور کشش ِثقل کی وجہ سے الیکٹران اور پروٹان ایک دوسرے سے مل کر نیوٹران بنا دیتے ہیں۔

     ہمیں معلوم ہے کہ نیوٹران وزن میں الیکٹران سے 1842 گنا زیادہ بھاری ہوتے ہیں‘ جس کے سبب مرکز میں کشش ثقل اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ستارے کے مرکز سے اوپر کا حصہ دھماکے سے پھٹ جاتا ہے اور اس کے اندر سے جو نیا ستارہ پیدا ہوتا ہے‘ وہ اس ستارے سے لاکھوں گنا چھوٹا لیکن وزنی نیوٹران ستارہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ زمین جتنا ایک نیوٹران ستارہ 200 ارب زمینوں جتنا مادہ رکھتا ہے۔

    اب سمجھیں کہ نیوٹران ستارے کی کشش ثقل عام ستارے کی کشش ثقل سے اربوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے نیوٹران ستارے کی سطح سے ہمیں پرواز کرنے کے لئے اور اس کی کشش ثقل سے نکلنے کے لئے ہمیں ایک لاکھ پچاس ہزار کلو میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے اڑنا ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ رفتار روشنی کی رفتار سے آدھی ہے۔

    بلیک ہول کیا ہے؟


    بلیک ہول اس ستارے سے بھی بڑے ستارے کے مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں جن سے نیوٹران ستارے بنتے ہیں۔ ان ستاروں میں ان کے بہت ہی زیادہ کمیت کی وجہ سے نیوٹران مزید اندرونی دباؤ کے سبب سکڑ کر ایک گولے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جن کے اندر اتنا زیادہ مادہ ہوجاتا ہے کہ ان کا سائز تو بہت ہی چھوٹا ہوجاتا ہے لیکن کمیت ناقابلِ یقین حد تک بہت زیادہ ہوتی ہے۔

    حجم کم ہونے کی وجہ سے اس کی سطح مرکز کے اتنی قریب ہوتی ہے کہ سطح پر کشش ثقل کھربوں گنازیادہ بڑھ جاتی ہے ‘ جس کے سبب زمین کے قطر کا ایسا ستارہ جو زمین سے کھربوں گنا زیادہ کمیت رکهتا ہے وجد میں آتا ہے‘ اب خود سوچئے کہ اس ستارے کی کشش ثقل کتنی ہوگی؟۔

     Universe

    یوں اس ستارے کی کششِ ثقل اس قدر زیادہ ہوگی کہ اگر ہم روشنی کی رفتار سے اڑیں تو پھر بهی اس کی سطح سے نکل نہیں سکیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خود روشنی بهی بلیک ہول سے نہیں نکل سکے گی اور نتیجے میں ہمیں جو نظر آئےگا وہ ایک گہرا سیاہ دھبا ہوگا‘ جس پر اندھیرے کنویں کا گمان ہوگا۔

    اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بلیک ہول واقعی خلا میں کوئی سوراخ یا گڑھا ہے بلکہ روشنی کے نہ گزرسکنے کے سبب ہمیں وہاں کچھ نظر نہیں آتا اور اس عظیم کششِ ثقل کے سبب کوئی بھی شے اس جگہ سے نہہں گزر سکتی بلکہ کششِ ثقل کا شکار ہوکر اس کی جانب کھنچی چلی جاتی ہے‘ یہ ہے وہ وجہ جس کے سبب ہمیشہ بلیک ہول خوفناک اور غیر مرئی یا خلائی مخلوقات کا مسکن تصور کیے جاتے ہیں جو اپنی حدود میں آنے والی ہر شے کو ’غائب ‘ کردیتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔