Tag: Urdu literature

  • چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    عارف حسین

    کہانی ہمیں متوجہ کر لیتی ہے؛ داستانیں، قصے پُر لطف ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب انسان نے لکھنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ وہ مظاہرِ قدرت اور خود سے طاقت ور یا نفع و نقصان پہنچانے والے جان دار و بے جان اجسام اور قدرتی عوامل سے متاثر ہوتا اور چوں کہ وہ اس کا علم اور شعور نہیں رکھتا تھا تو اس کے بارے میں عجیب و غریب کہاںیاں اور قصے گھڑ لیتا۔ اسے دوسروں کے آگے طرح طرح سے بیان کرتا اور نہایت ڈرامائی انداز اختیار کرتا۔ پھر انسان نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور ارتقائی منازل طے کیں تو اس کا وہی تجسس، تحیّر، وہی بیانیہ ادب اور اس کی مختلف اصناف میں ڈھل گیا۔ وہ زیادہ جاننے اور بیان کرنے پر قادر ہو گیا۔ یوں کہانی، ناول، ڈراما لکھے گئے اور یہ ایک فن ٹھہرا۔

    قارئین آج ہم اخبار اور سوشل میڈیا پر مختلف مصنفین کی مختصر کہانیاں (شارٹ اسٹوریز) پڑھتے ہیں۔ تحریر کے علاوہ ہمارے ہاں بصری اور صوتی ذرایع سے بھی مختصر ماجرا بیان کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خصوصاً دو دہائیوں کے دوران شعور اور آگاہی کا سفر طے کرنے والی نسل کے لیے سو لفظوں کی تحریر سے لے کر دو، تین منٹ تک کی ویڈیو کہانی کوئی نئی بات نہیں، مگر ستّر اور اسّی کے زمانے میں کتب و جرائد کے مطالعے کے رسیا ‘‘افسانچہ’’ پڑھتے تھے جو عموماً طنز و مزاح، شوخی و ظرافت پر مبنی ہوتا تھا۔ تاہم اس کا خالق کسی واقعے، ذاتی تجربے اور مشاہدے کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں بھی بیان کرتا تھا۔ ان ہی افسانچوں نے کئی باقاعدہ لکھاری بھی تیار کیے۔ آج کی مختصر کہانیاں تحریری شکل میں ہوں یا ویڈیو کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہوں، ان میں واقعاتی، حالاتِ حاضرہ اور سماج کے بدرنگ اور تکلیف دہ پہلوئوں کا خاص طور پر احاطہ کیا جاتا ہے۔ یہ سیاست کے ایوانوں سے لے کر سماج کے ہر شعبے تک سنجیدہ پیغام دینے اور شعور اجاگر کرنے کی کوشش تو ہیں اور مقبول بھی۔ مگر چار دہائیوں قبل افسانچہ اخبارات اور دوسرے جرائد میں خاص طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ یہ دل چسپ اور پُرلطف تحریر کسی بڑے اور نام ور ادیب کی نہیں بلکہ ایک عام قاری کی ہوتی تھی۔ مدیر ذرا سی قطع برید اور کمی بیشی سے اسے قابلِ اشاعت بنا لیتے تھے۔ اسّی کی دہائی کے وہ گدگداتے افسانچے الگ ہی لطف رکھتے ہیں۔

    یہ بھی مطالعہ کریں:  محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    شارٹ اسٹوری یا مختصر کہانی اردو ادب میں نئی نہیں۔ افسانچہ شاید اسی کی ایک شکل ہے جسے عام لوگوں نے برتا اور یہ ان میں مقبول ہوئی۔ دوسری طرف ہم سعادت حسن منٹو کے کمالِ فنِ مختصر نویسی اور اس دور کے دیگر کہانی کاروں کی بات کریں تو نہایت پُرمغز اور فنی مہارت سے آراستہ کہانیاں بھی سنجیدہ اور باوقار قارئین کی توجہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ آج بھی اردو ادب میں ان کی اہمیت اور افادیت برقرار ہے۔ منٹو کے دوسرے افسانوں کے علاوہ سنجیدہ قارئین میں ان کی مختصر کہانیاں بھی مقبول ہوئیں اور یہ سب جان دار اور نہایت پُر اثر تھیں۔ اردو میں منٹو کے بعد مختصر کہانیوں کا مزید تجربہ کیا گیا۔ سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں دراصل منٹو کے سنجیدہ اور بامقصد افسانچے منظرعام پر آئے۔ ان میں سے دو یہاں آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش ہیں۔

    ‘‘خبردار’’

    بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے، کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔ مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’ ‘‘

    ‘‘دعوتِ عمل’’

    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔ صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔

    ‘‘یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔’’

    اس کے علاوہ جوگندرپال، ابراہیم جلیس اور دیگر متعدد لکھاریوں نے بھی خوب مختصر نویسی کی، مگر جب عام قارئین نے اپنے جذبات، خیالات کا چند سطری اظہار چاہا تو کچھ الگ ہی ڈھب اپنایا۔ عوامی سطح پر یہ اظہار ‘‘افسانچہ’’ کی شکل میں اتنا مقبول ہوا کہ اکثر اخبارات اور جرائد اس سے کنارہ نہ کر سکے۔ یہ بات کہنا کچھ مشکل نہیں کہ افسانچہ قطعی عوامی ثابت ہوا۔ وقت بدلا تو سماج کے مسائل اور عوام کا مزاج بھی بدل گیا۔ آج مختصر نویسی یا شارٹ اسٹوری ایک اور ہی انداز سے ہمارے سامنے ہے۔ یہ زیادہ تر سنجیدہ اور نہایت اہم موضوعات کا احاطہ کرتی کہانیاں ہیں جو واقعاتی، مشاہدے اور تجربے کے ساتھ تاثراتی ہو سکتی ہیں۔ آج تحریری اور تصویری شکل میں کہانی اپنے قارئین تک تو پہنچ رہی ہے، مگر افسانچہ، یعنی وہ تحریری اظہار جس کا آغاز سنجیدہ اور پُر تجسس جب کہ انجام نہایت لطیف اور گدگداتا ہوتا تھا، اب بہت کم نظر آتا ہے۔

  • افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘

    افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘

    ڈاکٹر افشاں ملک

    ناصر دفتر سے لوٹا تو روزانہ کی طرح امّاں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھیں‘ ہاتھ میں تھمی تسبیح کے اک تواتر سے گرتے دانے ،بند آنکھیں اور بے آواز ہونٹوں کی جنبش بتا رہی تھی کہ کوئی ورد جاری ہے۔ شہلا اپنے کمرے میں اپنی کسی دل چسپی میں مگن تھی اور ملازمہ معمول کے مطابق باورچی خانے میں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی۔

    ناصر کی شادی کو ایک سال ہونے والا تھا لیکن امّاں نے ابھی تک اس کی بیوی شہلا کو گھر کی ذمہ داریوں سے دور ہی رکھا تھا۔ وہ خود ملازمہ کے ساتھ مل کر بڑی خوش اسلوبی سے گھر چلا رہی تھیں ۔ لیکن ناصر چاہتا تھا کہ اب شہلا گھر کی ذمّہ داریاں سنبھال لے۔ وہ جب بھی امّاں کو ملازمہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں مصروف دیکھتا تو بڑی محبت سے کہتا: ” امّاں اب آپ گھرکے کاموں کی ذمّہ داری شہلا کو سونپ کر سبک دوش ہو جائیں ،آرام کریں اور ہم دونوں سے اپنی خدمتیں کروائیں ۔“

    ناصر کی اس محبت پر امّاں کی آنکھیں بھر آتیں: ”بس بیٹا‘ رہنے دو ابھی اسے آزاد کچھ دن۔ عمر پڑی ہے کام کرنے کے لیے۔ یہی کچھ دن ہوتے ہیں لڑکیوں کے جب وہ کچھ آزادی محسوس کرتی ہیں۔ بعد میں تو بچوں کی دیکھ بھال اور گھر گرہستی کے کاموں میں گزر جاتی ہے ان کی ساری زندگی اور ملازمہ بھی توہے میری مدد کے لیے بس ذرا نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے سو میں دیکھ لیتی ہوں ۔“

    ناصر نے اماں کے اکیلے پن کو دیکھتے ہوئے گھر کے کاموں کے لیے کل وقتی ملازمہ بہت پہلے ہی رکھ لی تھی۔ بھلی اور ایمان دار عورت تھی، کوئی بچہ بھی نہ تھا، شوہر کے انتقال کے بعد بے گھر ہو گئی تھی۔ یوں اسے بھی مخلص لوگ اور ایک چھت میسر آ گئی تھی ۔امّاں اور ناصر اسے گھر کے فرد جیسا ہی سمجھتے تھے۔

    ناصر کی دلہن کے روپ میں شہلا امّاں کو بہت اچھی لگتی تھی، وہ اس کی خوب ناز برداریاں کرتیں، اس سے پوچھ پوچھ کر اس کی پسند کے کھانے پکواتیں، کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتیں، سجا سنورا دے کھ کر خوش ہوتیں، ہزاروں دعاﺅں سے نوازتیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خوش دیکھ کر مطمئن ہو جاتیں۔ لیکن شہلا عجیب مزاج کی لڑکی تھی اسے نہ امّاں پسند تھیں اور نہ امّاں کی محبت کے انداز بھاتے تھے۔ اسے صرف ناصر پسند تھا بلا شرکت غیرے۔

    امّاں کا دل چاہتا کہ شہلا ان کے پاس بیٹھے بات کرے لیکن شہلا ناصر کے دفتر جاتے ہی اپنے کمرے تک محدود ہو جاتی، گھر میں ہوتی تو ٹیلی ویژن پر ڈیلی سوپ اور فلمیں دیکھ کر وقت گزارتی، سہیلیوں سے فون پر باتیں کرتی اورسارا سارا دن یوں ہی اپنے کمرے میں گزار دیتی۔ یا پھر اسے ناصر کے ساتھ باہر گھومنے جانا پسند تھا۔ امّاں کی قربت اسے گوارا نہ تھی۔ شروع کے دنوں میں شہلا کی کم گوئی کو امّاں نے شرم پر محمول کیا لیکن رفتہ رفتہ اس کی بے نیازی انہیں محسوس ہونے لگی۔ جہاندیدہ تھیں، ایسے ہی رویوں کی ستائی ہوئی بھی تھیں سو خاموشی اختیار کرلی۔ ناصر سے بھی کچھ نہ کہا لیکن وہ شہلا کے اس رویے سے بے خبر نہ تھا اورخاموشی سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شہلا کسی وقت نہ امّاں کے پاس بیٹھتی ہے نہ ان سے مخاطب ہوتی ہے اور اگر امّاں خود اس سے مخاطب ہوتی ہیں تو لیے دیے انداز میں نپے تلے جواب دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔

    جب تک ناصر گھر میں رہتا اور امّاں کے پاس بیٹھا ہوتا تو شہلا کو بھی ناصر کی وجہ سے بادلِ نخواستہ امّاں کے پاس بیٹھنا پڑتا لیکن اس کی کوشش یہی رہتی کہ ناصر بھی امّاں سے دور رہے۔ مگردفتر سے لوٹ کرناصرکا امّاں کے پاس بیٹھ کر کچھ وقت گزارنا روزانہ کا معمول تھا اور جب سے شادی ہوئی تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ امّاں اور شہلا روزانہ کچھ وقت ساتھ گزاریں ،باتیں کریں۔ شہلا جب تک آکر نہ بیٹھتی ناصر اسے آوازیں دیتا رہتا۔ ناصر کے اصرار پر شہلا وہاں آکر بیٹھ تو جاتی لیکن اس کے چہرے سے بے زاری صاف جھلکتی جسے امّاں کے ساتھ ہی ناصر بھی خوب سمجھتا تھا بلکہ اب تو ملازمہ بھی امّاں کے تئیں شہلا کے اس رویے کو سمجھنے لگی تھی۔


    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں


    ناصر کی فکر دن بدن بڑھتی جا رہی تھی، وہ ہر حال میں امّاں اور شہلا کے درمیان اچھے تعلقات کا متمنی تھا ۔ ایک طرف شہلا اس کی بیوی جس سے وہ محبت کرتا تھا اوردوسری طرف امّاں تھیں جن کا دل دکھانے کا خیال بھی اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔ امّاں سے تواس کا رشتہ ہی بہت انوکھا تھا بلکہ سچ تو یہ تھا کہ ان میں تو کوئی رشتہ ہی نہیں تھا نہ وہ اس کی سگی ماں تھیں نہ سوتیلی وہ تو اس کی منھ بولی ماں تھیں۔ ناصر کے دل میں ان کے لیے بے حد عزت و احترام تھا اوروہ بڑی محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے۔

    امّاں اور ناصر کے اس انوکھے رشتے کی کہانی بھی خوب تھی۔ ناصر صحافی تھا اور ایک مشہور ٹی وی چینل میں ریسرچ اور اسکرپٹ رائٹنگ کے شعبے سے منسلک تھا۔ حالیہ پروجیکٹ کے تحت چینل کی طرف سے اسے ایسے فلاحی اداروں کا سروے سونپا گیا تھا جو عمر رسیدہ، بیوہ اور بے سہارا خواتین کے تحفظ اور فلاح کے لیے کام کر رہے تھے۔ ”آشیانہ“ نام کے ایک غیر سرکاری’ اولڈ ایج ہوم ‘ میں اس کی ملاقات صابرہ خاتون سے ہوئی تھی۔ سروے کے دوران بزرگ اور بے سہارا خواتین کے بہت سے مسائل اور کچھ ایسی تلخ سچائیاں سامنے آئیں جن کا ناصر پر بہت گہرا اثر ہوا۔ وہ بے سہارا اور عمر رسیدہ خواتین جن کا دنیا میں کوئی نہیں تھا، ان اداروں میں انہیں روٹی کپڑے اور ایک محفوظ چھت کے ساتھ ہی بیماری میں دوا علاج بھی اگر میسر تھا تو غنیمت تھا اور وہ اتنی سہولیات ملنے پر مطمئن اور خوش بھی تھیں۔ زندگی کی ڈھلتی شام میں ان کے لیے اتنا بھی بہت تھا۔ مگر ایسی بزرگ خواتین جو اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہوکر یہاں پناہ گزین ہو گئی تھیں ذہنی طور پر زیادہ مایوس اور دکھی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اپنوں کا انتظار جیسے ٹھہر گیا تھا۔ اور کئی کئی برس گزر جانے کے بعد بھی آس کی ڈورکویقین سے تھامے وہ اپنوں کی راہ دیکھ رہی تھیں کہ شاید ان کے دل میں کبھی محبت کا دیا روشن ہو جائے اور وہ انہیں یہاں سے لے جائیں۔ صابرہ خاتون بھی ایک ایسی ہی ماں تھیں جو اپنے بیٹوں کی بے رخی کا شکار ہو کر اس ادارے میں آئی تھیں۔ تفصیلی بات چیت کے دوران انہوں نے ناصر کو بتایا تھا۔

    ”ان کے دو بیٹے ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ میں مقیم آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دو سال پہلے ان کے شوہر کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا اور وہ اکیلی رہ گئیں۔ والد کے گزر جانے کے بعد بچوں نے ان سے رابطہ کیا تسلی دی اور کاروباری مصروفیت کی بنا پر فوری آنے سے معذرت کرتے ہوئے جلد ہی اپنے پاس بلانے کا یقین دلایا۔ مگر دو سال کا عرصہ گزر جانے پر بھی نہ وہ آئے اور نہ ہی مجھے اپنے پاس بلایا۔ شوہر کے گزر جانے کا صدمہ، بڑھتی عمر اور اکیلا پن مجھے اندرہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ایسے وقت میں مجھے بس اپنے بچوں کا انتظارتھا۔ میرا انتظار بڑھتا جا رہا تھا لیکن نہ وہ خود آرہے تھے اور نہ مجھے اپنے پاس بلا رہے تھے۔ ہاں میرے دونوں بیٹوں کی باقاعدگی سے بھیجی گئی رقم سے میرا بینک بیلنس بڑھتا جا رہا تھا اوران کی بے رخی اور بے اعتنائی سے میرا دل خالی ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے ان کے پیسوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ میری خوشی تو اپنے بچوں اور ان کے بچو ں کے ساتھ رہنے میں تھی۔ حالاں کہ میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اپنا جما جمایا کاروبار چھوڑ کر انڈیا میرے پاس آکر نہیں رہ سکتے لیکن میں تو ان کے پاس جا کر رہ سکتی تھی۔ نہ معلوم وہ خود مجھے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے یا ان کی بیویوں کو میرا وہاں ان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں تھا۔“

    بولتے بولتے ان کا گلا بھر آیا تھا مگر وہ خاموش نہیں ہوئیں شاید آج پہلی بار انھوں نے کسی سے اپنا درد بانٹا تھا۔

    ”تنہائی اور خاموشی مجھے ڈر انے لگی تھی، میری دل چسپی ہر چیز سے ختم ہوگئی تھی، میرے گھر کا وہ باغیچہ جس میں میرے لگائے ہوئے بیلے اور موگرے کے پھولوں کی مہک سے فضا میں ہر وقت بھینی بھینی سی خوش بو پھیلی رہتی تھی سوکھنے لگا تھا۔ دیسی گلاب کے وہ پودے بھی میری توجہ سے محروم ہو چلے تھے جن پر کھلنے والے پیازی رنگ کے پھولوں کی مہک سے میری روح تک معطّر ہو جایا کرتی تھی۔ میرے بچوں کا بچپن ان کی معصوم شرارتیں، اچھل کود اور ہنسی کی وہ آوازیں جوگھر کے ہر گوشے میں محفوظ تھیں، تصور میں مجھے اپنا چہرہ دکھا تیں تو میری بے چینی اور بڑھ جاتی۔ اپنے ہی گھر میں ایک بھٹکی ہوئی روح کی طرح میں چکراتی پھرتی۔ تب گھبرا کر میں نے وہ گھر بیچ دیا اور ساری رقم اسی ادارے کو دے دی اور میں خود بھی یہیں آگئی، کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا میرے پاس۔ میں نے سوچا یہاں میرے جیسی اور بھی عورتیں ہوں گی سب مل کر ایک دوسرے کا درد بانٹ لیں گی۔ جب سے یہاں آئی ہوں تنہائی کا احساس کافی حد تک کم ہوگیا ہے مگر دل کا درد کم نہیں ہوتا!“

    صابرہ خاتون کی آپ بیتی سن کر ناصر بہت اداس ہو گیا تھا۔ وہ خود بھی اس دنیا میں اکیلا تھا اور اکیلے پن کے درد کو بہ خوبی سمجھتا تھا۔ اس کی ماں اس کی پیدائش کے وقت ہی چل بسی تھی‘جب وہ ایک سال کا تھا تب اس کا باپ بھی ایک حادثے کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ بوڑھی دادی تھی جس نے تین سال کی عمر تک اسے اپنے سینے سے لگائے رکھا لیکن ایک دن اچانک جب دادی بھی چل بسی تو محلے کا کوئی شخص از راہِ ہمدردی اسے ایک یتیم خانے میں چھوڑ آیا جہاں اس کی پرورش ہوئی۔

    ناصر ایک ذہین اور سلجھا ہوا بچہ تھا، اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے یتیم خانے کے مہتمم سر فراز علی نے ذاتی طور پراس کی سرپرستی کی ذمّہ داری اپنے سر لے لی اوراس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ ناصر نے بھی ان کو کبھی مایوس نہیں کیا، تعلیمی مراحل بہ خوبی طے کیے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے صحافت کو بہ طور کیریئر چنا۔ تین سال پرنٹ میڈیا میں کام کرنے کے بعد ناصر نے الیکٹرانک میڈیا کی طرف رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنی محنت اور لگن سے بہت جلد اپنی شناخت قائم کر لی۔

    صابرہ خاتون سے مل کرجب ناصر لوٹا تو اس نے اپنے دل میں ایک مضبوط فیصلہ کرلیا تھا۔ اس نے ایک ہفتے کے اندر ہی ” آشیانہ “پہنچ کر صابرہ خاتون سے دوبارہ ملاقات کی اورنم ناک آنکھوں اور بھرّائی ہوئی آواز میں ان سے اپنی دلی تمنا کا اظہارکر دیا۔

    صابرہ خاتون کو اس وقت ناصر ایک معصوم بچہ نظر آیا۔ ایک لمحے کو انہیں محسوس ہوا کہ ایک اونچے پورے مرد کے اندر کا بچہ ماں کی مامتا پانے کے لیے بے قرار ہے۔ پیٹ کی اولاد نے تو آنکھیں پھیر لی تھیں لیکن دو ملتجی غیر آنکھیں ان کے چہرے پر جمی ہوئی ان سے مامتا کی بھیک مانگ رہی تھیں۔ بس وہی ایک لمحہ زخمی مامتا پر جیسے مرہم کا ٹھنڈا پھاہا رکھ گیا، صابرہ خاتون نے ناصر کی خواہش پر ہامی بھردی ۔

    ناصر نے ضابطے کے مطابق حلف نامہ جمع کرایا اور صابرہ خاتون کوماں بنا کراپنے گھرلے آیا ۔ دونوں کے بیچ کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی ایک خوبصورت اور مضبوط رشتہ بن گیا۔ ان کو ناصر کے ساتھ رہتے ہوئے دو سال ہو گئے تھے اوراب وہ ناصر کی شادی کر کے ایک ماں کا فرض ادا کرنا چاہتی تھیں۔ ایک دن جب ناصر بہت اچھے موڈ میں ان کے پاس بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا تب انہوں نے اس کی شادی کی بات چھیڑ دی۔

    ”بیٹا میں چاہتی ہوں تمہاری شادی ہوجائے‘ گھر بس جائے تمہارا۔“

    ”گھر تو بسا ہوا ہے امّاں!“

    ”کب اور کیسے؟ “ صابرہ بیگم نے حیران ہو کر ناصر کی طرف دیکھا۔

    ” آپ کے آجانے سے امّاں‘ ‘ وہ شرارت پر آمادہ تھا۔

    ”بے وقوف لڑکے‘ میں تیری شادی کی بات کر رہی ہوں۔ “ ناصرکی بات سن کر وہ مسکرائے بغیرنہ رہ سکی تھیں۔

    ”دیر سے شادی ٹھیک نہیں بچّے۔ اگر تم نے کوئی لڑکی پسند کر رکھی ہو تو بتاؤ، ورنہ میں کچھ کرتی ہوں۔“

    ”ارے نہیں امّاں! میں نے کوئی لڑکی وڑکی پسند نہیں کر رکھی‘ بس آپ کو پسند کیا تھا اور لے آیا۔“ وہ بہ دستور مذاق کے موڈ میں تھا اور ہنس رہا تھا لیکن صابرہ خاتون کو سنجیدہ دیکھ کر بول اٹھا ۔”اچھا اچھا ‘ جیسی آپ کی مرضی! لیکن میری ایک شرط ہے کہ شادی آپ کی پسند سے ہوگی اورآپ کو حق ہے جس پر چاہیں قربان کر دیں مجھے‘ اُف بھی نہ کروں گا۔ “

    وہ چھیڑنے سے باز نہیں آرہا تھا۔ اس کی رضا مندی مل جانے پر صابرہ خاتون نے سرفراز علی کی بیوی کی مدد سے دو ایک لڑکیاں دیکھیں اور شہلا کو پسند کرکے بہو بنالائیں۔

    ناصر کی زندگی میں شہلا بہار بن کر چھا گئی۔ خلوتیں آباد ہوئیں تو زندگی اس کے سامنے ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہوئی۔ دل میں مسرت اور شادمانی کے موسم اُتر آئے، بشاشت اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگی، اس کی زندگی میں اب خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔

    چند مہینے ہی اچھے گزرے پھر رفتہ رفتہ صابرہ خاتون کے تئیں شہلا کا رویّہ بدلنے لگا۔ اس کی نظروں میں ان کے لیے نہ احترام ہوتا نہ محبت۔ امّاں کو اس طرح نظر اندازکرتے دیکھ کر ناصرکو تشویش ہونے لگی۔ اسے شہلا کے رویے کی وجہ سے اپنے دل میں امّاں سے عجیب سی شرمندگی محسوس ہوتی۔ وہ توتصوّر میں بھی امّاں کو دکھ نہیں پہنچا سکتا تھا۔ زندگی میں ان کے آجانے سے اس نے ماں کی مامتا کو محسوس کیا تھا اور ایک ایسا رشتہ جیا تھا جس کا مزہ اس نے چکھا ہی نہیں تھا، اس کی زندگی کے اتنے بڑے خلا کو صابرہ خاتون نے اپنی بے لوث محبت سے پُر کیا تھا۔ وہ بےچین ہو اٹھا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شہلا سے کھل کر بات کرے گا اور اسے سمجھائے گا۔ امّاں سے اپنے رشتے کی نوعیت بتائے گا۔ ناصر کو یقین تھا کہ شہلا پڑھی لکھی لڑکی ہے احساس دلانے پراپنے رویے پر ضرورغور کرے گی۔ لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی ناصر نے اس سے کھل کر بات کی تو وہ بھی کھل کر سامنے آگئی، دل میں صابرہ خاتون کو لے کر جو غبار بھرا ہوا تھا ایک جھٹکے میں نکال باہر کیا۔

    ”ناصر اچھا ہوا تم نے ہی بات چھیڑ دی۔ میں خود تم سے بات کرنے والی تھی۔“

    ”ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ اگر امّاں سے تمہیں کوئی شکایت ہو تو مجھے بتاﺅ۔ یوں تووہ تم سے اور مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں سارا گھر سنبھال رکھا ہے انہوں نے پوری طرح آزاد ہو تم۔ وہ اسے احساس دلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن شہلا تو جیسے ناصر کی کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھی اپنی ہی کہے جا رہی تھی۔

    ”ناصر حیرت ہوتی ہے مجھے تمہاری حرکتیں دیکھ کر۔ تمہارا سارا دھیان صرف امّاں کی خوشی میں ہی رہتا ہے۔ ۔چہرہ پڑھتے رہتے ہو تم ان کا۔ میں تو تمہیں نظر ہی نہیں آتی۔ لوگ سگی ماؤں کی اتنی پرواہ نہیں کرتے جتنی تم اس غیرعورت کی کرتے ہو۔ اور تم کوئی بچّے تو تھے نہیں کہ تمہیں ماں کی اتنی ضرورت تھی کہ اپنی ماں نہیں تھی تو اولڈ ایج ہوم سے ہی ماں کے نام پراٹھا لائے ایک عورت۔“

    وہ ایسا زہر اگلے گی ناصر کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ گنگ سا بیٹھا وہ اسے دیکھ رہا تھا مگرشہلا کے ترکش میں ابھی کچھ تیر باقی تھے۔

    ”تنگ آگئی ہوں میں ان کی دخل اندازی سے۔ ہر وقت نصیحتیں، ہر وقت تاکیدیں، ناصر کو یہ پسند ہے، وہ پسند نہیں ہے۔ ناصر لاابالی سا ہے، اس کی بکھری چیزیں سمیٹ کر رکھ دیا کرو۔ اس کی پسند کی ایک ڈش بنا لیا کرو۔ اس کی الماری ٹھیک کردیا کرو، حد ہوگئی ہے ناصر۔ اچھا یہ بتاﺅ وہ ہوتی کون ہیں مجھ پر اس طرح حکم چلانے والی؟ بس ایک منھ بولا رشتہ ہی تو ہے تمہارے اور ان کے درمیان۔ اور سنو، وہ جس طرح تمہارے اوپر حکم چلاتی ہیں مجھے وہ بھی پسند نہیں ہے۔ تمہیں نہیں لگتا کہ حد پار کر رہی ہیں وہ؟“

    ”خاموش ہو جاﺅ! اب ایک لفظ بھی آگے مت بولنا۔‘‘ ناصرچیخ پڑا۔ ’’کتنی بے حس ہو تم! جذبات سے عاری عورت۔ اور کیسی تعلیم حاصل کی ہے تم نے کہ ذرا تمیز نہیں ہے تمہیں۔بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، ادب لحاظ سب طاق پر رکھ دیا ہے۔ کبھی سوچا تم نے کہ تمہارا یہ رویّہ کتنا دکھ دیتا ہوگا انہیں؟“

    ناصر کے اندر ایک درد سا اتر آیا لیکن شہلا کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی اسے توجیسے اپنے اور ناصر کے درمیان صابرہ خاتون کا وجود برداشت ہی نہیں تھا ۔امّاں کو لے کردونوں کے بیچ سرد جنگ شروع ہو گئی آپس میں بات چیت بھی کم ہو گئی، دونوں کھنچے کھنچے سے رہنے لگے۔ کئی دن یوں ہی گزر گئے۔

    امّاں کی وجہ سے ناصر بات کو زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا تھا، سو اس نے خود ہی شہلا سے بات کرنے کی پہل کر دی۔ شہلا بھی شاید انتظار میں ہی تھی، اس نے بھی زیادہ نخرے نہیں دکھائے۔ ماحول میں کچھ اچھی سی تبدیلی ہوئی تو ناصر کو بھی سکون کا احساس ہوا اورحالات کے بہتر ہونے کی آس بھی بندھ گئی۔

    اس دن جب ناصر دفتر سے لوٹا تو خلافِ معمول شہلا کو اچھے موڈ میں دیکھ کر اسے اطمینان سا ہوا۔ سوچنے لگا کہ شاید شہلا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں پہنچا تو شہلا کو اپنا منتظر بھی پایا۔ ادھر کافی دنوں سے وہ دیکھ رہاتھا کہ جب وہ بیڈ روم میں آتا تو شہلا اسے سوئی ہوئی ملتی، نہ معلوم سو جاتی تھی یا سوجانے کا ناٹک کرتی تھی۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوگیا۔

    ’’کیا بات ہے بھئی آج تو تم جاگ رہی ہو، کیا ہمارا انتظار ہو رہا تھا ؟“ اس نے مسکراتے ہوئے شریر انداز میں شہلا کی طرف دیکھا۔

    ”ہاں ناصر! میں کئی دن سے سوچ رہی تھی کہ تم سے بات کروں لیکن تم ناراض تھے تو میری ہمت ہی نہیں ہوئی۔“ بڑی ادا سے اس نے ناصر کی طرف دیکھا۔

    ” ہاں تھا تو ناراض۔ تم منا لیتیں۔ میں تو منتظر تھا۔ خیر کوئی بات نہیں میں منا لیتا ہوں تمہیں۔ بتاؤ کیا بات ہے؟“ وہ ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ” ناصر غلطی میری بھی ہے اتنے دنوں میں بھی تم سے دور دور رہی۔“

    شہلا کی اس تبدیلی پر ناصرکو حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہو رہی تھی۔ و ہ اسے اب اور شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھاوہ تو بس یہی چاہتا تھا کہ شہلا ماں کے رشتے کی نوعیت کو سمجھ لے ان کی عزت کرے ان سے محبت کرے بس!

    ”ہاں تم کیا کہنا چا رہی تھیں کہو نہ۔ دل کی بات دل دار سے کہنے میں اتنی شرم؟“ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔ ایک قاتل ادا سے شہلا نے ناصر کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دیں اور اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔

    ”ناصر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم امّاں کو واپس ’آشیانہ‘ پہنچا دو؟“

  • حفیظ تبسم کی کتاب ’دشمنوں کے لیے نظمیں‘ اور دشمنانِ منظومہ کا مختصر جائزہ

    حفیظ تبسم کی کتاب ’دشمنوں کے لیے نظمیں‘ اور دشمنانِ منظومہ کا مختصر جائزہ

    تحریر: شیخ نوید

    میرے پسندیدہ ادیب گیبریئل گارسیا مارکیز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نوبیل انعام کے حصول کے بعد جب ان کی شہرت کو پر لگ گئے تو ان کے لیے نئے دوستوں کی تعداد گننا نا ممکن ہو گیا، مارکیز کے مطابق جہاں کچھ افراد منافقانہ خوشامد کے ساتھ ان کی شہرت سے اپنا حصہ لینے کے خواہش مند تھے وہیں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اتنے ہی مخلص تھے جتنا غربت اور مشکلات کے دور میں ساتھ دینے والا کوئی خلوص کا مارا ہم درد ساتھی ہوسکتا ہے، شہرت نے انھیں میرا اتا پتا بتایا اور وہ مجھ سے آ ملے، شہرت سے مخلص دوستوں کے ملنے کا یہ پہلو تعجب خیز اور دل فریب بھی ہے۔

    حفیظ تبسم سے رابطے کا معاملہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہے لیکن یہاں ملاپ کا ذریعہ میری یا حفیظ کی شہرت نہیں بلکہ فیس بک کی ویب سائٹ تھی۔ صحیح طرح سے یاد نہیں، حفیظ نے شاید اپنے پسندیدہ ناولوں کی فہرست لگائی تھی اور دوستوں کو دعوت دی کہ وہ بھی اپنے ناولوں کی لسٹ بنائیں، حفیظ نے شاید میرے کسی دوست کو ٹیگ کیا ہوا تھا اس لیے اُس پوسٹ تک میں بھی پہنچ گیا، اس وقت دوچار تنقیدی کتابیں کچی پکی پڑھ کر میں ’’کلاسیکی تنقیدیت‘‘ کو اپنے جیب میں ڈالے گھوما کرتا تھا۔ جھٹ سے اپنی فہرست اس تیقن کے ساتھ لگائی کہ اس سے بہتر کوئی لسٹ روزِ قیامت تک وجود میں نہیں آ سکتی۔ حفیظ نے اعتراض کیا، میں نے جواب دیا، کچھ ایچ پیچ بھی ہوئی، میں نے حفیظ کی پروفائل پر جا کر سرسری جائزہ لیا تو ان کو صاحبِ کتاب پا کر مرعوب ہوگیا، وہ بھی تین کتابیں، میں نے پسپائی میں ہی عافیت سمجھی، دوسری مرتبہ کسی پوسٹ میں برادرم سید کاشف رضا کا کمنٹ پڑھا جس میں انھوں نے حفیظ تبسم کی شاعری سے نہایت مثبت توقعات کا اظہار کیا تھا۔ میں نے اسی روز انہیں فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی اور یوں ہماری دوستی کی بنیاد پڑی۔

    حفیظ تبسم

    حفیظ سے پہلی ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں عالمی ادبی کانفرنس کے موقع پر ہوئی جب وہ عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام کے گھیرے میں آڈیٹوریم کے مرکزی دروازے کی سیڑھیوں پر ٹہلتے نظر آئے، عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام سے حلقہ ارباب ذوق کراچی کے اجلاسوں میں شناسائی ہوچکی تھی، حیرت کی بات یہ تھی کہ حفیظ تبسم کو پہچاننے میں بھی مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی، شاید اس کی وجہ ان کا اور میرے جثے کا متضاد ہونا تھا، مجھے اگر تین برابر حصوں میں کاٹا جائے تو ایک حصے کا وزن حفیظ تبسم سے تھوڑا زائد ہی نکل آئے گا، ایک بھاری جسم والا انسان سنگل پسلی کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھتا ہے اور زیادہ نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ پھر اسے بھوک لگ جاتی ہے۔ رشک کے اسی جذبے نے اس کے منحنی سے وجود کو میرے دماغ میں نقش کردیا تھا۔

    حفیظ تبسم نے جب اپنی کتاب ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ میرے حوالے کی تو انوکھے عنوان نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا، دشمنوں کی فہرست کا جائزہ لیا تو سرفہرست میرے جگری دوست رفاقت حیات، سید کاشف رضا، عاطف علیم، عطاء الرحمٰن خاکی اور پسندیدہ شخصیات میں افضال احمد سید، پابلو نیرودا، رسول حمزہ توف، نصیر احمد ناصر، ملالہ یوسف زئی، سید سبط حسن، سورین کرکیکارڈ، عذرا عباس اور انور سن رائے کی نام جگمگاتے نظر آئے، حفیظ نے منٹو کو بھی نہیں بخشا، فیشن کے مطابق تو منٹو کو گالی دینا مشرقی روایات کے عین مطابق ہے لیکن حفیظ نے دشمنی کے لیے منٹو کو کیوں چنا یہ فی الوقت واضح نہیں تھا۔

    سب سے پہلے لفظ دشمن پر غور کیا، امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا فقرہ یاد آیا کہ میری قدر و قیمت کا اندازہ میرے دشمنوں سے لگایا جائے، مطلب یہ کہ دشمن آپ کی طاقت یا کم زوی کا پیمانہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو حفیظ تبسم نے ایسے دشمن چنے ہیں جن کی تخلیقات لاکھوں افراد کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں اور کروڑوں دلوں پر راج کرتے ہیں اور حتمی طور پر حفیظ تبسم کے فکری نشوونما اور شاعری کی رخ کو بھی متعین کرتے ہیں۔

    دشمنوں کو ایک اور پہلو سے ممتاز بھارتی ادیب ارون دھتی رائے نے دیکھا ہے، ان کے بقول دشمن تمہارے حوصلے کبھی توڑ نہیں سکتے یہ کام صرف دوست سر انجام دیتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے حفیظ تبسم کے دشمنوں کی لسٹ پر نظر دوڑائی جائے تو حفیظ کے حوصلوں کی بلندی قابل داد نظر آتی ہے۔ کس ماں نے ایسا بچہ کب جنا ہے جو منٹو کے حوصلوں کا مقابلہ کرے۔

    میں نے لفظ دشمن کو کسی اور نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عام فہم معنی میں میٹھی سی زندگی کے اندر کڑواہٹ گھولنے والوں کو دشمن کہا جاتا ہے، جسم کی طرح دماغ بھی آرام کا متلاشی رہتا ہے، دماغ کے لیے سوچنا ایک قسم کی مشقت ہے اور پسینہ بہانا (لغوی معنوں میں) کسے پسند ہے۔ دنیوی راحتوں اور رنگینیوں میں مست فرد کے دماغ کو سوچنے کی دعوت دینا سخت اذیت سے دوچار کرنا ہی کہلائے گا، بغیر کسی حتمی جواب کے سوالات اٹھانا کسی بھی پرسکون دماغ میں اتھل پتھل لانے کے لیے کافی ہے، حفیظ نے جو دشمنوں کی فہرست بنائی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو سوالات اٹھانے کا خطرناک فن جانتے ہیں۔

    سنجیدہ ادب کے مقابلے میں پاپولر ادب کو اسی لیے عام قارئین پسند کرتے ہیں کہ اس میں اول تو کسی قسم کے سوالات اٹھائے ہی نہیں جاتے اور اگر غلطی سے ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ہلکے پھلکے سوالات خود بہ خود کھڑے بھی ہو جائیں تو مصنف کی جیب میں موجود آفاقی سچائیوں سے جوابات ڈھونڈ کر قاری کو مطمین کر دیا جاتا ہے اور سوالات ہمیشہ کے لیے لٹا دیے جاتے ہیں، ایک بے راہ رو ہمیشہ آسمانی عذاب کا شکار ہوتا ہے، گنہگار اپنے بد ترین انجام کو پہنچتا ہے، عظیم سپاہی ہمیشہ اپنے مشن میں کام یاب ہوتے ہیں اور آخر میں ہیرو ہیروئن  عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں (نسیم حجازی کے ناولوں میں وہ گھوڑوں پر سوار ہوکر اپنے مزاج کے مطابق بحرِ ظلمات کے روٹ پر بھی نکل جاتے ہیں)۔

    دماغ اسی وقت پریشان ہوتا ہے جب منٹو ایمان والوں کو ’’کھول دو‘‘ کی ننگی حقیقت سے دوچار کرتا ہے۔ جب وہ کوٹھے کے جہنم میں بھی جنتی وجود تلاش کرلیتا ہے اور چمڑی بیچنے والے سوداگروں میں انسانی جذبات کو باہر کھینچ نکال لاتا ہے۔

    حفیظ تبسم کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی جس نے مجھے از حد متاثر کیا وہ سریئلزم اور تجریدی تمثالوں کی فراوانی ہے، آپ ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ کا کوئی صفحہ بھی بلا ارادہ کھول لیں، سریئلزم کی جان دار تمثیلوں اور تشبیہوں سے دماغ کو عجیب سی فرحت کا احساس ملتا ہے، افضال احمد سید، احمد جاوید، احمد فواد اور سعید الدین سمیت ہمارے متعدد شعرا نے نثری نظموں میں جس کے قسم کے جدید سریئلزم تجربات کیے، حفیظ اسی راستے کو کام یابی کے ساتھ اپنے خوب صورت اور بے لگام تخیل سے مزید کشادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

    دوسری خوبی جو اس مجموعے کو منفرد بناتی ہے اور وہ منظومہ افراد کی تخلیقات کے عنوانات سے ان افراد کے کردار کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے سارے تخلیقی حوالوں کے بعد ان کی نظم کی تفہیم مشکل ہوجاتی اور جب تک دشمنانِ منظومہ کی تمام تخلیقات کا مطالعہ نہ کرلیا جائے اسے سمجھنا مشکل ہوتا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ حفیظ تبسم نے ان تخلیقات کے موضوعات اور عنوانات کو نظم کی کرافٹ میں اتنی سلیقہ مندی سے کھپایا ہے کہ وہ منظومہ فرد کی شخصیت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایک کارنامہ ہی ہے کہ حفیظ نے اپنے تخیل سے فن پارے کو اس کے فن کار کی ذات میں تحلیل کرکے اسے ایک نئی معنویت تک پہنچا دیا ہے۔

    دوسرے پہلو سے جن افراد نے دشمنانِ منظومہ کی تخلیقات کا فرسٹ ہینڈ مطالعہ کر رکھا ہے ان کے لیے نظم کی قرأت منفرد سطح کا لطف پیدا کرتی ہے، ویسے بھی نظموں میں اس طرح کے اشارے رکھنے کی ایک مکمل تاریخ ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے جب اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ شائع کی تو اسے بھی مشورہ دیا گیا کہ اس کے ساتھ اشارات اور علامات کی ایک شرح بھی شائع کی جائے۔ میرا خیال ہے حفیظ کو مجموعے کے آخر میں ایک اشاریہ مرتب کرنا چاہیے تاکہ ہم جیسے سہل طبیعت کے قاری بھی دشمنانِ منظومہ کی تخلیقی کارناموں سے واقف ہوسکیں اور ممکن ہے کہ جوش میں آکر کوئی قاری ان کی تخلیقات پڑھنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے دے، معجزے کی توقع کسی بھی شخص سے رکھی جاسکتی ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو اردو ادب کا قاری کہتا ہو۔

    حفیظ اپنے ’دشمنوں‘ کے صرف کردار کا جائزہ لینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے لاشعوری احساس سے اپنے عصر کے منظر نامے کو بھی پینٹ کرتا ہے اور اُس میں ہر اس انوکھے رنگ کو ڈال دیتا ہے جس کی ضرورت اس کا عصری مسائل سے لاشعوری طور پر مزین تخیل اجازت دیتا ہے۔ سیاسی سفاکیت اور بے حسی، فکری انہدام کی گہری گھاٹیاں، علم دشمنی کی خیرہ کن چمک دمک، نفسیاتی بھول بھلیوں اور سماجی ناانصافی کے غیر عقلی رویوں کا بیان بھی ان کی نظموں میں زیریں سطح پر بہتا ہوا نظر آتا ہے اور کسی موقع پر سرئیلزم کے زبان میں نہایت کاٹ دار لہجہ اختیار کرلیتا ہے۔

    اچھے اور معیاری ادب کی یہ خوبی مسلم ہے کہ وہ مانوس کو نامانوس بنا کرپیش کرتا ہے۔ دشمنانِ حفیظ بھی جانے پہچانے اور بہ ظاہر مانوس نظر آتے ہیں۔ منٹو کا نام سن کر ہر گنہگار کانوں کو ہاتھ لگانا فرض سمجھتا ہے، نیرودا کو بھی اسی قسم کے جنسی جذبات سے عاری قدسی صفات افراد کی مخالفت کا سامنا رہا، سبط حسن کی کتابیں آج بھی کئی افراد کی جبیبوں پر شکنیں ڈال دیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملالہ یوسفزئی کو گالی دینا تو کچھ افراد کے نزدیک مذہبی رسومات میں داخل ہوچکا ہے اور ہر گالی کے ساتھ ان کے ایمانی درجے میں بڑھوتری ہوجاتی ہے۔

    حفیظ کی نظموں میں یہ شخصیات ماوارئی کردار میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور کردار حقیقی وجود رکھتے ہوئے بھی اتنے غیر حقیقی بن جاتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے فینٹیسی کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ حفیظ ان کے ادبی یا سماجی کارناموں کی علامات کو تجریدیت اور سرئیلزم کی سرحد کے پار ڈال کر انہیں ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں مکمل نامانوسیت کی فضا طاری رہتی اور قاری بھی اسی انوکھی اور ان دیکھی فضا میں خود کو تحلیل ہوتے پاتا ہے۔

    کہیں پڑھا تھا کہ اگر امر ہونا چاہتے ہو تو کسی ادیب سے دوستی کرلو، حفیظ تبسم نے اپنے مجموعے ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ سے بھی اسی قسم کی کاوش کی، اُس نے اپنے’ دشمنوں‘ کو آب حیات کے رنگ سے تراشنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ خاکے ہمارے ادبی سفر کا ایک وقیع تجربہ ہیں جس کی معنویت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ خاکے ہماری زبان کے ادبی سفر کے روشن پڑاؤ ہیں جس کی روشنی راہ ادب کو مزید منور کرے گی۔

    خوشی کی بات ہے کہ شاعری کے ساتھ حفیظ تبسم نے ایک ناول بھی لکھا ہے جو اشاعت سے قبل کے نظرثانی کے آخری مراحل پر ہے، مجھے امید ہے کہ اپنی شعری تخلیقات کی طرح وہ اپنے فکشن سے بھی اپنے استاد ساحر شفیق کی طرح افسانوی ادب میں نئی راہ نکالنے میں کام یاب رہیں گے۔ مجموعہ پڑھنے سے پہلے میں حفیظ کو اپنا دوست سمجھتا تھا لیکن اب، مجموعہ پڑھنے کے بعد، اُس کا نام میں نے اپنے دشمنوں کی سنہری فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ روک سکو تو روک لو۔

  • افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    گھروں میں کُتب بینی کو رواج دینا اور مطالعے کا ماحول بنانا کتنا اہم، ضروری اور خواب ناک ہے، اس کا اندازہ ڈاکٹر افشاں ملک کی مختصر کتھا پڑھنے سے ہوتا ہے۔کس طرح ایک گھر کے جیتے جاگتے انسان اپنے پرکھوں سے مِل آتے ہیں، اپنی ثقافت کی خوش بو گھر کی مٹی میں سونگھ لیتے ہیں اور کئی زمانے آپس میں جُڑ جاتے ہیں۔

    افشاں ملک کا تعلق علی گڑھ سے ہے، گھرانے میں کئی پُشتوں میں کوئی ادیب، شاعر نہیں گزرا، لیکن دادا، پَر دادا کا ذوقِ مطالعہ عروج پر رہا۔ افشاں کے گھرانے کی زندگی ہمیں سبق دیتی ہے کہ ایک وراثت ہے جو بہترین ہے، افضل ہے، جسے آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا جانا چاہیے، یہ وراثت کتابیں اور مطالعہ ہے۔

    ڈاکٹر صاحبہ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی اور ایک دن چھپکے سے افسانوں کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ وہ بیس سال سے انسان اور اس کے فلاحی رشتوں کو مدِ نظر رکھ کر افسانے لکھ رہی ہیں۔ لیکن کیا ’انسان‘ کہہ کر بات ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں، یہ ’انسان‘ تو خود بے پناہ خانوں میں منقسم ہے، طرح طرح کے تعصبات میں جکڑا ہوا ہے۔


    افشاں ملک کا افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘ پڑھیں


    [bs-quote quote=”افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/08/afshan-Malik-2.jpg”][/bs-quote]

    اردو افسانہ اس وقت بھارت اور پاکستان میں بہت مقبول صنف بن چکی ہے۔ بے شمار نئے اور جوان خون کے حامل افسانہ نویس سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ کیا وہ ’انسان‘ کے گوناں گوں تعصبات کو درست طور پر سمجھ کر، اسے اس کے نظریات سمیت افسانوں کی زینت بنا رہے ہیں یا مصنف خود اپنے تعصبات اور نظریات کے پرچار کے لیے کردار تخلیق کر رہے ہیں۔

    افشاں کا خیال ہے کہ موجودہ عہد کا انسان روزی روٹی کی فکر سے زیادہ فرقہ پرستی، دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا اسیر ہے۔ خاتون افسانہ نویس کہتی ہیں کہ وہ اس انسان کو اس تشویش ناک صورتِ حال سے باہر نکالنے کے لیے افسانے لکھتی ہیں۔

    نعیم بیگ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بینکار اور اردو انگریزی ناول نگار ہیں۔ مقامی اور خطے کی سیاست اور جنگی صورتِ حال پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی ثقافتی یلغار، ہندوستان کی تقسیم، عالمی جنگوں کے اثرات اور انگریز کے چھوڑے ہوئے جاگیر داری نظام نے ہماری ثقافت کے خال و خد کو داغ دار اور دھندلا کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں افشاں ملک اپنے افسانوں کے ذریعے اپنی مٹی کی خوش بو محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

    [bs-quote quote=”مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ’اضطراب‘ افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو افشاں ملک کے قلم سے ترتیب پایا ہے۔ اس مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں۔ آپ اکثر ڈائجسٹوں میں کہانیاں پڑھتے رہتے ہیں، یہ کہانیاں ایک ہی موضوع ’محبت‘ کے گرد گھومتی ہیں، محبت بھی مرد اور عورت والی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہانیاں قاری کو زندگی کے کسی گہرے اور سنجیدہ تجربے سے روشناس نہیں کراتیں۔


    انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول


    افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں مرد عورت، میاں بیوی، مرد مرد، اور عورت عورت کے تعلقات کی مختلف پرتوں کے ساتھ ساتھ سماجی سیاسی شعور بھی مل جاتا ہے۔ ان کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک عورت ہوتے ہوئے افسانے میں عورت کے کردار کو پیش کرتے ہوئے تانیثی (عورت سے متعلق) تعصبات کا شکار نہیں ہوتیں۔

    اضطراب کے افسانے پڑھتے ہوئے آپ کو لطف بھی آئے گا اور دماغ کے کینوس پر کچھ سنجیدہ نقوش بھی مرتب ہوں گے۔ ان افسانوں میں چند کے نام یہ ہیں: گورِ غریباں، افتادہ اراضی، گود لی ہوئی ماں، پینٹنگ، اور آسیب زدہ۔

  • بےمثل وبے نظیرافسانہ نگار‘ سعادت حسین منٹو کی آج 106ویں سالگرہ ہے

    بےمثل وبے نظیرافسانہ نگار‘ سعادت حسین منٹو کی آج 106ویں سالگرہ ہے

    آج اردو زبان کے منفرد اورنامورمصنف سعادت حسن منٹو کی 106ویں سالگرہ ہے، منٹو کا بیباک اندازِتحریراور معاشرے کی منافقانہ روش سے بغاوت ان کی وجۂ شہرت بنا۔

    ‎ اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے بیباک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی کو 1912پنجاب ہندوستان کےضلع لدھیانہ کے شہرشملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوبصورت فیشن ایبل صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا ادباء میں نمایاں شخصیت کا مالک انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محرومی اور دشمنوں کے نرغے میں گہرا ہوا شخص محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کرگیا۔

    manto-post-01

    ‎ منٹو کاقلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنےوالا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچارکیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کئےجاتے تھے۔

    manto-post-02

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اورمزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کرقلم طراز ہوتارہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کاہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناونی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناونا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، سیاہ حاشیے، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوسناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔

    manto-post-03

  • لفظوں سے نشتر کا کام لینے والے منٹو کی آج 63 ویں برسی ہے

    لفظوں سے نشتر کا کام لینے والے منٹو کی آج 63 ویں برسی ہے

    آج اردو زبان کے منفرد اورنامورمصنف سعادت حسن منٹو کی 63 ویں برسی ہے، اپنے تلخ مضامین کے سبب معاشرے کی مزاحمت کا سامنا کرنے والے منٹو18 جنوری 1955 کو اس دنیا سے گزر گئے‘ ان کا بیباک اندازِتحریراور معاشرے کی منافقانہ روش سے بغاوت ان کی وجۂ شہرت بنا۔

    ‎ اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے بیباک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی کو 1912پنجاب ہندوستان کےضلع لدھیانہ کے شہرشملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری النسل ‘ خوبرو‘ فیشن ایبل‘ صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کا مالک تھے ‘ تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

    ‎ منٹو کاقلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنےوالا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچارکیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر‘ دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کئےجاتے تھے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کر ان قلم رقم طراز ہوتارہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کاہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد‘ سیاہ حاشیے‘ لاؤڈ اسپیکر‘ ٹھنڈا گوشت‘ کھول دو‘ گنجے فرشتے‘ شکاری عورتیں‘ نمرود کی خدائی‘ کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے   بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    سر یوسف کے لبوں پر گہری مسکراہٹ آئی ا نہیں یہی امیدتھی۔ ٹھیک ہے میں آ پ کو کانٹیکٹ نمبر دے رہا ہوں مزید تفصیلات آپ خود طے کر لیں اگرچہ آپ انفرادی طور پر اِس ڈسکشن میں شریک ہوں گی لیکن میری خواہش ہے کہ آ پ مجھے اس کی اوورآل پروگریس سے آ گاہ کریں "۔۔۔ سر نے خوش دلی سے کہ
    وہ میں نہ بھی کروں تو سر آ پ کا سپوتِ نامدار آ پ کو سب خود ہی بتا دے گا ۔ مینا نے جل کر سوچا ۔
    "اوکے شیور آئی ول سر "۔۔ سنجیدگی سے جواب دے کر وہ جانے کے لیے اٹھی۔
    "یہ پیج مس فاریہ کو واپس کر دیجئے گا "۔۔ سر نے ایک فولڈ پیج اس کی طرف بڑھایا۔ اب وہ اپنے سیل کی طرف متوجہ تھے۔
    منتہیٰ نے آفس سے باہر آکر پیج کھولا سر کی ہینڈ رائیٹنگ میں اوپر ہی ایک نوٹ لکھا تھا
    Really appreciating !! Miss Faria your sense of humor is quite impressive…I Hope your assignment on Aliens will be more amusing…


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    اور منتہیٰ جو بہت کم کھلکھلا کر ہنسا کرتی تھی ، اس نے اپنااونچا قہقہہ بمشکل ضبط کیا ۔
    "تم نے بتایا نہیں سر نے تمہیں کیوں بلایا تھا ؟؟”۔۔ رات تک فاریہ کا تجسس عروج پر پہنچ چکا تھا
    "تمہارے رائٹنگ پیڈ کا پیج واپس کرنے کے لئے”۔۔ منتہیٰ نے پرس سے کاغذ نکال کر اُس کے سامنے پھینکا
    حیرت سے دیدے گھماتے ہوئے فاریہ نے پیج کھولا ۔۔۔ سامنے ہی سر کا نوٹ تھا۔۔ اور پھر پیٹ پکڑ کر وہ کافی دیر تک ہنستی رہی ۔
    یہ سر یوسف کتنے کیوٹ ہیں نہ۔۔۔ بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پا یا
    فاریہ بی بی! صبح تک سر آ پ کو ڈفر بلکہ اوورکوٹ لگا کرتے تھے ۔۔ مینا نے اُسے جتایا ۔
    وہ تو اب بھی لگتے ہیں اور لگتے رہیں گے فاریہ جیسے ڈھیٹ پیس کم ہی تھے ۔ اچھا تم مجھے چکر مت دو شرافت سے بتاؤ کہ سر نے تمہیں کیوں بلایا تھا ۔۔؟؟
    فاریہ کو یقین تھا کہ ارمان یوسف کے پاس اپنے سارے بدلے چکانے کا یہ بہتر ین موقع تھا ۔
    اور منتہیٰ نے اسے مختصراٌ ڈسکشن سیشن کی تفصیلات بتائیں۔۔ شام میری سنٹر بات ہوئی تھی انہوں نے ایک ہفتے بعد کی ڈیٹ رکھی ہے اور فاریہ کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔
    "اف! تم نے ڈیٹ تک فائنل کرلی ۔۔یار منتہیٰ کچھ عقل کے ناخن لو وہ انجینئرز ہیں اپنے پراجیکٹ کے بارے میں ہم سے کہیں زیادہ نالج رکھتے ہیں ۔”
    "تمہارا خیال ہےکہ میں نے محض تفریحاًسوال کیا تھا ؟؟ ”
    "تو اور کیا ! یہ کیسے ممکن ہے کہ گھنٹہ دو گھنٹہ کی عمومی تفصیلات سے تم خامیاں ڈھونڈ لو "۔۔ فاریہ نے ناک سے مکھی اڑائی۔۔
    "فاریہ بی بی”۔ "ہم پچھلے پانچ‘ چھ سال سے ایک ساتھ ہیں اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ منتہیٰ ہارنا نہیں جانتی ۔۔ میں نے آج تک کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہیں کیا "۔۔ مینا کا اعتماد دیدنی تھا ۔
    "یہ پراجیکٹ کچھ عرصے پہلے انٹرنیٹ پر میری نظر سے گزرا تھا اور میں انتہائی گہرائی تک اِس کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہوں ۔”
    "پھر تم چل رہی ہو نا میرے ساتھ؟؟ تمہارے نئے سوٹ کل ہی ٹیلر کے پاس سے آ ئے ہیں "۔۔ مینا نے شرارت سے اسے آفر کی ۔
    "کمینی ۔۔تم اکیلی بھگتو اپنے پنگے۔۔ فالتو میں مجھے مت گھسیٹو "۔۔فاریہ نے اسے کھینچ کر تکیہ مارا ۔
    فاریہ کو سو فیصد یقین تھا ارمان یوسف نے منتہیٰ کو بری طرح گھیرا تھا چانسز کم تھے۔ کہ وہ اِس بار بھی فاتح لَوٹے گی۔۔
    ***************************
    دوسری طرف ارحم کا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔ ۔۔ "اب آ ئی بکری چھری تلے۔۔”
    "تم مجھے تو ساتھ لے کر جا رہے ہونہ ؟؟ "سارے بدلے چکانے کا اس سے بہتر موقع بھلا ارحم کو اور کب ملنا تھا ۔
    "ہر گز نہیں ،،میرے ساتھ صرف شہریار جائے گا "۔ ارمان نے اپنے بیسٹ فرینڈ کا نام لیا جس کا پورے پراجیکٹ میں بھرپورتعاون تھا ۔
    "اگر وہ لڑکی اتنی آسانی سے ایک ڈسکشن سیشن پر آمادہ ہے تو لازمی اس کے پوائنٹس میں وزن ہوگا۔ ہمیں ایک دفعہ پھر سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لینا ہوگا "۔۔ ارمان نے شہریار کو مخا طب کیا جو منتہیٰ کی ہسٹری سے نا واقفیت کے سبب ہونقوں کی طرح دونوں کی شکل دیکھ رہا تھا ۔۔
    "ارے یار تو اِس کو اتنا سیریس کیوں لے رہا ہے ۔۔ وہ لڑکی فزکس میں تھوڑی بہت نالج کی بنا پر اَکڑ رہی ہے "۔ ہونہہ
    وہ بھلا ہم انجینئرز کا مقابلہ کر سکتی ہے، وہ بھی جب سپارکو کے آفیشلز ہمارے پراجیکٹ کو کلیئر کر چکے ہیں ۔
    ارحم نے ناک سے مکھی اڑائی۔
    لیکن ارمان فیس بک کی طویل ڈسکشنز میں بارہا دیکھ چکا تھا کہ۔” منتہیٰ دستگیر صرف اسی موضوع پر بولتی ہے جس پر اسے مکمل عبورہوتا ہے ۔۔”
    ***************************
    پیر کے روز وہ بھرپور تیاریوں کے ساتھ سپارکو ریسرچ سینٹر پہنچے ۔۔ سپارکو کے دو آفیسرز ڈسکشنز روم میں موجود تھے۔۔ اور منتہیٰ ٹھیک وقت پر پہنچی تھی ۔ بلیک عبایہ اور سکارف میں ملبوس اِس دھان پان سی لڑکی کو شہریار نے بہت غور سے دیکھا ۔ گرمی کے باعث جس کا سپید چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا ۔
    "بیوٹی وِد برین "۔کیا دونوں اکھٹی ہو سکتی ہیں ؟؟ ابھی لگ پتا جائےگا محترمہ کتنے پانی میں ہیں ۔؟؟
    شہریار کو ارحم ‘ منتہیٰ کی ساری ہسٹری اَزبر کروا چکا تھا جبکہ شہریا ر کے بغور جائزے کے برعکس ابتدائی تعارف کے بعد ارمان نے ایک اُچٹتی نظر بھی منتہیٰ پر نہیں ڈالی تھی۔ وہ اپنے رائٹنگ پیڈ پر کچھ نوٹس لینے میں مصروف تھا ۔
    مس دستگیر! پانچ روز پہلے پراجیکٹ کی تمام تفصیلات آپ کو اِس وارننگ کے ساتھ میل کی گئی تھیں کہ یہ کانفیڈینشل رہنی چاہئے۔
    آپ یقیناٌ ان کا جائزہ لے چکی ہوں گی؟؟ سینئر آفیسر نے بات کا آغاز کیا ۔
    منتہیٰ نے اثبات میں سر ہلایا وہ محتاط تھی یہ فیس بک کا کوئی ڈسکشن گروپ نہیں تھا‘ ایک حساس جگہ تھی ۔سپارکو کی اِس پراجیکٹ میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں قدرتی آفات کی بڑھتی ہوئی شرح اور اُن سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی تھی جنسے نمٹنے میں ہماری اتھارٹیز تقریباٌ ناکام ہو چکی تھیں۔
    مس دستگیر !آپ نے سوال و جواب سیشن میں ہارپ کی یو ایف او سے متعلق پوائنٹ اٹھایا تھا ہم نے اِس پر ایک ہفتے تک کافی تحقیق کی ہے۔
    "یہ بے انتہا طاقتور الیکٹرومیگنیٹک ویو ز زمین کے اندر گہرائی تک جذب ہوکر اندرونی درجۂ حرارت کو آ خری حد تک بڑھاکر اِس کی ٹیکٹونک پلیٹس کوچند منٹوں میں متحرک کر دیتی ہیں ۔۔ جتنی طاقتور یہ لہریں ہوں گی اتنی ہی شدت کا زلزلہ آ ئے گا ۔ دوسری صورت میں اگر اِن کا اینگل آف پروجیکشن ۱۸۰ ڈگری کی حد میں ہو تو یہ سیدھا سفر کرتی ہوئی ایٹماس فیئر میں جذب ہوکر فوری طور پر سٹرینج کلاؤڈ ز ڈیویلپ کرتی ہیں‘ جس سے اِس علاقے کے موسم میں اچانک بڑی تبدیلی رونما ہوکر کبھی طوفان یا سائیکلون، کبھی ٹورناڈو یا موسلا دھار بارشوں کا سبب بنتی ہیں ۔ کچھ علاقوں میں اِن کے باعث بارش کی قلت اور خشک سالی بھی نوٹ کی گئی ہے۔”
    لیکن اِن سب تفصیلات سے قطعہ نظر اب تک کسی بھی ملک کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے جس کے ذریعے اِن موجوں کو روکا یاپسپا کیا جا سکے ۔
    کیونکہ بظا ہر یہ ا مریکہ کا ہائی فیکوئینسی اورورل ریسرچ پروگرام ہے جس کا تعلق آئینو سفیئر کی سٹڈی سے ہے۔
    ارمان نے تمام تفصیلات بتا کر بات ختم کی ۔
    یہ سب مجھے معلوم ہے ۔ منتہیٰ نے ناک سکیڑی ۔
    "یہ شعاعیں براہِ راست اوزون پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس کے باعث پوری دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے ،
    اِن کے لئے صرف جیو سینسنگ کافی نہیں ہوگی بلکہ ہمیں سٹیلائٹ یا راڈار سےایسا سسٹم متعارف کروانا ہوگا جو بر وقت اِن برقی مقناطیسی موجوں کو ڈیٹیکٹ کرے ۔”
    "جہاں شر ہو وہاں اللہ تعالیٰ خیر بھی ضرور اتارتا ہے ۔یہ لوگ آج انسانیت کے خدا بنے بیٹھے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہم صرف ا یک خدا کی ذاتِ پاک پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ ۔ہمیں میں سے کسی نے آگے بڑ ھ کر زمین کے اِن خداؤں کو چیلنج کرنا ہے ۔۔”
    مس آپ کے دلائل کافی خوبصورت ہیں لیکن یو نو واٹ کہ باتیں تو سب ہی بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ دنیا کا سب سے آسان کام ہوتاہے ۔شہریار نے چوٹ کی ۔
    "ایگز یکٹلی !”۔۔ منتہیٰ اِس طنز سے بالکل بھی متاثر نہیں تھی ۔۔
    "ایسا ہے کہ کسی بھی تعمیری کام کی بنیاد ڈسکشن پر ہی رکھی جاتی ہے دو چار افراد بیٹھ کر ایک عمارت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو سالوں بعد ایک تعمیری شاہکار وجود میں آتا ہے ۔ ہم اشاروں سے کام نہیں چلا سکتے ۔اپنا اپنا مؤقف ہمیں باتوں کے ذ ریعے ہی واضح کرناہے” ۔۔ منتہیٰ کی جوابی چوٹ مزید سخت تھی۔
    "اُوکے تو پھر آپ ٹو دی پوائنٹ رہتے ہوئے اِن خامیوں کا ذکر کریں جو آپ کو ہمارے پراجیکٹ میں نظر آ رہی ہیں ۔۔” شہریار کا خیال تھا کہ لڑکی باتوں میں اصل موضوع کو گھما رہی ہے ۔
    "جی اگر آپ تھوڑا صبر کر لیتے تو میں اسی طرف آ رہی تھی "۔ منتہیٰ نے تیکھی نظروں سے شہریار کو گھورا ۔۔ ایئر کنڈیشن کمرے میں بھی باہر کی سی گرمی در آئی تھی ۔
    "ایسا ہے کہ جو سسٹم آپ نے ڈیویلپ کیا ہے وہ ابتدائی وارننگ بھی دے گا ،دور دراز علاقوں کی بھر پور معلومات وغیرہ بھی ۔ سب آپشنز اس میں موجود ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ۔۔”
    منتہیٰ نے ایک لمحے رک کر شہریار اور ارمان پر گہری نظر ڈالی۔
    "کہ یہ صرف تخمینے فراہم کرے گا ۔اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ یو ایس یا یو این او‘ دوکے بجائے پانچ کروڑ کی امداددے دیں گے ۔۔ لیکن یو نو واٹ کے ہماری اتھارٹیز نا اہل ہیں ۔’’صرف تخمینے اُن المیوں کا سدِ باب نہیں کر سکتے جو کسی بھی طرح کے ڈیسازٹرسے جنم لیتے ہیں۔”
    "مِس ۔ڈیسازٹرز سے نمٹنا اور ریلیف فراہم کرنا ۔۔۔ہم انجینئرز کا نہیں گورنمنٹ کا کام ہے”۔ اب کہ ارمان نے مداخلت کی ۔۔
    تو پھر آپ یہ لکھ لیں کہ "اِس پراجیکٹ کو سپارکو بو سٹ اپ کرے یا ناسا ۔انجینئرنگ لیول پر آپ کو کتنے ہی واہ واہ یا
    ا یوارڈ مل جائیں۔۔۔یہ قدرتی آ فات سے لڑتے نہتے عوام کے کسی کام کا نہیں ہے "۔ منتہیٰ کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
    "سر آ پ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟؟ "۔ارمان نے سینئر ریسرچ آفیسرز کو مخاطب کیا ۔جو کافی دیر سے خاموش تھے۔
    مس دستگیر کی بات میں وزن ہے۔ ۔”ہم اِس سے پہلے بھی گورنمنٹ کو اِس طرح کی کئی سہولیات فراہم کر چکے ہیں لیکن ہماری بیورو کریسی کسی بھی طرح کے فلاحی کام کو آ گے بڑھنے نہیں دیتی ،اگر سسٹم کے فوری تخمینوں کے مطابق بھرپور ریلیف آپریشن کیا جائے ، جو گائڈ لائنز یہ سسٹم دیتا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ایک سٹریٹیجی ڈیولپ کی جائے تو عوام کو بھر پور ریلیف ملے گا ۔۔۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہو اِس کے چانسز ۵۰فیصد بھی نہیں ۔
    "اور سر آپ کیا کہتے ہیں ؟؟”۔۔ شہریار نے دوسرے آفیسر سے پوچھا ۔۔ اسے ڈاکٹر عبدالحق کا تجزیہ ایک آنکھ نہیں بھایاتھا۔۔
    "میرا خیال ہے کہ اس ڈسکشن کو کچھ ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہیں ۔۔ سب کو سوچنے کے لیئے وقت چاہئے ۔”اگر صرف ایک سسٹم بنا کر اتھاریٹیز کو دینا ہے تو میں اس میں چھوٹے موٹے نقائص ہی دیکھ رہا ہوں جو زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔”
    "لیکن اگر ہم بڑے پیمانے پر عوام خصوصاٌ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے قدرتی آفات سے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کے لیے کچھ کرناچاہتے ہیں،تو ہمیں ابھی بہت کچھ اپ ڈیٹ کرنا ہوگا بہت سی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔”
    "سیشن کی اگلے ڈیٹ سے آپ لوگوں کو جلد مطلع کر دیا جائے گا ۔”
    شہریار وہاں سے کافی بد دل ا ٹھا تھا ،جبکہ ارمان کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔۔
    ’’یہ لڑکی واقعی کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہیں کرتی ۔‘‘
    ***************************
    رامین نے پری میڈیکل فیصل آباد ڈیویژن میں ٹاپ کیا تو سب سے پہلے یہ خبر منتہیٰ کو دی ۔
    سمسٹر کے امتحانات نزدیک ہونے کے باعث فوری طور پر گھر جانا ممکن نہیں تھا اور سر انور نے اُسے ریسرچ پیپر کا چیلنج بھی دیا ہوا تھا۔آہستہ آہستہ منتہیٰ کی مخفی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آ رہی تھیں۔ وہ بری طرح اپنے جھمیلوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ مگر چھوٹی بہن کی اتنی بڑی کامیابی پر تحفہ تو بنتا تھا سو اگلے دن وہ یونیورسٹی سے سیدھی لبرٹی مارکیٹ گئیں ۔
    رامین کے لیے اس کی پسند کے کچھ سوٹس لے کر ٹی سی ایس کئے اور پھر کافی دیر تک اِدھر اُدھر ونڈو شاپنگ کرتی رہیں
    فاریہ کا ارادہ اس روز لاہور کی فوڈ اسٹریٹ سے سیخ کباب اور کڑاہی اڑانے کا تھا، دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہوئے مزیدار کھانا کھایا ۔
    اگرچہ فاریہ کی خوش خوراکی سے مینا ہمیشہ سے چڑتی تھی۔۔ مگر کبھی کبھار کی یہ تفریح اب اُسے اچھی لگنے لگی تھی سٹڈیز اور سیمینارکے پیپر کا جو بوجھ ہفتوں سے وہ کندھوں پر لیے پھر رہی تھی آج گھنٹوں میں اس سے نجات ملی تھی ۔
    انسان اگر صرف کتابوں میں گھِراجینے لگے تو اُسے بہت جلد کسی سائیکاٹرسٹ کی خدمات درکار ہوتی ہیں ۔ فاریہ نے منتہیٰ کو جتایا۔
    تم ہر بات میں آئن سٹائن، فائن مین اور سٹیفن ہاکنگ کے حوالے دیتی ہو ۔ یو نوواٹ کہ آئن سٹا ئن کہتا تھا ’’انتہائی ذہین افراد کی زندگی میں سب سے بڑا فقدان خوشیوں کا ہوتا ہے ۔‘‘ ہزاروں دلوں پر راج کرنے والوں کے اپنے دل سونے کیوں رہ جاتے ہیں ؟ اِس لیے کہ دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والے ہیرے کو کہیں کوئی ایسا نہیں ملتا جو اُسے چھُو کرپارس کردے۔
    فاریہ کبھی کبھار فلسفہ بھی جھاڑا کرتی تھی ۔
    "اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِیسے لوگوں کا وجدان مختلف اور عام آدمی کی سطح سے بہت بلند ہوتا ہے ۔۔ اُنہیں ہجوم میں بھی کوئی اِیسا نہیں ملتاجس سے وہ برابری کی سطح پر دل کی بات کر سکیں اور وہ اُسے سمجھ بھی سکے”۔ مینا نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    "اُوہ اچھا ۔۔ تو آپ لوگوں کے پاس دل نام کی کوئی شے بھی ہوتی ہے ؟؟”
    "بالکل ہوتی ہے کیوں ہم انسان نہیں ہوتے "۔۔ مینا نے باقاعدہ برا منایا
    "ہم "۔۔۔ حسبِ عادت لمبی سے ہم کرتے ہوئے فاریہ نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
    "چلو کچھ لوگوں سے ملاقاتوں نے تمہیں یہ باور تو کرایا کہ تمہارے پاس دل بھی ہے ورنہ۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ صرف بلڈ پمپنگ ہی کیا کرتا تھا ۔”
    "اگر اُس وقت وہ میٹرو میں نہ ہوتیں تو آج فاریہ نے مینا کے ہاتھوں قتل ہی ہوجانا تھا "۔۔ میٹرو عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔۔سو منتہیٰ خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی ۔
    ***************************
    ایک ہفتے بعد منتہیٰ کو صبح صبح امی کی کال موصول ہوئی ۔
    "تمہارے ابو کل لاہور آ رہے ہیں رامین کے ایڈمیشن کے سلسلے میں ۔۔”
    حالانکہ منتہیٰ کو رامین کی پلاننگ کے بارے میں کئی ماہ سے علم تھا ۔ پوزیشن کے بعد اب اس کا سکالرشپ ڈیو تھا ، سو حسبِ خواہش کنیئرڈ میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کچھ مشکل نہ تھا۔
    ہر روز صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے اور آ نے کے بعد وہ سب سے پہلے امی کو کال کیا کرتی تھی۔ کہ جب تک دن میں وہ چار دفعہ اس سے بات نہ کرلیتی تھیں ان کا دل ہولتا رہتا تھا۔
    ’’ "ماں کا دل بھی خدا نے ناجانے کس مٹی سے بنایا ہے کہ اس کی ہر دھڑکن اپنی اولاد کی سلامتی سے وابستہ ہوتی ہے ۔ کسی مرغی کی طرح اپنے چوزوں کو پروں میں چھپائے وہ مطمئن رہتی ہے، لیکن جب اُن میں سے کوئی دور چلا جائے تو جیسےُ اس کی روح کا ایک حصہ بھی کہیں بہت دور چلا جاتا ہے ۔ہر آ تی جاتی سانس کے ساتھ فکر اور اندیشے ۔ ”
    پتا نہیں ناشتہ کر کے گئی ہوگی، کینٹین کی کیا الا بلا کھا لی ہوگی ۔ ہاسٹل کے مینو پر تو اُنہیں بہت ہی تاؤ آتا تھا ۔۔ گرمی نے میری پھول سی بچی کا کیا حا ل کر دیا ہے ،سکائپ پر انہیں منتہیٰ کا رنگ ہر روزکچھ اور سنولایا ہوا محسوس ہوتا کہ منتہی ٰ کی سرخ و سفید رنگت والی لڑکی ان کے میکے یا سسرال دونوں میں نہ تھی ۔
    اور اب تو رامین بھی رختِ سفر باندھنے کو تھی ۔۔ عاصمہ کے دل کو جیسے کسی نے مُٹھی میں لے رکھا تھا مگر کچھ کہنا فضول تھا وہ جانتی تھیں
    فاروق ہی نہیں ان کی اولاد بھی جب ایک فیصلہ کر لے تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتی ۔
    اُن کی ہونہار بیٹیاں سکالر شپ پر میڈیکل ، انجینئر نگ میں جا رہی تھیں ۔ وہ اب بہت فخر سے اپنے حلقۂ احباب میں بتایا کرتی تھیں۔”یہ مائیں بھی نہ بس۔”
    ***************************
    "میری جان”۔”کبھی اپنی ان سٹڈیز سے باہر بھی نکل آیا کرو "۔۔ ممی نے لاڈ سے ارمان کے بال سنوارے جو ایک ہاتھ میں کافی کامگ لیے لیپ ٹاپ پر بزی تھا ۔
    "ممی بس پراجیکٹ کی وجہ سے مصروفیات کچھ بڑھ گئی ہیں” ۔۔ اس نے ماں کو گول مول جواب دیا ۔
    "ٹھیک ہے لیکن اب تمہیں ہر صورت ٹائم نکالنا ہے ۔ اگلے ہفتے تمہارے کزن رامش کی شادی ہے سارے کزنز ہلے گلے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں اور ایک تم ہو کہ پڑھائی سے فرصت نہیں۔”
    ممی نے پیار سے اُسے ڈانٹا ۔۔ یہ وہی ارمان تھا جسے وہ کبھی سٹڈی کے لیے گھُرکا کرتی تھیں ۔۔
    "اُوکے ممی! ڈونٹ وری میں فنکشن اور کوئی بھی امیوسمنٹ مِس نہیں کروں گا ۔۔ میں خود تھو ڑی چینج کے موڈ میں تھا ۔” آپ کب جا رہی ہیں ماموں کی طرف ؟؟؟
    میں اِسی لیے تو آئی تھی کل تمہاری خالہ نیو جرسی سے آ ئی ہیں میں اور تمہارے پاپا ملنے جا رہے ہیں تم بھی چلو ۔۔ اِس وقت وہ کہیں بھی جانے کے موڈ میں نہیں تھا پر ممی اُس سے بہت کم اِصرار کرتی تھیں سو پندرہ منٹ بعد وہ ڈرائیونگ سیٹ پر تھا ۔
    ماموں کے گھر فکنشنز کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ سب بڑے لان میں جبکہ کزنز پارٹی کا ڈیرہ لاؤنج میں تھا ۔ ماموں ، خالہ اور خاندان کے باقی بڑوں کو سلام کرتا ہوا ارمان اندر پہنچا ۔
    ارمان کا ماموں زاد را مش ایم بی اے کے بعد اپنے باپ کا وسیع بزنس سنبھالتا تھا جبکہ اُس سے چھوٹا ارمان کا ہم عمر صمید ابھی بی بی اے میں تھا ۔۔ اندر آتے ارمان پر پہلی نظر صمید ہی کی پڑی تھی۔
    "ارے واہ۔۔ آ ج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔۔ کہاں ہوتا ہے یار تو ؟؟ "۔گلے ملتے ہی ساتھ شکوہ بھی حاضر تھا
    "بس یار سٹڈیز اور پراجیکٹس سے ہی فرصت نہیں ملتی سب کزن سے مل کر ارمان کاؤچ پر بیٹھا ہی تھا کہپیچھے سے آتی آواز نے چونکایا۔
    گلیڈ ٹو میٹ یو ارمان ۔۔ یہ زارش تھی ارمان کی خالہ زاد جو کل ہی نیو جرسی سے آ ئے تھے ۔
    ارمان کچھ زیادہ مذہبی یا بیک ورڈ تو نہ تھا پھر بھی فیمیلز سے ہاتھ ملانے سے اجتناب ہی کیا کرتا تھا ،مگر زارش کا سپید نازک سا ہاتھ سامنے تھا سو اسے ہاتھ ملاتے ہی بنی ۔
    سب کزنز کا مشترکہ انٹرسٹ مہندی فنکشن تھا ۔۔ ارمان کے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈانسر موجود تھا ۔۔ بہت سے پیئرز مقابلے کے لئے تیار تھے ۔
    "ارمان تم ایسا کر و ۔۔زارش کے ساتھ اپنا پیئر بنا لو "۔۔ رامش نے صلاح دی ۔
    "نہیں یار تم لوگ انجوائے کرو۔۔ میری تو کوئی پریکٹس ہی نہیں "۔۔ارمان نے جان چھڑائی
    "لو پریکٹس ابھی ہو جائے گی تم میرے ساتھ دو سٹیپ تو لو ۔۔ ردھم بن گئی تو دیکھنا ہم ان سب کو ہرا دیں گے”۔ زارش کی ایکسائٹمنٹ عروج پر تھی ۔ "بے شک سب میں ان کا کپل تھا بھی لا جواب۔۔”
    "ایسا ہے کہ میں ابھی پراجیکٹ کا کام ادھورا چھوڑ کر آیا تھا ۔۔ پھر کل فرصت میں ملتے ہیں "۔۔ اس سے پہلے کہ وہ بلا دوبارہ گلے پڑتی ارمان باہر لان میں تھا ۔۔
    "اور کل ۔ کس نے دیکھی ہے زارش بی بی "۔۔ وہ خاصہ بد مزہ ہوا تھا
    اور پھر دو دن بعد وہ ممی کے ساتھ مہندی فنکشن پر ہی پہنچا تھا ۔۔۔ یار تو کدھر تھا میں اور زارش تجھے کال کر کر کے تھک گئے۔۔رامش چھوٹتے ہی ناراض ہوا ۔
    "یار وہ بس پراجیکٹ ڈسکشن کے لیے سپارکو جانا پڑا "۔۔ ارمان نے ہفتوں پہلی کی ڈسکشن کا بہانا بنایا ۔
    زار ش اب کسی اور کزن کے ساتھ پیئر بنا چکی تھی اُس کا خیال تھا کہ ارمان کچھ سپیشل ایکسکیوز کرے گا۔ لیکن اس نے تو ایک کے بعد۔اُس پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی۔۔ حالانکہ سب ہی کزن کا خیال تھا ،کہ سی گرین شرارہ، سلیو لیس اور کھلے گلے کے بلاؤز ، فُل میک اپ اورڈھیر ساری چوڑیوں کے ساتھ‘ وہ قیامت ہی تو ڈھا رہی تھی ۔
    "ہونہہ! خود کو سمجھتا کیا ہے؟؟ "۔۔اس نے نخوت سے ارمان کو دیکھا ۔۔” اِسے اپنے قدموں میں نہ جھکایا تو میرا نام بھی زارش نہیں ۔”

    جاری ہے
    **********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    (دوسری قسط)

    "مسز مریم یوسف کا معمول تھا کہ وہ روز رات کو سونے سے پہلے گھر کے سارے دروازے چیک کرکے ایک آخری چکر ارمان کے کمرے کا لگایا کرتی تھیں جو دیر سے سونے کا عادی تھا اور عموماٌ لیپ ٹاپ یا اپنے سمارٹ فون پردوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوتا تھا "۔ مگر بی ایس ٹیلی کام انجینئرنگ میں آتے ہی ارمان میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں ، وہ جو باپ کے غصے اور ماں کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد بمشکل کتابوں کو ہاتھ لگایا کرتا تھا ،اب لیٹ نائٹ سٹڈی کا عادی ہو گیا تھا ۔ "ارمان کا شمار اُن ذہین طالبعلوں میں ہوتا تھا جو سٹڈی کو ٹف ٹائم دیئے بغیر بھی اے گریڈ لاتے ہیں ، یوسف صاحب اپنے بیٹے کی صلا حیتوں سے بخوبی واقف تھے ، اگرچہ اسکا اے گریڈ ہمیشہ انکی ا میدوں پر پانی پھیر دیا کرتا تھا ، مگر وہ ان باپوں میں سےنہیں تھے جوزبردستی اپنے فیصلے بچوں پر ٹھو نس کر انکا مستقبل برباد کر دیتے ہیں "۔

    "آج کل نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی شدت، انتہا پسندی اور مختلف طرح کی ایڈکشنزکی ایک بڑی وجہ والدین کا غیر دوستانہ رویہ،اور ان کے مستقبل کے فیصلوں میں من مانی ہے۔ یہ نئی نسل پابندیاں برداشت نہیں کرتی ، آ پ اِنہیں رسی سے باندھیں یہ اُسے توڑ بھا گیں گے ، اِنہیں زنجیروں میں جکڑیں یہ اِن سے فرار کا وہ راستہ اختیار کریں گے کہ آپ کو جوان اولاد سے عمر بھر کے لیے ہاتھ دھونے پڑیں گے” ۔ یہ وہ نوجوان نہیں ہے کہ آرمی یا ائیر فورس کا خواب ، مستقبل کی اپنی منصوبہ بندیوں کو منوں مٹی تلے سلا کر والدین کے فیصلے پر چپ چاپ ان کی پسند کی فیلڈاختیار کر لیا کرتی تھی”۔”آج کی نسل مستقبل کے فیصلوں پر اپنا حق چاہتی ہے” ۔ "سو ایک جہاندیدہ پروفیسر ہونے کے باعث اپنی اکلوتی اولاد کو ایک حد تک آزادی دیکر رسی کا دوسرا سرا بہر حال اپنے ہاتھ ہی میں رکھا تھا "۔ "اب ہر سمیسٹر میں ارمان کا پہلے سے زیادہ جی پی اے اُن کو یہ باور کرانے کے لیے کافی تھا کہ بیٹاصحیح سمت میں چل پڑا ہے ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


    اسی ناول کی پہلی قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "مشرق کی بیٹی چاہی کتنی ہی پڑھ لکھ جائے شادی بیاہ کے معاملے میں براہِ راست باپ سے بات میں ایک حجاب حائل رہتا ہے ، رات جب وہ بلاوے پر ابو کے کمرے میں گئی تو ذہن جیسے کوری سلیٹ تھا "۔ دو دن میں محنت سے تیارکیے تمام دلائل اڑن چُھو ہو چکے تھے ۔”اوپر سے عاصمہ کی تیز برماتی ، آنکھیں بیٹی کی سرکشی کو لگام ڈالنے کو پوری طرح مستعد تھیں” ۔ ملک غلام فاروق دستگیر نے صورتحا ل کی نزاکت کو بھا نپتے ہوئے عاصمہ کو وہاں سے جانے کا کہا تو وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی منتہیٰ کو سرزنش میں آنکھیں دکھاتی، چپل گھسیٹتی وہ کمرے سے نکلی تو ضرور ۔۔مگر باہر جانے کے بجائے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہو گئیں، ان کے پیچھے لاؤنج کے پردے کے پیچھے چھپی ارسہ اور رامین نے سر پیٹا ۔ "دھت تیرے کی ۔ امی کو بھی یہیں کھڑا ہونا تھا "۔ "منتہیٰ بیٹا آپ یقیناٌ جانتی ہیں کہ میں نے آپ کو کس لیے بلایا ہے سو بغیر کسی جھجک کے اپنا فیصلہ بتایئے "۔ فاروق صاحب کے دوستانہ لہجے سے منتہیٰ کی ٹوٹتی ہمت کچھ واپس آ ئی ۔۔ کمرے میں کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی ۔ منتہیٰ نظریں جھکائے کارپٹ کے ڈیزائن کی بھول بھلیوں میں اپنا مستقبل تلاش رہی اور بلاآخر اُسے راستہ مل ہی گیا ۔۔ "ابو۔میرے مستقبل کا فیصلہ یقیناٌ آپ ہی نے کرنا ہے لیکن فی الحال میری خواہش ہے کہ مجھے آگے پڑھنے دیا جائے "۔۔ اور فاروق جو بہت دیر سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ بے اختیار مسکرا اٹھے ۔ "مجھے اپنی بیٹی سے ایسے ہی جواب کی توقع تھی ،تم میرا فخر بھی ہو اور مان بھی ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم میرے سارے خواب سچ کر دکھا ؤ گی "۔ "تیزی سے امڈتے آ نسوؤں کو پونچھتے ہو ئے وہ باپ کے گلے لگی "۔ "لیکن ابو ۔۔ دادی اور پھپو”۔۔۔۔ بہت سے خدشات نے سر ابھارا ۔۔؟؟ میری جان ۔”تم اُ ن کی فکر مت کرو ، یہ یاد رکھو کہ اگر تم کچھ غیر معمولی کر کے دکھانا چاہتی ہو تو تمہیں بہت سی رکاوٹیں عبور کرنا ہوں گی، بہت سے عزیز رشتوں کا دل توڑ کر اُنکی خفگی مول لینا پڑے گی "۔ "لیکن یہ ناراضگیاں عارضی ہوا کرتی ہیں ۔۔ ایک وقت آتا ہے جب یہی لوگ آپ کی کامیابیوں پر سب سے زیادہ خوش بھی ہوتے ہیں اور دعاگو بھی کیونکہ خون کے رشتے کبھی نہیں ٹوٹاکرتے”۔ منتہیٰ جو اندیشوں اور خدشوں میں گھری کمرے میں داخل ہوئی تھی شاداں و فرحاں وہاں سے نکلی ، تو عاصمہ ماتھے پر تیوریاں چڑھائے سامنے تخت پر موجود تھیں مگر وہ سر جھکائے تیزی سے ان کے سامنے سے گزرتی چلی گئی ۔جبکہ پردے کی پیچھے چھپی ارسہ اور رامین پہلے ہی رفو چکر ہو چکی تھیں "۔ اگلے روز شام کو مہرالنساء کو گھر میں موجود پاکر فاروق صاحب کو صورتحا ل سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی ۔

    صبح جاتے وقت وہ ماں اور بیوی کواپنے فیصلے سے آگاہ کر گئے تھے۔ "فی الحال وہ منتہیٰ کو ماسٹرز کے لیئے لاہور بھیج رہے ہیں "۔ اُنک ا خیال تھا کہ عاصمہ خوش اسلوبی سے بات سنبھال لیں گی مگر یہاں تو الٹا محاذ کھلا ہوا تھا ۔ "بھا ئی مجھے آپ سے ایسی توقع ہر گز نہیں تھی "۔۔ "آخر کیا کمی ہے میرے چاند سے بیٹے میں ماشاء اللہ بینک کی جاب ہے۔۔؟” "جی پھپو”۔”بس آپ کے چاند میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی چھائی رہتی ہے "۔ رامین نے ارسہ کے کان میں سرگوشی کی جو پور ی توجہ سے دوسری طرف کی بات سننے میں مصروف تھی ۔۔ مہرالنساء۔ "میں نے انکار ہر گز نہیں کیا میں منگنی کرنے کو تیار ہوں لیکن شادی منتہیٰ کے ماسٹرز کے بعد ہی ہوگی "۔

    فاروق صاحب نے بات سنبھالنے کی آخری کوشش کی ۔ "بھائی انکار اور کیسا ہوتا ہے ؟ آپ جوان بیٹی کو لاہور ہاسٹل بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔”غضب خدا کا۔ میرا تو پورا سسرال ایسی لڑکی کو کبھی قبول نہیں کرے گا "۔ "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہوں "۔مہرالنساء کی قینچی جیسی چلتی زبان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔وہ سوچ کر آئی تھیں کہ ہاں کروا کر ہی جائیں گی۔ سو فاروق صاحب کو مداخلت کرنا پڑی۔ "آپ سب لوگ سن لیں کہ میں کوئی ایسا فیصلہ ہر گز نہیں کروں گا جس سے میری بیٹی کا مستقبل داؤ پر لگ جائے” ۔ پہلے تو میں منگنی کرنے پر تیار تھا لیکن اب میری طرف سے صاف انکار ہے ۔

    "میں اپنی بیٹی ایسے لوگوں میں قطعاٌ نہیں دوں گا جن کے لیئے اعلیٰ تعلیم باعثِ فخر نہیں بلکہ قابلِ ندامت ہے” ۔ فاروق فیصلہ سنا کر اپنے کمرے میں جا چکے تھے اور پورے گھرمیں قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ "اور منتہیٰ اپنے کمرے میں بیڈ پر سر جھکائے گہری سوچوں میں غرق تھی "۔

    "کاش ہر مشرقی لڑکی کا باپ بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ اپنی مجبوریاں سامنے رکھ کر کرنا چھوڑ دے ۔۔ لڑکی کے ماں باپ لڑکے اور اس کے گھر والوں کے دسیوں عیبوں کو نظر انداز کر تے ہوئے جب ہاں کرتے ہیں تو اُن کے پیشِ نظر صرف ایک یقین ہوتا ہے کہ اُن کی بیٹی ہر دکھ جھیل کر ان کا سر جھکنے نہیں دیگی ۔۔بیٹیاں نہ زحمت ہوتی ہیں نہ بوجھ پھر بھی ناجانے کیوں ماں باپ انکی خواہشوں، امنگوں اور سب سے بڑھ کر اُن کی صلاحیتوں کے بر خلاف جلد بازی میں فیصلے کر کے اِنہیں عمر بھر کا وہ روگ لگا دیتے ہیں جو لا علاج ہے ۔ وہ سسکتی ، بلکتی ، رلتی کولہو کا بیل بن کر گھر ، شوہر ، اولاد اور سسرال کی خدمتوں میں ساری عمر بتا دیتی ہیں پھر بھی سسرال میں کوئی عزت و قد ر نہیں ہوتی ، شوہر کی محبت اور توجہ کو ترستی بلآخر قبرمیں جا سوتی ہیں”۔ "ہمارے معاشرے کی یہ بے جوڑ شادیاں دراصل وہ پنجر ہ ہیں جن میں ایک دفعہ قید ہوجانے والی معصوم لڑ کی کا پروا نۂ آزادی پھر موت ہی لیکر آ تی ہے "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ارمان یوسف کی مردانہ وجاہت اور گریس فل شخصیت اسے ہر جگہ صنفِ نازک کی توجہ کا مرکز بنا دیتی تھی ۔۔ لیکن اِس حوالے اُس کا کیریئر بے داغ تھا ۔ حسن اُسے اَٹریکٹ ضرور کرتا تھا لیکن اُس سے بڑھ کر اسے مخالف صنف کی ذہانت اور کیریکٹراپیل کرتا تھا ۔ وہ پریوں کے ہجوم میں گھرا ہوا وہ شہزادہ تھا جس کے من کو کوئی بھا تی ہی نہ تھی ۔۔ یونیورسٹی کی الٹرا ماڈرن لڑکیاں تو اسے چلتا پھرتا شادی کا اشتہار لگا کرتی تھیں جو ہر اُس لڑکے کے ساتھ دوستی ، افیئر اور ڈیٹنگ پر آ مادہ تھیں جس کے پاس وہ نیوماڈل کی کار ، گلیکسی ایس ۷ یا آئی کور ۹ جیسے سیل فونز اور کریڈٹ کارڈز سے بھرے ہوئی والٹ دیکھ لیتی تھیں ۔ منتہیٰ کے فیس بک گروپ میں ارمان کو کسی فرینڈ آف فرینڈ نے ایڈ کیا تھا ، اُس کی دوستوں کا خیال تھا کہ جس کسی نے بھی کیا ،،کارِ خیرکیا ۔۔۔

    "اس قدر ڈیشنگ سا بندہ ہے ، یار منتہیٰ تیرے پاس تو دل ہی نہیں ہے۔” "یمنیٰ ڈیئر دل ، گردے ، کلیجی ، پھیپڑے وغیرہ الحمداللہ سب موجود ہیں "۔ "لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا دل پمپنگ کا وہی مخصوص کام کرتا ہے جس کے لیئے خدا نے اِسے بنایا ہے اور تم دیکھنا کہ اِس کی لائف ٹائم تم سب کے دلوں سے زیادہ ہوگی کیونکہ یہ فضول کاموں میں پڑ کر اپنی انرجی ضائع نہیں کرتا "۔ ہمیشہ کی طرح لوجیکل اورٹو دی پوائنٹ جواب حاضر تھا۔۔ جس پراُس کی فرینڈز سر پیٹ لیا کرتی تھی ۔۔ "یار مینا بندے کو اتنا بھی پریکٹیکل نہیں ہونا چاہیے کہ عین جوانی میں ساٹھ سال کا کوئی خبطی پروفیسر لگنے لگے "۔۔ ہونہہ

    "یہ فاریہ تھی منتہیٰ کی بیسٹ فرینڈ ۔” ارے ہاں۔ "خبطی پروفیسر سے یاد آیا کہ یہ جو ارمان یوسف ہے نہ اس کے والدِ بزرگوار پنجاب یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں سینئر پروفیسر ہیں "۔ اور منتہی ٰ جو لائبریری جانے کے لیے اٹھنے ہی لگی تھی چند لمحوں کے لیئے اپنی جگہ منجمد ہوئی۔ "پنجاب یونیورسٹی اُس کی اگلی منزل”ارے واہ۔ "یہ تو کمال ہو گیا” ۔ چلو دیکھیں گے یہ تمہارے شہزادۂ گلفام کتنے پانی میں ہیں ، یہ ڈی پی کسی کی اُڑا کر نہ لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا ۔۔ منتہیٰ نے مضحکہ اُڑایا۔۔ ۔۔مینا "پہلی بات تو یہ کہ اُس بندے کی پروفائل ہرگز فیک نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ اُس نے ہمارے گروپ میں جگہ اپنی ذہانت سے بنائی ہے ورنہ تم جیسی خبطی ، سڑیل ایڈمن کب کی اسے کک آ ؤٹ کر چکی ہوتیں "۔۔ فاریہ نے اسے آئینہ دکھا یا ۔۔ لیکن فی الحال وہ کوئی آ ئینہ دیکھنے کے موڈ میں نہیں تھی سو برے برے منہ بناتی ہوئے لا ئبریری کی طرف قدم بڑھا دیئے ۔۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ٹاپ۔ ۱۲۰ آ ئی کیو رکھنے والی منتہیٰ دستگیر کے لیے کچھ غیر معمولی نہ تھا ۔۔ اگرچہ یہاں گزارے ہوئے چار سال اس کی زندگی کے بہترین سالوں میں سے تھے ۔۔ یہاں وہ سب کچھ سیکھنے کو ملا تھا جو ایک مضبوط عمارت کی بنیاد کے لیئے اشد ضروری ہوتا ہے ۔ "پاکستان کا تعلیمی نظام عموماٌ تنقید کی ضد میں رہتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ وہ کالی بھیڑیں ہیں جو ہر شعبۂ زندگی کی طرح تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ” ۔”جن کا مقصدِ حیات نوجوان نسل کی اعلیٰ پیمانے پر تربیت کے بجائے صرف لوٹو، اور بینک بیلنس بناؤ ہے” ۔اِس کے با وجود دیکھنے میں آ یا ہے کہ "جو جینیئس مائنڈ ز دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے ہیں اُن کا تعلق معاشرے کے نچلے طبقے سے تھا "۔۔ "جنھیں ابتدائی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر میسر تھی لیکن ٹیلنٹ اپنی جگہ اور پہچان ہمیشہ خود بناتا ہے۔یہ گدڑی میں چھپے ہوئے وہ لال تھے جنھوں نے نا مساعد حالات کے باوجود ساری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔ اور پاکستان کے افق پر طلوع ہونے والے ’’ نیبیولہ‘‘ میں ایک ستارہ منتہیٰ دستگیر بھی تھی "۔ فاریہ کے بر عکس منتہیٰ پنجاب یونیورسٹی میں بھی وہ پہلے جیسی پر سکون ہی تھی ۔۔ اُسے نہ کلاسز شیڈول دردِ سر لگا تھا نہ لاہور کی شدید گرمی نے اُسم کے اوسان خطا کیئے تھے ۔۔حتیٰ کے ہوسٹل کے میس کا بیکار سا کھانا بھی وہ مطمئن ہوکر کھا لیا کرتی تھی ۔۔۔ جبکہ فاریہ کی سارا دن کمنٹری جاری رہتی تھی ، کبھی گھر کا کھانا ، کبھی آرام ، کبھی گھر والے حتیٰ کی اپنی پالتو بلی ’’میشا ‘‘بھی اُسے دن میں پچاس دفعہ یاد آتی اورہر دفعہ وفورِ جذ بات سے آنکھیں بھر آیا کرتی تھیں "۔

    جنھیں اب مینا مینڈک کے آ نسو ؤ ں سے تشبیہ دیاکرتی تھی، ہر وقت ٹر ٹر کرنے والی فاریہ کسی مینڈک سے کم بھی نہ تھی ۔۔ سکائپ اور واٹس اپ کے ذریعے گھر والوں سے مستقل رابطہ رہتا تھا ۔ منتہیٰ ہمیشہ سے کم گو رہی تھی مگر پہلی دفعہ گھر سے دوری پر اسے سب ہی بہت یاد آیا کرتے تھے۔ رات میں ابو بھی اُس سے تفصیلاٌ حال چال پوچھا کرتے تھے ۔۔ نئی جگہ پر جو بھی مسائل پیش آرہے تھے ابو کے پاس اُن کا فوری حل موجود ہوتا تھا ۔۔ فاروق صاحب نے اُسے ہاسٹل چھوڑتے وقت کوئی بہت لمبے لیکچرز نہیں دیئے تھے۔ مگر کچھ باتیں انہیں نے اس کے ذہن میں بٹھانا ضروری سمجھا تھا ۔

    "بیٹیاں ماں باپ کا مان بھی ہوتی ہیں اور فخر بھی ۔۔ یہی بیٹی اپنی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے قدموں کو بہکنے سے بچاتی ہے” ۔۔ "ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ عورت کردار کے بغیر باسی روٹی کی طرح ہوتی ہے جسے ہر کوئی چھان بورے میں ڈال دیتا ہے ہر لڑکی کے لیے سب سے اہم اُسکا وقار ہے "۔ "عورت ذات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس اتنی تیز دی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کی نظروں سے اپنے بارے میں اس کی نیت کو جان لیتی ہے یہ صلاحیت اللہ نے اُسے اِس لیے دی ہے کہ وہ جان سکے کہ کون اس کے لیے اچھا ہے اور کون برا ۔میں تمہارا باپ اپنی معصوم کلیوں کے لیے آخری حد تک حساس ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہاری منزل بہت آگے ہے۔ا ب تمہیں اپنی اور اپنے باپ کی عزت کی حفاظت اَز خود کرنی ہے ۔بہت سی رکاوٹیں تمہارے راستے میں آ ئیں گی، قدم قدم پر بھیڑیے تمہیں راستہ روکے ملیں گے ۔ لیکن ” میری جان ۔ "جو صرف اللہ پرکامل بھروسہ رکھتا ہے تو میرا رب اس کی ہر مشکل کو آسانی میں بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "صدیوں پہلے جب نیوٹن نے یہ ثابت کیا تھا کہ حسابی مساواتوں کو حیرت انگیزطور پر اجسام کے زمین اور خلا میں باہمی تعلق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو یہ امید ہو چلی تھی کہ مستقبل قریب میں کسی نئی سپیشل تھیوری اور انتہائی طاقتور اعداد و شمار کی صلاحیت کے ذریعے کائنات کے مستقبل کو آشکار کرنا ممکن ہوگا ۔وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ نئی تھیوریز سامنے آتی چلی گئیں اور آج انسان ٹیکنالوجیکل میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے "نا نو ٹیکنالوجی "اور "آرٹیفیشل انٹیلیجنس” نے جیسے وقت کو انسان کی مٹھی میں قید کر دیا ہے "۔۔۔ اچانک منتہیٰ کی آواز آئی ’’ سر کیا میں بیچ میں بول سکتی ہوں؟؟‘‘ سر انور نے اپنی ناک پر ٹکی عینک کے پیچھے سے منتہیٰ کو گھورا۔۔ اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے وہ سر ہٹلر کے نام سے مشہورتھے کسی کی مجال نہیں تھی کہ لیکچر کے دوران مداخلت کرے، "مگر وہ منتہیٰ ہی کیا جو کسی کا رعب قبول کر لے”۔۔

    "وہ تم پہلے ہی کرچکی ہو ، آگے بولو "۔ انور سر کا پارہ بس چڑھنے کو تھا ۔ مگر منتہی ٰپر ان کی ناگواری کا کچھ خاص اثر نہیں ہوا تھا ۔۔ سر جیسا کہ آپ نے کہا۔ "کہ نئی تھیوریز اور ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی بھی حتمی طور پر انسان کو اُس کے مستقبل کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہے "۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ۔ "کیا ہم نے اپنا ماضی کو پوری طرح کھوج لیا ہے؟ ؟کیا انسان نے اپنے حال کو مکمل محفوظ اور پائیدار بنا لیا ہے؟؟ "

    "کیونکہ مستقبل پر کمندیں ڈالنے کا حق تو وہی رکھتے ہیں جن کی بھرپور نظراور گرفت اپنے ماضی وحال پر ہو” ۔۔ سر انور نے کچھ غور سے اِس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا ۔۔ "یس آج کا انسان اپنے ماضی سے کافی حد تک آگاہی حاصل کر چکا ہے ۔ یہاں تک کے وہ اُس سادہ ترین خلیے کی سا خت تک سے واقف ہے جس سے زمین پر زندگی کی ابتد ہوئی "۔۔ منتہا پھر بولی ۔۔ اور حال کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماضی اور مستقبل کو جاننے کی جستجو میں انسان اپنے حال سے غافل ہو گیا ہے؟؟؟ "اسے اپنے ارد گردبھوک ، جہالت اور پسماندگی کی نچلی ترین سطح پر جیتے زمین کے باسی نظر نہیں آ تے ۔۔وہ اربوں ڈالراُس ماضی کی کھوج لگانے پر اُڑا رہا ہے۔۔ جس کی ایک جھلک وہ افریقہ میں ٹیکنالوجی کے نام سے نا بلد وحشی قبائل میں با آسانی دیکھ سکتا ہے "۔۔ "اِس سے پہلے کے ڈسکشن آگے بڑھتی پیریڈ ختم ہو چکا تھا "۔۔ لیکن کلاس سے جاتے ہوئے سر انور نے ایک گہری ستائشی نظر منتہیٰ پر ڈالی تھی ۔۔ ایک سو بیس کا آئی کیو رکھنے والی یہ لڑ کی ابتدا ہی سے سب اساتذہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکی تھی ۔جس طرح وہ لیکچر روم میں ہی نہیں مختلف سیمینارز اور ورک شاپس میں پوائنٹ اٹھایا کرتی تھی وہ سبجیکٹس پر اسکی گہری دسترس کی غماز تھی، ورنہ عموما ََ عسٹوڈنٹس اہم موضوعات کو سطحی طور پر سمجھ لیا کرتے ہیں لیکن منتہیٰ ہر چیز کو اس کی بنیاد سے سمجھنے کے لیے بلا جھجک سوال کیاکرتی تھی۔ "یار مینا کبھی اِن کتابوں کی بھی جان چھوڑ دیا کر”۔۔ "یہ دیکھ الحمراء میں سٹوڈنٹس کے آرٹس اور پینٹنگ کا مقابلہ ہو رہا ہے ۔اورانرولمنٹمیں صرف دو دن باقی ہیں "۔ لیکن جواب ندارد منتہیٰ اُسی تندہی سے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرنے میں لگی رہی ۔۔ سو فاریہ کے پاس پلان ٹو تیار تھا ، مینا کی یونیورسٹی اور پرسنل ای میلز اُسکے علم میں تھیں۔۔ "چند ہی منٹ میں وہ منتہیٰ کی انرولمنٹ کروا کر چپس ٹھونگتے ہوئے الحمراء ایڈونچر کے تھرل کے بارے میں سوچ رہی تھی "۔۔ دو دن بعد ہاسٹل واپسی پر بڑا سا پارسل منتہیٰ کا منتظر تھا ۔

    وارڈن سے پارسل لیکر وہ یہ سوچ کر کمرے میں اٹھا لائی کے ارسہ اور رامین نے شائد کوئی گفٹ بھیجا ہو ۔ لیکن ۔ "اندر تو اس کی کچھ پینٹنگز تھیں جو وہ گھر پر فارغ وقت میں بنا یا کرتی تھی”۔ اگلے لمحے وہ تکیہ اٹھا کر فاریہ پر پل پڑی ۔۔” کمینی مجھے بتائے بغیر۔۔” "لینگویج پلیز میڈم "۔۔ فاریہ بگڑی ۔۔ "آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ ما بدولت نے آپ کا قیمتی وقت بچاتے ہوئے یہ کارخیر سر انجام دیا "۔۔۔ہونہہ "ما بدولت کی بچی "۔۔ ‘اب تم الحمراء جانے کا کارِ خیر بھی خود ہی کر لینا سمجھیں ‘۔۔ میناکا تھکن سے برا حال تھا ۔۔ چند ہی منٹ بعد وہ گہری نیند میں تھی ۔ اور فاریہ پارسل کھول کر پینٹنگز کا جائزہ لینے میں مصروف تھی ۔ ایگزیبیشن کے لیے پینٹنگ جمع کروانے کا اگلے روز آخری دن تھا ۔۔ وہ پیریڈڈراپ کر کے الحمراء پہنچی۔۔ تو اُن کی توقع کے عین مطابق ریسیپشن پر خاصہ رش تھا ۔۔۔ مینا کو کوفت ہوئی۔ "فاریہ بس واپس چلتے ہیں بھاڑ میں جائے کمپی ٹیشن "۔۔ "اُف منتہیٰ تھوڑی سی دیر کی بات ہے ۔۔” کوئی آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد خیر سے اُن کی باری آئی ۔۔ پینٹنگ جمع کروا کر مینا اب تیزی سے نکلنے کو تھی کہ فاریہ کے قدم کچھ فاصلے پر کھڑے دو لڑکوں کو دیکھ کر تھمے۔ منتہیٰ نے اُسے غصے سے کھینچا ۔۔”فاریہ جلدی نکلو یہاں سے ۔۔” "مینا یار رک "۔۔وہ دیکھ سامنے جو بوائز کھڑے ہیں اُن میں سے ایک ارمان یوسف لگتا ہے ۔۔۔؟؟ "شٹ اپ "فاریہ ایک تو تم سارے مینرز بھلا کر بوائز کو اِس طرح گھور رہی ہو ۔۔ ارمان یا جاپان یوسف جو بھی ہو ۔ "جہنم میں ڈالو اور نکلو یہاں سے” ۔۔۔ مینا نے اُسے بری طرح گھرکا ۔۔

    منتہیٰ بی بی آ پ کو یاد ہے ایک دفعہ یو نیورسٹی میں آ پ نے کہا تھا ، "اگر یہ ڈی پی اِس نے کسی کی اڑا کر نا لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا” ۔ مینا نے فاریہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا ۔” ایک تو تمہیں پتا نہیں کب کب کی باتیں یاد رہتی ہیں ۔۔ ہونہہ ۔۔”تم چل رہی ہو یا میں اکیلی چلی جاؤں ۔۔؟؟ "تم باہر پانچ منٹ میرا انتظار کرو میں آتی ہوں”۔۔ اِس سے پہلی کہ منتہیٰ اُسے مزید گُھرکتی۔۔ فاریہ اعتماد سے قدم اٹھاتی اُن دولڑکوں کی طرف بڑھ چکی تھی جو اُن سے بے نیاز گفتگو میں مصروف تھے ۔۔ اور منتہی سینے پر ہاتھ باندھے محوِ تماشہ تھی۔۔ "اُسے سو فیصد یقین تھا کہ فاریہ کے ساتھ بہت بری ہونے والی ہے "۔۔۔ "ایکسکیوز می "۔۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو آپ ارمان یوسف ہیں ؟؟ کچھ حیرت سے فاریہ کو دیکھتے ہوئے اُس لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا "جی میں ارمان ہی ہوں”۔ سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں کیا ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں؟؟ "ہم”۔۔۔ لمبی سی ہم کرتے ہوئے فاریہ نے دور کھڑی محوِ تماشہ مینا کو معنی خیز مسکراہٹ سے نوازا۔۔ ایکچولی۔ بالواستہ تو یہ ہماری پہلی ملاقات ہے لیکن فیس بک پر ہم ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں ۔۔”میں فاریہ انعام ہوں”۔۔ ارمان نے دماغ پر زور ڈالا ۔۔ "یہ نام۔۔ فاریہ انعام "۔۔؟؟ "اور وہ جو کچھ فاصلے پر ایک لڑکی کھڑی ہے نہ وہ میری بیسٹ فرینڈ منتہیٰ دستگیر ہے "۔ اُسے سوچتا دیکھ کر فاریہ نے تیر چھوڑا۔ اور پھر لمحے ہی تو لگے تھے ارمان کو بوجھنے میں۔۔ اُس نے تیزی سے مڑ کراِس لڑکی کو دیکھا جو بظاہر دوسری طرف متوجہ تھی۔۔

    جاری ہے

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • آج اردو کی عظیم ادیب فاطمہ ثریا بجیا کی سالگرہ ہے

    آج اردو کی عظیم ادیب فاطمہ ثریا بجیا کی سالگرہ ہے

    آج پاکستان کی نامور ادیب فاطمہ ثریا بجیا کی 85 ویں سالگرہ ہے، برصغیر کی یہ نامور ادیب 1 ستمبر 1930 کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا پاکستان ٹیلی وژن اور ادبی دنیا کی معروف شخصیت ہیں ۔ ان کا نام ناول نگاری اورڈرامہ نگاری کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج کے لئے بھی کام کیا۔ محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔

    بجیا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک تعلیم یافتہ ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے نانا مزاج یار جنگ اپنے زمانے کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھےجبکہ ان کے والد قمر مقصود حمیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ ان کے خانوادے میں زہرا نگاہ، احمد مقصود حمیدی، انورمقصود ، سارہ نقوی اور زبیدہ طارق شامل ہیں جو اپنے اپنے شعبوں کے نمایاں افراد میں شمار ہوتے ہیں۔

    محترمہ فاطمہ ثریا بجیا نے 1965ء کی جنگ کے دوران مقبول ہونے والے جنگی ترانوں کا مجموعہ جنگ ترنگ کے نام سے مرتب کیااور پاکستان ٹیلی وژن کے لیے لاتعداد ڈرامہ سیریل تحریر کیے جن میں اوراق، شمع، افشاں، عروسہ، اساوری، گھراک نگر، آگہی، انا، کرنیں، بابر اور آبگینے کے نام سرفہرست ہیں۔

    حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیازعطا کیا جبکہ حکومت جاپان نے بھی انہیں اپنا اعلیٰ ترین شہری اعزازعطا کیا ہے۔

    محترمہ فاطمہ ثریا بجیا کی سوانح عمری ’’بجیا : برصغیرکی عظیم ڈرامہ نویس… فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔

  • منفرد طرزکی ناول نگار’عمیرہ احمد‘ اڑتیس سال کی ہوگئیں

    منفرد طرزکی ناول نگار’عمیرہ احمد‘ اڑتیس سال کی ہوگئیں

    آج نئے دور کی معروف اردو ناول اور ڈرامہ نگارعمیرہ احمد کی سالگرہ ہے، پیرِکامل اور شہرِذات ان کے نمائندہ ناول ہیں جنہیں ڈرامے کی شکل بھی دی گئی۔

    عمیرہ احمد کا شمار دورِحاضر کے مقبول ترین اردو ناول اور ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ 10 دسمبر 1976 کو صوبہ پنجاب پاکستان کے مشہور شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں اور مرے کالج سیالکوٹ سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ وہ آرمی پبلک کالج سیالکوٹ میں انگریزی زبان کی تدریس کرتی رہیں بعد ازاں تحریری کاموں پر پوری توجہ دینے کے لئے انہوں نے ملازمت چھوڑ دی۔

    عمیرہ احمد نے بطور مصنفہ اپنے کیریئر کا آغاز 1998 میں کیا۔ ان کی ابتدائی کہانیاں اردو ڈائجسٹوں کی زینت بنیں اور پھر کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں۔ عمیرہ احمد تقریباً 16 کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں بیشتر ناول مقبول عام کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی کئی کہانیاں ڈرامے کی صورت میں مختلف ٹی وی چینلز پر پیش کی گئ ہیں۔ تاہم ان کے ناول ’’پیر کامل‘‘کے حصے میں جو مقبولیت آئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ناول عمیرہ احمد کی پہچان اور شناخت کی حیثیت رکھتا ہے۔

    عمیرہ احمد کے جو ناول ڈرامے کے صورت میں پیش کئے گئے ان میں من و سلویٰ، لاحاصل، امربیل، حسنہ اور حسن آرا، میری ذات ذرہ بے نشان، تھوڑا سا آسمان، زندگی گلزار ہے، وجود لاریب، مٹھی بھر مٹی، دوراہا وغیرہ شامل ہیں جنہیں ناظرین کی جانب سے بے حد سراہا گیا۔ اپنے پہلے سیریل ’’وجودِ لاریب‘‘ کے لئے انہوں نے بیسٹ رائٹر کا ایوارڈ 2005 میں حاصل کیا۔ اس کے علاوہ وہ تین ٹیلی فلمز اور ایف ایم 101 اسلام آباد کے لئے ’’نور کا مسکن‘‘ نامی ایک ڈرامہ بھی لکھ چکی ہیں۔ ان کے دیگر ناولز میں، میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے، شہر ذات، اڑان، بے حد، قیدِ تنہائی، کنکر، محبت صبح کا ستارہ ہے، اب میرا انتظار کر، کوئی بات ہے تیری بات میں، سودا، تیری یاد خارِ گلاب ہے، سحر ایک استعارہ ہے، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا، کس جہاں کا زر لیا، عکس، حاصل، لاحاصل، ہم کہاں کے سچے تھے، آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں، ہلالِ جرأت، بات عمر بھر کی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوتا، ایمان امید اور محبت وغیرہ شامل یں۔

    عمیرہ کی تحاریر اور کہانیاں عموماً حقیقی سماجی مسائل کے گرد گھومتی ہیں اور موجودہ زمانے کی تہذیب و ثقافت کی عکاس ہیں۔ مقامی مسائل اور حالات کا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ روحانیت کا موضوع بھی ان کے ناولوں کا خاص عنصر ہے۔ عمیرہ احمد کو ہر طبقے بشمول بزرگ و نوجوان مرد و خواتین پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔