Tag: Urdu poet

  • اس درجہ عشق موجبِ رسوائی بن گیا

    اس درجہ عشق موجبِ رسوائی بن گیا
    میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا

    دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر
    تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا

    بزم وفا میں آپ سے اک پل کا سامنا
    یاد آ گیا تو عہد شناسائی بن گیا

    بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
    آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

    دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موج زندگی
    میرا خیال وقت کی شہنائی بن گیا

    **********

  • ہمیشہ دیرکردیتا ہوں میں

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
    ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
    اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
    بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
    بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
    کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

    ***********

  • قرارہجرمیں اس کے شراب میں نہ ملا

    قرار ہجر میں اس کے شراب میں نہ ملا
    وہ رنگ اس گل رعنا کا خواب میں نہ ملا

    عجب کشش تھی نظر پر سراب صحرا سے
    گہر مگر وہ نظر کا اس آب میں نہ ملا

    بس ایک ہجرت دائم گھروں زمینوں سے
    نشان مرکز دل اضطراب میں نہ ملا

    سفر میں دھوپ کا منظر تھا اور سائے کا اور
    ملا جو مہر میں مجھ کو سحاب میں نہ ملا

    ہوا نہ پیدا وہ شعلہ جو علم سے اٹھتا
    یہ شہر مردہ صحیفوں کے باب میں نہ ملا

    مکاں بنا نہ یہاں اس دیار شر میں منیر
    یہ قصر شوق نگر کے عذاب میں نہ ملا

    **********

  • شاعرِمشرق علامہ اقبال کو گزرے 77 برس بیت گئے

    شاعرِمشرق علامہ اقبال کو گزرے 77 برس بیت گئے

    آج شاعرِ مشرق مفکر ِپاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کی برسی ہے انہیں ہم سے جدا ہوئے77 برس بیت چکے ہیں۔

    ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877کو پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں پیداہوئے تھےآپ بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔

    اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔

    علامہ اقبال کو دورجدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔

    یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی خالق سمجھا جاتا ہے گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

    علامہ اقبال کی اردو، انگریزی اور فارسی زبان میں تصانیف میسرہیں

    نثر

    علم الاقتصاد

    فارسی شاعری

    اسرار خودی
    رموز بے خودی
    پیام مشرق
    زبور عجم
    جاوید نامہ
    پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرقأ
    ارمغان حجاز

    اردو شاعری

    بانگ درا
    بال جبریل
    ضرب کلیم

    انگریزی تصانیف

    فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء
    اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو

    آپ 21 اپریل 1938 کو ساٹھ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے آپ کا مزار بادشاہی مسجد کے سائے میں مرجع خلائق ہے۔

  • اردو زبان کی مایہ نازشاعرہ’اداجعفری‘انتقال کرگئیں

    اردو زبان کی مایہ نازشاعرہ’اداجعفری‘انتقال کرگئیں

    اردو ادب کی صفِ اول کی شاعرہ ادا جعفری گزشتہ رات کراچی میں انتقال کرگئیں۔

    ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندانی نام عزیزجہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولانا بدرالحسن کا انتقال ہوگیا جس کے بعد آپ کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمرمیں ہی شعرکہنا شروع ، وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ آپ کی شادی 1947ء میں نورالحسن جعفری سے انجام پائی شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری عموماً اخترشیرانی اوراثرلکھنوی سے اصلاح لیتی رہی۔ ان کے شعری مجموعہ’شہردرد‘کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ ’جو رہی سو بے خبری رہی‘کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔

    ادا جعفری موجودہ دور کی وہ شاعرہ ہیں جن کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔ وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں ۔ گاہے گاہے یا بطرز تفریح طبع نہیں بلکہ تواتر و کمال احتیاط کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ اور جو کچھ کہہ رہی ہیں شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہہ رہی ہیں۔ حرف و صورت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ فکرو جذبے کے اس ارتعاش کے ساتھ کہہ رہی ہیں جس کی بدولت آج سے تیس چالیس سال پہلے ان کا شعر پہچان لیا جاتاتھا۔

    جہاں خونِ جگر سیرابیِ گلشن سے کترائے

    جواں مردوں پہ ایسی زندگی الزام ہوتی ہے

    ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم کی بھونچالی فضا اور پاک و ہند کی تحریک آزادی کا پر آشوب ماحول تھا۔ یہ فضا بیسویں صدی کی پانچویں دہائی یعنی 1940ء اور 1950ء کے درمیانی عرصے سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ یہ دہائی سیاسی اور سماجی اور شعری و ادبی ، ہر لحاظ سے پرشعور و ہنگامہ خیز دہائی تھی۔ تاج برطانیہ ہندوستان سے اپنا بستر بوریا سمیٹ رہا تھا اور نئی بساط سیاست بچھ رہی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو آزاد مملکتیں وجود میں آئیں۔

    1950ء تک زندگی کے شب کدے میں ادا جعفری کو جس نور کی تلاش تھی وہ اسے مل گیا ہے اور اس نور نے ان کی بساط جسم و جاں پر بہت خوشگوار اثر ڈالا ہے۔ خواب و خیال کی دھندلی راہوں میں امید کی چاندنی چٹکا دی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دوپہر کی کڑی دھوپ میں چلنے والے تھکے ماندے مسافر کو دیوار کا سایہ میسر آگیا ہے۔ اس دیوار کے سائے میں ادا جعفری کی زندگی میں بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ داخلی دنیا کے ہنگاموں میں قدرے ٹھہراؤ آیا ہے اور خارجی دنیا پر تازہ امنگوں کے ساتھ جرات مندانہ نگاہ ڈالنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔

    میری آغوش میں ہمکتا ہوا چاند ، فردا کے خوابوں کی تعبیر ہے
    یہ نئی نسل کے حوصلوں کا امین آنے والے زمانے کی تقدیر ہے

    یہ خواب کشاں کشاں انہیں ایک نئے موڑ پر لے آیا پہلے وہ صرف درد آشنا تھیں اب’شہرِ درد‘کے بیچوں بیچ
    آبسیں۔

    ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی ہائیکو کا مجموعہ ’ساز سخن ‘شائع ہو چکا ہے۔ اس میں بھی ادا جعفری نے صنعائے حیات اور سائل کائنات کو موضوع بنایا ہے۔ اور کامیابی سے اردو ہائیکو کہیں ہیں۔ان کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انہی کی رہنمائی و پیش قدمی نے نئی آنے والی پود کو حوصلہ دیا ہے اور نئی منزلوں کا پتہ بتایا ہے بلاشبہ وہ اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

    آپ کراچی میں رہائش پذیرتھیں۔ گذشتہ کچھ دنوں سے آپ کی طبعیت ناسازتھی بالاخرگذشتہ رات12مارچ 2015 کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔

  • شاعرِ آخرِالزماں جوش ملیح آبادی کوگزرے33 برس بیت گئے

    شاعرِ آخرِالزماں جوش ملیح آبادی کوگزرے33 برس بیت گئے

    برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    آوٗ پھر جوش کو دے کر لقبِ شاہ ِ سخن
    دل و دینِ سخن، جانِ ہنر تازہ کریں

    جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔

    عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
    تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے

    جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔

    رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
    کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں

    اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
    ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں

    کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی بارات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

    اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
    جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

    ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

    22فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

  • آج فیض احمد فیض کا103واں یوم پیدائش منایا جارہاہے

    آج فیض احمد فیض کا103واں یوم پیدائش منایا جارہاہے

    فیض احمد فیض کا شماراردوکےعظیم شعراء میں ہوتا ہے، آپ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ کا نام فیض احمد اور تخلص فیض تھا۔

    انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے ہی حاصل کی، اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے اور اورینٹل کالج سے عربی میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    انیس سو تیس میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد آپ برٹش آرمی میں بطورکپتان شامل ہوگئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں فرائض انجام دیئے۔فیض نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ کرفوج کوخیرباد کہا اوراس کے بعد وہ واپس شعبہِ تعلیم سے منسلک ہوگئے۔

    فیض نے قلم کاری کا آغازشاعری سے کیا اوراردواورپنجابی میں شاعری کی، بعد میں وہ صحافت سے منسلک ہوگئے، فیض احمد فیض اردو ادب میں ایک ایسا ممتاز نام ہیں، جنہوں نے سیاسی اورسماجی مسائل ک مختلف احساسات سے جوڑتے ہوئے یادگاررومانوی گیتوں کا حصہ بنا دیا۔

    فیض احمد فیض کی تخلیقات میں نقش فریادی، دست صبا، نسخہ ہائے وفا، زندان نامہ، دست تہہ سنگ، سروادی سینا، مرے دل مرے مسافرسمیت درجنوں شعری مجموعے اور تصانیف شامل ہیں۔ ان کے ادبی مجموعوں کا انگریزی ، فارسی، روسی ، جرمن اوردیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    fazzzz

    انہوں نے ادبی صورتحال اور ملکی حالات پر مضامین بھی تحریر کئے، جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ فیض احمد فیض شروع سے ہی انقلابی ذہن کے حامل تھے، وہ ایک طویل عرصے تک انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن رہے اورآمریت اورظلم کے خلاف قلمی جہاد کے ساتھ ساتھ عملی کرداربھی ادا کیا۔

    فیض احمد فیض کی اعلیٰ ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشانِ امتیازاورسوویت یونین کی جانب سے لینن پرائزعطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں نگارایوارڈ اورپاکستان ہیومن رائٹس سوسائٹی کی طرف سے امن انعام سے بھی نوازا گیا۔

    ان کے اشعار کی انقلاب آفرینی آج بھی جذبوں کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہے۔ فیض نے شخصی آزادی اور حقوق کی آواز کچھ اس طرح بلند کی کہ وہ سب کی آواز بن گئی ، فیض نوبل پرائز کے لیے بھی منتخب ہوئے۔

    familly

    فیض احمد فیض مارچ انیس سواکیاون میں راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار بھی ہوئے، آپ نے چارسال سرگودھا، ساھیوال، حیدرآباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ آپ كو 2 اپریل 1955 كو رہا كر دیا گیا ، زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں۔

    زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں، وہ بیس نومبر انیس سو چوراسی کو تہتر برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اورلاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

    جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے

    رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

  • جمالِ شعرجمال احسانی کو گزرے 17 برس بیت گئے

    جمالِ شعرجمال احسانی کو گزرے 17 برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – آج اردو زبان کے ممتاز شاعر جمال احسانی کی بر سی ہے۔ جمال 21 اپریل 1951 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے تھے۔
    انتہائی منفرد اور ممتاز لب و لہجے کے شاعر جمال احسانی کالج اوریونیورسٹی کے نوجوانوں میں بے پناہ مقبول تھے۔

    یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
    یہ رنج ہے کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

    آپ نے تین شعری مجموعے تحریر کئے جن میں تارے کو مہتاب کیا، رات کے جاگے ہوئے، ستارۂ سفر شامل ہیں۔ آپ کا تمام تر کلام کلیاتِ جمال کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

    ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگا
    سرکٹانا ہے توہتھیارنہ ڈالیں جائیں

    جمال نے اپنی ابتدائی تعلیم سرگودھا میں ہی حاصل کی اوراس کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اورپھریہیں کے ہورہے۔

    تعلیم کے بعد محکمۂ اطلاعات ونشریات ،سندھ سے منسلک ہوگئے۔اس کے علاوہ جمال احسانی روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنا پرچہ’’رازدار‘‘ بھی نکالتےرہے۔ وہ معاشی طور پر بہت پریشاں رہے۔

      تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی
    کوئی بھی عکس اگربے مثال رہ جاتا

     آپ کے کلام میں بے ساختگی اور شائستہ پن تھا اور اس کے ساتھ ہی معاشرے کی محرومیوں کا کرب بھی تھا اور ان کے کلام کا یہی جزو انہیں نوجوانوں میں منفرد بناتا تھا۔۱۹۸۱ ء میں سوہنی دھرتی رائٹرزگلڈ ایوارڈ ملا۔

    جمال احسانی 10 فروری 1998 کو 47 سال کی مختصرعمرمیں کراچی میں وفات پاگئے،انکی وفات پرمقبول شاعر جون ایلیاء نے ایک معرکتہ الارآ مختصر مرثیہ کہا تھا جس کا نمائندہ شعر کچھ یوں ہے کہ،

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب توجاکےکہیں دن سنورنے والے تھے