Tag: Urdu poet

  • دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

    ن

    دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
    وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

    قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
    کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

    جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
    بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

    انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
    وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

    سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ
    سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

    اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
    سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

    مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
    تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

    **********

  • کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

    کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
    کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

    طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
    وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

    تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
    کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

    دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
    نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں

    نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
    مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

    نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
    نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

    میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
    ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

    *********

  • مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

    مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
    مروت حسن عالم گیر ہے مردان ِغازی کا

    شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
    سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

    بہت مدت کے نخچیروں کا انداز نگہ بدلا
    کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا

    قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
    فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

    حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
    نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا

    کہاں سے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
    کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

    ***********

  • سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے

    سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے​
    شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا
    اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے​
    کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
    پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے​
    جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی
    پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے​
    اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
    تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے​
    *******
  • گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا

    گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
    مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

    دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
    اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا

    ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
    آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

    باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
    شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا

    کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
    تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

    ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
    کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا

    اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
    اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا

    میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
    تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا

    **********

  • کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا

    کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا
    پر میرا جگر دیکھ کہ میں اف نہیں کرتا

    کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میں اس کے
    اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا

    کچھ اور گماں دل میں نہ گزرے ترے کافر
    دم اس لیے میں سورۂ یوسف نہیں کرتا

    پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنواں
    جب تک کہ وہ مضموں میں تصرف نہیں کرتا

    دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
    دنیا کے زر و مال پہ میں تف نہیں کرتا

    تا صاف کرے دل نہ مئے صاف سے صوفی
    کچھ سود و صفا علم تصوف نہیں کرتا

    اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
    آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا

    *********

  • بلبل ہوں صحنِ باغ سے دوراورشکستہ پر

    بلبل ہوں صحنِ باغ سے دور اور شکستہ پر
    پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر

    کیا ڈھونڈے دشتِ گمشدگی میں مجھے کہ ہے
    عنقا مرے سراغ سے دور اور شکستہ پر

    اُس مرغِ ناتواں پہ ہے حسرت جو رہ گیا
    مرغانِ کوہ و راغ سے دور اور شکستہ پر

    ساقی بطِ شراب ہے تجھ بن پڑی ہوئی
    خُم سے الگ ایاغ سے دور اور شکستہ پر

    خود اُڑ کے پہنچے نامہ جو ہو مرغِ نامہ بر
    اُس شوخِ خوش دماغ سے دور اور شکستہ پر

    کرتا ہے دل کا قصد کماں دار تیرا تیر
    پر ہے نشانِ داغ سے دور اور شکستہ پر

    اے ذوقؔ میرے طائرِ دل کو کہاں فراغ
    کوسوں ہے وہ فراغ سے دور اور شکستہ پر

    ********

  • خوب روکا شکایتوں سے مجھے

    خوب روکا شکایتوں سے مجھے
    تونے مارا عنایتوں سے مجھے

    بات قسمت کی ہے کہ لکھتے ہیں
    خط وہ کن کن کنایتوں سے مجھے

    واجب القتل اُس نے ٹھہرایا
    آیتوں سے، روایتوں سے مجھے

    حالِ مہر و وفا کہوں تو ، کہیں
    نہیں شوق ان حکایتوں سے مجھے

    کہہ دو اشکوں سے کیوں ہوکرتے کمی
    شوق کم ہے کفایتوں سے مجھے

    لے گئی عشق کی ہدایت ذوق
    اُس سرے سب نہایتوں سے مجھے​

    **********

  • دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا

    دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
    ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

    سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
    یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

    میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
    وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

    دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
    گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا

    ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی
    گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا

    کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجیے
    ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

    وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے
    مجھ سا کافرکہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا

    مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ
    ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا

    ***********

  • جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

    جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
    کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

    رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
    ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

    لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
    جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

    ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
    یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

    موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
    آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

    عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
    مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
    کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

    *********