Tag: URDU POETRY

  • کراچی، عالمی مشاعرے کی محفل 22 مارچ کو سجے گی

    کراچی، عالمی مشاعرے کی محفل 22 مارچ کو سجے گی

    کراچی: شہر قائد میں 26ویں عالمی مشاعرے کی بڑی محفل 22 مارچ کی رات سجے گی جس میں نامور شعراء اپنا کلام پیش کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ساکنان شہر قائد کی جانب سے عالمی مشاعرے کا انعقاد ایکسپو سینٹر کراچی میں کیا جارہا ہے، 22 مارچ بروز جمعے کی رات محفلِ میں شعرا اپنے کلام پیش کریں گے۔

    گورنر سندھ عمران اسماعیل کی بطور مہمانِ خصوصی شرکت متوقع ہے، مشاعرے کا آغاز رات 8 بجے ہوگا جو رات گئے تک جاری رہے گا، نظامت کے فرائض شاعرہ عنبرین حسیب عنبر، نوجوان شاعر وجیہہ ثانی اور آغا شیرازی کریں گے۔

    دنیا بھر سے شعرا کرام تشریف لارہے ہیں، جن میں شاہدہ حسن، شاعرہ نسیم سید اور اشفاق حسین (کینیڈا)، ظہور السلام جاوید (متحدہ عرب امارات)، ڈاکٹر عبداللہ ، مونا شہاب (امریکا)، یشب تمنّا (برطانیہ) شامل ہیں۔

    علاوہ ازیں اسلام آباد سے افتخار عارف، انور مسعود اور کشور ناہید، لاہور سے تعلق رکھنے والے امجد اسلام امجد، عباس تابش، وصی شاہ، رخشندہ نوید جبکہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ابھرتے ہوئے باصلاحیت پاکستانی نوجوان شاعر رحمان فارس بھی اپنا کلام پیش کریں گے۔ اقبال احمد بلوچ (گوادر)، میر اسلم حسین سحر (اسکردو)، قادر بخش سومرو (نوشہرو فیروز)، عمیر نجمی (رحیم یار خان) بھی اپنا کلام پیش کریں گے۔

    میزبان شعراء انور شعور، پیرزادہ قاسم، جاذب قریشی، صابر ظفر، فاطمہ حسن، طارق سبزواری، جاوید صبا، ریحانہ روحی، عبدالحکیم ناصف، احمد سلمان، ناصرہ زبیری، علاؤالدین خانزادہ، عظمیٰ علی خان، یاسمین یاس، ہدایت سائر اور زیب اورنگزیب بھی اپنا کلام پیش کریں گے۔

    شاعری اور اردو ادب سے شغف رکھنے والوں کے لیے دعوتِ عام ہے۔

    یاد رہے کہ ہر سال ساکنان شہر قائد کی جانب سے عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں بھارت سمیت دنیا بھر سے نامور شعرا شرکت کرتے ہیں تاہم پاک بھارت کشیدگی کے باعث پڑوسی ملک کے شعراء شرکت کرنے سے قاصر ہیں۔

  • حفیظ تبسم کی کتاب ’دشمنوں کے لیے نظمیں‘ اور دشمنانِ منظومہ کا مختصر جائزہ

    حفیظ تبسم کی کتاب ’دشمنوں کے لیے نظمیں‘ اور دشمنانِ منظومہ کا مختصر جائزہ

    تحریر: شیخ نوید

    میرے پسندیدہ ادیب گیبریئل گارسیا مارکیز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نوبیل انعام کے حصول کے بعد جب ان کی شہرت کو پر لگ گئے تو ان کے لیے نئے دوستوں کی تعداد گننا نا ممکن ہو گیا، مارکیز کے مطابق جہاں کچھ افراد منافقانہ خوشامد کے ساتھ ان کی شہرت سے اپنا حصہ لینے کے خواہش مند تھے وہیں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اتنے ہی مخلص تھے جتنا غربت اور مشکلات کے دور میں ساتھ دینے والا کوئی خلوص کا مارا ہم درد ساتھی ہوسکتا ہے، شہرت نے انھیں میرا اتا پتا بتایا اور وہ مجھ سے آ ملے، شہرت سے مخلص دوستوں کے ملنے کا یہ پہلو تعجب خیز اور دل فریب بھی ہے۔

    حفیظ تبسم سے رابطے کا معاملہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہے لیکن یہاں ملاپ کا ذریعہ میری یا حفیظ کی شہرت نہیں بلکہ فیس بک کی ویب سائٹ تھی۔ صحیح طرح سے یاد نہیں، حفیظ نے شاید اپنے پسندیدہ ناولوں کی فہرست لگائی تھی اور دوستوں کو دعوت دی کہ وہ بھی اپنے ناولوں کی لسٹ بنائیں، حفیظ نے شاید میرے کسی دوست کو ٹیگ کیا ہوا تھا اس لیے اُس پوسٹ تک میں بھی پہنچ گیا، اس وقت دوچار تنقیدی کتابیں کچی پکی پڑھ کر میں ’’کلاسیکی تنقیدیت‘‘ کو اپنے جیب میں ڈالے گھوما کرتا تھا۔ جھٹ سے اپنی فہرست اس تیقن کے ساتھ لگائی کہ اس سے بہتر کوئی لسٹ روزِ قیامت تک وجود میں نہیں آ سکتی۔ حفیظ نے اعتراض کیا، میں نے جواب دیا، کچھ ایچ پیچ بھی ہوئی، میں نے حفیظ کی پروفائل پر جا کر سرسری جائزہ لیا تو ان کو صاحبِ کتاب پا کر مرعوب ہوگیا، وہ بھی تین کتابیں، میں نے پسپائی میں ہی عافیت سمجھی، دوسری مرتبہ کسی پوسٹ میں برادرم سید کاشف رضا کا کمنٹ پڑھا جس میں انھوں نے حفیظ تبسم کی شاعری سے نہایت مثبت توقعات کا اظہار کیا تھا۔ میں نے اسی روز انہیں فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی اور یوں ہماری دوستی کی بنیاد پڑی۔

    حفیظ تبسم

    حفیظ سے پہلی ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں عالمی ادبی کانفرنس کے موقع پر ہوئی جب وہ عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام کے گھیرے میں آڈیٹوریم کے مرکزی دروازے کی سیڑھیوں پر ٹہلتے نظر آئے، عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام سے حلقہ ارباب ذوق کراچی کے اجلاسوں میں شناسائی ہوچکی تھی، حیرت کی بات یہ تھی کہ حفیظ تبسم کو پہچاننے میں بھی مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی، شاید اس کی وجہ ان کا اور میرے جثے کا متضاد ہونا تھا، مجھے اگر تین برابر حصوں میں کاٹا جائے تو ایک حصے کا وزن حفیظ تبسم سے تھوڑا زائد ہی نکل آئے گا، ایک بھاری جسم والا انسان سنگل پسلی کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھتا ہے اور زیادہ نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ پھر اسے بھوک لگ جاتی ہے۔ رشک کے اسی جذبے نے اس کے منحنی سے وجود کو میرے دماغ میں نقش کردیا تھا۔

    حفیظ تبسم نے جب اپنی کتاب ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ میرے حوالے کی تو انوکھے عنوان نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا، دشمنوں کی فہرست کا جائزہ لیا تو سرفہرست میرے جگری دوست رفاقت حیات، سید کاشف رضا، عاطف علیم، عطاء الرحمٰن خاکی اور پسندیدہ شخصیات میں افضال احمد سید، پابلو نیرودا، رسول حمزہ توف، نصیر احمد ناصر، ملالہ یوسف زئی، سید سبط حسن، سورین کرکیکارڈ، عذرا عباس اور انور سن رائے کی نام جگمگاتے نظر آئے، حفیظ نے منٹو کو بھی نہیں بخشا، فیشن کے مطابق تو منٹو کو گالی دینا مشرقی روایات کے عین مطابق ہے لیکن حفیظ نے دشمنی کے لیے منٹو کو کیوں چنا یہ فی الوقت واضح نہیں تھا۔

    سب سے پہلے لفظ دشمن پر غور کیا، امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا فقرہ یاد آیا کہ میری قدر و قیمت کا اندازہ میرے دشمنوں سے لگایا جائے، مطلب یہ کہ دشمن آپ کی طاقت یا کم زوی کا پیمانہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو حفیظ تبسم نے ایسے دشمن چنے ہیں جن کی تخلیقات لاکھوں افراد کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں اور کروڑوں دلوں پر راج کرتے ہیں اور حتمی طور پر حفیظ تبسم کے فکری نشوونما اور شاعری کی رخ کو بھی متعین کرتے ہیں۔

    دشمنوں کو ایک اور پہلو سے ممتاز بھارتی ادیب ارون دھتی رائے نے دیکھا ہے، ان کے بقول دشمن تمہارے حوصلے کبھی توڑ نہیں سکتے یہ کام صرف دوست سر انجام دیتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے حفیظ تبسم کے دشمنوں کی لسٹ پر نظر دوڑائی جائے تو حفیظ کے حوصلوں کی بلندی قابل داد نظر آتی ہے۔ کس ماں نے ایسا بچہ کب جنا ہے جو منٹو کے حوصلوں کا مقابلہ کرے۔

    میں نے لفظ دشمن کو کسی اور نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عام فہم معنی میں میٹھی سی زندگی کے اندر کڑواہٹ گھولنے والوں کو دشمن کہا جاتا ہے، جسم کی طرح دماغ بھی آرام کا متلاشی رہتا ہے، دماغ کے لیے سوچنا ایک قسم کی مشقت ہے اور پسینہ بہانا (لغوی معنوں میں) کسے پسند ہے۔ دنیوی راحتوں اور رنگینیوں میں مست فرد کے دماغ کو سوچنے کی دعوت دینا سخت اذیت سے دوچار کرنا ہی کہلائے گا، بغیر کسی حتمی جواب کے سوالات اٹھانا کسی بھی پرسکون دماغ میں اتھل پتھل لانے کے لیے کافی ہے، حفیظ نے جو دشمنوں کی فہرست بنائی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو سوالات اٹھانے کا خطرناک فن جانتے ہیں۔

    سنجیدہ ادب کے مقابلے میں پاپولر ادب کو اسی لیے عام قارئین پسند کرتے ہیں کہ اس میں اول تو کسی قسم کے سوالات اٹھائے ہی نہیں جاتے اور اگر غلطی سے ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ہلکے پھلکے سوالات خود بہ خود کھڑے بھی ہو جائیں تو مصنف کی جیب میں موجود آفاقی سچائیوں سے جوابات ڈھونڈ کر قاری کو مطمین کر دیا جاتا ہے اور سوالات ہمیشہ کے لیے لٹا دیے جاتے ہیں، ایک بے راہ رو ہمیشہ آسمانی عذاب کا شکار ہوتا ہے، گنہگار اپنے بد ترین انجام کو پہنچتا ہے، عظیم سپاہی ہمیشہ اپنے مشن میں کام یاب ہوتے ہیں اور آخر میں ہیرو ہیروئن  عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں (نسیم حجازی کے ناولوں میں وہ گھوڑوں پر سوار ہوکر اپنے مزاج کے مطابق بحرِ ظلمات کے روٹ پر بھی نکل جاتے ہیں)۔

    دماغ اسی وقت پریشان ہوتا ہے جب منٹو ایمان والوں کو ’’کھول دو‘‘ کی ننگی حقیقت سے دوچار کرتا ہے۔ جب وہ کوٹھے کے جہنم میں بھی جنتی وجود تلاش کرلیتا ہے اور چمڑی بیچنے والے سوداگروں میں انسانی جذبات کو باہر کھینچ نکال لاتا ہے۔

    حفیظ تبسم کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی جس نے مجھے از حد متاثر کیا وہ سریئلزم اور تجریدی تمثالوں کی فراوانی ہے، آپ ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ کا کوئی صفحہ بھی بلا ارادہ کھول لیں، سریئلزم کی جان دار تمثیلوں اور تشبیہوں سے دماغ کو عجیب سی فرحت کا احساس ملتا ہے، افضال احمد سید، احمد جاوید، احمد فواد اور سعید الدین سمیت ہمارے متعدد شعرا نے نثری نظموں میں جس کے قسم کے جدید سریئلزم تجربات کیے، حفیظ اسی راستے کو کام یابی کے ساتھ اپنے خوب صورت اور بے لگام تخیل سے مزید کشادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

    دوسری خوبی جو اس مجموعے کو منفرد بناتی ہے اور وہ منظومہ افراد کی تخلیقات کے عنوانات سے ان افراد کے کردار کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے سارے تخلیقی حوالوں کے بعد ان کی نظم کی تفہیم مشکل ہوجاتی اور جب تک دشمنانِ منظومہ کی تمام تخلیقات کا مطالعہ نہ کرلیا جائے اسے سمجھنا مشکل ہوتا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ حفیظ تبسم نے ان تخلیقات کے موضوعات اور عنوانات کو نظم کی کرافٹ میں اتنی سلیقہ مندی سے کھپایا ہے کہ وہ منظومہ فرد کی شخصیت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایک کارنامہ ہی ہے کہ حفیظ نے اپنے تخیل سے فن پارے کو اس کے فن کار کی ذات میں تحلیل کرکے اسے ایک نئی معنویت تک پہنچا دیا ہے۔

    دوسرے پہلو سے جن افراد نے دشمنانِ منظومہ کی تخلیقات کا فرسٹ ہینڈ مطالعہ کر رکھا ہے ان کے لیے نظم کی قرأت منفرد سطح کا لطف پیدا کرتی ہے، ویسے بھی نظموں میں اس طرح کے اشارے رکھنے کی ایک مکمل تاریخ ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے جب اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ شائع کی تو اسے بھی مشورہ دیا گیا کہ اس کے ساتھ اشارات اور علامات کی ایک شرح بھی شائع کی جائے۔ میرا خیال ہے حفیظ کو مجموعے کے آخر میں ایک اشاریہ مرتب کرنا چاہیے تاکہ ہم جیسے سہل طبیعت کے قاری بھی دشمنانِ منظومہ کی تخلیقی کارناموں سے واقف ہوسکیں اور ممکن ہے کہ جوش میں آکر کوئی قاری ان کی تخلیقات پڑھنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے دے، معجزے کی توقع کسی بھی شخص سے رکھی جاسکتی ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو اردو ادب کا قاری کہتا ہو۔

    حفیظ اپنے ’دشمنوں‘ کے صرف کردار کا جائزہ لینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے لاشعوری احساس سے اپنے عصر کے منظر نامے کو بھی پینٹ کرتا ہے اور اُس میں ہر اس انوکھے رنگ کو ڈال دیتا ہے جس کی ضرورت اس کا عصری مسائل سے لاشعوری طور پر مزین تخیل اجازت دیتا ہے۔ سیاسی سفاکیت اور بے حسی، فکری انہدام کی گہری گھاٹیاں، علم دشمنی کی خیرہ کن چمک دمک، نفسیاتی بھول بھلیوں اور سماجی ناانصافی کے غیر عقلی رویوں کا بیان بھی ان کی نظموں میں زیریں سطح پر بہتا ہوا نظر آتا ہے اور کسی موقع پر سرئیلزم کے زبان میں نہایت کاٹ دار لہجہ اختیار کرلیتا ہے۔

    اچھے اور معیاری ادب کی یہ خوبی مسلم ہے کہ وہ مانوس کو نامانوس بنا کرپیش کرتا ہے۔ دشمنانِ حفیظ بھی جانے پہچانے اور بہ ظاہر مانوس نظر آتے ہیں۔ منٹو کا نام سن کر ہر گنہگار کانوں کو ہاتھ لگانا فرض سمجھتا ہے، نیرودا کو بھی اسی قسم کے جنسی جذبات سے عاری قدسی صفات افراد کی مخالفت کا سامنا رہا، سبط حسن کی کتابیں آج بھی کئی افراد کی جبیبوں پر شکنیں ڈال دیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملالہ یوسفزئی کو گالی دینا تو کچھ افراد کے نزدیک مذہبی رسومات میں داخل ہوچکا ہے اور ہر گالی کے ساتھ ان کے ایمانی درجے میں بڑھوتری ہوجاتی ہے۔

    حفیظ کی نظموں میں یہ شخصیات ماوارئی کردار میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور کردار حقیقی وجود رکھتے ہوئے بھی اتنے غیر حقیقی بن جاتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے فینٹیسی کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ حفیظ ان کے ادبی یا سماجی کارناموں کی علامات کو تجریدیت اور سرئیلزم کی سرحد کے پار ڈال کر انہیں ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں مکمل نامانوسیت کی فضا طاری رہتی اور قاری بھی اسی انوکھی اور ان دیکھی فضا میں خود کو تحلیل ہوتے پاتا ہے۔

    کہیں پڑھا تھا کہ اگر امر ہونا چاہتے ہو تو کسی ادیب سے دوستی کرلو، حفیظ تبسم نے اپنے مجموعے ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ سے بھی اسی قسم کی کاوش کی، اُس نے اپنے’ دشمنوں‘ کو آب حیات کے رنگ سے تراشنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ خاکے ہمارے ادبی سفر کا ایک وقیع تجربہ ہیں جس کی معنویت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ خاکے ہماری زبان کے ادبی سفر کے روشن پڑاؤ ہیں جس کی روشنی راہ ادب کو مزید منور کرے گی۔

    خوشی کی بات ہے کہ شاعری کے ساتھ حفیظ تبسم نے ایک ناول بھی لکھا ہے جو اشاعت سے قبل کے نظرثانی کے آخری مراحل پر ہے، مجھے امید ہے کہ اپنی شعری تخلیقات کی طرح وہ اپنے فکشن سے بھی اپنے استاد ساحر شفیق کی طرح افسانوی ادب میں نئی راہ نکالنے میں کام یاب رہیں گے۔ مجموعہ پڑھنے سے پہلے میں حفیظ کو اپنا دوست سمجھتا تھا لیکن اب، مجموعہ پڑھنے کے بعد، اُس کا نام میں نے اپنے دشمنوں کی سنہری فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ روک سکو تو روک لو۔

  • جوش ملیح آبادی کو گزرے 36 برس بیت گئے

    جوش ملیح آبادی کو گزرے 36 برس بیت گئے

    برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    آوٗپھرجوش کو دے کرلقبِ شاہ ِسخن
    دل و دینِ سخن، جانِ ہنرتازہ کریں

    جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔

    عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
    تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے

    جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔

    رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
    کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں

    اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
    ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں

    کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

    اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
    جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

    ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

    22 فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

    جوش کی غزلیں


  • خوشبوؤں کی شاعرہ کا آج 65واں یومِ ولادت ہے

    خوشبوؤں کی شاعرہ کا آج 65واں یومِ ولادت ہے

    محبت کی خوشبو بکھیرتی پروین شاکر کا65 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے‘ آپ نے روایات سے انکار کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصاویر بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

    p2

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر چو بیس نومبر انیس سو باون کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں، وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

    p4

    منفرد لہجہ اور ندرت خیال کے باعث جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں، الفاظ و جذبات کو انوکھے اندازمیں سمو کر سادہ الفاظ بیان کا ہنر انکا خاصہ تھا ، انہوں نے روایات سے انکار اور بغاوت کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصویریں بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔

    انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ

    مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    p3

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    p1

    ابھی فن وادب کے متوالے پو ری طرح سیراب بھی نہ ہو پائے تھے کہ خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر سنہ 1994 کو ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

     

  • شعلہ بیان شاعرشکیب جلالی کو بچھڑےاننچاس برس بیت گئے

    شعلہ بیان شاعرشکیب جلالی کو بچھڑےاننچاس برس بیت گئے

     آج اردو زبان کے شعلہ بیان شاعر سید حسن رضوی المعروف شکیب جلالی کا یومِ وفات ہے ان کی شاعری معاشرتی نا ہمواریوں اور احساسِ محرومی کی عکاس ہے۔

    یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
    گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں

    شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا اور وہ یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی کہ جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔

    دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا
    پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے

    شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہورمیں مقیم رہے، وہیں سے انہوں نے ایک رسالہ ’جاوید ‘نکالا لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ اس کے بعد ’مغربی پاکستان‘نامی سرکاری رسالے سے وابستہ ہوگئے۔

    کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
    میں پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں

    ان کی شاعری میں معاشرتی نا ہمواریاں اور احساس کی تپش نمایاں تھی اور ان کی یہی تپش جب ان کی برداشت سے باہر ہوگئی تو محض بتیس سال کی عمر میں 12 نومبر1966 کو سرگودھا ریلوے اسٹیشن کے قرین ایک تیز رفتار ٹرین کے سامنے آکر انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

    ان کا مجموعہ کلام 1972 میں روشنی اے روشنی کے نام سے شائع ہوا اور 2004 میں ان کا مکمل کلام کلیاتِ شکیب کے نام سے شائع ہوا۔

    مجھ کو گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
    جس طرح سائہ دیوار پہ دیوار گرے
    دیکھ کر اپنے در وبام لرز اٹھتا ہوں
    میرے ہم سائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

    اتر گیا ترے دل میں توشعر کہلایا
    میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا
    میں ساحلوں میں اتر کر شکیب کیا لیتا
    ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا

    سوچو توسلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
    دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

    اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
    زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمیں چلنے لگی

    شکیب جلالی نے صرف 32 برس کی عمر پائی مگر انہوں نے اتنی کم مہلت میں جو شاعری کی وہ انہیں اردو غزل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

  • مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا

    مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا
    میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا

    ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنام خیالی ٹھہرو
    میرا دل گوشہ تنہائی میں گھبرائے گا

    لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
    زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا

    عزم پختہ ہی سہی ترک وفا کا لیکن
    منتظر ہوں کوئی آ کر مجھے سمجھائے گا

    آنکھ جھپکے نہ کہیں راہ اندھیری ہی سہی
    آگے چل کر وہ کسی موڑ پہ مل جائے گا

    دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
    جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا

    *********

  • کیا کہیئے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی

    کیا کہیئے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
    اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی

    شاید ہی کوئی آ سکے اس موڑ سے آگے
    اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی

    وہ گل نہ رہے نکہت گل خاک ملے گی
    یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی

    اس شور تلاطم میں کوئی کس کو پکارے
    کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی

    خوددار ہوں کیوں آؤں در اہل کرم پر
    کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی

    اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
    پیڑوں سے جہاں چھن کے ضیا تک نہیں آتی

    یا جاتے ہوئے مجھ سے لپٹ جاتی تھیں شاخیں
    یا میرے بلانے سے صبا تک نہیں آتی

    کیا خشک ہوا روشنیوں کا وہ سمندر
    اب کوئی کرن آبلہ پا تک نہیں آتی

    چھپ چھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوت گل میں
    مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی

    یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا
    ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا تک نہیں آتی

    بہتر ہے پلٹ جاؤ سیہ خانہ غم سے
    اس سرد گپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی

    ***********

  • جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے

    جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
    جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
    یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجیئے
    رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی
    نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجیئے
    یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
    مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجیئے
    کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی
    اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجیئے
    ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا
    جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجیئے
    ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی
    نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجیئے
    جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی
    وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجیئے
    وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ
    ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجیئے

    **********

  • بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

    بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
    نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے

    تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
    کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے

    نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
    عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے

    اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
    یہ کیسی شام ِخرابات ہو گئی پیارے

    وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
    ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے

    تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
    الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے

    *********

  • دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

    دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
    ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

    بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
    لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

    ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
    دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

    جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
    آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

    وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
    اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

    **********