Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • ایک سچا افسانہ

    ایک سچا افسانہ

    بیگم ہُرمُزی جلیل قدوائی پاکستان کے ادب اطفال میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں جن تحریر کردہ یہ کہانی ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے اوصاف و کردار سے متعلق ہے۔ اس کہانی کا مقصد بچوں کی اخلاقی تربیت اور ان میں انسان دوستی کا جذبہ پروان چڑھانا ہے۔

    اب سے کوئی پانچ سو برس پہلے کا ذکر ہے کہ ہند دستان پر پہلا مغل بادشاہ بابر حکومت کرتا تھا۔ بابر کے بہت سے قصے مشہور ہیں۔ جس وقت اس کی عمر بارہ سال کی تھی اُس وقت سے اُسے ایک چھوٹی سی سلطنت فرغنہ کی حکومت سنبھالنی پڑی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس چھوٹی ریاست پر حکومت کرتے کرتے کابل کی حکومت اور بعد میں ہندوستان جیسی بڑی سلطنت کا مالک بن گیا۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی کم عمری میں وہ اس لائق کیسے ہو گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنی محنت اور دیانت داری کی وجہ سے اتنی ترقی کر گیا کیوں کہ اللہ میاں بھی ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جن میں کسی کام کی سچی لگن ہوتی ہے اور جو محنت سے جی نہیں چراتے۔

    باہر کہنے کو اتنا بڑا شہنشاہ تھا لیکن وہ اور بادشاہوں کی طرح عیش و آرام میں وقت نہیں ضائع کرنا تھا ۔ وہ حکومت کے کاموں سے فرصت پاکر ہمارے تمھارے جیسے کپڑے پہن کر گلی کوچوں اور بازاروں میں گشت کیا کرتا تھا۔ اگر وہ شاہی لباس میں باہر نکلتا تو اپنی رعایا کے اصل حالات سے آگاہ نہیں ہو سکتا تھا۔

    ایک روز بابر سادہ لباس میں اپنے گھوڑے پر گشت کو نکلا۔ ایک دم بازار میں شور اٹھا اور لوگ جیسے اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ دکان داروں نے دکانیں بند کرنا شروع کر دیں۔ ان کے چہرے خوف و دہشت سے پہلے پڑ گئے۔

    بابر نے بھگدڑ دیکھ کر اپنے گھوڑے کو روکا اور لوگوں سے پوچھا کہ اس شور کی کیا وجہ ہے۔ معلوم ہوا کہ شاہی فیل خانے سے ایک ہاتھی زنجیر تڑا کر نکل آیا ہے اور اس کے ڈر سے لوگ بھاگ رہے ہیں۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ سامنے والی سڑک پر ایک بچہ جس نے ابھی بیٹھنا بھی نہیں سیکھا تھا پڑا ہے۔

    بابر نے تیزی سے اپنے گھوڑے کو بچے کی طرف موڑ دیا۔ اُس کے پاس پہنچ کر جھٹ نیچے اترا اور بچے کو اپنی گود میں اٹھا کر وہاں سے گھوڑا دوڑا دیا۔ بابر اور ہاتھی کے درمیان کوئی بیس قدم کا فاصلہ رہ گیا ہوگا۔ تمام لوگ اپنی چھتوں اور کھڑکیوں سے یہ خوفناک مگر دلیرانہ منظر دیکھ رہے تھے اور اس بہادر کی تعریف کر رہے تھے۔ مگر انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ان کا بادشاہ ہے۔ باہر اس بچے کو سینے سے چمٹائے اپنے محل میں پہنچا۔ بچہ میلی کچیلی حالت میں تھا۔ بابر نے اُسے غسل دلوایا۔ اس کے لئے صاف ستھرے کپڑے منگوائے جنھیں پہنا کر اسے دودھ پلوایا اور آرام سے نرم نرم بستر پر سلوا دیا۔ دوسرے دن بابر نے ایک شان دار دربار طلب کیا اور منادی کرا دی کہ خلقت کو آنے کی عام اجازت ہے، یعنی عور تیں مرد، امیر، غریب ، بوڑھے، بالے سب آئیں، اور ہوا بھی یہی کہ وقت مقررہ پر شہر کی تقریباً ساری رعایا دربار میں جمع ہو گئی۔ نقیب چوبدار وغیرہ ہر طرف کھڑے انھیں سنبھال رہے تھے۔ سب لوگ بڑے اشتیاق اور بے چینی سے منتظر تھے کہ کب بادشاہ سلامت تشریف لائیں اور کب وہ سب انھیں دیکھیں۔

    آخر وہ گھڑی بھی آگئی کہ بادشاہ سلامت اپنے سادے لباس میں اس بچے کو سینے سے لپٹا کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ تمام لوگ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرنے لگے کہ یا اللہ یہ کیسا سیدھا سادہ بادشاہ ہے اور یہ بچہ کون ہے۔ کچھ لوگ اس حادثے کے وقت بازار میں موجود تھے جنھوں نے اس شخص کو بچہ اٹھاتے دیکھا تھا، وہ پہچان گئے۔

    اتنے میں بادشاہ کے وزیر خاص نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے اُس بچے کو ہاتھوں میں اٹھا کر سب کو دکھایا اور سارا واقعہ بیان کیا کہ وہ بادشاہ کو کیسے ملا۔ پھر وزیر نے کہا کہ جس کسی کا کبھی بچہ ہو وہ اسے آکر لے جائے۔

    ایک غم زدہ عورت مجمع کو چیرتی پھاڑتی، روتی دھوتی ہزار دقّت سے تختِ شاہی تک آئی اور بادشاہ کے قدموں میں گر پڑی۔ پھر وہ خوشی کے آنسو پوچھتی ہوئی بچہ کی طرف لپکی۔ اُس نے اٹھا کر اس کا منہ چوما ۔ خوب سا پیار کیا اور سینے سے چمٹا کر بادشاہ کو دعائیں دیتی ہوئی اپنی جگہ واپس آگئی۔

    اب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ بچہ اس مہترانی کا تھا جو اس حادثے سے پہلے اسے سڑک کے کنارے لٹا کر صفائی کرنے چلی گئی تھی۔ جب وہ اپنا کام ختم کر کے واپس آئی تو ہاتھی کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی تھی اور وہ بچے تک نہ پہنچ سکی۔ بہت سے لوگ بچے کے نزدیک تھے مگر وہ سب اپنی جان کے خوف سے چھپ گئے تھے۔ کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ کون ایک غریب بھنگن کے بچہ کو بچائے اور یہ کہ وہ اُس کو چھونے سے ناپاک ہو جائیں گے، بچے کو بے بس چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔

    بابر کو یہ معلوم تھا کہ بھنگی کے سوا کسی کا بچہ سڑک پر پڑا نظر نہیں آسکتا لیکن اُس نے امیری غریبی یا پاکی ناپاکی کیا بالکل خیال نہ کیا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بچے کو بچا لیا۔

    اب ہر بڑے چھوٹے امیر غریب کی زبان پر اپنے بادشاہ کی تعریف تھی۔ ہر شخص یہی کہتا تھا کہ بھئی واہ کتنا نیک دل کیسا مہربان بادشاہ ہے۔ ایسے بادشاہ پر تو رعایا کو اپنی جان قربان کر دینا چاہیے۔ کسی کا اپنے بادشاہ کے دربار سے جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مگر جانا تو تھا ہی… تھوڑی دیر بعد سب اس کی تعریف کرتے ہوئے خوشی خوشی اپنے گھر واپس ہوئے۔

    اور مہترانی کا کچھ حال نہ پوچھو ۔ کتنی خوش ، کتنی باغ باغ تھی وہ ۔ یوں سمجھو کہ اُس کا کھویا ہوا لحل مل گیا ۔ اس کا تو رواں رواں بادشاہ کو ہزاروں دعائیں دے رہا تھا۔

  • تاجر کی گواہی ( حکایت)

    تاجر کی گواہی ( حکایت)

    چند تاجروں نے بیان کیا کہ ہم مختلف شہروں سے آکر مصر کی جامع عمرو بن العاص میں جمع ہو جاتے تھے اور باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک دن ہم باتیں کر رہے تھے کہ ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو ہمارے قریب ایک ستون کے نیچے بیٹی تھی۔ ہم میں سے ایک شخص نے جو بغداد کے تاجروں میں سے تھا، اس عورت سے کہا کیا بات ہے جو یہاں‌ بیٹھی ہو۔

    حکایات، سبق‌ آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے لنک کھولیں
    عورت نے اس کی توجہ پا کر کہا، میں لاوارث ہوں۔ میرا شوہر دس برس سے مفقود الخبر ہے۔ مجھے اس کا کچھ بھی حال معلوم نہیں ہوا۔ قاضی صاحب کے یہاں پہنچی کہ وہ میرا نکاح کروا دیں مگر انہوں نے روک دیا ہے۔ میرے شوہر نے کوئی سامان نہیں چھوڑا، جس سے بسر اوقات کر سکوں۔ میں کسی اجنبی آدمی کی تلاش میں ہوں جو مجھ پر رحم کرے اور قاضی کے سامنے کہے کہ واقعی میرا شوہر مر گیا یا پھر یہ کہ اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اس بات کا گواہ ہے تاکہ قاضی مطمئن ہوجائے اور اس کی گواہی کے بعد مجھے نکاح کی اجازت دے دے۔ یا پھر وہ شخص یہ کہہ دے کہ میں اس کا شوہر ہوں اور پھر وہ اسی وقت مجھے قاضی کے سامنے طلاق دے دے تاکہ میں عدت کا زمانہ گزار کر کسی سے نکاح کر لوں۔

    عورت سے یہ تفصیل سن کر اس شخص نے کہا کہ تو مجھے ایک دنیار دے دے تو میں تیرے ساتھ قاضی کے پاس جا کر کہہ دوں گا کہ میں تیرا شوہر ہوں اور تجھے طلاق دے دوں گا۔ یہ سن کر وہ عورت رونے لگی اور کہا خدا کی قسم! اس سے زیادہ میرے پاس نہیں ہے اور چار رباعیاں نکالیں (درہم کا چوتھائی حصّہ) تو اس نے وہی اس سے لے لیں اور اس عورت کے ساتھ قاضی کے یہاں چلا گیا۔ پھر وہ دیر تک ہم دوستوں سے نہیں ملا۔ بعد میں اس سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم نے اس سے کہا تم کہاں رہے؟ اتنی دیر کے بعد آج ملے ہو۔

    اس نے کہا چھوڑو بھائی میں ایک ایسی بات میں پھنس گیا جس کا ذکر بھی رسوائی ہے۔ ہم نے کہا ہمارے اصرار پر اس نے بیان کیا کہ میں اس روز جس عورت کے ساتھ قاضی کے یہاں پہنچا اور جب اس نے مجھ پر زوجیت کا دعوی کیا تو میں نے اس بھی اس کے بیان کی تصدیق کر دی۔ اس سے قاضی نے کہا کہ کیا تو اس سے علیحدگی چاہتی ہے؟

    اس عورت نے کہا۔ نہیں واللہ! اس کے ذمہ میرا مہر ہے اور دس سال تک کا خرچہ۔ مجھے اپنا حق چاہیے۔ تب مجھے قاضی نے کہا کہ اس کا یہ سارا حق ادا کر، اور پھر تجھے اختیار ہے اسے طلاق دے یا نہ دے۔ میرا یہ حال ہو گیا کہ میں متحیر ہو گیا اور یہ ہمّت نہ کر سکا کہ اصل واقعہ بیان کر سکوں۔ میرے چپ ہوجانے اور حواس باختہ ہونے پر قاضی نے یہ اقدام کیا کہ مجھے کوڑے والے کے سپرد کر دیا۔ بالاخر دس دیناروں پر باہمی تصفیہ ہوا جو اس نے مجھ سے وصول کیے اور وہ چاروں رباعیاں جو اس نے مجھے دی تھیں، وہ وکلاء اور قاضی کے اہل کاروں کو دینے میں خرچ ہو گئیں۔ اتنی ہی مزید اپنے پاس سے دینا پڑیں۔ یہ سن کر ہم نے اس کا مذاق اڑایا۔ وہ اس قدر شرمندہ ہوا کہ مصر ہی سے چلا گیا۔

    سبق
    یہ دنیا اس فریبی عورت کی مانند ہے۔ بڑی مسکین صورت میں انسان کو پھسلاتی ہے اور کچھ لالچ دے کر اسے اپنے ساتھ بلا لیتی ہے جو انسان اس کے دھو کے میں آ جائے۔ وہ پھر اسی طرح‌ کی طرح اپنا سب کچھ لٹا کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔

    (اردو ترجمہ از کتاب الاذکیا ابن جوزی)

  • دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    بیربل بادشاہ اکبر کا محبوب اور مشہور رتن رہا ہے جسے اکبر اعظم نے ابتداً اس کی ذہانت، شگفتہ مزاجی اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے اپنے دربار میں جگہ دی تھی۔ بعد میں وہ بادشاہ کے مصاحبوں میں شامل ہوا۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں‌ پڑھیے

    1556ء میں بیربل نے دربار میں قدم رکھنے کے بعد وہ شہرت پائی کہ آج بھی اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں بیربل کی ذہانت و دانائی اور لطیفہ گوئی کے کئی واقعات، قصّے اور کہانیاں مشہور ہوئیں۔ اکبر اور بیربل سے منسوب ان قصوں میں بہت کچھ من گھڑت بھی ہے۔ مگر یہ سبق آموز اور دل چسپ ہیں۔ تاہم ان کی حقیقت اور صداقت مشکوک ہے۔ انھیں محض خوش مذاقی اور تفریحِ طبع کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی قصّہ ہے۔

    ایک بار کسی درباری نے اکبرِ اعظم سے کہا: "جہاں پناہ! بیربل اگرچہ عقل مند آدمی ہے، مگر خاکسار کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ بیربل کی جگہ اگر آپ مجھے عنایت فرمائیں تو شاید آپ کا یہ نمک خوار بیریل سے زیادہ اچھا کام کرے گا اور حضور کو اپنی حاضر جوابی اور برجستگی کا ثبوت دے گا۔

    اکبر نے اُس سے کہا: اس میں شک نہیں کہ تم ایک قابل، پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی ہو۔ لیکن شاید تم بیربل کا مقابلہ نہیں کر سکو۔

    لیکن وہ شخص اصرار کرتا رہا تو اکبر نے کہا: اچھا اس کا فیصلہ کل دربار میں ہو جائے گا کہ تم بیربل کی جگہ لینے کے اہل ہو یا نہیں۔ ساتھ ہی تمھاری عقل مندی، فراست اور حاضر جوابی کا امتحان بھی ہو جائے گا۔

    چنانچہ دوسرے دن دربار میں اکبر اعظم نے اس شخص سے ایک عجیب و غریب سوال کیا کہ "بتاؤ اس وقت جو لوگ دربار میں بیٹھے ہیں ان کے دلوں میں کیا ہے۔”

    وہ شخص اکبر کا یہ سوال سن کر سٹپٹا گیا اور کہنے لگا: "حضور! یہ میں کیسے جان سکتا ہوں بلکہ کوئی بھی کیسے بتا سکتا ہے کہ لوگ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ جاننا تو ناممکن ہے۔

    تب یہی سوال اکبر نے پیربل سے کیا۔ بیربل! کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت یہاں موجود لوگوں کے دلوں میں کیا ہے؟

    جی ہاں، کیوں نہیں۔ بیربل نے جواب دیا: ” حضور! سب لوگوں کے دلوں میں ہے کہ مہابلی کی سلطنت ہمیشہ قائم رہے۔ اگر یقین نہ ہو تو آپ ان سے دریافت کر لیجیے کہ میں سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ۔

    بیربل کی یہ دانش مندانہ بات سن کر تمام درباری مسکرانے لگے اور اکبر بھی مسکراتے ہوئے اس شخص کو دیکھنے لگا جو بیربل کی جگہ لینے کا خواہش مند تھا۔ اس نے شرمندگی سے سَر جھکا لیا۔

    (اکبر اور بیربل کی کہانیاں سے ماخوذ)

  • حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

    حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

    حضرت معروف کرخی کے زمانہ میں ایک شریف زادے پر کڑا وقت آ پڑا اور وہ دانے دانے کا محتاج ہو گیا۔ اسی عسرت کی حالت میں اس کے گھر میں ایک بچہ کی ولادت ہوئی۔ بیوی پہلے ہی فاقوں سے لاغر ہو رہی تھی اور زچگی کے بعد تو جیسے وہ نیم جاں‌ ہو گئی۔

    مزید حکایات اور سبق آموز واقعات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    دایہ نے کہا کہ اس کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھا اور مقوی غذا نہیں دی تو بچنا محال ہے۔ یہ سن کر وہ غریب اور ناچار شخص اسی وقت روزی کی تلاش میں گھر سے نکل پڑا۔ ہنر اس کو کوئی آتا نہ تھا، مگر پہلے وہ ایک بڑے تاجر کے گھر کے کام سنبھالتا رہا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے بے روزگار ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے چند ماہ کے دوران کسی نے اسے ایسی کوئی نوکری نہیں دی۔ اس روز وہ دکانوں‌ پر گیا کہ کوئی کام مل جائے، اور لوگوں سے مزدوری مانگتا پھرا جو کسی کام کے عوض چند دینار دے دیتے تو کھانے کے لیے کچھ لے کر گھر چلا جاتا۔ یہ نہ ہوا تو ایک دو لوگ جن سے جان پہچان تھی، ان کو اپنی بپتا سنائی اور کچھ بطور قرض طلب کیا۔ مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔

    اسی پریشانی کے عالم میں وہ دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا۔ وہاں ایک ملاح اپنی کشتی لئے بغداد کے مختلف محلّوں کے نام لے رہا تھا کہ کسی کو وہاں جانا ہو تو کشتی میں سوار ہو جائے۔ شریف زادے نے خودی کے عالم میں ملاح کو پکارا تو ملاح نے اپنی کشتی کنارے کے ساتھ لگا دی اور اس سے دریافت کیا کہ کس محلّہ میں جانے کا ارادہ ہے۔ وہ بیچارہ کیا جواب دیتا، بس ایک ٹُک ملاح کا منہ دیکھنے لگا۔ ملاح نے جھلّا کر کہا عجیب آدمی ہو، مجھے بلایا ہے تو میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ ملاح کی بات سن کر اس غریب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور اس نے اپنی داستان مصیبت بلا کم و کاست کہہ ڈالی۔ ملاح کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے شریف زادے کو کشتی پر بٹھا لیا اور کہا کہ میں تم کو ایک محلّہ میں پہنچائے دیتا ہوں، وہاں کی ایک مسجد میں شیخ معروف کرخی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہونا، امید ہے تمہاری مشکل کا کوئی حل نکل آئے۔

    شریف زادہ ملّاح کی بتائی ہوئی مسجد میں پہنچا اور وضو کر کے ایک کونے میں جا بیٹھا۔ حسبِ توقع شیخ معروف کرخی وہاں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس مصیبت زدہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ روتا جاتا اور خود پر بیتنے والے حالات بتاتے جاتا۔ حضرت معروف کرخی اسے نہایت توجہ سے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہوا تو آپ پھر نماز میں مشغول ہو گئے۔

    اسی اثنا میں آسمان پر سیاہ گھٹا چھا گئی اور اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ وہ غریب بڑا پریشان ہوا کہ بیوی کو ایڑیاں رگڑتے چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں آکر بھی مقصد حاصل نہیں ہوا اور حضرت صاحب دوبارہ نوافل میں‌ مشغول ہوچکے ہیں۔ اب اس تاریک رات اور موسلادھار بارش میں خالی ہاتھ گھر کیسے جاؤں…. وہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک سواری آکر رکی اور ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے شیخ معروف کرخی کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے فلاں شخص نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو پانچ سو دینار نذر کروں تو وہ اسے اپنی قدر افزائی خیال کرے گا۔ حضرت معروف کرخی نے اس شخص سے کہا کہ میں یہ دینار قبول کرتا ہوں، اور اس غریب آدمی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ تھیلی میرے اس دوست کو دے دو۔ اس شخص نے جو دینار لے کر آیا تھا، حضرت کے کہنے پر دیناروں کی تھیلی اس شریف زادے کے ہاتھ میں دے دی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔

    اس کے مسجد سے چلے جانے کے بعد حضرت معروف کرخی نے پریشاں حال شخص سے فرمایا کہ بھائی اس تھیلی کو اپنے کام میں لا۔ اللہ نے تیری مدد کی ہے۔ دو وقت کی روٹی کو ترسا ہوا وہ شخص حضرت کرخی کے سامنے تعظیم سے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ ان کی اجازت ملتے ہی اس نے تھیلی کمر سے باندھی اور معروف کرخی کے لیے عزّت اور صحت کی دعائیں کرتا ہوا وہاں سے رخصت ہوا۔ اس نے بغداد کے بازار سے ضرورت کی تمام چیزیں خریدیں اور کشتی میں بیٹھ کر سیدھا گھر پہنچا۔ بیوی اس کے انتظار میں تھی اور جب خاوند کے ہاتھوں میں کھانے پینے کا سامان دیکھا تو اس کی آنکھوں‌ میں آنسو آگئے۔ خاوند نے چولھے کو بھڑکایا اور پکانے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے پورا ماجرا بیان کیا تو وہ بھی معروف کرخی کو ہاتھ اٹھا کر دعائیں دینے لگی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگلے روز اس شریف زادے نے ان دیناروں سے کچھ مال خریدا اور بازار میں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے محنت اور دل جمعی سے کام کیا اور اللہ نے ایسی برکت دی کہ کچھ عرصہ بعد شہر کے مرکزی بازار میں ایک چھوٹی سی دکان کر لی۔ وہ نہایت فارغ البالی سے گزر اوقات کرنے لگا۔ ایک روز اس شخص کو وہ ملاّح یاد آیا جس نے اسے بغداد پہنچایا تھا۔ وہ دریا پر پہنچا اور اسے تلاش کرکے اس کے احسان کا بدلہ بھی چکا دیا۔

    دونوں میاں بیوی کو جب بھی یہ واقعہ یاد آتا، وہ بے اختیار حضرت معروف کرخی کو دعائیں دینے لگتے۔

    (یہ حکایت اولیا اللہ اور صوفیائے کرام سے منسوب اخلاقی اور نصیحت آمیز واقعات پر مشتمل ایک کتاب حکایاتِ صوفیا سے لی گئی ہے)

  • حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

    حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

    دنیا میں عقل و دانائی، حکمت و نصیحت پر مبنی واقعات پر مشتمل کتب میں شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ یہ حکایت انہی سے منسوب ہے اور اپنے وقت کے ایک مشہور دولت مند حاتم طائی کی سخاوت اور فیاضی کا وہ قصّہ ہے جس میں مہمان نوازی اور ایثار و قربانی کا درس ملتا ہے۔

    سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    حکایت کچھ اس طرح ہے کہ حاتم طائی کے پاس ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا تھا۔ وہ اس قدر خوبصورت قد آور، تیز رفتار اور اصیل تھا کہ جو اس کو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا۔ فی الحقیقت اس برق رفتار جانور کی نظیر نہیں ملتی تھی۔ اس گھوڑے کا شہرہ دور دور تک تھا۔

    ایک دفعہ شاہِ روم کے دربار میں بھی حاتم کی بے مثل سخاوت اور اس کے بے نظیر گھوڑے کا ذکر نکل آیا۔ بادشاہ کا وزیر حاتم طائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کی شخصیت سے بہت مرعوب نظر آرہا تھا۔ بادشاہ کا موڈ اچھا تھا اور دربار کا ماحول خوشگوار تھا۔ بادشاہ اپنے وزیر کی زبانی حاتم طائی کی تعریفیں سنتا رہا مگر جب گھوڑے کا ذکر ہوا تو اچانک اپنے وزیر سے کہا کہ بغیر دلیل و ثبوت کے ڈینگیں مارنا رسوائی کا باعث بن سکتا ہے۔ میں حاتم سے یہ گھوڑا مانگوں گا۔ اگر اس نے دے دیا تو جانوں گا کہ واقعی وہ بڑا سخی اور ایثار کرنے والا آدمی ہے۔ اگر اس نے دینے سے انکار کیا تو سمجھوں گا کہ اس کی شہرت محض خالی ڈھول کی آواز ہے۔ چنانچہ اس نے ایک عقل مند قاصد آدمیوں کے ہمراہ روانہ کیا کہ وہ حاتم سے اس کا وہ بہترین اور پیارا گھوڑا مانگ لائیں۔ قاصد اور اگر کے ساتھی منزلوں پر منزلیں مارتے حاتم کے قبیلہ میں پہنچے اور رات کو حاتم کے ہاں قیام کیا۔

    اس وقت تیز بارش ہو رہی تھی اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے ہر ذی نفس اپنے گھروں میں محصور تھا۔ گھر سے باہر قدم رکھنا ناممکن تھا۔ حاتم کے مویشیوں کا گلہ گھر سے کافی فاصلے پر چراگاہ میں تھا اور اتنے مہمانوں کے طعام کے لیے اس وقت گھر میں کوئی چیز نہ تھی۔ البتہ وہ مشہورِ زمانہ گھوڑا جس کا ذکر شاہِ روم کے دربار میں اس کے وزیر نے کیا تھا، اس کی قیام گاہ کے مخصوص احاطے میں موجود تھا۔ حاتم کو یہ گھوڑا بہت عزیز تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اسے اپنے کسی دوسرے اصطبل یا چراگاہ میں نہیں چھوڑتا تھا۔ یہ بات حاتم کی سخاوت اور مہمان نوازی سے بعید تھی کہ اس کے گھر آئے ہوئے لوگ بھوکے رہیں یا وہ ان کی خدمت میں کوئی کسر چھوڑے۔ حاتم طائی نے وہی گھوڑا ذبح کردیا اور مہمانوں کے سامنے خوان سجا کر پیش کر دیا۔ سب نے پیٹ بھر کر لذیذ کھانا کھایا اور رات گزاری۔

    صبح ہوئی تو شاہِ روم کے قاصد نے حاتم سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ بادشاہ کی خواہش معلوم ہوئی تو حاتم پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ حسرت سے اپنے ہاتھ ملنے لگا اور بہت نادم نظر آیا۔

    حاتم نے قاصد سے کہا، اے نیک بخت! تُو پہلے حرفِ مدعا زبان پر کیوں نہ لایا ؟ وہ گھوڑا تو میں نے گزشتہ شب تمہاری ضیافت کے لیے ذبح کر دیا، رات کو اسی کے کباب تم نے کھائے ہیں۔ افسوس کہ اس کے سوا کل رات میرے گھر کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ اور مجھے یہ گوارا نہ تھا کہ مہمان بھوکے رہیں۔

    یہ سن کر قاصد جذباتی ہوگیا اور بے اختیار حاتم کے ہاتھ چوم لیے۔ حاتم طائی نے ان کو کہا کہ وہ بادشاہ تک اس کی معذرت پہنچائیں اور پھر ان کو بہت سے گھوڑے دے کر رخصت کیا۔

    شاہِ روم کے قاصد کئی منزلیں طے کر کے دربار میں پہنچے اور وہاں یہ سارا قصّہ سنایا تو ہر ایک کی زبان پر حاتم کے لیے تحسین و آفرین کے کلمات تھے۔ شاہِ روم نے وزیر کے سامنے تسلیم کیا سعادت اور سخاوت حاتم طائی پر ختم ہے۔

  • احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

    احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

    مصر کے ایک حاکم احمد کو اس دور کے دستور کے مطابق اپنے باپ کے نام کی نسبت سے احمد بن طولون پکارا جاتا ہے۔ اس والیِ مصر کا تذکرہ ایک بہادر اور عادل و منصف کے طور پر کیا گیا ہے اور اس سے چند حکایات بھی منسوب ہیں۔

    مزید حکایات اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    بعض تاریخی کتب اور تذکروں میں احمد بن طولون کے باپ کو ایک ترک غلام لکھا گیا ہے جو عباسی خلیفہ مامون الرشید کی فوج میں شامل تھا۔ احمد پیدا ہوا تو اسے بھی تعلیم و معاشرت کے مراحل طے کرنے کے بعد فوجی تربیت دی گئی۔ وہ بیس سال کی عمر میں اس وقت کے مصر کے حکم راں‌ بایکباک کی فوج میں شامل ہوا۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کے سبب 868ء میں مصر کا حاکم مقرر ہوا۔ چند سال بعد عباسی خیلفہ مہدی کے زمانہ میں اسے مصر میں خود مختار فرماں روا بنا دیا گیا۔ احمد بن طولون کو مردم شناس اور علم دوست حکم راں بھی کہا جاتا ہے۔

    جب احمد بن طولون نے مصر کے شہر قاہرہ میں وہ عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جو آج اسی کے نام سے مشہور ہے، تو اس پر ایک لاکھ دینار کی خطیر رقم خرچ کی۔ پھر علما، قرّاء، اربابِ شعائر اور متعلقہ مکانات کے لیے ماہانہ دس ہزار دینار کی باقاعدہ رقم مقرر کر دی، اور روزانہ صدقے کے لیے سو دینار وقف کیے۔

    یہ مسجد نہ صرف عبادت کا مقام تھی، بلکہ سلطان نے اس کے ذریعے خیر، عدل اور دینی شعائر کی نگہبانی کا بھی کام لیا۔ کہتے ہیں کہ اس مسجد کے آس پاس ایک غریب آدمی اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ ماں بیٹی گھر میں بیٹھ کر سوت کاتا کرتی تھیں تاکہ گزر بسر میں کچھ آسانی ہو اور ماں چاہتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کا جہیز بھی تیار کرسکے۔ لڑکی باحیا، پردہ دار اور شریف تھی۔ وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلی تھی۔

    ایک دن اس نے والدین سے فرمائش کی کہ وہ بھی سوت لے کر ان کے ساتھ بازار جائے گی۔ چنانچہ وہ گھر سے بازار کے لیے نکلے۔ تینوں بازار کی طرف بڑھے، تو راستے میں ایک مقام پر ایک درباری امیر الفیل کا دروازہ پڑا۔

    اتفاق تھا کہ ماں باپ کسی بات میں مشغول ہو کر آگے بڑھ گئے اور بیٹی بھی دھیان نہ رکھ سکی کہ وہ راستے میں اِدھر اُدھر ہوتی ماں باپ سے فاصلہ پر رہ گئی ہے۔ اس لڑکی کی جب نگاہ اٹھی تو ماں باپ نظر نہ آئے۔ وہ گھبرا کر وہیں کھڑی ہو گئی۔ اس کے دل میں خوف تھا اور چہرے پر حیرت۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جائے تو کہاں، اور کس طرف قدم بڑھائے۔

    یہ لڑکی حسن و جمال میں بے مثال تھی۔ اتفاق سے اسی لمحے امیر الفیل محل سے باہر نکلا اور جب اس کی نظر اس دوشیزہ پر پڑی تو دل و دماغ پر عاشقانہ جنون چھا گیا۔ وہ اُسے پکڑ کر اندر محل نما گھر میں لے گیا۔ پھر اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ لڑکی کو نہلا کر، خوشبو لگا کر، عمدہ لباس پہنا کر اُس کے لیے تیار کریں۔ اس بد بخت کی نیّت خراب ہوچکی تھی۔ اسے لڑکی سے دو باتیں‌ کرکے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تنہا بھی ہے اور اس کا باپ بھی کوئی بااثر اور بڑا آدمی نہیں ہے۔ اس نے لڑکی کی عصمت دری کی اور مردود بن گیا۔

    ادھر ماں باپ اپنی بیٹی کے یوں بچھڑ جانے کے بعد بدحواسی کے عالم میں راستے پر واپس لوٹے، لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ اب وہ شہر بھر میں اسے ڈھونڈتے پھرے، مگر کہیں ان کو اپنی بیٹی کا سراغ نہ ملا۔ وہ رات ہونے پر رنج و غم سے نڈھال، روتے بلکتے، گِریہ و زاری کرتے گھر لوٹ گئے۔

    نیند تو ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دونوں‌ بیٹی کی جان و آبرو کی سلامتی کے لیے دعا کررہے تھے کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ غریب باپ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک اجنبی کھڑا ہے۔

    اس نے سلام کرکے غریب آدمی کو بتایا کہ "تمہاری بیٹی کو سلطان کے امیر الفیل نے اٹھایا ہے اور اس کی عصمت دری کی ہے۔”

    یہ سن کر لڑکی کے باپ پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔ وہ اتنے بڑے آدمی کے خلاف کیا کرے اور کیسے اپنی بیٹی تک پہنچے…اسے کچھ نہیں‌ سوجھ رہا تھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ بیتابی سے اس مسجد کے مؤذن کی طرف دوڑا جو اس کے گھر کے قریب تھی۔

    دراصل اس مسجد کو خاص اہمیت حاصل تھی کیوں کہ اسے والیِ مصر احمد بن طولون نے تعمیر کروایا تھا۔ وہاں کے مؤذن کو احمد بن طولون نے ہدایت کر رکھی تھی کہ اگر شہر میں کسی پر ظلم ہو اور ایسا واقعہ پیش آئے جس میں کوئی بڑا درباری ملوث ہو، تو مخصوص وقت سے ہٹ کر اذان دے۔ اور سلطان کے خاص سپاہی اذان سن کر فوراً مؤذن سے معاملہ پوچھیں۔

    غریب آدمی نے مؤذن کو نیند سے بیدار کردیا اور اپنی مشکل بتائی تو اس نے فوراً مینار پر چڑھ کر اذان دی۔ اگلی صبح یہ معاملہ احمد بن طولون کے دربار میں پہنچ چکا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ دربار میں موجود تھے اور جب وہ بدبخت امیر الفیل معمول کے مطابق دربار میں حاضر ہوا تو سلطان نے اس پر سختی کی۔ پھر اس لڑکی کے باپ سے کہا: "میں اپنے اس غلام سے تمہاری بیٹی کے نکاح کا اعلان کرتا ہوں۔”

    لڑکی کے باپ نے اس کا فیصلہ قبول کرلیا اور گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ اس امیر سے لڑکی کا نکاح کردیا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ سلطان نے بڑی رقم مہر میں رکھی تھی جس سے انکار کی جرأت امیر الفیل نہ کرسکا تھا۔

    نکاح کے بعد احمد بن طولون نے جلّاد کو بلایا اور حکم دیا کہ امیر الفیل کا سر تن سے جدا کر دے۔

    چند لمحوں میں اس کا سر کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا۔ پھر ابن طولون نے لڑکی کے باپ سے کہا: "اب تمہاری بیٹی بیوہ ہے، اور شوہر کی ساری متروکہ دولت پر اس کا حق ہے۔”

    "جاؤ۔ اطمینان سے زندگی بسر کرو۔” ماں باپ فرطِ جذبات سے روتے اور سلطان کو دعا دیتے محل سے روانہ ہوگئے۔

    (عربی حکایات کے اردو ترجمہ نوادر الخلفاء سے انتخاب)

  • مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی غریب لکڑہارا ایک جھونپڑی میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بڑے بیٹے کا نام ہینسل اور بیٹی کا نام گریٹل تھا جو دراصل اس کی پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد لکڑہارے نے دوسری شادی کر لی تھی۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    لکڑہارا دن بھر جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور پھر ان کو بازار لے جا کر بیچ دیتا۔ اس سے جو کچھ نقدی ملتی، اس سے گھر کا خرچ چلاتا، لیکن اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اکثر اس کنبے کو ایک وقت کی روٹی ہی میسر آتی۔ اس کی بیوی، جو بچوں کی سوتیلی ماں تھی، ایک سخت جان اور خود غرض عورت تھی۔

    ایک رات، جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، لکڑہارے کی بیوی نے اس سے کہا، "ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں کہ سب کا پیٹ بھر سکے۔ ہمیں بچوں کو جنگل میں چھوڑ آنا چاہیے تاکہ ان کی ذمہ داری ختم ہو اور ہم دونوں اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہ وہاں کسی طرح کچھ کھا پی کر جی ہی لیں گے۔” لکڑہارا اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا، اس نے انکار کر دیا، لیکن اس نے طرح طرح کی باتیں بنا کر اور طعنے دے کر اپنے شوہر کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔

    اتفاق سے جس رات لکڑہارے کو اس کی بیوی نے اس ظلم اور گھناؤںے کام کے لیے بھوک کا خوف دلاتے ہوئے قائل کیا، ہینسل کسی وجہ سے سو نہیں سکا تھا۔ وہ ایک ہوشیار اور بہادر لڑکا تھا۔ اس رات خاموشی سے زمین پر لیٹے ہوئے ہینسل نے اپنی سوتیلی ماں کا منصوبہ سن لیا تھا۔ پہلے تو وہ گھبرایا مگر پھر اپنے ذہن کو اس کا حل تلاش کرنے کے لیے دوڑانے لگا اور پھر مطمئن ہو کر سو گیا۔ اگلی صبح، سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ کچھ دیر بعد وہ سب جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلیں گے۔ اس نے ہینسل اور گریٹل کو کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی دیا۔ اب ہینسل نے گریٹل کو ساتھ لیا اور جھونپڑی سے باہر نکل گیا، اور تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آیا۔

    بچوں نے دیکھا کہ والدین جیسے انہی کے منتظر تھے۔ وہ ہینسل اور گریٹل کو لے کر جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ جنگل شروع ہوا تو ہینسل اپنی جیب سے وہ مخصوص قسم کے پتھر راستے میں گراتا ہوا جانے لگا، جو اس نے صبح کنویں کے قریب ایک عمارت کے کھنڈر سے جمع کیے تھے۔ یہ عام پتھر نہیں تھے بلکہ چاند کی روشنی میں‌ ایک خاص چمک پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ پتھر نشانی کے طور پر گرا رہا تھا تاکہ راستہ پہچان سکے۔ گھنے درختوں کے درمیان پہنچ کر سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ وہ ایک جگہ بیٹھ جائیں، ہم دونوں ذرا آگے لکڑیاں کاٹنے جا رہے ہیں اور جلد لوٹ آئیں گے، لیکن کافی دیر گزر گئی اور وہ نہیں لوٹے۔ وہ دونوں منصوبہ کے مطابق بچوں کو چھوڑ کر گھر واپس چلے گئے تھے۔

    ادھر دن ڈھلنے کو تھا اور اب انھیں بھوک بھی ستا رہی تھی۔ گریٹل رونے لگی۔ ہینسل نے اسے دلاسہ دیا اور کہا، "چاند نکلنے کا انتظار کرو۔” جب چاندنی پھیلی تو ہینسل کے گرائے ہوئے پتھر چمکنے لگے۔ دونوں بہن بھائی ان کو دیکھتے ہوئے جنگل سے نکل کر گھر واپس پہنچ گئے۔ لکڑہارا انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا، لیکن سوتیلی ماں غصے سے بھر گئی۔

    کچھ دن عافیت سے گزر گئے مگر پھر وہی کھانے پینے کا مسئلہ اور گھر میں فاقے کی نوبت آن پڑی۔ تب، سوتیلی ماں نے دوبارہ لکڑہارے کو مجبور کیا کہ بچوں کو جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔ اس مرتبہ انھوں نے بچوں کو پہلے سے نہیں بتایا۔ یوں ہینسل رات کو پتھر جمع نہ کر سکا۔ صبح اچانک ہی ان کو سوتیلی ماں نے کسی بہانے سے جنگل جانے کا بتایا۔ وہ سب جنگل کی طرف چل دیے۔ اتفاق سے گھر میں روٹی کے چند ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ ہینسل نے آنکھ بچا کر وہ اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ راستے میں وہ روٹی کے ٹکڑوں کو گراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس مرتبہ بھی والدین نے وہی کیا، لیکن جب شام ڈھلی تو ہینسل کو واپسی کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر اندازے سے آگے بڑھنے لگا اور دونوں زمین پر غور سے نشانی ڈھونڈنے لگے، لیکن وہ ٹکڑے تو پرندوں نے کھا لیے تھے۔ دونوں بہن بھائی جنگل میں بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال، تین روز تک بھٹکتے رہے۔ اچانک انھیں ایک جھونپڑی نظر آئی، جو مٹھائی، کیک، اور چاکلیٹ سے بنی تھی۔ یہ عجیب و غریب گھر دیکھ کر وہ حیران تو ہوئے مگر بھوک کی شدت کے باعث انھوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر جھونپڑی کو نوچ کر سب چیزیں کھانا شروع کردیں۔ اچانک دروازہ کھلا، اور ایک بوڑھی عورت باہر نکلی۔ وہ نہایت چالاک جادوگرنی تھی۔ اس نے میٹھی آواز میں کہا، "آؤ بچو، اندر آؤ، تمھیں اور بہت کچھ کھانے کو دوں گی۔”

    جادوگرنی نے دھوکے سے ان کو اندر بلا لیا اور ہینسل کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اسے گریٹل بہت پیاری لگی۔ اس نے گریٹل کو اپنی خادمہ بنا لیا۔ جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ ہینسل کے لیے بہت سا کھانا پکائے تاکہ وہ موٹا ہو جائے اور پھر وہ اسے بھون کر کھا سکے۔ جادوگرنی کی آنکھیں کمزور تھیں، اس لیے وہ ہر روز ہینسل کی انگلیاں چھو کر دیکھتی کہ وہ موٹا ہوا یا نہیں۔ ہینسل نے پنجرے میں رہتے ہوئے اس کی کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ ادھر وہ اپنی بہن سے موقع پاکر اشاروں اشاروں میں باتیں کرتا رہتا تھا۔ وہ یہی منصوبہ بناتے تھے کہ یہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ ایک روز اس نے جادوگرنی کے کھانے سے بچی ہوئی ایک ہڈی کی طرف اشارہ کیا اور گریٹل نے نظر بچا بھائی کو وہ ہڈی تھما دی۔ اب ہینسل نے ہوشیاری سے اپنی انگلی کی جگہ وہ ہڈی جادوگرنی کے چھونے کے لیے آگے بڑھا دی، جسے وہ ظالم ہینسل کی انگلی سمجھی۔ دو تین ہفتوں تک ہینسل اس کے ساتھ یہی کرتا رہا اور جادوگرنی سمجھتی رہی کہ وہ موٹا ہوگیا ہے۔

    آخر کار، جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ تنور تیار کرے، کیونکہ وہ ہینسل کو بھون کر کھانا چاہتی ہے۔ گریٹل نے معصومیت سے پوچھا، "تنور کو دہکانے کے لیے کیا کروں، مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں‌ ہوا۔ میری مدد کریں۔” جادوگرنی اس کی باتوں میں آگئی۔ اس نے تنور کے اندر جھانک کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور عین اس لمحے جب وہ تنور میں‌ جھانک رہی تھی، گریٹل نے جادوگرنی کو دھکا دیا، اور وہ تنور میں سر کے بل جا گری۔ گریٹل نے قریب پڑا ہوا لکڑی کا موٹا سا ڈنڈا اٹھایا اور جادوگرنی کی کمر پر برساتی چلی گئی۔ اس کے ہاتھ اسی وقت رکے جب گریٹل نے پنجرے سے آواز لگائی کہ وہ اسے باہر نکالے۔

    گریٹل نے ہینسل کو پنجرے سے آزاد کیا جس نے باہر آتے ہی سب سے پہلے تنور کو دہکا دیا تاکہ جادوگرنی کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب انھوں نے جھونپڑی کو کھنگالا تو وہاں کافی مقدار میں سونا اور کئی قیمتی چیزیں ملیں۔ دونوں نے ایک بڑی سی چادر میں وہ سب مال جمع کیا اور اسے پیٹھ پر لاد کر وہاں سے نکل گئے۔ کسی طرح دونوں اس جنگل سے باہر نکلنے میں بھی کام یاب ہوگئے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ ان کی سوتیلی ماں مر چکی ہے، اور لکڑہارا اپنے بچوں کے ساتھ ناروا سلوک پر پچھتا رہا ہے۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگیا۔ بچوں نے اپنے باپ کو جادوگرنی کی کٹیا سے لوٹا ہوا وہ خزانہ دیا جس سے ان کے باپ نے زمین خریدی اور کھیتی باڑی شروع کی۔ انھوں نے ایک اچھا سا گھر بنوایا اور خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    (یہ مشہور جرمن لوک کہانی کا اردو ترجمہ ہے لیکن اس میں کہانی کے مزاج اور تفصیلات کو برقرار رکھتے ہوئے کئی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو اگرچہ اصل کہانی کا حصہ نہیں مگر اسے پُرلطف اور دل چسپ ضرور بناتی ہیں)

  • عقل سے نصیب نہیں بنایا جاسکتا!

    عقل سے نصیب نہیں بنایا جاسکتا!

    کہتے ہیں خوش قسمتی کو عقل و دانش اور دانائی سے اپنے گھر نہیں بلایا جاسکتا بلکہ نصیب تو مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ جو چیز کسی انسان کے نصیب میں نہ ہو وہ اسے اپنی عقل لڑا کر اور دانائی کی بدولت ہرگز حاصل نہیں کرسکتا۔

    اس کہاوت سے متعلق ایک قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص خچر پر سوار کہیں جا رہا تھا۔ اس جانور کے دونوں طرف دو بوریاں لٹکی ہوئی تھیں۔ اسے راستے میں ایک شخص ملا۔ وہ کوئی راہ گیر تھا۔ دونوں میں علیک سلیک ہوئی تو راہ گیر نے خچر سوار سے پوچھا کہ ” ان دونوں بوریوں میں کیا ہے۔”

    مزید دل چسپ کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے کلک کریں
    وہ شخص جو اس خچر اور مال و اسباب کا مالک تھا، اس نے جواب دیا کہ ” ایک بوری میں گندم ہے، اور دوسری طرف کی بوری میں وزن برابر کرنے کے لیے ریت بھری ہے تاکہ میرا جانور برابر وزن کی وجہ سے آسانی سے چل سکے۔”

    مسافر نے یہ سنا تعجب کیا اور کہنے لگا کہ ” بھائی! ریت کی بوری کی کیا ضرورت تھی، اگر گندم ہی کو برابر برابر وزن میں تقسیم کر کے باندھ دیتے تو بے چارے جانور کو ان کا بوجھ ڈھونے میں آسانی ہوتی اور آپ کو بھی اس بلاوجہ کی مشقت سے نجات ملتی۔”

    یہ سن کر خچر سوار حیرانی سے بولا، ”ہاں بھائی! آپ نے بات تو بڑے پتے کی بتائی، لیکن یہ بتائیے کہ اتنی عقل رکھنے کے باوجود آپ پیدل سفر کیوں کر رہے ہیں؟” اس شخص نے کہا کہ ”یہ اپنی اپنی قسمت اور نصیب ہے۔”

    اس پر خچر سوار شخص نے کہا، ” پھر تو ایسی عقل کو اپنے ہی پاس رکھیے جو آپ کو پیدل چلا رہی ہے اور مجھے خچر اور گھوڑے نصیب ہیں۔ مجھ کو میری کم عقلی اور بے وقوفی مبارک کہ میں اپنے سفر کے لیے ایک خچر تو رکھ سکتا ہوں اور ایک آپ ہیں کہ عقل مند ہونے کے باوجود پیدل کتنی دور دور کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔”

    (مصنف و مترجم نامعلوم)

  • کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    مختلف ممالک کی لوک داستانیں، حکایات یا سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کا شوق رکھنے والے قارئین نے شاید کبھی غور کیا ہو کہ بالخصوص حکایات نہ صرف مختصر ہوتی ہیں بلکہ مکالمہ کے بجائے ان میں زیادہ تر بیانیہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ یہ اسی طرز کی ایک چینی حکایت ہے، جس میں زندگی کی ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ایسی حقیقت جس کا ہم میں سے اکثر لوگوں کو کبھی نہ کبھی تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔

    قارئین نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا ہے کہ حکایتوں میں حالات و واقعات اور ان کا پس منظر بھی پڑھنے کو نہیں ملتا جس کے باعث شاید ان میں وہ لطف اور دل کشی نہیں محسوس ہوتی جو ایک کہانی یا داستان کا حصّہ ہوسکتی ہے، مگر کوئی حکایت جو رمز یا حقیقیت اجاگر کرتی ہے اور ان سے جو سبق ملتا ہے، وہ ہماری سوچ کو بدلنے اور شخصیت کو سنوارنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    حکایت ملاحظہ کیجیے:

    یہ دراصل ایک گفتگو ہے جو شہزادہ چِن، جس نے بعد ازاں تاجِ سلطنت پہنا اور اس کے مشیر ژو، جو وقت گزرنے پر وزیرِ اعظم کے مرتبے پر فائز ہوا، کے درمیان ہوئی۔

    سبق آموز، نصیحت آمیز اور دل چسپ حکایات اور کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے

    شہزادے نے ژو سے دریافت کیا۔ “میرے تمام مشیروں میں تم سب سے زیادہ ذہین و فطین ہو، پھر بھی لوگ پیٹھ پیچھے تمہیں کثرت سے تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟”

    یہ سوال ایک طرح سے ژو کے فہم و تدبر کا امتحان بھی تھا۔ ژو نے مدبرانہ انداز میں جواب کچھ یوں دیا:

    “جب بہار میں بارش برستی ہے تو کسان اسے رحمت جان کر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کھیتیاں سیراب ہوئیں، لیکن مسافر اسی بارش کو زحمت گردانتے ہیں کہ راہیں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں۔ جب خزاں کی راتوں میں چاندنی پورے جوبن پر ہوتی ہے تو نازنین عورتیں اس کی چمک سے لطف اٹھاتی ہیں، مگر چور اسی روشنی کو کوستے ہیں کہ وہ ان کے (دوسروں کی نظروں سے) چھپنے کے راستے بے نقاب کر دیتی ہے۔

    جب قدرتِ کاملہ خود سب کو راضی نہیں کر سکتی، تو پھر ایک بندۂ دربار سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    (مترجم و حوالہ نامعلوم)

  • ایک بکری کیوں؟

    ایک بکری کیوں؟

    بہت پرانی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک آسودہ حال شخص رہتا تھا۔ اس کا جانوروں کا باڑہ تھا۔ وہ ان کا دودھ بیچتا اور گھی، مکھن وغیرہ نکال کر شہر کی دکانوں پر فروخت کرتا تھا۔ اس سے گھر میں‌ مال و دولت کی فراوانی تھی۔

    مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ایک مرتبہ باڑے میں کوئی بیماری پھیل گئی۔ اس کے جانور ایک ایک کر کے مر گئے۔ وہ بہت پریشان ہوا مگر خوب مال جمع کررکھا تھا۔ اس لیے روزمرہ کے اخراجات پورے کرتا رہا۔ مگر رفتہ رفتہ اس کی دولت خرچ ہوگئی اور نوبت فاقوں تک آگئی۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اسے کہا کہ دوسرے گاؤں کا سردار تمہارا دوست ہے، تم اس کے پاس جاؤ، اسے اپنی ہریشانی بتاؤ اور اس سے مالی مدد کا تقاضا کرو۔ اس نے بیوی کی بات مان لی اور اگلے ہی دن وہ صاف ستھرا لباس پہن کے دوسرے گاؤں اپنے دوست کے پاس پہنچ گیا۔ اس کا دوست بہت خوش ہوا اور اپنے اس مال دار دوست کی خوب آؤ بھگت کی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اب اس کی کیا حالت ہوچکی ہے۔ رات کو بیٹھک لگی تو بدحال دوست نے کہا کہ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اور یہ کہہ اس نے اپنے تمام حالات اس کے گوش گزار کر دیے۔

    یہ سب سن کے دوسرا دوست کہنے لگا، کوئی مسئلہ نہیں، میں تمہاری مدد ضرور کروں گا۔ پھر اس نے اپنے ملازم کو آواز دی اور کہا میرے دوست کے لیے ایک بکری لے آؤ۔ اور اس شخص کو تاکید کی یہ بکری لے جاؤ، اگر دوبارہ میری مدد کی ضرورت پڑے تو پھر میرے پاس چلے آنا۔ اس نے اس شخص کی بیوی بچوں کے لیے کچھ تحائف بھی ساتھ کر دیے۔

    حالات کا ستایا ہوا وہ دوست کافی حیران ہوا کہ یہ علاقے کا سردار ہے اور مجھے صرف ایک بکری پہ ٹرخا رہا ہے۔ خیر وہ بکری لے کے چپ چاپ گھر آ گیا۔ اس کی بیوی بھی صرف ایک بکری دیکھ کے حیران ہوئی۔ لیکن کچھ نہ بولی۔ وہ لوگ بکری کا دودھ نکال کے پیتے رہے، کچھ دودھ اگر بچ رہتا تو اسے بیچ دیتے۔ یوں کسی حد تک بھوک مٹنے لگی۔ ایک ماہ گزرا وہ بکری مر گئی۔ دونوں میاں بیوی بہت پریشان ہوئے۔ بیوی نے پھر یاد دلایا دوست نے کہا تھا ضرورت پڑے تو دوبارہ آ جانا۔

    وہ پھر سے دوست کے پاس گیا جس نے خوب آؤ بھگت کی اور مدعا پوچھا۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ بکری مر گئی ہے۔ دوست نے ملازم کو بلایا اور ایک بکری اور منگوا کر اس شخص کو یہ کہہ کے رخصت کردیا کہ جب ضرورت پڑے میرے پاس چلے آنا۔

    وہ شخص بکری لے کے گھر آیا اور پچھلے دنوں کی طرح گزارہ کرنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد یہ بکری بھی مر گئی۔ وہ پھر دوست کے پاس گیا اور وہ دوست اسی طرح پیار محبت سے پیش آیا اور اپنے قسمت کے مارے اس دوست کو ایک اور بکری دے کر وہی بات دہرا دی کہ ضرورت پڑے تو بلاتکلف چلے آنا۔

    وہ گھر آیا بکری کا دودھ نکالا بیچا اس بار قسمت سے دودھ بیچ کے زیادہ اچھی رقم کمانے لگا۔ یہ شخص سمجھدار تھا۔ اس نے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کیا لیکن بچت کر کے ایک اور بکری خرید لی۔ اللہ نے اس میں برکت دی اور اس کے حالات بہتر ہونے لگے۔ اس نے مزید جانور خریدے اور گھر میں پھر خوشحالی آنے لگی۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اسے یاد دلایا کہ یہ سب تمہارے دوست کی مدد کی وجہ سے ہوا ہے۔ تم کو اس کا شکریہ ادا کرنے جانا چاہیے۔

    اگلے دن وہ شخص تیار ہوا اور خوشی خوشی دوست کی طرف روانہ ہوگیا۔ دوست اس کو دیکھ کے بہت خوش ہوا۔ اس کی خوب آؤ بھگت کی اور آنے کا مدعا پوچھا، اس نے دوست کا شکریہ ادا کیا اور اسے بتایا کہ اس کی مدد کی وجہ سے اس کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔

    یہ سن کے وہ دوست بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنے ملازمین کو بلایا اور کہا کہ باڑے سے 50 جانور کھولو اور اس شخص کے ساتھ جا کے اس کے گھر چھوڑ کے آؤ۔ وہ دوست یہ جان کر بہت حیران ہوا کہ جب شدید برا وقت تھا تو صرف ایک بکری اور جب حالات بہتر ہونے لگے ہیں تو 50 جانور دے رہا ہے۔ اگر یہ پچاس جانور اس کا دوست اس وقت دے دیتا تو وہ پہلے ہی سنبھل چکا ہوتا۔ اس نے اہنے دل کی بات اسے کہہ دی۔

    یہ سن کے دوست مسکرایا اور کہنے لگا، جب تم پہلی بار آئے تھے تو میں سمجھ گیا تھا تم پر وقت برا ہے، میں تمہیں ان دنوں میں بہت سے جانور بھی دیتا تو وہ سب مر جاتے یا تم اپنی پریشانی کے دونوں میں ان کو سنبھالنے میں ناکام ہوجاتے اور اس کا نتیجہ بھی نقصان ہی کی شکل میں‌ نکلتا۔ دیکھو! تم کھانے پینے اور ضرورت کے لیے ان میں سے جانور بیچ بھی سکتے تھے۔ تمہاری عقل اس محتاج اور مشکل میں کام نہ کرتی اور تم ایسے فیصلے کرتے جن سے مشکلات ٹلنے کے بجائے بڑھتیں۔ اس لیے میں نے تمہیں ہر مرتبہ صرف ایک بکری دی تاکہ تمہارا گزارہ ہوتا رہے۔ اب جب تمہارا برا وقت ٹل چکا ہے اور خوشحالی تمہارے دروازے پر دوبارہ دستک دے رہی ہے تو میرا فرض ہے میں تمہاری مدد اپنی دوستی کے شایان شان کروں۔ اب مجھے کوئی ڈر نہیں ہے، یہ سب جانور تمہارے کام آئیں گے۔

    یہ سن کے وہ شخص بہت خوش ہوا اور اپنے دوست کی حکمت کا قائل ہو گیا۔

    (قصے کہانیاں اور حکایات سے ماخوذ)