Tag: urdu novel

  • گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

    ورجینا وولف نے کہا تھا،”ناول ایک ایسی صنف ہے، جس میں دنیا کا ہر موضوع سمویا جاسکتا ہے۔”

    یہ سچ ہی تو ہے۔ پھر یہ صنف اتنی پرقوت ہے کہ بیانیہ کی الگ الگ تکنیکس، جیسے واقعات نگاری، تجریدی ڈھب، تجزیاتی انداز ، یہاں تک کہ فلسفیانہ موشگافیوں کا بھی بوجھ ڈھو لیتی ہے۔

    صدیوں سے یہ کتاب ہی تھی، جو کسی مسئلے کی نشان دہی اور  عوام میں شعور پیدا کرنے کا موثر  ترین ذریعہ ٹھہری۔ ممکن ہے، نشان دہی کے معاملے میں ٹی وی چینلز کتاب سے آگے نکل گئے ہوں، مگر اثر پذیری میں کتاب اب بھی غالب ہے۔ اور ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔

    موضوع کیا ہے؟

    یہ ناول گھریلو تشدد کے ٹول کے ذریعے ایک ایسے مسئلے کی نشان دہی کرتا ہے، جس کی جانب شاید کم ہی توجہ دی گئی۔ اور یہ ہے: ذہنی امراض۔

    مصنف کیوں کہ ذہنی معذوری ڈسلیکسیا کا شکار ہے، اسی باعث وہ ان امراض کے اثرات کو، بالخصوص گھریلو تشدد کے تناظر میں زیادہ موثر انداز میں بیان کرسکتا تھا، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ 

    کیا اس نے یہ عمل کاملیت کے ساتھ انجام دیا؟ کسی بھی فکشن نگار کے پہلے ناول اسے اس نوع کی توقع کرنا اپنی اساس ہی میں غیرفطری ہے۔

    احساسات اور رویے، جنھیں قلم بند کیا گیا؟

    ناول نگار نے  ذہنی امراض سے متعلق لاعلمی، عدم توجہی، مریض کے اہل خانہ کی ٹال مٹول جیسے رویے کو  خوبی سے منظر کیا۔

    ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ میں مجبوری کے ایک ایسے احساس کو پیش کیا گیا، جو  معاشرہ افراد، بالخصوص عورت پر عائد کر تا ہے۔ پہلے شادی، پھر بچوں کو پیدایش، اس پر مستزاد مالی طور پر شوہر اور سسرال پر انحصار، یوں وہ کلی طور پر محدود ہو جاتی ہے۔ اس محدودیت کا کرب ہم تک ان صفحات کے ذریعے پہنچتا ہے۔

    کہانی پلاٹ اور کرداروں کی

    یہ حنا کی کہانی ہے، جو مہندی آرٹسٹ ہے، جس کی شادی ماجد سے ہوتی ہے، جو اوروں سے کچھ مختلف ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ آدمی چونک اٹھے۔

    البتہ دھیرے دھیرے پریشان کن واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ تشدد کا عنصر بڑھتا جاتا ہے، ساتھ ساتھ ہم ان واقعات، سانحات کے روبرو ہوتے ہیں، جو ہماری یادوں میں محفوظ ہیں کہ یہ کہانی 2017 تک آتی ہے۔

    بنیادی کردار تو حنا اور ماجد ہی ہیں، باقی کردار ان ہی دو سے جڑے ہوئے ہیں۔ کردار نگاری موثر ہے، کہیں کردار مصنوعی نہیں لگتا۔

    ناول کے آخر تک ہم حنا سے تو ہمدردی محسوس کرتے ہیں، مگر جو ذہنی مریض ہے، یعنی ماجد، اس کے لیے ہم میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کسی اور بیانیہ میں شاید یہ مسئلہ نہیں ہو، مگر وہ ناول، جو اسی موضوع پر ہو، اس میں قاری یہ تقاضا ضرور  کرتا ہے۔

    تکنیک اور زبان

    چند صفحات پڑھ کر ہی آپ کو انداز ہوجاتا ہے کہ ناول نگار عصری ادب سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ناول اپنے اختتامیے سے شروع ہوتا ہے، ایک معصوم بچی، خون، مہندی، ایمبولینس اور پھر ایک فائر۔ یہ ایک موثر  آغاز ہے۔

     ہر حصے پر ایک عنوان ٹکایا گیا ہے، چند قارئین کو اس سے الجھن ہوتی ہے، مگر راقم کے نزدیک یہ پڑھت کے عمل کو سہل بناتا ہے، البتہ گرفت کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔  بے شک اِسے مزید موثر بنایا جاسکتا تھا۔

    ناول میں برتی جانے والی زبان کہانی کے تقاضے بڑی حد تک نبھاتی ہے۔ عام بول چال بھی گرفت کیا گیا ہے۔ البتہ رموز و اوقاف کے استعمال اور جملے کو لکھنے کے ڈھب میں بہتری کی گنجایش ہے۔

    جہاں جہاں جزئیات بیان کی گئیں، وہ قاری تک وہ احساس پہنچانے میں کامیاب رہیں، جو لکھاری کا مقصد تھا، چند مناظر واقعی متاثر کن ہیں، جن اضافی معلوم ہوتے ہیں۔

    حرف آخر

    ابھی جان باقی ہے مطالعیت سے بھرپور ناول ہے، یہ خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ یوں بھی اہم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک حساس موضوع کو منظر کرتا ہے، جس کی بابت ہم کم ہی بات کی اور یہ صرف مسئلہ کو اجاگر کرنے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ کامیابی سےایک کہانی بھی بیان کرتا ہے۔

    ہاں، اسے مزید ایڈٹ کیا جاسکتا تھا،223 صفحات زیادہ تو نہیں، مگر یہ بیانیہ دو سو صفحات میں زیادہ موزوں لگتا۔

    ہم چنگیز راجا کے اگلے ناول سے کیسی امیدیں باندھ سکتے ہیں، اس کی خبر ہم اس ناول سے مل جاتی ہے۔

    علم و عرفان پبلشرز کے زیر اہتمام، اچھے گیٹ اپ میں شایع ہونے والے اس ناول کی قیمت چھ سو روپے ہے۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    منتہیٰ گزشتہ دس دن سے ایس ٹی ای کے برین ونگ کارکنان کے ساتھ آزاد کشمیر اور جہلم کے درمیانی علاقے میں اپنے نئےپراجیکٹ پر کام کے آغاز کے لیے پوری طرح سر گرم تھی ۔۔ شدید مصروفیات کے باعث پاؤں کا درد سِوا ہو چکا تھا ۔۔ وہ دردسے نڈھال کمرے میں آکر لیٹی ہی تھی کی سیل تھرتھرایا ۔۔
    تم میڈیسن کب سے نہیں لے رہی ہو۔۔؟؟ کوئی تھا جو اُس کے درد کو بتائے بغیر جاننے لگا تھا ۔۔
    ابھی لی ہیں ۔۔ اُس نے لیٹے لیٹے جواب دیا ۔۔اٹھنے کی ہمت کس میں تھی ۔
    وہ تم نے درد کو انتہا پر پہنچا کر لیں ہیں ۔۔ ارمان کا لہجہ درشت ہوا ۔
    آپ کو کیا پتا ۔۔ آپ کوئی یہاں ہیں۔۔؟؟


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    ’’منتہیٰ بی بی ۔۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اِس وضاحت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ‘‘۔۔ اُسکا لہجہ برفیلا تھا ۔۔
    ہم مم۔۔ لمبی سی ہم کر کے منتہیٰ نے ارمان کی نقل اتاری۔
    ملو تم مجھے ۔۔ لیتا ہوں میں تمہاری خبر ۔۔۔
    میں ہفتہ دس دن تک نہیں آنے والی ۔۔ منتہیٰ نے اُسےِ چڑایا ۔
    جی نہیں ۔۔ میں نے ونگ کمانڈر آزر کو کہا ہے ۔۔وہ کل تمہیں یہاں پہنچائے گا ۔۔ایس ٹی ای کی میٹنگ میں تمہاری شرکت
    ضروری ہے ۔
    واٹ ۔۔؟؟ ایسی کیا خاص بات ہے ۔۔؟؟
    خاص ہی ہے ۔۔آؤ گی تو پتا لگ جائے گا ۔۔ اور اب آرام کرو سمجھیں ۔۔ وہ ڈانٹ کر کال کاٹ چکا تھا ۔۔ منتہیٰ نے سکون
    سے آنکھیں موندیں ۔۔ اس کی یہ ڈانٹ کتنی اچھی لگتی تھی ۔
    اگلے روز مصروفیت اور موسم کی خرابی کے باعث ۔۔ وہ میٹنگ سے کچھ دیر پہلے چھ بجے ہی ایس ٹی ای آفس پہنچ سکی ۔اُسے
    حیرت ہوئی وہاں کسی فنکشن کی تیاریاں تھیں ۔
    منتہیٰ کی نگاہیں ارمان کی متلاشی تھیں کہ کسی نے پیچھے سے نرمی کیساتھ اسکا ہاتھ تھاما۔
    وہ چونک کر مڑی ۔۔ آپ تو کہہ رہے تھے کہ میٹنگ ہے ۔۔ پر یہاں ۔۔اس نے انتظا مات کی طرف اشارہ کیا
    ہاں یہاں ایک چھوٹی سی تعارفی تقریب ہے ۔!!
    واٹ۔۔؟؟ کس چیز کی ۔۔؟؟ اُس نے مڑ کر سٹیج کی طرف دیکھا ۔۔ بینر لگا تھا
    Cosmology in the light of Holy Quran …. By Muntaha Arman
    ’’ایک تعارف ۔۔ایک جائزہ ‘‘
    منتہیٰ نے مڑ کر خوشگوار حیرت سے ارمان کو دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ ایسی ہی سرپرائز دیتا تھا ۔
    تقریب میں ڈاکٹر یوسف اور ڈاکٹر عبدالحق کے علاوہ کئی نامور شخصیات نے منتہیٰ کی اِس کاوش کو بھرپور سراہا ۔۔ یہ ایک ایسی معلوماتی کتاب تھی ۔۔ جس پر آج تک کسی عالمِ دین ،کسی مولوی نے قلم نہیں اٹھایا تھا ۔۔ مقامی طور پر اِس کتاب کو سیو دی ارتھ پبلکشن ہاؤس نے شائع کیا تھا ۔۔جبکہ اس کا ایک مسودہ۔ ارمان پینگوئن پبلیکیشنز نیو یارک کو بھی بھیج چکا تھا ۔
    ایس ٹی پبلیکیشنز کے تحت ارمان کی اپنی سات سالہ جدوجہد کی داستان The routes I passed by …. بھی جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی تھی ۔۔
    تقریب کے بعد ۔۔منتہیٰ ایس ٹی ای کے کارکنان کو اپنے آٹو گراف کے ساتھ بک دیتی رہی ۔
    "آٹو گراف پلیز میم ‘‘۔۔ ارمان نے ایک جلد اُس کی طرف بڑھائی ۔۔ کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے لکھنا شروع کیا ۔۔

    Sitting next
    to you …
    Is like
    Taking a sip of eternity
    The sun , the stars , the sky
    Never tasted so good..!!
    (Christy ann martine )

    ************

    تھر اور چولستان میں سیو دی ارتھ کے پراجیکٹس کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کو تھے ۔۔انہوں نے بہت قلیل مدت اور نا کافی ذرائع کے با وجود وہاں قحط ، خشک سالی او روبائی امراض پر قابو پانے کے لئے ہیلتھ سینٹرز کے علاوہ فوڈ اینڈ ڈیزاسٹرسینٹر قائم کیے تھے جبکہ اگلا مرحلہ اسی سٹر ٹیجی کو بلوچستان کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں پر لاگو کرنے کا تھا۔ لیکن انھیں علم تھا کہ بلوچستان ایک اپنے وسیع رقبے اور امن و امان کی خرابصورتحال کے باعث ایک شدید کٹھن ٹاسک تھا۔کئی ماہ کی پلاننگ کے بعد وہ بلوچستان میں ایسی تکنیکس کا آغاز کرنے جا رہے تھے جو جنوبی افریقہ ، ایتھوپیا ، چاڈ ، نائجر ،سوڈان اور مالی وغیرہ میں طویل خشک سالی سے نمٹنے میں کافی کارآمد ثابت ہوچکی ہیں ۔
    بلوچستان اور ان افریقی ممالک میں ایک مشابہت یہ بھی ہے وہاں بھی مقامی افراد کی اکثریت نا خواندہ ہے اور ڈیزاسٹر سے از خود نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔صورتحال کو بگاڑنے میں ایک بڑا ہاتھ مقامی باشندوں کابھی ہے ، بارشوں کے موسم میں پانی کو مستقبل کی بدترین حالات کے لیے ذخیرہ کرنے کے بجائے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ۔ خشک سالی عارضی ہو یا طویل المدت ، بہرحال ایک
    نہ ایک دن ختم ہو ہی جاتی ہے اور بارشوں کے موسلا دھار برستے ہی ان علاقوں کے رہائشی اپنی زمینوں اور گھروں کو آباد کرنے کے لیے لوٹ آتے ہیں ۔ مگر سالہا سال کی مشقت اور ، کٹھن اورجان لیوا حالات سے گزرنے کے باوجود پرانی عادتیں بھی ساتھ لوٹ آتی ہیں
    اور اسی وجہ سے حکومتی کوششیں بھی زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔ اگر کمیونٹی کی سطح پر کوششیں جاری رکھتے ہوئے قابل ِکاشت رقبے کو کم کر کے سیب اور خوبانی کی جگہ انار یا کم پانی استعمال کرنے والی فصلیں کاشت کی جائیں۔زمینوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے تاکہ برفباری زیرِ زمین پانی کےذخائر کو بڑھانےکا سبب بنے۔ جنگلات کے کٹاؤ کو روک کر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور دیہات میں لکڑی کی جگہ متبادل بہترایندھن استعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں بگڑتے حالات کو ابتدائی سٹیج پر ہی قابو کیا جاسکتا ہے۔
    جبکہ دوسری طرف جہلم کے قریب منتہیٰ کا پراجیکٹ بھی کامیابی کے ساتھ رواں تھا ۔۔ جسے فی الحال پوری طرح خفیہ رکھا گیا تھا۔ کئی ہفتوں کی شدید مصروفیات کے بعد وہ دونوں گھر پر اکھٹے ہوئے تھے ۔۔ رات دیر سے سونے کے باعث ارمان بارہ بجےتک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔۔ اور منتہیٰ کچن میں ممی کے پاس تھی جب ملازم نے اُس کی کسی مہمان کے آنے کی اطلاع
    دی ۔۔ وہ اِس وقت گھر کے سادہ سے کپڑوں میں تھی ۔۔ دوپٹہ درست کرتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے ٹھٹکی ۔
    معقول اسلامی لبادے میں ملبوس وہ لڑکی ۔۔ یقیناًکیلی تھی ۔
    کیلی تم یہاں ۔۔؟؟منتہیٰ خوشگوار حیرت کے ساتھ اُس سے گلے ملی ۔۔
    کیلی نہیں ۔۔’’ آمنہ‘‘ ۔۔ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔۔ اُس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دیا
    ماشاء اللہ ۔۔ لیکن تم یہاں کب آئیں ۔۔ بتایا کیوں نہیں ۔۔؟؟
    میں ایک ہفتہ پہلے لاہور آئی تھی ۔۔ پچھلے دو ماہ سے میں مکہ میں تھی ۔
    ایم سو ہیپی کیلی۔۔ اُوہ سوری آمنہ ۔۔ منتہیٰ ایک دفعہ پھر اس کے گلے لگی ۔
    یُو نو مینا ۔۔ کہ میں نے اپنے لیے یہ نام اِ س لیے منتخب کیا ہے کہ یہ حضرت محمد ﷺ کی والدہ کا نام تھا ۔۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ
    ہستی جو سراپا محبت اور کرم تھی ۔ اس کی عظیم ماں کیسی ہوگی۔۔؟؟
    آمنہ کے دل میں ماں کی اولین محبت کا خلا آج بھی باقی تھا ۔۔ آنکھوں کی نمی چھپا کر کر وہ مسکرائی ۔۔
    تم کیسی ہو۔۔؟؟ مجھے نینسی سے تمہارے حادثے اور پھر شادی کا پتا لگا تھا ۔۔تم بہت خوش لگ رہی ہو ۔۔ ارمان کیسا ہے ؟؟
    وہ بہت نائس اور خیال کرنے والا شوہر ہے ۔۔ منتہیٰ کی آنکھوں میں قندیلیں سی روشن تھیں ۔
    تم آرام سے بیٹھو نا ۔۔ میں تمہیں ممی پاپا سے ملواتی ہوں ۔۔ منتہیٰ اٹھی ۔
    پھر دو گھنٹے تک وہ نان سٹاپ باتیں کرتی رہیں ۔۔ منتہیٰ کو ارمان بھی یاد نہیں آیا۔۔ جو سویا پڑا تھا ۔
    تم آج کل کیا کر رہی ہو منتہیٰ ۔۔؟؟ آمنہ نے سرسری اندا ز میں پوچھا ۔۔
    وہ بس ۔۔ارمان کی فاؤنڈیشن کے کچھ پراجیکٹس ہیں ۔۔ اُس نے گول مول جواب دیا
    آمنہ کے چہرے پر گہری مسکراہٹ اتری ۔۔ اُس نے منتہیٰ کے دونوں ہاتھ تھامے ۔یو نوواٹ مینا ۔۔ کہ ہارورڈ میں تمہاری
    بہت ساری سرگرمیوں سے میں واقف تھی ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔اور جو فائلز تم نے میرے لیپ ٹاپ سے کاپی کی تھیں نہ۔ تو وہ میں نے دیکھ لیا تھا ۔۔ منتہیٰ کا رنگ اُڑا ۔اس نے ہاتھ چھڑانے
    کی کوشش کی ۔
    پھر تم مجھ سے دوستی کی کوششیں بڑھاتی گئیں ۔۔ مجھے سب معلوم تھا ۔۔ مگر تم مجھے بہت اچھی لگتی تھیں ۔۔اور اب بھی لگتی ہو ۔۔
    I adore you ..اُس نے مینا کے دونوں ہاتھ ہونٹوں سے لگائے ۔
    تمہارا ساتھ۔۔ تمہاری دوستی نے مجھے زندگی کے ایک نئے مفہوم سے آ شنا کرایا ۔۔میں جو اند رسے ایک مری ہوئی عورت
    تھی ۔ اب دوبارہ جینے لگی ہوں ۔میں جینا چاہتی ہوں ۔۔ زندگی سے اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنا چاہتی ہوں ۔
    منتہیٰ ساکت سی اُسے دیکھے گئی۔۔ وہ پلکیں تک جھپکانا بھول گئی تھی ۔
    میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کرو ں گی ۔۔ میں اِن کاموں میں تمہارا بھرپور ساتھ دوں گی ۔۔ انشا ء اللہ ہم مل کر بہت کچھ کریں گے۔
    انسانیت کی فلاح کے لیے ۔اپنی زمین کے دوام کے لیے ۔۔ اُس کا لہجہ بہت پُر عزم تھا ۔
    اور ہم م لکر تمہارے لیے ایک پیارا سا محبت کرنے والا دولہا بھی ڈھونڈیں گے انشا ء اللہ ۔۔ ارمان کی آواز پر وہ دونوں چونکیں
    جو نہ جانے کب سے پیچھے کھڑا ۔۔دونوں دوستوں کا رومانس دیکھ رہا تھا ۔
    شیور ۔۔ اور وہ بالکل تمہارے جیسا سمارٹ ۔ محبت اور خیال کرنے والا ہونا چاہئے ۔۔ آمنہ چہکی
    یہ تو مشکل ہو جائیگی آمنہ بی بی ۔۔ کیونکہ میرے جیسا کوئی اور پیس نہیں دنیا میں ۔۔ جس کا مقدر ۔یہ آپکی بد لحاظ اور سر پھری
    دوست تھی ۔ منتہیٰ نے اُسے گھورا
    ڈونٹ وری آمنہ تمہیں اِن سے بہت اچھا آئیڈیل سا۔۔ شوہرملے گا ۔
    یا اللہ ۔۔یہ تیرے نا شکرے بندے ۔۔ ارمان ہاتھ اٹھا کر دہائی دینے لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُسے کھینچ کر کشن مارا ۔
    وہ بہت خوش تھی ۔’’کہتے ہیں کہ آپکی نیکی لوٹ کرواپس آپ کے پاس ہی آتی ہے۔‘‘ اُس نے صدقِ دل سے چاہا تھا کہ کیلی
    اِس فرسٹرشن سے باہر نکل آئے ۔۔جس میں وہ بچپن سے مبتلا تھی۔ ان کی ٹیم میں آمنہ جیسی ذہین و فطین اور تجربہ کار انوائرمینٹل سائنٹسٹ کی شمولیت بلا شبہ ایک سنگِ میل تھا ۔

    ************

    "اگر وقت کی روانی کو سمجھنا ہو تو ۔۔ کبھی کسی اُونچی چٹان پر کھڑے ہوکر ۔نیچے ساحل سے ٹکراتی موجوں کو دیکھنا۔۔ وقت بھی
    اِن موجوں کی طرح انسان کی زندگی میں وارد ہوتا ہے ۔۔ کبھی دبے قدموں مسرتوں اور شادمانیوں کے تازہ جھو نکوں کی طرح ۔۔
    کبھی شوریدہ سر موجوں کی صورت میں ۔۔ انسانی ذات کے اندر اور باہر بہت کچھ توڑتا ۔فنا کرتا ہوا ۔ کبھی بے رحم طوفانوں جیسا
    ہر شے تہس نہس کردینے والا ۔۔لیکن اچھا یا برا ۔۔بہرحال وقت کٹ ہی جاتا ہے ۔۔ ساحل پر کس کے نقشِ پا ہمیشہ رہے ہیں مگر
    داعمی حیات اُنہی کو ملتی ہے جودلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔”
    وہ ایک دفعہ پھر نیویارک میں تھی ۔۔منتہیٰ ارمان یوسف کو یونیسکو کی تقریب میں شرکت کر کے اپنا "وومن اِن سائنس”
    ایوارڈ وصول کرنا تھا ۔۔وہ نہ صرف ایشیا سے یہ اعزاز پانے والی پہلی خاتون تھی ۔۔ بلکہ اب تک ایوارڈ پانے والیوں میں سب
    سے کم عمر بھی تھی ۔
    وہاں موجود شرکاء اُسے ایک ایسی بہادر لڑکی کے طور پر خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے ۔۔ جو ایک بڑے حادثے سے گزرنے
    اور ایک عالمی اعزاز سے محرومی کے با وجود ہمت نہیں ہاری ۔۔ جس نے اپنی معذوری کو چیلنج سمجھ کے قبول کیا ۔۔اور آج جس کا
    شمار دنیا کے مایہ ناز فزکسٹ اور ٹیکنالوجسٹ میں کیا جا رہا تھا ۔۔ وہ بہت گہری مسکراہٹ کے ساتھ تعریفوں کے یہ سارے ہارگلے میں ڈالتی ہوئی ۔۔ مائیک تک آئی ۔
    "میرا بچپن گورنمنٹ کے طرف سے ملے ہوئے ایک چھوٹے گھر میں گزرا ۔۔ اُس کے کشادہ آنگن میں ایک گھنا نیم کا درخت
    تھا ۔جس پر ایک چڑیا کئی سالوں سے بسیرا کئے ہوئے تھی ۔۔ اُس کے بچوں کی چہچہا ہٹ ہماری زندگی کا ایک حصہ تھی ۔۔ پھر
    یوں ہوا کہ ایک روز بہت زور کی آندھی آئی ۔۔ ایسی کے گھروں کی چھتیں اُڑ گئیں ۔۔اور طوفانی جھکڑ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر
    لے گئے ۔۔ میری دادی مجھے اور میری چھوٹی بہن کو اپنی گود میں چھپا کر سارا وقت تسبیح کا ورد کرتی رہیں ۔”
    پھر جب طوفان تھما تو میں نے دیکھا کہ ہمارے آنگن کا وہ اکلوتا درخت جڑ سے اکھڑا پڑا تھا ۔۔ اور چڑیا کے گھونسلے کو طوفانی جھکڑ
    اُڑا کر لیجا چکے تھے ۔ میرے ننھے سے ذہن کے لیے یہ زندگی کا پہلا بڑا حادثہ تھا ۔۔ میں ساری رات روتی رہی۔۔کئی روز تک
    میں نے کھانا نہیں کھایا ۔پھر میرے ابو مجھے ہاتھ تھام کر ، سڑک کے پار کچی جھگیوں کی بستی لے کر گئے ۔۔ جہاں طوفان ہر شے کو
    فنا کر چکا تھا ۔۔ اور وہ خانہ بدوش اِدھر اُدھر سے ٹوٹا پھوٹا سامان جمع کر ہے تھے ۔
    "منتہیٰ‘‘۔ تم کئی دن سے روتی رہی ہو کہ تمہاری چڑیا کا گھونسلہ نہیں رہا ۔۔ انہیں دیکھو ۔۔اِن لوگوں کا کُل مال و متاع ۔آندھی اُڑا
    کر لے گئی ہے ۔۔لیکن یہ لوگ رو نہیں رہے ۔۔ کیونکہ ان کا ایمان ہم پکے گھروں میں رہنے والے لوگوں جیسا نہیں ہے ۔
    چڑیا کا آشیانہ ہو ۔۔یا یہ کچی جھگیاں ۔ سب اللہ تعالی کی عطا ہیں انسان کی ملکیت نہیں ۔۔ وہ خدا چڑیا کو دوبارہ گھونسلہ بھی دے گااور اِن خانہ بدوشوں کو بھی کہیں نہ کہیں پناہ مل جائیگی ۔
    میرے ننھے ذہن میں ایک مدت تک کئی سوال کلبلاتے رہے ۔ جب اللہ پاک اتنا رحمن و رحیم ہے تو پھر یہ طوفان آتے ہی کیوں ہیں ۔کیوں زلزلے کی ایک چنگھاڑ شہر کے شہر برباد کر دیتی ہے ۔ کیوں یہ سیلاب بستیوں پر بستیاں اجاڑتے گزرجاتے ہیں ۔؟؟
    مذہب نے مجھے بتایا کہ یہ انسان کے برے اعمال پر اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتے ہیں ۔۔سائنس کہتی تھی کہ انسانی سرگرمیوں نے آئینو سفیئر ہیٹنگ اور گلوبل وارمنگ جیسے امراض کو جنم دیا ۔ جن سے زمین پر آفات کی شرح روز بروزبڑھتی چلی گئی ۔ یعنی مذہب اور سائنس ایک ہی تھیوری کے دو مختلف اندازِ بیاں تھے ۔
    میری تلاش کا سفر سیو دی ارتھ نامی کمپین سے شروع ہوا ۔۔ میری سوچ تھی کہ جہاں انسان تباہی پھیلانے والی ٹیکنالوجی بنا سکتا ہے تو کہیں نہ کہیں فلاح کی ٹیکنالوجی کا سرا بھی ہوگا ۔۔جہاں شر ہو وہاں اللہ تعالیٰ خیر بھی ضرور اتارتا ہے ۔۔ یہ نیکی اور بدی کا ارتقاء ہی ہے جس نے زمین پر زندگی کے پہیے کو رواں رکھا ہوا ہے ۔۔ لیکن انسان کی رغبت ہمیشہ سے شر کی طرف زیادہ رہی ہے ۔۔ کہیں وہ خود حفاظتی کے نام پر نیو کلیئر اور کیمیائی ہتھیار بناتا ہے ۔۔ تو کہیں با یومیڈیکل انجینئرنگ میں ٹیکنالوجی کی انتہا پر پہنچ کر مصنوعی انسانی تخلیق کے تجربات کرتا ہے۔۔ خدا کے وجود کے منکر وں اور ان زمینی نا خداؤں کو اپنی آخری سانس کے ساتھ یہ یقین ضرور آجاتا ہوگا کہ اِس کائنات کا رکھوالا صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ ہے ۔
    میری جدوجہد کا سفر جاری رہا ۔۔ آج میرا ضمیر مطمئن ہے کہ اپنے ہم وطنوں ہی کے لیے نہیں ۔۔انسانیت کی فلاح کے لیے میں جو کچھ کر سکتی تھی ۔۔ میں نے اُس میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں رہنے دی ۔۔ یونیسکو کا یہ وومن اِن سائنس ایوارڈ اور اِس کے ساتھ ملنے والی لاکھوں ڈالر کی رقم میں اپنے ہم وطنوں کے نام کرتی ہوں ۔۔ پاکستان کی اُن پسماندہ خواتین کے نام کرتی ہوں ۔۔جو اکیسویں صدی میں جی کر بھی ٹیکنالوجی کے نام سے بھی ہنوز نا بلدہیں ۔میرا مشن میری آخری سانس تک انشا ء اللہ جاری رہے گا ۔
    دنیا بھرکی نامور شخصیات نیچے حاضرین میں دم بخود بیٹھی اِس دھان پان سی لڑکی کو سن رہی تھیں ۔ جو عزم اور حوصلے کی ایک چٹان
    تھی ۔ انہی حاضرین کی پہلی صف میں ارمان یوسف بھی تھا ۔۔ جس کی گود میں بیٹھی ایک ننھی پری کی ستارہ آنکھیں بہت دیر سے سٹیج پر
    کھڑی اپنی ماں پر مرکوز تھیں ۔۔ یوں جیسے وہ ماں کا ایک ایک لفظ اپنے اندر اتار رہی ہو ۔
    ارمان نے دیکھا ۔۔اُس نے اپنے ننھے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں یوں پیوست کی ہوئی تھیں جیسے وہ ہاتھ کوئی عہد باندھ رہے ہوں،دس ماہ کی ستارہ آنکھوں اور فراخ پیشانی والی اِس ننھی گڑیا کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک غیرمعمولی صلاحیتوں والی بچی تھی۔جس نے اپنی ماں سے بے پناہ ذہانت اور مضبوط قوتِ ارادی ورثے میں ملی تھی ۔۔ تو باپ سے اُسے وفا ، ایثار اور استقامت جیسی نیک
    صفات پائی تھیں ۔
    "”یہ ننھی پری ۔۔اَمل ارمان تھی۔ بہت جلد عالمی اُفق پر نمودار ہونے والا ۔پاکستان کا ایک درخشندہ ستارا ۔

    ختم شد
    ********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    یورپ ، امریکہ ، فرانس، دبئی ۔۔ ایک عالم نئے سال کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر امڈا ہوا تھا ۔۔ کہیں آتش بازی کی تیاریاں تھیں توکہیں رات بھر کی ہلڑ بازی ، جشنِ عیش و نشاط کی ۔
    انسان بھی عجیب مخلوق ہے ۔۔ خود فریبی کے نجانے کیسے کیسے طریقے ایجاد کر لیے گئے ہیں ۔۔ ایک ایسے سال کا جشن منایا جا رہا تھا ۔۔ جس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔۔ کہ وہ اُن سب کے لیے کیسے دکھ ، کیسی آزمائشیں ۔۔ کیسے خطراتاور کون کون سی آفات اپنے جلو میں لیے وارد ہونے والا ہے۔
    وہ جو آج جشن سالِ نو کی بد مستی میں سب سے آگے تھے۔۔کل اِسی سال کو رخصت کرتے ہوئے۔۔ کوسنے دینے میں بھی سب سے بڑھ کر ہوں گے ۔۔انسان جب اپنی زندگی سے اعلیٰ مقاصد کو نکال کر صرف اپنے لیے جینا شروع کر دے۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    تو پھر ہیپی نیو ایئر اور ہیپی ویلنٹائن ڈے جیسی اصطلا حیں وجود میں آتی ہیں ، جن کا سرے سے کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔دبئی کےبرج خلیفہ پر دنیا کے سب سے بڑے اور بے مثال آتش بای کے مظاہرے کا انتظام تھا ۔
    کیا دنیا کے اِن کھرب پتیوں کوبھوک اور امراض سے مرتے افریقی قبائل نظر نہیں آتے ۔۔؟؟ کیا ایشیا میں غربت کی سطح سے کہیں نیچے بسنے والے کروڑوں افراد اِن کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔۔؟؟؟آنکھوں پر پٹی تو کسی کے بھی نہیں بندھی ہوئی ۔۔۔ ہاںاگر انسان خود ہی نہ دیکھنا چاہے تو الگ بات ہے۔
    اور ان سب ہنگاموں سے لا تعلق اس چھوٹے سے فلیٹ میں دیوار سے لگی بیٹھی منتہیٰ کی دنیا اِس وقت شدید طوفانی جھکڑوں کی زد پر تھی۔۔۔ وہ کیوں رو رہی تھی ۔۔؟؟ اُسے کیا حق تھا ۔اُس شخص پر جسے وہ خود چھوڑ چکی تھی ۔ اپنے روشن مستقبل اور اپنے خوابوںکی تعبیر پانے کے لیے ۔۔۔؟؟
    وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی کھائیوں میں گری تھی ۔۔۔۔ اور وہ یقیناًخداکی ذاتِ پاک ہی تھی۔۔ جس نے اُس کے  نصیب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمعیں فروزاں کی تھیں ۔
    غم کی طویل رات ختم ہو چکی تھی اور سپیدۂ سحر نمودار ہونے کو تھا ۔ منتہیٰ نے فجر کی نما زکے بعد قرآنِ پاک کھولا ۔


    اور انسان طبعاًانتہائی نا شکرا واقع ہوا ہے۔۔جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پورے قلبی جھکاؤ کے ساتھ اپنے اللہ کو پکارتاہے ۔۔

    لیکن اس کے بعد جب اُسے آسائش میسر آتی ہے تو وہ اپنی ساری گریہ و زاری کو بھول کر کہنے لگتا ہے کہ اس کا مسیحا تو کوئی اور بنا ۔۔ 

    سورۂ الازمر


    آیت کیا تھی‘ ایک برچھی تھی جو سیدھی منتہی ٰ دستگیر کے سینے پر عین وسط میں پیوست ہوئی تھی ۔۔ ’’ اور ارمان یوسف اُس کے صبر کا
    انعام نہیں تھا ۔۔۔ یہ فیصلہ ہو چکا تھا ۔”
    اسی شہر میں کچھ فاصلے پر ارمان فجر کی نماز پڑھ کر کھڑکی میں کھڑا تھا ۔۔ اور موسم کی تمام پیشن گو ئیوں کے بر خلاف ۔۔نئے سال کا
    پہلا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تھا ۔ کل شام سے گرتی کچی بر ف، سورج کی کرنیں پڑتے ہی ۔۔ چاندی کی طرح
    جگمگانے لگی تھی۔
    رات بھر ۔۔سالِ نو کا جشن منانے والے ۔۔ نشے میں دھت اپنے اپنے بستروں میں مدہوش پڑے تھے ۔
    "اور یہ طلوع ہوتا سورج ، یہ گرتی برف ، ۔یہ پربتوں پر روئی کے گالوں جیسے اُڑتے بادل۔۔، یہ سونا مٹی ۔۔ اور اِس سے
    پھوٹتی ہریالی ۔۔ انسان سے شکوہ کنا ں تھی ۔۔کیا خدا نے یہ سب نعمتیں اِس لیے اتاری تھیں کہ انسان کی زندگی کا مرکز و محور
    صرف اور صرف اُس کی اپنی ذات ٹھہرے ۔۔وہ عیش و مستی میں دن رات خدا کی اِن سب نعمتوں کی نا قدری کرتا ہے ۔۔ انسانیت کی
    تذلیل کرتا ہے ۔۔ او ر وہ قطعاًبھول بیٹھا ہے کہ اگر کسی روز سورج نے طلوع ہونا بند کر دیا ۔۔ چاند نے سمندروں پر اپنا فسوں بکھیرنا چھوڑ
    دیا ۔۔ یایہ ہر دم رواں رہنے والی ہوا ۔۔ کسی دن ہمیشہ کے لیئے اُس سے روٹھ گئی ۔۔ تو پھر وہ کہاں جا ئے گا ۔۔۔؟؟؟

    ***********

    تین دن بعد کی فلائٹ ہے ۔۔ آپ پیکنگ کر لیں ۔۔ رات ارمان نے منتہیٰ کو آگاہ کیا ۔
    مگر دوسری طرف ہنوز گمبھیر خاموشی رہی ۔
    میری کسی مدد کی ضرور تو نہیں ۔۔؟؟؟ اُس نے بات کرنے کی ایک اور سعی کی
    نہیں۔۔ مختصر جواب آیا ۔
    میں ذرا امی ابو کو بتا دوں ۔۔ اُس دشمنِ جاں کا سامنا پتا نہیں آج اتنا دشوار کیوں تھا ۔ منتہیٰ نے پہلو بچایا ۔
    ارمان کچن میں کافی بناتے ہوئے گاہے بگاہے ایک نظر اِس لڑکی پر ڈال لیتا تھا جو ایک ہی رات میں مزید کئی ماہ کی
    بیمار لگنے لگی تھی ۔۔۔لیکن وہ کیا کر سکتا تھا ،، فی الحال تو کچھ بھی نہیں ۔
    منتہیٰ میری جان ۔۔مجھے تمہارے اِس فیصلے سے جتنی خوشی ہوئی ہے میں بتا نہیں سکتا ۔۔ فاروق صاحب کی آواز شدتِ
    جذبات سے بوجھل تھی ۔۔ ہم نے تاریخ رکھ دی ہے آج ہی ۔
    تاریخ۔۔؟؟؟۔۔ اوہ اچھا ابو ‘ رامین کی شادی کی تاریخ کی بات کر رہے ہوں گے ۔۔ اُس نے غائب دماغی سے سوچا
    جی ابو ۔۔ میں بھی بہت خوش ہوں ۔۔ صبح کا بھولا دیر ہی سے صحیح ۔۔ مگر گھر لوٹنے کو تھا ۔
    کال بند کر کے منتہیٰ بہت دیر تک سیل ہاتھ میں لیے روتی رہی ۔اور سامنے صوفے پر بیٹھے ارمان نے اُسے چپ کرانے کی کوئی
    بھی کوشش نہیں کی تھی ۔۔ وہ مزے سے کافی کی چسکیاں لیتا رہا ۔ اور پھر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
    فلیٹ سے باہرنکلتے ہی سیڑھیوں پر اس کی مڈ بھیڑ نینسی سے ہوئی ۔ جس نے اُسے دیکھتے ہی پہلے دیدے گول گول گھمائےپھر سیٹی بجائی ۔
    so finally you came … I said her..just wait and have faith
    اور جواب دینے کے بجائے ارمان اُسے سیڑھیوں سے نیچے دھکیلتا گیا تھا ۔۔۔
    رات سات بجے کی فلائٹ تھی ۔
    کلیئرنس وغیرہ سے فارغ ہوکر جب وہ ڈیپارچر لاؤنج پہنچے ۔۔تو ارد گرد کوئی سہارا نہ ہونے کے باعث منتہیٰ ڈگمگائی ۔ارمان
    اُسے سہارا دینے کے لیے بڑھا ۔ دونوں کی نظریں ملیں ‘ کچھ لمحے بیتے‘ کچھ سا عتیں گزریں اورپھر منتہیٰ نے تیزی
    سے خود کو سنبھال کر اپنا ہاتھ چھڑایا ۔ ارمان !منتہیٰ سہارے نہیں لیا کرتی ۔
    ارمان نے بمشکل خون کے گھونٹ پیے۔یہ لڑکی بھی نہ ۔’’ خیر منتہیٰ بی بی” ارمان یوسف بھی کم نہیں ۔۔یاد رکھو گی ۔
    ایئرپورٹ پر بہت سارے لوگ اُن کے منتظر تھے ۔۔ امی‘ ابو‘ رامین‘ جبران ۔۔ ارحم ، شہریار ۔۔ وہ آج بھی اُن سب کے
    لیے پہلے جیسی اہم تھی ۔۔۔اور معتبر بھی ۔
    دنیا کی ٹھوکریں کھا کر بالاخر اولاد واپس وہیں پلٹتی ہے ۔ جو ماں باپ بچپن سے سکھا اور سمجھا رہے ہوتے ہیں لیکن عقل تبھی آتی ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے ۔۔ذلت ، تنہائی اور زمانے کی ٹھوکریں مقدر میں لکھ دی گئی ہوں ۔ تو کیا کیجیے ۔۔ وہ لوٹ تو آئی تھی ۔ ۔ مگر آگے بڑھ کر گلے لگنے کی ہمت نہیں تھی ۔
    اولاد نکمی ہو یا ہونہار ۔۔کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر لوٹی ہو۔۔ یا ٹھوکریں کھا کر ۔۔ والدین کے لیے وہ صرف اُن کی
    اولاد اُن کے وجود کا ایک بچھڑا حصہ ہوتی ہے ۔اپنی آخری سانس تک وہ بازو وا کیے ۔ منتظر رہتے ہیں کہ طویل مسافتوں سے تھک کر مسافر اُن کی آغوش میں دم لینے کو ضرور پلٹے گا ۔۔ منتہی ٰ کے لیے بھی بازو و اکیے ماں بھی منتظر تھی اور باپ بھی ۔
    اور پھر آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ ارحم اور شہریار نے بہت دکھ اور حیرت سے ارمان کو
    دیکھا ۔۔ یہ ٹوٹی پھوٹی آنسو بہاتی لڑکی ۔۔ یہ کون تھی ۔۔؟؟۔
    یہ منتہیٰ دستگیر تو نہ تھی ۔۔ جسے ارحم آئرن لیڈی کہا کرتاتھا ۔
    اگرچہ طویل فلائٹ میں منتہیٰ نے صرف آرام ہی کیا تھا ۔۔ جس سے ارمان خاصہ بور ہوا تھا ۔۔ پھر بھی دادی کی گود میں سر رکھتے ہی وہ یوں بے فکر ہو کے سوئی کہ مغرب پر رامین نے اُسے جھنجوڑ کر اٹھایا۔
    آپی اٹھیے ۔۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ۔۔؟؟
    ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔ ویسے ہی تھکن ہو رہی تھی ۔۔منتہیٰ نے کیچر میں اپنے لمبے بال سمیٹے ۔
    مینا !اب اٹھ بھی جاؤ ۔ امی کمرے میں چائے کا کپ لے کر داخل ہوئیں ۔۔شادی کا گھر ہے ۔۔ پہلی ہی دسیوں کام ادھورے
    پڑے تھے ۔ اوپر سے تمہارے یہ جلد بازی کے فیصلے ۔۔ امی نے اُسے پیار بھری ڈانٹ سنائی ۔ عا صمہ بہت خوش تھیں
    جی امی! آپ فکر مت کریں میں رامین کے ساتھ سب کروا لوں گی ۔۔ اُس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔
    اچھا ۔۔ رامین کی شادی کے کارڈ تو چھپ کر آگئے ہیں ۔ اب تمہارے ابو اور دے آئے ہیں ۔تین چار دن میں مل جائیں
    گے ۔۔ امی نے اُسے مطلع کیا ۔
    اور کارڈ کیوں امی ۔۔؟؟؟ منتہیٰ چونکی
    ارے امی ۔۔آپ چولہے پر کچھ رکھ کر آئی ہیں ۔۔ دیکھیں جلنے کی بو آرہی ہے ۔۔ رامین کو تو جیسے پتنگے لگ گئے تھے
    مجھے تو نہیں آ رہی ۔۔۔۔ امی نے برا سا منہ بنا یا ۔
    ارے امی جا کر تو دیکھیں ۔۔میں آپی کو شادی کے کپڑے دکھا تی ہوں ۔۔ رامین نے ماں کو راہ دکھائی ۔
    رامین یہ امی کون سے کارڈز کی با ت کر رہی تھیں ۔۔؟؟ ۔۔منتہیٰ کی سوئی وہیں اٹکی رہ گئی تھی ۔
    وہ آپی ۔۔ رامین نے سر کجھایا ۔۔ ہاں وہ ۔۔ کارڈز کم پڑ گئے ہیں نہ۔۔ اب آ پ بھی تو اپنے فرینڈز کو انوائٹ کریں گی ۔
    تو ابو اور کارڈ چھپنے دے آئے ہیں ۔
    میں کس کو انوا ئٹ کروں گی ۔۔؟؟۔۔ منتہیٰ نے غائب دماغی سے سوچا ۔
    آپی میں ذرا ایک کال کر آؤں پھر آکر آپ کو ڈریسز دکھاتی ہوں ۔۔ رامین باہر لان تک آئی اور ارمان کا نمبر پنج کرنے لگی
    امی نے ڈنر پر خاصہ تکلف کیا ہوا تھا ۔ ڈنر سے فارغ ہوکر وہ بیٹھے ہی تھے کہ ڈور بیل بجی ۔ منتہیٰ چونکی اِس وقت ۔۔کون؟؟۔
    پھر آنے والوں کو دیکھ کر ایک لمحے کو اپنی جگہ ساکت ہوئی ۔۔ پتھرائی ۔۔ ڈاکٹر یوسف کاسامنا کرنے کا حوصلہ اب تک اُس
    میں نہیں تھا۔۔ اُن کے ساتھ مریم اور ارمان بھی تھے ۔
    منتہیٰ نے بمشکل خود کو سنبھال کر سلام کیا ۔۔۔ مریم ہی نہیں ڈاکٹر یوسف نے بھی ایک بہت گہری نظر منتہیٰ کی حالت پر ڈالی۔
    اور پھر اپنے دیوانے بیٹے پر ۔
    تھوڑی سی دیر بیٹھ کر وہ اٹھ آئی ۔۔ اور اُس کے پیچھے رامین بھی ۔۔ آپی پھر کل میرے ساتھ چل رہی ہیں نہ شاپنگ پر ۔۔ رامین
    کی اپنی تیاریاں ہی کیا کم تھی کہ اب اُسے بہن کی مدد بھی کرنی تھی ۔

    ***********

    منتہیٰ کے جواب دینے سے پہلے دستک ہوئی۔۔ دروازے کے عین وسط میں ارمان سینے پر ہاتھ باندھے ایستادہ تھا ۔
    رامین لپک کر اُس کے سر پر پہنچی ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔؟؟ شرارت سے کمر پر ہاتھ رکھ کر اُس نے ارمان کا راستہ
    روکا ۔
    میں آنٹی اور انکل سے اجازت لے کر آیا ہوں رامین بی بی ۔۔ ارمان اُسے پرے دھکیلتا ۔۔اندر آیا
    منتہیٰ میں یہ اپنی شادی کا کارڈ آپکو دینے آیا تھا ۔۔ اُس نے قریب آکر ایک گولڈن اور میرون امتزاج کا خوبصورت سا
    کارڈا س کی طرف بڑھایا ۔
    ایک لمحے کو منتہیٰ کے ہاتھ کانپے تھے ۔۔ صرف ایک لمحہ۔ تھینک یو ۔۔ کب ہے آپکی شادی ۔۔؟ پھر وہ خود کو سنبھال چکی تھی ۔
    وہ آپ خود پڑھ لیں ۔۔ ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    ہاں آپی دیکھیں نہ کیسا ہے جناب کی شادی کا کارڈ ۔۔ رامین نے دوبارہ کارڈ اُسے تھمایا ۔۔ جو اَب سائڈ ٹیبل پر دھرا تھا ۔
    کیسا ہونا ہے۔۔؟؟ جیسے ویڈنگ کارڈ ہوتے ہیں ویسا ہی ہو گا ۔۔ انہوں نے کیا اپنا انسائکلو پیڈیا پبلش کروا یا ہوگا ۔؟؟
    منتہیٰ نے برا سا منہ بنا کر کارڈ دوبارہ تھاما۔
    ہاں میں نے سوچا کہ ۔۔ بندہ زندگی میں ایک ہی دفعہ شادی کرتا ہے تو کوئی یونیک سا کارڈ‘ کوئی منفرد ساآئیڈیا ہونا
    چاہیے۔۔ارمان کے لبوں بہت دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔
    اِس دشمنِ جاں کے منہ سے اُس کی شادی کا ذکر اور پھر ۔۔ یہ گہری مسکراہٹیں۔۔ منتہیٰ نے بہت سے آنسو اندر اتار کرکارڈ کھولا ۔
    اور پھر زمین گھومی تھی ۔۔ یا آسمان ۔۔ وہ خواب میں تھی ۔۔ یا جاگتے میں خواب دیکھنے لگی تھی ۔۔ اُس نے ایک دفعہ آنکھیں مسل
    کر بغور کارڈ کو اور پھر حیرت سے ساتھ بیٹھی رامین کو دیکھا ۔
    بہت بہت مبارک ہو آپی ۔ ارمان بھائی آپ کے تھے اور آپ کے ہی رہیں گے ۔ رامین نے اُس کے گال چومے۔۔ کمرے
    سے رفو چکر ہوتے وقت وہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتی گئی تھی ۔
    ارمان آہستہ آہستہ کارپٹ پر قدم دھرتا اُس کے پاس بیڈ تک آیا ۔۔لیکن منتہیٰ ابھی تک گنگ بیٹھی تھی ۔
    کیا واقعی اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا تھا ۔۔ ارمان سمیت اُن تمام نعمتوں کی نا شکری پر جو وہ آج تک کرتی چلی آئی تھی ۔
    نیک مرد نیک عورتوں کے لیے اور نیک عورتیں ، نیک مردوں کے لیے بنائی گئی ہیں وہ نیک نہیں تھی پھر بھی نوازی جارہی تھی ۔
    "منتہیٰ”۔ ارمان نے بہت نرمی سے اُس کے ہاتھ تھام کر اسے پکارا ۔۔۔ اور منتہیٰ کو لگا تھا کہ اُ سے ارمان نے نہیں ۔۔ زندگی
    نے پکارا تھا ۔۔ وہ اُس کے روٹھے نصیب کی پکار تھی ۔۔آنسو کا ایک سیلاب تھا جو اُس کی کجراری آنکھوں سے نکل کر ارمان کے
    شرٹ کو بھگوتا چلا گیا ۔
    دروازے پر ہوتی مدھم سی دستک ۔۔ جیسے دونوں کو حال میں واپس لائی ۔۔منتہیٰ، ارمان کے بازوؤں سے تیزی سے نکل کر
    پیچھے ہٹی ۔۔ اورارمان بھی جیسے کسی خواب سے جاگا ۔
    رامین ہاتھ میں کافی کی ٹرے لیے اندر آئی ۔۔ تب تک وہ دونوں خودکو سنبھال چکے تھے ۔
    شکر کریں ۔۔ عین وقت پر میں نے امی کو روک لیا ۔۔ وہ کافی لے کر آرہی تھیں ۔۔ رامین نے ساری سچویشن سمجھتے ہوئے دونوں
    کو چھیڑا ۔۔منتہیٰ کے گال شہابی ہوئے۔
    شکر کیوں کریں۔۔ ہمیں پتا تھا باڈی گارڈ باہر ہی ہوگا ۔۔ ارمان کچھ کم ڈھیٹ نہیں تھا،
    اچھا زیادہ باتیں مت بنائیں ۔۔ جلدی سے کافی ختم کر کے یہاں سے نکلیں ۔۔ دادی ناراض ہو رہی ہیں آپ کے آنے پر ۔۔
    شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ۔۔؟؟
    رامین بی بی۔میں سب بڑوں کو بتا کر آیا تھا کہ منتہیٰ سے بک کے فائل لینی ہے ۔۔ تاکہ پبلشر سے بات کر سکوں ۔
    وہ تو ٹھیک ہے ۔۔ لیکن اگر اُن کو پتا لگ جائے نہ کہ آپ نے اُن کی لاڈلی کو کیسے ستایا ہے ۔۔ تو آپ کی خیر نہیں۔
    اُن کی لاڈلی نے بھی دوسروں کو کچھ کم دکھ نہیں دیئے سو تھوڑا حق میرا بھی بنتا تھا ۔ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ مگ
    کے کناروں کو گھورا ۔۔کمرے میں یکدم گمبھیر خاموشی چھا گئی۔
    ارمان نے تیزی سے کافی ختم کر کے مگ رامین کو تھمایا ۔۔پھر چند قدم چل کر منتہیٰ کے بیڈ تک آیا ۔ جس کا سر ندامت سے جھکا
    ہوا تھا ۔۔ ارمان نے اُس کی تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا۔
    تو پھر آپ آ رہی ہیں نہ میری شادی پر ۔۔؟؟ اس کی آوا زہی نہیں ۔۔ نگاہوں میں بھی بے پناہ شرارت تھی ۔
    کمرے میں رامین کا اونچا قہقہہ گونجا ۔۔ بہت سی آزمائشوں ، کٹھن اور طویل انتظار کے بعد وہ ایک ہونے کو تھے۔۔’’کیونکہ
    وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے تھے ۔”

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    Cosmology in the light of Holy Quran

    بہت سوچ کر منتہیٰ نے اپنی کتاب کا نام تجویز کیا تھا ۔۔ اور اب وہ ایڈیٹنگ کے آخری مراحل میں مصروف تھی۔۔ سینٹرٹیبل پر فائل اور پیجز بکھرے پڑے تھے ۔۔ تھک کر منتہیٰ نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔۔ کچھ سوچتے ہوئے ریموٹ تھام کر ٹی وی آن کیا ۔۔ پھر چینل پر چینل تبدیل کرتی گئی ۔ ایک سائنس چینل پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی کسی انٹر نیشنل کانفرنس کو لا ئیو دکھا نے کی فوٹیج چل رہی تھی ۔
    ’’ دنیا کے ذہین ترین افراد نیو یارک میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ۔۔ سر جوڑے بیٹھے تھے ۔ان کے پاس وسائل تھے ، کچھ کر دکھانے کا عزم بھی تھا ۔لیکن اُنکے پاس کمی تھی تو صرف ایک چیز کی ۔۔ اِس اعتراف کی ۔۔کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ زمین انسان کو جنت بنا کر عطا کی تھی ۔لیکن اِسے جہنم کا نمونہ اُس نے خود بنایا ہے۔۔ سپر پاورز اور جی ایٹ کے اِن مما لک نے جو آج انسانیت کےنا خدا بنے بیٹھے ہیں ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    چند یورپی شرکاء کے بعد سٹیج پر آکر مائک سنبھالنے والا ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ ڈارک بلیک سوٹ ، بلیو لائنر ٹا ئی ، آنکھوں پرنفیس فریم کا چشمہ ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ سکرین زوم کی ۔۔ اس کو اتنے دن بعد دیکھنا کتنا اچھالگ رہا تھا ۔۔ وہ پہلے سے زیادہ گریس فل ہو گیا تھا ۔۔
    "میں ایک ایسے خطے سے تعلق رکھتا ہوں جہاں کے باسیوں کی سوچ صدیوں سے یہ چلی آرہی ہے کہ قدرتی آفات ہمیشہ انسان کے برے اعمال پر اللہ کا عذاب ہوتی ہیں ۔۔ اپنی اِس سوچ کے مطابق وہ دعا ؤں ، نذر و نیاز ،صدقہ خیرات اوردرود و وضائف کے ذریعے اِن آفات کو ٹالنے کی سعی کرتے ہیں ۔۔ اِس یقین کے ساتھ کہ مجموعی اعمال میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لائے بغیر خدا اُن پر سے نا گہانی بلا کو ٹال دے گا ۔”
    "سات برس قبل جب میں نے ایک چھوٹے سے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کا آغا زکیا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کے میرے لیے سب سے بڑا چیلنج لوگوں کی یہ قدامت پسند انہ سوچ بنے گی ۔ میں نے دیکھا کہ میرے وطن میں جو علاقے سب سے زیادہ قدرتی آفات کی زد پرتھے ۔وہاں کے باسی اپنی اِس سوچ میں اتنے ہی کٹر تھے ۔۔ ایسے لوگوں کا طرزِ زندگی تبدیل کر کے انہیں آفات سے از خود نمٹنے کی سٹر ٹیجی کی طرف لانا جان جو کھوں کا کام تھا ۔۔ بہت بار میرے اور میرے ساتھیوں کے قدم ڈگمگائے ۔۔ کئی دفعہ ہم سب کو اُن کے حال پر چھوڑ کر لوٹنے کو آمادہ ہوئے ۔۔ مگر خدا کو ہما رے  ہاتھوں ایک بڑا کام کروانا منظور تھا ۔۔ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور زہر کا تریاق زہر ہے ۔ میں نے بھی مذہب کا توڑ مذہب سے کیا ۔ہمارے سامنے نبی آخرالزماں محمدﷺ کی عظیم مثال تھی کہ جب وہ تبدیلی کا پیغام لے کر نکلے تو پورا عرب  جہالت کے اندھیروں میں غرق تھا ۔۔”
    "آج کے مسلمان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہُ اس نے محمد ﷺ کے اعجاز سے ظہور میں آنے والے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا ہے ۔ اُس نے کبھی اِسے’’ وژولائز ‘‘کرنے کی کوشش نہیں کی ۔میں نے جانا کہ دیرپا تبدیلیاں استقامت اور  خونِ جگر مانگتی ہیں ۔۔”
    ارمان اِس وقت نیو یارک میں یو این او کے ایک معتبر پلیٹ فارم پرکھڑا تھا ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔ حاضرین پر ایک اچٹتی نظر ڈالی ۔۔جس میں نہ کوئی ڈر تھا نہ خوف ۔۔اور نہ ہی اِن نگاہوں میں سامنے بیٹھے دنیا کے ذہین ترین افرادکے لیے کوئی مرعوبیت تھی ۔۔ وہ مبہوت بیٹھےِ ا س شخص کو سن رہے تھے ۔۔ جو انہیں محمدﷺ کا اصل پیغام بتارہا تھا کہ انقلابات نہ خود کش دھماکوں کے زور پر آتے ہیں ۔۔ نہ توپوں ، ٹینکوں اور مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے بل بوتے پر۔

    "انقلاب نام ہے دلوں کی تسخیر کا ۔۔”

    ہم نے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، دیہاتوں میں ٹریننگ کیمپس لگائے ۔۔ آگاہی کی مہم چلائیں ۔ اپنی راتوں کی نیندیں حرام کرکے کبھی سیلاب، کبھی طوفان کی قبل از وقت وارننگ جاری کر کے بر وقت لوگوں کا انخلا کروایا۔
    زلزلے کے شدید جھٹکوں کے بعد ہم اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کبھی آرمی کے ساتھ اور کبھی ان سے بھی پہلے لوگوں کی مدد کو پہنچے ۔۔اور بعد کی
    آبادکاری میں ااپنا مؤثر کردار ادا کیا ۔۔یقیناًہم لوگوں کی سوچ مکمل طور پر اب تک تبدیل نہیں کر پائے ۔وہاں کوئی ہمیں دیوتا سمجھتا ہے تو کوئی اپنا مسیحا ۔۔لیکن ہماری جدوجہد ہر طرح کے ٹائٹلز سے ماوراء تھی۔
    آج آپ پاکستان میں جاکر دیکھیں تو آپ کو ہر علاقے میں اسکا اپنا ڈیزاسٹر سینٹر ملے گا ۔۔ جو نا صرف جیو سینسنگ اور کمپیوٹر کی تمام سہو لیات سے پوری طرح آراستہ ہے ۔ بلکہ اُسے وہاں کے مقامی افراد اپنے طور پر خود چلاتے ہیں ۔اِس سے وہاں لوگوں کو بہتر روزگار میسر آیا ۔۔ اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر بھی قابو پانے میں مدد ملی ۔۔
    آج شمالی علاقہ جات کا غیور پٹھان دوست اور دشمن میں فرق کی تمیز رکھتا ہے ۔۔ وہ پاک فوج کے ساتھ کھڑا اپنی سرحدوں کا محافظ ہے ۔۔ اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کا کھیل رچانے والوں کی گلی سڑی لاشوں کو گدھ نوچ کر کھا چکے ہیں۔۔ یقیناًہمارا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ۔۔جب تک پاکستان کا ہر شہری اپنے طور پر نا گہانی آفات سے نمٹنے کی اہلیت حاصل نہیں کر لیتا ہمارا مشن جاری رہے گا ۔۔
    منتہیٰ نے قریب جا کر حسرت سے سکرین کو چھوا ۔۔۔ رامین نے کہا تھا ۔۔ آپی وہ ایک دفعہ ضرور آئیں گے ۔۔ارمان نیو یارک میں تھا ۔۔۔ بہت قریب ۔۔ کیا وہ آئے گا ۔۔۔؟؟؟؟

    ************

    "تو آخر تم جیتے ۔۔اور میں ہارا ۔۔”
    درِ محبوب پر دستک سے پہلے ۔۔ارمان نے اپنے باغی دل کو مخاطب کیا ۔ لاکھ پہرے ڈالے ۔ زنجیریں پہنائیں لیکن بے سود ۔۔ آخر تمہیں رامین کی غلط فہمی بھی تو دور کرنی ہے۔۔ بے ایمان دل نے ایک اور عذرِ ناتواں تراشا ۔۔ ارمان نے سر جھٹک کر کوئی دسویں دفعہ بیل کی ۔۔ وہ جانتا تھا کہ منتہیٰ کے در۔ دیر سے ہی وا ہوا کرتے ہیں ۔۔ چند منٹ بعددروازے کے دوسری طرف آہٹ سنائی دی ۔۔ پھرڈور آئی سے کسی نے جھا نکا ۔۔ دروازہ کھلنے پر ارمان پلٹا ۔۔
    دونوں کی نظریں ملیں ۔ وقت کی چال تھمی ۔۔ سانسیں ساکت ہوئیں ۔ اور پھر ۔۔ وہ دونوں ہی حقیقت کی دنیا میں لوٹ چکے تھے ۔

    ہم کے ٹہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
    کب بنیں گے آشنا کتنی مدا راتوں کے بعد

    منتہیٰ نے راستہ چھوڑا ۔۔ آئیے ۔۔
    ارمان فلیٹ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ڈرائنگ روم تک آیا ۔۔ نینسی موجود نہیں تھی ۔۔ پھر مڑ کر اُس دشمنِ جاں کو دیکھا ۔۔اس کی چال کی لنگڑاہٹ نوٹ کی ۔۔ قریب ہی جا نماز بچھی تھی ۔۔ شاید منتہیٰ نماز پڑھ رہی تھی ۔۔بیٹھیے ۔۔اُس کی آوا ز اتنی مدھم تھی ۔۔ کہ ارمان کو بمشکل سنائی دی نہیں ، میں پہلے نماز پڑھو نگا ۔۔ کیا میں وضو کر سکتا ہوں ۔۔؟؟
    منتہیٰ نے کچھ کہے بغیر اُسے واش روم کا راستہ دکھایا ۔۔ اور خود کچن میں کافی بنانے چلی آئی ۔۔
    کیا دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں ۔۔؟؟ ۔کل سے اُسے دیکھ کر لبوں پر بس ایک ہی دعا تھی ۔۔۔ اور وہ آگیا تھا ۔
    ارمان نے سلام پھیر کر سجدے کی جگہ کو انگلیوں سے چھوا ۔۔ آدھی جا نماز گیلی تھی ۔آنسوؤں سے ۔۔ وہ کب سے رو رہی
    تھی ۔۔ ؟؟۔دکھ سے سوچتے ہوئے ارمان نے گیلی جا نماز فولڈ کی ۔
    کیسی ہیں آپ ۔۔؟؟ کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے ارمان نے اُسے بغور دیکھا ۔۔ سوجی متورم آنکھیں گواہ تھیں کہ تازہ برسات ہوئی تھی۔

    تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
    تھیں بہت بے مہر صبحیں مہر باں راتوں کے بعد

    ٹھیک ہوں ۔۔ مختصر جواب دے کر منتہیٰ سینٹر ٹیبل پر پھیلے پیجز اور فائل سمیٹنے کے لیئے اٹھی ۔۔ پھر لڑکھڑائی ۔۔ کل سے وہ سب کچھ
    ویسا ہی پڑا تھا ۔
    آپ بیٹھیے میں سمیٹتا ہوں ۔۔ ارمان کافی کا مگ ہاتھ سے رکھ کر اٹھا ۔۔ پھر پیجز کو فائل میں لگاتے ہوئے چونکا ۔۔ قرآنِ پاک کی
    آیات بمع تفاسیر تھیں۔۔ یہ آپ کوئی کتاب لکھ رہی ہیں کیا ۔۔؟؟
    جی ۔۔ بس ایک چھوٹی سی کوشش کی تھی ۔۔۔ اب مکمل ہونی والی ہے ۔
    اچھا ۔۔پھر کوئی پبلشر ڈھونڈا ۔۔؟؟ارمان کی دلچسپی بڑھی ۔۔ وہ جانتا تھا ۔۔ منتہیٰ ایک بہترین رائٹر ہے ۔
    نہیں ۔۔ یہ شائع نہیں کروانی ۔۔ بس یونہی لکھی ہے ۔
    ارمان نے اُسے بغور دیکھا ۔۔ وہ پہلے کی نسبت کچھ مزید کمزور، زرد ۔۔اور بجھی بجھی سی تھی ۔
    میں یہاں ایک کانفرنس کے سلسلے میں آیا تھا ۔۔ سوچا آپ سے مل لوں ۔۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ۔۔ اُسے اب بھی بہت فکر تھی ۔ نہیں۔۔ جھکی نظروں کے ساتھ پھر مختصر جواب آیا ۔۔ ایک لمحے کو سکارف درست کرنے کے لیئے منتہیٰ دایاں ہاتھ سر تک لے کرگئی ۔۔ ارمان کی نگاہیں اپنی جگہ منجمد ہوئیں ۔
    منتہیٰ کی نازک سی کلائی میں ارمان کا دیا ہوا بریسلٹ تھا ۔۔
    یہ اعزاز ملا بھی تو کب ۔۔؟؟ جب اُن کے درمیان ۔۔ صدیوں کے فاصلے تھے ۔۔ اور فاصلوں سے اونچی اَنا کی دیوار حائل تھی ۔
    کیا میں اِسے ساتھ لے جاسکتا ہوں ۔۔؟؟ اٹھتے ہوئے ارمان نے منتہیٰ سی اسکی بک فائل لے جانے کی جازت چاہی ۔ میں دو تین دن تک یہیں ہوں ۔۔ نئے سال کی تقریبات کے وجہ سے تمام فلائٹس بک ہیں ۔۔میں جاتے ہوئے آپ کو واپس کرجاؤں گا۔
    اُس کے بے ایمان دل نے اٹھتے ہوئے بھی دوبارہ حاضری کا بہانا تراش لیا تھا ۔۔
    ہوٹل پہنچ کر ارمان نے کافی کے سپ لیتے ہوئے منتہیٰ کے پاس سے لائی فائل پڑھنا شروع کی ۔۔۔ اور پھر صبح تک ایک ہی نشست میں وہ کتاب ختم کر چکا تھا ۔۔ منتہیٰ کی صلاحیتیں ایک بڑے حادثے سے گزرنے کے بعد کچھ اور کھل کر سامنے آئی تھیں ۔۔ ’’ جب غرور کا بت ٹوٹ جائے ۔۔ تو اندر سے نکھرا ، اُجلا اور ہر حال میں اپنی اوقات یاد رکھنے والا انسان اللہ کا عاجز بندہ باہر نکل آتا ہے ۔۔”
    ارمان شام کو اپنے ہوٹل سے نکلا ۔۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گالے گرنے لگے تھے ۔۔ اور جاتے سال کے آخری سورج نے غروب ہونے سے بہت پہلے ہی ۔۔اپنا چہرہ چھپا لیا تھا ۔۔ دکھوں اور کڑی آزمائشوں پر محیط زندگی کا ایک سال ختم ہونےکو تھا۔وہ فیصلہ کر کے نکلا تھا کہ منتہیٰ کو اِس کتاب کی پبلشنگ پر ضرور قائل کرے گا ۔
    کل کی نسبت منتہی آج قدرے بہتر حالت میں تھی ۔۔
    "آپی آپ کو بہت مس کرتی ہیں ‘‘۔۔ کانوں میں رامین کے کہے الفاظ گونجے
    کافی دیر کی بحث کے بعد منتہیٰ کتاب کو شائع کرانے پر راضی ہوئی تو ارمان سکون کا سانس لیتے ہوئے جانے کے لیے اٹھا ۔۔
    پبلشنگ کی تمام ذمہ داری وہ پہلی ہی لے چکا تھا ۔۔
    ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اُسے پکارا ۔۔ وہ ٹھٹک کر پلٹا ۔۔ اِس پکار میں کچھ تھا ۔۔
    ارمان۔۔ آ۔۔آپ ۔۔ وہ اٹکی ۔۔
    کیا بات ہے منتہیٰ۔۔؟؟ وہ براؤن جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پوری طرح اُسی کی طرف متوجہ تھا ۔۔
    ارمان۔۔ آپ مجھے بھی پاکستان ساتھ لے جائیں ۔۔ منتہیٰ نے پھولی سانسوں کے ساتھ بمشکل اپنی بات مکمل کی ۔
    ایک لمحے کو ساری دنیا گھومی ۔۔ کئی مدار بدلے گئے تھے ۔۔ یہ لرزتی پلکیں ، یہ کپکپاتے لب۔۔، یہ کانپتے ہاتھ ۔۔ وہ کیا کہناچاہ رہی تھی ۔۔۔؟؟ ارمان کا دل یکدم بہت زور سے دھڑکا تھا ۔
    دبے پاؤں بہت سے لمحے سرکے ۔۔ کچھ ساعتیں گزریں ۔۔ پھر ارمان خود کو سنبھال چکا تھا ۔۔
    لیکن آپ تو ایم آئی ٹی جوائن کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔۔ پھر ناسا مشن ۔ ۔۔آپ کا خواب تھا ،، اُسے بھی تو پورا کرنا ہے آپ نے ۔۔ ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ چوٹ کی ۔
    اور لوہا شاید کچھ زیادہ ہی گرم تھا ۔۔بھاڑمیں جائیں خواب ۔۔ مجھے صرف اپنے وطن ۔ اپنی مٹی میں واپس جانا ہے ۔۔ اپنے پیاروں کے پاس ۔۔۔ ناسٹالجیا کا اٹیک شدید تھا ۔۔ آنسوؤں کی جھڑی لگی ۔
    ارمان نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے۔۔ کہ اس کا سیل تھر تھرایا ۔
    ممی کالنگ ۔۔وہ ایکسکیوز کرتا ہوا راہداری تک آیا۔۔ کال ریسیو کرنے سے پہلے وہ ایک فیصلہ کر چکا تھا ۔
    بہت دیر تک چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ۔۔ منتہیٰ روتی رہی ۔۔ پھر اُسے یکدم ارمان کا خیال آیا ۔۔ وہ چلا تو نہیں گیا ۔۔ وہ تیزی سے لپکی ۔۔ ارمان کی آوازپر اُس کے بڑھتے قدم تھمے۔
    جی پاپا ۔۔ بس آپ کل ہی جا کر انکل سے بات کر کے تاریخ رکھ آئیں۔۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ۔
    آہٹ پر چونک کر پلٹاپھر جلدی سے خدا حافظ کہہ کر کال کاٹی۔
    سوری ممی کی باتیں ہی ختم نہیں ہو رہی تھیں ۔۔ آپ ساتھ چلنا چاہتی ہیں ۔تو موسٹ ویلکم ۔۔۔ خوش دلی سے جواب دے کر وہ دروازے کی طرف بڑھا ۔
    ارمان۔۔اُس کے بڑھتے قدم ایک دفعہ پھر تھمے ۔۔ وہ مڑا  ارمان آپ یوسف انکل سے کون سی تاریخ رکھنے کی بات کر رہے تھے ۔۔ ؟؟منتہیٰ کی سوئی کہیں اور اَٹکی رہ گئی تھی وہ ٹھٹکا ۔۔ بمشکل تھوک نگلتے ہوئے گویا ہوا ۔۔ وہ منتہیٰ۔۔ دراصل ممی مجھے اب بالکل بھی ٹائم دینے کے لیے تیار نہیں ۔۔ وہ میری واپسی کے چند ہفتے بعد ہی کی کوئی شادی کی تاریخ رکھ دیں گی ۔
    آپ شادی کر رہے ہیں ۔۔۔؟؟ منتہیٰ کو لگا جیسے کسی نے سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔کئی ماہ پہلے ایک ایسا وقت ارمان پر بھی آیا تھا ۔ لیکن کس سے ۔۔؟؟
    وہ بس ممی ،پاپا کی جاننے والی کوئی فیملی ہے ۔۔ اچھا میں چلتا ہوں ۔ اللہ حافظ
    بظاہر بہت عام سے لہجے میں بتا کر ارمان جا چکا تھا اور منتہیٰ وہیں راہداری میں دیوار سے ساتھ بیٹھتی چلی گئی تھی ۔

    جاری ہے
    ************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
    نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
    نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

    آپی یہ جبران کے بڑے بھائی ہیں ۔۔ یہ ان کا بھتیجا ہے ۔۔ رامین منتہیٰ کو اپنے نکاح کی پکچرز دکھاتے ہوئے ساتھ ساتھ بتاتی جا رہی تھی ۔۔ اس کے چہرے پر شفق رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔۔ منتہیٰ نے غور سے اُسے دیکھا ۔۔ نکاح کے بعد وہ پہلے سے زیادہ پیاری ہو گئی تھی ۔۔بات بات پر کھلکھلاتی ۔۔ آنکھوں کے جگنو روشنیاں بکھیرتے ۔۔ کیا محبت واقعی عورت کا روپ بڑھا دیتی ہے ۔۔؟؟ چھوٹی چھوٹی با توں کو اب وہ پہروں بیٹھ کے سوچتی تھی ۔۔ کیونکہ
    اب سوچنے کے لیے وقت ہی وقت تھا۔ ڈاکٹر جبران ٹیکساس میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مقیم تھا ۔۔ رامین اور جبران کا یہیں سے اسپیشلائزیشن کا ارادہ تھا ۔۔آپی ، آپ کو جبران کیسے لگے ۔۔؟؟۔ رات رامین نے اُس کے پاس بستر میں گھس کر کر پوچھا ۔۔؟ جبران وہاں سے تھوڑی دیرپہلے ہی گیا تھا ۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    ذہین ‘ سمارٹ اور ڈیسنٹ۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ٹو دی پوائنٹ جواب ۔
    اف۔۔ آپی ۔۔ اچھا یہ بتائیں ہمارا کپل کیسا ہے ۔۔؟؟
    بہت پیارا ۔۔۔ منتہیٰ نے بچوں کی طرح اُس کے گال تھپتھپائے ۔۔ وہ کہیں اور گُم تھی ۔
    ارمان بھائی کی کال نہیں آئی کیا ۔۔ جو آپ اتنی کھوئی کھوئی سی ہیں ۔۔؟؟ رامین نے اُسے چھیڑا
    منتہیٰ نے تیزی سے اپنا رُخ پھیرا ۔۔ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔۔ اُس دشمنِ جاں کے ذکر پر بہت سے سوئے زخم جاگے ‘ جب سے گیا تھا ۔۔ پھر رابطہ ہی نہیں کیا ۔۔۔ یاد تو آنا تھا ۔۔

    نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
    نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
    تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
    مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
    مرے ہم راہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
    تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں

    کچھ سوچتے ہوئے رامین نے کمرے کی لائٹس آف کیں اور باہر لاؤنج میں آکر ۔۔ ارمان کا نمبر پنچ کیا ۔
    ارمان آفس میں بے انتہا مصروف تھا ۔۔ بیل جاتی رہی ۔۔۔ کافی دیر بعد اُس نے کال ریسیو کی
    ہیلو رامین! خیریت ہے نا ۔۔ منتہیٰ ٹھیک ہیں ۔۔؟؟
    اُوہ ۔ہو۔۔ نہ سلام ۔۔ نہ دعا ۔۔ بڑا خیال ہے لوگوں کا ۔۔ آخر ہم بھی آپ کے کچھ لگتے ہیں ۔۔؟؟ ۔رامین نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
    ارمان نے ریلیکس سا ہوکر چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔ آپ کے بہت کچھ لگتے وہیں قریب ہی ہیں آپ کے پاس ۔ یہ بتاؤ کال کیوں کی ہے ؟۔
    ہمم۔۔۔ پہلے آپ یہ بتائیں آپی کو کب سے کال نہیں کی آپ نے ۔۔؟؟
    کال میں کرتا رہتا ہوں ۔۔ کیوں کیا مسئلہ ہے ۔۔ اس نے گول مول جواب دیا
    وہ کئی دن سے بہت اُداس رہتی ہیں اور گُم صم بھی ۔۔
    طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا ان کی ۔۔؟؟ ۔۔تم ڈاکٹر کے پاس لےکر جاؤ ۔۔ جبران کو بلا لو ۔۔
    اُن کا ڈاکٹر تو پاکستان میں بیٹھا ہے ۔۔۔ وہ آپکو مِس کرتی ہیں۔۔ پلیز انہیں کال کر لیں ۔۔
    رامین خدا حافظ کہہ کر کب کی کال کاٹ چکی تھی ۔۔ مگر ارمان اُسی طرح سیل ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا ۔۔
    رامین کو یقیناًکوئی بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔ سر جھٹک کر وہ دوبارہ کام میں مصروف ہو چکا تھا ۔۔

    تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
    تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
    وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
    اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
    چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

    ************

    ’’ خدا کے قوانین اِس زمین تک محدود نہیں ہیں ، یہ ساری کائنات میں جاری و ساری ہیں۔۔زمین اور اجرامِ فلکی کی پیدائش بھی اُسی خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، نیز وہ ذی حیات آبادیاں جو اللہ نے زمین اور آسمانی کروں میں  پھیلا رکھی ہیں ۔یہ آبادیاں اس وقت تو الگ الگ ہیں ۔۔لیکن خدا اِس پر قادر ہے کہ ان کو باہم ملا دے‘‘۔

    (سورۂ الشوریٰ)

    ہر انسان قرآن کو اپنی اپنی علمی سطح کے مطابق سمجھتا ہے ۔۔ ۔ اللہ تعالی ٰ نے اگر قرآن پاک صرف چومنے ، سپارے پڑھنےیا معاشرتی زندگی کے قوانین سمجھانے کے لیے اتارا ہوتا تو پھر اتنی دقیق آیات کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جس  طرح اِس آیت کی تشریح کی گئی ہے وہ متجسس ذہنوں پر آگہی کے نئے در وا کرتی ہے ۔ منتہیٰ قرآنِ پاک کی فلکیات سے متعلق تمام آیات اور ان کی ہر طرح کی تشریحات کو اکھٹا کر کے ایک کتاب لکھنے میں مصروف تھی ۔۔ اب اس کا سارا دن لیپ ٹاپ پرگزرتا ہے ۔

    ایک بہتے دریا کے بہاؤ کو اگر روک دیا جائے تو وہ یقیناًدریا نہیں رہتا بلکہ جھیل بن جاتا ہے ۔۔ جس کا اپنا علیحدہ حسن ہوتا ہے ۔۔ جینے کی لگن رکھنے والے ہر حال میں جینے کا ڈھنگ سیکھ لیتے ہیں ۔۔ سو اپنی مستقل مزاجی سے پتھر میں سوراخ کرکے منتہیٰ نے بھی اپنے لیئے راستہ بنا لیا تھا ۔۔ ناسا کے انسٹرکٹر زکے لیے وہ اب کسی کام کی نہیں تھی ۔۔ وہ اپنے ریسرچ پراجیکٹ کے لیے اُس کے صحت یاب ہونے کا طویل انتظار نہیں کر سکتے تھے ۔ ۔البتہ ایم آئی ٹی میں اُس کی صلاحیتوں کے معترف اب بھی کم نہ تھے ۔۔ اِس کے با وجود اُس کی بڑھتی ہوئی گمبھیر خاموشی کو رامین نے ہی نہیں جبران نے بھی نوٹ کیا تھا۔۔
    یار رامین۔۔ یہ آپی اور ارمان بھائی کے درمیان آل از ویل ہے ۔۔ نہ۔۔؟؟ ۔۔وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا
    پتا نہیں ۔۔ رامین خود اسی ادھیڑ بن میں لگی تھی۔۔
    تو پتا کرو نہ ۔۔!!! جبران نے اُسے گھورا
    کیسے کروں ۔۔؟؟ وہ دونوں ہی گُھنے ہیں۔
    ایکِ ٹرک ہے۔۔ جبران نے کچھ سوچتے ہوئے چٹکی بجائی ۔۔اور پھر رامین کے کان میں پلان بتانے لگا ۔۔
    واہ ۔۔کبھی کبھی تم بڑی سمجھداری کی بات کرتے ہو ۔۔ یہ مجھے پہلے کیوں نہ سوجھا ۔۔؟؟
    ایکچولی ۔ مسز جبران ۔میں تو ہمیشہ سمجھداری کی باتیں کرتا ہوں لیکن وہ آپ کو سمجھ کبھی کبھی آتی ہیں ۔۔جبران نے کالر جھاڑے
    کیا مطلب میں کم عقل ہوں ۔۔؟؟۔ رامین نے اُسے آنکھیں دکھائیں
    ارے نہیں ۔۔ آپ ایک لائق فائق سمجھدار ڈاکٹر ہیں ۔۔ لیکن میری فلسفیانہ باتیں سب ہی کو مشکل سے سمجھ آتی ہیں ۔۔
    رامین نے ہاتھ میں پکڑا میگزین اُسے کھینچ کر مارا ۔۔ جو بر وقت جھکائی کے باعث کچن کاؤنٹر پر جا لگا ۔۔ رامین کو اب ارمان کی کال کا انتظار تھا ۔۔ مگر ایک ہفتہ گزر گیا اس کی کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔
    ارمان گزشتہ دو روز سے اسلام آباد میں تھا ۔۔ جہاں اُسے آفس کی کچھ میٹنگز میں شرکت کرنا تھی اور پھر ڈاکٹر عبدالحق سے ملاقات طے تھی۔ جو اَب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں چیئرمین کے عہدے پر ترقی پا چکے تھے ۔۔ لیکن سیو دی ارتھ سے اُن کا تعلق ہنوز برقرار تھا ۔۔ وہ آج بھی اُس کے تمام نئے پراجیکٹس میں پہلے کی طرح ہی بھر پور دلچسپی لیا کرتے تھے۔
    دو دن کا تھکا ارمان گھر پر اپنی خیریت کی اطلاع دیکر یوں گھوڑے گدھے بیچ کر سویا ۔۔ کہ پھر دو بجے شدید بھوک سے آنکھ کھلی ۔ہوٹل ریسیپشن پر کھانے کا آرڈر دیکر اُس نے سینٹر ٹیبل پر پاؤں پھیلائے اور سیل پر کال اور میسجز چیک کرنے لگا ۔
    رامین کی کوئی بیس پچیس مسڈ کالز تھیں ۔۔ چونک کر وہ سیدھا ہوا اور کال ملائی ۔۔
    رامین اُس وقت منتہیٰ کو ایکسرسائز کروا رہی تھی ۔۔
    ہیلو ارمان بھائی کہاں غائب ہیں ۔۔؟؟
    وہ بس آفس کی کچھ میٹنگز تھیں ۔۔ تم سناؤ سب خیریت ہے نہ۔۔ منتہیٰ کیسی ہیں ۔۔؟؟
    اُوہ ہو ۔۔۔ فکر تو بہت رہتی ہے جناب کو ۔۔ رامین نے دیدے نچائے ۔ یہ لیں، خود ہی پوچھ لیں ۔۔ اُس نے سیل منتہیٰ کو
    تھمایا ۔۔۔
    ہیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ ۔۔ ارمان نے دل میں رامین کو۔ کوستے ہوئے ۔ بات کا آغاز کیا ۔۔ دو ماہ سے منتہیٰ سے اُسکا کوئی
    رابطہ نہیں تھا ۔۔
    دوسری طرف منتہیٰ کے حلق میں اٹکے آنسوؤں کے گولے نے اُس کی آوا زہی نہیں نکلنے دی ۔۔ منتہیٰ آپ ٹھیک ہیں ۔۔؟؟
    ارمان نے دوبارہ پکارا ۔۔ اُسکا خیال تھا کہ منتہیٰ بات نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔ اب اُس کے پاس خیال رکھنے والے موجودتھے۔۔ اُسے ارمان کی ضرورت نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ ہمیشہ سے صرف ایک ضرورت تھا ۔۔ ۔یہ کڑوی گولی کئی ماہ پہلے ارمان پیل جھیل کے کنارے نگل چکا تھا ۔۔
    جی ۔۔ آنسوؤں پر بند باندھ کر منتہیٰ نے بمشکل جواب دیا ۔۔۔ ارمان نے اُسے معاف نہیں کیا تھا ۔۔اُوکے اپنا خیال رکھیے گا ۔۔ اللہ حافظ ۔۔ ارمان کال کاٹ چکا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اِس اجنبیت پر ۔۔ چہرہ ہاتھ میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر ر و دی تھی ۔۔

    چلو اک بار پھر سے ا جنبی بن جائیں ہم دونوں ۔۔
    نہ میں امید رکھوں تم سے کوئی دل نوازی کی
    نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

    پھر بہت سارے دن یونہی دبے پاؤں گزرتے گئے ۔۔ اِس خاموشی میں پہلا پتھر ۔۔ ارسہ کی آمد نے پھینکا ۔۔ ارسہ کا بیٹا فہام اب ماشاء اللہ دو سال کا تھا ۔۔ اور تین ماہ کی ننھی سی گڑیا علیزے۔۔ دو بچوں کی آمد نے گویا چھوٹے سے فلیٹ کو خو شیوں سے بھر دیا تھا ۔۔
    ’’ایک ہی آنگن کی چڑیاں ۔۔ ساتھ ہنستے کھیلتے ،، لڑتے جھگڑتے ۔۔بڑی ہونے والیاں۔۔دور دیسوں میں جا بستی ہیں ۔۔ پھر جب کبھی لمبی مسافتوں کے بعد ایک چھت تلے جمع ہوتی ہیں تو گویا دھنک کے سارے بچھڑے رنگ مل کر سما باندھ دیتےہیں ۔‘‘
    تینوں مل کر سارا دن گپیں لگاتیں۔۔ جانے کب کب کی اُوٹ پٹانگ باتوں کو یاد کر کے پہروں ہنستیں ۔۔۔
    آپی میری مانیں ۔۔ اب آپ بھی شادی کر لیں ۔۔۔ ایک روز اِرسہ نے منتہیٰ کو ننھی علیزے سے کھیلتے دیکھ کر مشورہ دیا ۔۔
    منتہیٰ کے ہاتھ ایک لمحے کو ساکت ہوئے ۔ پھر اُس نے خود کو سنبھال کر علیزے کو بیڈ پر لٹایا۔۔
    کیوں رامین میں نے صحیح کہا ہے نہ۔۔ آخر ارمان بھائی اور کتنا انتظار کریں گے ۔۔؟؟
    ایک لمحے کو منتہیٰ اور رامین کی نگاہیں ملیں ۔۔ پھر منتہیٰ نے تیزی سے رُخ پھیرا۔
    ارمان جیسے نیک صفت بندے کے لائق تو وہ پہلے بھی کبھی نہیں تھی ۔۔ پھر اب ۔۔اُس نے اپنی بائیں مفلوج ٹانگ کو دیکھا ۔۔
    جس میں حادثے کے چار ،پانچ ماہ بعد بھی دورانِ خون بندتھا۔۔

    تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
    تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
    وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
    اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

    بہت سی کرب ناک راتوں کے بعد اب تقدیر کے فیصلے کو وہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ چکی تھی ۔۔ ارمان یوسف اس کے صبر کا انعام تھا یا نہیں ۔۔؟؟ یہ فیصلہ اب زیادہ دور نہیں تھا ۔۔
    آپی۔۔۔ آپ میری شادی میں آئیں گی نا ۔۔۔؟؟
    اِرسہ کے بعد رامین بھی اب پاکستان رختِ سفر باندھنے کو تھی ۔۔ پاکستان میں اس کی شادی کی تاریخ رکھی جانے والی تھی ۔۔
    ہاں میری جان کیوں نہیں ۔۔ میں کچھ دن پہلے آجاؤں گی ۔۔ منتہیٰ نے پیار سے رامین کے گال چھوئے
    دیکھیں ۔۔ اگر آپ نہیں آئی نہ تو میں کبھی شادی نہیں کروں گی ۔۔۔ رامین نے دھمکایا
    تین دفعہ ’قبول ہے‘ ۔۔ تو تم میرے بغیر کہہ ہی چکی ہو ۔۔ مینا نے اُسے چھیڑا
    ٹھیک ہے ۔۔ پھر آپ دیکھنا ۔۔ میں رخصتی نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔ ہونہہ
    تم نہیں جاؤگی تو۔۔ جبران تمہیں خود ہی اٹھا کر لے جائیگا ۔۔ بہت بے صبرا ہے وہ ۔۔
    رامین کے گال شہابی ہوئے ۔۔ لب مسکرائے ۔۔ پھر اُس نے بہن کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔۔ جی ۔۔ارمان بھائی جیسا
    صبر تو کسی کے پاس بھی نہیں ۔۔
    اُس دشمنِ جاں کے ذکر پر ۔۔ منتہیٰ کی آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔ بیڈ کا سہارا لے کر وہ اٹھی ۔۔ اُسے پیکنگ کرنا تھی
    رامین کے پاکستان روانہ ہونے سے پہلے اسے نینسی کے ساتھ میسا چوسسٹس میں اُس کے فلیٹ منتقل ہونا تھا ۔
    وہ برسوں پہلے ۔۔ آنے والوں دنوں کا فیصلہ کر لینے والی ۔۔ وہ سپیڈ آف لائٹ کے ساتھ سفر کے خواب دیکھنے والی فی الحال اپنے مستقبل کے کسی بھی فیصلے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھی ۔۔ اُسے یقیناًپاکستان ہی واپس جانا تھا ۔۔
    اپنے ادھورےمنصوبے پورے کرنے کے لیے ۔۔ لیکن

    ************

    لنچ ٹائم تھا ۔۔۔ ارمان آفس میں ہی کچھ منگوانے کا سوچ رہا تھا کہ ۔۔ سیل تھر تھرایا ۔۔ رامین کالنگ۔۔
    ہیلو ۔۔ ویلکم بیک رامین ۔۔ کیسی ہو ۔۔؟؟
    ٹھیک ہوں ۔۔ ایسا ہے ارمان بھائی کے آپ کے آفس سے ۲۰ منٹ کی ڈرائیو پر آرکیڈین کیفے ہے ۔۔میں آپ کاوہاں انتظار کر رہی ہوں ۔۔
    سب خیریت ہے نہ ۔۔؟؟ رامین کے انداز پر وہ اَلرٹ ہوا
    بس آپ پہنچیں ۔۔ پھر بتاتی ہوں ۔۔ رامین نے کال کاٹی ۔۔
    پچیس منٹ بعد ارمان نے ریسٹورنٹ میں داخل ہو کر تیزی سے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی ۔۔ اُس کی توقع کے بر خلاف ایک کارنر ٹیبل پر بیٹھی رامین پورے سکون سے سیل پر کینڈی کرش کھیلنے میں مصروف تھی ۔۔
    ایسے کیوں بلایا ہے ۔۔؟؟
    بس بھوک لگ رہی تھی ۔۔ اور پیسے نہیں تھے ۔۔ رامین نے دانت نکالے
    ارمان نے گہرا سکون کا سانس لے کر چیئر کی پشت سے ٹیک لگایا ۔۔ کیوں تمہارے ڈاکٹر جبران کہاں ہیں ۔۔؟
    وہ جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔ کیا آپ مجھے ایک وقت کا اچھا سا لنچ نہیں کروا سکتے ۔۔ چلیں جلدی سے کچھ منگوائیں ۔۔ بھوک سے برا حال ہے ۔۔ رامین نے اُسے آنکھیں دکھا ئیں ۔۔
    ارمان نے ویٹر کو اشارہ کرتے ہوئے محفوظ ہونے والے اندا ز میں اسے بغور دیکھا ۔۔ آخر وہ منتہیٰ کی بہن ہی تھی۔۔
    تمہاری شادی کی تیاریاں کہاں تک پہنچیں ۔۔؟؟ ۔۔ارمان نے نے فرنچ فرائز اپنے پلیٹ میں ڈالتے ہوئے پوچھا
    شادی ۔۔۔ میں سوچ رہی ہوں کہ شادی کچھ عرصے کے لیئے پھر ملتوی کروا دوں ۔۔۔
    واٹ ۔۔؟؟ ۔۔ارمان ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا کیوں ۔۔ کیا مسئلہ ہے ۔۔؟؟
    مسئلہ بہت بڑا ہے ۔۔ اگر آپی میری شادی میں نہیں آئیں تو میں شادی نہیں کروں گی ۔۔
    ارمان اُس کے نروٹھے انداز پر مسکرایا ۔۔ ڈونٹ وری ۔۔ وہ آجائیں گی ۔۔تم سے بہت پیار کرتی ہیں وہ ۔۔
    آپ دیکھنا وہ نہیں آئیں گی ۔۔ رامین نے منہ بسورا ۔۔ کیونکہ وہ آئیں گی تو امی ابو کی طرف سے اُن کی اپنی شادی کے لئے دباؤ بڑھے گا ۔۔
    رامین۔۔ منتہیٰ اپنے پرابلمز بہتر طور پر خود فیس کر سکتی ہیں ۔۔ انہوں نے شادی نہیں کرنی ۔۔ وہ سنبھال لیں گی سب کچھ۔۔
    ارمان کی آنکھوں میں کرچیاں سے اتری تھیں مگر ۔۔ وہ نارمل تھا ۔۔
    لیکن وہ تو شادی سے انکار نہیں کر رہیں ۔۔
    کیا مطلب ۔۔؟؟ ۔۔ارمان کے ہاتھ سے کانٹا چھوٹ کر پلیٹ میں گرا ۔۔ وہ چونک کر سیدھا ہوا
    جی ۔۔ شادی تو وہ کر لیں ۔۔ مگر ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔۔ اپنے دولہا کو تو وہ کچھ عرصے پہلے ناراض کر بیٹھی ہیں ۔۔ رامین کی مسکراہٹ بہت گہری تھی ۔۔
    تمہیں کس نے بتایا یہ سب ۔۔؟؟ ارمان نے سامنے دھرے کولڈرنک کے گلاس کو گھورتے ہوئے پوچھا
    کس نے بتانا تھا ۔۔۔؟؟ آپی آپ کو بہت مس کرتی ہیں ۔۔۔
    تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے رامین ۔۔
    بلکل بھی نہیں ۔۔ یو نو واٹ، بہنیں ایک دوسرے سے بہت کچھ چھپا سکتی ہیں ۔۔ لیکن حالِ دل نہیں ۔۔ میں نے بارہا نوٹ کیا ۔۔ وہ آپ کے نام پر چونکتی ہیں ۔۔ لمحوں میں انکی آنکھوں کے کنارے بھیگتے ہیں ۔۔
    انہوں نے ایک بڑی چوٹ کھائی ہے رامین۔۔ وہ صرف شرمندہ ہیں ۔۔ مجھ ہی سے نہیں ، اپنی ذات سے منسلک اور بھی کئی رشتوں سے ۔۔ میں نے واپس آکر اِسی لیے رابطہ نہیں رکھا تھا کہ میں انہیں مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔
    وہ بہت مضبوط ہیں ۔۔ ڈونٹ وری ۔۔ وہ موو آن کر جائیں گی ۔۔ ارمان سفاکی کی حد تک حقیقت پسند تھا ۔
    ’’جی نہیں ۔۔ وہ آپ سے محبت کرتی ہیں ۔۔‘‘
    اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ ٹوٹ کر بکھریں نہیں ۔۔ موو آن کر جائیں ۔۔ تو پلیزایک دفعہ جاکر ان سے ملیے گا ضرور ۔۔رامین اپنا بیگ اٹھا کر کب کی جا چکی تھی ۔۔ اور ارمان اپنی جگہ گنگ بیٹھا رہا ۔۔
    She is in love with you….!!
    وہ ایک ایک کر کے رامین کے کہے الفاظ کی چاشنی اپنے اندر انڈیلتا گیا ۔۔ لیکن نہیں ۔۔
    رامین کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔ اُس نے سر جھٹک کر ویٹر کو بل لانے کا اشارہ کیا ۔

    وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
    اسے اک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا
    چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

    جاری ہے
    ************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    ایک ہفتے بعد وہ پوری طرح ہوش میں آئی تھی۔۔ اُس کے پورے جسم میں صرف آنکھیں تھیں۔۔ جنھیں وہ جنبش دے سکتی تھی اور باقی سارا جسم جیسے بے جان تھا ۔۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کئی روز تک ۔۔منتہیٰ کے پاس آکر اسے جھوٹی تسلیاں اور تھپکیاں دیکرجاتے رہے ۔۔ دس دن بعد اپنے پاس جو پہلا شناسا چہرہ اُسے نظر آیا ۔۔۔ وہ ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ بڑھی ہوئی شیو ۔۔ ستا ہوا چہرہ۔۔ اور سرخ متورم آنکھیں اُس کے رت جگوں کی گواہ تھیں ۔۔۔ منتہیٰ اُس سے نظر ملانے کی ہمت ہی نہیں کرسکی ۔۔ سرابوںکے تعاقب میں جس شخص کو اُس نے سب سے پہلے چھوڑا تھا ۔۔۔ وہ آج کڑے وقت پر سب سے پہلے آیا تھا ۔
    جس کی آنکھوں سے چھلکتے درد کو پڑھنے کے لیئے آج منتہیٰ دستگیر کو کسی عدسے کی ضرورت ہر گز نہیں تھی ۔۔ کامیابیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ بھول گئی تھی کہ وقت کی تلوار بہت بے رحم ہے ۔۔ اور دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے ۔۔۔’’ یقیناًیہ بد نصیبی کی انتہا ہوتی ہے کہ انسان اپنے در پر آئی اللہ پاک کی رحمت کو ٹھکرا دے ۔۔ سچی محبت اور نیک جیون ساتھی عورت کے لیے اللہ کا بہت بڑا انعام ہوتے ہیں ۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عروج کی چوٹیوں کو سر کرنے والی ہر عورت کے پیچھے ایک نہیں ۔۔ کئی مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔فاروق صاحب۔ ڈاکٹر یوسف اور پھر ارمان ۔۔ خدا نے اُسے یہ تین مضبوط ستون عطا کیے تھے ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    مگر سارا کریڈٹ خود بٹورنے کی دُھن میں منتہیٰ نے منہ کی کھائی تھی ۔‘‘
    زندگی اتفاقات ، واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے ۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کون سا واقعہ یا حادثہ آپ کو کسی بند گلی کے موڑ پر لیجا کر چھوڑ دیگا ۔۔جہاں اسے ایک بے مصرف زندگی گزارنی پڑے گی۔۔ ایک کامیاب ترین زندگی سے ایک بے مصرف وجود تک پہنچ جانے میں انسان پر کیا کچھ بیت جاتی ہے ۔۔یہ وہی جان سکتا ہے جو اِن حالات سے گزرے۔۔ تب زندگی گزارنے اور اِسے بیتنے کااصل مفہوم سمجھ میں آتا ہے ۔۔۔
    پہلے اُس کے پاس زندگی کو سمجھنے کا وقت نہیں تھا ۔۔ اور اَب ۔۔ جب وقت ملا تھا ۔۔ تو زندگی اُس سے روٹھ گئی تھی ۔

    ***********

    اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے ۔۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے۔۔

    دو ماہ پہلے پیل لیک کے کنارے کاٹی ایک رات اُس کی زندگی کی کھٹن ترین راتوں میں سے ایک تھی ۔۔اور آج پھر ارمان کو ایک ایسی ہی رات کا سامنا تھا ۔۔ فرق صرف یہ تھا ۔۔۔اُس رات ۔۔ جس دشمنِ جاں نے رلایا تھا اور آج اُسی کے دکھ میں آنسو چھلکے تھے ۔۔
    صبح اُس کی منتہیٰ کے ڈاکٹرز کے ساتھ فائنل میٹنگ تھی ۔۔ ڈاکٹرز کو سپائنل چورڈ کی ایم آر آ ئی رپورٹ کا انتظار تھا کیا وہ عمر بھر کے لیے معذور ہوجا ئیگی ۔۔۔ ؟؟ یہ سوال ۔۔ عجیب دیوانگی اور وحشت میں وہ شدید ٹھنڈ میں اسپتال سے نکلا تھا ۔۔یونہی سڑکوں پر دھول اُڑاتے اُس نے ساری شام کاٹی ۔۔ یہ دُھول تو شاید اب اُس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔۔

    زہر ملتا رہا ‘ زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتے رہے۔۔
    زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے ۔۔

    بے د ھیانی میں زور سے ٹھوکر لگنے پر ارمان منہ کے بل گرا ۔۔ اُس نے گرد آلود آنکھوں کو مسل کر دیکھا۔۔ سامنے ہاسٹن کا اِسلامک سینٹر تھا ۔۔ وہ آیا نہیں تھا ۔۔ لایا گیا تھا ۔۔ وضو کر کے وہ چپ چاپ امام صاحب کے گردلوگوں کے گروپ میں جا بیٹھا ۔۔جن کی شیریں آواز سماعتوں میں رَس گھول رہی تھی ۔۔۔

    ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیںُ ان کے لیئے ہدایت اور نصیحت ہے ، دل شکستہ نہ ہو ۔۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں میں گردش دیتے رہتے ہیں ۔۔ تم پر یہ وقت اِس لیئے لایا گیا کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں ۔۔ ‘‘ ( سورۂ الِ عمران) ۔

    خدا کی اِس وسیع و عریض کائنات کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں ہر شے متحرک ہے۔۔ ہر رات کہ بعد سحر اگر خدا کا قانون ہے ، تو ہر آسائش کے بعد تکلیف اور ہرُ دکھ کے بعدُ سکھ کی گھڑی بھی اِسی اللہ کے حکم سے میسر آتی ہے زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ ہر وہ شخص جس نے اچھا وقت دیکھا ہو ۔۔ اُسے کبھی نہ کبھی بدترین حالات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے اعمال سے کچھ لینا د ینا نہیں ۔۔ وہ ہر شے سے بہت بلند ہے ۔
    امام صاحب ایک لمحے توقف کو رکے ۔۔

    ”آپ کی زندگی میں آنا والا برا وقت خدا نخواستہ آپکے اعمال پر اللہ کا عذاب نہیں ہوتا ۔کبھی یہ محض ایک اشارہ ہوتا ہے کہ آپ بھٹک کر کہیں اور نکلنے لگے ہیں ۔۔ تو اپنی اوقات، اپنی اصل پر واپس آجائیے ۔کبھی یہ آزمائش ہوتی ہے ۔ جس طرح لوہا آگ میں تپ کر اور موتی سیپ میں ایک متعین وقت گزار کر باہر آتا ہے ۔اِسی طرح ہر انسان کے اندر چھپی اُس کی ہیرا صفت خصلتیں آزمائشوں کی کھٹالی سے گزر کر کچھ اور نکھر کر سامنے آتی ہیں اور اِس کھٹالی سے یقیناًوہی کندن بن کر نکلتے ہیں ۔جن کا ایمان اورتوکل خالص اللہ تعالیٰ پرہوتا ہے۔ "وقت کبھی رکتا نہیں گزر جاتا ہے لیکن کچھ گھڑیاں ، کچھ ساعتیں ، کچھ آزمائشیں اپنے پیچھے اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔اور یقیناً فلاح وہی پاتے ہیں جو صرف اپنے رب سے مانگتے ہیں اور وہ اپنے ہر بندے کی یکساں سنتا ہے ۔۔”بے اختیار ارمان کے ہاتھ دعا کے لیئے اٹھے تھے ۔۔ اور ۔۔ دل کی گہرائیوں سے اَوروں کے لیئے مانگی جانے والی دعائیں اللہ تعالیٰ کے دربار سے کبھی رَد نہیں ہوا کرتیں ۔

    ***********

    منتہیٰ کے پاس سے کچھ دیر پہلے نینسی گئی تھی ۔۔ اُس نے کسلمندی سے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ دروازہ کھلا۔۔ اور ارمان داخل ہوا ۔۔ اُس کے ہاتھ میں خوبصورت سا بُوکے تھا ۔
    آل اِز ویل ہر گز نہیں تھا ۔ مگر منتہیٰ کی ایم آر آئی حیرت انگیزطور پر کلیئر آئی تھی ۔ بیس ہزار فٹ کی بلندی سے گرنے کے بعد ریڑھ کی ہڈی کا سلامت رہنا یقیناً ایک معجزہ تھا ۔لیکن اُس کی بائیں ٹانگ میں دورانِ خون بند تھا ۔۔ وقتی یا عمر بھر کی معذوری تلوار ہنوز سر پر لٹکی تھی ۔۔ لیکن ہمت توکرنا تھی ۔ ارمان ۔ آپ کو ڈاکٹرز نے ایم آر آئی رپورٹ دیکھ کر کیا بتایا ہے ۔۔؟؟ آئرن لیڈی ہر نا گہانی کے لیے خود کو تیار کیے بیٹھی تھی ۔ ارمان کھڑکی کے قریب کھڑا تھا اور منتہیٰ کی طرف اُس کی پشت تھی ۔۔ وہ مڑا ۔۔ اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اُس کے بیڈ تک آیا ۔۔
    ڈونٹ وری منتہیٰ ۔۔ آپ کی ایم آر آئی بالکل ٹھیک آئی ہے ۔۔ اور باقی باڈی انجریز سے صحت یاب ہونے میں آپ کو چارسے چھ ماہ کا عرصہ لگے گا۔۔ وہ آدھا سچ بتا کر آدھا چھپا گیا ۔
    منتہیٰ نے بہت غور سے اُسے دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ کا گُھنا تھا ۔۔ اندر کا حال پتا ہی نہیں لگنے دیتا تھا ۔ وہ گھنٹوں اسپتال میں اُس کے پاس یوں گزارتا ۔۔ جیسے سارے کاموں سے فارغ بیٹھا ہو ۔۔نیوز پڑھ کے سناتا ۔۔ کبھی ایس ٹی ای کے پراجیکٹس کی تفصیلات بتاتا ۔۔ کبھی لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتا اور ایسٹرانامی پر اس کی پسند کے آرٹیکلز سرچ کرتا۔۔
    منتہیٰ کو ہاسپٹل میں دو ماہ ہونے کو آئے تھے ۔۔ اُس کے فریکچرز تیزی کے ساتھ بہترہو رہے تھے لیکن ڈسچارج ہونے کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک اُسے ایکسر سائز اور ٹریٹمنٹس کی ضرورت تھی ۔۔جس کے لیے اس کے پاس کسی کا موجود ہونا ضروری تھا ۔ منتہیٰ فی الحال سفر کے قابل نہیں تھی اِس لیے فاروق صاحب ، رامین کو اس کے پاس ہاسٹن بھیج رہے تھے۔۔ رامین کی چند ماہ بعد رخصتی طے تھی ۔۔۔ مگر فی الحال اُن سب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ منتہیٰ کی صحت یابی تھی ۔

    ***********

    اُن کا ہیلی کاپٹر تقریباً۲۱ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا ۔ اِس سے پہلے منتہیٰ کی ساتھی ٹرینر مارلین ۔ نندا اور ربیکا اِسی بلندی سے چھلانگ لگا چکی تھیں اور نیچے اُن کے پیرا شوٹ چھتریوں کی طرح گول گول گھومتے نظر آ رہے تھے ۔’’ون ۔۔ ٹو۔ ۔ تھری ‘‘۔۔
    اور پھر انسٹرکٹر کے ا شارے پر منتہیٰ نے جمپ لگائی ۔۔۔ بچپن سے امی اور دادی کی ہر کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی ہدایت آج بھی اُس کے ساتھ تھی ۔
    تقریباًپندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر آکر انہیں پیرا شوٹ کھولنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔۔ ایک ، دو ، تین ۔۔۔ ہر دفعہ بٹن دبانے پر صرف کلک کی آواز آئی ۔۔۔ شدید گھبراہٹ میں اُس نے نیچے چودہ ہزار فٹ کی گہرائی کو دیکھا ۔۔
    ’’ہیلپ می اللہ ۔۔ ہیلپ می اللہ۔۔۔‘‘
    دو مہینے میں یہ خواب شاید اُسے دسویں بار نظر آیا تھا ۔۔ وہ دوپہر کی سوئی تھی ۔۔اوراب مغرب کا وقت تھا۔۔ اُس نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔۔۔ بیڈ سے کچھ فاصلے پر۔۔ ارمان جانما ز پر دعا کے لیئے ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔۔ منتہیٰ یک ٹک اسے دیکھے گئی ۔۔۔ دو ۔۔ پانچ ۔۔ پورے دس منٹ بعد اُس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر جا نماز لپیٹی اور پلٹا۔۔ منتہیٰ کو یوں اپنی جانب دیکھتا پاکر چونکا ۔۔۔
    آپ کب جاگیں منتہیٰ۔۔؟؟۔۔ وہ آج بھی پہلے کی طرح احترام سے اُس کا نام لیتا تھا ۔ لیکن منتہیٰ کچھ کہے بغیر چپ چاپ چھت کو گھورتی رہی ۔۔ وہ کچھ قریب آیا
    کیا بات ہے منتہیٰ طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔ ٹمپریچر تو نہیں ۔۔؟؟
    اور پیشانی پرُ اس کے لمس نے جیسے منتہیٰ کی ساری حسیات بیدار کردی تھیں ۔۔ بہت دنوں سے ۔۔ بہت سے رکے ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔
    اور ارمان اپنی جگہ گنگ تھا ۔۔۔ یہ آنسو ۔۔ اُس کے لیے اجنبی تھے ۔۔ آئرن لیڈی کبھی روئی ہی نہ تھی ۔۔ منتہیٰ۔۔ کیا بات ہے ۔۔ درد بڑھ گیا ہے کیا ۔۔؟؟ ۔۔وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
    ار۔۔ارمان۔۔وہ اَٹکی اندر بہت کچھ۔ بہت پہلے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا ۔۔ بس ایک اعتراف ۔ایک معافی ۔۔
    ’’ارمان مجھے معاف کر دیں ‘‘۔۔۔ہچکیوں کے درمیان بہ مشکل ارمان کو اُس کے الفاظ سمجھ میں آئے۔۔ اُس نے سختی سے آنکھیں بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔۔ منتہیٰ کو یوں روتے دیکھنا ۔۔ اُس کے لیے دو بھر تھا ۔۔
    آنسو نہ کسی کی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں ۔۔ نہ کم ہمتی کی ۔۔ اشک بہہ جائیں تو من شانت ہو جاتا ہے ۔۔ رکے رہیں تو اندر کسی ناسور کی طرح پلتے رہتے ہیں ۔۔ پانی اگر ایک لمبے عرصے تک کسی جوہڑ یا تالاب میں رکا رہے تو گدلا اور بد بو دارہو جاتا ہے ۔
    ارمان نے اُسے رونے دیا ۔۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا تھا ۔۔ اپنے سیل کی مدہم سی بیپ پر وہ کمرے سے باہر آیا ۔۔

    ***********

    یار تجھے اپنی جاب کی کوئی فکر ہے یا نہیں ۔۔؟؟ ۔۔دوسری طرف اَرحم ۔۔ چھوٹتے ہی برحم ہوا ۔۔۔ آج فائنل نوٹس آ گیا ہے ۔ اگر تو نے ایک ہفتے تک آفس جوائن نہیں کیا تو ۔۔ تیری چھٹی ہے سمجھا تو ۔۔
    ارمان نے گہری سانس لیکر دیوار سے ٹیک لگایا ۔۔ وہ مجنوں تھا نہ رانجھا ۔ کہ اپنی ہیر کے لیے بن باس لے کر بیٹھا رہتا ۔۔
    پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر میں ایک بہترین جاب ۔۔ ہر نوجوان کا خواب تھی ۔۔
    میں اِسی ہفتے پاکستان آجاؤں گا ۔۔ ارمان نے اَرحم کو مطلع کیا
    دیٹس گڈ ۔۔ پر تیری ہیر کا کیا ہوگا ۔۔؟؟
    منتہیٰ کے پاس چند روز تک رامین آجائے گی ۔
    چل یہ تو اچھا ہوا ۔۔۔ یہ بتا کہ وہ پاکستان کب تک آسکیں گی ۔۔۔؟؟
    پاکستان وہ کیوں آئیں گی ۔۔ صحت یاب ہوکر وہ واپس ناسا کے مشن پر جائیں گی ۔۔ اُن کو اپنے خواب جو پورے کرنے ہیں
    نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تلخ ہوا ۔۔
    اور تیرا کیا ہوگا پیارے ۔۔؟؟۔۔ تو جو دو ماہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہاسپٹل کا ہوا بیٹھا ہے ۔۔۔ اُ ن کی زندگی میں تیری جگہ ۔۔
    کدھر ہے۔۔۔؟؟؟
    اَرحم ۔۔۔کلوز دس ٹا پک پلیز۔۔ وہ برحم ہوا ۔۔ یہ اس کی دھکتی رگ تھی ۔۔ ہر زخم تازہ تھا ۔۔۔ کچھ بھی تو مند مل نہیں ہوا تھا ۔۔
    مگر وہ دشمنِ جاں شدید اذیت میں تھی ۔۔۔اور اب ۔۔ ایک گہری چوٹ کھا کر نادم بھی ۔۔۔
    ہر فیصلہ وقت کے ہاتھوں چھوڑ کر وہ ہاسپٹل سے فلیٹ چلا آیا ۔۔ ۔ جو اس نے ایس-ٹی-ای کے کچھ امریکی سپانسرز کی مدد سے حاصل کیا تھا ۔۔۔اُسے اب پیکنگ کرنا تھی ۔۔ اِس فلیٹ میں چند دن بعد منتہیٰ نے رامین کے ساتھ منتقل ہوجانا تھا۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    ییل یونیورسٹی میں ارمان کی ساتھی انجینئرز نے اس کی فاؤنڈیشن میں بھرپور دلچسپی لی تھی، کیونکہ قدرتی آفات پاکستان ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں
    بسنے والے افراد کا مشترکہ مسئلہ ہے اور بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ نے اِن آفات کی شرح ایشیائی ممالک
    سمیت یورپ اور امریکہ میں بھی تیز تر کردی ہے "۔۔
    "تقریباٌ چھہ برس قبل سپارکو کے پلیٹ فارم سے پاکستانی انجینئرز نے ڈیزاسٹرمینجمنٹ کی جو تکنیک متعارف کروائی تھی اور پھر۔ قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے ریلیف کے لیئے جس طرح انہوں نے سیو دی ارتھ کو متحرک کیا ۔۔ آج ایشیا ء کے کئی ممالک اسے رول ماڈل کو طور پر اپنائے ہوئے تھے "۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "اس جدوجہد کے دوران ارمان یوسف نے ہی نہیں، آسائشوں اور ائیر کنڈیشنڈ میں پلنے والے اُس جیسے ہزاروں نوجوانوں نےاپنے ہم وطنوں کی غربت ،
    مفلوک الحالی اور اَبتر حالت کو بہت قریب سے دیکھ کر زندگی کا اصل مفہوم جانا تھا ۔۔۔
    "انسانی زندگی کی حقیقت کیا ہے "۔۔؟؟
    ’’ محض روٹی ،کپڑا اور مکان ۔۔ وہ اِس دنیا میں آتا بھی خالی ہاتھ ہے ۔۔ اور جاتے وقت بھی تہی داماں ہی ہوتا ہے‘‘ ۔۔
    ارمان یونیورسٹی سے اپنا کورس مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فاؤنڈیشن کے لیے بھی بھرپور سرگرم تھا ۔اور اِس وقت اس کا بھرپوردھیان تھر
    اورچولستان کے علاوہ ملحقہ ریگستانی علاقوں میں قحط ، خشک سالی اور بھوک سے لڑتی عوام۔۔ کو ریلیف دلانے کی سٹرٹیجی
    بنانے میں پر تھا جس میں اُس کے ساتھی انجینئرز مائیکل اور سٹیون اُس کی بھرپور معاونت کر رہے تھے ۔
    "تھر میں تیزی سے پھوٹتے وبائی امراض سے ہونے والی اموات کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی تھی ۔ جس کے بارے میں اتھاریٹیزٹی وی چینلز پر۔’’ منہ پھاڑ کے بیان دے دیا کرتی تھیں کہ بچے مر رہے ہیں ‘بابا تو ہم کیا کرے۔ بڑے بھی تو مرتے ہیں ۔‘‘
    ’’ مرنا تو ایک دن ہم سب نے ہے لیکن ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اوروں کی موت ہمیں اپنا آخری وقت یاد نہیں دلاتی ۔۔ہم دوسروں کو قبر میں
    اتارتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ انسان کی اصل یہی مٹی ہے ۔۔اربوں کھربوں کے بینک بیلنس ، محل اور
    جائیدادیں جمع کرنے والوں کی قبر کا سائز بھی اُتنا ہی ہوتا ہے جتنا ایک مفلوک الحال مزدور کی قبر کا ، کروڑوں کے برانڈڈ ملبوسات پہننے والے کبھی اپنے لیے
    لاکھوں کا سٹائلش کفن تیار کروا کر کیوں نہیں رکھتے ۔۔؟؟
    شایدِ اس لیے کہ اِس حقیقت سے سب ہی بخوبی آگاہ ہیں ۔۔۔کہ قبر میں جا کر ہر شے نے مٹی ہی ہوجانا ہے ۔‘‘

    ***********

    منتہیٰ کو ہالی ووڈ کی فلمز’’ گریویٹی‘‘ اور’’ انٹرسٹیلر‘‘ اسی لیے سب سے زیادہ پسند تھیں کہ اِن میں خلا کی افسانوی کہانیوں کے بجائے وہ کڑوا سچ دکھایا گیا تھا جو ’’ خلا
    کے سفر‘‘ کو ایک طلسماتی دنیا کے بجائے ۔۔ ایک مشکل ترین چیلنج کے طور پر پیش کرتا تھا ۔
    دل پر بہت سا بوجھ لے کر وہ ہاسٹن کے جانسن سپیس سینٹر میں اپنی ٹریننگ شروع کر چکی تھی ۔ جسے درحقیقت دنیا کی مشکل ترین ٹریننگز میں شمار کیا
    جاتا ہے ۔۔ خلا میں انسانی جسم کو لاحق سب سے بڑا خطرہ گریویٹی کا ہے جس کے سبب بڑے بڑے سورما
    خلا باز مختلف طرح کے جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔۔
    صبح شام انہیں شدید مشکل ایکسرسائز کے مراحل سے گزرنا ہوتا تھا ۔۔ اور پھر ہر دو یا تین دن کے بعد ان کا مکمل جسمانی معائنہ کیا جاتا ۔۔
    منتہیٰ کے ساتھ انڈیا کی نندا اور ربیکا بھی تھیں جو اس کی نسبت زیادہ تناور اور مضبوط خدوخال کی مالک تھیں مگر منتہیٰ کی ذہانت اور چیلنجز سے مردانہ وار نمٹنے کی
    قدرتی صلاحیت ہر چیز پر بھاری تھی۔ٹریننگ سینٹر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ دن رات ایک ساتھ گزارنے کے باوجود ہر کوئی ایک دوسرے سے لا تعلق اور بیگانہ رہتاتھا ۔ منتہیٰ کی اپنے خول میں بند رہنے والی طبیعت کے لیے یہ ماحول کسی نعمتِ مترقبہ سے کم نہ تھا ۔
    اِس دھان پان سی لڑکی کی ذہانت نے ہی نہیں ۔۔ مضبوط قوتِ ارادی اور مشکل حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نے ناسا کےٹرینرز کو کچھ نئے تجربات پر اُکسایا
    تھا ۔
    چار ماہ سے تربیت پانے والے تیس مرد و خواتین کی پراگریس رپورٹ ان کی مکمل پروفائل کے ساتھ ناسا کے مشن کنٹرول کرنے والے سینئر انجینئرز اور
    سائنسدانوں کے سامنے کھلی پڑی تھیں اور وہ سب سر جوڑے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے ، فی الوقت ان کی سب سے بڑی ضرورت پیگی واٹسن کی جگہ انٹر نیشنل سپیس سٹیشن پر طویل مدت تک قیام کے لیے کسی جاندار ،توانا اور مضبوط اعصاب رکھنے والی خاتون کا انتخاب تھا ۔
    تربیت پانے والی دس خواتین میں اب تک سب سے بہتر کارکردگی منتہیٰ کی تھی مگر سینئرز اس کے انتخاب میں اس لیے تذبذبکا شکار تھے کہ وہ نہ صرف مسلمان تھی بلکہ اس کا تعلق پاکستان سے تھا ، ایک ایسا ملک جسے اب دنیا بھر میں’’ دہشت گردوں ‘‘ کی
    آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر اپنے مشن کی مناسبت سے انھیں جس ’’باکرہ پن‘‘ کی ضرورت تھی وہ کسی مغربی خاتون ہی نہیں انڈیا کی نندا اور ربیکا میں بھی ملنامشکل تھی۔
    طویل میٹنگ میں بہت سے اہم فیصلے کرنے کے بعد ایک ایک کرکے سب اٹھ کر جاچکے تھے مگر منتہیٰ کا ٹرینر ایڈورڈ گہری سوچوںمیں غرق اپنی جگہ
    بیٹھا رہا تھا ۔
    کیا یہ لڑکی ان کی توقع کے مطابق معاون ثابت ہو سکے گی ‘‘۔۔؟؟

    ***********

    ارمان کا ٹیلی کام کورس تکمیل کے آخری مراحل میں تھا اور ایک ماہ تک اس کی پاکستان واپسی طے تھی ۔ وہ مائیکل کے ساتھ اُس روز ہاسٹن میں تھا
    جب سیل پر اسے منتہی ٰ کے حادثے کی خبر ملی ۔
    اسپتال میں پٹیوں اور مشینوں میں گھری منتہیٰ کی ایک جھلک دیکھ کر ارمان کا سانس ایک لمحے کوبند ہوا ۔۔
    "اُسے وہ وقت یاد آیا جب وہ خود بھی۔۔ اِسی طرح ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا ۔۔ اُسے توصرف چند گولیاں لگی تھیں ۔۔۔
    مگر یہ لڑکی تو پلاسٹک کی ایسی گڑیا کے طرح بکھری پڑی تھی۔۔ جسے کسی ضدی شرارتی بچے نے
    پرزے پرزے کر ڈالا ہو” ۔
    دو روز پہلے پیرا گلائیڈنگ ٹریننگ کے آخری مرحلے میں بیس ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاتے ہوئے ۔۔ منتہی کا پیرا شوٹ کسی تکنیکی خرابی
    کے باعث بر وقت کھل نہیں پایا تھا ۔۔ اور وہ انتہائی زخمی حالت میں ہسپتال لائی گئی تھی ۔۔ دو دن سے ڈوبتی
    ابھرتی سانسوں کے ساتھ وہ زندگی اور موت کے درمیان معلق تھی ۔
    ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ اگر وہ بچ بھی گئی ۔۔۔” تو عمر بھر کی معذوری یقیناٌ اب اُس کا مقدر تھی "۔۔۔
    اُس کی ایک جھلک دیکھ کر ارمان پلٹا تو پیچھے نینسی کھڑی تھی ۔۔۔ دونوں کی نظریں ملیں ۔۔کسی کے پاس بھی کہنے سننے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔ وہ ایک
    دوسرے سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر وقت کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے ۔
    دو روز تک ارمان اسپتال کے ایک ہی کونے میں بیٹھا رہا۔۔ نینسی اسے چائے ، کافی اور کھانے کی کوئی اور شے لا دیتی تو وہ اس کے اصرار پر جیسے تیسے زہر مار کر لیتا ۔۔جیسے
    جیسے وقت گزر رہا تھا ۔ بھوک، نیند ، تھکاوٹ ۔۔ زندگی کا ہر احساس ختم ہوتا جا رہا
    تھا ۔اور منتہی ٰ کی حالت میں رتی بھر بھی فرق نہ تھا ۔
    "ایک دھندلی دھندلی سی یاد اتنے عرصے بعد بھی کہیں ذہن کے گوشوں میں اٹکی رہ گئی تھی۔۔چند برس قبل وہ خود بھی اسی کیفیت میں کئی روز تک وینٹی لیٹر پر پڑا رہا تھا اور عین اس وقت جب سانس زندگی سے اپنا ناتا توڑنے والی تھی تو ۔ماما کی دعا اسے موت کے منہ سے کھینچ کر زندگی کی طرف واپس لے آئی تھی”۔
    اس نے اب تک پاکستان میں اپنی اور منتہیٰ کی فیملی کو اس حادثے کی اطلاع نہیں دی تھی۔جب کے دوسرے ذرائع جن سے انھیں خبر ملنے کا ندیشہ تھا ، ان کو بھی ارمان نے سختی سے تنبیہ کردی تھی۔ مگر اس وقت منتہیٰ کو دعا کی شدید ضرورت تھی اور وہ بھی براہِ راست عرش تک رسائی پانے والی ’’ماں‘‘ کی دعا کی۔
    انہی سوچوں میں گم وی اپنے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو خالی نگاہوں سے تکنے میں مصروف تھا کہ یکدم اس کی سکرین روشن ہوئی
    "پاپا کالنگ ‘‘۔۔
    اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال ریسیو کی ۔۔ "ہیلو "۔۔
    "ھیلو ارمان "۔ "تم کہاں ہو "۔۔؟؟ ۔”فوری طور پر ہاسٹن پہنچو۔۔ منتہیٰ کے حادثے کی اطلاع ہمیں آج ہی ملی ہے "۔۔ڈاکٹر یوسف کی آواز میں شدید تشویش تھی ۔۔۔
    مگر دوسری طرف ۔۔ ہنوز خاموشی تھی ۔۔
    "ارمان "۔۔ انہوں نے پکارا ۔۔ "بیٹا یہ وقت پرانی باتیں سوچنے کا نہیں ۔۔ ہم میں سے کوئی فوری طور پر وہاں نہیں پہنچ سکتا "۔۔
    "پاپا ۔۔۔ پاپا میں تین دن سے یہیں ہاسپٹل میں ہوں "۔۔ اُس کے حلق سے بمشکل آوا زنکلی ۔۔
    "اچھا "۔۔ ڈاکٹر یوسف چونکے ۔۔ "کیسی حالت ہے منتہی ٰ کی "۔۔؟؟
    "وہ کیا بتاتا انہیں ۔۔پاپا اب وہ بہتر ہے”۔۔ "ڈونٹ وری "۔۔ حلق میں کوئی گولا سا آکر اٹکا
    "اُوکے "۔۔۔ "تم فوراٌ فاروق صاحب سے رابطہ کرو ۔۔۔ وہ بہت پریشان ہیں "۔۔۔
    اور اِس کے بعد جیسے کالز کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔۔ رامین ، ارسہ ، فاریہ ، ارحم ، شہریار ۔۔ ڈاکٹر عبدالحق مسلسل کئی روز تک وہ کسی
    مشین کی طرح فیڈ جملے دوہراتا رہا ۔
    "منتہی اب بہتر ہے ۔۔ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی "۔۔۔
    "لیکن وہ خود کو کیونکر یقین دلاتا ۔۔ جس طرح منتہیٰ کا جوڑ جوڑ فریکچر ہوا تھا ۔۔ اس کا زندہ بچنا محال تھا ۔بچ بھی گئی تو اب وہ محض ایک زندہ لاش تھی ۔۔ یہ کسی طور
    ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی چلنے پھرنے کے قابل ہو سکے۔۔
    مگر ارمان لا علم تھا۔۔۔”کہ معجزے کی اصل روح یہی ہے کہ انسان معجزے کا انتظار چھوڑ دے ۔دعا اور محبت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں”۔
    اور بالاآخر وقت نے منتہیٰ کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔۔وہ کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہ کرنے والی لڑکی موت سے جیت کرزندگی کی طرف لوٹ آئی تھی ۔۔
    "ہاں منتہیٰ دستگیر۔۔ دنیا کے جینیئس ترین مائنڈزسے جیت گئی تھی” ۔

    جاری ہے
    ***********

     

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    رامین سیو دی ارتھ کی ہفتہ وار میٹنگ میں تھی جب اسے سیل پر امی کی کال موصول ہوئی ۔۔ بہت تیزی کے ساتھ اپنی فائلزسمیٹتی ہوئی وہ باہر لپکی تھی کہ پیچھے سے آتی ارمان کی آواز نے قدم روکے ۔
    "رامین کیا بات ہے ۔۔ سب خیریت ہے نہ "۔۔؟؟
    "ارمان بھائی ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں مجھے جلدی گھر پہنچنا ہے” ۔۔ اُس نے تیزی سے قدم بڑھائے۔۔۔
    "میرے ساتھ آؤ وہ پارکنگ میں اپنی کار کی جانب بڑھا "۔۔۔ دو گھنٹے بعد وہ ہاسپٹل میں تھے ۔۔ فاروق صاحب کو ہلکا سا انجا ئناکا درد ہوا تھا ۔ارمان نے اپنے گھر اطلاع دے دی تھی ۔۔ سو ٹریٹمنٹ اور ٹیسٹس وغیرہ سے فارغ ہوکر جب رات نوبج وہ گھرپہنچے ۔
    تو ڈاکٹر یوسف اور مریم پہلی ہی وہاں موجود تھے ۔
    ارمان ، رامین کو ڈھونڈتا ہوا اُس کے کمرے تک آیا ۔۔ پھر ٹھٹکا ۔۔
    منتہیٰ بھی سکائپ پر رامین کے عقب میں ارمان کو دیکھ کر اُچھلی ۔۔ وہ ہاتھ میں برگر لیے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیڈ پر بیٹھی تھی ۔۔”اور باہر اولڈ کیمبرج پر بادل ٹوٹ کر برس رہے تھے”۔۔رامین کب کی رفو چکر ہو چکی تھی ۔
    "ارمان آپ یہاں ۔۔ رامین کے روم میں "۔۔؟؟ ۔۔منتہیٰ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔۔ اور ارمان اس کی آواز پر جیسے خواب سےجاگا تھا ۔۔ "آج کتنے ماہ بعد ۔۔ دیدارِ یار نصیب ہوا تھا "۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "منتہیٰ ایکچولی "۔۔ "فاروق انکل کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو میں ۔۔ ممی پاپا کے ساتھ ابھی آیا تھا "۔۔
    کیا ہوا ابو کو ۔۔؟؟
    "کچھ نہیں بس ہلکا سا درد تھا انہیں ۔۔ اب ٹھیک ہیں وہ "۔۔
    "میں ابو سے بات کرتی ہوں "۔۔
    "منتہیٰ سب ٹھیک ہے” ۔۔ ارمان اسے روکتا ہی رہ گیا مگر وہ سکائپ آف کرکے گھر کے نمبر پر کال ملا چکی تھی ۔۔
    "امی، ابو کو کیا ہوا ہے”۔۔؟؟اس کی آوا ز میں بے پناہ تفکر تھا۔۔ عاصمہ کی آنکھیں بھیگیں ۔۔ان کی مرد بیٹی جب تک اُن کے پاس تھی ۔۔وہ کبھی ایسی تشویش سے نہیں گزری تھیں ‘ جس کا سامنا انہیں آج ہوا تھا۔
    ۔۔””ہر گھر میں بڑی بیٹی ماں کے سب سے زیادہ قریب ہی نہیں ہوتی ۔۔ ماں کے حالِ دل کی سب سے بڑی گواہ بھی ہوتی ہےاور اُس کے رازوں کی امین بھی
    "کچھ نہیں بس تھوڑی طبیعت خراب ہوئی تھی ۔۔ ٹیسٹ ہوئے ہیں کچھ ۔۔تم پریشان مت ہو "۔۔ وہ اپنی پریشانی چھپا گئیں
    "اچھا رپورٹس کب آئیں گی "۔۔؟؟ ۔”آپ پلیز اپنا خیال رکھنا پریشان نہیں ہونا "۔۔
    "رپورٹس ارمان کل لے آئے گا۔۔ بہت خیال کرتا ہے ۔۔ ابھی بھی تمہاری دادی کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا رہا ہے "۔۔ عاصمہ نے سامنے دیکھاجہاں دادی اپنی پوتی کے منگیتر سے ناز اٹھوا رہی تھیں ۔۔
    اور منتہیٰ نے سکون کی سانس لے کر کال بند کی ۔
    اگلے روز شام کو ارمان آفس میں تھا جب واٹس ایپ پر منتہیٰ کا مسیج آیا ۔۔۔ مجھے ابو کی رپورٹس سینڈ کریں ۔۔
    "رپورٹس کلیئر ہیں ۔۔ ڈونٹ وری "۔۔ اُس نے کام میں مصروف وائس مسیج کیا ۔۔
    "میں نے کہا ،مجھے رپورٹس کی امیج سینڈ کریں "۔۔۔ جواب آیا
    ارمان کو غصہ چڑھا ۔۔۔” آپ کو میری بات کا یقین نہیں ہے "۔۔؟؟
    "نہیں "۔۔
    "رامین کا یقین کریں گی آپ”۔۔؟؟
    "نہیں”۔۔
    "پھر آپ کس کا یقین کرتی ہیں "۔۔؟؟
    "صرف اور صرف اپنی آنکھوں کا "۔۔ سمائل ایموجی کے ساتھ جواب آیا
    ارمان نے بھنا کر موبائل سکرین دیکھی ۔۔۔” منتہیٰ بی بی "۔۔ "اگر گِن گِن کے سارے بدلے نہیں لئے نہ ۔۔ تو میرا نام بھی ارمان یوسف نہیں "۔
    ****************
    وقت کا دھارا بہتا رہا۔۔سات ماہ یوں پلک جھپکتے میں گزرے کہ پتا ہی نہیں چل سکا۔۔اور اب منتہیٰ کے بعد ارمان کی روانگی کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
    "سیو دی ارتھ فاؤنڈیشن کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ فردِ واحد یا مخصوص شخصیات پر ہر گز انحصار نہیں کرتی ۔۔ ہم نے شروع ہی سے اس کا نیٹ ورک کچھ ایسا رکھا ہے کہ نئے لوگ تیزی سے آگے آکر پرانے قابل لوگوں کی جگہ کور کرتے
    رہیں ۔ہم ہر چھ ماہ بعد ونگ کمانڈرز اسی لیے تبدیل کرتے رہے کہ کسی بھی کڑے وقت میں ہمارے پاس قیادت کا بحران نہیں ہو ۔۔ مجھے امید ہے کہ میری غیر موجودگی میں سارے پراجیکٹس ، میٹنگز سب کچھ اسی طرح جوش و خروش سے
    چلتا رہے گا "۔۔
    ارمان یوسف کی سکالر شپ پر "ییل یونیورسٹی "کے ٹیلی کام کورس کے لیے روانگی سے پہلے یہ اس کی آخری میٹنگ تھی۔منتہیٰ برین ونگ کی کمان کے لئے جانے سے پہلے ہی بہترین لوگ نامزد کر گئی تھی۔۔ اور پچھلے کچھ عرصے سے سٹڈیز کی
    کی بے پناہ مصروفیات کے باعث وہ ایس ٹی ای سے تقریباٌ لاتعلق تھی ۔۔۔ لیکن ارمان سمیت ۔۔ منتہیٰ کو قریب سے جاننےوالوں کو علم تھا ۔۔ "وہ لا تعلق ہو کہ بھی لا تعلق نہیں تھی ۔۔ وہ کچھ نا کچھ کر ہی رہی ہوگی "۔
    ارمان کو نا جانے کیوں یہ یقین سا تھا کہ سٹڈیز کے لیے بیرونِ ملک اُس کا یہ قیام ۔۔۔فاؤنڈیشن کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوگا۔۔ "اور ہمیشہ کی طرح اپنے اندازوں میں ایک دفعہ پھر وہ سو فیصد درست تھا "۔۔
    ائیرپورٹ پر اسے سی آف کرنے دوستوں اور ایس ٹی ای کارکنان کا ایک جمِ غفیر آیا ہوا تھا ۔۔ وہ یوتھ کا ہیرو تھا ،جس نے اپنی دن رات کی انتھک محنت سے ایک وسیع علاقے کے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کر کے ان کی تقدیر بدل دی تھی ۔۔۔ کوہاٹ سے
    سکھرتک اب لاکھوں کارکنان اِس قافلے کا حصہ تھے”۔۔
    اُس نے پاکستان سے ڈائریکٹ نیو ہاوان کے بجائے میسا چوسٹس کی فلائٹ لی تھی۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے ہی موسلا دھار بارش تھمی تھی ۔
    منتہیٰ سائنس سینٹر سے باہر نکلی ہی تھی کہ اُس کا سیل تھرتھرایا ۔۔ "ارمان کالنگ "۔
    "ہیلومنتہیٰ”۔۔ "میں یہاں ہارورڈ کیمپس پر ہوں ۔۔ آپ اس وقت کہاں ہیں "۔۔؟؟ارمان کی آواز بہت پُرجوش تھی۔۔۔ کئی ماہ سے ان کی سلام دعا کے علاوہ بات ہی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ منتہیٰ کو سٹڈیز اور اس کی ریسرچ نے اَدھ مواکیا ہوا تھا تو ارمان جاب اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کے درمیان گھن چکر بنا ہوا تھا۔
    منتہیٰ نے سیل کو حیرت سے گھورا ۔۔ "ارمان اور یہاں کیمپس میں” ۔۔؟؟
    ٹھیک بیس منٹ بعد وہ سائنس سینٹر پر تھا ۔۔ "بلیو جینزگرے شرٹ کے ساتھ براؤن جیکٹ اورآنکھوں پر گلاسز ۔۔بہت سی لڑکیوں نے اُسے مڑ کر دیکھا ۔۔ وہ اِس توجہ کا عادی تھا "۔
    "ہیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ "۔۔؟؟
    "آنکھیں حالِ دل چھپانے سے قاصر تھیں ۔مگر نگاہوں کی زبان سمجھ کسے آتی تھی”۔۔؟؟
    منتہیٰ کے ساتھ اس کی کلاس فیلو نینسی تھی ۔۔۔”اوہ سو ہینڈسم ۔۔ ُ ہو اِز ہی مینا ۔۔”۔۔؟؟
    I am Arman Yousaf .. Her fiancé…
    ارمان نے اَزخود تعارف کروایا ۔۔
    OH! Meena why didn’t you tell me before… he is so graceful…
    نینسی نے دل تھام کر دیدے نچائے ۔۔۔ نینسی کی نان سٹاپ چلتی زبان پر منتہیٰ کو اکثر فاریہ یاد آجایا کرتی تھی ۔
    "ہیپی برتھ ڈے منتہیٰ "۔۔۔ ارمان نے خوبصورت سا ٹیولپ بُو کے اس کی جانب بڑھایا ۔ اس کے شولڈر پر ایک بیگ تھا ۔۔ اور ہاتھ میں کیک کا پیکٹ ۔۔۔
    "اوہ ۔برتھ ڈے پارٹی”۔۔ نینسی نے خوشی سے نعرہ لگایا اور چھلانگیں لگاتی ہو ئی ایک سمت غائب ہو گئی ۔
    ارمان نے خاصی دلچسپی سے اِس نمونے کو دیکھا ۔۔ "میں تو سمجھا تھا ، فاریہ زمین پر ایک ہی پیس ہے ۔۔ مگر اُس کی تو اور کاپیز بھی موجود ہیں "۔۔وہ ہنسا ۔۔ تو منتہیٰ چونکی ۔۔ "اُن دونوں کا تجزیہ ایک جیسا تھا "۔۔
    "آئیں چلیں کہیں بیٹھ کے پہلے کیک کاٹتے ہیں "۔۔ ارمان نےِ ادھر اُدھر کسی پر سکون گوشے کی تلاش میں نظر دوڑائی۔۔ "وہ اولڈکیمبرج سے قطعاٌ فینٹی سائز نہیں تھا "۔۔
    سینڈرز تھیٹر کی طویل سیڑھیوں پر ایک جانب جاکر وہ بیٹھے ہی تھے کہ نینسی کوئی درجن بھر کلاس فیلوز کے ساتھ سر پر آدھمکی ۔۔
    وہ سب ارمان سے بہت خوش دلی سے ملے تھے ۔۔ نینسی کے نائف سے ہیپی برتھ ڈے کے شور میں منتہیٰ نے کیک کاٹا ۔دس منٹ بعد وہ ساری جنجال پارٹی کیک کا صفایا کر کے رفو چکر ہو چکی تھی ۔۔۔
    "آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ آپ آرہے ہیں "۔۔؟؟ منتہیٰ کو یکدم یاد آیا
    "منتہیٰ بی بی”۔”کچھ یاد ہے ۔۔ آخری دفعہ آپ کی مجھ سے کب بات ہوئی تھی "۔۔؟؟ ۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی
    "وہ بس میں بہت مصروف تھی‘ وقت نہیں ملتا "۔۔۔ منتہیٰ نے ٹالا
    "جی ۔۔ میں بھی بزی تھا ۔۔ مجھے بھی ٹائم نہیں ملا بتانے کا "۔۔۔ جواب حاضر تھا ۔۔ منتہیٰ نے نوٹ کیا وہ بدل گیا تھا ۔۔ لیکن اس کا ایک سو بیس آئی کیو اِس معاملے میں ہمیشہ غلط نتیجہ ہی نکالتا تھا ۔
    ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں ” ییل یونیورسٹی ” جا رہا ہوں۔ ٹیلی کام کورس کے لیے ۔۔ فلائٹ میں نے میسا چوسٹس کی لی تھی تاکہ آپ سے ملاقات ہو جائے۔ یہ سب نے آپ کے لیے گفٹ بھیجے ہیں ۔ اس نے ایک بیگ منتہیٰ کی طرف بڑ ھایا
    لیکن منتہیٰ کی سوئی کہیں اور اٹکی رہ گئی تھی ۔۔”ارمان ۔ییل یونیورسٹی۔۔ پھر تیزی سے خود کو سنبھال کر ۔ اُس کے ہاتھ سے بیگ لیا۔”
    وہ بہت دیر تک ارمان سے پاکستان میں ایک ایک کے بارے میں پوچھتی رہی ۔۔ وہ اسے سیو دی ارتھ کی پروگریس کےمتعلق بتاتا رہا ۔
    اُنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ ایک ساتھ بیٹھ کے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہوئے لنچ کیا ۔۔ شام ڈھلے جب ارمان منتہیٰ کو ہولسیارڈ(ڈورم) چھوڑ کر پلٹا تو دل بہت مسرور تھا۔۔ "اگر اَرحم آج یہاں ہوتا تو مارے حیرت کے بے ہوش ہی ہو جاتا "۔۔
    "آئرن لیڈی نے چنے چبانا چھوڑ دیئے تھے ۔۔ یا ۔۔یہ بہت دنوں کی تنہائی کا اثر تھا "۔۔؟؟
    ارمان کو تیزی سے ایئر پورٹ پہنچنا تھا۔۔ اس کی رات دو بجے نیو ہاوان کی فلائٹ تھی ۔۔
    ڈورم پہنچ کر منتہیٰ نے بیگ اپنے بیڈ پر رکھ کر کھولا ۔ امی نے اس کے کئی من پسند کھانے اپنے ہاتھوں سے پکا کر ٹن پیک میں بھیجے تھے ۔۔۔”مونگ کی دال ، آلو کے پراٹھے اور لہسن کا اچار ، مولی کی بھاجی”۔
    ۔۔””ماں کی محبت کا تو اِس دنیا میں کوئی مول ہی نہیں
    رامین نے نے اس کے پسندیدہ ایمبرائیڈری والے کرتے اور سکارف بھیجے تھے ۔ابو نے پرفیوم اور یوسف انکل نے کچھ اسلا می کتابیں بھیجی تھیں ۔ او ر سب سے نیچے ایک مخروطی چھوٹے سے ڈبے کے اندر ایک نازک سا گولڈ بریسلٹ تھا ۔منتہیٰ
    نے انگلی کی پوروں سے اسے چھوا۔ ارمان نے اسے پہلی دفعہ کوئی تحفہ دیا تھا۔۔ "مگر اسے تو جیولری کا کبھی کوئی شوق ہی نہیں رہا تھا”۔
    اس نے ڈبہ بند کر کے رکھنا چاہا ۔تو ایک لمحے کو پیچھے لکھے الفاظ پر نگاہیں ٹہریں۔
    "forever yours, Armaan”
    اگلے رو ز منتہیٰ نے نینسی کو وہ سارے مزیدار کھانے کھلائے ۔۔ جو امی نے اُسے بھیجے تھے ۔۔
    Meena! your Mom is really an excellent chef .. .. By the way, what
    did Armaan present you??
    نینسی نے منٹوں میں سب چَٹ کرتے ہی شرارت سے دیدے نچائے ‘ بہت کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے اُسے بریسلٹ دکھایا ۔۔ واؤ ۔۔ نائس چوائس ۔
    "He really loves you”

    جاری ہے
    ****************

     

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "فاریہ انعام سے میری پہلی ملاقات الحمراء آرٹس کونسل میں ہوئی تھی جو کچھ وجوہات کی بنا پر زیادہ خوشگوار نہیں تھی "۔اَرحم تنویر نے ایک شریر سی نظر منتہیٰ پر ڈالی ۔جو اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی ۔
    "پھر اِس کے ہم جب جب ملے ، جہاں جہاں ملے ‘ وہ ملاقاتیں یقیناٌ میری زندگی کی کتاب میں سنہری یادوں کی طرح ہمیشہ محفوظ رہیں گی ” پھر وہ ایک لمحے کو رکا ۔
    "ویسے فاریہ”۔۔”یہ اتنے خوبصورت الفاظ میں صرف اپنی تقریر کو پُر اثر بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہوں ۔۔ آپ اسے سچ مت سمجھ لینا "۔۔ سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا ۔
    "میری ساری دعائیں اس مظلوم بندے کے ساتھ ہیں جس کے پلے آپ بندھنے جا رہی ہیں ۔۔ اللہ تعالیٰ اُسے ہمت ، حوصلہ اور صبرِ جمیل عطا فرمائے "۔۔۔”آمین "۔۔ کسی مولانا کی طرح دعائیہ کلمات ادا کر کے ارحم اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا ۔
    یہ فاریہ کے لیے ایس ای ٹی کی جانب سے دی جانے والی فیئر ویل تھی ۔ ارحم کے بعد ارمان اور دیگر ونگ کمانڈر ز نے فاریہ کو فُل ٹریبیوٹ دیا تھا ۔ اُن سب کی خواہش تھی کہ وہ شادی کے بعد بھی فاؤنڈیشن کا ایک سر گرم حصہ رہے۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    ریفریشمنٹ شروع ہوتے ہی حسبِ عادت منتہیٰ ہال سے باہر سیڑھیوں پر جا بیٹھی ‘ ارمان کوک کے دو کین لے کر اُس سےکچھ فاصلے پر آکر بیٹھا اور ایک کین اس کی طرف بڑھایا ۔
    منتہیٰ کو اِس وقت واقعی طلب تھی ۔بنا پس و پیش کین لے کر کھولا اور دو تین لمبے لمبے گھونٹ لیے۔
    ارمان نے ایک گہری ترچھی نظر اس پر ڈالی ۔۔ "تو اب آپ بھی ہارورڈ سدھارنے کو ہیں”۔۔؟؟
    منتہیٰ نے ایک سِپ لے کر اثبات میں سر ہلایا ۔
    "کب تک روانگی ہے "۔۔؟؟؟۔۔ارمان کا دل بجھا
    "یہی کوئی ایک ڈیڑھ ماہ "۔۔
    اسی وقت منتہیٰ کا سیل تھر تھرایا ۔۔ وہ سکرین دیکھ کر ایکسکیوز کرتی ہوئی اٹھی ۔
    اور ارمان نے بہت پھرتی کے ساتھ اپنے کین سے اُس کا کین سے بدل لیا ۔ منتہیٰ کے کین سے سپ لیتے ہوئے اسے لگاتھا۔۔آج سے پہلے اتنا لذیذ کولڈرنک اس نے نہیں پیا ۔۔ وہ گھونٹ گھونٹ کر کےُ سرور اندر انڈیلتا گیا ۔
    پانچ منٹ بعد آکر منتہیٰ نے اپنا کین اٹھایا ۔۔ بہت تیزی کے ساتھ تین چار لمبے سپ لے کر خالی کین ایک جانب اچھال دیا ۔
    اور ارمان کے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا ۔ ’’ منتہیٰ دستگیر کا ایک سو بیس آئی کیو ‘محبت کے ذائقے سے ہنوز نا آشنا تھا "۔

    *************

    وہ کہیں بہت بلند چوٹی پر کھڑی تھی کہ یکدم اُسکا پاؤں رِپٹا اور پھر ہزاروں فٹ کی بلندی سے گہری کھائی میں گرتی چلی گئی ۔ منتہیٰ نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اورسا ئڈ لیمپ آن کیا ۔ گزشتہ ایک سال میں یہ خواب وہ کئی دفعہ دیکھ چکی تھی۔
    فجر کی اذان پر وہ چونک کر اٹھی ۔
    نماز پڑھ کر منتہی ٰ کمرے سے باہر آئی تو افق پر پُو پھٹنے کو تھی ۔ امی کچن میں چائے بنا رہی تھیں اور دادی قرآن پاک کی تلاوت شروع کر چکی تھیں ۔وہ دادی کی جا نماز کے پاس دوزانوں بیٹھ کر سنتی گئی ۔
    ٌ ’’کائنات میں ہر جگہ خدا کا قانونِ ربوبیت کارفرما ہے اور تمام ستا ئش صرف اُسی کی ذاتِ پاک کے لیے ہے ، اگر تم ذرا بھی غور و فکر سے کام لو ‘تو یہ حقیقت’ سمجھنے تمہیں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی کہ زندگی صرف سانس کی آمد و شد کا نام نہیں ہے ، جب انسان کی زندگی کا مقصد محض جسم کی پرورش اور حفاظت رہ جائے تو اُس کے سامنے کسی بلند مقصد یا محکم اصول کی پابندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔اگر سانس کے بند ہو جانے کے ساتھ ز ندگی کاخاتمہ ہو جاتا ۔۔ تو پھر انسان کے سامنے کوئی بلندمقصد ہی نہ رہے‘‘۔

    *************

    عاصمہ نے منتہیٰ کو آواز دی وہ چونک کر کچن کی طرف بڑھی ۔چائے لےکر پلٹنے لگی تھی جب عاصمہ نے اُسے ہاتھ پکڑ کراپنے سامنے چیئر پر بٹھایا ۔
    مینا ‘ تم میری سب سے لائق اولاد ہو اِس لیے میں نے تمہیں کبھی کسی کام سے نہیں روکا لیکن اِس دفعہ پتا نہیں میرا دل کیوں ہول رہا ہے !۔ مینا میری جان مت جا ‘ میرے دل کو قرار نہیں ۔ عاصمہ کی آوازآنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی ۔
    منتہیٰ نے چونک کر ماں کو دیکھا اور پھر دیکھتی ہی گئی ۔’’نجانے خدا نے ماؤں کو کیسی حسیات اور کتنی آنکھیں دی ہیں ۔ جو کچھ کہے بغیر بھی اولاد کے اندرکا حال ہی نہیں مستقبل میں آنے والے اِن خطرات کو بھی بھانپ لیتی ہیں جن سے اولاد گزرنے والی ہو ۔”
    "ارے امی”۔۔ "اِرسہ بھی تو اتنا دور لندن چلی گئی ہے ۔۔ میں کون سا مستقل جا رہی ہوں ۔۔ بس سال دو سال ہی کی تو بات ہے "۔اُس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر دلاسہ دیا پھر ان کی پیشانی چومی ۔۔ مگر عاصمہ اسے کیا بتاتیں کہ ان کے دل کو قرارکیوں نہیں تھا ۔۔؟؟؟۔
    اور ایک عاصمہ ہی کیا ۔۔ ایئر پورٹ پر ہر کسی نے اُسے بھاری دل کے ساتھ رخصت کیا تھا ۔
    رامین اور فاروق صا حب کی آنکھیں پر نم تھیں تو ڈاکٹر یوسف کی پیشانی پر گہرا تفکر تھا ۔ اِس کشیدہ سی صورتحال کوتوڑنے کے لیے ارحم تنویر آگے بڑھا ۔
    "یہ ٹیڈی بیئر آپ کو یاد دلاتا رہے گا کہ پاکستان میں آپ کا ایک بھائی تھا جو آپ کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا "۔۔اس نے منتہیٰ کی طرف ایک ریڈ چھوٹا ٹیڈی بیئر بڑھایا ۔ منتہیٰ نے بیئر تھام کر پرس سے سے ایک سلور پین نکال کر ارحم کوتھمایا ۔
    "اور یہ پین آپ کو یاد دلاتا رہے گا کہ میں نے انشا ء اللہ واپس یہیں آنا ہے "۔ ارحم نے حسبِ عادت قہقہہ لگا کر شکریہ ادا کیا ۔
    پھر شہریار نے منتہیٰ کی طرف ایک بُوکے بڑھا کر آہستہ سے کہا ۔”آئی ول مس یو "۔۔
    "می ٹو”۔۔ ارمان کے دوستوں میں ایک شہریار ہی تھا جس سے منتہیٰ کی بنتی تھی ۔۔ کیو نکہ وہ اُسی کی طرح صلح جوتھا۔۔
    "میم”۔۔کیا یہ ڈائیلاگ ارمان تک پہنچا نا ہے ۔۔؟؟ ارحم کب باز آنے والا تھا ۔۔
    ارمان کی غیر موجودگی سب نے ہی محسوس کی تھی ۔۔جو اِن دنوں ڈاکٹر عبدالحق کے ساتھ جاپان کے ٹرپ پر تھا ۔۔
    "جی نہیں” ۔۔ انتہائی خشکی سے جواب دیکر منتہیٰ پلٹی
    "آپی تو اُن کے لیے بھی کچھ چھوڑتی جا ئیں نہ "۔۔ اب کہ رامین نے اُسے چھیڑا ۔
    رامین کو ٹھینگا دکھاتی ہوئی منتہیٰ تیزی سے انٹرنیشنل ڈیپارچر لاؤنج کی طرف بڑ ھتی گئی ۔ اُس کا دل بہت بھاری اور آنکھیںپر نم تھیں ۔ "وہ ہارورڈ کی ڈریم لینڈ میں قدم رکھنے جا رہی تھی "۔

    *************

    اور سنا! کیا پروگریس ہے پراجیکٹ کی ۔۔ صہیب میر تفصیلات جاننے کے لیے اوور ایکسا ئیٹڈ تھا ۔
    "زبردست یار "۔۔ "ریسپانس ہماری توقع سے بڑھ کر رہا "۔۔ ارمان کی آنکھوں میں جیسے قندیلیں سی روشن تھیں ، وہ ایک روزپہلے ہی جاپان سے واپس آیا تھا ۔
    کچھ عرصے پہلے جاپان کی ایک کمپنی نے زلزلے کے لیے سٹیلائٹ سگنلز کے پراجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور سپارکو کی معاونت سے ارمان اِس پراجیکٹ کا ایم او یو سائن کر کے آیا تھا ۔۔” دنیا بھر میں رات میں آنے والے زلزلے بہتزیادہ جانی نقصان کا
    سبب بنتے ہیں کیونکہ گہری نیند میں ہو نے کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد سوتی رہ جاتی ہے "۔
    ٹی وی انٹینا کی طرز پر بنایا گیا یہ سگنل سسٹم نیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسزکے ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے ایس ٹی ای کے جی آئی ایس ونگ نے تیار کیا تھا جسے ابتدائی طور پر چترال ، دیر بالاکوٹ اور اُن سے ملحقہ ان علاقوں میں لگایا جانا
    تھا جہاں رات کے وقت زلزلے کے جھٹکے معمول تھے ۔
    "یار ۔بلاآخر ہماری دن رات کی محنتیں رنگ لے ہی آئیں ۔۔آج ہمارے پاس سپارکو اور پاک آرمی کے علاوہ انٹرنیشنل سپورٹ بھی ہے” ۔۔۔ شہریار اپنے پراجیکٹ کی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہا تھا ۔
    "بالکل "۔۔ "پاک آرمی گزشتہ کئی سال سے ہماری ہر طرح کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔۔ ہماری نیت صاف تھی ۔۔ سونہ صرف ہمیں کلیئرنس ملی بلکہ انٹر نیشنل سپورٹ بھی "۔ صہیب نے سیو دی ارتھ کو بھرپور ٹری بیوٹ دیا ۔
    "یہ تیرا کیوں منہ لٹکا ہوا ہے "۔۔؟؟۔۔ ارمان نے اَرحم کو چپ چپ دیکھ کر پوچھا
    "یار۔۔۔ آئی ایم مسنگ مائی آئرن لیڈی”۔۔۔ اَرحم نے منہ بسورا
    "اگر تیرا کڑوی کسیلی باتیں اور ڈانٹ کھانے کو دل کر رہا ہے ۔۔ تو انہیں فون کر کے بلا لے پیارے "۔۔ عاصم نے منہ بنایا
    "لو وہ تو کب کی ہارورڈ چلی بھی گئیں ۔ تمہیں نہیں پتا ۔۔لاسٹ ٹائم آئی تھیں ملنے "۔۔ شہریار نے عاصم کو مطلع کیا ۔
    "اچھا منتہیٰ کب آئی تھیں "۔۔؟؟؟۔۔ ارمان چونکا
    "جانے سے کچھ دن پہلے آئی تھیں ۔۔ اور خلافِ مزاج ۔۔لوہے کے چنوں کی جگہ پاپ کارن چبا رہی تھیں "۔۔ اَرحم نے دانت نکالے۔
    ارمان نے ہنستے ہوئے چیئر کی پشت سے ٹیک لگاکر آنکھیں موندیں۔وہ دشمنِ جاں اتنی دور چلی گئی ۔۔ اور وہ مل بھی نہیں سکا۔۔
    "ویسے میں اور ارحم ائیر پورٹ سی آف کرنے گئے تھے انہیں "۔۔ شہریار نے اُسے آگاہ کیا
    "مجھے ایک پین گفٹ ملا اور شہری کو ۔۔ مِس یُو ٹو ۔۔۔ لیکن تیرے لیے وہ صرف یہ ۔۔چھوڑ کے گئی ہیں "۔۔ ارحم نے شرارت سے ارمان کے سامنے ٹھینگا نچایا۔
    "مجھے انہوں نے بہت جلد اپنا سب کچھ سونپنا ہے تو زیادہ فکر مت کر "۔ ارمان نے اسے ایک زوردار دھپ لگائی ۔پھر کچھ سوچتا ہوا اپنا سیل اٹھاتا باہر آیا۔ اور منتہی ٰ کا نمبر ڈائل کیا جو انٹرنیشنل رومنگ پر تھا۔
    بیل جاتی رہی۔۔وہ منتہیٰ کی عادتوں سے واقف تھا ۔۔ مگر عین ممکن تھا کہ نئی جگہ پر وہ واقعی اس وقت مصروف ہو ۔۔ سو کال کاٹ کراس نے رامین کا نمبر ملایا تاکہ منتہیٰ کی ٹائمنگ معلوم کر سکے۔
    اگلے روز رات کو منتہیٰ بستر میں گھسی گہری سوچوں میں غرق تھی۔
    "پابندیاں انسان کو کبھی کبھی بوجھ کیوں لگنے لگتی ہیں "۔؟؟؟ اس نے انتہائی کوفت سے چھت کو گھورا۔۔ ڈورم لا ئٹس رات ٹھیک ٹائم پر آف ہو جایا کرتی تھیں ۔ جبکہ وہ لیٹ نائٹ سٹڈی کی عادت تھی ۔
    ہارورڈ میں سٹوڈنٹس کے ڈورمز یارڈ کہلاتے ہیں ۔۔جو ایک وسیع ایریا پر پہلی ہوئی مختلف بلڈنگز ہیں جن میں سے کچھ سترویں صدی کی ہیں ۔۔آئی وی یارڈ میں کینڈی بلڈنگ میں دو سو پچیس سٹوڈنٹس کی رہائش کی گنجائش ہے جبکہ منتہیٰ کو رہائش "ہولس یارڈ”
    میں ملی تھی جو ہارورڈ کا سینٹر کہلاتا ہے ۔ سائنس سینٹر ہی نہیں ‘ رابنسن اور اَمرسن لیکچر ہالز یہاں سے چند منٹوں کے فاصلے پر تھے ۔یارڈ میں چار چار سٹوڈنٹس کا مشترکہ بیڈ روم اور باتھ روم تھا ۔۔ منتہیٰ کے ساتھ لوزیانا کی میری‘ ہوائی کی باربرا ‘ او ر
    الاسکا کی کیلی رہائش پزیر تھیں ۔
    منتہیٰ کی ٹو دی پوائنٹ بولنے اور اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت یہاں بھی بر قرار تھی ۔ دیگر فارن سٹوڈنٹس کی طرح اس نے نہ تو پورا ہارورڈ گھومنے کی زحمت کی تھی نہ ہی ۔۔یا "سینڈرز تھیٹر "یا "جان ہارورڈ سٹیٹیو "میں اپنی سیلفیز بنا کر فیس بک یا انسٹا گرام پر اَپ لوڈ کی تھیں ۔ اس کی واحد تفریح ہارورڈ سکوائر سے کچھ فاصلے پر واقع دنیا کی وہ ٹاپ ٹین لائبریریتھیں جہاں وہ کچھ کھائے پیے بغیر بھی پورا دن گزار سکتی تھی ۔ اِن میں کیمبرج پبلک لائبریری اپنے وسیع رقبے اور قدیم تاریخ کے باعث اُس کے لیے سب سے زیادہُ پر کشش تھی ۔
    کمبل منہ تک لپیٹے منتہیٰ جانے کن سوچوں میں گم تھی جب موبائل تھر تھرایا ۔۔۔ "ارمان کالنگ "۔۔
    اُس نے کال ریسیو کر کے بہت آہستہ سے ’ہیلو‘کی مبادہ اس کی کوئی ڈورم میٹ جاگ نا جائے ۔”تینوں میں سے کوئی بھی اسے ایک آنکھ نہیں بھائی تھیں”۔
    "ہیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ "۔۔؟؟
    "ٹھیک ہوں "۔۔ ہمیشہ کی طرح مختصر جواب آیا
    "سوری میں لاسٹ ٹائم آپ سے مل نہیں سکا ۔۔ شہریار نے بتایا آپ ملنے آئی تھیں” ۔۔۔
    "میں صرف آپ سے ملنے نہیں گئی تھی "۔۔۔
    "جی۔۔ آئی نو ڈیٹ "۔۔۔ ارمان ہنسا
    "یو نوواٹ کہ ایس ٹی ای کو بہت بڑی ریسیپشن ملی ہے ۔۔جاپان میں سائن کیے گئے ایم او یو کی تفصیلات بتاتے ہوئے ارمان کی آنکھوں میں دیئے سے روشن تھے”۔ مگردوسری طرف خاموشی رہی ۔۔
    "آپ کو خوشی نہیں ہوئی”۔۔؟؟
    ہوئی!!۔
    "لگ تو نہیں رہا "۔۔ ارمان کو مایوسی ہوئی
    "خوش کیسے ہوا جاتا ہے "۔۔؟؟ سوال آیا
    "خوش "۔۔ ارمان ایک لمحے کو روکا ۔۔”خوش ہوا جاتا ہے اچھی اچھی باتیں کر کے ۔۔ مستقبل کی سہانے سپنے دیکھ کے "۔۔۔
    اُس کی آواز میں کچھ تھا ۔۔ منتہیٰ جل ہی تو گئی ۔۔
    "بائی دی وے” ۔۔”یہ خیالی پلاؤ پکانا کہلاتا ہے "۔۔۔
    "تو کیا حرج ہے کبھی کبھی خیالی پلاؤ پکانے میں "۔۔۔ ارمان ہنسا
    "تو آپ پکائیے میں نے آپ کو کب روکا ہے "۔۔ جواب حاضر تھا
    "منتہیٰ”۔۔” کیا ہم کچھ دیر اچھے دوستوں کی طرح بات نہیں کر سکتے "۔۔ ؟؟ ۔۔ اب کہ ارمان کے لہجے میں سختی تھی
    "جی کہیے "۔۔۔ خلافِ توقع مثبت جواب آیا
    "ہم”۔۔ دوسری طرف ارمان نے گہری سانس لیکرسے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔۔ "کیسی لگی آپ کو یونیورسٹی ۔۔ڈورم میٹس کیسی ہیں”۔۔؟
    "ہارورڈ اِز اے ونڈر لینڈ” ۔۔” ڈورم میٹس بس گزارا ہیں "۔۔۔ منتہیٰ نے منہ بنا کر سوتی ہوئی تینوں بلاؤں کو دیکھا
    ارمان ہنسا ۔۔۔ "وہ جانتا تھا ۔۔ منتہیٰ کو نئے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں وقت لگتا ہے "۔۔۔
    "اچھا سب کو کتنا مِس کرتی ہیں آپ”۔۔۔؟؟
    "جتنا کرنا چاہئے "۔۔۔ ٹو دی پوائنٹ جواب حاضر تھا ۔
    "ہمم۔۔۔ شکریہ” ۔۔
    "آئی مِس یُو ٹو "۔۔ شرارت سے کہہ کر ارمان کال کاٹ چکا تھا ۔۔
    منتہیٰ نے غصے سے سکرین کو گھورا ۔۔”خوش فہمی ۔۔ ہو نہہ

    جاری ہے
    *************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے لیے پاک آرمی کے ہیلی کاپٹرز استعمال کیے جارہے تھے۔ اگرچہ ایس ٹی ای کے پاس اب تک ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی مگر پھر بھی پچھلے تباہ کن سیلاب کی نسبت اب ان کے پاس کارکنان کی ایک بڑی تعداد اور ایک مکمل میڈیکل ونگ بھی موجود تھا‘جس میں پنجاب بھر کے میڈیکل کالجز کے طلبا و طالبات شامل تھے۔
    ’’ کیا ہر دفعہ ڈیزاسٹر ایک نئے طریقے سے ہماری سال بھر کی کوششوں پر پانی پھیرتا رہے گا ۔؟؟‘‘
    سیلاب کی تباہ کاریوں کے چند دن بعد ہنگامی میٹنگ میں غازی ونگ کی موجودہ وائس کمانڈر امینہ علیم یہ سوال پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
    اس کی طرح کئی اور ونگ کمانڈرز اور متحرک کارکنان شدید مایوسی کا شکار تھے۔
    ڈاکٹر عبدالحق اور ارمان کی بے ساختہ نگاہیں منتہیٰ کی جانب اٹھیں ۔اتنی جلدی ناامیدی اور ایسے مایوسانہ کمنٹس پر وہ سب سے پہلے آڑے ہاتھوں لیتی تھی مگر ابھی وہ لاتعلق سی اپنے آئی پیڈ پر مصروف رہی۔۔شاید اس لیے کہ وہ گذشتہ دو ماہ سے میٹنگز سے غائب تھی۔
    "مس امینہ! قدرتی آفات صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا مجموعی المیہ ہیں اور المیے رونما ہوتے رہتے ہیں ، ان پر نا امید ہوکر دل چھوڑ بیٹھنا بذد ل لوگوں کا کام ہے، اگر آپ ایک ونگ کمانڈر ہوکر اس طرح کی باتیں کریں گی تو کارکنان پر اس کے بہت برےاثرات مرتب ہوں گے۔اس وقت ہم سب کو ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنی عوام کا سہارا بننا ہے”۔۔ ڈاکٹر عبدالحق نے اسےرسان سے سمجھایا ۔
    "مجھے معلوم ہے سر۔ مگر اس سب کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ قدرتی آفات انسان کے کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں، چاہے امریکی ریاستوں میں تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کرتے ٹورناڈو ہوں ۔ چین‘ بنگلا دیش ‘ پاکستان اور بھارت میں کثرت سے آنے والے سیلاب یا انڈونیشیا ، نیپال اور جاپان میں وسیع انفرا سٹرکچر کی تباہی کا باعث بننے والے زلزلے۔۔ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے تمام تر وسائل کے باوجود ان کے سامنے بے بس ہیں


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "مس امینہ۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتے ۔۔ اپنے محدود وسائل کے ساتھ جو کچھ بھی ممکن تھا ہم نے اپنی عوام کے لیے کیا ہے اور ہم کرتے رہیں گے”۔۔پہلے ڈاکٹر عبدالحق اور اب ارمان کی سرزنش پر امینہ کچھ جز بز ہوئی۔یہ ارمان ہی تو تھا جس کےہمہ وقت ساتھ پر امینہ آج کل ہواؤں میں تھی ۔
    "سر! ہمارے اعداد و شمار کے مطابق صرف اٹھارہ گھنٹوں میں سینکڑوں کیوسک پانی کا ریلا گذرا جو گذشتہ پچیس برس کے دوران کسی بھی سیلابی ریلے کی ریکارڈ تعداد ہے۔اندازاََ پچاس دیہات اور وسیع رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں جن سے ملکی جی ڈی پی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے”۔ شہریار نے اپنی رپورٹ ڈاکٹر عبدالحق کو پیش کی ۔
    "منتہی ٰ یہ رپورٹ آگے کی پلاننگ میں آپکے بہت کام آئے گی” ۔۔ انہوں نے ایک سرسری نظر ڈال کر وہ منتہیٰ کی جانب بڑھائی۔
    "سر! میرا خیال ہے کہ برین ونگ کو کمان کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ موجودہ سنگین صورتحال کی ایک بڑی وجہ برین ونگ کی غفلت ہے ۔۔ میں آج کوئی دو ماہ بعد ونگ کمانڈر کو میٹنگ میں دیکھ رہی ہوں "۔۔ امینہ کی توپوں کا رخ تبدیل ہوا۔
    مس امینہ! میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں اور یقیناََ یہ جان کر آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی کہ کمان کی تبدیلی کا مشورہ میں بہت دن پہلے دے چکی ہوں۔ آپ لوگ کسی بھی ذہین اور فعال کارکن کو ہیڈ نامزد کر سکتے ہیں۔ جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو میں اپنی مکمل رپورٹ بمع تفصیلی کمنٹس سیلاب سے دو روز قبل ارمان یوسف کو دے چکی تھی ۔”
    "اس کے علاوہ میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ ہم میں سے اکثریت اس غلط سوچ کی حامل ہے کہ قدرتی آفات سے لڑنے کےلیئے وسیع ذرائع اور وسائل کی ضرورت ہے۔۔ اگر آپ طاقتور دشمن کے سامنے نہتے ہوں تو یقیناًمدد کے لیے اپنے دوستوں کو پکارتے ہیں اور پتا ہے کیا کہ ہمارا دوست کوئی اور نہیں اسی کرۂ ارض کا قدرتی سسٹم اور ماحول ہے۔ ہمارے سامنے اپنےدوست ملک چین کی مثال ہے کہ کس طرح انہوں نے ماحول دوست پالیسیز اور پلاننگ کے ذریعے بہت تھوڑے عرصے میں سیلاب سے نمٹنے کی سٹرٹیجی بنائی ۔”
    "سر میں اس حوالے سے ایک پریذینٹیشن بنائی ہے جو میں دکھانا چاہوں گی "۔۔ منتہیٰ نے ڈاکٹر عبدالحق سے اجازت چاہی۔
    چند لمحوں بعد کانفرنس ہال کے بڑے سے پراجیکٹر پر منتہی ٰ کی پریزینٹیشن پلے ہو چکی تھی۔
    "ماحول دوست سسٹم، جنگلات کے کٹاؤ کی روک تھام اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں درخت لگاؤ مہم کا آغاز ۔۔جو چند سال بعد سیلاب کے لیے قدرتی ڈھال ثابت ہونگے۔۔ایک مکمل فلڈ ایکشن پروگرام۔۔اور دستیاب وسائل کی تمام علاقوں میں مساوی تقسیم۔۔ شمالی علاقہ جات کی طرح پنجا ب اور سندھ کے دور دراز مقامات میں وارننگ سسٹم اور ڈیزاسٹر سینٹرز کا قیام ۔۔ غرض یہ کہ کوئی ایسا نکتہ نہ تھا جو بیان نہ کیا گیا ہو۔”
    پریزینٹیشن ختم ہوتے ہی فاریہ نے معنی خیز نگاہوں سے امینہ کی جانب دیکھا ۔۔ مگر یہ کیا اس کی سیٹ خالی تھی۔۔”وہ جاچکی تھی”۔
    اس نے سامنے بیٹھے ارحم کو اشارہ کیا تو اس نے پوری بتیسی دکھائی ۔۔
    ’’ بچی بھول گئی تھی کی پنگا کس سے لے رہی ہے ۔ہماری آئرن لیڈی سے ۔‘‘۔ ارحم نے شہریار کی جانب جھک کر سرگوشی تو اس نےبمشکل اپنا قہقہہ ضبط کیا ۔۔
    اور اس وقت ارحم ‘ فاریہ‘ شہریار اورارمان ہی نہیں ڈاکٹر عبدالحق کے چہرے پر بھی بہت دلکش مسکراہٹ تھی۔
    ’’ منتہیٰ دستگیر سے جیتنا کسی صورت ممکن نہ تھا ۔‘‘
    **************
    سیلاب کی ہنگامی صورتحال سے کسی حد تک نکلتے ہی ارمان نے پی ٹی سی ایل میں ریسیڈنٹ ہیڈکے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
    ڈاکٹر یوسف مرتضیٰ کسی گہری سوچ میں غرق تھے جب اجازت لےکر منتہیٰ اندر داخل ہوئی ۔ ۔
    "سر میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا "۔۔؟؟؟
    "باپ بیٹیوں سے کبھی ڈسٹرب نہیں ہوتے "۔۔ "یو آر اَیور ویلکم "۔ ۔۔۔
    "سر مجھے ایم آئی ٹی کے سکالرشپ پر آپ کی تھوڑی سی راہنمائی درکار تھی ۔۔”
    منتہیٰ پچھلے کچھ عرصے سے فارن یونیورسٹیز سے پی ایچ ڈی کے سکالر شپ کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی۔ہارورڈ ، ایم آئی ٹی اور ییل دنیا کی قدیم ترین اور بہترین یونیورسٹیز میں شمار کی جاتیں ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنا پاکستان کے ہرقابل
    سٹوڈنٹ کا خواب ہے ۔۔ جتنی اعلیٰ یہ یونیورسٹیز ہیں اِنکا انتظام بھی اتنا ہی شاندار ہے ۔۔سٹوڈنٹس اگر باصلاحیت ہو تو یہ سکالر شپ اور امدادکے ذ ریعے اِس طرح تعاون کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں اپنی ڈگری لے کر نکلتا ہے ۔
    منتہیٰ بھی ایم آئی ٹی کے سکالرشپ پر ہارورڈیونیورسٹی کے سکول آف آرٹس اینڈ سائنس میں ایڈمیشن کی تگ و دو میں لگی ہوئی تھی اور اسی سلسلے میں کچھ معلومات لینے آئی تھی ۔
    لیکن ڈاکٹر یوسف کسی اور ہی سوچ میں تھے۔۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے انہوں نے ڈائریکٹ بات کرنا کی صحیح سمجھا ۔
    "منتہیٰ بیٹا "۔۔ "میں اور مریم آپ کے گھر آنا چاہتے ہیں کسی روز” ۔۔؟؟
    "موسٹ ویلکم سر ۔۔ آپ کا گھر ہے ضرور آئیں "۔۔ منتہیٰ کی آواز میں گرم جوشی تھی۔
    "بیٹا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو اپنے گھر لیں جائیں ۔۔ اور یقین جانئے کہ یہ خواہش ارمان سے کہیں زیادہ میری اپنی ہے ۔۔”
    ڈاکٹر یوسف کی جہاندیدہ نظریں اس کے چہرے پر تھیں ۔جو آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھ رہی تھی ۔۔
    "مجھے یقین ہے کہ آپ کے والدین کی طرف سے انکار نہیں ہوگا ۔۔ اس لئے میں آپ کی مرضی معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔۔ اب آپ جائیں۔۔ مجھے سوچ کر جواب دیجئے گا ۔۔۔”
    منتہیٰ مرے مرے قدموں سے باہر لان تک آئی۔۔ایم آئی ٹی سکالر شپ کا سارا جوش و خروش جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا ۔۔
    "یہ تیری شکل پر کیوں بارہ بج رہے ہیں” ۔۔”خیریت "۔۔؟۔۔ فاریہ اس کا لٹکا منہ دکھ کر ٹھٹکی ۔۔
    "کیا ہوا سر یوسف نے ڈانٹا ہے کیا "۔۔؟؟
    "نہیں "۔۔منتہیٰ نے گھنٹوں کے گرد ہاتھ لپیٹ کر منہ چھپایا ۔۔ فاریہ ایک دفعہ پھر ٹھٹکی۔۔ "دال میں ضرور کچھ کالا ہے”۔۔
    "دیکھ پیاری "۔۔” میں جلد ہی پیا دیس سدھارنے والی ہوں ۔۔ آخری سمسٹر، نو سال کا ساتھ ہے ۔۔ مجھ سے مت چھپا”۔۔فاریہ کی اپنے کزن کے ساتھ شادی فائنل ایگزیمز کے بعد طے تھی ۔۔۔
    "سر ۔۔ کہہ رہے تھے۔۔ پروپوزل لے کے آنا چاہتے ہیں "۔ منتہیٰ کو آخر کسی سے تو شیئر کرنا ہی تھا ۔
    "پروپوزل "۔۔؟؟؟۔۔ فاریہ نے دیدے پھاڑے۔۔
    "ارمان بھائی کا پروپوزل تمہارے لیے” ۔؟؟۔۔ فاریہ خوشی سے چلائی ۔۔
    منتہیٰ نے اپنا لٹکا ہوا منہ اثبات میں ہلایا ۔۔
    "یہ تو اتنی خوشی کی بات ہے نہ۔۔ پھر منہ کیوں لٹکایا ہے” ۔؟؟
    "سر کی تو تم دیوانی ہو ۔۔ اور ان کا بیٹا تمہارا دیوانہ ہے "۔۔ فاریہ نے اسے شرارت سے چھیڑا ۔۔۔
    اِس سے پہلے کہ منتہیٰ اسے ایک زور دار دھپ لگاتی ۔۔ اُن کے کچھ اور کلاس فیلوز وہاں آ چکے تھے۔۔ سو وہ خون کے گھونٹپی کے رہ گئی۔
    **************
    پھر چند ہی روز میں رشتہ طے کر کے منگنی کی تاریخ رکھ دی گئی ۔۔ اگرچہ سب کی خواہش تھی کہ منگنی سادگی سے چھوٹے فنکشن میں کی جائے ۔ لیکن سیو دی ارتھ کے لئے اس کے دو بانی کمانڈرز کا ملاپ ایک بہت بڑا ایونٹ تھا ۔۔ ڈاکٹر عبدالحق سمیت بہت سی نامور شخصیات نے اس محفل کو رونق بخشی تھی ۔
    "دادی ٹھیک ہی کہتی تھیں۔۔ جو لڑکیاں ہمیشہ سادہ رہتی ہیں اُن پر پھر ٹوٹ کر روپ آتا ہے ۔۔ منتہیٰ کو ہاتھ میں گجرے پہناتے ہوئے رامین نے سوچا ۔
    ’’ میرون گولڈن کام والا فراک اور چوڑی دار پاجامہ ، ہلکی گولڈ جیولری ، ہاتھوں میں ڈھیر ساری چوڑیاں اور گجرے‘‘۔۔ منتہی ٰاپنے منگنی فنکشن پر یقیناٌ قیامتیں ڈھا رہی تھی ۔۔ ارمان نے دیکھا ۔۔ تو بس نظر ہٹانا ہی بھول گیا ۔
    "ابے”۔۔ "نظر لگائے گا کیا "۔۔؟؟ ۔ارحم نے اسے ٹھوکا دیا ۔۔۔ تو جیسے وہ حال میں واپس آیا ۔۔ ممی ، پاپا بغور اس کی کیفیت کو نوٹ کر رہے تھے وہ قدرے جھینپا۔۔
    "ڈارک بلیک سوٹ ‘ میرون لائنر ٹائی ‘ اُس کی گریس فل پرسنالٹی جو ہر جگہ چھا جایا کرتی تھی ‘ آج منتہیٰ کے ساتھ بیٹھ کرمکمل تھی ۔’’بے شک وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے تھے۔‘‘
    فنکشن سے گھر لوٹ کر بہت رات کو تھکن سے نڈھال ‘ منتہیٰ نے تکیے پر سر رکھ کر خود کو ٹٹولا ۔” کیا وہ خوش تھی "۔۔۔؟؟
    "ہاں میں بہت خوش ہوں کیونکہ یہ میرے بڑوں کا فیصلہ ہے "۔۔ اُس نے مطمئن ہوکر آنکھیں موندیں۔۔۔
    تب ہی اس کا سیل تھرتھرایا۔۔” ارمان کالنگ” ۔۔
    "یہِ اس نے لیٹ نائٹ کیوں کال کی ہے "۔۔؟؟ منتہیٰ کا پارہ چڑھا ۔۔ حسبِ عادت چالیسویں بیل پر کال ریسیو کی ۔ ارمان اب عادی ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔
    "ہیلو "۔۔ "ٹائم دیکھا ہے آپ نے "۔۔ ؟؟ ۔۔انداز پھاڑ کھانے والا تھا۔۔
    "جی ایک بج کر پانچ منٹ اور پندرہ سیکنڈ” ۔۔ ارمان نے انتہائی سکون سے ٹائم بتایا
    "ٹائم مجھے بھی پتا ہے۔۔ یہ وقت ہے کسی کو کال کرنے کا "۔۔؟؟
    "وہ میں آپ کو منگنی کی مبارکباد دینا بھول گیا تھا "۔۔ ارمان نے وضاحت کی
    "بادام کھایا کریں آپ "۔۔ ٹھک سے جواب آیا
    "بادام "۔۔ ارمان نے بمشکل اپنا قہقہہ ضبط کیا ۔
    "اچھا کتنے بادام کھایا کروں روز "۔۔؟؟ ۔۔وہ خاصہ محفوظ ہوا تھا
    "جتنے دل چاہے۔۔ کھا لیں "۔۔ اس نے جل کر جواب دیا
    "ہمم”۔۔ "لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ۔۔ میں زیادہ بادام کھا جاؤں اور میری میموری کچھ زیادہ ہی بوسٹ کر جائے”۔۔ ارمان نےخدشہ ظاہر کیا ۔
    "تو کیا ہوا ۔۔ آپ آئن سٹا ئن کا آئی کیو ریکارڈ توڑ دیجئے گا "۔۔حسبِ توقع جلا کٹا جواب حاضر تھا
    "ہمم”۔۔ "لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ آج جن لوگوں کو میں بھول گیا ۔۔ میموری بوسٹ کے بعد وہ لوگ مجھے کچھ زیادہ یاد آنے لگ جائیں "۔۔ ارمان کے لہجے میں بے پناہ شرارت تھی ۔۔
    منتہیٰ نے غصے سے گھور کر سیل کی سکرین دیکھی ۔۔ "پھرِ اس میں بادام کا قصور نہیں ۔۔ آپ کی میموری میں کوئی ٹیکنیکل فالٹ ہے ۔ہونہہ ۔۔”
    "اچھا تو پھر مجھے کیا کرنا چاہئے "۔۔۔؟؟ ۔۔تیزی سے سوال آیا
    "کسی سائیکاٹرسٹ یا نیورولوجسٹ کو دکھائیں آپ ۔۔ ”
    "گڈ”۔۔” تو پھر کب کا اپائنمنٹ دی رہی ہیں آپ "۔۔؟؟
    "ہیں”۔۔؟؟ "کیا مطلب کیسا اپائنمنٹ”۔۔؟؟ منتہیٰ حیران ہوئی
    "مجھے اپنے میموری فالٹ کے لئے آپ سے اچھا سائیکاٹرسٹ اور کون ملے گا ۔۔”
    "مل جائے گا ۔۔ گوگل کر لیں ۔۔ اور پلیز مجھے سونے دیں "۔۔ مینا کی کجراری آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں
    "اُوکے ٹھیک ۔۔ آپ سوئیے۔۔ اور وہ جو آئن سٹائن آئی کیو ریکارڈ والا آپشن ہے نہ‘ اُس سے میں دست بردار ہوتا ہوں”۔۔”آپ کے لئے "۔۔۔
    "میرے لئے کیوں "۔۔؟؟۔۔ منتہیٰ کا پارہ پھر چڑھنے کو تھا ۔
    "اِس لئے کہ آپ مجھ سے بہتر ڈیزرو کرتی ہیں ۔ یہ ریکارڈ بھی آپ توڑیں اور مزید نئے بنائیں ۔ میرا بھرپور تعاون تا عمر آپ کے ساتھ رہے گا "۔ مضبوط لہجے میں جواب دے کر ارمان کال کاٹ چکا تھا
    منتہیٰ نے ایک لمحے کو سیل کی سکرین دیکھی ۔۔” وِل سِی ۔۔ارمان یوسف ۔۔ چند ہی منٹوں بعد وہ گھری نیند میں تھی ۔۔
    "لیکن اُس رات ۔۔ ارمان کو بہت مشکل سے نیند آئی تھی ۔۔۔”
    **************
    سیو دی ارتھ کا ریموٹ سینسنگ اور جی آئی ایس ونگ ،این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے جیو انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سےایک ایسے پراجیکٹ پر کام کا آغاز کر چکا تھا جس سے زیرِ زمین ہی نہیں ۔ زمین کے انوائرمنٹ اور آئینوسفیئر میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں پر ریسرچ کر کے ان پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹیکنیک ڈیویلپ کی جا سکے ۔
    اس پراجیکٹ کو این ای ڈی یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق بذاتِ خود ہیڈ کر رہے تھے اور ہمیشہ کی طرح منتہی ٰانکی معاون تھی ۔
    انجینئرنگ فیلڈ میں نا ہونے کے باوجود۔۔ منتہیٰ جس طرح پھرتی اور کامیابی کے ساتھ کسی بھی ٹیکنالوجی کی گہرائی تک پہنچ کر اس کا بھرپور تجزیہ کر کے نئے پوائنٹس سامنے لاتی تھی اُس سے این ای ڈی یونیورسٹی کے اساتذہ بھی حیران تھے ۔
    ایک سو بیس کا آئی کیورکھنے والی یہ لڑکی گزشتہ چار پانچ سال سے ٹیکنالوجی کےُ ان رازوں کی تلاش میں سرگرداں تھی ۔۔ جو ایک طرف ہارپ کی حیرت انگیز نا قابلِ بیان سرگرمیوں کے پردے فاش کرتے تھے تو دوسری طرف امریکہ ، یورپ ، آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں قدرتی آفات کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کی اندرونی خفیہ کہا نیوں کے امین بھی تھے ۔
    ایشیائی باشندوں کی اکثریت تو ابھی تک ’ہری کین کترینہ ‘کی پسِ پردہ کہانیوں سے ہی نا بلد ہے ۔۔ جبکہ چیم ٹرائلز‘ آرٹیفیشل پلازمہ‘ ہارپ رنگز‘دراصل دنیا کی نظر سے پوشیدہ وہ خفیہ حقیقتیں ہیں ۔ جو بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کا اصل سبب ہیں۔۔ جن سے ایک طرف انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز تیزی کے ساتھ پگھل
    کر پورے براعظموں کو غرقِ آب کرنے کے در پر ہیں ، تو کہیں سورج سوا نیزے پر آکر دماغوں کے اندر خون کو بھی کھولائےدے رہا ہے ۔۔، کہیں شدید گرمی نظامِ زندگی مفلوج کر دینے کے در پر ہے ۔۔، تو کہیں طوفان، ٹورناڈوز ، سونامی اورسیلاب بستیوں پر بستیاں اجاڑ رہے ہیں ۔
    ’’یہ پیاری زمین اللہ تعالیٰ کی اپنوں بندوں پر بے پایاں رحمت ہی نہیں ، انمول انعام بھی تھی ۔جو انسانی سرگرمیوں کے سبب بہت تیز ی کے ساتھ ایک ایسے آتشیں گولے میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔۔ اور ناسا شاید اسی صورتحال کو بھانپ کر دوسرے سیاروں ، کہکشاؤں پر کمندیں ڈال کر زمین جیسے کسی سیارے سپر ارتھ کی تلاش میں سرگرداں ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی یہ ترقی ان جینیئس مائنڈز کو اربوں ، کھربوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع کہکشا ؤں تک لے گئی ہے ۔لیکن اِن کے کند شیطانی ذہنوں میں اتنی سی بات نہیں سماتی کہ زمین جیسا کوئی سیارہ ڈھونڈے کے بجائے اِسے ہی کیوں نہ محفوظ بنا لیا جائے ۔‘‘
    ’’اور منتہیٰ دستگیر کا مشن ابھی ادھورا تھا”۔۔ "اُس نے زمین کو اِن نا خداؤں سے بچانے کا عزم کیا تھا "۔۔ وہ ایک بھرپور پلان تشکیل دے چکی تھی ۔۔وہ دیوانی لڑکی اوکھلی میں سر دینے جا رہی تھی ‘ جہا ں خطرات بے پناہی تھے‘ لیکن اُسے لڑنا تھا ۔‘‘

    جاری ہے
    *************