Tag: URDU POETRY

  • شاعرِ آخرِالزماں جوش ملیح آبادی کوگزرے33 برس بیت گئے

    شاعرِ آخرِالزماں جوش ملیح آبادی کوگزرے33 برس بیت گئے

    برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    آوٗ پھر جوش کو دے کر لقبِ شاہ ِ سخن
    دل و دینِ سخن، جانِ ہنر تازہ کریں

    جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔

    عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
    تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے

    جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔

    رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
    کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں

    اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
    ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں

    کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی بارات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

    اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
    جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

    ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

    22فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

  • آج فیض احمد فیض کا103واں یوم پیدائش منایا جارہاہے

    آج فیض احمد فیض کا103واں یوم پیدائش منایا جارہاہے

    فیض احمد فیض کا شماراردوکےعظیم شعراء میں ہوتا ہے، آپ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ کا نام فیض احمد اور تخلص فیض تھا۔

    انہوں نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے ہی حاصل کی، اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے اور اورینٹل کالج سے عربی میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    انیس سو تیس میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد آپ برٹش آرمی میں بطورکپتان شامل ہوگئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں فرائض انجام دیئے۔فیض نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ کرفوج کوخیرباد کہا اوراس کے بعد وہ واپس شعبہِ تعلیم سے منسلک ہوگئے۔

    فیض نے قلم کاری کا آغازشاعری سے کیا اوراردواورپنجابی میں شاعری کی، بعد میں وہ صحافت سے منسلک ہوگئے، فیض احمد فیض اردو ادب میں ایک ایسا ممتاز نام ہیں، جنہوں نے سیاسی اورسماجی مسائل ک مختلف احساسات سے جوڑتے ہوئے یادگاررومانوی گیتوں کا حصہ بنا دیا۔

    فیض احمد فیض کی تخلیقات میں نقش فریادی، دست صبا، نسخہ ہائے وفا، زندان نامہ، دست تہہ سنگ، سروادی سینا، مرے دل مرے مسافرسمیت درجنوں شعری مجموعے اور تصانیف شامل ہیں۔ ان کے ادبی مجموعوں کا انگریزی ، فارسی، روسی ، جرمن اوردیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

    fazzzz

    انہوں نے ادبی صورتحال اور ملکی حالات پر مضامین بھی تحریر کئے، جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ فیض احمد فیض شروع سے ہی انقلابی ذہن کے حامل تھے، وہ ایک طویل عرصے تک انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن رہے اورآمریت اورظلم کے خلاف قلمی جہاد کے ساتھ ساتھ عملی کرداربھی ادا کیا۔

    فیض احمد فیض کی اعلیٰ ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشانِ امتیازاورسوویت یونین کی جانب سے لینن پرائزعطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں نگارایوارڈ اورپاکستان ہیومن رائٹس سوسائٹی کی طرف سے امن انعام سے بھی نوازا گیا۔

    ان کے اشعار کی انقلاب آفرینی آج بھی جذبوں کو جلا بخشنے کا ذریعہ ہے۔ فیض نے شخصی آزادی اور حقوق کی آواز کچھ اس طرح بلند کی کہ وہ سب کی آواز بن گئی ، فیض نوبل پرائز کے لیے بھی منتخب ہوئے۔

    familly

    فیض احمد فیض مارچ انیس سواکیاون میں راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار بھی ہوئے، آپ نے چارسال سرگودھا، ساھیوال، حیدرآباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ آپ كو 2 اپریل 1955 كو رہا كر دیا گیا ، زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں۔

    زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں، وہ بیس نومبر انیس سو چوراسی کو تہتر برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اورلاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

    جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے

    رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

  • آج محسن نقوی کی اٹھارویں برسی ہے

    آج محسن نقوی کی اٹھارویں برسی ہے

    آج اردو زبان کے قادرالکلام شاعرمحسن نقوی کی برسی ہے۔ محسن نقوی غزل گواورسلام گو شاعر ہیں آپ کے کلام میں انسانی رویوں کے رنگ بہت خوبصورتی سے جھلکتے ہیں۔

    محسن نقوی پانچ مئی 1947 کو پیدا ہوئے ان کاتعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا شعر کہنے کے لئے محسن تلفظ کرتے تھے لہذا بحیثیت شاعر ’محسن نقوی‘کے نام سے مشہور ہوئے۔

    انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ایم اے اردو کیا تھا اسی دوران ان کا پہلا مجموعہٗ کلام منظرِعام پرآیا۔

    بعد ازاں وہ لاہورمنتقل ہوگئے اورادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے جس کے سبب انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔

    اِک ”جلوہ“ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
    اِک ”عکس“ تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا

    ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اوردنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔

    سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں​
    حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ​

    ان کے کئی مجموعہ کلام شائع ہوچکے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔

    غمِ حسین میں اک اشک کی ضرورت ہے
    پھر اپنی آنکھ کو، کوثر کا جام کہنا ہے

    لاہورمیں قیام کے دوران محسن نقوی اک خطبیب کے روپ میں سامنے آئے۔ مجالس میں ذکرِاہلبیتؑ اورواقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلبیتِؑ اطہار کی شان میں کی گئی شاعری بیان کیا کرتے تھے اوراسی سبب سے 15 جنوری 1996ء کو ایک مذہبی انتہاپسند دہشت گرد تنظیم کے دہشت گردوں نےانہوں گھات لگا کرشہید کردیا گیا۔

    یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
    سرسناں، کوئی سرسجاؤ! اُداس لوگو

  • آج اردو اورپنجابی کے معروف شاعر’منیرنیازی‘ کی آٹھویں برسی ہے

    آج اردو اورپنجابی کے معروف شاعر’منیرنیازی‘ کی آٹھویں برسی ہے

    آج اردو اورپنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی کا یومِ وفات ہے، آپ 9 اپریل 1923ء کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیارپور میں پیدا ہوئے تھے۔

    میں تو منیر آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
    یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں

    انہوں نے اپنی ادبی میراث میں اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے چھوڑے ہیں جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے،انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔

    ملنا تھا اس سے ایک بار پھر کہیں منیر
    ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا

    منیر نیازی کو ہمیشہ معاشرے کی ناروائی کا قلق رہا اوت ایک محفل میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا کہ ایک زمانے میں نقادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔

    میں منیر آزردگی میں اپنی یکتائی سے ہوں
    ایسے تنہا وقت میں ہمدم مرا ہوتا کوئی

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 26 دسمبر 2006ء کو اردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹاﺅن،کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔

    چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
    ایک ایسی زندگی، جو اس طرح مشکل نہ ہو

  • آج اردو کے ممتاز نغمہ نگار قتیل شفائی کی سالگرہ ہے

    آج اردو کے ممتاز نغمہ نگار قتیل شفائی کی سالگرہ ہے

    آج اردو کے ممتاز شاعر قتیل شفائی کا یومِ پیدائش ہے ان کا اصل نام اورنگزیب خان تھا اور وہ 24 دسمبر 1919ء کو صوبہ خیبرپختونخواہ ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے تھے۔

    قتیل شفائی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول ہری پور میں حاصل کی بعدازاں وہ راولپنڈی میں قیام پذیر ہوئے جہاں انہوں نے حکیم محمد یحییٰ شفا سے اپنے کلام پراصلاح لینا شروع کی اور انہی کی نسبت سے خود کو شفائی لکھنا شروع کیا۔

    قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں احمد ندیم قاسمی کی قربت نے ان کی علمی اور ادبی آبیاری کی۔ 1948ء میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی فلم’’تیری یاد‘‘کی نغمہ نگاری سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہواجس کے بعد انہوں نے مجموعی طور پر201 فلموں میں 900 سے زائد گیت تحریر کئے۔ وہ پاکستان کے واحد فلمی نغمہ نگار تھے جنہیں بھارتی فلموں کے لئے نغمہ نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    جس دن سے تم بچھڑ گئے یہ حال ہے اپنی آنکھوں کا
    جیسے دو بادل ساون کے آپس میں ٹکرائے ہیں

    انہوں نے کئی فلمیں بھی بنائیں جن میں پشتو فلم عجب خان آفریدی کے علاوہ ہندکو زبان میں بنائی جانے والی پہلی فلم ’’قصہ خوانی‘‘ شامل تھی۔ انہوں نے اردو میں بھی ایک فلم ’’اک لڑکی میرے گاوٗں کی‘‘ بنانی شروع کی تھی مگر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی تھی۔

    فلمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ قتیل شفائی کا ادبی سفربھی جاری رہا، ان کے شعری مجموعوں میں ہریالی، گجر، جل ترنگ، روزن، گھنگرو، جھومر، مطربہ، چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے اور سمندر میں سیڑھی کے نام شامل ہیں۔ ان کی آپ بیتی ان کی وفات کے بعد ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔

    قتیل شفائی نہایت ہی مقبول اور ہردلعزیز شاعر ہیں۔ ان کے لہجے کی سادگی و سچائی ، عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوبصورت ترجمانی ہی ان کی مقبولیت کا راز ہے۔ یوں تو انہوں مختلف اصفافِ سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل میدان غزل ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی اورسیاسی شعور بھی موجود ہے۔

    دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
    جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

    جو ہے بیدار یہاں ، اُس پہ ہے جینا بھاری
    مار ڈالیں گے یہ حالات ، چلو سو جائیں

    قتیل شفائی کا نعتیہ کلام بھی اپنی مثال آپ ہے جس کی مثال ان کی اپننی تحریر کے عکس سے عیاں ہے۔

    کتنا بڑا حضور کے قدموں کا فیض تھا
    یثرب کی سر زمیں پہ مدینہ بسا دیا


    ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنےپس منظر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، ’’میں ایک ایسے علاقے میں پیداہوا، جہاں علم و ادب کا دوردور تک نشان نہیں تھا، قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے’زمیندار‘آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی جانب راغب ہوگئے۔

    حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطا کیا تھا۔ انڈیا کی مگھد یونیورستی کے ایک پروفیسر نے ’’قتیل اور ان کے ادبی کارنامے‘‘ کے عنوان سے ان پر پی ایچ ڈی کی۔ صوبہ مہاراشٹر میں ان کی دو نظمیں شاملِ نصاب ہیں۔ علاوہ ازیں بہاولپور یونیورستی کی دو طالبات نے ایم کے لیے ان پر مقالہ تحریر کیا۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے اور علامہ اقبال ٹاؤن کے کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
    اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں

  • آج خدائے سخن میرانیس کی برسی ہے

    آج خدائے سخن میرانیس کی برسی ہے

    آج اردو زبان کے محسن شاعر خدائے سخں میر ببرعلی انیس کی تاریخ وفات ہے، انہوں نے صنفِ مرثیہ میں طبع آزمائی کی اور ان کی رزمیہ شاعری کے سبب اردو کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین زبانوں میں ہونے لگا۔

    میر انیس 1803ء میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔ انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنوی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔

    ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

    شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 برس میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

    انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لیکے کہاں سامنے ہوا کے چلے

    میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963ء میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    .مرزادبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی

    آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
    طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس

    جو ان کے لوحِ مزار پر بھی کندہ ہے۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔ انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

    رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
    وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

    کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
    جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

    خیال خاطر احباب چاہیۓ ہر دم
    انیس ٹھیس نہ لگ جاۓ آبگینوں کو

     

  • آج ممتازشاعرعطا شاد بلوچ کی سالگرہ ہے

    آج ممتازشاعرعطا شاد بلوچ کی سالگرہ ہے

    آج اردو اور بلوچی کے ممتاز شاعرعطا شاد کا یومِ پیدائش ہے، وہ مجموعی طور پرآٹھ سے زائد تصنیفات کے مصنف ہیں اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے دئیے گئے کئی اعزازات کے حامل بھی ہیں۔

    عطا شاد 13 نومبر 1939ء کو سنگانی سرکیچ، مکران میں پیدا ہوئے تھے۔عطا شاد کا اصل نام محمد اسحاق تھا- انہوں نے ابتدائی تعلیم تربت سے حاصل کی۔ 1962ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گرایجویشن کرنے کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان سے اور پھر 1969ء میں بلوچستان کے محکمہ تعلقات عامہ سے بطور افسر اطلاعات وابستہ ہوئے ۔ 1973ء میں وہ بلوچستان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اورترقی کرتے کرتے سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔

    میں اک غریبِ بے نوا میں اک فقیرِ بے صدا
    مری نظر کی التجا جو پاسکو تو ساتھ دو

    ان کی اردو شعری مجموعوں میں سنگاب اور برفاگ، بلوچی شعری مجموعوں میں شپ سہارا ندیم، روچ گر اور گچین اور تحقیقی کتب میں اردو بلوچی لغت، بلوچی لوک گیت اور بلوچی نامہ شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    عطا شاد 13 فروری 1997ء کوکوئٹہ میں وفات پاگئے۔

    دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر
    اور تم بھی لے آ ئے سائبان شیشے کا

  • شعلہ بیان شاعر شکیب جلالی کو بچھڑےاڑتالیس برس بیت گئے

    شعلہ بیان شاعر شکیب جلالی کو بچھڑےاڑتالیس برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – آج اردو زبان کے شعلہ بیان شاعر سید حسن رضوی المعروف شکیب جلالی کا یومِ وفات ہے ان کی شاعری معاشرتی نا ہمواریوں اور احساسِ محرومی کی عکاس ہے۔

    یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
    گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں

    شکیب جلالی یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی کہ جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔

    دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا
    پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے

    شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہورمیں مقیم رہے، وہیں سے انہوں نے ایک رسالہ ’جاوید ‘نکالا لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ اس کے بعد ’مغربی پاکستان‘نامی سرکاری رسالے سے وابستہ ہوگئے۔

    کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
    میں پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں

    ان کی شاعری میں معاشرتی نا ہمواریاں اور احساس کی تپش نمایاں تھی اور ان کی یہی تپش جب ان کی برداشت سے باہر ہوگئی تو محض بتیس سال کی عمر میں 12 نومبر1966 کو سرگودھا ریلوے اسٹیشن کے قرین ایک تیز رفتار ٹرین کے سامنے آکر انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

    ان کا مجموعہ کلام 1972 میں روشنی اے روشنی کے نام سے شائع ہوا اور 2004 میں ان کا مکمل کلام کلیاتِ شکیب کے نام سے شائع ہوا۔

    مجھ کو گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
    جس طرح سائہ دیوار پہ دیوار گرے
    دیکھ کر اپنے در وبام لرز اٹھتا ہوں
    میرے ہم سائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

    اتر گیا ترے دل میں توشعر کہلایا
    میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا
    میں ساحلوں میں اتر کر شکیب کیا لیتا
    ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا

    سوچو توسلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
    دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

    اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
    زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمیں چلنے لگی

  • آج خوش گواردو شاعرسبطِ علی صباؔ کی سالگرہ ہے

    آج خوش گواردو شاعرسبطِ علی صباؔ کی سالگرہ ہے

    اردو کے خوش گو شاعر سبط علی صباؔ 11 نومبر 1935ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1953ء سے 1960ء تک وہ پاکستان کی بری فوج کے ساتھ وابستہ رہے اور پھر پاکستان آرڈیننس فیکٹری، واہ سے منسلک ہوئے۔

    صبا کے بچپن ہی میں ان کے والد اپنے مختصر خاندان کو اپنے ساتھ رڑکی (انڈیا) لے گئے۔ صبا کو والد نے آرمی کے ایک سکول میں داخلہ دلوایا۔ پرائمری تک تعلیم صبا نے وہاں سے حاصل کی اور ساتھ ساتھ اپنے والد سے ہی قرآنِ پاک ناظرہ پڑھا۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ والد اور والدہ دونوں ہی اپنے مذہبی عقائد کے پکے تھے۔ لہٰذا ابتدا ہی سے آنحضرتﷺ اور اہل بیتؑ سے محبت صبا کے دل میں پروان چڑھنے لگی۔ والد کو مطالعہ کا شوق تھا اور گھر پر مذہبی تقریبات اور مباحثے بھی ہوتے تھے، جن کی وجہ سے اسلامی اقدار اور اسلامی تاریخ سے وابستگی صبا کی شخصیت کا جزو بن گئی۔

    سبط علی صبا14 مئی 1980ءکوواہ کینٹ میں وفات پاگئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ سبط علی صباؔ نے صرف 44 برس عمر پائی۔ ان کا مجموعہ کلام جس کا نام انہوں نے خود ابرسنگ تجویز کیا تھا ان کی وفات کے بعد ان کے احباب نے طشت مراد کے نام سے شائع کیا۔ سبط علی صبا کی کلیات ابر سنگ کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکی ہے۔

    سبط علی صباؔ کا ایک شعراردو ادب میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
    لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے

    صباؔ پر تحقیقی مقالے کے مصنف اختر شاؔد کا کہنا ہے کہ سید سبطِ علی صبا جیسے جدید شاعر کے محض مزدور ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری پر تنقیدی و تشریحی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔