Tag: URDU POETRY

  • آپ کی یاد آتی رہی رات بھر

    آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
    چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

    گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
    شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر

    کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
    کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر

    پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
    کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر

    جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر ِدر
    ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر

    ایک امید سے دل بہلتا رہا
    اک تمنا ستاتی رہی رات بھر

    **********

  • قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا

    قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
    وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا

    آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
    اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا

    وہ راحت ِجاں ہے مگر اس در بدری میں
    ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا

    ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
    پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا

    دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
    اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

    پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا
    اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا

    *********

  • درد منت ِکش دوا نہ ہوا

    درد منت ِکش دوا نہ ہوا
    میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

    جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
    اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

    ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
    تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

    کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
    گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

    ہے خبر گرم ان کے آنے کی
    آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

    کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
    بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

    جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
    حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

    زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
    کام گر رک گیا روا نہ ہوا

    رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے
    لے کے دل دل ستاں روانہ ہوا

    کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
    آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

    *********

  • نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریرکا

    نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِتصویر کا

    آتشیں پا ہوں، گداز ِوحشتِ زنداں نہ پوچھ
    موے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یہاں زنجیر کا

    شوخیِ نیرنگ، صیدِ وحشتِ طاؤس ہے
    دام، سبزے میں ہے، پروازِ چمن تسخیر کا

    لذّتِ ایجاد، ناز، افسونِ عرض۔، ذوق ِ قتل
    نعل، درآتش ہے تیغِ یار سے نخچیر کا

    کاو کا وِ سخت جانیہاے تنہائی نہ پوچھ
    صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

    خشت پشتِ دستِ عجزو قالب آغوشِ وداع
    پُر ہوا ہے سیل سے، پیمانہ کس تعمیر کا؟

    وحشتِ خوابِ عدم، شورِ تماشا ہے اسد
    جز مژہ، جوہر نہیں آئینہ تعبیر کا

    **********

  • دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا

    دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا
    مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا

    دیدۂ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی
    آہ نہ جانا روتے روتے یہ چشمہ دریا ہو گا

    کیا جانیں آشفتہ دلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں
    وہ جانے گا حال ہمارا جس کا دل بیجا ہو گا

    پاؤں حنائی اس کے لے آنکھوں پر اپنی ہم نے رکھے
    یہ دیکھا نہ رنگِ کفک پر ہنگامہ کیا برپا ہو گا

    جاگہ سے بے تہ جاتے ہیں دعوے وے ہی کرتے ہیں
    ان کو غرور و ناز نہ ہو گا جن کو کچھ آتا ہو گا

    روبہ بہی اب لاہی چکے ہیں ہم سے قطعِ امید کرو
    روگ لگا ہے عشق کا جس کو وہ اب کیا اچھا ہو گا

    دل کی لاگ کہیں جو ہو تو میرؔ چھپائے اس کو رکھ
    یعنی عشق ہوا ظاہر تو لوگوں میں رسوا ہو گا

    *********

  • فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا

    فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
    بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا​

    دریا کا اِنتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
    ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا​

    تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گُل
    تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا​

    گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے
    میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا​

    محسن اب اُس کا نام ہے سب کی زبان پر
    کِس نے کہا تھا اُس کو غزل میں سجا کے لا​

    **********

  • شکل اس کی تھی دلبروں جیسی

    شکل اس کی تھی دلبروں جیسی
    خو تھی لیکن ستمگروں جیسی

    اس کے لب تھے سکوت کے دریا
    اس کی آنکھیں سخنوروں جیسی

    میری پرواز ِجاں میں حائل ہے
    سانس ٹوٹے ہوئے پروں جیسی

    دل کی بستی ميں رونقیں ہيں مگر
    چند اجڑے ہوئے گھروں جیسی

    کون دیکھے گا اب صلیبوں پر
    صورتیں وہ پیمبروں جیسی

    میری دنیا کے بادشاہوں کی
    عادتیں ہیں گداگروں جیسی

    رخ پہ صحرا ہیں پیاس کے محسن
    دل میں لہریں سمندروں جیسی

    *************

  • پھروہی میں ہوں وہی شہربدرسناٹا

    پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
    مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا

    دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
    ہجر والوں نے لیا رختِ سفر سناٹا

    کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا
    اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا

    تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے
    تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا

    اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے
    جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا

    حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی
    رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا

    قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت
    قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا

    جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے
    ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

    ***********

  • اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

    اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
    ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا

    اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
    زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

    موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
    ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا

    تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
    ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

    آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
    راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا

    زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
    اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا

    کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
    دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

    ***********

  • زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

    زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
    دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

    ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
    اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

    اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
    شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

    دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
    دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

    **********