Tag: Urdu poet

  • آج معروف شاعر محسن بھوپالی کی گیارہویں برسی ہے

    آج معروف شاعر محسن بھوپالی کی گیارہویں برسی ہے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 11ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا ۔ اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے و محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اورکراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر

    ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
    بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر

    آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
    تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

    پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ
    دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر

    یارو میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں
    سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر

    کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے
    کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

    جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی
    پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر

    ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
    چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکاں پر

    سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دور تک
    بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسمان پر

    حق بات آ کے رک سی گئی تھی کبھی شکیبؔ
    چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر

    **********

  • ساتھی

    میں اس کو پانا بھی چاہوں
    تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے
    وہ آگے آگے تیز خرام
    میں اس کے پیچھے پیچھے
    افتاں خیزاں
    آوازیں دیتا
    شور مچاتا
    کب سے رواں ہوں
    برگ خزاں ہوں
    جب میں اکتا کر رک جاؤں گا
    وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر
    مجھ سے آنکھیں چار کرے گا
    پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا
    پھر میں
    منہ توڑ کے
    تیزی سے گھر کی جانب لوٹوں گا
    اپنے نقش قدم روندوں گا
    اب وہ دل تھام کے
    میرے پیچھے لپکتا آئے گا
    ندی نالے
    پتھر پربت پھاند آ جائے گا
    میں آگے آگے
    وہ پیچھے پیچھے
    دونوں کی رفتار ہے اک جیسی
    پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے
    وہ مجھ کو یا میں اس کو پا لوں
    *********

  • اظہار اورسائی

    مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
    بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
    آدمی کس سے مگر بات کرے؟
    بات جب حیلہ تقریب ملاقات نہ ہو
    اور رسائی کہ ہمیشہ سے ہے کوتاہ کمند
    بات کی غایت ِغایات نہ ہو
    ایک ذرہ کفِ خاکستر کا
    شرر جستہ کے مانند کبھی
    کسی انجانی تمنا کی خلش سے مسرور
    اپنے سینے کے دہکتے ہوئے تنور کی لو سے مجبور
    ایک ذرہ کہ ہمیشہ سے ہے خود سے مہجور
    کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
    آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
    اور بنتا ہے معانی کا خداوند کبھی
    وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو
    اسی اک ذرے کی تابانی سے
    کسی سوئے ہوئے رقاص کے دست و پا میں
    کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
    اسی اک ذرے کی حیرانی سے
    شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
    اسی اک ذرہ لافانی سے
    خشت بے مایہ کو ملتا ہے دوام
    بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو
    آدمی کس سے مگر بات کرے؟
    مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
    آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
    اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
    اور پھر کس کے لیے بات کروں؟

    ************

  • دستور: میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
    ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
    میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
    ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
    جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
    چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
    اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
    چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
    تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    *********

  • اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے

    اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
    زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

    یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
    تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

    حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
    ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

    ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
    ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے

    کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
    کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

    ********

  • کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی

    کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اُس نے
    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

    وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا
    بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

    تیرا پہلو، ترے دل کی طرح آباد رہے
    تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

    اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
    رُوح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

    اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
    جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

    **********

  • تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے

    تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
    پھر موسمِ بہار مرے گلستاں میں ہے

    اِک خواب ہے کہ بارِ دگر دیکھتے ہیں ہم
    اِک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے

    تابِش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سوا
    جگنو سی یہ زمیں جو کفِ آسماں میں ہے

    اِک شاخِ یاسمین تھی کل تک خزاں اَثر
    اور آج سارا باغ اُسی کی امں میں ہے

    خوشبو کو ترک کر کے نہ لائے چمن میں رنگ
    اتنی تو سوجھ بوجھ مرے باغباں میں ہے

    لشکر کی آنکھ مالِ غنیمت پہ ہے لگی
    سالارِ فوج اور کسی امتحاں میں ہے

    ہر جاں نثار یاد دہانی میں منہمک
    نیکی کا ہر حساب دِل دوستاں میں ہے

    حیرت سے دیکھتا ہے سمندر مری طرف
    کشتی میں کوئی بات ہے یا بادباں میں ہے

    اُس کا بھی دھیا ن جشن کی شب اے سپاہِ دوست
    باقی ابھی جو تیر، عُدو کی کمال میں ہے

    بیٹھے رہیں گے، شام تلک تیرے شیشہ گر
    یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

    مسند کے اتنے پاس نہ جائیں کہ پھر کَھلے
    وہ بے تعلقی جو مزاجِ شہاں میں ہے

    ورنہ یہ تیز دھوپ تو چبھتی ہمیں بھی ہے
    ہم چپ کھڑے ہوئے ہیں کہ تُو سائباں میں ہے

    **********

  • وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

    وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
    مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

    ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
    کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا

    وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
    ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا

    وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
    موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا

    آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
    تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا

    مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
    جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

    **********

  • میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا

    میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا
    ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا

    اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر
    سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا

    مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی
    پتھروں کے درمیاں تھی نغمہ گر اس نے کیا

    بے سر و ساماں پہ دل داری کی چادر ڈال دی
    بے در و دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا

    پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا
    قطرۂ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا

    ایک معمولی سی اچھائی تراشی ہے بہت
    اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا

    پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے
    ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا

    طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا
    اس دیے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا

    *********