Tag: URDU POETRY

  • چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

    چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
    عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

    اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
    اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا

    ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
    اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

    اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
    بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

    ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

    میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
    شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا

    چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
    وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

    مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
    منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

    **********

  • اک ہنر تھا کمال تھا، کیا تھا

    اک ہنر تھا کمال تھا، کیا تھا
    مجھ میں تیرا جمال تھا، کیا تھا

    تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا
    دل میں ڈر تھا ملال تھا، کیا تھا

    برق نے مجھ کو کر دیا روشن
    تیرا عکس جلال تھا، کیا تھا

    ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم
    تیرا وقت زوال تھا کیا تھا

    جس نے تہہ سے مجھے اچھال دیا
    ڈوبنے کا خیال تھا، کیا تھا

    جس پہ دل سارے عہد بھول گیا
    بھولنے کا سوال تھا ،کیا تھا

    تتلیاں تھے ہم اور قضا کے پاس
    سرخ پھولوں کا جال تھا، کیا تھا

    *********

  • ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

    تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
    یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

    قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
    چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

    اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
    مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

    تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
    ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

    اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
    کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

    گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
    یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

    **********

  • ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

    ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

    ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
    کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

    یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

    ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
    وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

    ********

  • ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

    ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
    یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

    ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
    فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

    علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
    غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق

    مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
    خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

    اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم
    بغل میں اس کی ہیں اب تک بتانِ عہد عتیق

    مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت
    ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحبِ تصدیق

    اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
    نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

    **********

  • مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

    مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
    مروت حسن عالم گیر ہے مردان ِغازی کا

    شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
    سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

    بہت مدت کے نخچیروں کا انداز نگہ بدلا
    کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا

    قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
    فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

    حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
    نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا

    کہاں سے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
    کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

    ***********

  • سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے

    سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
    بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

    ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
    ہاں ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے

    آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
    بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے

    کیوں داد غم ہمیں نے طلب کی برا کیا
    ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے

    گر فکر زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
    کیوں محو مدح خوبی تیغ ادا نہ تھے

    ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
    ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے

    لب پر ہے تلخی مئے ایام ورنہ فیضؔ
    ہم تلخی کلام پہ مائل ذرا نہ تھے

    *********

  • تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

    تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
    کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

    حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
    تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

    ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
    جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں

    صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن
    تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں

    وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
    فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
    تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    *********

  • آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
    خواب در خواب محلات کے در وا ہیں کئی
    اور مکیں کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت
    کوئی امید، کوئی آس مسافر صورت
    کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں
    کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دور ہو تم
    ہر گھڑی سایہ گر خاطر رنجور ہو تم
    اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

    ***********

  • نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی

    نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
    تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا

    جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
    بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا

    پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے
    اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا

    ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
    بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

    ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
    سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا

    **********