بیگم ہُرمُزی جلیل قدوائی پاکستان کے ادب اطفال میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں جن تحریر کردہ یہ کہانی ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے اوصاف و کردار سے متعلق ہے۔ اس کہانی کا مقصد بچوں کی اخلاقی تربیت اور ان میں انسان دوستی کا جذبہ پروان چڑھانا ہے۔
اب سے کوئی پانچ سو برس پہلے کا ذکر ہے کہ ہند دستان پر پہلا مغل بادشاہ بابر حکومت کرتا تھا۔ بابر کے بہت سے قصے مشہور ہیں۔ جس وقت اس کی عمر بارہ سال کی تھی اُس وقت سے اُسے ایک چھوٹی سی سلطنت فرغنہ کی حکومت سنبھالنی پڑی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس چھوٹی ریاست پر حکومت کرتے کرتے کابل کی حکومت اور بعد میں ہندوستان جیسی بڑی سلطنت کا مالک بن گیا۔
مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی کم عمری میں وہ اس لائق کیسے ہو گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنی محنت اور دیانت داری کی وجہ سے اتنی ترقی کر گیا کیوں کہ اللہ میاں بھی ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جن میں کسی کام کی سچی لگن ہوتی ہے اور جو محنت سے جی نہیں چراتے۔
باہر کہنے کو اتنا بڑا شہنشاہ تھا لیکن وہ اور بادشاہوں کی طرح عیش و آرام میں وقت نہیں ضائع کرنا تھا ۔ وہ حکومت کے کاموں سے فرصت پاکر ہمارے تمھارے جیسے کپڑے پہن کر گلی کوچوں اور بازاروں میں گشت کیا کرتا تھا۔ اگر وہ شاہی لباس میں باہر نکلتا تو اپنی رعایا کے اصل حالات سے آگاہ نہیں ہو سکتا تھا۔
ایک روز بابر سادہ لباس میں اپنے گھوڑے پر گشت کو نکلا۔ ایک دم بازار میں شور اٹھا اور لوگ جیسے اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ دکان داروں نے دکانیں بند کرنا شروع کر دیں۔ ان کے چہرے خوف و دہشت سے پہلے پڑ گئے۔
بابر نے بھگدڑ دیکھ کر اپنے گھوڑے کو روکا اور لوگوں سے پوچھا کہ اس شور کی کیا وجہ ہے۔ معلوم ہوا کہ شاہی فیل خانے سے ایک ہاتھی زنجیر تڑا کر نکل آیا ہے اور اس کے ڈر سے لوگ بھاگ رہے ہیں۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ سامنے والی سڑک پر ایک بچہ جس نے ابھی بیٹھنا بھی نہیں سیکھا تھا پڑا ہے۔
بابر نے تیزی سے اپنے گھوڑے کو بچے کی طرف موڑ دیا۔ اُس کے پاس پہنچ کر جھٹ نیچے اترا اور بچے کو اپنی گود میں اٹھا کر وہاں سے گھوڑا دوڑا دیا۔ بابر اور ہاتھی کے درمیان کوئی بیس قدم کا فاصلہ رہ گیا ہوگا۔ تمام لوگ اپنی چھتوں اور کھڑکیوں سے یہ خوفناک مگر دلیرانہ منظر دیکھ رہے تھے اور اس بہادر کی تعریف کر رہے تھے۔ مگر انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ان کا بادشاہ ہے۔ باہر اس بچے کو سینے سے چمٹائے اپنے محل میں پہنچا۔ بچہ میلی کچیلی حالت میں تھا۔ بابر نے اُسے غسل دلوایا۔ اس کے لئے صاف ستھرے کپڑے منگوائے جنھیں پہنا کر اسے دودھ پلوایا اور آرام سے نرم نرم بستر پر سلوا دیا۔ دوسرے دن بابر نے ایک شان دار دربار طلب کیا اور منادی کرا دی کہ خلقت کو آنے کی عام اجازت ہے، یعنی عور تیں مرد، امیر، غریب ، بوڑھے، بالے سب آئیں، اور ہوا بھی یہی کہ وقت مقررہ پر شہر کی تقریباً ساری رعایا دربار میں جمع ہو گئی۔ نقیب چوبدار وغیرہ ہر طرف کھڑے انھیں سنبھال رہے تھے۔ سب لوگ بڑے اشتیاق اور بے چینی سے منتظر تھے کہ کب بادشاہ سلامت تشریف لائیں اور کب وہ سب انھیں دیکھیں۔
آخر وہ گھڑی بھی آگئی کہ بادشاہ سلامت اپنے سادے لباس میں اس بچے کو سینے سے لپٹا کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ تمام لوگ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرنے لگے کہ یا اللہ یہ کیسا سیدھا سادہ بادشاہ ہے اور یہ بچہ کون ہے۔ کچھ لوگ اس حادثے کے وقت بازار میں موجود تھے جنھوں نے اس شخص کو بچہ اٹھاتے دیکھا تھا، وہ پہچان گئے۔
اتنے میں بادشاہ کے وزیر خاص نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے اُس بچے کو ہاتھوں میں اٹھا کر سب کو دکھایا اور سارا واقعہ بیان کیا کہ وہ بادشاہ کو کیسے ملا۔ پھر وزیر نے کہا کہ جس کسی کا کبھی بچہ ہو وہ اسے آکر لے جائے۔
ایک غم زدہ عورت مجمع کو چیرتی پھاڑتی، روتی دھوتی ہزار دقّت سے تختِ شاہی تک آئی اور بادشاہ کے قدموں میں گر پڑی۔ پھر وہ خوشی کے آنسو پوچھتی ہوئی بچہ کی طرف لپکی۔ اُس نے اٹھا کر اس کا منہ چوما ۔ خوب سا پیار کیا اور سینے سے چمٹا کر بادشاہ کو دعائیں دیتی ہوئی اپنی جگہ واپس آگئی۔
اب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ بچہ اس مہترانی کا تھا جو اس حادثے سے پہلے اسے سڑک کے کنارے لٹا کر صفائی کرنے چلی گئی تھی۔ جب وہ اپنا کام ختم کر کے واپس آئی تو ہاتھی کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی تھی اور وہ بچے تک نہ پہنچ سکی۔ بہت سے لوگ بچے کے نزدیک تھے مگر وہ سب اپنی جان کے خوف سے چھپ گئے تھے۔ کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ کون ایک غریب بھنگن کے بچہ کو بچائے اور یہ کہ وہ اُس کو چھونے سے ناپاک ہو جائیں گے، بچے کو بے بس چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔
بابر کو یہ معلوم تھا کہ بھنگی کے سوا کسی کا بچہ سڑک پر پڑا نظر نہیں آسکتا لیکن اُس نے امیری غریبی یا پاکی ناپاکی کیا بالکل خیال نہ کیا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بچے کو بچا لیا۔
اب ہر بڑے چھوٹے امیر غریب کی زبان پر اپنے بادشاہ کی تعریف تھی۔ ہر شخص یہی کہتا تھا کہ بھئی واہ کتنا نیک دل کیسا مہربان بادشاہ ہے۔ ایسے بادشاہ پر تو رعایا کو اپنی جان قربان کر دینا چاہیے۔ کسی کا اپنے بادشاہ کے دربار سے جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مگر جانا تو تھا ہی… تھوڑی دیر بعد سب اس کی تعریف کرتے ہوئے خوشی خوشی اپنے گھر واپس ہوئے۔
اور مہترانی کا کچھ حال نہ پوچھو ۔ کتنی خوش ، کتنی باغ باغ تھی وہ ۔ یوں سمجھو کہ اُس کا کھویا ہوا لحل مل گیا ۔ اس کا تو رواں رواں بادشاہ کو ہزاروں دعائیں دے رہا تھا۔