Tag: urdu novel

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    شہریار کے سوا تمام ونگ کمانڈر اور ان کے وائس کمانڈر ز کو میں ابھی اسی وقت ان کے عہدوں سے برطرف کررہی ہوں ۔
    منتہیٰ کی گونجیلی آواز نے کانفرنس روم کے پن ڈراپ سائلنس کو توڑا ۔
    ہنگامی میٹنگ کا آغاز ہو چکا تھا جس میں ڈاکٹر عبدالحق نے منتہیٰ کی درخواست پر خصوصی طور پر شرکت کی تھی جبکہ ارمان یوسف کے لئے سپیشل سکائپ بندوبست ارحم تنویر نے کیا تھا ۔
    "مس منتہیٰ آپ اتنے بڑے فیصلے کی وجہ بتانا پسند کریں گی "۔۔؟؟ ۔۔”اورشہریار کیوں نہیں ۔۔؟”۔۔غازی ونگ کے وائس کمانڈر صہیب میر نے قدرے ناگواری سے پوچھا
    "مسٹر وائس کمانڈر”۔۔”مجھ سےوجہ پ وچھنے سے پہلے کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جن عہدوں سے برطرفی آپ کو اتنی کِھل رہی ہے۔۔ وہ کس کے دم سے ہیں ؟؟ ۔۔یقیناٌ فاؤنڈیشن کے دم سے نہ”۔
    "تو جب اس پر کڑا وقت آیا ہر طرف فیک نیوز ۔ویڈیوز ۔۔ یہاں تک کے چند گھنٹے میں فاؤنڈیشن کے ختم ہوجانے تک کی نیوزوائرل ہو گئی اُس وقت کہاں تھے آپ لوگ”۔۔؟؟؟۔۔منتہیٰ کی گرج کسی شیرنی سے کم نہیں تھی ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "ہمارا ارمان اور اُس کی فیملی کے پاس موجود ہونا ضروری تھا ۔۔ وہ ہمارا جگری یار ہے۔۔اور ۔۔اور ۔۔پھر چند گھنٹوں میں آپ سب صورتحال سنبھال چکی تھیں ” صہیب میر کے آخری الفاظ خود اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے پائے تھے
    منتہیٰ نے ایک غضب ناک نظر صہیب پر ڈالی ۔۔ پھر ڈاکٹر عبدالحق کی طرف مڑی
    Sir, would you please settle this issue ??
    Yeah, you are doing that right .. go ahead …
    ڈاکٹر عبدالحق کے فیصلے کے بعد سب کو سانپ سونگھ چکا تھا ۔
    منتہیٰ نے تیزی کے ساتھ نئے ونگ کمانڈرز کے نام اناؤنس کیے۔ارمان کے صحت یاب ہونے تک آپریشن کمانڈ اُس نے اپنے پاس رکھی تھی جبکہ باقی تمام ونگز میں وہ نچلے درجے کے کارکنان کو کمانڈ ہیڈ تک لائی تھی ۔
    ارمان نے گہرا سانس لے کر سر تکیے پر ٹکایا ۔ اس کا فیصلہ سو فیصد درست تھا ۔ اِس سے موجودہ صورتحال میں مایوس کارکنان ایک دفعہ پھر پرجوش ہوکر سر گرم ہو جاتے ۔
    "منتہیٰ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ تم نے شہریار جہانگیر کو کیوں فارغ نہیں کیا "۔۔؟؟
    میٹنگ کے اختتام پر فاریہ نے ڈرتے ڈرتے وہ سوال داغ ہی دیا جو اُن سب کے دماغوں میں بہت دیر سے کلبلا رہا تھا ۔۔
    منتہیٰ نے کھا جانے والی نظروں سے فاریہ کو دیکھا ۔۔پھر نظریں جھکائے بیٹھے شہریار کو ۔۔
    "کیونکہ اِن کے ونگ کی باری کچھ دن بعد آئے گی ‘‘۔۔دُرشتی سے جواب دیتی وہ کانفرنس روم سے جا چکی تھی۔
    ارمان سمیت اُن سب نے بھر پور قہقہہ لگایا ۔

    ۔۔””منتہیٰ دستگیر اور کسی کو بخش دے ۔۔۔ نا ممکن

    *************

    حالات معمول پر آتے ہی ارسہ کی شادی کا معاملہ دوبارہ زیرِغور تھا ۔ چند دن بعد گھر کی چھوٹی سی تقریب میں فواد نے اِرسہ کونازک سی ڈائمنڈ رِنگ پہنا ئی ۔
    فواد خاصہ گڈ لوکنگ اور ہنس مکھ تھا ۔دو بہن بھائی اور والدین پر مشتمل چھوٹی سی فیملی تھی ۔ اِرسہ آج کل ہواؤں میں تھی۔
    شادی کی تاریخ پہلے رامین اور پھر منتہیٰ کے سمسٹر امتحانات کے باعث تین مہینے بعد کی رکھی گئی تھی اور دادی کو ہول اٹھ رہےتھے کہ بڑی بیٹی کی موجودگی میں چھوٹی کی شادی ہونے جا رہی تھی ۔
    جبکہ منتہیٰ اِن سب چکروں سے بے نیاز سٹڈیز اور فاؤنڈیشن کے درمیان گھن چکر بنی ہوئی تھی ۔
    لیکچر کے دوران سر یوسف نے اُس کی تھکی تھکی حالت خاص طور پر نوٹ کی ۔۔
    "منتہیٰ آپ آفس میں میرے پاس آئیے۔”
    "اوکے سر ۔۔ چکراتے دماغ کے ساتھ وہ سر یوسف کے آفس پہنچی۔۔”
    "آؤ بیٹھو” ۔۔ سر نے بغورُ اسے دیکھا ۔
    "منتہیٰ مجھے کچھ دن سے آپ ٹھیک نہیں لگ رہیں "۔۔۔ کیا کوئی مسئلہ ہے ؟؟
    "نتھنگ سر۔۔ بس مصروفیت بڑھ گئی ہے ۔۔”
    "تو مصروفیت کو کم کرو ۔۔ کچھ دن اور ہیں ارمان انشاء اللہ جوائن کرلے گا ۔ تب تک پراجیکٹس وغیرہ کو ملتوی کردو ۔”۔۔منتہیٰ انہیں اپنی بیٹی کی طرح عزیز ہو گئی تھی ۔
    "اوکے سر "۔۔ وہ مسکرائی
    "ڈیٹس اے گڈ گرل "۔۔
    "سر مجھے کچھ ٹاپکس ڈسکس کرنے تھے "۔۔۔اٹھتے اٹھتے اسے یاد آہی گیا
    ڈاکٹر یوسف نے ایک کڑی نظر اس پر ڈالی۔۔ پھر کچھ سوچ کر نرم ہوئے ۔۔ وہ اس کی لرننگ میڈنس سے واقف تھے۔
    "ٹھیک ہے کسی دن ڈسکس کریں گے ۔۔ ابھی تمہیں آرام کی ضرورت ہے گھر جاؤ اور سکون سے لمبی نیند لو ۔”
    گہری سانس لیتی ہوئی منتہیٰ ان کے آفس سے نکلی ۔۔اور پھر کئی روز تک اس نے واقعی ڈٹ کر آرام کیا ۔
    اس دفعہ ویکلی میٹنگ میں مکمل صحت یاب ہونے کے بعد ارمان کی واپسی متوقع تھی۔ دو ماہ بعد ایس ٹی ای واپسی کو اُن سب نے مل کر سیلبریٹ کرنے کا پورا پروگرام بنایا ہوا تھا ۔
    یونیورسٹی سے نکل کر فاریہ نے دو بوکے خریدے۔ "ایک سفید ٹیولپ اور دوسرا لال گلاب ۔”
    "یہ دو بوکے کیوں لیے ہیں”۔؟؟؟۔۔ منتہیٰ حیران ہوئی
    "ایک تمہارے لیے۔۔ پیسے بعد میں دے دینا "۔۔ فاریہ نے جتایا
    "میں نے تمہیں کہا تھا جو تم نے لیا ہے ۔۔ ہونہہ”
    "تو تم ارمان بھائی کو بوکے نہیں دوگی "۔۔ اُسے شاک ہوا
    "ہر گز نہیں "۔۔ کورا جواب آیا
    فاؤنڈیشن آفس پہنچتے ہی منتہیٰ بوا ئز کے ایک گروپ کی طرف بڑھ گئی جو کافی دیر سے اُس کا ہی انتظار کر رہے تھے ۔
    فاریہ بڑبڑاتی ہوئی کانفرنس روم پہنچی ۔
    "ویلکم بیک ارمان بھائی” ۔۔ اُس نے بیک وقت دونوں بوکے اُسے تھمائے ۔
    "یہ دوسرا بُوکے کس کی طرف سے ہے”۔۔ ؟؟۔۔ ارحم نے آنکھیں نچائیں ۔۔
    "یہ بھی میری طرف سے ہی ہے "۔۔ فاریہ نے زچ ہو کر دَھپ سے رامین کی ساتھ والی سیٹ سنبھالی جو اپنے کالج سے سیدھی یہیں آئی تھی ۔۔۔
    "لیکن ہماری پلاننگ کے مطابق تو یہ کسی اور نے دینا تھا نہ”۔۔ ارحم نے فاریہ کی طرف جھک کر سر گوشی کی
    "ہماری ساری پلاننگز ایک محترم ہستی ہمیشہ تہس نہس کرتی آئی ہیں اور کرتی رہیں گی”۔۔ فاریہ نے جلے دل کے پھپولے پھوڑے
    "مگر وہ محترم ہستی نظر ہی نہیں آرہیں "۔۔ارحم نے ارد گرد دیکھا ۔۔منتہیٰ ، فاریہ کے ساتھ نہیں تھی ۔۔
    کچھ بوائز باہر اس کے منتظر تھے وہ سیدھی ان کے ساتھ میٹنگ روم گئی تھی۔۔
    وہ سب مزے سے چائے اور ریفریشمنٹ اُڑا رہے تھے ۔۔ جب ڈاکٹر عبدالحق ، منتہیٰ اور کچھ بوائز کے ساتھ اندر داخل ہوئے
    "ویلکم بیک مائی بوائے "۔۔۔ وہ بہت گرم جوشی کے ساتھ ارمان سے ملے ۔۔
    "امید کرتا ہوں کہ سب کچھ بہت جلد معمول پر آجائے گا۔”
    یہ کوہاٹ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے اپنے کچھ کمپیوٹرپراجیکٹ منتہی کے ساتھ ڈسکس کیے ہیں ۔۔ انہیں فوری طور پر جی آئی ایسونگ کی تمام سہولیات فراہم کریں ۔تا کہ ان کے پراجیکٹس کو جلد از جلد آگے بڑھایا جاسکے۔ارمان کوکچھ تفصیلات بتا کر ڈاکٹرعبدالحق جا چکے تھے اور ان کے ساتھ کوہاٹ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس بھی ۔۔
    "کسٹ کے نام پر شہریار کو اَچھو لگا "۔۔۔ اف۔۔” مارے گئے ۔۔”
    ہاتھ میں پکڑی فائلز کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے منتہیٰ نے اُن سب کو گھورا ۔۔ "اگر آپ لوگوں کی ریفرشمنٹ ختم ہو گئی ہو تو ۔۔ ہم کچھ کام کی بات کر لیں ۔۔۔۔؟؟
    "وہ سب اپنی جگہ اٹینشن ہوئے ۔۔ پہلی شامت کس کی آتی ہے”۔۔ ؟؟؟
    Sheheryar Jahangir, you are fired right now.
    "اور میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے ریزن پوچھنے کی حماقت ہر گز نہیں کریں گے "۔ منتہیٰ نے تھیکی نظروں سے شہریار کو گھورا
    "اوکے میم "۔۔۔ شہریار کی نگاہیں جھکی تھیں ۔۔”یقیناٌ اس سے کوتاہی ہوئی تھی "۔
    پھر منتہیٰ نے کچھ فائلز ارمان کی طرف بڑھائیں یہ کسٹ اور این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے سٹوڈنٹس کی پراجیکٹ فائلزہیں۔۔”اب ان کو آپ خود ڈیل کریں "۔
    "میڈ م کیا میں ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں "۔۔؟؟ ۔۔صہیب کی مداخلت پر منتہیٰ نے اسے تند نظروں سے گھورا
    "غازی ونگ کی کمانڈ ارمان کے پاس ہی ہے یا آپ اُسے بھی بر طرف کر چکی ہیں "۔؟؟ صہیب کا لہجہ خاصہ تھیکا تھا
    "مسٹر صہیب میر”۔ "ارمان یوسف کو غازی اللہ تعالیٰ نامزد کر چکا ہے ۔۔ میری کیا مجال ہے اِس فیصلے کے سامنے ۔۔ منتہیٰ شدیدطیش میں آئی ۔۔۔ ارمان یوسف کا مقابلہ کرنے کے لیے ابھی آ پ کو بہت کچھ سیکھنا ہے ۔۔ بہت سی آزمائشوں سے گزرناہے ۔۔سمجھےآپ” ۔۔۔ اُس نے غصے سے سامنے کھلی فائل بند کی ۔
    اور کانفرنس ہال میں گونجنے والی پہلی تالی صہیب میر ہی کی تھی ۔ ان سب نے بہت دیر تک ٹیبل اور ڈیسک بجا کرارمان کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔
    ارمان کے لبوں پر بہت گہری دلکش مسکراہٹ اتری ۔۔۔” بالاآخر ۔۔۔ بلاآخر ۔۔ منتہیٰ نے تسلیم تو کیا ۔۔۔”
    منتہی کچھ جُز بُز ہو کر جانے کے لیے اٹھی ۔۔ "اگلے ماہ میرے سمسٹر ایگزامز ہیں اور پھر کچھ ذ اتی مصروفیات۔۔۔میں اب ویکلی میٹنگز میں کچھ عرصے تک شریک نہیں ہو سکو گی "۔۔۔ چلو رامین اُس نے بہن کو اٹھنے کا اشارہ کیا
    Ma’am, we will miss you sooooo much …!
    ارحم تنویر کی آواز پر اُس کے بڑھتے قدم تھمے ۔۔۔ جس کے چہرے پر تاؤ دلانے والی مسکراہٹ تھی
    Don’t worry Arham Tanveer, .. We will meet soon …
    "تب تک فیصلہ کر لینا "۔۔۔ خلافِ مزاج منتہیٰ کے لبوں پر گہری مسکراہٹ تھی۔
    "کیسا فیصلہ میم ۔۔؟؟۔۔” ارحم حیران ہوا
    "یہی کہ اگر میرے ہاتھوں قتل ہوئے تو شہادت کے اعزاز سے محروم ہو جاؤ گے ۔
    Bcoz I gonna do that with solid reason….!!
    "میری چوائس بہرحال سیکنڈ آپشن ہی ہوگی”۔ ارحم نے پیچھے سے ہانک لگائی
    منتہیٰ غضب ناک ہوکر پلٹی ۔۔ مگر اُس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ارمان نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پین کھینچ کر ارحم کو مارا ۔۔۔وہ بھی آخری حد کا ڈھیٹ تھا ۔!!
    رامین۔ اَرحم کو مُکا د کھاتے ہوئے بہن کے پیچھے لپکی ۔۔۔ اب سارا راستہ اُس کی شامت آنی تھی ۔
    منتہیٰ کے جانے کے بعد وہ سب بہت دیر تک ہنستے رہے ۔
    "خیر ارمان بھائی۔ بُوکے تو آپ کو نہیں ملا مگر آج آپ کی تعریف ضرور ہو گئی ۔۔ بہت بہت مبارک ہو "۔ فاریہ نے ارمان کو چھیڑا
    And credit goes to me …
    صہیب نے کالر جھاڑے ۔
    "وہ سب نا جانے آج کیا کھا کر آئے تھے۔۔۔۔ منتہیٰ پہلی دفعہ بری طرح زَ چ ہوئی تھی ۔۔”

    *************

    "لال بھاری شرارہ ، نفیس گولڈ جیولری اور عمدہ میک اپ ۔۔ ارسہ دلہن کے روپ میں ما شاء اللہ قیامت ڈھا رہی تھی ۔۔”
    جبکہ منتہیٰ ہلکے کام والے ریڈکرتا پاجامہ میں آج بھی سادہ تھی ۔۔ فاریہ اور رامین کے شدید اسرار کے باوجود اس نے میک اپ تو دور کی بات بال بھی نہیں کھولے تھے۔
    ڈاکٹر یوسف کی ٹیبل پر وہ اُن کو سلام کرنے گئی۔۔ تو خلافِ توقع ارمان بھی اُن کے ساتھ تھا ۔۔
    "یہ کیوں ٹپک پڑا ہے” ۔۔؟؟۔۔ وہ بد مزہ ہو کر کچھ اونچا بڑ بڑائی
    "کیونکہ اُنہیں اِنوائٹ کیا گیا تھا "۔۔ فاریہ قریب ہی کہیں موجود تھی ۔
    "جی نہیں”۔” ابو نے صرف سر یوسف اور اُ ن کی وائف کو اِنوائٹ کیا تھا "۔۔۔ ۔ وہ منتہیٰ ہی کیا جو کسی کے مان لے۔
    "تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ارمان بھائی کو رامین نے ہی نہیں خود اِرسہ نے بھی سپیشل اِنویٹیشن دیا تھا ۔”
    "ویسے تم نے نوٹ کیا ۔۔آج ان کی خاصی گہری نگاہیں ہیں تم پر "۔۔ شرارت سے دیدے نچا کر فاریہ بھاگی ۔
    اور آج ایک فاریہ نے ہی نہیں ارمان کے ساتھ بیٹھے اُس کے ممی ، پاپا نے بھی اس کی نظروں کی پسندیدگی نوٹ کی تھی۔ منتہیٰ کے کمر تک جھولتی گھنے بالوں کی چوٹی آج ارمان نے پہلی دفعہ دیکھی تھی ۔
    "مجھے دیوانہ کرنے کے لیے تو آپ کا یہ گھناجنگل ہی کافی ہے "۔ ارمان کی بہکتی نظریں بار بار ایک ہی طرف اٹھ رہی تھیں ۔
    رخصتی کے بعد رات دیر گھر پہنچ کر مریم کچن میں کافی بنا نے لگیں تو ڈاکٹریوسف وہیں ان کے پاس چلے آئے۔
    "مبارک ہو تمہارے بیٹے نے افلاطون بیوی ڈھونڈ لی ہے "۔۔ مریم نے کافی پھینٹتے ہوئے اُنہیں مبارک باد دی
    ڈاکٹریوسف ہنسے ۔۔ "کیسی لگی تمہیں منتہیٰ ؟؟؟”
    "اچھی ہے ۔۔ سادہ مزاج ہے اور سلجھی ہوئی” ۔۔۔ مریم کو واقعی منتہیٰ پسند آئی تھی ۔۔۔” لیکن تم نے نوٹ کیا ارمان کو اُس نے لفٹ تک نہیں کرائی ۔۔”
    "بھئی اچھی لڑکی جب مرد کی اپنی ذات میں پسندیدگی محسوس کرتی ہے ۔۔ تو خود ہی اپنے خول میں بند ہوکر چھپ جاتی ہے۔”
    "تمہیں یاد نہیں جب میں آتا تھا ۔۔۔ تم ڈھونڈنے سے بھی کہیں نہیں ملتی تھیں "۔۔ یوسف کو اپنا وقت یاد آیا ۔۔۔
    اور اُن کے اِن الفاظ پر کچن کی طرف بڑھتے ارمان کے قدم تھمے ۔۔ "یہ لو سٹوری۔۔ تو اسے آج تک پتا ہی نہیں تھی۔۔”
    "جی نہیں میں کوئی آ پ سے نہیں چھپتی تھی ۔۔ مجھے تو کچھ پتا بھی نہیں تھا "۔۔۔مریم اَنجان بنیں
    "لو میں تو ماموں کے گھر آتا ہی تمہارے لیے تھا "۔۔۔ یوسف نے شرارت سے اُن کا ہاتھ تھاما ۔۔
    اُسی وقت ارمان کا سیل تھرتھرایا ۔۔۔” اَرحم کالنگ "۔۔۔اس نے زیرِ لب ایک موٹی گالی سے نوازکر سیل سائیلنٹ پر ڈالا
    "یہ ہمیشہ غلط وقت پر ہی کال کرتا ہے "۔۔۔ ہونہہ ۔۔ پھر قدم اندر بڑھائے
    "یہ تم چھپ کے کیا سن رہے تھے "۔۔ ممی نے اُس کی چوری پکڑی
    "ممی سچ میں میرے گناہگار کانوں نے کچھ بھی نہیں سنا ۔۔۔ ویسے کیا کوئی خاص بات تھی "۔۔ ؟؟
    "ارے نہیں۔۔ ہم بس ذرا مریم اور منتہیٰ کا موازنہ کر رہے تھے "۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اُس پر گہری نظر ڈالی ۔۔
    "اچھا تو پھر کتنی باتیں ایک جیسی ملیں آپ لوگوں کو "۔۔؟؟؟۔۔ وہ بھی کم ڈھیٹ نہیں تھا
    "جتنی تمہارے اِن گناہ گار کانوں نے سنیں "۔۔ ممی نے اُس کا کان کھینچا ۔۔
    ارمان کافی کا سپ لے کر ہنسا ۔۔ "چلیں پھر لگے رہیں آپ دونوں” ۔۔ "گڈ لک "۔۔ وہ جانے کے لئے اٹھا
    "ارمان”۔ پھر ہم جائیں منتہیٰ کے گھر” ۔۔؟؟ ۔۔ مریم نے اُسے پیچھے سے پکارا
    "ممی آپ کا دل چاہ رہا ہے تو ضرور جائیں ۔۔۔ واہ، کیا تجاہلِ عارفانہ تھے”۔۔ ڈاکٹر یوسف ہنسے
    "میں پروپوزل لے کر جانے کی بات کر رہی ہوں "۔۔ مریم نے اسے آ نکھیں دکھائیں
    "اُوہ اچھا "۔۔ "پھر مٹھائی ساتھ لے کر جائیے گا خالی ہاتھ نہیں جاتے "۔۔۔ اُس نے مڑے بغیر ہانک لگائی
    "یہ کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ نہیں ہو گیا "۔۔ مریم کو تاؤ چڑھا ۔
    "ہاں۔ اپنے باپ پر گیا ہے نہ "۔۔۔یوسف نے شرارت سے دوبارہ ان کا ہاتھ تھاما ۔۔
    "تم سے بہت شریف ہے وہ "۔۔ مریم نے غصے سے ہاتھ چھڑایا ۔۔
    اور یہ بات تو ڈاکٹر یوسف بھی مانتے تھے ۔۔۔”پسندیدگی یامحبت ۔۔ ارمان جس سٹیج پر بھی تھا ۔۔ وہ منتہیٰ کا بے انتہا احترام کرتا تھا ۔۔”

    *************

    رامین نے ڈرتے ڈرتے منتہیٰ کے کمرے میں جھانکا ، جو سٹڈی ٹیبل پر لیپ ٹاپ کھولے کھٹا کھٹ ٹائپ کرنے میں بزی تھی
    "آپی "۔۔رامین کی مرَی مرَی آواز بمشکل نکلی
    "آپی وہ” ۔۔۔ منتہیٰ نے مڑ کر بغور اُسے دیکھا ۔۔ کیا بات ہے رامین ؟؟۔۔ لہجہ نرم تھا ۔۔ رامین کو حوصلہ ہوا
    "ارمان بھائی کی کال ہے ۔۔و ہ کہہ رہے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے”۔۔ رامین نے بشمکل تھوک نگلا
    منتہیٰ کی مٹھیاں بھنچی۔۔ چہرے پر سختی دَر آئی ۔۔ "کہہ دو میں مصروف ہوں۔۔”
    "آپی وہ کہہ رہے اُنہوں نے ضروری بات کرنی ہے ۔۔”
    "کہہ دو ۔۔میٹنگ میں کریں بات ۔۔”
    "آپی آپ کب سے میٹنگ میں نہیں جا رہی "۔۔۔ رامین نے اسے جتایا
    منتہیٰ نے غصے سے گھور کر سیل اُس کے ہاتھ سے چھینا ۔۔ "جی فرمائیے”۔۔ انداز پھاڑ کھانے والا تھا
    "اسلام و علیکم "۔۔ "رامین کا موبائل اُسے واپس کر دیجئے ۔۔ میں آپ کے نمبر پر کال کرتا ہوں ۔۔ ارمان کا انداز ہمیشہ کی طرح شائستہ تھا "۔۔ منتہیٰ نے بہت غصے سے سیل کی سکرین کو گھورا ۔
    "کیا ہوا ؟؟۔۔ "رامین نے حیرت سے دیدے پھاڑے
    ٹھیک اُسی وقت منتہیٰ کے سیل پرکال آئی ۔۔۔ رامین نے کچھ سمجھتے ہوئے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت سمجھی
    "ہیلو منتہیٰ” ۔۔ "اِٹس می ۔۔ ارمان یوسف ۔۔ پلیز میرا نمبر سیو کر لیں”۔
    "کیوں؟؟۔۔”۔ اُسی بدلحاظی سے جواب آیا
    "کیونکہ آپ کو کبھی ضرورت پڑ سکتی ہے "۔۔۔ انداز بدستور خوشگوار تھا
    "آپ کی اطلا ع کے لیے عرض ہے کہ تمام ونگ کمانڈرز کے نمبرز میرے پاس سیو ہیں” ۔۔ منتہیٰ کا لہجہ برفیلا تھا
    "اوہ آئی سی” ۔۔ "آئی تھوٹ ۔۔ خیر مجھے آپ سے ایک پراجیکٹ کے بارے میں رائے لینی تھی "۔۔آپ کافی عرصے سے ویکلی میٹنگز سے بھی غائب ہیں ۔”یو نو واٹ کہ مون سون سیزن شروع ہونے والا ہے اور پنجاب کو سب سے زیادہ خطرہ دریائےستلج پر سیلاب سے ہوتا ہے جہاں سے انڈیا اپنے دریاؤں کا اضافی پانی چھوڑتا ہے "۔۔۔ ارمان نے کچھ ٹہر ٹہر کر منتہیٰ کوتفصیلات بتائیں۔۔
    "پھر کیا سوچا ہے آپ لوگوں نے "منتہیٰ نے پوچھا۔۔؟؟
    "یہ کام برین ونگ کا ہے منتہیٰ ۔۔ اور ونگ کمانڈر آ پ ہیں "۔۔ اب کے ارمان کا لہجہ کچھ درشت ہوا
    "تو آپ ونگ کمانڈر تبدیل کر دیں "۔۔ اُس کا انداز اب کچھ اور خشک ہوا۔
    "منتہیٰ”۔۔ ارمان کو جیسے کرنٹ لگا ۔۔ "کیا ہوا ہے آپ کو ۔۔کوئی بات بری لگی ہے”۔۔ ؟؟۔۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا
    "ونگ کمانڈر کی حیثیت سے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پائی ۔۔۔اس لیے آپ کسی اور کو کمانڈر بنا دیں” ۔۔اس کی آوازمیں اب بھی برف کی سی ٹھنڈک تھی۔۔!!
    "کس کو بنا دوں "۔۔؟؟
    "اگر ارمان یوسف ایک ہی ہے تو منتہیٰ دستگیر کا بھی کوئی نعم البدل ہمارے پاس نہیں ہے ۔ ۔ آپ کل سے میٹنگز میں آئیں گی ۔۔سمجھیں آپ "۔۔ انتہا ئی دُرشتی سے جھڑک کر ارمان کال کاٹنے لگا تھا کہ دوسری جانب سے آوا زآئی
    "ورنہ”۔۔؟؟
    "ورنہ "۔۔ ارمان ایک لمحے کو رکا ۔۔۔” ورنہ ہم آپ کے گھر آکر میٹنگ ارینج کریں گے اینڈ۔ یو نو نہ ۔۔ کہ ارحم اور فاریہ ہی نہیں ہم باقی ونگ کمانڈرز بھی کچھ کم ڈھیٹ نہیں ہیں ۔۔”
    "جی آئی نو دیٹ ویری ویل ۔۔۔ ہونہہ ”
    "تو پھر آپ آرہی ہیں یا ہم آئیں” ۔؟؟۔۔ ارمان نے زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا
    دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی ۔۔ پھر منتہیٰ گویا ہوئی ۔۔۔”دریائے چناب پر میری ریسرچ مکمل ہے ۔ میں آپ کو اس کی فائل میل کر رہی ہوں ۔۔”
    "کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے آپ کی میل کی "۔۔ بہت غصے سے جواب دیکر ارمان کال کاٹ چکا تھا
    منتہیٰ نے شانے اچکائے ۔۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے میل باکس لاگ اِن کر کے ۔۔ ارمان کو ای میل کی ۔۔ وہ مطمئن تھی ۔
    اگلے روز شام کو وہ یونیورسٹی سے کچھ لیٹ گھر پہنچی ۔۔ اندر داخل ہوتے ہی ٹھٹکی
    فاریہ ، پلوشہ ، ارحم ، صہیب میر ، شہریار، رامین ۔۔ وہ سب گھر کے چھوٹے سے لان میں جانے کب سے ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے ۔۔ان میں ارمان نہیں تھا ۔
    اُس نے بہت تعجب سے ابو کودیکھا جن کے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ تھی ۔
    پھر اَرحم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اُس کی طرف آیا ۔۔” جو بہنیں ، بھائیوں سے خفا نہ ہوں میں سمجھتا ہوں ۔کہ وہ بہنیں ہی نہیں ہوتیں ۔۔ یہ روٹھنا منانا تو آپس کا مان ہوتا ہے ۔۔۔ آپ سو دفعہ بھی ناراض ہوں ۔۔ ہم منانے آتے رہیں گے ۔”
    اس نے ہاتھ میں پکڑا خوبصورت سا بُوکے اس کی طرف بڑھایا ۔
    فاروق صاحب نے منتہیٰ کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔ "دیکھو تمہیں کتنے سارے بھائی ایک ساتھ ملیں ہیں”۔۔
    اور کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے بُوکے تھاما۔
    "یا ہووووووو”۔۔۔۔ رامین سمیت اُن سب کا مشترکہ نعرہ اس قدر جاندار تھا کہ اندر گہری نیند سوئی ہوئی منتہیٰ کی دادی ہڑبڑا کر اٹھیں اور ہولتی ہوئی باہر کو لپکیں۔
    رات منتہیٰ کپڑے پریس کر رہی تھی کہ موبائل تھر تھرایا ۔۔۔ اُس نے سکرین دیکھی ۔۔
    "ارمان یوسف کالنگ "۔۔ بیل جاتی رہی۔۔ دونوں ہی ڈھٹائی کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کر نے کے دَر پر تھے ۔۔
    کوئی ساٹھویں بیل پر زَچ ہو کر منتہیٰ نے کال ریسیو کی ۔۔ "ہیلو ”
    اور دوسری طرف ارمان نے بے اختیار بہت گہرا سانس لیا ۔۔ "یہ دلِ مضطر اس کا کیا حشر کرنے والا تھا”۔۔ ؟؟؟
    "ویل کم بیک منتہیٰ "۔۔
    "میں ابھی میٹنگ میں گئی نہیں ہوں "۔۔ حسبِ توقع خشک جواب آیا
    ارمان ہنسا ۔۔۔ "چلی جائیں گی انشا ء اللہ ۔۔ مجھے آپ کی میل پر کچھ پوائنٹس ڈسکس کرنا تھے ۔۔ میں نے ہائی لائٹ کر کے آپکومیل بیک کی ہے۔۔”
    "جی۔ دیکھ چکی ہوں ۔۔”
    "اوکے دیٹس گڈ ۔۔ پھر وضاحت کرتی جائیں۔۔ میں پچھلے تین روز سے چناب کے سائٹ ایریا پر ہوں ۔۔۔”
    دریائے ستلج اور اس سے ملحقہ پنجاب اور سندھ کے وہ تمام علاقے جو عمو ماٌ مون سون سیزن میں سیلاب کی زد میں آتے ہیں کافی عرصے سے منتہیٰ کا ٹارگٹ تھے اور ان کے بارے میں اس کا پلان تقریباٌ مکمل تھا ۔۔ اس نے اپنے سامنے پڑے نوٹ پیڈ پر
    ایک نظر ڈالی۔
    ارمان نے جو پہلا پوائنٹ ہائی لائٹ کیا تھا وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی مکمل نشاندہی تھا تاکہ جی ایس ونگ سے ان کے بارے میں مکمل معلومات لے کر سٹرٹیجی بنائی جا سکے۔
    پاکستان میں دریائے سندھ کا طاس ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہوا علاقہ ہے جس کے گرد بسنے والی پنجاب اور سندھ کی آ بادی سیلاب سے شدید متاثر ہوتی ہے مگر ہماری حکومتوں کی غفلت اور کوتاہی کا یہ عالم ہے کہ ہر دو تین برس بعد جب مون سون سیزن اپنی جوبن پر آتا ہے یا بھارت اضافی پانی دریائے ستلج میں چھوڑتا ہے ۔ اور بھپرے ہوئے سیلابی ریلے آبادی اور کھڑی فصلوںروندتے ہوئے گزر جاتے ہیں تب بھی دوسری جگہ آباد کاری کے لیے مناسب بندوبست نہیں ۔۔کیا جاتا اور سیلابی پانی اتر جانے کے بعد یہ مفلوک الحال ہاری انہی تباہ شدہ گھروں اور زمینوں کو آباد کرنے کے لیے لوٹ آتے ہیں ۔ کہ حکومت کی طرف سے راشن کی مہربانیاں صرف سیلا ب کے دنوں میں کی جاتی ہیں پھر چاہے لوگ فاقوں سے مرتے رہیں۔ کسی کے گھر میں ہفتوں چولہا نہ جل سکے ۔ کوئی ماں اپنے بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کے ساتھ کنویں میں چھلانگ لگا لے ۔یا کوئی لاچار باپ سرِراہ پورے خاندان پر مٹی کا تیل چھڑ ک کر سب کو نذرِآتش کردے ، وہ کسی کا دردِسر نہیں ہوتے ۔
    ہمارے اربابِ اختیار بے حسی کے مخملی تکیوں پر سر دھرے میٹھی نیندوں کے مزے لیتے رہتے ہیں ۔

    *************

    بہت دیر بعد ارمان نے کال بند کر کے گھڑی دیکھی ۔۔۔ یک دم جیسے اسے کرنٹ لگا ۔۔
    "ایک گھنٹہ ۔۔ پورا ایک گھنٹہ ان کی بات ہوئی تھی ۔۔۔ ”
    "تو گلیشیئرز کی برف اَب پگھلنے لگی ہے ۔۔۔۔گڈ لک ارمان یوسف "۔۔اس نے خود کو داد دی ۔
    اگرچہ دو دن سے وہ سخت اذیت میں تھا ، اس گرمی، شدید حبس اور مچھروں کی بہتات کے ساتھ بمشکل رات کٹ رہی تھی۔ ان عذابوں سے نمٹنے کے لیے انہوں نے کچھ انتظامات بھی کیے تھے۔ مگر منتہیٰ سے طویل گفتگو کے بعد وہ تکیے پر سر رکھتے ہی یوں مزے سے سویا جیسے اس سے ا چھی نیند تو پہلے کبھی آئی ہی نہ تھی۔
    رات کوئی تین بجے کا وقت ہوگا۔ جب کسی نے ارمان کو جھنجوڑ کے جگایا ، وہ عموماََ بہت الرٹ سوتا تھا اور ہلکی سی آہٹ پر بھی جاگ جاتا تھا ۔مگر اس روز ایسی گہری نیند تھی ۔۔اور اس نیند میں وہ حسین سپنا ۔۔
    ’’ایک بے انتہاء خوبصورت وادی میں صرف وہ دونوں تھے۔ارمان اور منتہیٰ ۔ایک ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے۔۔قدم سے قدم ملاتے وہ جھیل کے نیلگوں پانیوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔ کہ یکدم جھنجوڑے جانے پر لمحوں میں سارا فسوں ہواؤں میں بکھرتاچلا گیا ۔ آنکھیں کھول کر ارمان کو یہ ادراک کرنے میں کچھ لمحے لگے کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا ۔۔وہ خواب تھا ۔حقیقت نہ تھی ۔اور خواب تو تتلیوں کی مانند ہوتے ہیں جن کے پیچھے بھاگنا اور ان کا تعاقب کرنا تو اچھا لگتا ہے مگر جنھیں مٹھیوں میں قید نہیں کیا جاتا۔نازک آبگینے ہوتے ہیں جو ذرا سی ٹھیس پر چکنا چور ہوجاتے ہیں ۔پھر لاکھ چاہو بھی تو ایک دفعہ ٹوٹا سلسلہ کسی طور جوڑا تھوڑی جا سکتاہے۔‘‘
    "نعمان "۔خیریت ؟؟۔ "اس وقت کیوں جگایا ہے”۔؟؟۔ ارمان نے حیرت سے سامنے کھڑے ساتھی سے پوچھا جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں ۔
    "نہیں سر”۔ "بالکل بھی خیریت نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے وارننگ جاری کی گئی ہے کہ انڈیا نےگزشتہ روز دریائے ستلج میں بہت زیادہ پانی چھوڑا ہے اور چند گھنٹوں میں ایک بڑے سیلابی ریلے کی آمد متوقع ہے۔۔ مسجدوں سے اعلان کروا کر فوری انخلا کروا یا جا رہا ہے”۔ نعمان نے تیزی سے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا ۔
    ارمان نے سختی سے آنکھیں بھینچی۔۔”ایک دفعہ پھر ڈیزاسٹر ان کی پلاننگ کا ستیا ناس کرتے ہوئے وقت سے پہلے آدھمکا تھا۔ ۔ جی آئی ایس ونگ کی رپورٹ کے مطابق فی الوقت بھارتی دریاؤں میں اونچے درجے کا سیلاب نہ تھا ‘ سو ان کے پاس چند ہفتے تھے ۔”
    اگلے روز کا سورج دریائے ستلج ملحقہ آبادی پر قیامت ڈھاتا ہوا طلوع ہوا تھا ۔ایک بڑے سیلابی ریلے نے کیا کم تباہی مچائی تھی کہ شام تک ایک اور ریلے کی آمد کی خبر گویا تازیانہ ثابت ہوئی ۔

    جاری ہے
    *************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    (دوسری قسط)

    "مسز مریم یوسف کا معمول تھا کہ وہ روز رات کو سونے سے پہلے گھر کے سارے دروازے چیک کرکے ایک آخری چکر ارمان کے کمرے کا لگایا کرتی تھیں جو دیر سے سونے کا عادی تھا اور عموماٌ لیپ ٹاپ یا اپنے سمارٹ فون پردوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوتا تھا "۔ مگر بی ایس ٹیلی کام انجینئرنگ میں آتے ہی ارمان میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں ، وہ جو باپ کے غصے اور ماں کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد بمشکل کتابوں کو ہاتھ لگایا کرتا تھا ،اب لیٹ نائٹ سٹڈی کا عادی ہو گیا تھا ۔ "ارمان کا شمار اُن ذہین طالبعلوں میں ہوتا تھا جو سٹڈی کو ٹف ٹائم دیئے بغیر بھی اے گریڈ لاتے ہیں ، یوسف صاحب اپنے بیٹے کی صلا حیتوں سے بخوبی واقف تھے ، اگرچہ اسکا اے گریڈ ہمیشہ انکی ا میدوں پر پانی پھیر دیا کرتا تھا ، مگر وہ ان باپوں میں سےنہیں تھے جوزبردستی اپنے فیصلے بچوں پر ٹھو نس کر انکا مستقبل برباد کر دیتے ہیں "۔

    "آج کل نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی شدت، انتہا پسندی اور مختلف طرح کی ایڈکشنزکی ایک بڑی وجہ والدین کا غیر دوستانہ رویہ،اور ان کے مستقبل کے فیصلوں میں من مانی ہے۔ یہ نئی نسل پابندیاں برداشت نہیں کرتی ، آ پ اِنہیں رسی سے باندھیں یہ اُسے توڑ بھا گیں گے ، اِنہیں زنجیروں میں جکڑیں یہ اِن سے فرار کا وہ راستہ اختیار کریں گے کہ آپ کو جوان اولاد سے عمر بھر کے لیے ہاتھ دھونے پڑیں گے” ۔ یہ وہ نوجوان نہیں ہے کہ آرمی یا ائیر فورس کا خواب ، مستقبل کی اپنی منصوبہ بندیوں کو منوں مٹی تلے سلا کر والدین کے فیصلے پر چپ چاپ ان کی پسند کی فیلڈاختیار کر لیا کرتی تھی”۔”آج کی نسل مستقبل کے فیصلوں پر اپنا حق چاہتی ہے” ۔ "سو ایک جہاندیدہ پروفیسر ہونے کے باعث اپنی اکلوتی اولاد کو ایک حد تک آزادی دیکر رسی کا دوسرا سرا بہر حال اپنے ہاتھ ہی میں رکھا تھا "۔ "اب ہر سمیسٹر میں ارمان کا پہلے سے زیادہ جی پی اے اُن کو یہ باور کرانے کے لیے کافی تھا کہ بیٹاصحیح سمت میں چل پڑا ہے ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


    اسی ناول کی پہلی قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "مشرق کی بیٹی چاہی کتنی ہی پڑھ لکھ جائے شادی بیاہ کے معاملے میں براہِ راست باپ سے بات میں ایک حجاب حائل رہتا ہے ، رات جب وہ بلاوے پر ابو کے کمرے میں گئی تو ذہن جیسے کوری سلیٹ تھا "۔ دو دن میں محنت سے تیارکیے تمام دلائل اڑن چُھو ہو چکے تھے ۔”اوپر سے عاصمہ کی تیز برماتی ، آنکھیں بیٹی کی سرکشی کو لگام ڈالنے کو پوری طرح مستعد تھیں” ۔ ملک غلام فاروق دستگیر نے صورتحا ل کی نزاکت کو بھا نپتے ہوئے عاصمہ کو وہاں سے جانے کا کہا تو وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی منتہیٰ کو سرزنش میں آنکھیں دکھاتی، چپل گھسیٹتی وہ کمرے سے نکلی تو ضرور ۔۔مگر باہر جانے کے بجائے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہو گئیں، ان کے پیچھے لاؤنج کے پردے کے پیچھے چھپی ارسہ اور رامین نے سر پیٹا ۔ "دھت تیرے کی ۔ امی کو بھی یہیں کھڑا ہونا تھا "۔ "منتہیٰ بیٹا آپ یقیناٌ جانتی ہیں کہ میں نے آپ کو کس لیے بلایا ہے سو بغیر کسی جھجک کے اپنا فیصلہ بتایئے "۔ فاروق صاحب کے دوستانہ لہجے سے منتہیٰ کی ٹوٹتی ہمت کچھ واپس آ ئی ۔۔ کمرے میں کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی ۔ منتہیٰ نظریں جھکائے کارپٹ کے ڈیزائن کی بھول بھلیوں میں اپنا مستقبل تلاش رہی اور بلاآخر اُسے راستہ مل ہی گیا ۔۔ "ابو۔میرے مستقبل کا فیصلہ یقیناٌ آپ ہی نے کرنا ہے لیکن فی الحال میری خواہش ہے کہ مجھے آگے پڑھنے دیا جائے "۔۔ اور فاروق جو بہت دیر سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ بے اختیار مسکرا اٹھے ۔ "مجھے اپنی بیٹی سے ایسے ہی جواب کی توقع تھی ،تم میرا فخر بھی ہو اور مان بھی ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم میرے سارے خواب سچ کر دکھا ؤ گی "۔ "تیزی سے امڈتے آ نسوؤں کو پونچھتے ہو ئے وہ باپ کے گلے لگی "۔ "لیکن ابو ۔۔ دادی اور پھپو”۔۔۔۔ بہت سے خدشات نے سر ابھارا ۔۔؟؟ میری جان ۔”تم اُ ن کی فکر مت کرو ، یہ یاد رکھو کہ اگر تم کچھ غیر معمولی کر کے دکھانا چاہتی ہو تو تمہیں بہت سی رکاوٹیں عبور کرنا ہوں گی، بہت سے عزیز رشتوں کا دل توڑ کر اُنکی خفگی مول لینا پڑے گی "۔ "لیکن یہ ناراضگیاں عارضی ہوا کرتی ہیں ۔۔ ایک وقت آتا ہے جب یہی لوگ آپ کی کامیابیوں پر سب سے زیادہ خوش بھی ہوتے ہیں اور دعاگو بھی کیونکہ خون کے رشتے کبھی نہیں ٹوٹاکرتے”۔ منتہیٰ جو اندیشوں اور خدشوں میں گھری کمرے میں داخل ہوئی تھی شاداں و فرحاں وہاں سے نکلی ، تو عاصمہ ماتھے پر تیوریاں چڑھائے سامنے تخت پر موجود تھیں مگر وہ سر جھکائے تیزی سے ان کے سامنے سے گزرتی چلی گئی ۔جبکہ پردے کی پیچھے چھپی ارسہ اور رامین پہلے ہی رفو چکر ہو چکی تھیں "۔ اگلے روز شام کو مہرالنساء کو گھر میں موجود پاکر فاروق صاحب کو صورتحا ل سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی ۔

    صبح جاتے وقت وہ ماں اور بیوی کواپنے فیصلے سے آگاہ کر گئے تھے۔ "فی الحال وہ منتہیٰ کو ماسٹرز کے لیئے لاہور بھیج رہے ہیں "۔ اُنک ا خیال تھا کہ عاصمہ خوش اسلوبی سے بات سنبھال لیں گی مگر یہاں تو الٹا محاذ کھلا ہوا تھا ۔ "بھا ئی مجھے آپ سے ایسی توقع ہر گز نہیں تھی "۔۔ "آخر کیا کمی ہے میرے چاند سے بیٹے میں ماشاء اللہ بینک کی جاب ہے۔۔؟” "جی پھپو”۔”بس آپ کے چاند میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی چھائی رہتی ہے "۔ رامین نے ارسہ کے کان میں سرگوشی کی جو پور ی توجہ سے دوسری طرف کی بات سننے میں مصروف تھی ۔۔ مہرالنساء۔ "میں نے انکار ہر گز نہیں کیا میں منگنی کرنے کو تیار ہوں لیکن شادی منتہیٰ کے ماسٹرز کے بعد ہی ہوگی "۔

    فاروق صاحب نے بات سنبھالنے کی آخری کوشش کی ۔ "بھائی انکار اور کیسا ہوتا ہے ؟ آپ جوان بیٹی کو لاہور ہاسٹل بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔”غضب خدا کا۔ میرا تو پورا سسرال ایسی لڑکی کو کبھی قبول نہیں کرے گا "۔ "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہوں "۔مہرالنساء کی قینچی جیسی چلتی زبان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔وہ سوچ کر آئی تھیں کہ ہاں کروا کر ہی جائیں گی۔ سو فاروق صاحب کو مداخلت کرنا پڑی۔ "آپ سب لوگ سن لیں کہ میں کوئی ایسا فیصلہ ہر گز نہیں کروں گا جس سے میری بیٹی کا مستقبل داؤ پر لگ جائے” ۔ پہلے تو میں منگنی کرنے پر تیار تھا لیکن اب میری طرف سے صاف انکار ہے ۔

    "میں اپنی بیٹی ایسے لوگوں میں قطعاٌ نہیں دوں گا جن کے لیئے اعلیٰ تعلیم باعثِ فخر نہیں بلکہ قابلِ ندامت ہے” ۔ فاروق فیصلہ سنا کر اپنے کمرے میں جا چکے تھے اور پورے گھرمیں قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ "اور منتہیٰ اپنے کمرے میں بیڈ پر سر جھکائے گہری سوچوں میں غرق تھی "۔

    "کاش ہر مشرقی لڑکی کا باپ بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ اپنی مجبوریاں سامنے رکھ کر کرنا چھوڑ دے ۔۔ لڑکی کے ماں باپ لڑکے اور اس کے گھر والوں کے دسیوں عیبوں کو نظر انداز کر تے ہوئے جب ہاں کرتے ہیں تو اُن کے پیشِ نظر صرف ایک یقین ہوتا ہے کہ اُن کی بیٹی ہر دکھ جھیل کر ان کا سر جھکنے نہیں دیگی ۔۔بیٹیاں نہ زحمت ہوتی ہیں نہ بوجھ پھر بھی ناجانے کیوں ماں باپ انکی خواہشوں، امنگوں اور سب سے بڑھ کر اُن کی صلاحیتوں کے بر خلاف جلد بازی میں فیصلے کر کے اِنہیں عمر بھر کا وہ روگ لگا دیتے ہیں جو لا علاج ہے ۔ وہ سسکتی ، بلکتی ، رلتی کولہو کا بیل بن کر گھر ، شوہر ، اولاد اور سسرال کی خدمتوں میں ساری عمر بتا دیتی ہیں پھر بھی سسرال میں کوئی عزت و قد ر نہیں ہوتی ، شوہر کی محبت اور توجہ کو ترستی بلآخر قبرمیں جا سوتی ہیں”۔ "ہمارے معاشرے کی یہ بے جوڑ شادیاں دراصل وہ پنجر ہ ہیں جن میں ایک دفعہ قید ہوجانے والی معصوم لڑ کی کا پروا نۂ آزادی پھر موت ہی لیکر آ تی ہے "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ارمان یوسف کی مردانہ وجاہت اور گریس فل شخصیت اسے ہر جگہ صنفِ نازک کی توجہ کا مرکز بنا دیتی تھی ۔۔ لیکن اِس حوالے اُس کا کیریئر بے داغ تھا ۔ حسن اُسے اَٹریکٹ ضرور کرتا تھا لیکن اُس سے بڑھ کر اسے مخالف صنف کی ذہانت اور کیریکٹراپیل کرتا تھا ۔ وہ پریوں کے ہجوم میں گھرا ہوا وہ شہزادہ تھا جس کے من کو کوئی بھا تی ہی نہ تھی ۔۔ یونیورسٹی کی الٹرا ماڈرن لڑکیاں تو اسے چلتا پھرتا شادی کا اشتہار لگا کرتی تھیں جو ہر اُس لڑکے کے ساتھ دوستی ، افیئر اور ڈیٹنگ پر آ مادہ تھیں جس کے پاس وہ نیوماڈل کی کار ، گلیکسی ایس ۷ یا آئی کور ۹ جیسے سیل فونز اور کریڈٹ کارڈز سے بھرے ہوئی والٹ دیکھ لیتی تھیں ۔ منتہیٰ کے فیس بک گروپ میں ارمان کو کسی فرینڈ آف فرینڈ نے ایڈ کیا تھا ، اُس کی دوستوں کا خیال تھا کہ جس کسی نے بھی کیا ،،کارِ خیرکیا ۔۔۔

    "اس قدر ڈیشنگ سا بندہ ہے ، یار منتہیٰ تیرے پاس تو دل ہی نہیں ہے۔” "یمنیٰ ڈیئر دل ، گردے ، کلیجی ، پھیپڑے وغیرہ الحمداللہ سب موجود ہیں "۔ "لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا دل پمپنگ کا وہی مخصوص کام کرتا ہے جس کے لیئے خدا نے اِسے بنایا ہے اور تم دیکھنا کہ اِس کی لائف ٹائم تم سب کے دلوں سے زیادہ ہوگی کیونکہ یہ فضول کاموں میں پڑ کر اپنی انرجی ضائع نہیں کرتا "۔ ہمیشہ کی طرح لوجیکل اورٹو دی پوائنٹ جواب حاضر تھا۔۔ جس پراُس کی فرینڈز سر پیٹ لیا کرتی تھی ۔۔ "یار مینا بندے کو اتنا بھی پریکٹیکل نہیں ہونا چاہیے کہ عین جوانی میں ساٹھ سال کا کوئی خبطی پروفیسر لگنے لگے "۔۔ ہونہہ

    "یہ فاریہ تھی منتہیٰ کی بیسٹ فرینڈ ۔” ارے ہاں۔ "خبطی پروفیسر سے یاد آیا کہ یہ جو ارمان یوسف ہے نہ اس کے والدِ بزرگوار پنجاب یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں سینئر پروفیسر ہیں "۔ اور منتہی ٰ جو لائبریری جانے کے لیے اٹھنے ہی لگی تھی چند لمحوں کے لیئے اپنی جگہ منجمد ہوئی۔ "پنجاب یونیورسٹی اُس کی اگلی منزل”ارے واہ۔ "یہ تو کمال ہو گیا” ۔ چلو دیکھیں گے یہ تمہارے شہزادۂ گلفام کتنے پانی میں ہیں ، یہ ڈی پی کسی کی اُڑا کر نہ لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا ۔۔ منتہیٰ نے مضحکہ اُڑایا۔۔ ۔۔مینا "پہلی بات تو یہ کہ اُس بندے کی پروفائل ہرگز فیک نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ اُس نے ہمارے گروپ میں جگہ اپنی ذہانت سے بنائی ہے ورنہ تم جیسی خبطی ، سڑیل ایڈمن کب کی اسے کک آ ؤٹ کر چکی ہوتیں "۔۔ فاریہ نے اسے آئینہ دکھا یا ۔۔ لیکن فی الحال وہ کوئی آ ئینہ دیکھنے کے موڈ میں نہیں تھی سو برے برے منہ بناتی ہوئے لا ئبریری کی طرف قدم بڑھا دیئے ۔۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ٹاپ۔ ۱۲۰ آ ئی کیو رکھنے والی منتہیٰ دستگیر کے لیے کچھ غیر معمولی نہ تھا ۔۔ اگرچہ یہاں گزارے ہوئے چار سال اس کی زندگی کے بہترین سالوں میں سے تھے ۔۔ یہاں وہ سب کچھ سیکھنے کو ملا تھا جو ایک مضبوط عمارت کی بنیاد کے لیئے اشد ضروری ہوتا ہے ۔ "پاکستان کا تعلیمی نظام عموماٌ تنقید کی ضد میں رہتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ وہ کالی بھیڑیں ہیں جو ہر شعبۂ زندگی کی طرح تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ” ۔”جن کا مقصدِ حیات نوجوان نسل کی اعلیٰ پیمانے پر تربیت کے بجائے صرف لوٹو، اور بینک بیلنس بناؤ ہے” ۔اِس کے با وجود دیکھنے میں آ یا ہے کہ "جو جینیئس مائنڈ ز دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے ہیں اُن کا تعلق معاشرے کے نچلے طبقے سے تھا "۔۔ "جنھیں ابتدائی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر میسر تھی لیکن ٹیلنٹ اپنی جگہ اور پہچان ہمیشہ خود بناتا ہے۔یہ گدڑی میں چھپے ہوئے وہ لال تھے جنھوں نے نا مساعد حالات کے باوجود ساری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔ اور پاکستان کے افق پر طلوع ہونے والے ’’ نیبیولہ‘‘ میں ایک ستارہ منتہیٰ دستگیر بھی تھی "۔ فاریہ کے بر عکس منتہیٰ پنجاب یونیورسٹی میں بھی وہ پہلے جیسی پر سکون ہی تھی ۔۔ اُسے نہ کلاسز شیڈول دردِ سر لگا تھا نہ لاہور کی شدید گرمی نے اُسم کے اوسان خطا کیئے تھے ۔۔حتیٰ کے ہوسٹل کے میس کا بیکار سا کھانا بھی وہ مطمئن ہوکر کھا لیا کرتی تھی ۔۔۔ جبکہ فاریہ کی سارا دن کمنٹری جاری رہتی تھی ، کبھی گھر کا کھانا ، کبھی آرام ، کبھی گھر والے حتیٰ کی اپنی پالتو بلی ’’میشا ‘‘بھی اُسے دن میں پچاس دفعہ یاد آتی اورہر دفعہ وفورِ جذ بات سے آنکھیں بھر آیا کرتی تھیں "۔

    جنھیں اب مینا مینڈک کے آ نسو ؤ ں سے تشبیہ دیاکرتی تھی، ہر وقت ٹر ٹر کرنے والی فاریہ کسی مینڈک سے کم بھی نہ تھی ۔۔ سکائپ اور واٹس اپ کے ذریعے گھر والوں سے مستقل رابطہ رہتا تھا ۔ منتہیٰ ہمیشہ سے کم گو رہی تھی مگر پہلی دفعہ گھر سے دوری پر اسے سب ہی بہت یاد آیا کرتے تھے۔ رات میں ابو بھی اُس سے تفصیلاٌ حال چال پوچھا کرتے تھے ۔۔ نئی جگہ پر جو بھی مسائل پیش آرہے تھے ابو کے پاس اُن کا فوری حل موجود ہوتا تھا ۔۔ فاروق صاحب نے اُسے ہاسٹل چھوڑتے وقت کوئی بہت لمبے لیکچرز نہیں دیئے تھے۔ مگر کچھ باتیں انہیں نے اس کے ذہن میں بٹھانا ضروری سمجھا تھا ۔

    "بیٹیاں ماں باپ کا مان بھی ہوتی ہیں اور فخر بھی ۔۔ یہی بیٹی اپنی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے قدموں کو بہکنے سے بچاتی ہے” ۔۔ "ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ عورت کردار کے بغیر باسی روٹی کی طرح ہوتی ہے جسے ہر کوئی چھان بورے میں ڈال دیتا ہے ہر لڑکی کے لیے سب سے اہم اُسکا وقار ہے "۔ "عورت ذات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس اتنی تیز دی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کی نظروں سے اپنے بارے میں اس کی نیت کو جان لیتی ہے یہ صلاحیت اللہ نے اُسے اِس لیے دی ہے کہ وہ جان سکے کہ کون اس کے لیے اچھا ہے اور کون برا ۔میں تمہارا باپ اپنی معصوم کلیوں کے لیے آخری حد تک حساس ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہاری منزل بہت آگے ہے۔ا ب تمہیں اپنی اور اپنے باپ کی عزت کی حفاظت اَز خود کرنی ہے ۔بہت سی رکاوٹیں تمہارے راستے میں آ ئیں گی، قدم قدم پر بھیڑیے تمہیں راستہ روکے ملیں گے ۔ لیکن ” میری جان ۔ "جو صرف اللہ پرکامل بھروسہ رکھتا ہے تو میرا رب اس کی ہر مشکل کو آسانی میں بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "صدیوں پہلے جب نیوٹن نے یہ ثابت کیا تھا کہ حسابی مساواتوں کو حیرت انگیزطور پر اجسام کے زمین اور خلا میں باہمی تعلق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو یہ امید ہو چلی تھی کہ مستقبل قریب میں کسی نئی سپیشل تھیوری اور انتہائی طاقتور اعداد و شمار کی صلاحیت کے ذریعے کائنات کے مستقبل کو آشکار کرنا ممکن ہوگا ۔وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ نئی تھیوریز سامنے آتی چلی گئیں اور آج انسان ٹیکنالوجیکل میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے "نا نو ٹیکنالوجی "اور "آرٹیفیشل انٹیلیجنس” نے جیسے وقت کو انسان کی مٹھی میں قید کر دیا ہے "۔۔۔ اچانک منتہیٰ کی آواز آئی ’’ سر کیا میں بیچ میں بول سکتی ہوں؟؟‘‘ سر انور نے اپنی ناک پر ٹکی عینک کے پیچھے سے منتہیٰ کو گھورا۔۔ اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے وہ سر ہٹلر کے نام سے مشہورتھے کسی کی مجال نہیں تھی کہ لیکچر کے دوران مداخلت کرے، "مگر وہ منتہیٰ ہی کیا جو کسی کا رعب قبول کر لے”۔۔

    "وہ تم پہلے ہی کرچکی ہو ، آگے بولو "۔ انور سر کا پارہ بس چڑھنے کو تھا ۔ مگر منتہی ٰپر ان کی ناگواری کا کچھ خاص اثر نہیں ہوا تھا ۔۔ سر جیسا کہ آپ نے کہا۔ "کہ نئی تھیوریز اور ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی بھی حتمی طور پر انسان کو اُس کے مستقبل کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہے "۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ۔ "کیا ہم نے اپنا ماضی کو پوری طرح کھوج لیا ہے؟ ؟کیا انسان نے اپنے حال کو مکمل محفوظ اور پائیدار بنا لیا ہے؟؟ "

    "کیونکہ مستقبل پر کمندیں ڈالنے کا حق تو وہی رکھتے ہیں جن کی بھرپور نظراور گرفت اپنے ماضی وحال پر ہو” ۔۔ سر انور نے کچھ غور سے اِس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا ۔۔ "یس آج کا انسان اپنے ماضی سے کافی حد تک آگاہی حاصل کر چکا ہے ۔ یہاں تک کے وہ اُس سادہ ترین خلیے کی سا خت تک سے واقف ہے جس سے زمین پر زندگی کی ابتد ہوئی "۔۔ منتہا پھر بولی ۔۔ اور حال کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماضی اور مستقبل کو جاننے کی جستجو میں انسان اپنے حال سے غافل ہو گیا ہے؟؟؟ "اسے اپنے ارد گردبھوک ، جہالت اور پسماندگی کی نچلی ترین سطح پر جیتے زمین کے باسی نظر نہیں آ تے ۔۔وہ اربوں ڈالراُس ماضی کی کھوج لگانے پر اُڑا رہا ہے۔۔ جس کی ایک جھلک وہ افریقہ میں ٹیکنالوجی کے نام سے نا بلد وحشی قبائل میں با آسانی دیکھ سکتا ہے "۔۔ "اِس سے پہلے کے ڈسکشن آگے بڑھتی پیریڈ ختم ہو چکا تھا "۔۔ لیکن کلاس سے جاتے ہوئے سر انور نے ایک گہری ستائشی نظر منتہیٰ پر ڈالی تھی ۔۔ ایک سو بیس کا آئی کیو رکھنے والی یہ لڑ کی ابتدا ہی سے سب اساتذہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکی تھی ۔جس طرح وہ لیکچر روم میں ہی نہیں مختلف سیمینارز اور ورک شاپس میں پوائنٹ اٹھایا کرتی تھی وہ سبجیکٹس پر اسکی گہری دسترس کی غماز تھی، ورنہ عموما ََ عسٹوڈنٹس اہم موضوعات کو سطحی طور پر سمجھ لیا کرتے ہیں لیکن منتہیٰ ہر چیز کو اس کی بنیاد سے سمجھنے کے لیے بلا جھجک سوال کیاکرتی تھی۔ "یار مینا کبھی اِن کتابوں کی بھی جان چھوڑ دیا کر”۔۔ "یہ دیکھ الحمراء میں سٹوڈنٹس کے آرٹس اور پینٹنگ کا مقابلہ ہو رہا ہے ۔اورانرولمنٹمیں صرف دو دن باقی ہیں "۔ لیکن جواب ندارد منتہیٰ اُسی تندہی سے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرنے میں لگی رہی ۔۔ سو فاریہ کے پاس پلان ٹو تیار تھا ، مینا کی یونیورسٹی اور پرسنل ای میلز اُسکے علم میں تھیں۔۔ "چند ہی منٹ میں وہ منتہیٰ کی انرولمنٹ کروا کر چپس ٹھونگتے ہوئے الحمراء ایڈونچر کے تھرل کے بارے میں سوچ رہی تھی "۔۔ دو دن بعد ہاسٹل واپسی پر بڑا سا پارسل منتہیٰ کا منتظر تھا ۔

    وارڈن سے پارسل لیکر وہ یہ سوچ کر کمرے میں اٹھا لائی کے ارسہ اور رامین نے شائد کوئی گفٹ بھیجا ہو ۔ لیکن ۔ "اندر تو اس کی کچھ پینٹنگز تھیں جو وہ گھر پر فارغ وقت میں بنا یا کرتی تھی”۔ اگلے لمحے وہ تکیہ اٹھا کر فاریہ پر پل پڑی ۔۔” کمینی مجھے بتائے بغیر۔۔” "لینگویج پلیز میڈم "۔۔ فاریہ بگڑی ۔۔ "آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ ما بدولت نے آپ کا قیمتی وقت بچاتے ہوئے یہ کارخیر سر انجام دیا "۔۔۔ہونہہ "ما بدولت کی بچی "۔۔ ‘اب تم الحمراء جانے کا کارِ خیر بھی خود ہی کر لینا سمجھیں ‘۔۔ میناکا تھکن سے برا حال تھا ۔۔ چند ہی منٹ بعد وہ گہری نیند میں تھی ۔ اور فاریہ پارسل کھول کر پینٹنگز کا جائزہ لینے میں مصروف تھی ۔ ایگزیبیشن کے لیے پینٹنگ جمع کروانے کا اگلے روز آخری دن تھا ۔۔ وہ پیریڈڈراپ کر کے الحمراء پہنچی۔۔ تو اُن کی توقع کے عین مطابق ریسیپشن پر خاصہ رش تھا ۔۔۔ مینا کو کوفت ہوئی۔ "فاریہ بس واپس چلتے ہیں بھاڑ میں جائے کمپی ٹیشن "۔۔ "اُف منتہیٰ تھوڑی سی دیر کی بات ہے ۔۔” کوئی آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد خیر سے اُن کی باری آئی ۔۔ پینٹنگ جمع کروا کر مینا اب تیزی سے نکلنے کو تھی کہ فاریہ کے قدم کچھ فاصلے پر کھڑے دو لڑکوں کو دیکھ کر تھمے۔ منتہیٰ نے اُسے غصے سے کھینچا ۔۔”فاریہ جلدی نکلو یہاں سے ۔۔” "مینا یار رک "۔۔وہ دیکھ سامنے جو بوائز کھڑے ہیں اُن میں سے ایک ارمان یوسف لگتا ہے ۔۔۔؟؟ "شٹ اپ "فاریہ ایک تو تم سارے مینرز بھلا کر بوائز کو اِس طرح گھور رہی ہو ۔۔ ارمان یا جاپان یوسف جو بھی ہو ۔ "جہنم میں ڈالو اور نکلو یہاں سے” ۔۔۔ مینا نے اُسے بری طرح گھرکا ۔۔

    منتہیٰ بی بی آ پ کو یاد ہے ایک دفعہ یو نیورسٹی میں آ پ نے کہا تھا ، "اگر یہ ڈی پی اِس نے کسی کی اڑا کر نا لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا” ۔ مینا نے فاریہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا ۔” ایک تو تمہیں پتا نہیں کب کب کی باتیں یاد رہتی ہیں ۔۔ ہونہہ ۔۔”تم چل رہی ہو یا میں اکیلی چلی جاؤں ۔۔؟؟ "تم باہر پانچ منٹ میرا انتظار کرو میں آتی ہوں”۔۔ اِس سے پہلی کہ منتہیٰ اُسے مزید گُھرکتی۔۔ فاریہ اعتماد سے قدم اٹھاتی اُن دولڑکوں کی طرف بڑھ چکی تھی جو اُن سے بے نیاز گفتگو میں مصروف تھے ۔۔ اور منتہی سینے پر ہاتھ باندھے محوِ تماشہ تھی۔۔ "اُسے سو فیصد یقین تھا کہ فاریہ کے ساتھ بہت بری ہونے والی ہے "۔۔۔ "ایکسکیوز می "۔۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو آپ ارمان یوسف ہیں ؟؟ کچھ حیرت سے فاریہ کو دیکھتے ہوئے اُس لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا "جی میں ارمان ہی ہوں”۔ سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں کیا ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں؟؟ "ہم”۔۔۔ لمبی سی ہم کرتے ہوئے فاریہ نے دور کھڑی محوِ تماشہ مینا کو معنی خیز مسکراہٹ سے نوازا۔۔ ایکچولی۔ بالواستہ تو یہ ہماری پہلی ملاقات ہے لیکن فیس بک پر ہم ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں ۔۔”میں فاریہ انعام ہوں”۔۔ ارمان نے دماغ پر زور ڈالا ۔۔ "یہ نام۔۔ فاریہ انعام "۔۔؟؟ "اور وہ جو کچھ فاصلے پر ایک لڑکی کھڑی ہے نہ وہ میری بیسٹ فرینڈ منتہیٰ دستگیر ہے "۔ اُسے سوچتا دیکھ کر فاریہ نے تیر چھوڑا۔ اور پھر لمحے ہی تو لگے تھے ارمان کو بوجھنے میں۔۔ اُس نے تیزی سے مڑ کراِس لڑکی کو دیکھا جو بظاہر دوسری طرف متوجہ تھی۔۔

    جاری ہے

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

     ( پہلی قسط )

    میں نے اِس چھوٹی سی دنیا میں رہ کر یہ جانا کہ لوگ روحانی اذیت میں ہیں اور بہت دل گرفتہ بھی لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ میں نے جانا کہ ایک دن سب نے مرنا ہے۔

    لیکن جو اوروں کے لئے جیتے ہیں وہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں میں نے جانا کہ جنت بھی کچھ ایسی جگہ ہوگی جہاں کچھ نئے اصول ہوں گے لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟؟؟۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    اور انسان طبعاٌ بڑا ہی نا شکرا ہے جب اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پورے قلبی جھکاؤ کیساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے ، لیکن جب اِس”۔“کے بعد اُسے آ سائش میسر آتی ہے تو وہ اپنی ساری گریہ و زاری کو بھول کر کہنے لگتا ہے کہ میرا مسیحا تو کوئی اور بنا (سورۃ الزمر ۔ القرآن) قرآن کی آیت کیا تھی ایک برچھی تھی جو سیدھی منتہیٰ دستگیر کے سینے میں عین وسط پر پیوست ہوئی تھی ۔ "وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی کھا ئیوں میں گری تھی ۔یقیناٌ وہ اُس کا رب ہی تھا جس نے اُس کے نصیب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمعیں فروزاں کی تھیں ۔” "اور ارمان یوسف اس کی آزمائش تھا یا صبر کا انعام یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    اُس کے بکھرے کمرے میں اپنے اصل مقام پر موجودواحد شے وال کلا ک تھی شاید اِس لیئے کہ جب سے سیل فون ہماری زندگیوں کا حصہ بنے ہیں وال کلاک سے سب کا سلوک سوتن جیسا ہو گیا ہے ۔ اُسکا عقیدہ تھا کہ” ممی کی ڈانٹ پھٹکار کا اثر جن لڑکوں پر ہونے لگے اُن میں ضرور قبلِ مسیح کی کوئی روح حلول کر جاتی ہے "۔

    لیکن پاپا کے لیے یہ سب عقائد دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے ۔ اللہ سے ہمیشہ ایک ہی شکوہ کیا کرتا تھا کہ یا "تو اس کے پاپا سینئر پروفیسر نہ ہوتے یا وہ اُنکی اکلوتی اولاد نہ ہوتا، اُس کے نزدیک پروفیسرکی اولاد ہونا دنیا کی سب سے بڑی بد نصیبی تھی”۔ جن کی سوئی سٹڈیز ، رولز اور شیڈول پر ہی اٹکی رہتی تھی اور چار و ناچار ارمان کوبھی کئی بنکس ، مکس گیدرنگز اور میوزک کنسرٹس چھوڑ کر صرف اُن کتابوں میں سر کھپانا پڑتا تھا جو اسے اپنی جانی دشمن لگا کرتی تھیں۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    عموماً سٹوڈنٹس میتھ میٹکس اور فزکس سے سب سے زیادہ خار کھاتے ہیں ، "کوانٹم فزکس کے متعلق تو اُس کی کلاس کی متفقہ رائے تھی کہ یہ دنیا کا ذلیل ترین سبجیکٹ ہے "،جس کے پیریڈ سے سب ہی کی جان جاتی تھی ، لیکن پوری کلاس میں اگر کوئی سٹوڈنٹ مکمل دلچسپی اور دلجمعی سے لیکچر اٹینڈ کرتا تھا تو وہ "منتہیٰ "تھی ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ’’ کوانٹم فزکس انسانی خواص سے ماوراء کسی اور سیارے کسی اور دنیا کا مضمون ہے‘‘۔ لیکن منتہیٰ کو اشیاء ہی نہیں اپنے اِرد گرد کی دنیا اور رویئے بھی کوانٹم فزکس کے اُصولوں کی مدد سے سمجھ میں آنے لگے تھے اُس کے پاس ذہانت تھی، کچھ کر دکھا نے کا جنون اور ٹیلنٹ تھا جس کے بل بوتے پر وہ آگےبڑھتی چلی گئی ۔۔ ‘‘وہ منتہیٰ دستگیر جو ہر شے کو کامیابی کے پیمانے پر پرکھنے لگی تھی ،نہیں جانتی تھی کہ وقت کی تلوار بہت بے رحم ہے اور دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے ۔’’

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ابے خبیث توضرور کسی دن مجھے پاپاکے ہاتھوں پٹوائے گا ،”دس ہزار دفعہ منع کیاہے کہ پی ٹی سی ایل پر وقت بے وقت کال مت کیا کر” ۔۔ "پر تیرے کان پر جوں نہیں رینگتی "۔

    ارمان اپنے یارِ غار ارحم پر بری طرح برحم تھا ، لیکن وہ ارحم ہی کیا جو کسی کی سنتا ہو ۔ ابے۔ "یہ گندی اشیاء تیرے اپنے سر میں پائی جاتی ہوں گی میرے نہیں "۔۔ ہونہہ ! تیرا سیل دو گھنٹے سے بزی تھا ۔۔ "اب بتا کس حسینہ سے گفتگو میں مصروف تھا میرا شہزادہ ۔۔؟؟” ابے بھوتنی کے۔ "پاپا گھر میں تھے میری مجال کے میں سٹڈیز چھوڑ کر سیل اٹھاتا "۔۔ "ویسے اپنے نصیب میں کو ئی حسینہ ہے بھی نہیں ایک سرد آہ کے ساتھ جواب حاضر تھا ۔۔” ٹھیک ہے چھپا لے بیٹا ۔۔ "تیرے سارے راز پوری کلاس کے سامنے نہ کھولے تو میرا نام بھی اَرحم تنویر نہیں ۔۔” اس سے پہلے کہ ارمان اسے ایکُ مکا جڑتا اَرحم رفو چکر ہو چکا تھا ۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "زندگی اتفاقات ، واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے ، کوئی نہیں جانتا کہ کب کونسا واقعہ یا حادثہ اُسے ایک بند گلی کے موڑ پر لیجا کر چھوڑ دیگا جہاں اسے ایک بے مقصد اور بے مصرف زندگی گزارنا پڑیگی "۔ "ایک کامیاب ترین زندگی سے ایک بے مصرف وجود تک پہنچ جانے میں انسان پرکیا کچھ بیت جاتی ہے یہ وہی جان سکتا ہے ۔جوِ ان حالات سے گزرے ، تب زندگی گزارنے اور اِسے بیتنے کا اصل مفہوم سمجھ میں آتا ہے "۔

    "ایک پُر امید کبھی مایوس نہ ہونے والا شخص کیونکر صرف موت کا انتظار کرنے لگتا ہے، وہ کیسے دکھ ہوتے ہیں جو ہر حال میں خوش رہنے والے کو موت کی چوکھٹ پر شب و روز دستک کے لیئے لا بٹھا تے ہیں ۔ "دنیا نے نا کبھی سمجھا ہے نا کبھی سمجھ پائیگی کیونکہ دنیا صرف چڑھتے سورج کی پوجا کیا کرتی ہے ۔۔ ڈوبتا سورج یا ٹوٹتے تارے دنیا والوں کے لئے بے معنی ہوا کرتے ہیں "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "سائنس میں جو ماڈلز ہم بناتے ہیں اُن کا اطلاق صرف سائنسی نمونوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اِن ماڈلز پر بھی یکساں طور پر ہوتا ہے جو ہم سب نے زندگی کو سمجھنے اور روزمرہ کے واقعات کی تشریح کے لیے اپنے اپنے تحت الشعور میں بنائے ہوئے ہیں "۔اور یہی ہمیں دنیا سے باخبر رکھتے ہیں ۔ "آج تک کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں ہو سکا جس کے ذریعے دنیا کے متعلق ہمارے نظریات میں سے آبزرور یعنی انسان کو منہا کیا جا سکے کیونکہ تصورات ہمارے اعصابی نظام کی تخلیق ہوتے ہیں "۔

    "اشیاء کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے کسی شخص کی مناظری حِس کے نیچے لگاتار سگنلز موصول ہوتے ہیں ، لیکن یہ ڈیٹا ایک خراب کھینچی ہوئی تصویر کی طرح ہوتا ہے اور انسانی دماغ اُس کو کامیابی کے ساتھ پروسس کر کے ایک مکمل تصویر پیش کرتا ہے ۔ جس کے مطابق ہم کائنات کی ہر شے کے بارے میں اپنی اپنی ذہنی سطح تک تصوارات تشکیل دیتے ہیں ۔” منتہیٰ سمیت پوری کلاس جیسے سحر زدہ تھی اور پروفیسر یوسف اپنے لیکچر کا فسوں بکھیر کر جا چکے تھے ۔۔ "پروفیسر ڈاکٹر یوسف رضا کا شمار پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فزکس کے مایہ ناز اساتذہ میں ہوتا تھا ، اپنے پیشے سے ان کی جذباتی وابستگی ، لگن اور ان تھک محنت کا ثمر تھا کہ جلد ہی وہ ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کے عہدے پر فائز ہونے والے تھے” ۔ فزکس عموماٌ خشک مضمون سمجھا جاتا ہے لیکن اِس کے برعکس پروفیسر یوسف انتہائی ہنس مکھ اور ملنسار واقع ہوئے تھے ۔۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "ہمارے معاشرے میں اَنا کا حق صرف مرد رکھتا ہے عورت کو ماں ، بہن، بیٹی یا بیوی ہر روپ میں ، زندگی کے ہر نئے موڑ پر ، ہر رشتے کو نبھانے کے لیئے اپنی اَنا اور خود داری کی قربانی دینا پڑتی ہے ۔اپنے اندر کی عورت، اُس کی اُمنگوں اور جذبوں کو دبا کر صرف مرد کی خواہش کے مطابق جینا ہی عورت کی اصل زندگی ہے "۔”لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے ہر مرد عورت کو مٹی کی مورتی یا پلاسٹک کا کھلونا نہیں سمجھتا "۔”بے نظیر ، حنا ربانی ، نرگس ماول والا اور فضا فرحان جیسی خواتین بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں "، فرق صرف اتنا ہے کہِ "انھیں خوش قسمتی سے ایسے مرد حضرات کا ساتھ میسر آیا جنھوں نے اُن کی صلاحیتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اُن کا بھرپور ساتھ دیا” ۔ آج جب نرگس کالیگوپراجیکٹ سارے عالم میں دھوم مچاتا ہے ، شرمین آسکرایوارڈ جیتتی ہے یا فضا اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل میں شامل کی جاتی ہے "تو گویا دنیا اس عورت کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے جسے عموماٌ ہانڈی، روٹی اور ڈائیپرز کا ایکسپرٹ سمجھا جاتا تھا "۔ "بلا شبہ کسی معاشرے میں عورت کا ایک با عزت مقام ہی اس قوم کی عظمت کا نشان ہے ۔

    عالمی یومِ خواتین کے موقع پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا آڈیٹوریم سٹوڈنٹس سے کچھا کچھ بھرا تھا اور منتہیٰ کا جوشِ خطا بت دیدنی تھا ۔ اُس کے اکثر اساتذہ کے ریمارکس تھے کہ "اس جیسے ملٹی ٹیلنٹڈ سٹوڈنٹس باعثِ فخر ہوتے ہیں اور اگر انھیں سازگار ماحول میسر آئے تو وہ ضرور بین الاقوامی سطح پر اپنی قوم کی پہچان بنتے ہیں ۔” بی ایس فزکس میں یہ منتہیٰ کا آخری سیمسٹر تھا اور یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے کا خواب جلد ہی شرمندۂ تعبیر ہونے والا تھا ، اور پھر اس کی اگلی منزل پنجاب یونیورسٹی تھی، "اس کا بے پناہ ٹیلنٹ اسے کسی کل چین سے نا بیٹھنے دیتا تھا ، یقیناٌ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی ، وہ کچھ غیر معمولی کر دکھانے کے لیے ہی پیدا کی گئی تھی۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "یار تو دن بدن پکا بک وارم بنتا جا رہا ہے مجھے تو تیرے ساتھ بیٹھتے ہوئے ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں کوئی چھوٹا موٹا سا تیرا سایہ مجھ پر نہ پڑ جائے ۔” اَرحم اسے ہر جگہ تلاش کرتے ہوئے لا ئبریری تک آیا تھا اور ارمان کے سامنے پھیلی موٹی موٹی کتابوں کو دیکھ کر کہے بنا نہیں رہ سکا ۔۔۔ "لیکن جواب ندارد "۔۔ "ارمان پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ اپنے نوٹس مکمل کرنے میں مصروف تھا ۔” کچھ دیر تک منہ بسورے ارمان کو گھورتے رہنے کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی اَرحم کی توجہ سامنے کھلی بکس پر چلی گئی ۔ "بی ، پی لیتھی کمیونیکیشن سسٹمز "کے انتہائی اہم ٹاپکس سامنے کھلے پڑے تھے جو لیکچرز میں اُن کے سر کے اوپر سے گزر گئے تھے ۔ ایک تو پیریڈ بھی پہلا جس میں آدھی کلاس عموماٌ اونگھ رہی ہوتی ہے اوپر سے افضال سر جیسے سخت مزاج ٹیچر ، کسی کے کچھ بمشکل ہی پلے پڑتا تھا ۔ اللہ بھلا کرے سمارٹ فونز بنانے والی تمام کمپنیوں کا جن کی بدولت اب سٹوڈنٹس کے کئی مسائل چٹکی بجاتے میں حل ہو جاتے ہیں ۔ سو اَرحم بھی اپنا آئی فون سیون نکال کر تندہی سے نوٹس کی پکچرز بنانے لگا ۔۔ ارمان نے دو تین دفعہ اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا "مگر اَرحم جیسے ڈھیٹ پیس دنیا میں کم ہی پائے جاتے تھے "۔ البتہ اندر وہ بمشکل اپنی ہنسی دبائے ہوئے تھا ۔ "تھوڑی دیر پہلے اُس کے سائے سے بچنے کی باتیں کرنے والا اَرحم پکا نہیں تو نو زائیدہ بک ورم بن ہی گیا تھا ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    بی ایس کے لاسٹ سیمسٹر کاآخری پیپر دیکر آتے ہی منتہیٰ یوں گھوڑے ،گدھے، ہاتھی ببر شیر بیچ کر سوئی کہ پھر رات کو ہی شدید بھوک سے آنکھ کھلی ۔۔ وہ بھی شدید  بھوک پیٹ میں چوہے نہ دوڑ رہے ہوتے تو اس کا پکا ارادہ اگلی صبح جاگنے کا ہی تھا۔

    دادی کی ڈانٹ پھٹکارکچن تک اُس کا پیچھا کرتی رہی ۔۔ "اے لو "یہ کوئی وقت ہے جاگنے کا "دنیا جب سونے لیٹی تو یہ نواب زادی جاگی ہیں ، نا سونے جاگنے کا سلیقہ نا نماز کی قضا کا ہوش "۔ ارے دادی آپ کو کیا معلوم کہ "یہ امتحان کیا بلا ہوتے ہیں ، مہینوں کی تیاری جیسے اپنا آپ بھلا دیتی ہے” ۔ کچن سے دو پلیٹوں میں کھانا لے کر وہ دادی پاس ہی تخت پر آبیٹھی کہ” دادی کی میٹھی میٹھی ڈانٹ ہی تو تھی جو اس کا ہاضمہ درست رکھتی تھی”۔ اے ہے ۔”یہ اپنی موٹی موٹی کتابوں کے فلسفے اپنے پاس ہی رکھو ۔ ہم نے ساری زندگی امتحان سمجھ کے کاٹی ہے "۔کیسے کیسے دکھ جھیل کے تیرے باپ اور اس کے بہن بھائیوں کو پالا ، "تم آج کل کی لڑکیاں کیا جانو کہ ماں اپنی راتوں کی نیندیں حرام کرکے اولاد کو پالتی ہے اور پھر فجر سے اُسے شوہر اور سسرال کے لیے کولہو کے بیل کی طرح جتنا پڑتا ہے "۔ ” میری بچی زندگی کو ہر لمحہ امتحان سمجھوگی تو تمہیں زیادہ تیاریاں نہیں کرنی پڑیں گی ۔ جب اپنی ناؤ اللہ پاک کے ہاتھ میں دیدو تو پھر ہرآزمائش سہل ہو جاتی ہے "۔۔ "وہ جو قادر بھی ہے اور قدیر بھی وہ اپنے پیاروں کو آگ کے دریا بھی پار کرا دیتا ہے اس لیے کہ اُس کے پیارے امتحانوں سے گزرنے کی تیاریاں نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی حیاتی خدا اور اُس کے قوانینِ فطرت کے حوالے کر کے خود ہر فکر سے آزاد ہو جاتے ہیں "۔سر جھکائے چھوٹے چھوٹے نوالے ٹھونگتی دادی کی نصیحتیں سنتی رہی ، "مگر اس کا دھیان کہیں اورتھا "، ایسا نہ تھا کہ وہ اپنے بڑوں کی نا فرمان بچی تھی مگر” اس کی حد سے بڑھی ہوئی ذہانت ہر شے کو اپنے پیمانوں پر پرکھنے پر اکساتی تھی "۔ اس کے چند دن گھر میں خالی بیٹھ کر گزارنا دوبھر تھا ،بی ایس کے رزلٹ میں کچھ ٹائم تھا سو اس کا سارا وقت اب لیپ ٹاپ پر سرچنگ اور سرفنگ پر گزرتا تھا ، "گھر بار کے بکھیڑوں سے اسے کبھی بھی کوئی دلچسپی نہ رہی تھی "۔ چند روز بعد منتہیٰ پنجاب یونیورسٹی ایڈمیشن فارم ڈاؤن لوڈ کر رہی تھی کہِ ارسہ سر پر نازل ہوئی ۔وہ کچھ جز بز تو ہوئی لیکن اپنی دونوں چھوٹی بہنیں اُسے جان سے زیادہ عزیز تھیں ۔ "ملک غلام فاروق دستگیر کا چھ افراد پر مشتمل یہ کنبہ فیصل آباد سول لائنز ایریا میں برسو ں سے آباد تھا ۔ ملک صاحب پنجاب حکومت کےایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں سترہ گریڈ کے آ فیسر اور پیشے کے لحاظ سے کیمیکل انجینئر تھے”۔ اُن کی وفا شعار بیوی عاصمہ ، بوڑھی والدہ اور تین بیٹیاں منتہیٰ، اِرسہ اور رامین ہی ان کی کل کائنات تھیں ۔ "وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھلی ذہنیت والے انسان تھے، سو انہوں نے اپنی بیٹیوں کی تربیت بھی بیٹوں کی طرح کی تھی "، خصو صاٌ سب سے بڑی منتہیٰ سے انھیں بے شمار توقعات وا بستہ تھیں ۔” سکول سے یونیورسٹی تک ٹاپ پوزیشن کے ساتھ وہ ایک بہترین مقررہ ، رائٹر اور پینٹر تھی "۔

    ان کی باقی دونوں بیٹیاں بھی ما شاء اللہ بہت با صلا حیت تھیں ۔۔ "اِرسہ کمپیوٹر انجینئرنگ میں اور رامین ابھی پری میڈیکل میں تھی” وہ ان باپوں میں سےہرگز  نہ تھے "جو بیٹیوں سے جلد از جلد جان چھڑانے کے چکر میں انھیں غلط ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں اور یہ معصوم کلیاں کھلنے سے پہلی ہی مرجھا جاتی ہیں "۔ اسی لیے بی ایس سے فارغ ہوتے ہی جب ان کی اکلوتی بہن اپنے بیٹے کا رشتہ منتہیٰ کے لیے لائی تو انہوں نے بیٹی کی مرضی معلوم کرنے کا کہہ کر کچھ وقت مانگا تھا۔

    ” ذاتی طور پر وہ چھوٹی عمر کی شادی کی حق میں بلکل نہیں تھے ، اس لیے انہیں کوئی خاص جلدی نہیں تھی ، مگر ان کی والدہ اور بیوی عاصمہ کو تین بیٹیاں پہاڑ جیسا بوجھ نظر آتی تھیں "۔ "جن کے خیال میں لڑکیاں تو بس کولہو کا بیل ہوتی ہیں ، جدھر ہانک دو چل دیں گی ، جس کھونٹے سے باندھ دو ساری عمر وہیں بتا دیں گی مگر حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائیں گی”۔ "اور اب یہی مژدۂ لے کر ارسہ منتہیٰ کے سر پر سوار تھی "۔ اپنے مستقبل کی پلاننگ میں اس غیر متوقع آپشن کی آمد پر منتہیٰ کا سر چکرایا ۔ امی اور دادی سے بات کرنے کا مطلب آ بیل مجھے مار تھا "سو دونوں بہنیں سر جوڑ کے بیٹھ گئیں کہ اِس بلائے  نا گہانی سے کس طرح جان چھڑائی جائے "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "ارمان یوسف سے اُس کا پہلا تعارف سوشل میڈیا کے توسط سے ہوا "۔ فیس بک پر منتہیٰ نے کئی جرنل نالج گروپس، کوئز اور معلوماتی تقاریر کی وجہ سے جوائن کیے ہوئے تھے اِنہی میں سے ایک گروپ میں "انسان کا چاند پر پہلا قدم اور نیل آرم سٹرونگ کی صداقت "پر ایک دھواں دھار ڈیبیٹ جاری تھی ۔

    اِس طویل ترین پوسٹ پرکمنٹس کی تعداد ہزاروں میں جا چکی تھی لیکن منتہیٰ سمیت کوئی بھی اپنے مؤ قف سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھا ۔ منتہیٰ کا اِستدلال یہ تھا "کہ اپالو ۱۱ کی جو نشریات براہِ راست دکھائی گئی تھیں وہ فیک یا پکچرائز ہر گز نہیں تھیں”۔ جبکہ مخالف پارٹی سے ارمان یوسف اپنی بات پر اڑا ہوا تھا،کہ” ناسا جو دنیا بھر میں خلا سے متعلق مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے ، امریکی فیڈرل بجٹ اور مختلف سپانسر کی مد میں تقریباٌ ۲۰ بلین ڈالرکی خطیر رقم اس مشن پر جھونک چکا تھا "۔ "اگر یہ چاند پر لینڈنگ کی یہ ویڈیو یوں ٹیلی کاسٹ نہ کی جاتی تو ناسا کے سارے سپانسرز بند ہو جاتے "۔ جبکہ انہیں فوری طور پر "مارس مشن کے لیے اس سے بڑی رقم درکار تھی "۔”اس کے علاوہ سوویت یونین خلائی دوڑ میں امریکہ سے برتری حاصل کر چکا تھا ، ناصرف خلا میں پہلا قدم رکھنے والے انسان کا اعزاز روس کے پاس تھا ، بلکہ جلد ہی وہ چاند پر بھی کمندیں ڈالنے والے تھے”۔ "سو اپنے سب سے بڑے حریف کو مات دینے کا یہ ایک بہترین طریقہ تھا جو ناسا کے تھنک ٹینکس نے یوں مؤثر طور پر ڈیزائن کیا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا” ۔ مگر بہرحال یہ سب کچھ اب تک قیاسات ہی ہیں ۔

    ” ہفتوں جاری رہنے والی یہ ڈبیٹ منتہیٰ کے ارمان سے تعارف کا سبب بنی "۔”کو ئی نہیں جانتا تھا کہ انسان کا چاند پر پہلا قدم سے شروع ہونے والا یہ تعارف وفا اور ایثار کی ایک لازوال داستان کو جنم دینے والا ہے”۔

    مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • منفرد طرزکی ناول نگار’عمیرہ احمد‘ اڑتیس سال کی ہوگئیں

    منفرد طرزکی ناول نگار’عمیرہ احمد‘ اڑتیس سال کی ہوگئیں

    آج نئے دور کی معروف اردو ناول اور ڈرامہ نگارعمیرہ احمد کی سالگرہ ہے، پیرِکامل اور شہرِذات ان کے نمائندہ ناول ہیں جنہیں ڈرامے کی شکل بھی دی گئی۔

    عمیرہ احمد کا شمار دورِحاضر کے مقبول ترین اردو ناول اور ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ 10 دسمبر 1976 کو صوبہ پنجاب پاکستان کے مشہور شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں اور مرے کالج سیالکوٹ سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ وہ آرمی پبلک کالج سیالکوٹ میں انگریزی زبان کی تدریس کرتی رہیں بعد ازاں تحریری کاموں پر پوری توجہ دینے کے لئے انہوں نے ملازمت چھوڑ دی۔

    عمیرہ احمد نے بطور مصنفہ اپنے کیریئر کا آغاز 1998 میں کیا۔ ان کی ابتدائی کہانیاں اردو ڈائجسٹوں کی زینت بنیں اور پھر کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں۔ عمیرہ احمد تقریباً 16 کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں بیشتر ناول مقبول عام کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی کئی کہانیاں ڈرامے کی صورت میں مختلف ٹی وی چینلز پر پیش کی گئ ہیں۔ تاہم ان کے ناول ’’پیر کامل‘‘کے حصے میں جو مقبولیت آئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ناول عمیرہ احمد کی پہچان اور شناخت کی حیثیت رکھتا ہے۔

    عمیرہ احمد کے جو ناول ڈرامے کے صورت میں پیش کئے گئے ان میں من و سلویٰ، لاحاصل، امربیل، حسنہ اور حسن آرا، میری ذات ذرہ بے نشان، تھوڑا سا آسمان، زندگی گلزار ہے، وجود لاریب، مٹھی بھر مٹی، دوراہا وغیرہ شامل ہیں جنہیں ناظرین کی جانب سے بے حد سراہا گیا۔ اپنے پہلے سیریل ’’وجودِ لاریب‘‘ کے لئے انہوں نے بیسٹ رائٹر کا ایوارڈ 2005 میں حاصل کیا۔ اس کے علاوہ وہ تین ٹیلی فلمز اور ایف ایم 101 اسلام آباد کے لئے ’’نور کا مسکن‘‘ نامی ایک ڈرامہ بھی لکھ چکی ہیں۔ ان کے دیگر ناولز میں، میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے، شہر ذات، اڑان، بے حد، قیدِ تنہائی، کنکر، محبت صبح کا ستارہ ہے، اب میرا انتظار کر، کوئی بات ہے تیری بات میں، سودا، تیری یاد خارِ گلاب ہے، سحر ایک استعارہ ہے، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا، کس جہاں کا زر لیا، عکس، حاصل، لاحاصل، ہم کہاں کے سچے تھے، آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں، ہلالِ جرأت، بات عمر بھر کی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوتا، ایمان امید اور محبت وغیرہ شامل یں۔

    عمیرہ کی تحاریر اور کہانیاں عموماً حقیقی سماجی مسائل کے گرد گھومتی ہیں اور موجودہ زمانے کی تہذیب و ثقافت کی عکاس ہیں۔ مقامی مسائل اور حالات کا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ روحانیت کا موضوع بھی ان کے ناولوں کا خاص عنصر ہے۔ عمیرہ احمد کو ہر طبقے بشمول بزرگ و نوجوان مرد و خواتین پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔