Tag: Urdu

  • کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے، اس تاثر میں کتنی سچائی ہے، یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں

    کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے، اس تاثر میں کتنی سچائی ہے، یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں

    اردو ایک مہذب، نفیس اور خوب صورت زبان مانی جاتی ہے۔ پاکستان میں کراچی والوں کو اس زبان کا امین سمجھا جاتا تھا اور کراچی کے اردو بولنے والے اس پر فخر بھی کرتے تھے، لیکن اب شکوہ کیا جاتا ہے کہ کراچی میں اردو زبان پہلی جیسی رہی، نہ ہی گفتگو کا وہ سلیقہ رہا۔

    کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے۔ اس تاثر میں کتنی سچائی ہے یہ جاننے کے لیے ہم اردو کی تلاش میں نکلے۔ قریہ قریہ گئے اردو کو تلاش کیا، لوگوں سے ملاقات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کراچی میں اردو زبان کا صحیح تلفظ اور حسین لہجہ کہیں کھو تو نہیں گیا، کراچی والوں کا شین قاف اب بھی درست ہے یا بگڑ چکا ہے۔

    اس ویڈیو رپورٹ کی ریکارڈنگ کے دوران لوگوں کی دل چسپ گفتگو سننے کو ملی۔ کچھ لوگوں نے کہا جو زبان اور حسین لب و لہجہ ان کے آبا و اجداد ہجرت کے وقت کراچی لے کر آئے تھے اس کی نہ صرف انھوں نے حفاظت کی بلکہ اگلی نسلوں میں بھی گفتگو کا سلیقہ منتقل کیا۔


    کیا 6 ماہ سے یرغمال بنے سکندر کو ماموں نے قتل کیا؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو رپورٹ


    کچھ لوگوں نے اعتراف کیا کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ زبان اور لہجے میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ اردوزبان اب بولی بن گئی ہے۔ صرف رابطہ قائم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے لیے نئی نسل کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر ہم اچھے اور درست الفاظ کا استعمال نہیں کریں گے تو نئی نسل سے شکوہ کرنا غلط ہے۔ کراچی میں اردو گم نہیں ہوئی ارد گرد ہی موجود ہے صرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • مودی سرکار نے اردو دشمنی میں بڑا قدم اٹھا لیا

    مودی سرکار نے اردو دشمنی میں بڑا قدم اٹھا لیا

    جے پور: بھارتی ریاست راجستھان میں مودی حکومت نے ریاست کے سرکاری اسکولوں میں اردو کی جگہ سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر متعارف کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق راجستھان کے محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن نے بیکانیر کے ہائر سیکنڈری اسکول میں اردو ادب کی جگہ سنسکرت ادب کو شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہے، جو اپریل 2025 سے نافذ العمل ہوگا۔

    اس سے قبل جے پور کے مہاتما گاندھی سیکنڈری اسکول اور کئی دیگر اسکولوں میں بھی ایسے ہی احکامات جاری کیے جا چکے ہیں، اس فیصلے کے تحت جن اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ نہیں ہیں یا وہ دل چسپی نہیں رکھتے، وہاں اب سنسکرت پڑھائی جائے گی۔

    محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر آشیش مودی نے مؤقف پیش کیا کہ بیکانیر کے ناپاسر اسکول میں صرف ایک طالب علم اردو پڑھ رہا تھا، جو اب بارہویں کلاس مکمل کر کے کالج جا رہا ہے، چوں کہ وہاں مزید کوئی اردو پڑھنے والا نہیں ہے، اس لیے اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    بھارت میں آئرش خاتون کی عصمت دری، قتل کرنیوالے شخص کو عمرقید کی سزا

    اس فیصلے پر اساتذہ اور سماجی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، اردو کے اساتذہ نے بھی احتجاج کیا ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اردو کو اسکولوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ریاست میں لسانی تنوع کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    اساتذہ نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت جان بوجھ کر اردو زبان کو کمزور کر رہی ہے اور سنسکرت کو زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے۔

    ادھر راجستھان کے وزیر داخلہ جواہر سنگھ بے دھم نے سوشل میڈیا پر ایک متنازع بیان جاری کر کے معاملے کو اور ہوا دی ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ اردو کے اساتذہ جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے ہیں۔

  • احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    اردو ادب کے نامور شاعر اورادیب احمد ندیم قاسمی کی آج تیرویں برسی منائی جارہی ہے، آپ لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔

     احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ء کو پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ  پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ انہوں نے نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔

    احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔

    قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔

    یہاں تو اپنی صدا کان میں نہیں پڑتی

    وہاں خدا کا تنفس سنائی دیتا ہے

    انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’پھول‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لیِ، پھول بچوں کا رسالہ تھا اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔

    قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’سیاست‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’انقلاب‘ لاہوراور ’زمیندار‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ جوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔

    اُسی دور میں اُنہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے۔ اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اُس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ قائم کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔ قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد اُن کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    ان کے شعری مجموعات میں میں بے گناہ، رم جھم، دھڑکنیں، جلال وجمال، لوح وخاک اوردشتِ وفا بے حد معروف ہیں جبکہ افسانوں میں چوپال، آنچل، آبلے درو دیواراور برگ حنا بے پناہ شہرت کے حامل ہیں۔

    احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصرعلالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریباً 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے سبب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا  ، تاہم وہ جاں بر نہ ہوسکے اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہوگیا۔

    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

  • فرانس میں اب اردو زبان سکھائی جائے گی

    فرانس میں اب اردو زبان سکھائی جائے گی

    پیرس: فرانس میں اردو زبان سیکھنے کی کلاسز متعارف کروا دی گئیں، یہ کلاسز فرانس کے مقامی، پاکستانی نژاد شہریوں اور غیر ملکی زبانیں سیکھنے کے شوقین افراد کے لیے متعارف کروائی گئی ہیں۔

    فرانس میں پاکستانی سفارت خانے نے فرانس کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر اس کام کا آغاز کیا ہے، منصوبے کا عنوان ’انسانی ترقی کے لیے ہمنوا‘ رکھا گیا ہے۔

    سفارت خانے کے مطابق فرانس میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی ایک عرصے سے اس اقدام کا مطالبہ کر رہی تھی اور اب ان کی ضرورت دیکھتے ہوئے یہ کلاسز متعارف کروا دی گئی ہیں۔

    خیال رہے کہ اردو زبان کی کلاسز دینے والا فرانس پہلا ملک نہیں، امریکا، برطانیہ، اور روس سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں اردو زبان سکھانے کے ادارے موجود ہیں جن میں نہ صرف پاکستان نژاد بلکہ مقامی افراد و سیاح بھی شوق سے داخلہ لیتے ہیں۔

  • انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    ہر شخص کو موت آ لے گی، سوائے آرٹسٹ کے۔

    آرٹسٹ اپنے آرٹ کے وسیلے زندہ رہتا ہے۔ آرٹ ہی آب حیات ہے، یہی صدیوں تک جینے کا نسخہ ہے۔ یہی باقی رکھتا ہے۔

    انور سجاد اپنی اساس میں ایک آرٹسٹ تھے، ایک مکمل آرٹسٹ۔ چاہے وہ فکشن لکھ رہے ہوں، یا ہاتھ میں برش ہو، یا رقص میں ان کے پاؤں تھرکتے ہوں، یا ان کی باکمال آواز  ہماری سماعتوں میں اترتی ہو، ہمیشہ ایک آرٹسٹ ہمارے روبرو ہوتا۔

    جدید افسانے کے اس سرخیل، اس باکمال فکشن نگار سے متعلق، اس دل پذیر شخص سے متعلق اردو کے چند اہم ادیبوں سے ہم نے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

    بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا: مستنصر حسین تارڑ

    اردو کے ہر دل عزیز  ادیب، ممتاز فکشن نگار اور سفر نامہ نویس، مستنصر حسین تارڑ نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر کہا، انتظار حسین، عبداللہ حسین، یوسفی صاحب اور اب انور سجاد؛ بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد ادب کے باغ کی (خوشیوں کا باغ کی) آخری بہار تھی، آخری خوش نوا، خوش آثار، خوش کمال آخری بلبل تھی جو، نغمہ سنج ہوتی  رخصت ہوگئی، اور باغ اجڑ کے رہ گیا۔

    تارڑ صاحب کے مطابق انور سجار، سریندر پرکاش اور بلراج من را کے ساتھ جدید افسانے کے بانیوں‌ میں شمار ہوتے ہیں، ان کے ہاں ایک خاص ردھم تھا، زبان پر بڑی گرفت تھی. انور سجاد نے جدید اردو افسانے پر دیرپا اثرات مرتب کیے، 90 فی صد جدید کہانی کار ان ہی کے انداز کی پیروی کرتے ہیں، البتہ ان کے ہاں وہ ردہم مفقود ہے.

    ان کے مطابق انور سجاد کی مثال اس ماڈرن آرٹسٹ کی تھی، جو کلاسیکی آرٹ پر بھی گرفت رکھتا ہے، جو تجریدی اسٹروک سے پہلے سیدھی لکیر کھینچا جانتا ہے، بعد والوں میں یہ فن کم  دکھائی دیا. اللہ  مرحوم کی مغفرت فرمائے اور سفرِ آخرت میں آسانیاں عطا فرمائے.

    وہ علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ نئی تحریک کے بانی تھے: محمد حمید شاہد

    ممتاز نقاد اور فکشن نگار، محمد حمید شاہد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر انور سجاد ان افراد میں‌ سے تھے، جنھوں نے اردو فکشن کا مزاج بدلا، انتظار حسین نے ماضی  میں اپنا تخلیقی جوہر ڈھونڈا، انور سجاد نے حال اور لمحہ موجود سے جڑ کر اپنا ادب تخلیق کیا، علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ وہ نئی تحریک کے بانی تھے.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد نے اپنے معاصرین پر گہرے اثرات مرتب کیے. ان کا ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ منفرد شے ہے، انھوں نے زندگی کو الگ انداز میں محسوس کیا، نظریاتی طور پر ترقی پسند تھے، البتہ فکشن میں‌اپنی راہ الگ بنائی. ڈرامے بھی خوب لکھے، صدا کاری کی رقص کیا، مصوری کی.

    فکری طرح پر بہت واضح تھے، بڑے انسان تھے، لکھنا ترک کر دیا، مگر اپنا کام کر گئے. لکھنایوں  چھوڑا کہ انھیں لگا کہ وہ خود کو دہرا رہے ہیں، ایک بار انتظار حسین سے بھی کہہ دیا کہ اب آپ بھی لکھنا چھوڑ دیں۔ المختصر انھوں نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا.

    انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے: رفاقت حیات

    معروف فکشن نگار رفاقت حیات کے مطابق منٹو کے بعد جن افراد نے فکشن میں‌نئی جہت متعارف کروانے کی کوشش کی، ان میں‌انتظار حسین اور انور سجاد کا نام اہم ہے. منٹو کا افسانہ ’’پھندے‘‘ ان کے سامنے ایک مثال تھا.

    انور سجاد منٹو کی حقیقت نگاری کے بجائے علامت کی طرف گئے، گو وہ کچھ جلدی چلے گئے، ابھی حقیقت نگاری میں بہت کام باقی تھا، مگر انھوں نے معیاری فکشن لکھا.

    ان کا سب سے اچھا کام ان کے افسانوں میں سامنے آیا. انتظار حسین اور انور سجاد نے آدمی کے اندر کی دنیا، ٹوٹ پھوٹ کو منظر کیا، خارج سے ہٹ کر اس کے باطن کی طرف متوجہ کیا. اس کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت نگار  بھی اِس سمت متوجہ ہوئے، انھوں‌نے توازن قائم کیا.

    رفاقت حیات کے مطابق  آج ناول میں‌ جو تجربات ہورہے ہیں، زبان اور پلاٹ کے حوالے سے، ان کی ابتدائی مثالوں‌ میں ان کا ناول "خوشیوں کا باغ” اہم ہے. انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے.

  • "خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    "خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    اردو کا منفرد  تخلیق کار رخصت ہوا، ایک  عہد تمام ہوا، آدمی چلا گیا، اب صرف کہانی باقی ہے۔

    بیماری سے جوجھتے، سماج سے نالاں  اردو کے ممتاز فکشن نگار، ڈراما نویس، مصور، رقاص، صدا کار، انور سجاد جہان فانی سے کوچ کر گئے.

    یہ سانحہ لاہور میں پیش آیا، وہ ہی شہر جہاں تقسیم سے قبل اس انوکھے کلاکار نے آنکھ کھولی تھی۔  ڈاکٹر انور سجاد گزشتہ چند برس سے علیل اور شدید کسمپرسی کا شکار تھے۔

    کلاکار کی ادب کہانی

    انور سجاد اردو افسانے میں ایک رجحان کا نام ہے. انھوں نے کہانی کے روایتی اسلوب اور سانچے کو شعور ی طور پر توڑ کر اپنے عصر کی پیچیدہ صورت حال کے اظہار کے لیے نئے وسائل، نئے استعارے تراشے، ان کا منفرد اسلوب اور تجریدی تجربات ابتدا ہی سے زیر بحث رہے.

    ان کے افسانوی مجموعے "چوراہا”، "استعارے”، "آج” اور "پہلی کہانیاں” کے زیر عنوان شایع ہوئے. تین ناولز "رگ سنگ”، خوشیوں کا باغ” اور جنم روپ”۔ انھوں نے اردو ادب کو دیے. یوں تو ہر تخلیق اہم، البتہ خوشیوں کا باغ خصوصی طور  پر زیر بحث آیا۔

    انجمن ترقی پسند مصنفین سے ان کی گہری وابستگی رہی. "آرٹسٹ ایکویٹی” نامی ایک تنظیم بھی بنائی. حلقہ ارباب ذوق، لاہور کے عہدے دار رہے. پاکستان آرٹس کونسل، لاہور کے چیئرمین بھی رہے.

    اوائل میں شاعری بھی کی، مگر کلی طور پر فکشن کی سمت آگئے. پہلا افسانہ ’’ہوا کے دوش‘‘ پر نقوش میں شایع ہوا.

    پرفارمنگ آرٹ ابتدا ہی سے دل چسپی کا محور تھا. ڈراما نگاری کا سفر پی ٹی وی سے شروع ہوا. "رات کا پچھلا پہر”، "پک نک”، "کوئل”، صبا اور سمندر”، ــیہ زمین میری ہے‘‘، ’’روشنی روشنی‘‘ اور ’’جنم دن‘‘ سمیت کئی کام یاب کھیل لکھے. کئی ڈراموں اداکاری بھی کی.

    واجد علی شاہ کا کردار نبھانے کے لیے مہاراج غلام حسین کتھک سے رقص سیکھا.

    دوستوں کے حلقے اور رنگوں میں دل چسپی مصوری کی جانب لائی. ان کے فن پارے تاثراتی اور تجریدی رنگوں‌ سے مزین ہوتیں.

    فکشن نگار کار کی کہانی اور سیاست

    ڈاکٹر انور سجاد 27مئی 1935میں‌لاہور کے علاقے چونا منڈی میں پیدا ہوئے، ان کے والد ڈاکٹر سید دلاور علی شاہ اپنے شعبے کی معروف شخصیت تھے.

    سن 1948 میں انھوں نے میٹرک کیا، گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج میں زیر تعلیم رہے۔ کنگ ایڈورڈ کالج، لاہور سے طب کی تعلیم مکمل کی۔ 1964میں لیورپول یونیورسٹی، انگلینڈ سے ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کی ڈگری لی.

    سن 2002 تک اپنا کلینک چلاتے رہے. اسی دوران ڈراما نگاری بھی کی۔  پھر کراچی میں‌ ایک ٹی وی چینل میں‌ اسکرپٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہوگئے اور وہیں سے بیماری کے باعث الگ ہوئے.

    سیاست ابتداسے ان کی دل چسپی کا محور تھا. طلبا سیاست کے زمانے میں جھکاؤ لیفٹ کی جانب تھا. لیفٹ کو مرکزی دھارے میں‌ لانے کے ارادے سے عملی سیاست میں آئے.

    ان کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکار میں‌ہوتا ہے. پارٹی انھیں الیکشن کا ٹکٹ دینا چاہتی تھی، مگر یہ انھیں منظور نہیں تھا. ان کی نظریاتی سوچ کے باعث اختلافات بھی پیدا ہوئے.

    مارشل لا کے نفاذ کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا. بعد میں‌ بھی احتجاجی سرگرمیوں‌ میں حصہ لیا، مگر پیپلز پارٹی کے مزاج کی تبدیلی سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے اور کنارہ کش ہوگئے.

    ایک بار عمران خان کی درخواست پر پی ٹی آئی کے ایک جلسے میں بھی شرکت کی، مگر عملی سیاست سے دور رہے.

    آخر دنوں کا غم ناک تذکرہ

    انور سجاد صاحب گزشتہ کچھ عرصے سے بیمار تھے. وہ ان اداروں اور افراد سے بھی شاکی تھے، جن کے ساتھ انھوں نے کام کیا.

    حالات سے مجبور کر انھوں نے امداد کی اپیل بھی کی. حکومت پنجاب کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ان کی داد رسی کی گئی ہے، مگر بعد میں اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا.

  • لاہور ہائیکورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری

    لاہور ہائیکورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ہائیکورٹ نے اپنی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری کردیا، غیر مستند نسخوں کی اشاعت کے خلاف درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے عدالت نے فوری طور پر ایسے نسخے ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے قرآن پاک کے غیر مستند نسخوں کی اشاعت کے خلاف درخواست پر فیصلہ جاری کردیا، یہ لاہور ہائیکورٹ کی تاریخ میں اردو زبان میں جاری کیا جانے والا پہلا فیصلہ ہے۔

    لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان نے مذکورہ درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ تحریف شدہ اور غیر مستند قرآن پاک کے نسخے فوری طور پر ضبط کیے جائیں۔ ایسے نسخوں کی اشاعت کی کڑی نگرانی کی جائے۔

    عدالت نے حکم جاری کیا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں ضلع و تحصیل میں مستند نسخے کی دستیابی یقینی بنائیں۔ مستند نسخے قرآن پاک کی اشاعت میں درستگی کے لیے استعمال کیا جائے۔

    عدالت نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ حکومت قرآن بورڈ کے مجاز ناشرین کو ہی قرآن مجید کی اشاعت کی اجازت دے۔ ناشرین قرآن پاک اور دینی کتب کو کوڈ نمبر دیں جس سے ان کے مستند ہونے کو یقینی بنایا جا سکے، قرآن پاک کے ہر صفحہ پر ناشر اور کمپنی کا نام موجود ہونا چاہیئے۔

    لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ممنوعہ مذہبی مواد رکھنے والی ویب سائٹس کو بند کرنے کے لیے پیمرا اور پی ٹی اے بھی اقدامات کرے۔ پی ٹی اے کے پاس رجسٹرڈ ہونے والی ویب سائٹس کو ہی قرآن پاک یا دینی کتب کو آن لائن دکھانے کی اجازت ہوگی۔

    عدالت نے حکم دیا کہ غیر رجسٹرڈ ویب سائٹس کو فوری بند کر دیا جائے۔ حکومت مستند ویب سائٹس کے حوالے سے عوام کو آگاہی دے اور قرآن بورڈ سے منظور شدہ نسخہ ہی گوگل، ایپ اسٹور، اور پلے اسٹور میں دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔

  • اک اوردریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو

    اک اوردریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو

    شاعری میں جداگانہ اسلوب اور منفر د لب و لہجے کے حامل   اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی کا آج 91 واں یوم پیدائش ہے، الگ اور بے باک انداز انہیں  دیگرشعراء سے ممتاز کرتا ہے۔

    اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں9 اپریل  1928 میں پیدا ہوئے۔انہوں نے بی اے تک تعلیم پائی اور جنگ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے اور یہاں وہ کئی اخبارات، ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

    منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اورچیل ایسی علامات استعمال کیں۔ منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔

    کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن

    کج گَل وچ غم دا طوق وی سی

    کج شہر دے لوک وی ظالم سن

    کج مينوں مَرن دا شوق وی سی

    منیر نیازی اردواور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، اردو میں ان کے تیرہ شعری مجموعے شائع ہوئےجن میں تیزہوا اور تنہا پھول، دشمنوں کے درمیان شام، جنگل میں دھنک، سفید دن کی ہوا، ماہ منیر، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعت سیار شامل ہیں۔

    معروف شاعر کے پنجابی میں‌ بھی تین شعری مجموعے شائع ہوئے اس کے علاوہ کلیات منیر کی بھی اشاعت ہوئی جس میں ان کا مکمل کلام شامل ہے۔منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لیے اکساتا تھا اسی لیے غزل میں بھی ان کا لب ولہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں

    ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

    اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو

    بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو

    بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو

    کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو

    حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو

    ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں

    معروف شاعر منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔

    شاعری میں جداگانہ اسلوب رکھنے والے شاعر 26 دسمبر سنہ 2006 کو لاہور میں وفات پاگئے۔شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعرسے ہوتی ہے۔

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

    میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا

  • دلوں کو چھو لینے والے شاعر اور ادیب ابن انشا کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے

    دلوں کو چھو لینے والے شاعر اور ادیب ابن انشا کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے

    کراچی: شاعر، مزاح نگار، اور کئی کتابوں کے مصنف ابن انشا کو ہم سے بچھڑے اکتالیس برس بیت گئے، وہ اپنے طرز کے واحد ادیب تھے، جہاں ان کی نثر قاری کے دل کو گدگداتی تھی تو وہیں انکی شاعری کا سوزدلوں کو گداز کردیا کرتا تھا۔

    بیسویں صدی کے چند ہی ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کے اشعار اور جملے زبان زد عام ہوں انہی میں معروف ادیب، شاعر، مترجم و سفارتکار ابن انشا بھی شامل ہیں، ابن انشا کو بچھڑے 41 برس بیت گئے۔

    بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927ء کو پیدا ہونے والے ابن انشاء کا اصل نام شیر محمد تھا۔ ریڈیوپاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کئے۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

    انشاء جی نے جہاں اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری ، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب ، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا ۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تار کو چھولیتے۔

    استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ( انشا جی اٹھو اب کو چ کرو) کے خالق ابن انشا تھے، ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلا حیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ گیارہ جنوری انیس سو اٹھتر کو انشا جی کو دنیا سے کو چ کرگئے، کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    کراچی: انوکھے مصرعوں اور نت نئی تاویلوں کے شاعر جون ایلیا کو  پیوند خاک ہوئے سولہ برس بیت گئے، ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر 1937 کو امروہہ، اترپردیش کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی، انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا، اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏:

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے، یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے، چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اس لئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔ سعید کہتے ہیں،’’جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔‘‘

    جون ایلیا نے 1957 میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش

    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب

    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا

    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی مکتبہ فکر کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

    میں بے ہنگام لڑکا تھا، میں صد ہنگام لڑکا تھا

    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔

    1980 کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا

    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے

    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے