Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • وضو کا برتن اور قیمتی انگوٹھی

    وضو کا برتن اور قیمتی انگوٹھی

    ایک بادشاہ کشتی میں‌ اپنے وزیروں کے ساتھ سفر پر نکلا۔ راستے میں نماز کا وقت ہوا تو کشتی دریا کے ایک کنارے پر لگا کر بادشاہ وضو کرنے لگا۔ اچانک اس کے ہاتھ سے وضو کرنے والا برتن پانی میں گر گیا۔

    بادشاہ نے ایک وزیر کو آواز دی تو اس نے دریافت کیا، بادشاہ سلامت! برتن کس جگہ گرا تھا؟

    بادشاہ نے اپنی ہیرے کی قیمتی انگوٹھی اتاری اور پانی میں پھینک کر کہا کہ اس جگہ پر گرا ہے۔ وزیر نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور برتن لے کر باہر آ گیا۔ وزیر جب برتن باہر لے آیا تو حیران ہوا کہ بادشاہ کی انگوٹھی بھی اسی برتن میں پڑی ہے۔ وہ بادشاہ کو دیکھنے لگا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ بادشاہ سلامت آپ کے اس غلام نے کئی سال آپ کی خدمت کی ہے، اب میں بوڑھا ہورہا ہوں اور آپ سے رخصت چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے وزیر کو بہت روکا، لیکن اس کے بے حد اصرار پر اسے جانے کی اجازت دے دی۔

    وزیر اسی وقت بادشاہ کو سلام کر کے جنگل کی طرف چل دیا۔ بادشاہ بھی اپنی کشتی پہ سوار ہو کر آگے کی طرف چل دیا۔ کافی دور جانے کے بعد یکایک دریا میں سیلاب اٹھا اور کشتی غوطہ کھا کر الٹ گئی۔ بادشاہ دریا میں ڈوبنے ہی والا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا صندوق آگیا۔ بادشاہ اس صندوق پر بیٹھ گیا۔ صندوق تیرتا ہوا کئی میل دور ایک انجان بستی کے ساتھ ساحل پر جا لگا۔ بادشاہ نیچے اترا اور اس بستی میں چلا گیا-بھوک اور پیاس سے بادشاہ کا حال برا تھا۔ اس کے دوسرے خدمت گار اور وزیر نجانے کہاں بہہ کر نکل گئے تھے۔

    چلتے چلتے اچانک بادشاہ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو اپنی ریڑھی پر بھنے ہوئے چنے بیچ رہا تھا۔ بادشاہ اس شخص کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں یہاں مسافر ہوں، میں کشتی میں سفر کر رہا تھا کہ یکایک سیلاب آیا اور میرا تمام ساز و سامان اور اشرفیاں دریا میں بہہ گئیں۔ بڑی مشکل سے جان بچی اور ادھر پہنچا ہوں، اب میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ تمہارا احسان ہو گا کہ کچھ چنے کھانے کو دے دو؟ بادشاہ کی حالت دیکھ کر اس شخص نے کچھ چنے بادشاہ کو دے دیے۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر تم روزانہ جنگل سے لکڑی کاٹ کر مجھے لا دو تو میں اس کے بدلے تمہیں بھنے ہوئے چنے دے دیا کروں گا۔ بادشاہ کو اس انجان بستی میں اپنا پیٹ پالنے کا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آرہا تھا چانچہ اس نے یہی کام شروع کر دیا۔ وہ رات بھی اسی چنے والے کی کٹیا میں گزارتا اور صبح اٹھ کر جنگل کی طرف نکل جاتا۔ دن بھر کی مشقت کے بعد لکڑیاں کاٹ کر اس چنے والے کو دے دیتا۔ اسی حالت میں کئی سال گزر گئے۔

    ایک دن بادشاہ حسبِ معمول جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر آرہا تھا کہ راستے میں ایک بھنگی اپنا غلاظت سے بھرا ڈبہ اٹھائے جا رہا تھا، جیسے ہی بھنگی پاس سے گزرا تو بادشاہ کی لکڑیاں بھنگی کے ڈبے کو لگیں اور وہ ڈبہ بادشاہ کے اوپر گر گیا اور بھنگی نے پاس سے گزرنے والوں کے ساتھ مل کر بادشاہ کو خوب مارا۔ اس نے ڈبے میں بچی ہوئی غلاظت بھی بادشاہ کے اوپر انڈیل دی۔ یہ سب برداشت کرنا مشکل ہی نہیں‌ ایک بادشاہ کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھا، لیکن وہ مار کھا کر دوبارہ اپنی لکڑیاں اٹھا کے منزل کی طرف چل دیا۔

    چلتے چلتے اچانک اسے شاہی ملبوس میں کچھ آدمی اور گھوڑے نظر آئے۔ بادشاہ کو اندازہ ہوا کہ اس سلطنت کا بادشاہ گزر رہا ہو گا۔ جب وہ شاہی گھوڑے قریب سے گزرے تو مفلوک الحال بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ وزیر جو اسے راستے میں چھوڑ گیا تھا، وہ شاہی سواری پر جارہا ہے۔ وزیر نے ایک نظر اس مفلوک الحال بادشاہ کو دیکھا اور بنا رکے اپنے محل کی طرف چل دیا۔ وہ اب بادشاہ بن چکا تھا۔ محل میں پہنچ کر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس شخص کو پکڑ کر دربار میں پیش کیا جائے۔ سپاہیوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس بادشاہ کو جو اب ایک بدترین زندگی گزار رہا تھا، پکڑ کر دربار میں اس کے سابق وزیر کے سامنے پیش کر دیا۔ وزیر جو اب بادشاہ بنا کھڑا تھا، اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے نہلا کر عمدہ لباس پہنایا جائے۔ جب اسے نہلا کر اور عمدہ لباس پہنا کر سپاہیوں نے دربار میں پیش کیا تو وزیر نے بادشاہ کو دیکھ کر کہا کہ واقعی ”ہر عروج کو زوال ہے۔”

    بادشاہ سلامت جس دن آپ نے اپنی قیمتی انگوٹھی پانی میں پھینکی تھی، اس دن میں بہت حیران ہوا اور اس سے زیادہ حیران و پریشان میں اس بات پر ہوا کہ وہ انگوٹھی اسی برتن میں جا گری جسے میں‌ نکالنے کے لیے دریا میں‌ کودا تھا۔ اس دن میں سمجھ گیا تھا کہ بادشاہ اپنے عروج کی انتہا پر ہیں اور مجھے یقین تھا کہ اس قدر عروج کو اب زوال پذیر ہونا ہے جس کا وقت قریب ہے۔ چنانچہ میں آپ کو ادھر ہی چھوڑ آیا تھا۔ اور آج آپ زوال کی انتہا پر کھڑے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور پھر بولا، اور اب عروج آپ کا منتظر ہے۔ اس کے بعد وزیر نے بادشاہ کو گھوڑے اور تحائف دے کر اس کی سلطنت کی طرف روانہ کر دیا۔

    (لوک ادب، مصنف نامعلوم)

  • ”میری دو معصوم بچیاں ہیں!“

    ”میری دو معصوم بچیاں ہیں!“

    آپ لوگوں کی بڑی مہربانی کہ آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ ہر سنیچر کی رات میری باتیں سننے میرے غریب خانے پر تشریف لاتے ہیں، حالاں کہ لاکھ بار کہا کہ میں آپ ہی کی طرح کا عام آدمی ہوں۔ بس تھوڑا بہت مطالعہ کر لیتا ہوں اور اخبار بینی کا شوق ہے، ورنہ میں کوئی مفکر تو ہوں نہیں، اور ویسے بھی دو شادیاں کرنے والا بھلا مفکر ہو بھی کیسے سکتا ہے، آپ خود سوچیں!

    آپ حضرات اب مجھ سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ میں نے دو شادیاں کیوں کر رکھی ہیں؟

    ارے بھئی، سیدھی سی بات ہے، اولادِ نرینہ کے لیے اور کس لیے! میری پہلی بیوی سے دو بیٹیاں ہیں۔ دوسری بیٹی کی پیدایش کے وقت کوئی طبّی پیچیدگی ہوگئی، جس کی وجہ سے مجبوراً پیدایش کا سلسلہ مستقل طور پر بند کرنا پڑا۔ اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ کیا مجھے اپنی نسل اور نام آگے بڑھانے کا کوئی حق نہیں تھا؟

    آپ اسلم صاحب کو تو جانتے ہی ہوں گے، ارے وہی اسلم صاحب، جن کا چند روز پہلے انتقال ہوا ہے۔ ان کے کوئی بیٹا نہیں تھا، صرف ایک بیٹی ہے، جسے رخصت کرنے کے بعد وہ اور اُن کی بیوی گھر میں تنہا رہ گئے تھے۔ پھر بیوی کے انتقال کے بعد تو وہ بالکل ہی اکیلے ہوگئے۔ جب بھی بیمار پڑتے، ان کی بیٹی کو ان کی خبر گیری کے لیے سسرال سے میکے آنا پڑتا۔ ان کی وفات سے ایک ہفتے پہلے اُن کی بیٹی نے اپنا بوریا بستر اُٹھا کر اُن کے گھر میں ڈال دیا۔ سُسرال جو بے چاری کا اتنا دور تھا، روز روز آنے جانے میں اُسے تکلیف ہوتی تھی، پھر آخری دنوں میں اسلم صاحب کی طبیعت بھی ایسی نہ تھی کہ انھیں ایک پل کے لیے بھی تنہا چھوڑا جا سکتا۔

    بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں، اُن کا اصل گھر میکا نہیں، سُسرال ہوتا ہے۔ اگر اسلم صاحب کے کوئی بیٹا ہوتا تو کیا بیٹی کو اس طرح باپ کے پیچھے خوار ہونا پڑتا؟

    جی! کیا کہا آپ نے؟ پھر توصیف صاحب اور ان کی بیوی کو اپنے دو شادی شدہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ایدھی اولڈ ہوم میں کیوں رہنا پڑ رہا ہے؟

    آپ نے مجھ پر خوب چوٹ کی ہے، لیکن یہ تو سوچیں کہ اس طرح کے معاملات کسی کسی کے ساتھ ہوتے ہیں، ورنہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بیٹا ہی باپ کا سہارا بنتا ہے۔

    ہاں ہاں، مجھے پتا ہے، ابھی آپ اکرام صاحب کی مثال دیں کر کہیں گے کہ اُن کا بیٹا بڑھاپے کا سہارا بننے کی بہ جائے الٹا بوجھ بن گیا ہے اور اکرام صاحب کو اس عمر میں بھی اپنے تیس سالہ جوان بیٹے کو پالنا پڑ رہا ہے۔ ہیروئن کا نشہ جو کرنے لگا ہے!

    ارے بھئی، یہ بھی ایک استثنائی معاملہ ہے، ہمارے محلے یا شہر میں بھلا کتنے لوگ ہیں، جو ہیروئن کا نشہ کرتے ہوں گے؟

    میں پھر اپنی بات پر زور دوں گا کہ بیٹا ہی باپ کی نسل اور نام کو آگے بڑھاتا ہے۔

    اچھا ایک بات بتائیں، اگر میں مر گیا تو میری قبر کا خیال کون رکھے گا۔ اسلام میں تو عورت کا قبرستان جانا منع ہے۔

    بس صاحبو! اسی لیے میں دوسری شادی پر مجبور ہوا اور اوپر والے کے فضل و کرم اور آپ بھائیوں کی دعاؤں سے میری دوسری بیوی سے ایک بیٹا ہوا ہے۔ میں نے زندگی میں ہی اپنی قبر کی حفاظت کا سامان کر لیا ہے۔

    کیا کہا تم نے برخوردار، عورت بھی قبرستان جا سکتی ہے، اسلام اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔

    دیکھو میاں، ابھی تم بچے ہو، اور تمھیں نیا نیا کتابیں پڑھنے کا شوق چڑھا ہے۔ دین کی باریکیاں سمجھنے میں ابھی تمھیں وقت لگے گا۔ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور ہمیں اس میں پڑنا نہیں چاہیے۔ پھر یہ بھی تو دیکھو کہ ویران قبرستان میں اکیلی عورت کیسے جائے گی۔ ایک مرد کو لازماً اس کے ساتھ جانا پڑے گا۔ میرے ہونے والے دامادوں کو اتنی فرصت کہاں ہوگی کہ وہ میری بیٹیوں کو قبرستان میں لیے پھریں۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کا احسان لیا ہے، جو مرنے کے بعد لوں گا؟ ویسے بھی بیٹے اور داماد میں فرق ہوتا ہے۔

    آپ لوگوں کو پتا ہے کہ اکہتر کی جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم کے درمیان شملہ میں جو بند کمرے میں مذاکرات ہوئے تھے تو پاکستانی وفد نے اپنے لیے ایک کوڈ (اشارہ) وضع کر لیا تھا، یعنی اگر مذاکرات کام یاب ہوئے تو ہم کہیں گے بیٹا پیدا ہوا ہے اور اگر ناکام ہوگئے تو کہیں گے بیٹی پیدا ہوئی ہے۔
    واہ! واہ! واہ! سبحان اللہ کیا مردانہ شاونزم ہے، واہ بھئی واہ مزا آگیا۔

    سیاست دانوں کے اور میرے خیالات کتنے ملتے جلتے ہیں۔ بھئی سیدھی سی بات ہے، اُس وفد میں شامل لوگ بھی میری طرح حقیقت پسند رہے ہوں گے۔ اس لیے میں بار بار آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ حقیقت کا سامنا کرنا سیکھیں، ہم کب تک کتابی باتیں دہراتے رہیں گے۔ منافقت یہی تو ہے کہ دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ اور۔

    دیکھیں میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ بُرا نہ مانیے گا، ہمارے محلے کے نکڑ پر جو اشرف صاحب رہتے ہیں، اللہ نے جب انھیں بیٹی کی صورت میں پہلی اولاد سے نوازا تو انھوں نے محلے میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔

    ٹھہریں ٹھہریں، میں اپنے موقف کی خود نفی نہیں کر رہا، میری بات تو مکمل ہونے دیں۔ پھر جب ان کے ہاں بیٹا ہوا تو انھوں نے مٹھائی پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ پورے محلے کی شان دار دعوت کر ڈالی۔

    آپ لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا اور اپنے سر کو کیوں جھکا رکھا ہے۔ دیکھیں، مسئلہ شرمندہ ہونے کا نہیں، بلکہ تسلیم کرنے کا ہے۔ میں کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے دوسری شادی بیٹے کی خواہش کے لیے کی ہے۔ آپ لوگ بھی میری طرح سوچتے ہیں، لیکن تسلیم نہیں کرتے۔ اگر تسلیم کرتے تو میری اس بات کی بھی تائید کرتے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اپنی بیٹیوں کو گلی محلوں میں قایم معمولی فیس والے اسکولوں میں بھیجتے ہیں اور ہمارے بیٹے منہگے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

    لو بھئی چائے آگئی، آپ حضرات بلا تکلف نوش فرمائیں، باتوں کے ساتھ چائے کا دور بھی چلتے رہنا چاہیے، ویسے بھی دسمبر کے آخری دن چل رہے ہیں اور گیارہ بجے کے بعد سردی کو ہمارے مزاجوں کی فکر ستانے لگتی ہے۔

    اچھا ایک اور بات مجھے کہنے دیں، کہیں چائے کے چکر میں بھول نہ جاؤں۔ بعض لوگ شادی کارڈ پر اپنے بیٹے کا نام فخر سے لکھواتے ہیں، لیکن بیٹی کا نام گول کر جاتے ہیں اور اپنے نام کے حوالے کو کافی جانتے ہیں۔

    ”اختر حسین کی ’بیٹی‘ کی شادی شیخ رمضان کے بیٹے ’معین‘ سے ہونا قرار پائی ہے۔“ اس رویے کو آپ کیا نام دیں گے؟

    شادی کارڈ پر لڑکی کا نام لکھنے سے انھیں شاید اس بات کا دھڑکا رہتا ہوگا کہ کہیں لوگ اس نام سے جنسی لذت حاصل نہ کرنے لگیں۔ بے پردگی کا احتمال بھی اُن کے پیشِ نظر رہتا ہوگا۔ اگر بات اتنی سی ہوتی تو ٹھیک تھا، ہر شخص کو حق ہے کہ وہ شادی کارڈ پر اپنی بیٹی کا نام لکھوائے یا نہ لکھوائے، میں اور آپ اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ لیکن دوستو! پھر سیکڑوں باراتیوں کی موجودگی میں نکاح پڑھاتے وقت مولوی کو دلہن کا نام پکارنے سے روکا کیوں نہیں جاتا۔ اُس وقت تو سب خاموشی سے ”نامحرم“ کا نام سُن رہے ہوتے ہیں۔ کیا لڑکی کا نام سُننا جائز اور لکھنا ناجائز ہے؟

    ارے چھوڑیں، میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا، یہ جائز اور ناجائز کے فتوے ملاؤں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

    ہاں تو دوستو! یہ تو ہوا شادی کے موقع پر ہمارا عام رویہ۔ اب ذرا جنازے کا ماجرا بھی سُن لیجیے۔

    ابھی چند ماہ پہلے عقیل بھائی کا اٹھارہ سالہ بیٹا فوت ہوگیا۔ اُس کے جنازے میں ایک صاحب نے ان سے اس طرح تعزیت کی، ”اللہ آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔ ایک تو جوان موت، اوپر سے بیٹا!“

    آپ حضرات کی خاموشی سے لگتا ہے کہ آپ میری دلیل سے متفق ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے دل کے کسی کونے کھدرے میں بیٹا اور بیٹی کے فرق کا احساس جاگزیں ہے، جس کی گواہی اکثر مواقع پر ہماری زبانیں دے بیٹھتی ہیں۔ میری طرح کے لوگ اسے فوراً تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن آپ لوگ کنّی کاٹ جاتے ہیں۔

    لیکن بھائیو! میری ان تمام باتوں کے باوجود میرے ساتھ ایک ایسا عجیب واقعہ پیش آیا، جس کی میں کوئی توجیہ نہیں پیش کر سکا، کوئی پھانس سی ہے، جو مسلسل میرے دل میں چبھے جا رہی ہے اور کسی طرح نکلنے کا نام نہیں لیتی۔

    ٹھہریے ٹھہریے، صبر کریں، بتاتا ہوں….. آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ پچھلے ماہ ایک لٹیرے نے ٹی ٹی دکھا کر میرا موبائل فون چھین لیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل میں نے کسی کو نہیں بتائی۔ لیکن آج میں آپ کو بتا ہی دیتا ہوں۔

    ہُوا یہ کہ جب اُس لٹیرے نے پستول دکھا کر مجھ سے میرا موبائل فون مانگا تو میرے دل میں مزاحمت کا خیال آیا۔ جسے ہی اُس لٹیرے کی نظر چوکی، میں نے اس کے اسلحہ بردار ہاتھ پر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ ہم دونوں میں کشمکش ہونے لگی۔ میں اُس لٹیرے پر غالب آنے ہی والا تھا کہ شو مئی قسمت، اس کا دوسرا ساتھی جو قریب کے ایک درخت کی آڑ میں کھڑا تھا، اس کی مدد کو لپکا اور میں دوسرے ہی لمحے بے بسی کے عالم میں زمین پر پڑا ہوا تھا۔ میری مزاحمت نے پہلے والے لٹیرے کو غضب ناک کر دیا تھا، اُس نے میرے اوپر پستول تانی اور ٹریگر پر انگلی کا دباؤ بڑھانے لگا۔ اس سے پہلے کہ اس کی گولی مجھے آپ کو یہ قصّہ سنانے کے قابل نہ چھوڑتی، بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

    ”مجھے مت مارنا، میری چھوٹی چھوٹی دو معصوم بچیاں ہیں۔“

    جی! آپ نے کیا فرمایا، اس میں ایسی کیا بات ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہے، کوئی بھی شخص خدا اور اپنی اولاد کا واسطہ دے کر ڈاکو اور پولیس والوں سے رحم کی بھیک مانگ سکتا ہے۔

    آپ ٹھیک کہتے ہیں، لیکن یہ تو سوچیں کہ میرا ایک بیٹا بھی ہے، پھر میں نے خاص کر اپنی بچیوں کا ہی حوالہ کیوں دیا۔ یہ کیوں نہ کہا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ یہ گتھی اب تک مجھ سے نہیں سلجھ رہی۔ اگر آپ حضرات کے پاس اس سوال کا جواب ہو تو مجھے ضرور مطلع فرمائیے گا۔

    اب آپ لوگ اپنے اپنے گھر جائیں، رات کافی بیت گئی ہے، میرا بیٹا گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہا ہوگا، لیکن میری بچیاں میرے انتظار میں جاگ رہی ہوں گی۔ جب تک میں انھیں پیار نہ کر لوں، کم بخت سوتی ہی نہیں ہیں!

    (پیشِ نظر افسانے کے خالق شفیع موسیٰ منصوری ہیں جنھیں‌ پرنٹ میڈیا میں علمی و تحقیقی صحافت کے لیے پہچانا جاتا ہے، وہ ایک مؤقر روزنامے کے لیے فیچر نگاری کے علاوہ کئی اہم شخصیات کے انٹرویوز کرچکے ہیں)

  • گدھا اور تمغۂ خدمت

    گدھا اور تمغۂ خدمت

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوش حال تھا۔ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اسی ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔

    وقت گزرتا گیا…. پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ نامعلوم کیوں، پورے ملک میں سخت قحط پڑ گیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی تھی اور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوا کرتی تھیں وہ بھی خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو ترسنے لگے۔

    جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمر ٹوٹی جارہی ہے تو اسے ملک میں بغاوت کا خطرہ ہوا۔ سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سمجھائی دی۔ اس نے ملک بھر میں شہر شہر، گلی گلی ڈھونڈورچی روانہ کروائے اور منادی سے شاہی فرمان رعایا تک پہنچا دیا۔

    ‘‘میرے عزیز ہم وطنو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ مابدولت نے اپنی رعایا کی عظیم خدمات کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغۂ خدمت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا جس کسی نے آج تک ملک اور عوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے کہ فوراً شاہی محل میں حاضر ہو جائے۔ مابدولت اسے تمغۂ خدمت سے نوازیں گے۔’’

    منادی سنتے ہی ملک کے طول و عرض میں ہر شخص کے سر میں تمغہ حاصل کرنے کی ایسی دھن سمائی کہ کسی کو بھوک، پیاس، قحط بیماری یا کمر توڑ گرانی کا احساس تک باقی نہ رہا۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے، قسم قسم کے تمغے تیار کروائے۔ تمغۂ خدمت درجۂ اوّل خالص سونے کا بنوایا گیا۔ درجۂ دوم چاندی کا، تیسرے درجے پر رولڈ گولڈ، پھر پیتل، تانبا، لوہا، ٹین وغیرہ وغیرہ۔ شاہی دربار میں تمغہ حاصل کرنے والے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔

    ہر شخص کو اس کی خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ عطا کر دیا جاتا۔ تمغے اتنی فراخ دلی سے عطا کیے گئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ملک میں مزید تمغے بنانے کے لیے نہ سونا بچا، نہ چاندی اور نہ کوئی دھات۔ مجبوراً لکڑی، چمڑے اور اسی قسم کی دوسری اشیاء تمغہ بنانے میں استعمال کرنا پڑیں۔

    ایک سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوگئی۔ جدھر دیکھو مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے دکھائی دینے لگے۔
    ایک گائے نے جب ہر انسان کی چھاتی پر چمکتے تمغے دیکھے اور اسے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت ہر آئے گئے کو تمغوں سے نوازتے رہتے ہیں تو اسے بھی قسمت آزمائی کا شوق چرایا۔ بھوک سے بیچاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں، جسم کا گوشت لٹک چکا تھا، جس کی وجہ سے ایک ایک ہڈی گنی جاسکتی تھی۔ اس کے باوجود گائے بھاگی اور سیدھی شاہی محل جا پہنچی۔ دربانوں نے راستہ روکا، تو بولی….

    ‘‘بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان کی رعایا میں سے ایک گائے شرفِ ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے۔’’

    دربان نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی مجبوراً بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ کے حکم پر گائے کو دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ بولا….

    گائے نے عرض کی ‘‘بادشاہ سلامت میں نے سنا ہے آپ رعایا کو تمغے عنایت فرمارہے ہیں چنانچہ میں بھی اپنا حق لینے کی خاطر آپ کے دربار میں حاضر ہوئی ہوں۔’’

    ‘‘تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرات کیونکر ہوئی….؟ آخر حیوان اس ملک کی کون سی خدمات سر انجام دیتے ہیں جن کے عوض انہیں تمغے دیے جائیں….؟’’ بادشاہ نے غصے سے چلا کر کہا۔

    گائے نے جواب دیا ‘‘بادشاہ سلامت، اگر آپ کی یہ ناچیز خادمہ تمغے کی حق دار نہیں تو پھر بھلا اور کون ہوسکتا ہے! میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہرممکن خدمت کرتی ہوں۔ انسان میرا دودھ پیتا ہے، میرا گوشت کھاتا ہے، میری کھال استعمال میں لاتا ہے، یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا۔ آپ خود ہی انصاف کیجیے ایک تمغہ حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کیسی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے….؟’’

    گائے کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ گائے کو فوراً تمغہ خدمت درجہ دوم عطا کر دیا جائے۔

    گائے گلے میں تمغہ لٹکائے بڑے فخر سے مٹکتی مٹکتی واپس لوٹ رہی تھی کہ راستے میں اسے ایک خچر ملا۔

    ‘‘گائے جی سلام!’’

    ‘‘سلام خچر بھیا۔’’

    ‘‘باجی آج بڑی خوش نظر آرہی ہو، کیا وجہ ہے….؟ کہاں سے آرہی ہو….؟ اور ہاں، یہ گردن میں کیا لٹکا رکھا ہے….؟’’

    گائے نے خچر کو سارا ماجرا سنایا۔ خچر کو بھی جوش آیا، فوراً سرپٹ بھاگا اور جاکر شاہی محل کے گیٹ پر دم لیا۔

    دربانوں سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی، مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ خچر اپنی ضد پر اڑا رہا۔ پھر ایک دو دربانوں پر دولتیاں جھاڑیں، ایک دولتی شاہی محل کے گیٹ پر ماری۔ آخر بادشاہ سلامت کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ مہماں اندر آنا چاہتا ہے۔

    بادشاہ نے حکم دیا ‘‘خچر کو پیش کیا جائے، آخر وہ بھی تو ہماری رعایا ہی میں شمار ہوتا ہے۔’’

    خچر نے اندر آکر بادشاہ کو فرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرض داشت پیش کی۔

    بادشاہ نے پوچھا ‘‘اے خچر، تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغےکا حق دار سمجھ کر مابدولت کے دربار میں آئے ہو….؟’’

    خچر نے عرض کی ‘‘مجھے یہ جان کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آپ کو اس ناچیز کی خدمات کا علم ہی نہیں۔ بھلا یہ تو بتائیے کہ جنگ کے دوران آپ کی توپیں، گولہ بارود اور دوسری جنگی ضروریات اپنی کمر پر اُٹھا کر کون دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے۔ آپ کے سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے….؟ امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں کو اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا کچھ کم حصہ نہیں ہے۔ اگر اس ملک میں میری برادری کے خچر نہ ہوتے تو سلطنت کے بے شمار کام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکے رہتے۔’’

    بادشاہ نے محسوس کیا کہ واقعی خچر حق بجانب ہے۔ چنانچہ خچر کو درجہ اوّل کا تمغہ عطا کرنے کا حکم صادر ہوگیا۔

    خچر تمغہ لے کر خوشی خوشی محل سے واپس لوٹ رہا تھا کہ اسے راستے میں گدھا ملا۔

    گدھے نے خچر سے کہا ‘‘سلام پیارے بھتیجے۔’’

    ‘‘سلام چچا جان’’ خچر نے جواب دیا۔ ‘‘کہو! اتنے خوش خوش کہاں سے آرہے ہو….؟’’ خچر نے سارا واقعہ سنایا، تو گدھا رینکا۔

    ‘‘ذرا ٹھہرو، میں بھی جاکر بادشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں۔’’ یہ کہا اور سیدھا شاہی محل کے گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا، دربانوں نے منت سماجت کرکے گدھے کو واپس لوٹ جانے کی ترغیب دی۔ لیکن گدھا کہاں سنتا تھا۔ وہ بادشاہ سلامت سے ملاقات کی رٹ لگاتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ گدھے کو حاضری کی اجازت مل گئی۔ انسانوں اور حیوانوں کی درخواستیں سن سن کر بادشاہ تنگ آچکا تھا۔ گدھے کو دیکھتے ہی جھلا کر بولا۔

    ‘‘گدھے کہیں کے تمہیں کیسے جرات ہوئی کہ اپنا گدھا پن بھول کر شاہی محل میں آپہنچے ہو اور پھر طرّہ یہ کہ مابدولت سے ملاقات کرنے پر مصر ہو۔ میری رعایا کے حیوانوں میں گائے اپنے دودھ، گوشت اور کھال سے قوم اور وطن کی خدمت کرتی ہے۔ خچر امن اور جنگ کے دوران بوجھ اٹھا کر قومی خدمات سرانجام دیتا ہے لیکن تم گدھوں کا سوائے ڈھینچوں، ڈھینچوں کرکےرعایا کے آرام میں خلل اندازی کے اور کیا کام کیا ہے….؟

    تمہیں کس خوشی میں تمغہ دے دوں….؟’’ گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بولا۔

    ‘‘بادشاہ سلامت! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت تو گدھے ہی کرتے ہیں۔ ذرا خیال کیجیے اگر مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں گدھے آپ کی سلطنت میں موجود نہ ہوتے تو آپ اتنی مدت شاہی تخت پر کیوں کر براجمان رہ سکتے تھے۔ اپنی اس ناچیز مخلوق کو دعا دیجیے جنہیں لوگ گدھا سمجھتے ہیں اور جن کی بدولت آپ کی کرسی محفوظ چلی آرہی ہے۔’’

    گدھے کی بات سن کر بادشاہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے تمام درباریوں اور مشیروں پر باری باری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا۔ ‘‘واقعی گدھا حق بجانب ہے۔’’

    بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ گدھے سے یوں مخاطب ہوا۔ ‘‘اے میرے وفادار گدھے! تو بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تیری اس اعلیٰ خدمت کا صلہ ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مناسب تمغہ نہیں ہے، البتہ ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے لیے تاحیات سرکاری توشہ خانے سے ہر روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ لگا دیا جائے۔ جب تک زندہ ہو سرکاری گھاس کھاتے جاؤ اور رات دن ہماری سلطنت کی سلامتی کی دعائیں مانگا کرو۔’’

    (ترکی کے مشہور ادیب، شاعر اور ممتاز مزاح نگار عزیز نیسن کی کہانی کا یہ ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) مسعود اختر شیخ کی کتاب ‘‘تماشائے اہلِ کرم ’’میں شامل ہے)

  • سوکھے میوے کا پکھراج

    سوکھے میوے کا پکھراج

    دلّی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔

    ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ کے موقع پر ہندو گھرانے میں گنڈوڑے( ایک قسم کی میٹھی ٹکیاں) بانٹنے کا چلن تھا۔ یہ چلن آج بھی ہے۔ ان دنوں جب بیٹے کی شادی ہوتی تھی تو گنڈوڑے چاندی کے کٹوروں میں بانٹے جاتے تھے، گنڈوڑوں کے اوپر کچھ لگایا جاتا تھا۔ رئیسوں میں ایک دوسرے سے بازی مار لینے کی ایک دوڑ سی لگی رہتی تھی۔

    لالہ سیتا رام جی اس سوچ میں بیٹھے تھے کہ گنڈوڑوں پر کیا لگایا جائے۔ اپنی ساکھ دیکھ کر وہ طرح طرح کی چیزوں کے متعلق سوچتے رہے۔ پھر دل میں فیصلہ کر کے وہ اپنی ماں کے پاس گئے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خاندان کے خزانے میں اضافہ کیا تھا۔ ہلکا سا فخر کا احساس بھی ان کے جسم میں سننی پیدا کر رہا تھا۔

    وہ بہت سنبھل کر بولے۔ ’’اماں سوچ رہا ہوں کہ گنڈوڑوں کے سروں پر اشرفی لگا دی جائے۔‘‘ لالہ سیتا رام کے چہرے پر فخر کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ماں یہ سن کر حیران رہ جائے گی کہ اس کے بیٹے کی آج اتنی شان و شوکت ہے کہ وہ گنڈوڑوں پر اشرفیاں چپکا کر برادری میں تقسیم کرائے گا۔

    لالہ سیتا رام پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئے، لیکن بوڑھی ماں اندر چلی گئی۔ لالہ بے قراری کے عالم میں بیٹھے یہی سوچتے رہے۔ ’’ماں اندر کیوں چلی گئی؟ کیا اسے میری بات اچھی نہیں لگی! کہیں وہ یہ تو نہیں سوچ رہی کہ گھر کی نجانے کتنی اشرفیاں گنڈوڑوں کے ساتھ بٹ جائیں گی۔ وہ ایک عجیب سی ادھیڑ بن میں بیٹھے رہے۔ تقریباً دس پندرہ منٹ بعد ان کی ماں باہر آئی۔ ہاتھ میں سونے کا ایک بڑا تھال تھا۔ جس میں پانچ چھ گنڈوڑے رکھے تھے۔ گنڈوڑے بہت پرانے تھے۔ بالکل پتھر کی طرح سخت!

    ماں نے گنڈوڑے لالہ سیتا رام کے سامنے رکھ دیے اور کہا۔ ’’ہمارے خاندان کے بزرگ اتنی طرح کے گنڈوڑے پہلے ہی تقسیم کرا چکے ہیں۔ اب کوئی نئی بات سوچی جائے تو ہم دونوں بیٹھ کر صلاح کرتے ہیں۔ لالہ سیتا رام نے پرانے گنڈوڑوں کو اٹھا کر دیکھا۔ کسی میں موتی جڑے تھے تو کسی میں دیگر جواہرات۔ چند ایک میں سونے کی پرانی اشرفیاں اور مہریں لگی تھیں۔

    ماں ٹکٹکی لگائے لالہ سیتا رام کی طرف دیکھتی رہی۔ لالہ سیتا رام کی انا کی دیوار ایک جھٹکے سے گر پڑی۔ انہیں پتہ لگا کہ خاندان میں‌ ان سے بھی بڑھ کر امیر و کبیر تھے۔ وہ سٹپٹاتے ہوئے ماں کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کی ماں اچانک مسکرا اٹھی۔ بولی۔ ’’بیٹا! تمہیں تو کوئی ایسی چیز گنڈوڑوں پر لگانی چاہیے کہ دلّی والے ہمیشہ تمہیں یاد رکھیں۔‘‘ لالہ سیتا رام نے سوکھے گلے سے کہا۔ ’’تمہیں بتلاؤ، ماں اب کیا کیا جائے۔‘‘

    بوڑھی ماں نے قریب آکر سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! امیروں کی اس دوڑ میں درمیانے لوگ ناحق پس جاتے ہیں۔ ہمیں جھوٹی عزت اور کھوکھلے اہنکار کا ڈھونگ بھی کھائے جاتا ہے اور اپنی حیثیت سے باہر بھی کام کر جاتے ہیں۔ میری صلاح یہ ہے کہ تم اس بار گنڈوڑوں پر کشمش لگاؤ۔ سوکھے میوے کا پکھراج ہی تو ہے۔ چھوٹے بڑے سب دم سادھے بیٹھے ہیں کہ دیکھو اب کی بار لالہ سیتا رام گنڈوڑوں پر کیا ٹانکتے ہیں اور تمہاری آج کی کرنی ہی کل کے رواج کی لکشمن ریکھا بن جائے گی۔‘‘

    لالہ سیتا رام کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ماں نے کہا۔ ’’اس میں تمہارا بڑا پن ہوگا بیٹا! آج سے یہ دوڑ بھی ختم ہوجائے گی۔ دلّی کے امیر اور غریب سب سکھ کا سانس لیں گے اور تمہاری ہمیشہ واہ واہ ہوگی۔

    لالہ سیتا رام نے گنڈوڑوں پر کشمش ہی لگوائی۔ جب گنڈوڑے بانٹے گئے تو لالہ سیتا رام نے یہ آواز بلند کہا۔ ’’میں نے گنڈوڑوں پر قدرت کا بیش قیمت جواہر لگوایا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قدرت کی گود میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔‘‘

    لالہ سیتا رام کے رواج کا آج بھی دلّی میں چلن ہے۔ امیر غریب سب گنڈوڑوں پر کشمش ہی ٹانک کر بانٹتے ہیں۔

    (سماجی اصلاح کی غرض سے لکھی گئی ایک خوب صورت کہانی)

  • ’’سورج شادی کر رہا ہے!‘‘

    ’’سورج شادی کر رہا ہے!‘‘

    زمانۂ قدیم میں‌ بھی تہذیبیں اور معاشرے لوگوں کے اخلاق کو بہتر بنانے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تربیت اور اصلاح کے عمل کو اہمیت دیتے تھے۔ اس کے لیے سبق آموز واقعات کو کہانی اور دل چسپ حکایات کی صورت میں‌ بیان کیا جاتا تھا۔ آج صدیوں بعد بھی ایسی حکایتیں پڑھی جائیں‌ تو نہ صرف ان کی اثر انگیزی، تازگی اور معنویت برقرار ہے بلکہ آج بھی زندگی کے سفر میں‌ ہماری راہ نما ہیں۔

    یہاں‌ ہم ایسوپ کی ایک حکایت کا اردو ترجمہ نقل کررہے ہیں۔ قبلِ مسیح کے اس دانا و حکیم کا تعلق یونان سے تھا۔ حکایت کچھ یوں ہے:

    ’’ایک جنگل میں تمام چرند پرند جشن منا رہے تھے، جشن منانے والوں میں قریبی تالاب کے مینڈک بھی شامل تھے، ایک بوڑھا مینڈک جو قریب ہی بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا، اس نے جوان مینڈکوں سے پوچھا، یہ تم سب کس بات کا جشن منا رہے ہو؟ مینڈکوں نے پُرجوش انداز میں کہا، شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ’’سورج شادی کر رہا ہے۔‘‘

    یہ سن کر اس بوڑھے مینڈک نے کہا بیوقوفو، اس میں خوشیاں منانے کا کیا جواز ہے، کیا تم غور نہیں کرتے؟ ان تالابوں جن میں‌ تم پھدکتے پھرتے ہو، کو خشک کرنے کے لیے کیا ایک ہی سورج کافی نہ تھا، ذرا سوچو اگر اس نے شادی کر لی تو پھر ہم سب کا انجام کیا ہوگا۔ یہ سورج، اس کی بیوی اور پھر اس کے ہونے والے بچّے مل کر ہمارا تالاب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تالابوں کو ریگستان میں بدل دیں گے۔ چنانچہ یہ شادی ہمارے لیے بربادی اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔‘‘

    ایسوپ کی اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اکثر لوگ غور و فکر کے بجائے کسی بات پر فوری بہل جاتے ہیں‌ جس میں ان کا اپنا ہی نقصان چھپا ہوتا ہے۔ واقعی دنیا میں ایسے احمق لوگ بھی ہیں جو ان باتوں پر خوشیاں مناتے ہیں جو خود ان کے لیے خسارے کا باعث ہوتی ہیں۔

  • ‘ایک شاہی پیغام…’

    ‘ایک شاہی پیغام…’

    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصّہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سَر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مکّے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔ لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔

    اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

    (جرمن زبان میں تحریر کردہ فرانز کافکا کی ایک تمثیل کا اردو ترجمہ)

  • جَل پری

    جَل پری

    کسی چھوٹی سی بستی میں کوئی بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے آگے پیچھے ایک لڑکی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ بڑھیا نے لاڈ پیار میں اسے ایسا اٹھایا تھا کہ وہ اپنوں کو خاطر میں لاتی نہ غیروں کو۔ زبان دراز، پھوہڑ، کام چور۔ ماں کے جھونٹے نوچنے کو تیار مگر ماں تھی کہ داری صدقے جاتی۔ اس کے نخرے اٹھاتی۔

    بڑھیا نے اپنی مرنے والی بہن کی لڑکی کو بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ بیچاری بے گھر اور بے بس۔ سارے دن خالہ کی خدمت میں لگی رہتی۔ بہن کے نکتوڑے اٹھاتی، تب کہیں روکھی سوکھی میسر آتی۔ غریب اپنی ننھی سی جان کو مارتی لیکن کیا مجال جو کبھی خالہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ہو یا بہن نے میٹھی زبان سے کوئی بات کی ہو۔ جب دیکھا ماں بیٹیوں کو غرّاتے۔ مثل تو یہ مشہور ہے کہ ماں مرے اور موسی جیے۔ ہوتی ہوں گی ماں سے زیادہ چاہنے والی خالائیں بھی۔ اس کے نصیب سے تو بڑھیا جلادنی تھی۔

    عید بقرعید کو بھی بیچاری اچھے کھانے، اپنے کپڑوں کے لیے ترستی کی ترستی ہی رہ جاتی۔ اس برے برتاؤ پر شاباش ہے اس لڑکی کو کہ ایک دن بھی اس نے کسی سے شکایت نہیں کی، نہ کام کاج سے جی چرایا۔ جس حال میں خالہ رکھتی رہتی اور ہنسی خوشی وقت گزارتی۔

    بڑی بی اگر اندھی تھیں یا ان کے دل سے ترس اٹھ گیا تھا تو دوسرے تو اندھے نہ تھے۔ دنوں لڑکیوں کا رنگ ڈھنگ سب کے سامنے تھا۔ پاس پڑوس والیاں دیکھتیں اور جلتیں مگر کیا کرسکتی تھیں۔ ایک تو پرائی آگ میں پڑے کون؟ دوسرے بڑھیا چلتی ہوا سے لڑنے والی۔ بد مزاج۔ حق ناحق الٹی سیدھی بکنے لگے۔ اچھی کہو بری سمجھے۔ جھاڑ کا کانٹا ہو کر لپٹ جائے۔ پڑوسنوں کا اور تو کیا بس چلتا۔ بڑھیا اپنے گھر کی مالک تھی۔ ایک اس کی بیٹی دوسری بھانجی۔ ہاں انہوں نے اپنے دل کے جلے پھپولے پھوڑنے کو دونوں لڑکیوں کے نام رکھ دیے۔ جب آپس میں ذکر آتا تو بڑھیا کی چہیتی کو تتیا کہیں کہ ہر وقت بھن بھن، ذرا چھیڑا اور کاٹا۔ دوسری کو گؤ کہ نگوڑی پٹتی ہے، بُرا بھلا سنتی ہے۔ اور کان تک نہیں ہلاتی۔

    وہ جو مثل ہے کہ نکلی ہونٹوں اور چڑھی کوٹھوں۔ بستی ہی کون سی لمبی چوڑی تھی۔ دونوں لڑکیوں کے یہ نام سب کو یاد ہوگئے۔ جہاں ذکر آتا بڑھیا کو تتیا اور بھانجی کو گؤ کہتے۔ ایک دن کہیں جھلو خانم کے کانوں میں بھی بھنک پڑگئی۔ وہ آئے تو جائے کہاں۔ پڑوسنوں پر تو دل ہی دل میں خوب برسی کہ جاتی کہاں ہیں میرا موقع آنے دو۔ ایسی پھلجھڑی چھوڑوں گی کہ گاؤں بھر میں ناچتی پھریں۔ تتیے ہی نہ لگادوں تو بات ہی کیا۔ ہاں غریب بھانجی کہ کم بختی آگئی۔ کہاوت سنی ہوگی کہ

    کمہار پر بس نہ چلا تو گدھیا کے کان امیٹھے۔

    جب ہوتا اسے گود گود کر کھائے جاتی کہ ہاں یہ گؤ ہے اور میری بچی تتیا؟ خدا کرے کہنے والوں کی زبان میں تتیے ہی کاٹیں۔ کیوں ری تُو گؤ ہے؟ یہ سارے کوتک تیرے ہی ہیں۔ میں سب جانتی ہوں۔ ارے تیرے کہیں اس نے ڈنگ مارا ہوگا؟ نہ جانے میرے گھر میں سوکن بن کر کہاں سے آ مری۔ یہ جیسی مسمسی ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔

    اس طرح روز بڑھیا بکا کرتی اور لڑکی شامت کی ماری کو سننا پڑتا۔ سننے کے سوا اسے چارہ ہی کیا تھا۔ خدا کسی کو کسی کے بس میں نہ ڈالے۔ ایک دن بستی کے باہر کوئی میلہ تھا۔ بڑھیا کی لاڈلی اچھے کپڑے پہن مٹکتی اتراتی اپنی سہیلیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔ گؤ بھی آخر لڑکی ہی تھی۔ ایک ایک کا مونہہ دیکھنے لگی۔ ہمسائی اوپر سے جھانک رہی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’بوا اس بچی کو بھی بھیج دو۔ اس کا دل بھی خوش ہوجائے گا۔ دیکھنا بے چاری کیسی چپ چاپ کھڑی ہے۔‘‘

    بڑی بی جھلاّ کر بولیں، ’’یہ میلہ میں جانے کے قابل ہے۔ سر جھاڑ مونہہ پہاڑ۔ نہ ڈھنگ کے کپڑے، نہ کہیں جانے کا سلیقہ۔ دوسرے گھر کا کام کون کرے گا۔ اس کی لونڈیاں بیٹھی ہیں جو کام کرنے آئیں گی۔‘‘ اور لڑکی سے چلّا کر کہنے لگی، ’’چل گھڑا اٹھا اور کنویں پر سے پانی لا۔‘‘

    اس غریب لڑکی نے گھڑا اٹھایا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے کنویں پر گئی، پانی بھرا اور درخت کی چھاؤں میں پہنچی کہ ذرا دل ٹھہر جائے تو گھر چلوں۔ رات دن کی مصیبت پر اسے رونا آگیا۔ اتنے میں پیچھے سے اس کو ایک آواز سنائی دی۔ اس نے جھٹ پلّو سے آنسو پوچھ کر گردن اونچی کی تو دیکھا ایک بڑھیا کھڑی ہے۔ بڑھیا نے گڑگڑا کر لڑکی سے کہا، ’’بیٹی پیاسی ہوں ذرا سا پانی پلا دے۔‘‘ لڑکی نے خوشی خوشی بڑھیا کو پانی پلا دیا۔

    پانی پی کر بڑھیا نے لڑکی کو دعائیں دیں اور بولی، ’’تم بڑی اچھی لڑکی ہو۔ میں تمہارے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہوں کہ ساری عمر یاد کرو گی۔ لو آج سے جب تم بات کرو گی تمہارے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ یہ کہتے کہتے بڑھیا لڑکی کی آنکھوں کے آگے سے غائب ہوگئی۔ اصل میں وہ بڑھیا جَل پری تھی۔

    جَل پری تو چلی گئی، اور لڑکی بھی اپنا گھڑا سَر پر رکھ اپنے گھر کے طرف روانہ ہوئی۔ لیکن اب اسے یہ فکر ہوا کہ یہ بڑھیا کون تھی اور اس نے کیا کہا؟ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی۔

    گھر پہنچی تو خالہ نے بیچاری کی خواب خبر لی، ’’اب تک کہاں رہی تیرا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تو کہیں اور چلی جا۔‘‘

    لڑکی دبی زبان سے بولی، ’’خالہ جی اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایک بڑھیا کو پانی پلانے لگی تھی۔‘‘ لڑکی کا مونہہ سے بات کرنا تھا کہ آنگن میں موتی بکھر گئے۔ جل پری کا کہنا سچ ہوا۔ بڑھیا نے جو چمکتے ہوئے موتی دیکھے تو دیوانوں کی طرح جھپٹی اور موتی چننے لگی۔ موتی سمیٹ چکی تو بڑے پیار سے بولی، ’’چندا! یہ کہاں سے لائی؟‘‘

    لڑکی نے کہا، ’’خالہ جی لائی تو کہیں سے بھی نہیں، میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔‘‘

    بڑھیا ہنس کر بولی، ’’چل جھوٹی۔ مونہہ سے بھی موتی جھڑا کرتے ہیں۔ ایک واری سچ بتا ضرور تجھے کوئی خزانہ ملا ہے۔‘‘

    ’’نہیں خالہ اللہ جانے میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔ ایک بڑھیا کنویں پر ملی تھی۔ اسے میں نے پانی پلایا۔ اس نے مجھے دعا دی کہ جب تُو بات کرے گی تیرے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ وہ ضرور کوئی پری تھی مگر بیٹی اب تو دوچار دن پانی بھرنے نہ جائیو پریوں کا کیا بھروسہ۔ آج مہربان ہیں تو کل قہرمان۔ تجھے کہیں کنویں میں نہ لے جائیں۔‘‘ بڑی بی بڑی تیز تھیں۔ بھانجی سے تو ظاہر میں یہ باتیں بنائیں لیکن دل میں کھول ہی تو گئی کہ پری نے میری بچّی کو موتیا کھان نہ بنایا۔ بیٹی میلے میں سے آئی تو اسے خوب پٹیاں پڑھائیں اور بڑی مشکل سے دوسرے دن اس کو کنویں پر پانی بھرنے کے لیے بھیجا۔

    تتیا مرچ اوّل تو گئی بڑے نخروں سے۔ پھر کنوئیں پر ڈول کو جھٹکتی پٹکتی رہی۔ جھینک پیٹ کر گھڑا بھرا اور درخت کے نیچے جا بیٹھی۔ بیٹھی ہی تھی کہ جَل پری بڑھیا کے روپ میں اس کے بھی پاس آئی۔ بولی، ’’بیٹی! ذرا سا پانی تو پلا دے۔ کب سے پیاسی مر رہی ہوں۔‘‘

    بڑھیا کی لڑکی ویسے ہی جلاتن۔ پھر جل پری نے ایسی گھناؤنی صورت بنا رکھی تھی کہ دیکھے سے نفرت ہو۔ گھرک کر بولی، ’’چل چل، میں نے کوئی پیاؤ لگا رکھی ہے۔‘‘

    جل پری گھگھیا کر بولی، ’’پلا دے بیٹی ثواب ہوگا۔‘‘

    لڑکی نے جواب دیا، ’’جاتی ہے یا پتھر ماروں۔‘‘

    ’’اری میں بہت پیاسی ہوں۔‘‘

    ’’میری جوتی سے۔ پیاسی ہے تو کنویں میں ڈوب جا۔‘‘ لڑکی نے تیزی سے جواب دیا۔

    جل پری کو پانی کی کیا ضرورت تھی۔ اسے تو اس بھیس میں اپنا کرشمہ دکھانا تھا۔ غصّے سے بولی، ’’بدتمیز لڑکی جاتی کہاں ہے۔ اتنی آپے سے باہر ہوگئی۔ میں بھی تجھے وہ مزہ چکھاتی ہوں کہ یاد رکھے۔ جا میں نے کہہ دیا کہ آج سے جب تو بات کرے گی تیرے مونہہ سے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آئیں گے۔

    لڑکی کو اس بات پر غصّہ تو بہت آیا۔ جوتی اٹھا مارنے کو کھڑی ہوئی لیکن پری کب ٹھہرنے والی تھی وہ بددعا دیتے ہی غائب ہوگئی۔ لڑکی دیر تک دانت پیستی رہی۔ پری کا بھی اسے انتظار تھا۔ دوپہر ہونے آئی اور پری وری کوئی نہیں دکھائی دی تو یہ دل ہی دل میں بڑبڑاتی اپنے گھر روانہ ہوئی۔

    ماں اپنی چہیتی بیٹی کے انتظار میں دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھی تھی۔ دیکھتے ہی پوچھا، ’’کہو بیٹی پری ملی اس نے تجھے کیا دیا۔‘‘

    لڑکی جلی بھنی تو پہلے ہی چلی آرہی تھی تڑخ کر جواب دیا، ’’چولھے میں جائے تمہاری پری۔ نگوڑی میری تو گردن بھی ٹوٹ گئی۔‘‘

    ’’آخر کیا ہوا؟ پری آج نہیں آئی؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

    ’’کیسی پری؟ وہاں تو ایک پگلی سی بڑھیا نجانے کہاں سے آن مری تھی۔‘‘ لڑکی نے جل کر جواب دیا۔

    لڑکی جب بات کرتی اس کے مونہہ سے مینڈکیاں نکل کر زمین پر بھدکنے لگتیں۔ پہلے تو بڑھیا نے اپنی دھن میں دیکھا نہیں۔ لیکن جب ایک مینڈکی اس کی گود میں جاکر اچھلنے لگی تو وہ اچھل پڑی۔ ’’اوئی یہ مینڈکی کہاں سے آئی۔‘‘ پھر جو دیکھتی ہے تو سارے صحن میں مینڈکیاں ہی مینڈکیاں کودتی پھر رہی ہیں۔ ’’ہے ہے اری کیا گھڑے میں بھر لائی ہے۔‘‘

    ’’اسی پچھل پائی بڑھیا نے کوسا تھا کہ تیرے مونہہ سے مینڈکیاں برسیں گی۔‘‘ بیٹی نے بسور کر جواب دیا۔

    ’’جھلسا دوں اس کے مونہہ کو۔ وہ پری نہیں کوئی بھتنی ہوگی۔‘‘ بڑھیا بولی۔

    ’’امّاں یہ سب اس کٹنی کے کرتوت ہیں۔ اسے تم نے گھر میں کیوں گھسا رکھا ہے۔‘‘

    ’’اچھا اب تُو تو مونہہ بند کر پڑوسنیں دیکھ لیں گی تو سارا گاؤں تماشا دیکھنے آجائے گا۔ دیکھ میں اس مردار کی خبر لیتی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر بڑھیا نے پھکنی اٹھا، بیچاری بے قصور بھانجی کو دھننا شروع کردیا۔ ’’کیوں ری مردار، تیرے مونہہ سے تو موتی جھڑیں اور میری بچّی کے مونہہ سے مینڈکیاں۔ جاتی کہاں ہے۔ آج میں بھی تیری دھول جھاڑ کر رہوں گی۔‘‘

    بڑھیا اپنی یتیم بھانجی پر پل پڑی۔ مارنے کے بعد بھی بڑھیا کو صبر نہ آیا۔ ہاتھ پکڑ گھر سے باہر نکال دیا۔ لڑکی اور کہاں جاتی کنواں ہی پاس تھا۔ روتی ہوئی اس درخت کے نیچے جا بیٹھی جہاں جل پری ملی تھی۔ کبھی خیال کرتی کہ ڈوب مروں۔ کبھی سوچتی کہ کسی اور بستی میں چلی جاؤں۔ اتنے میں جل پری بھی آگئی اور اس نے لڑکی سے پوچھا، ’’بیٹی روتی کیوں ہے؟‘‘

    لڑکی نے اپنی بپتا سنائی اور کہا، ’’تمہاری بدولت میں گھر سے نکالی گئی ہوں۔‘‘

    پری قہقہہ لگا کر بولی، ’’اچھی لڑکیاں کہیں اس طرح بے آس ہو کر رویا کرتی ہیں۔ جا خدا تیرے دن پھیر دے۔ آج سے تو پھولوں کی سیج پر شاہی محل میں سوئے گی۔‘‘

    اللہ کو نہ بگاڑتے دیر لگتی ہے نہ بناتے۔ اتفاق سے ادھر تو پری نظروں سے اوجھل ہوئی اور ایک شہزادہ شکار کھیلتا پانی کی تلاش میں کنویں کے پاس آیا۔ ڈول اٹھاتے اٹھاتے لڑکی پر نظر پڑی۔ لڑکی حقیقت میں چاند کا ٹکڑا تھی۔ کیسا پانی اور کیسی پیاس۔ ڈول وول چھوڑ لڑکی کے پاس آیا۔ بات کی کہ مونہہ سے پھول کیسے سچ مچ کے موتی جھڑتے ہیں۔ اتنے میں پھر جل پری سامنے آئی۔ اب وہ اور ہی شان سے آئی تھی۔

    شہزادہ سمجھا کہ یہ لڑکی کی ماں ہے۔ اس نے پری سے لڑکی کی درخواست کی۔ جل پری نے عہد و پیمان کرکے لڑکی کو شہزادے کے ساتھ کر دیا۔

    شہزادہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ لڑکی کو اپنے محل میں لے گیا۔ بہو کو دیکھ کر ساس سسرے بہت خوش ہوئے۔ بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ بن ماں باپ کی لاوارث لڑکی کو خدا نے اس کے صبر کا پھل دیا۔ بڑھیا اور بڑھیا کی تتیا ساری عمر اپنے تتیے میں کھولتی اور مینڈکوں ہی کے چکر میں رہی۔

    (اردو کے ممتاز صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کے قلم سے)

  • آبِ حیات

    آبِ حیات

    یہ کہانی ماضی قدیم کی ہے جب دنیا میں ملک چاہے چھوٹے تھے یا بڑے، سب میں ہی بادشاہت قائم تھی۔ قیطولونیا (کیٹالونیہ) میں بھی ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ تو بادشاہوں کی طرح امیر تھا ہی لیکن اس کی رعایا دیگر ممالک کی طرح غریب تھی اور ہر کس و ناکس امیر ہونے اور محلوں کے خواب دیکھتا تھا۔

    اسی ملک کے ایک گاﺅں میں تین بھائی اور ایک بہن رہتے تھے۔ بہن کا نام مایا جب کہ اس کے تینوں بڑے بھائی ہومر، آرتھر اور آگسٹس کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہومر سب سے بڑا تھا۔ ان کے ماں باپ ایک خوف ناک سمندری طوفان کی نذر ہو گئے تھے۔ اس طوفان نے اور بھی بہت سے لوگوں کی جان لی تھی۔ یہ چاروں قیطولونیا کے ایک گاﺅں میں ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں رہتے تھے۔ ان میں بہت پیار تھا اور وہ ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ وہ جنگلی پھلوں اور خود رو سبزیاں کھا کر گزارا کرتے اور کبھی کبھار خرگوش یا جنگلی مرغ بھی پکڑ لیتے۔

    ایک روز ہومر نے، جس نے ابھی تک کوئی باقاعدہ کام نہ کیا تھا اور وہ بس سورج کو چڑھتے اور ڈھلتے ہی دیکھتا رہتا تھا، نے باقی تینوں سے کہا؛ ”ہم کب تک یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ چلو ہم مل کر محنت اور لگن سے کوئی کام کریں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم امیر ہو جائیں اور اس قابل ہو سکیں کہ اپنے لیے ایک ایسا محل کھڑا کر لیں جیسے کہ امیروں اور بادشاہوں کے ہوتے ہیں۔“

    مایا، آرتھر اور آگسٹس نے خوشی سے کہا؛ ” بالکل ٹھیک ہے بھیا! ہم سب مل کر اور دل لگا کر کام کریں گے!“
    انہوں نے جی جان سے کام کیا اور وہ بالآخر ایک روز امیر ہو ہی گئے اور اس قابل بھی کہ اپنے لیے ایک خوب صورت محل تعمیر کر سکیں۔ ایک ایسا محل جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے، اس کے عجائب کو دیکھتے اور کہتے کہ کیا ہی شان دار محل ہے۔ کافی وقت بیت گیا لیکن کوئی بھی اس عجوبے میں کوئی نقص نہ نکال سکا۔ اور پھر ایک روز ایک بڑھیا جو اور بہت سے لوگوں کی طرح محل کے کمروں میں گھوم پھر کر نادر اشیاء دیکھ رہی تھی، اچانک بولی؛ ” یہ بہت ہی شان دار محل ہے لیکن اس میں ایک شے کی کمی ہے!“
    ” اور یہ کمی کیا ہے۔“ اس سے سوال کیا گیا۔
    ” ایک عبادت گاہ۔“ اس نے جواب دیا۔
    ” لیکن اس ملک میں عبادت گاہیں تو بہت سی ہیں، خود اس گاؤں میں پانچ چھے ہیں۔“
    ” ہاں وہ تو ہیں، لیکن وہ مختلف عقیدوں، دھرم اور مذہبوں کے ماننے والوں نے اپنے اپنے لیے مخصوص کر رکھی ہیں۔ ایسی کوئی نہیں ہے، جس میں ہر کوئی جا سکے۔“
    ”ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“
    ” ایسا یوں ہو سکتا ہے کہ اس عبادت گاہ میں کسی بھی عقیدے، دھرم یا مذہب کے حوالے سے کوئی منبر نہ ہو، کوئی قربان گاہ نہ ہو، نہ کوئی بُت ہو اور نہ ہی قبلہ جیسی کوئی سمت ہو۔ یہ بس وسیع و عریض منقش اور روشن کمروں پر مشتمل ایسی عمارت ہو جو اپنے محور پر ہمیشہ گھومتی رہے اور محل کے گرد اُسی طرح چکر لگائے جیسے زمین بیضوی مدار میں سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ ہر کوئی اس میں جائے اور اپنے من ہی من میں، اپنے عقیدے، دھرم یا مذہب کے مطابق امن و آشتی کے لیے دعا کرے اور باہر آ جائے۔ اور جن کا کوئی عقیدہ، دھرم یا مذہب نہ ہو وہ امن و آشتی کی دعا کے علاوہ حیات کی ابدیت کو بھی سلام پیش کرکے خود میں خوشی محسوس کرتے ہوئے باہر آئیں۔ ”

    چاروں بھائی بہن نے استہفامیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا، لیکن بوڑھی عورت کی بات دل کو لگی تھی۔
    رات میں جب وہ کھانے کی میز پر بیٹھے تو انہوں نے بُڑھیا کی اس تجویز پر خوب بحث و مباحثہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی ایک ایسی عبادت گاہ جو سب کے لیے ہو، یقیناً اس محل کی عظمت اور شان و شوکت میں ایک بڑے اضافے کا باعث ثابت ہو گی۔ لیکن ان کے پاس اسے تعمیر کرنے کے لیے کافی پیسے نہ تھے۔

    وہ پھر سے محنت کرنے لگے اور دولت جمع کرنے لگے۔ جب کافی دولت جمع ہوگئی تو انہوں نے عبادت گاہ کی عمارت کھڑی کرنی شروع کر دی۔ یہ عمارت اتنی ہی خوب صورت تھی جتنا کہ خود محل تھا۔ بلکہ یہ محل سے بڑی اور سادگی کا مرقع تھی۔ یہ زمین کی طرح گول تھی اور اپنے محور پر ہر وقت گھومتی اور ایک بیضوی مدار میں محل کے گرد چکر لگاتی رہتی۔ دور سے دیکھنے پر ایسے لگتا جیسے دھرتی پر کسی نے ایک بڑا سا متحرک گولہ رکھ دیا ہو۔ رات میں جب اس میں فانوس جلتے تو یہ اور بھی خوب صورت نظارہ پیش کرتی جیسے رنگ برنگی روشنیاں اَزلی گردشوں میں ہوں۔

    عبادت گاہ جب مکمل ہو گئی تو اسے دیکھنے کے لیے لوگ پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں گروہ در گروہ آنے لگے۔ وہ محل کو دیکھتے، عبادت گاہ میں جاتے، دعا کرتے اور اس کے وسیع دالانوں اور باغات میں بیٹھ کر ساتھ لایا ہوا کھانا کھاتے، فنِ تعمیر کے ان دو عجوبوں کی تعریف کرتے اور چاروں بہن بھائیوں کی کاوشوں کو بھی سراہتے کہ انہوں نے کمال خوبی سے ملک بلکہ دنیا میں بسنے والے ہر رنگ، ہر نسل اور ہر عقیدے کے لوگوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کر دیا تھا۔

    اور پھر ایک روز ایسے ہوا کہ جب وہ چاروں بہن بھائی اپنے مہمانوں کے ساتھ عبادت گاہ کے بڑے کمرے میں بیٹھے تھے تو ایک بوڑھا سیاح جو اسی کمرے کی اندرونی چھت پر بنے پھول بوٹوں اور پرندوں کو دیکھ رہا تھا، اچانک ان کی طرف مڑا اور بولا؛
    ” زبردست، یہ سب تو بہت ہی زبردست ہے، خوب صورت ہے لیکن ابھی بھی اس میں کچھ کمی ہے۔“
    ”اے بزرگ ، ہمیں بتاﺅ کہ وہ کیا ہے؟“ ہومر نے پوچھا۔
    ” عبادت گاہ میں ان چیزوں کی کمی ہے جو دنیا کے سب لوگوں کے لیے مقدس اور الوہی ہیں۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔
    ”اور وہ کیا ہیں ؟“ مایا نے پوچھا۔
    ” آبِ حیات، حیات کا وہ درخت جس کی شاخیں زرّیں ہیں اور ان پر لافانی خوب صورتی و خوش بُو رکھنے والے پھول لگتے ہیں اور زندگی کی لافانیت کا مظہر ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے پرندے جو سب انسانوں کی بولیوں پر عبور رکھتے ہیں۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔
    ” اور یہ ہمیں کہاں ملیں گے؟“ آرتھر نے پوچھا۔
    ”تمہیں اس کے لیے اُس پہاڑ کو پار اتر کر نیچے تنگ وادی میں جانا ہو گا۔ وہیں ایک کھوہ میں تمہیں اپنی مراد ملے گی۔“ بوڑھے نے دور نظر آنے والے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا جو دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ یہ کہہ کر بوڑھے نے گردن جھکائی، ان کو الوداع کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ چاروں نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ ہوا کہ ہومر ان تینوں الوہی اشیاء کو لینے جائے گا۔

    ” لیکن بھائی اگر کوئی مصیبت تمہاری راہ میں آڑے آئی یا بدی تمہاری راہ میں حائل ہوئی تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا ؟ “ مایا نے کہا۔
    ” ہاں ، تم ٹھیک کہتی ہو۔ اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہ تھا۔“
    وہ چاروں اس راہ کی طرف بڑھے جس پر بوڑھا گیا تھا۔ مایا بوڑھے سے مخاطب ہوئی؛
    ” ہمارا سب سے بڑا بھائی آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور پرندوں کے حصول کے لیے جانا چاہتا ہے، جن کے بارے میں آپ نے کہا کہ ان کی عبادت گاہ میں کمی ہے۔ ہم یہ کیسے جانیں گے کہ بدی اس کے آڑے آئی اور وہ کسی مشکل میں گرفتار تو نہیں ہو گیا؟“
    بوڑھے نے مایا کو مسکرا کر دیکھا اور اپنی جیب سے سیاہ رنگ کا ایک چھوٹا سا پتھر نکالا اور بولا؛
    ” اسے انگوٹھی میں جڑوا لو اور اپنے بائیں ہاتھ کی بڑی انگلی میں پہن لو۔ یہ ایک دہکتے شہاب ثاقب کا ٹکڑا ہے جو ہزاروں سال پہلے شط العرب دریا میں گرا اور ٹھنڈا ہو کر سیاہ ہو گیا تھا۔ جب تک یہ سیاہ رہے تو سمجھو سب ٹھیک ہے لیکن جب یہ لال ہو کر دہکنے لگے تو جان لینا تمہارا بھائی کسی مصیبت کا شکار ہو گیا ہے۔“

    انہوں نے بوڑھے کا شکریہ ادا کیا اور واپس لوٹ گئے۔ ہومر نے تیاری کی اور پہاڑ کی جانب چل دیا۔ وہ سات دن کی مسافت طے کر کے پہاڑ کے دامن میں پہنچا۔ وہاں ایک کٹیا میں شمع روشن تھی۔ وہ اس میں داخل ہوا تو سامنے ایک باریش بزرگ بیٹھا تھا۔
    ” اے بزرگ ، کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ پہاڑ پار تنگ وادی تک پہنچنے میں مجھے اور کتنا وقت لگے گا؟“
    ” لیکن تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟“ بزرگ نے پوچھا۔
    ” میں آبِ حیات، لافانی پھولوں اور زریں شاخوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے وہاں جانا چاہتا ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
    ” ان تینوں کو پانے کے لیے بہت سے نوجوان لڑکیاں اور لڑکے یہاں آئے ، میرے پاس رُکے اور آگے گئے۔ لیکن میں نے انہیں واپس لوٹتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور ایسا ہے کہ تم بھی شاید واپس نہ لوٹو۔ ہاں البتہ اگر تم میرے کہے پر پوری طرح عمل کرو گے تو مراد پا لو گے۔ جھونپڑی کے پیچھے والا راستہ اختیار کرو اور پہاڑ پر چڑھو۔ جب تم اس کی چوٹی کے پاس پہنچو گے تو اسے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے ڈھکا پاﺅ گے۔ وہاں رُکنا نہیں اور نہ ہی پتھروں کی طرف دیکھنا، بس چلتے جانا۔ اور پھر ہنسنے اور لعن طعن کرتی آوازیں تمہارا پیچھا کریں گی۔ یہ پتھروں سے اٹھ رہی ہوں گی۔ ان کو نظر انداز کرنا اور مُڑ کر مت دیکھنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی پتھر بن جاﺅ گے۔ نظر سیدھ میں رکھنا اور تب تک سامنے کی طرف تکتے رہنا جب تک تم چوٹی کے پار نہ اتر جاﺅ اور یہاں تک کہ تمہیں تنگ وادی نظر نہ آنے لگے۔“ باریش بزرگ نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی اورچولہے پر دھرے برتنوں سے دال اور چاول نکال کر اسے کھانے کے لیے دیے۔ ہومر نے رات کٹیا میں ہی بسر کی۔

    اگلی صبح وہ بزرگ کے بتائے راستے پر چلتا پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ وہ جب پہاڑ کی چوٹی کے قریب پہنچا تو ویسے ہی پتھر اس کے قدموں تلے آنے لگے جیسا کہ بزرگ نے بتائے تھے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتا رہا اسے اپنے پیچھے سے تمسخر آمیز ہنسی اور لعن طعن کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ ان پر دھیان دیے بغیر آگے بڑھتا رہا۔ پہاڑ کی چوٹی بہت قریب تھی اور آوازیں تھیں کہ اونچی سے اونچی ہو رہی تھیں۔ جیسے ہی اس نے چوٹی پھلانگی، آوازوں کا شور اپنی انتہا پر پہنچ چکا تھا۔ صبر کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور اس نے ایک پتھر اٹھایا اور مُڑ کر اپنے پیچھے چھائی دھند جو پتھروں سے ہی اٹھ رہی تھی، میں پھینکا۔ اسی لمحے اس کے بازو اکڑنے لگے اور وہ خود بھی پتھر میں ڈھل گیا۔

    تبھی، محل میں بیٹھی مایا کی نظر اپنی سیاہ پتھر والی انگوٹھی پر پڑی، پتھر آگ کی طرح دہک رہا تھا اور اس کی تپش اس کی انگلی کو جھلسا رہی تھی۔ وہ دوڑتے ہوئے اپنے بھائیوں کے پاس گئی اور انہیں انگوٹھی دکھائی اور چلائی:
    ”ہمارا بڑا بھائی کسی خطرے میں گِھر گیا ہے۔“ پتھر کی دہک کم ہو رہی تھی۔
    آرتھر بولا ” میں جاتا ہوں اور اسے تلاش کرتا ہوں۔“
    وہ بھی اسی سمت میں چلتا گیا جس طرف اس کا بڑا بھائی گیا تھا۔ وہ بھی سات دن کی مسافت طے کرکے پہاڑ کے دامن میں پہنچا۔ کٹیا والے باریش بزرگ سے ملا اور اس سے اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا۔
    ” مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ وہ تمہارا بھائی تھا یا نہیں لیکن کچھ روز قبل ایک نوجوان یہاں آیا تھا اور آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے پہاڑ کی طرف گیا تھا۔ لیکن وہ واپس نہیں لوٹا۔ لگتا ہے پہاڑ پر چھائے بدی کے جادو نے اپنا کام کر دکھایا۔“
    ” جی وہ میرا ہی بھائی ہے۔ مجھے بتائیں کہ میں اپنے بھائی کو اس بد سحر سے کیسے بچاﺅں اور کیسے تینوں مقدس اشیاء کو حاصل کروں؟“

    باریش بزرگ نے اسے بھی وہی صلاح دی جو اس نے اُس کے بڑے بھائی کو دی تھی لیکن وہ اسے یہ نہ بتا سکا کہ وہ اپنے بھائی کو بد سحر سے کیسے نکالے۔ آرتھر نے بھی ابلے چاول دال کے ساتھ کھائے اور رات اسی کٹیا میں بسر کی۔

    اگلی صبح وہ بھی باریش بزرگ کے بتائے راستے پر آگے بڑھ گیا۔ وہ جب پہاڑ پر پتھروں والے مقام پر پہنچا تو اسے بھی لعن طعن اور تمسخر بھری آوازوں کا سامنا کرنا پڑا جو بلند سے بلند تر ہوئے اس کے کان پھاڑ رہی تھیں۔ اسے ان آوازوں میں اپنے بڑے بھائی کی پکار بھی سنائی دی۔ اس سے نہ رہا گیا اور اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔اس کا ایسا کرنا تھا کہ وہ بھی پتھر میں بدل گیا۔

    اِدھر محل میں مایا جو اپنے بھائیوں کے لوٹنے کے دن گن رہی تھی، کو اسی لمحے انگلی میں تپش محسوس ہوئی، اس گھبرا کر اسے دیکھا، انگوٹھی میں جڑا پتھر ایک بار پھر دہک رہا تھا۔ وہ خوف سے چلائی اور آگسٹس کے پاس گئی اور اسے دہکتا پتھر دکھایا۔
    وہ فوراً بول اٹھا: ” مایا تم فکر مت کرو ، میں ان کی مدد کو جاتا ہوں اور ساتھ میں آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرکے لاتا ہوں۔“ آگسٹس بھی پہاڑ کی سمت چل دیا اور سات روز کی مسافت طے کرتا پہاڑ کے دامن میں اسی کٹیا کے پاس پہنچا جہاں سے گزر کر اس کے دونوں بھائی آگے گئے تھے۔ اس نے باریش بزرگ سے پوچھا ؛
    ” کیا آپ نے پچھلے دنوں میں دو جوان پہاڑ پار جاتے دیکھے تھے؟“
    ”ہاں وہ یہاں میرے پاس رات بھر رکے بھی تھے اور اگلی صبح آگے روانہ ہوئے تھے۔ لیکن تم سے مطلب؟“
    ” وہ میرے بڑے بھائی تھے۔ میں انہی کی تلاش میں، انہیں بچانے اور آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے آیا ہوں۔“

    باریش بزرگ نے اسے بھی دال چاول کھانے کو دیے۔ رات اپنے پاس ٹھہرایا اور اگلی صبح اسے بھی رخصت کرتے ہوئے وہی نصیحت کی ، جو وہ پہلے اس کے بھائیوں کر چکا تھا۔ آگسٹس نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور اس کی بتائی راہ اختیار کی۔ وہ بھی جب پہاڑی راستے پر اوپر چڑھتا ہوا چوٹی کے پاس پہنچا اور ہانپتے ہوئے چال دھیمی کی تو پیچھے سے آوازوں کا شور اٹھا، اس نے پروا نہ کی اور سانس برابر ہونے پر پھر تیزی سے چلنے لگا۔ اب وہ پتھر پھلانگ رہا تھا اور آوازیں تھیں کہ بلند سے بلند تر ہو رہی تھیں۔ ان میں اس کے دونوں بھائیوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ یہ آہ و بکا کر رہی تھیں۔ اس سے نہ رہا گیا اور اس نے مڑ کر بھائیوں کو دیکھنا چاہا۔ پیچھے کوئی نہ تھا بس پتھروں سے دھواں اٹھ کر دھند میں بدل رہا تھا۔ اس کے اپنے بدن سے دھواں اٹھا اور وہ لڑھک کر پتھر ہو گیا۔
    اِدھر محل میں مایا، جو کمرے میں بے چینی سے چکر کاٹ رہی تھی ، نے انگوٹھی میں جڑے پتھر کو جب دہکتے ہوئے دیکھا تو یک دم بول اٹھی؛ ” اب میری باری ہے۔ مجھے اپنے بھائیوں کی خاطر اور آبِ حیات ، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے یہاں سے نکلنا ہو گا۔“ وہ پہاڑ کی سمت چلی اور چلتی ہی گئی۔ بالآخر وہ بھی کٹیا والے باریش بزرگ کے پاس پہنچی اور اس سے اپنے بھائیوں کے بارے میں پوچھا۔

    بزرگ نے لڑکی کو دال چاول کھانے کو دیے اور اسے یہ بھی بتایا کہ دنیا میں جنت نظیر ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں دال چاول کو اس کے باسی ‘وری بتہ ‘ کہتے ہیں اور یہ کہ وہ وہیں پیدا ہوا تھا۔ لڑکی جب کھا رہی تھی تو بزرگ کی نظر اس کے بائیں ہاتھ پر پڑی۔ اس نے پوچھا؛ ” بیٹی انگوٹھی میں جڑا یہ پتھر تم نے کہاں سے لیا۔“
    لڑکی نے بزرگ کو اپنی غربت سے لے کر امیری تک ، امیری سے لے کر محل تک ، بُڑھیا سے لے کر عبادت گاہ تک اور عبادت گاہ سے لے کر بوڑھے تک کی ساری کہانی سنا ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ اسے پتھر اسی بوڑھے نے دیا تھا اور اس نے اسی کے کہنے پر اسے انگوٹھی میں جڑوایا تھا۔ بزرگ اس کی ساری داستان سن کر مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ خاصی معنٰی خیز تھی۔ مایا نے رات کٹیا میں ہی گزاری۔ پو پھٹنے پر بزرگ نے اسے بھی وہی کچھ بتایا جو وہ اس کے بھائیوں کو بتایا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جب پہاڑ پر اسے اپنے پیچھے سے آوازیں ، خاص طور پر بھائیوں کی آہ و بکا سنائی دے تو وہ اپنی نظریں اپنی انگوٹھی میں لگے پتھر پر مرکوز کر دے اور آگے بڑھتی جائے۔ اور یہ کہ یہ پتھر اس کے دل کو تقویت دے گا اور اسے اپنی راہ یوں صاف نظر آئے گی جیسے شط العرب دریا کا شفاف پانی ہو۔

    مایا شط العرب دریا کا ذکر سن کر چونکی اور اسے وہ بوڑھا یاد آیا جس نے اسے یہ پتھر دیا تھا اور اسے یہ بتایا تھا یہ کیا تھا اور یہ کیونکر ٹھنڈا ہو کر سیاہ ہوا تھا۔ وہ باریش بزرگ سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اس پتھر کے بارے میں اور کیا جانتے تھے لیکن اپنے بھائیوں کو بچانے اور اپنی منزل تک پہنچنے کی جلدی آڑے آئی اور وہ بزرگ کا شکریہ ادا کر کے کٹیا کی پشت پر موجود پہاڑی راستے کی طرف چل دی۔

    اور پھر جیسے ہی وہ پہاڑ کے اس مقام پر پہنچی جہاں سے آوازوں نے اس کا پیچھا کرنا تھا تو اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اس کا بایاں ہاتھ جب حرکت کرتا تو اسے لگتا جیسے اس طرف کے پتھر بھی حرکت کر رہے ہوں۔ جب یہ احساس قوی ہوا تو اس نے چال دھیمی کی اور اپنا بایاں ہاتھ گھما کر دائیں طرف کیا اور اسے ہلایا۔ دائیں طرف کے پتھروں میں بھی حرکت پیدا ہونے لگی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان پتھروں میں زندگی قید تھی۔

    وہ پھر سے تیز تیز چلنے لگی اور اس کے پیچھے پیچھے آوازیں آنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ یہ جوں جوں بلند ہوئیں تو اسے ان میں اپنے بھائیوں کی آہ و بکا بھی سنائی دینے لگی۔ اس نے باریش بزرگ کی ہدایت کے مطابق اپنی نظریں انگوٹھی کے پتھر پر مرکوز کر دیں۔ ہر لمحہ اسے پہاڑ کی چوٹی کے قریب لے جاتا گیا اور جیسے ہی اس نے چوٹی پار کی ، شور و غوغے نے اس کو بہرہ کر دیا لیکن اس نے اپنے قدم نہ روکے اور نیچے اترتی چلی گئی۔
    اب اس کے سامنے تنگ وادی تھی اور پھر بالآخر وہ اس کھوہ تک جا پہنچی جہاں نے ایک جھرنا پھوٹ رہا تھا اور اس کے قدموں میں تالاب کے کنارے زریں شاخوں والا تن آور درخت کھڑا تھا۔ اس کی شاخیں پھولوں سے لدی تھیں اور کچھ ڈالیوں پر پرندوں کے کئی جوڑے بیٹھے ایسی زبان بول رہے تھے جو اس کی اپنی تھی۔ اس نے اپنا مشکیزہ جھرنے سے نکلنے والے پانی سے بھرا، درخت کی کچھ ہری شاخیں کاٹیں اور مشکیزے میں ہی ڈال لیں۔ اب مسئلہ پرندوں کے جوڑے کا تھا، اس کے پاس پنجرہ نہ تھا۔ وہ درخت کے نیچے بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کہ ایسا کیا کرے کہ پرندوں ایک جوڑا بھی ساتھ لے جا سکے۔ تبھی اس کے کانوں میں پرندوں کی آواز پڑی، ایک بولا؛
    ” کہیں یہ وہ لڑکی تو نہیں جس نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسی عبادت گاہ بنائی ہے جس کے دروازے ہر عقیدے ، دھرم اور مذہب کے لوگوں پر کھلے ہیں اور جو اپنے محور پر اور مدار میں یوں گھومتی ہے جیسے زمین۔“

    ”لگتا ہے یہ وہی ہے کیونکہ اس نے آب ِ حیات سے اپنا مشکیزہ بھرا ہے اور اس نے زریں شاخوں والے اس درخت کی کچھ شاخیں بھی توڑی ہیں اور اب یہ بیٹھی سوچ رہی ہے کہ وہ ہم میں سے ایک جوڑا کیسے پکڑے اور کیونکر ساتھ لے جائے۔“
    دوسرا بولا۔” چلو ، اس کے پاس جا کر پوچھتے ہیں۔“ ، تیسرا بولا۔
    اور پھر بہت سے پرندے درخت کی شاخوں سے نیچے اترے اور مایا کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔
    مایا ، چونکہ ، ان کی باتیں سن چکی تھی اس لیے وہ بولی:
    ” ہاں ہم بہن بھائیوں نے ہی ایسی عباد ت گاہ بنائی ہے۔ اور یہ کہ ایک بزرگ کے مطابق اس میں آب ِ حیات، زریں شاخوں اور لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندوں کی کمی ہے۔ پہلے میرے بھائی یہ کمی پوری کرنے نکلے تھے لیکن بد سحر کا شکار ہو گئے۔ اب میں اس بد سحر سے بچ کر یہاں تک پہنچی ہوں۔“

    یہ سن کر پرندے ایک ایسی زبان میں باتیں کرنے لگے جو مایا کے لیے اجنبی تھی۔ کچھ دیر بعد انہی پرندوں میں سے ایک نوجوان جوڑا آگے بڑھا اور اس کے بالکل قریب آ کر بولا: ” ہم آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ ہم دونوں عبادت گاہ کے کسی ایک جھروکے میں بسیرا کریں گے، اپنی نسل بڑھائیں گے اور پھر مل کر اس عبادت گاہ کے ہر دروازے، ہر منڈیر پر بیٹھ کر اس میں آنے والوں کے لیے ان کی ہی زبان میں چہچہا کر ان کا استقبال کریں گے۔”
    ” چلو اٹھو، اس سے پہلے کہ سورج ڈھلنے لگے، تمہیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔“ پرندوں میں سے ایک جو قدرے بوڑھا لگتا تھا، بولا۔ مایا یہ سن کر کھل اٹھی۔ اس نے مشکیزہ کندھے پر ڈالا اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔ پرندوں کا جوان جوڑا اس کے سر پر منڈلاتا ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا۔

    واپسی کا راستہ وہی تھا جس پر چل کر وہ آئی تھی۔ وہ اپنے پچھلے سفر کی وجہ سے تھکی ہوئی تھی اس لیے جب وہ دوبارہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچی تو ہانپنے لگی۔ اس نے مشکیزہ کندھے سے اتار کر نیچے رکھا تو اس میں سے آبِ حیات کے کچھ قطرے باہر گرے۔ جہاں جہاں یہ قطرے گرے، وہاں وہاں کے پتھروں میں جان پڑ گئی اور وہ جوان لڑکوں اور دوشیزاؤں میں بدل گئے۔ مایا کو پتھروں میں قید زندگی کو چھڑانے کا طریقہ سمجھ آ گیا تھا۔ اس نے مشکیزے میں سے چلو میں پانی بھرا اور قطرہ قطرہ کر کے پتھروں پر ڈالنا شروع کر دیا۔ پرندوں کے جوڑے نے جب یہ دیکھا تو وہ بھی نیچے اترے اور چونچوں میں پانی بھر کر دور والے پتھروں پر ڈالنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں سارے پتھر زندہ ہو کر جوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بدل گئے، ان میں مایا کے تینوں بھائی بھی تھے۔
    اب جوانوں کا ایک جم غفیر تھا جو اس لڑکی کے ساتھ محل کی طرف رواں دواں تھا۔ پہاڑ کے دامن میں باریش بزرگ کی کٹیا بھی آئی۔ مایا اور اس کے بھائی اندر گئے لیکن وہ خالی تھی ، چولہا بھی سرد تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے یہ جھونپڑی مدتوں سے ویران پڑی ہو۔

    محل پہنچ کر مایا نے دیر نہ لگائی۔ وہ فوراً ہی عبادت گاہ کے سامنے والے مرکزی باغ میں گئی۔ زریں شاخوں اور لافانی پھولوں والے درخت کی ٹہنیوں کو مناسب فاصلوں پر لگایا اور انہیں آبِ حیات سے سینچا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹہنیاں تناور درختوں میں بدل گئیں اور ان کی زریں شاخیں لافانی خوب صورتی و خوشبو والے پھولوں سے لَد گئیں۔ پرندوں کے جوڑے نے بھی عبادت گاہ کے مرکزی دروازے کے پاس ایک بڑے جھروکے میں اپنا گھونسلہ بنایا اور چونچیں لڑانے لگے۔ مایا نے مشکیزے میں بچا پانی عبادت گاہ سے ملحقہ حوض جس کے نیچے ایک کنواں تھا، میں انڈیل دیا۔

    جلد ہی مایا، محل، عبادت گاہ، آب ِحیات والے حوض ، زریں شاخوں اور لافانی خوب صورتی و خوش بو والے پھولوں سے لدے درختوں اور بولنے والے پرندوں، جو ایک سے کئی جوڑوں تک نسل بڑھا چکے تھے، کی شہرت مملکت قیطولونیا کی سرحدوں سے باہر جا نکلی اور بدیس سے آنے والے سیاحوں کا تانتا بندھ گیا۔ چاروں بہن بھائی شاہی خاندان سے تو نہیں تھے لیکن لوگ انہیں شہزادے اور شہزادی ہی گردانتے اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے۔

    پھر ایک روز ایسا ہوا کہ ان عجائب کو دیکھنے کے لیے آنے والوں میں اِک جوان بھی شامل تھا۔ وہ ملحقہ مملکتِ یونان کا ولی عہد تھا۔ اس نے ان بہن بھائیوں کی پوری داستان سن رکھی تھی کہ وہ غربت سے کیسے نکلے اور موجودہ مقام تک کیسے پہنچے، مایا نے کس طرح حوصلہ مندی ، جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بھائیوں کو بچایا اور آب ِحیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کیے تھے۔ اس کے دل میں تمنا جاگی کہ وہ ان سے ملے۔

    مایا اور اس کے بھائیوں سے ملاقات کے دوران ولی عہد اپنا دل مایا کو دے بیٹھا۔ واپس جا کر اس نے اپنے والدین کو بتایا اور مایا سے شادی کرنے کی اجازت مانگی اس پر اس کا باپ ، یونان کا بادشاہ بولا؛ ” کیا مایا قیطولونیا کے شاہی خاندان سے ہے؟“
    ” نہیں ،لیکن اس کا گھرانہ شاہی خاندان سے کم بھی نہیں ہے۔“ ولی عہد نے جواب دیا۔
    ”کیا یہ بہن بھائی ہماری طرح دیوتاﺅں اور دیویوں کو مانتے ہیں؟ کیا ان کا خدا بھی زیوس ہے یا وہ رومن لوگوں کی طرح جیوپیٹر کو اپنا خدا مانتے ہیں؟“ ولی عہد کو اس بارے میں کچھ پتہ نہ تھا۔ ہرکارے دوڑائے گئے کہ وہ یہ خبر لا کر دیں کہ بہن بھائیوں کاعقیدہ کیا تھا۔ خبر یہ آئی کہ وہ اصلاً پرومیتھیس کے پیرو کار تھے لیکن جب سے انہوں نے ایک بوڑھی عورت کے کہنے پر کُل جہاں کے لوگوں کے لیے عبادت گاہ بنائی تھی، تب سے وہ فقط پرومیتھیس کے پیروکار ہی نہیں رہے تھے بلکہ اب وہ باقی دنیا میں رائج الوقت تمام عقائد، دھرم اور مذاہب کو برابر جاننے لگے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ سخت نالاں ہوا۔ اس نے ولی عہد سے کہا؛” پرومیتھیس تو وہ تھا جس نے ان کے خدا زیوس سے آگ چرائی اور غاروں میں رہنے والے انسانوں کو دی اور اس کی پاداش میں زیوس نے اسے کاکیشیا کے پہاڑ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رنجیروں میں جکڑ کر اس پر ایک عقاب چھوڑ دیا جو ہر روز اس کا کلیجہ کھاتا ہے اور ہمیشہ کھاتا رہے گا۔ تم پرومیتھیس کے پیروکار خاندان میں کیسے شادی کر سکتے ہو؟“ ولی عہد نے باپ کو سمجھانے اور منانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔

    اور پھر ایک رات ولی عہد نے باپ کے نام رقعہ چھوڑا جس میں لکھا تھا کہ اسے ولی عہدی نہیں چاہیے، اسے مایا چاہیے تھی جسے حاصل کرنے کے لیے وہ پرومیتھیس کا پیروکار بننے کے لیے بھی تیار تھا۔ وہ چپکے سے یونان چھوڑ کر قیطولونیا چلا آیا اور سیدھا بہن بھائیوں کے محل پہنچا۔ اس نے ہومر سے مایا کا ہاتھ مانگا۔ ہومر نے مایا سے پوچھا۔ مایا، جسے خود بھی یونان کا شہزادہ پسند آ گیا تھا، نے ہاں کر دی لیکن یہ شرط لگائی کہ ان کی شادی کی رسم اسی عبادت گاہ میں ادا ہو گی جو انہوں نے بنائی تھی جس میں جا کر دعا کرنے اور دوسروں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے لیے کُل عالم کا ہر بندہ بشر آزاد تھا۔

    شہزادے نے مایا کی شرط مان لی۔ زریں شاخوں والے درخت سے لافانی خوب صورتی اور خوش بو رکھنے والے پھولوں سے دو بڑی مالائیں بنائی گئیں۔ شہزادے اور مایا نے عبادت گاہ کے مرکزی بڑے کمرے میں ہوا میں اڑتے عالم گیر خوشی، محبت اور امن و آشتی کے نغمے بکھیرتے ہوئے پرندوں کے سائے تلے ایک دوسرے کو یہ مالائیں پہنائیں۔ اور پھر جب وہ دونوں تالیوں کی گونج میں تقریب میں شامل لوگوں کی طرف مڑے تاکہ سر جھکا کر ان کا شکریہ ادا کر سکیں تو مایا نے دیکھا:

    ایک کونے میں بوڑھی عورت، بوڑھا اور باریش بزرگ کھڑے تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

    (قیطولینی لوک ادب سے ماخوذ)

  • ہیرے والا شتر مرغ

    ہیرے والا شتر مرغ

    "اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ایک ایسا شترمرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پاؤنڈ لگائی گئی تھی۔ تین ہزار پاؤنڈ، سمجھے….؟” اس نے مجھے چشمے کے اوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔

    اس کا کام پرندوں کی کھال میں بھُس بھر کر اسے بیچنا تھا، اسی لیے وہ پرندوں اور ان کی قیمتوں کے قصّے سنایا کرتا تھا۔

    "تین ہزار پاؤنڈ؟” میں نے حیرت ظاہر کی۔ "کیا وہ شتر مرغ کسی نایاب نسل کا تھا؟”
    "نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ اور باقی چار شتر مرغ جن کا قصّہ سنانے والا ہوں پانچوں عام سے شترمرغ تھے، بلکہ ایک کی کھال کا رنگ بھی مناسب دانہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے اڑ گیا تھا، لیکن ان میں سے ایک شتر مرغ نے ایک نہایت قیمتی ہیرا نگل لیا تھا۔”

    "شتر مرغ نے ہیرا نگل لیا تھا؟”

    "ہاں۔” اس نے ہماری دل چسپی کو دیکھ کر پورا قصّہ سنانا شروع کیا جو یوں تھا: وہ ہیرا ایک ہندو بیوپاری کا تھا۔ اس کا نام موہن تھا۔ موہن ایک موٹا سا آدمی تھا۔ اس کی پگڑی میں وہ ہیرا لگا ہوا تھا۔ شتر مرغ نے اس کی پگڑی پر چونچ ماری اور ہیرا نگل لیا۔ جب موہن کو پتا چلا کہ کیا ہوگیا ہے تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ یہ سب کچھ ذرا سی دیر میں ہو گیا۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو سب سے پہلے وہاں پہنچے۔ دراصل ہم لوگ لندن جانے کے لیے ایک بحری جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو موہن، دو ملاحوں اور شتر مرغ کے رکھوالے کے درمیان اچھی خاصی گرما گرمی ہو رہی تھی، بلکہ شتر مرغ کا رکھوالا تو ہنستے ہنستے دہرا ہوا جا رہا تھا۔

    یہ پانچوں شتر مرغ لندن جانے کے لیے بحری جہاز پر پہنچائے جا رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے پاس کھڑے ہوئے ایک ہندو بیوپاری موہن کی پگڑی میں لگا ہوا ہیرا نگل لیا۔ اس وقت شتر مرغوں کا رکھوالا وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد پہنچا۔ اس لیے اسے بھی پتا نہ تھا کہ کون سے شتر مرغ نے ہیرا نگلا ہے۔ بہرحال ہم سب بحری جہاز پر سوار ہو گئے اور جہاز لندن کے لیے روانہ ہو گیا۔ شتر مرغ بھی جہاز پر سوار تھے۔

    بحری جہاز پر اس قسم کی خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد تمام مسافروں کو اس بات کا پتا لگ گیا کہ جہاز پر سوار شتر مرغوں میں سے ایک کے پیٹ میں ایک ہیرا موجود ہے جو اس نے ایک مسافر کی پگڑی سے اچک لیا تھا۔

    ہر شخص اسی کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ موہن اپنے جذبات چھپانے کے لیے اپنے کیبن میں چلا گیا، لیکن رات کے کھانے پر جب سب مسافر جہاز کے کھانے کے کمرے میں جمع ہوئے تو موہن ایک میز پر جہاز کے کپتان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

    موہن نے کپتان پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کا ہیرا واپس دلوائے۔ اس کا کہنا تھا میں وہ شتر مرغ نہیں خریدوں گا بلکہ مجھے میرا قیمتی ہیرا دلوانا کپتان کا فرض ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے میرا ہیرا واپس نہ ملا تو میں لندن پہنچ کر پولیس میں شکایت درج کروں گا۔ لہذا بہتر ہے کہ شترمرغوں کو کوئی دوا کھلا کر ہیرا حاصل کیا جائے۔
    اُدھر شتر مرغوں کا رکھوالا بھی ایک ضدی آدمی نکلا۔ اس نے کہا کہ میں شتر مرغوں کو دوا دے کر ہیرا حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں شتر مرغوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ صرف رکھوالا ہوں اور مجھے سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ شتر مرغوں کو صرف فلاں فلاں چیز کھلائی جائے اور انھیں فلاں فلاں طریقے سے رکھا جائے۔ جب کہ موہن کا کہنا تھا کہ چوں کہ شتر مرغوں میں سے ایک نے اس کا ہیرا نگل لیا ہے، اس لیے اب وہ جس طرح چاہے ہیرا نکال سکتا ہے، چاہے ان کا پیٹ کاٹ کر ہی کیوں نہیں نکالا جائے۔

    اس طرح یہ مسئلہ ایک قانونی شکل اختیار کر گیا تھا، لیکن جہاز پر کوئی وکیل موجود نہ تھا، اس لیے ہر مسافر اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ مسافروں میں سے اکثر کا کہنا یہ تھا کہ موہن کو شتر مرغ خرید لینے چاہییں، پھر اس کا جو جی چاہے ان کے ساتھ کرے۔

    جہاز عدن کی بندرگاہ پر رکا اور جب وہاں سے چلا تو رات کے کھانے پر موہن نے مسافروں کی بات مان لی اور پانچ کے پانچ شتر مرغ خریدنے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن اگلی صبح ناشتے پر صورتحال پھر بدل گئی، کیوں کہ شتر مرغوں کے رکھوالے نے اعلان کیا کہ وہ ان کا مالک نہیں ہے اس لیے وہ انہیں کیسے بیچ سکتا ہے؟ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مالک سے پوچھے بغیر شتر مرغ بیچنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

    اس پر ایک مسافر کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام پوٹر تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ شتر مرغوں کے رکھوالے کو میں نے بھی اچھی خاصی رقم کی پیشکش کی تھی، لیکن وہ شتر مرغ بیچنے پر تیار نہیں تھا، اس لیے جب جہاز عدن پر ٹھہرا تھا تو میں نے وہاں سے شتر مرغ کے مالک کو لندن میں تار دے کر تمام شتر مرغ خریدنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کا جوابی تار مجھے جہاز کی اگلی منزل یعنی سویز پر مل جائے گا۔ یہ سن کر موہن نے پوٹر کو سب کے سامنے برا بھلا کہا۔ اس کی صورت دیکھنے والی تھی، لیکن باقی سب مسافر پوٹر کو ایک ہوشیار آدمی مان گئے۔

    جب جہاز سویز پہنچا تو پوٹر کے تار کا جواب لندن سے آ چکا تھا۔ شتر مرغ کے مالک نے انہیں پوٹر کے ہاتھ فروخت کرنے کی ہامی بھر لی تھی۔ اب پوٹر شتر مرغوں کا مالک بن چکا تھا۔ یہ خبر سن کر موہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آخر اس نے پوٹر سے کہا میں شتر مرغ تم سے خریدنے کے لیے تیار ہوں۔ تم فی شتر مرغ پانچ سو پاؤنڈ کے حساب سے پانچ شتر مرغوں کے ڈھائی ہزار پاؤنڈ لے لو۔ اس پر پوٹر نے کہا کہ میں نے یہ شتر مرغ بیچنے کے لیے نہیں خریدے۔ میرا ارادہ ان کے پیٹ چاک کر کے ہیرا تلاش کرنے کا ہے۔
    لیکن بعد میں پوٹر کا ارادہ بدل گیا اور اس نے شتر مرغ نیلام کرنے کا اعلان کیا، لیکن اس نے ایک شرط بھی رکھی۔ وہ یہ کہ کسی شخص کے ہاتھ ایک سے زیادہ شتر مرغ فروخت نہیں کیے جائیں گے اور ایک شتر مرغ وہ اپنے لیے رکھے گا تاکہ قسمت آزما سکے۔ کیا پتا ہیرا اسی میں سے نکلے۔

    وہ ہیرا بہت قیمتی تھا۔ ہمارے ساتھ بحری جہاز پر ہیروں کا ایک یہودی تاجر بھی سفر کر رہا تھا۔ جب موہن نے اسے اس ہیرے کے بارے میں بتایا کہ کیسا تھا اور کتنا بڑا تھا تو اس نے اس کی قیمت اندازاً چار سے پانچ ہزار پاؤنڈ بتائی۔ جب جہاز کے مسافروں کو ہیرے کی قیمت کا پتا چلا تو وہ بے چینی سے نیلامی کا انتظار کرنے لگے جو اگلے دن ہونے والی تھی۔

    اب اتفاق کی بات کہ شتر مرغ کے رکھوالے سے مجھے باتوں باتوں میں پتا چلا کہ ایک شتر مرغ بیمار ہے اور اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔ اس شتر مرغ کی دُم کے پروں میں سے ایک پر بالکل سفید تھا جو شاید بیماری کی وجہ سے ہوگیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ وہی شتر مرغ ہے جس کے پیٹ میں ہیرا ہے اور اسی لیے اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔

    اگلے روز جب نیلامی شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہی شتر مرغ لایا گیا۔ بولی آٹھ سو پاؤنڈ سے شروع ہوئی۔ موہن نے فورا ساڑھے آٹھ سو کی بولی دی جس کے جواب میں، مَیں نے نو سو پاؤنڈ کی آواز لگائی۔ مجھے یقین تھا کہ ہیرا اسی شتر مرغ کے پیٹ میں ہے اور اتنے زیادہ بھاؤ یعنی نو سو پاؤنڈ سے کوئی آگے نہیں بڑھے گا، لیکن موہن بالکل باؤلا ہو گیا تھا۔ اس نے اندھا دھند بولی بڑھانی شروع کی۔ ہیروں کا یہودی تاجر بھی بڑھ چڑھ کر بولی لگا رہا تھا۔ اس نے بولی ایک ہزار سات سو پاؤنڈ تک پہنچا دی۔ اس موقعے پر پوٹر نے اس کے حق میں بولی ایک دو تین کہہ کر ختم کر دی۔ موہن نے ایک ہزار آٹھ سو کی آواز لگائی، لیکن تب تک پوٹر تین کہہ چکا تھا۔ موہن ہاتھ ملتا رہ گیا۔

    یہودی تاجر نے پوٹر کو شتر مرغ کی قیمت ادا کی اور اسی وقت پستول نکال کر شتر مرغ کو گولی مار دی۔ اس پر پوٹر نے خوب شور مچایا اور کہا کہ اگر شتر مرغ کو اسی وقت کاٹا گیا تو اس سے نیلامی پر برا اثر پڑے گا، کیوں کہ اگر اس میں سے ہیرا نکل آیا تو میرے باقی شترمرغ کوئی نہیں خریدے گا، لیکن ہم سب ہیرا دیکھنے کے لیے اس قدر بے چین تھے کہ سب نے سنی ان سنی کر دی۔ شتر مرغ کو چیرا پھاڑا گیا، لیکن اس میں سے کچھ نہ نکلا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ میرا نقصان ہوتے ہوتے رہ گیا، کیوں کہ میں خود اس شتر مرغ کی ایک ہزار چار سو پاؤنڈ قیمت لگا چکا تھا۔

    یہودی تاجر نے کسی خاص افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ پوٹر نے یہ کہہ کر نیلامی بند کر دی کہ جب تک سارے شترمرغ نہیں بک جاتے وہ کسی کو شتر مرغوں کی چیر پھاڑ نہیں کرنے دے گا، لیکن یہودی تاجر کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص ایک چیز خریدتا ہے تو اس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ جب اور جیسا چاہے سلوک کرے۔ بات بڑھ گئی اور گرما گرمی ہونے لگی تو نیلامی اگلی صبح تک روک دی گئی۔ رات کو کھانے کی میز پر شتر مرغوں کی نیلامی کے بارے میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کچھ نے تو جہاز کے کپتان سے یہ بھی کہا کہ اس نیلامی کو روک دیا جائے، کیوں کہ اس طرح سے ہیرا بیچنا ایک طرح کا جوا ہے، لیکن پوٹر کا کہنا تھا کہ ہیرا نہیں بیچ رہا۔ میں تو صرف شتر مرغ بیچ رہا ہوں۔

    آخر کپتان نے اعلان کیا کہ جہاز پر شترمرغ کی خرید و فروخت کی اجازت ہے، لیکن شتر مرغوں کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب کوئی شخص شتر مرغوں کو نہ تو جہاز پر ہلاک کرے گا اور نہ ان کی چیر پھاڑ کرے گا۔ لندن پہنچنے کے بعد جہاز سے اتر کر مسافروں کا جو جی چاہے شتر مرغوں کے ساتھ کریں۔

    اگلی صبح جب نیلامی شروع ہوئی تو ہر شخص کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شتر مرغ پانچ کے بجائے اب چار رہ گئے ہیں، اس لیے کسی ایک شتر مرغ سے ہیرا نکلنے کا امکان اب پہلے سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بولی کل سے بھی زیادہ پر شروع ہوئی۔ میرے پاس پیسے کم تھے اس لیے میں تو پیچھے ہٹ گیا۔ ایک شتر مرغ دو ہزار پاؤنڈ کا بکا۔ ایک کی قیمت دو ہزار تین سو پاؤنڈ لگائی گئی۔ جب کہ تیسرا ڈھائی ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوا، لیکن عجیب بات تھی کہ موہن نے ان میں سے ایک بھی نہیں خریدا، بلکہ جب بولی لگائی جا رہی تھی تو وہ ایک کونے میں بیٹھا لندن پہنچ کر پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی باتیں کر رہاتھا اور قانونی نکتے اٹھا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ ساری نیلامی غیرقانونی ہے۔

    فروخت ہونے والے تین شتر مرغوں میں سے ایک اُسی یہودی تاجر نے خریدا۔ ایک شتر مرغ ایک افسر نے خریدا جو جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ تیسرا اس جہاز کے انجینئروں نے آپس میں پیسے جمع کر کے خرید لیا۔

    جب نیلامی ختم ہوئی تو پوٹر اُداس ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے شتر مرغ بیچ کر بے وقوفی کی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے لیے جو شترمرغ رکھا تھا وہ بھی اس نے ایک مسافر کو تین ہزار پاؤنڈ میں رات ہی بیچ دیا تھا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس میں بے وقوفی کی کیا بات ہے۔ جو شتر مرغ اس نے زیادہ سے زیادہ آٹھ سو پاؤنڈ میں خریدے ہوں گے وہ اس نے ایک ایک کر کے ساڑھے گیارہ ہزار پاؤنڈ میں بیچ دیے۔

    آخر جہاز لندن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ سارے مسافر اترنے شروع ہوئے۔ شتر مرغ بھی اتارے گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں وہیں چیرنے پھاڑنے کا ارادہ کیا لیکن بندرگاہ کے افسروں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ موہن پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑتا پھر رہا تھا۔ جن لوگوں نے شتر مرغ خریدے تھے وہ ان سے ان کے نام اور پتے پوچھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ان کے خریدے ہوئے شتر مرغ سے ہیرا نکل آئے تو مجھے خط لکھ کر بتائیں، لیکن کسی نے بھی اسے اپنا نام پتا نہیں دیا۔ موہن نے پوٹر کو بھی برا بھلا کہا لیکن پوٹر نے اپنا سامان اٹھایا اور چل پڑا۔ باقی مسافر بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں لدوایا اور وہ بھی چل پڑے۔

    یہ کہہ کر وہ چپ ہو گیا اور ایک پرندے کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔ میں نے بے صبری سے کہا، "پھر کیا ہوا؟ ہیرا کون سے شتر مرغ میں تھا؟”

    وہ مسکرایا اور بولا، "میرے خیال سے کسی میں بھی نہیں۔”

    "وہ کیوں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

    اس نے بتانا شروع کیا، "یہ بات مجھے کبھی معلوم نہ ہوتی اور میں یہی سمجھتا رہتا کہ موہن کا ہیرا کسی شتر مرغ نے نگل لیا تھا، لیکن اتفاق کی بات ہے کہ لندن پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ میں خریداری کر رہا تھا کہ مجھے موہن اور پوٹر نظر آئے۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، بہت خوش خوش، مسکراتے ہوئے جا رہے تھے۔ دونوں نے بہت عمدہ اور مہنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں چُپ چاپ انہیں دیکھنے لگا۔ انہوں نے کوئی چیز خریدی۔ موہن نے پیسے دینے کے لیے بٹوا نکالا تو وہ نوٹوں سے ٹھنسا ٹھس بھرا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا کہ دونوں کو کہیں سے بہت سا رُپیہ ہاتھ لگا ہے۔”

    میں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا، "بہت خوب! تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شتر مرغ نے کوئی ہیرا نہیں نگلا تھا۔ موہن اور پوٹر دونوں ساتھی تھے اور انہوں نے اس طرح نیلامی کے ذریعے سے ہزاروں پاؤنڈ بٹور لیے۔”

    اس نے مسکرا کر "ہاں” کہا اور سَر جھکا کر پرندوں کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔


    (مصنّف: ایچ جی ویلز​، ترجمہ: رؤف پاریکھ​)

  • استاد کی شکست (ایک سبق آموز کہانی)

    استاد کی شکست (ایک سبق آموز کہانی)

    کسی اسکول کے طلباء ایک روز کرکٹ کے میدان میں‌ جمع تھے۔ انھیں اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے استاد کو بھی میدان میں اترنے کی دعوت دیں، کیوں کہ وہ کرکٹ کے کھیل کا بہت شوق رکھتے تھے اور انھیں کئی ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے ریکارڈ اور ان کے بارے میں بہت سی معلومات بھی تھیں۔ طلباء دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے استاد خود کتنے اچھّے کھلاڑی ہیں۔

    چند لڑکے اپنے استاد کے پاس گئے اور انھیں کہا، سَر آج آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں۔ استاد نے فوراً ہامی بھر لی اور ان کے ساتھ میدان میں چلے آئے۔

    کھیل شروع ہوا تو دیگر کلاسوں کے طلباء بھی میدان میں اکٹھے ہوگئے۔ چوں کہ بچّے اپنے اساتذہ سے بہت محبّت کرتے ہیں اور اپنے درمیان ان کی موجودگی اور دوستانہ تعلق انھیں زیادہ پُرجوش اور جذباتی بنا دیتا ہے، اسی لیے آج سب کی توجہ استاد پر تھی۔ پانچ گیندوں پر استاد نے صرف دو رن بنائے اور چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے۔ طلباء نے شور مچا کر بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔

    دوسرے دن کلاس میں استاد نے پوچھا کون کون چاہتا تھا کہ وہ مجھے ضرور آؤٹ کرے؟

    سب بولروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ استاد مسکرائے اور پوچھا، یہ بتاؤ میں کرکٹر کیسا ہوں..؟

    سب نے یک زباں ہوکر کہا ،بہت برے۔

    پوچھا، اچھا میں استاد کیسا ہوں۔

    جواب ملا بہت اچھے۔

    استاد نے ہنستے ہوئے کہا، صرف آپ نہیں آپ سے پہلے بھی میں نے جن بچّوں کو پڑھایا اور آج وہ عملی زندگی کا آغاز کرچکے ہیں، سب مجھے ایک اچھا استاد مانتے ہیں۔ آج میں راز کی ایک بات بتاؤں کہ میں جتنا اچھا استاد ہوں، اتنا اچھا طالبِ علم کبھی نہیں رہا۔ مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور بات سمجھنے میں وقت لگتا تھا لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں اس کے باوجود مجھے اچھا استاد کیوں مانا جاتا ہے..؟

    سَر آپ بتائیں، ہمیں نہیں معلوم، طلباء نے کہا۔

    اس پر استاد نے انھیں ایک واقعہ سنانا شروع کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن میں اپنے ٹیچر کے گھر دعوت کی تیاری میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ فریزر سے برف نکالی، جسے توڑنے کے لیے کمرے میں کوئی چیز نہیں تھی۔ استاد کام کے لیے کمرے سے نکلے تو میں نے مکا مار کر برف توڑ دی اور استاد کے آنے سے پہلے جلدی سے ٹوٹی ہوئی برف دیوار پر بھی دے ماری…

    دوستو، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب میں برف توڑ چکا تھا، تو پھر یہ حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس کا جواب آپ کو ابھی مل جائے گا۔

    استاد کمرے میں آئے تو وہی محسوس کیا جو میں چاہتا تھا، انھوں نے دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے۔ مجھے ڈانٹنے لگے اور کہا کہ تمہیں عقل کب آئے گی، یوں برف توڑی جاتی ہے، میں نے ان کی ڈانٹ خاموشی سے سنی اور وہ دن گزر گیا۔ بعد میں انھوں نے میری اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا۔ لیکن یہ راز آج تک نہیں جان سکے کہ برف تو میں نے اپنی جسمانی طاقت سے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے توڑی تھی ۔

    یہ بات میں نے انھیں اس لیے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں، میں نے جوانی کے جوش میں مکا مار کر برف توڑ دی، لیکن جب ان کی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ کہیں میرے طاقت کے مظاہرے سے انھیں احساسِ کمتری نہ ہو، اس لیے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور کئی سال تک ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔

    جب میں‌ آپ کے درمیان میدان میں موجود تھا اور بیٹنگ کر رہا تھا، تو میں نے غور کیا کہ آپ سب ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سَر کو آؤٹ کرو۔ یاد رکھو جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا، کبھی ہارنے سے بھی زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں۔ آپ طاقت میں اپنے اساتذہ اور والدین سے بے شک آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن زندگی میں کبھی اپنے اساتذہ اور والدین کو ہرانے کی کوشش مت کیجیے گا۔ اللہ پاک آپ کو ہر میدان میں سرخرو کرے گا۔