Tag: UP

  • بھارت میں مردہ سمجھ کرزندہ لڑکی چتا میں جلادی

    بھارت میں مردہ سمجھ کرزندہ لڑکی چتا میں جلادی

    نئی دہلی: بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایک ہولناک حادثہ پیش آیا جہاں ڈاکٹروں کی غفلت کے سبب 21 سالہ جوان لڑکی کو چتا کی آگ میں جھونک دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اترپردیش پولیس کے پاس اس ہولناک واقعے کی رپورٹ درج کرائی گئی ہے کہ نویڈا کی رہائشی 21 سالہ شادی شدہ لڑکی کو جان بوجھ کر مردہ قراردیا گیا اور اسے چتا میں زندہ جلا دیا گیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق لڑکی کی موت کو شاردہ اسپتال نے پھیپڑے ناکارہ ہوجانے کے سبب مردہ قراردیا تھا۔ ڈیتھ سرٹیفیکٹ کے اعتبار سے اس کی موت اتوار کی رات 11:45 منٹ پر ہوئی۔ موت کے آٹھ گھنٹے بعد ضلع علی گڑھ میں لڑکی کی میت کو ہندو رسومات کے مطابق آگ میں جلایا جارہا تھا۔

    بزرگ خاتون مرنے کے بعد پھرزندہ ہوگئی

    آگ جلنے کے دوران لڑکی کے بھائی کو شک گزرا اوراس نے فی الفور علی گڑھ پولیس سے مدد طلب کی تاہم جب تک پولیس پہنچی‘ میت 70 فیصد جل چکی تھی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ اسی روز دو ڈاکٹروں پر مشتمل پینل نے نعش کا پوسٹ مارٹم کیا اور موت کی وجہ زندہ جلنے کے سبب پہنچنے والا ذہنی صدمہ بتائی۔ رپورٹ اس بنیاد پر مرتب کی گئی کہ لڑکی کی سانس کی نالی اور پھیپڑوں میں راکھ کے ذرات ملے ہیں جو کہ صرف اور صرف سانس لینے کی صورت میں ممکن ہے۔

    مرنے کے بعد کھال بیچنے والا شخص

    میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر لڑکی کے چچا نے اس کے شوہر اور اس کے خاندان کے دس دیگر افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے جس میں انہیں جنسی زیادتی اور قتل کا مورد الزام ٹہرایاگیا ہے۔

    دوسری جانب شاردہ اسپتال اپنے موقف پر قائم ہے کہ جس وقت لڑکی کو اسپتال سے واپس لے جایا گیا وہ مرچکی تھی۔ ترجمان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ مریض کو انتہائی نازک حالت میں اسپتال لایا گیا ‘ ہمارے ڈاکٹروں نے جاں توڑ کوشش کی تاہم وہ جاں بلب نہ ہوسکی۔ ہم ابھی بھی اپنے موقف پر قائم ہیں کہ مریض کی موت اتوار کی رات پھیپڑوں کے انفیکشن کے سبب ہوئی

    اب مفصل تحقیقات ہی طے کرسکتی ہیں کہ اصل واقعہ کیا ہے لیکن اگر دوسری میڈیکل رپورٹ اور الزام درست ہے تو یہ طب کے مقدس پیشے کی تاریخ میں مرتب کی جانے والی بھیانک ترین کوتاہیوں میں سے ایک ہوگی۔

  • جون ایلیا کوہم سے بچھڑے 14 برس بیت گئے

    جون ایلیا کوہم سے بچھڑے 14 برس بیت گئے

    کراچی: انوکھےفقروں اور نت نئےتاویلوں کے شاعر جون ایلیا کو پیوند خاک ہوئے چودہ برس کا عرصہ ہو گیا،انکی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔”‏

    جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش

    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب 
    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

     ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا

    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

    میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا

    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا

    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے

    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • بھارت میں وزیر نے صحافی کو زندہ جلادیا

    بھارت میں وزیر نے صحافی کو زندہ جلادیا

    بھارت کے ظلم وجبر کا ایک اور چہرہ سامنے آگیا جب ایک سوشل میڈیا جرنلسٹ جگیندر سنگھ کو بھارت ریاست اترپردیش میں ایک وزیر رام مورتی ورما کے خلاف فیس بک پر پوسٹ کرنے کے جرم میں زندہ جلادیا گیا۔

    عالمی میڈیا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق آتش زنی کی اس واردات میں مبینہ طورپرملوث ڈیری منسٹر رام ورما کا تعلق شاہجہاں پور کی سماج وادی پارٹی سے ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جگیندر ورما نے 30 مئی کو سوشل میڈیا سائٹ فیس بک پر ایک پوسٹ کی جس میں اس نے الزام عائد کیا کہ منسٹر اور اس کے غنڈوں نے ایک مزدور عورت کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ صحافی نے مذکورہ وزیر پر زمینوں پر وسیع پیمانے میں قبضہ کرنے اور کرپشن کے الزامات بھی عائد کئے۔

    ذرائع کے مطابق اسی دن جگیندر کے گھر پر پولیس نے حملہ کیا اور مبینہ طور پر اسے اس کے بیٹے کے سامنے زندہ جلادیا گیا

    پولیس کا موقف ہے کہ جب اسے گرفتار کرنے کے لئے پولیس پارٹی اس کی رہائش گاہ پہنچی تو اس نے خودسوزی کرنے کی کوشش کی۔

    جگیندرسنگھ نے موت سے قبل دئیے گئے اپنے آخری بیان میں کہا کہ مقامی پولیس چیف شری پراکاش رائے نے
    اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگائی۔

    سوشل میڈیا پر اس خبر کے پھیل جانے اوت ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی جانب سے اس معاملے کا نوٹس لینے پر منسٹر رام ورما اور پولیس چیف شری آکاش سمیت کل چھ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

    اس سارے معاملے پر بھارتی میڈیا نے پر اسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے لیکن عالمی میڈیا نے اس خبر کو اجاگر کیا اور تحقیقات کام مطالبہ بھی کیا۔

  • بھارت میں گرمی کی شدید لہر، 539 افراد ہلاک

    بھارت میں گرمی کی شدید لہر، 539 افراد ہلاک

    نئی دہلی: بھارت کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں جاری گرمی کی شدید لہر نے پانچ سوسے زائد افراد کوہلاکر دیا، محمکہ موسمیات کے مطابق گرمی کی یہ لہراس ہفتے بھی جاری رہے گی۔

    بھارتی محکمہ داخلہ کے مطابق گرم ترین علاقہ ریاست اترپردیش کا شہرالہٰ آباد رہا جہاں درجہ حرارت 47.7 ڈگری تک جا پہنچا جبکہ نئی دہلی میں درجہ حرارت 43.5 رہا۔

    گرمی کی اس لہرسے اب تک 539 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اوتہلاک شدگان میں زیادہ تعداد بے گھراورعمررسیدہ مزدوروں کی ہے۔ زیادہ ترہلاکتیں اندھرا پردیش، تلنگنا میں ہوئی ہیں جبکہ کچھ اموات اترپردیش، اڑیسہ اور مغربی بنگال میں ہوئی ہیں۔

    محکمہ موسمیات کاکہانا ہے کہ اموات سن اسٹروک اورڈی ہاڈریشن کے سبب ہورہی ہیں، محکمے نے صورتحال کو ہنگامی قرار دے دیا ہے اورکہا ہے کہ گرمی کی شدت آئندہ چند روز تک جاری رہے گی۔

    طبی ماہرین کےمطابق گرمی سے متاثرہ علاقوں میں مزدوروں کو صبح10
    بجے سے شام 4 بجے تک سخت کام کرنے سے احتراز کرنا چاہئیے۔

  • تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 22 برس بیت گئے

    تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 22 برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) بھارت میں مسلمانوں کی قدیم اور تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو بائیس برس بیت گئے، بھارتی مسلمان دو دہائیاں گزرنے کے باوجود انصاف کے طلب گار ہیں۔

    بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے حکم سے سولہویں صدی عیسوی میں اتر پردیش میں تعمیر کی گئی جواسلامی اور مغل فن تعمیر کا ایک شاہکار تھی، لیکن افسوس ہندو انتہا پسندوں نے اپنے اندھے تعصب میں چھ دسمبر 1992 کو اس عظیم تاریخی ورثے کو تاراج کردیا۔ متعصب ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ساتھ مل کر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی ایک زہریلی تحریک چلائی ۔

    اس تحریک کے نتیجے میں چھ دسمبر 1992کوہندوانتہاپسند تنظیموں نے نیم فوجی دستوں کی موجودگی میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا۔ اس بربریت کے نتیجے میں بھارتی تاریخ کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے، جن میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

    مسلمان تو ایک طرف رہے بھارت میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل اور عیسائیوں کے گرجا گھر بھی محفوظ نہیں ہیں، دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعوے دار بھارت درحقیقت اپنی زمین پر بسنے والی اقلیتوں کے لئے جہنم بن چکا ہے ۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ وہاں موجود اقلیتوں میں احساس پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت میں انکا مستقبل غیر محفوظ ہے۔

  • جون ایلیا کوہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    جون ایلیا کوہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – شاعرِ بے بدل  جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔”‏

    جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔ ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

     ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ
    ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا
    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
    میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا
    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا
    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے
    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے