Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    حضرت شیخ سعدی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کسی قاضی کی عدالت میں ایک علمی نکتہ پر گفتگو ہورہی تھی۔ اسی دوران ایک مفلوک الحال شخص عدالت میں داخل ہوا اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا۔

    حاضرینِ مجلس نے اس کی ظاہری وضع قطع اور پھٹے حال کو دیکھ کر خیال کیا کہ وہ کوئی معمولی انسان ہے۔ انھوں نے اسے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی۔ وہ درویش اس رویّے سے دلبرداشتہ ہوا، مگر خاموش رہا اور جس علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی، وہ جاری رہی۔ درویش نے دیکھا کہ جب اہلِ مجلس اس مسئلے کا مناسب اور منطقی حل بتانے میں ناکام ہوگئے تو ان میں اشتعال پیدا ہو گیا اور وہ ایک دوسرے کو لاجواب کرنے لگے۔ وہ درویش اس دوران خاموش بیٹھا یہ سب دیکھتا اور ان کے دلائل اور گفتگو سنتا رہا اور پھر بلند آواز سے بولا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں۔ قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔ اس نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلے کا حل بتایا تو اہلِ مجلس حیران رہ گئے۔ وہ اس کی دلیل اور منطق سے قائل ہو چکے تھے۔

    اچانک حاضرین کو درویش کی علمی قابلیت کا اندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال شخص بہت بڑا عالم ہے اور ہم نے اس کو سمجھنے میں‌ غلطی کی ہے۔ اس موقع پر قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کر اس درویش کو دی اور کہنے لگا کہ صد افسوس! ہم آپ کے علمی مقام اور مرتبے سے آگاہ نہ ہوسکے۔ آپ اس دستار کے زیادہ حق دار ہیں۔ درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کر دیا اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا کہ میں غرور و تکبر کی اس نشانی کو ہرگز اپنے سر پر نہ رکھوں گا۔ یاد رکھو کہ انسان کا رتبہ اس کے علم سے معلوم ہوتا ہے اور صرف دستار سَر پر رکھنے سے کوئی عالم اور منصف نہیں بن جاتا۔

    حضرت شیخ سعدی ؒ نے اس حکایت میں علم کی فضیلت بیان کی ہے اور یہ واقعہ انہی کا ہے۔ اس مفلوک الحال کے روپ میں‌ دراصل آپ ہی اس عدالت میں‌ موجود تھے۔ ان کی یہ حکایت انہی کی مشہور تصنیف ”بوستان اور گلستان“ دونوں میں شامل ہے۔

  • سچی دوستی!

    سچی دوستی!

    شہر سے دور گھنے جنگل میں ایک پیڑ پر ایک بندریا اپنے بچّوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس پیڑ کی چھاؤں تلے ایک ہرنی کا اپنے بچوں سمیت بسیرا تھا۔ ہرن اور بندریا دونوں پکی سہلیاں تھیں۔

    دونوں جنگل میں گھوم کر اپنے بچّوں کے لیے پھل پھول اکٹھا کرتیں۔ اچھے پکے پھل ملتے تو دونوں اپنے بچّوں کو بانٹ کر کھلاتیں۔ پیڑ کے قریب سے ایک ندی گزرتی تھی جس کا پانی میٹھا اور صاف تھا۔ بہت سارے چرند و پرند، جنگلی جانور اپنی پیاس بجھانے ندی کے کنارے آتے۔

    ہر روز شام ڈھلے شیروں کے قافلے کی آہٹ پاتے ہی پھڑپھڑا کر سارے پرندے اڑ جاتے۔ بندریا ہرنی کواپنے مخصوص کھیں کھیں کی آواز نکال کر چوکنا کر دیتی۔ پھر ہرنی اپنے بچّوں کو خاموش رہنے کے اشارے کرتی۔

    دن یونہی گزر رہے تھے۔ دونوں کے بچّے بھی بڑے ہو رہے تھے۔ لیکن بچّے بڑے شریر تھے۔ ہرنی کا ایک بچّہ جس کا نام سونو تھا وہ خوب دھما چوکڑی مچاتا۔ اسے اپنی خوبصورت کھال اور نازک خدوخال پر بڑا گمان تھا اور وہ بہت مغرور بھی تھا۔ بندریا کے شرارتی بچّے مونو سے سونو کی کبھی نہیں بنتی تھی۔ اکثر دونوں میں تیر بھاگنے کا مقابلہ ہوتا۔ مونو ڈالیوں میں جھولتا، ہوا میں ایک ڈال سے دوسری ڈال پر چھلانگ لگا کر دُم لہراتے بہت آگے نکل جاتا۔ پھر ٹھہر کر سونو کا انتظار کرتا۔ سونو کو مونو کی یہ عادت بالکل پسند نہیں آتی۔ وہ ناراض ہوجاتا اور دونوں لڑتے جھگڑتے اپنی اپنی ماں کے پاس واپس آجاتے۔

    اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہرنی کا بچّہ سونو، بندریا کے بچّے مونو کی دُم پیر سے دبا دیتا، پھل چھین کر کھا لیتا، دونوں کی شرارتیں اتنی کہ مونو ڈالیوں پر جھولتے ہوئے سونو کو دھڑام سے دھکیل کر یہ جا وہ جا ہو جاتا۔ اس کی سنہری کھال جس پر سونو کو بڑا غرور تھا، مسل دیتا۔ یہ سب روز کے معمول تھے۔ دونوں کی ماں بچّے کے جھگڑے سلجھاتیں۔ مگر ہرنی اور بندریا کی دوستی میں کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    ایک دن کی بات ہے کہ ہرنی جنگل کی طرف کیا نکلی، کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ بندریا کئی دنوں تک اسے ڈھونڈتی رہی۔ پھر تھک ہار کر واپس آگئی۔ خوب روئی۔ اب اس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ اپنی ہرنی سہیلی کے بچّوں کا پہلے سے زیادہ وہ خیال رکھتی۔ انہیں بھوکا نہیں چھوڑتی۔ خوب دلار پیار کرتی بالکل اپنے بچّوں کے برابر مگر سونو ہمیشہ مونو سے جھگڑے پر اتاولا رہتا۔ جنگل کے دیگر سبھی جانور دونوں کی شرارتوں سے واقف تھے۔

    جنگل میں ایک دن راج ہنس نے سبھی چرند و پرند کو اکٹھا کر کے کہا کہ بہت دن ہوگئے، کوئی جشن یا کھیل کا مقابلہ نہیں ہوا۔ بہار کے اس موسم میں کچھ تفریحی پروگرام ہونا چاہیے۔ سبھی نے راج ہنس کی بات کی تائید کی۔ راج ہنس ہمیشہ ایسے تفریحی پروگرام منعقد کرتا جس میں کھانے پینے کا بھی خوب انتظام رہتا۔

    کئی دنوں کی تیاری کے بعد جشن کا آغاز جنگل کے اندر ایک ہرے بھرے میدان میں ہوا۔ سب اکٹھا ہوئے خوب کھیل تماشہ اور مقابلہ ہوا۔ ہر جیتنے والے کو پکے پھل ملتے، خوب تالیاں بجتیں۔ سونو اور مونو کے درمیان حسن اور قابلیت کا مقابلہ ہوا۔ جج راج ہنس کے مطابق سونو حسین اور مونو ذہین قرار دیا گیا۔ شام ہوئی مقابلہ ختم ہوا سب خوشی خوشی اپنے بسیروں کی جانب چل پڑے۔ سونو اس فیصلے سے بالکل متفق نہ تھا وہ تلملایا ہوا تھا۔ اسے حسین اور ذہین دونوں کا خطاب اپنے نام چاہیے تھا وہ ہرگز مونو کو کسی خطاب کا حق دار نہیں سمجھتا تھا۔ اپنے بسیرے کے قریب پہنچتے ہی مونو نے سونو کو کھیں کھیں کر کے چڑھا دیا۔ اب وہ پیڑ پر جست لگانا ہی چاہتا تھا کہ سونو نے مونو کی لمبی لہراتی دم کو دانت سے پکڑ کر چبا دیا۔ چیخ پکار مچاتا مونو پیڑ پر چڑھ گیا۔ پھر بندریا نے جنگل سے ایک بوٹی لاکر اس کی دُم پر لگائی۔ مگر کوئی افاقہ نہ ہوا وہ رات بھر درد سے تڑپتا اور یہی سوچتا رہا کہ موقع ملتے ہی وہ سونو سے بدلہ ضرور لے گا۔

    ایک دن کی بات ہے کہ بندریا جنگل میں کہیں گئی ہوئی تھی۔ بندریا کا زخمی بچّہ مونو پیڑ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نظر ایک شکاری کے جال پر پڑی۔ وہ دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔ کیونکہ سونو بڑی اداؤں کے ساتھ بے فکری سے قریب ہی ٹہل رہا تھا۔ وہ شکاری کے جال کی طرف جا نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے جال میں پھنس گیا۔ شکاری جھٹ پھٹ اسے لے کر نکلنے ہی والا تھا کہ مونو کے دل میں سونو کے لیے ہمدردی کا ایک ایسا جذبہ بیدار ہوا جس میں احسان مندی بھی تھی اور پڑوسی کے حق کی ادائیگی بھی۔ مونو کو یاد آیا کہ وہ ایک دن کیچڑ میں گر گیا تھا تو سونو نے اپنی زبان سے اس کا جسم صاف کیا اور اس کی ماں کے پاس لے کر آیا تھا۔

    دفعتاً بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وہ ڈالیوں میں جھولتا، ہواؤں میں جست لگاتا شکاری پر حملہ آور ہوا اور غصے میں جال کو جگہ جگہ سے پھاڑ کر رکھ ڈالا اور اپنے پڑوسی کی جان بچا کر واپس اپنے بسیرے پر لے آیا۔

    مصنّف: شمع اختر کاظمی (بھارت)

  • انگوٹھی اور بانسری

    انگوٹھی اور بانسری

    پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے۔ ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی۔ عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا۔ عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا جب کہ مانی فنِ سپاہ گری سیکھ رہا تھا تاکہ شاہی فوج میں شامل ہو کر اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔

    یوں تو عدنان تجارت کا مال لے کر اپنے باپ کے ساتھ ہی سفر پر روانہ ہوتا تھا مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اس کا باپ بیمار پڑ گیا۔ وہ کافی کم زور بھی ہوگیا تھا اس لیے اسے آرام کی ضرورت تھی۔ عدنان نے سوچا کہ اس مرتبہ وہ اکیلا ہی تجارت کا مال لے کر نکل جائے۔

    اس کے ارادے کی خبر مانی کو ملی تو وہ بھی گھومنے پھرنے کی غرض سے اس کے ساتھ ہو لیا۔ ان کے سفر پر جانے کی وجہ سے ان کے گھر والے فکر مند ہوگئے تھے کیوں کہ ان دنوں بہت ہی خطرناک اور ظالم ڈاکوؤں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ وہ سنسان جگہوں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تھا تو اسے قتل بھی کر دیتے تھے۔ دونوں دوستوں نے اپنے گھر والوں کو تسلی دی اور بیٹھ کر یہ منصوبہ بنانے لگے کہ خدانخواستہ اگر کبھی انھیں ڈاکوؤں نے گھیر لیا تو وہ کیا کریں گے۔

    سفر کے دوران انھیں کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ بڑے آرام سے اس ملک میں پہنچ گئے جہاں عدنان کو اپنا تجارتی مال فروخت کرنا تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کا سارا سامان فروخت ہوگیا۔ اس تجارت میں اسے بہت فائدہ ہوا تھا۔ وہ دونوں جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ پورا ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کی واپسی کی تیاری شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بہت سے تحفے تحائف بھی خریدے تھے۔

    سفر کے لیے ان کے پاس ان کے گھوڑے تھے۔ عدنان کے گھوڑے پر دو چمڑے کے تھیلے لٹکے ہوئے تھے جو سونے کی اشرفیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ اشرفیاں اسے اپنا مال بیچ کر حاصل ہوئی تھیں۔ مانی کے پاس بھی چند سو اشرفیاں تھیں جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لے کر نکلا تھا تاکہ سفر میں اس کے کام آسکیں۔ اس کی اشرفیاں اور تحفے تحائف کے تھیلے بھی اس کے گھوڑے پر لدے ہوئے تھے۔

    دو دن اور ایک رات کی مسافت کے بعد وہ اپنے ملک میں داخل ہوگئے۔ اب ان کا تھوڑا ہی سا سفر باقی تھا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو پہنچ جاتے۔ اچانک انہوں نے سامنے سے دھول اڑتی دیکھی۔ ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ اس دھول کو دیکھ کر اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سن کر دونوں دوست گھوڑوں سے اتر گئے اور تشویش بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

    تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بہت سے گھڑ سوار ان کے نزدیک پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ وہ لوگ شکل و صورت سے ڈاکو لگتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلواریں تھیں۔

    سب سے آگے خوفناک شکل اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک لحیم شحیم شخص تھا۔ وہ ان کا سردار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ایک خوفناک قہقہ بلند کیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا ۔ “شکل سے یہ لوگ امیر زادے لگتے ہیں۔ سارا مال ان سے چھین لو۔ مزاحمت کریں تو قتل کر دو۔ ”

    عدنان اور مانی ماہر تلوار باز تھے اور بہادر بھی بہت تھے۔ لیکن اتنے بہت سے ڈاکوؤں سے وہ لوگ ہرگز نہیں جیت سکتے تھے۔ عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “ہم دو ہیں اور تم لوگ بہت سارے۔ عقل کا تقاضہ ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ نہ کریں۔ تم ہمارا مال لے لو اور ہمیں جانے دو۔ ”

    ڈاکوؤں کا سردار ایک مرتبہ پھر بلند آواز میں ہنسا۔ پھر اس کا اشارہ پا کر اس کے دو ساتھی گھوڑوں سے اترے اور ان کے گھوڑوں کی طرف بڑھے تاکہ ان پر لدے سامان پر قبضہ کر سکیں۔

    مانی کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی۔ عدنان کے ہاتھ میں ایک بانسری تھی۔ ڈاکوؤں کو آتا دیکھ کر اس نے یہ بانسری اپنی جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔ جب ڈاکو ان کے تھیلے گھوڑوں سے اتار کر اپنے قبضے میں لے رہے تھے تو مانی نے اپنی انگوٹھی انگلی سے اتاری اور اسے زمین پر پھینک کر اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ عدنان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بانسری جلدی سے اپنے لباس کی جیب میں چھپا لی۔

    دونوں ڈاکو تو اپنے کام میں مصروف تھے مگر ڈاکوؤں کے سردار نے دونوں کی یہ حرکت دیکھ لی تھی۔ وہ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھا۔ اس نے مانی کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹایا اور زمین سے انگوٹھی اٹھالی۔ پھر اس نے عدنان کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کی بانسری بھی نکال لی اور بولا۔ “بے ایمان لڑکو۔ یہ بتاو کہ تم لوگ یہ انگوٹھی اور بانسری کیوں چھپا رہے تھے؟”

    مانی نے گڑ گڑا کر کہا۔ “اے ڈاکوؤں کے سردار۔ ہم سے ہمارا سارا مال لے لو مگر یہ انگوٹھی اور بانسری ہمیں واپس کر دو۔ ”

    ڈاکوؤں کے سردار نے غور سے انگوٹھی اور بانسری کو دیکھا اور بولا۔ “نہ تو یہ انگوٹھی سونے کی ہے اور نہ ہی بانسری پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ پھر تم لوگ ان معمولی چیزوں کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو؟”

    مانی نے بے بسی سے عدنان کو دیکھا اور بولا۔ “انگوٹھی اور بانسری کا ایک راز ہے۔ ادھر سامنے پہاڑوں کے پاس والے جنگل میں ہزاروں سال پرانا ایک درخت ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگل کا سب سے بڑا درخت ہے اور جھیل کے نزدیک ہے۔ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس انگوٹھی کو انگلی میں پہن کر اس بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔”

    مانی کی باتیں سن کر ڈاکوؤں کے سردار کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے وہ تمام کہانیاں یاد آگئیں جن میں طرح طرح کی جادو کی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ مانی کی باتوں سے اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ انگوٹھی اور بانسری جادو کی ہیں۔ اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا اور دل میں سوچنے لگا کہ وہ جنگل میں جا کراس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی پہن کر بانسری بجائے گا اور پھر دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے۔

    دونوں ڈاکو عدنان اور مانی سے لوٹا ہوا سامان اپنے گھوڑوں پر لاد چکے تھے۔ سردار نے اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ ہونے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے اپنے گھوڑے موڑے اور انھیں تیزی سے بھگاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ شکر یہ ہوا کہ انہوں نے عدنان اور مانی کے گھوڑے اپنے قبضے میں نہیں لیے تھے ورنہ انھیں گھر پہنچنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔

    ڈاکوؤں کے چلے جانے کے بعد عدنان نے کہا۔ “خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ ”

    “فکر کیوں کرتے ہو۔ الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا”۔ مانی نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے اسے تسلی دی۔ پھر دونوں دوست اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔

    دونوں نے اپنے گھر والوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کی کہانی سنائی۔ ان کی کہانی سن کر سب نے اظہار افسوس کیا مگر وہ اس بات پر خوش بھی ہوئے اور الله تعالیٰ کا شکر بھی ادا کیا کہ ڈاکوؤں نے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔

    یہ اگلے روز دوپہر کی بات ہے۔ ڈاکوؤں کا سردار اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں آیا۔ وہ سب جھیل کے نزدیک اس پرانے درخت کے نیچے جمع ہوگئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بہت خوش تھا کہ اب اس انگوٹھی اور بانسری کے راز سے پردہ اٹھ جائے گا۔ اس نے انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہنا اور پھر بانسری بجانے لگا۔

    بانسری کی لے اتنی تیز تھی کہ آس پاس کے درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے شور مچاتے ہوئے اڑ گئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بانسری بجانے میں مصروف تھا۔ اس کے تمام ساتھی اسے بڑی حیرت اور دل چسپی سے دیکھ رہے تھے۔

    اچانک قریبی درختوں سے بے شمار سپاہی کود کود کر زمین پر اترے اور بے خبر ڈاکوؤں کے سروں پر پہنچ گئے۔ بہت سے سپاہی بڑی بڑی جھاڑیوں میں بھی چھپے ہوئے تھے۔ وہ بھی باہر آگئے۔ ان سپاہیوں کے ساتھ مانی کا کوتوال باپ بھی تھا۔ سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ انہوں نے تمام ڈاکوؤں کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک تو ڈاکو بے خبر تھے۔

    دوسرے سپاہی اتنے زیادہ تھے کہ ڈاکو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لیے وہ بڑی آسانی سے قابو میں آگئے۔ سپاہیوں نے ان کی تلواریں اور خنجر اپنے قبضے میں لے کر ان کو گرفتار کر لیا۔

    اسی وقت جھاڑیوں کے پیچھے سے عدنان اور مانی بھی نکل آئے۔ انھیں دیکھ کر تمام ڈاکو حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ دونوں تو وہ ہی نوجوان تھے جنہیں کل ان لوگوں نے لوٹا تھا اور جن سے ان کے سردار نے انگوٹھی اور بانسری چھینی تھیں۔

    مانی نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا کہ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہن کر بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔ اب بتاؤ کہ یہ سب کچھ دیکھ کر تمہیں حیرت ہوئی یا نہیں؟ “

    اس کی بات سن کر عدنان مسکرانے لگا۔ مانی نے پھر کہا۔ “ہمیں پتہ تھا کہ ہماری باتیں سن کر تم ضرور اس جگہ پہنچو گے تاکہ انگوٹھی اور بانسری کے راز سے واقف ہو سکو۔ میں نے اپنے ابّا جان سے کہہ کر ان سارے سپاہیوں کو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا دیا تھا تاکہ یہ تمہیں گرفتار کر سکیں۔ ”

    عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “جب ہم لوگ تجارت کا مال لے کر اپنے سفر پر روانہ ہوئے تھے تو ہم نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ اگر ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ گیا تو ہم انھیں انگوٹھی اور بانسری کی کہانی سنائیں گے تاکہ جب وہ اس درخت کے پاس آئیں تو سپاہی انھیں گرفتار کرلیں۔ تم لوگوں نے بڑے عرصے سے اس علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اب تمہیں اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ اگر تم لوگ لوٹ مار کے بجائے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہوتے تو اس ذلت سے دو چار نہ ہونا پڑتا۔”

    ڈاکوؤں کا سردار اس بات پر سخت شرمندہ تھا کہ عدنان اور مانی نے اسے بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیا تھا۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

    بعد میں ڈاکوؤں پر مقدمہ چلا اور انھیں سزائیں ہو گئیں۔ عدنان اور مانی کو بھی ان کی اشرفیاں اور دوسرا سامان واپس مل گیا تھا۔ یوں ان دونوں کی ذہانت کی وجہ سے یہ ڈاکو اپنے انجام کو پہنچے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

    (مصنّف: مختار احمد)

  • ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

    ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

    یہ بہت پرانا قصّہ اُن دو آدمیوں کا ہے جو کسی زمانے میں پیدل سفر کو نکلے تھے۔ ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب۔

    دونوں کی مڈ بھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوگئی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ چلچلاتی دھوپ تھی۔ دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر آرام کیا۔ دونوں کو سخت بھوک لگی تھی۔ توشہ دونوں کے پاس تھا۔ مگر کھانے کی نوبت نہیں آرہی تھی۔ وہ دونوں اس انتظار میں تھے کہ دوسرا توشہ دان کھولے اور دستر خوان بچھائے تو اس میں شریک ہو جائے۔ اس انتظار میں کھانے کا وقت نکل گیا۔ دونوں میں سے کسی نے پیٹ بھرنے کے لیے توشہ کھولنے میں پہل نہ کی۔ دراصل وہ دونوں نہایت ہی کنجوس تھے۔

    بڑی دیر کے بعد بادلِ ناخواستہ ایک نے تالاب سے گلاس بھر پانی لیا اور توشہ دان میں سے روٹی نکال کر توڑی، اس نے روٹی کے ٹکڑے کو بڑی پھرتی سے پانی میں ڈبویا اور پھر فوراً توشہ دان میں رکھ لیا۔ البتہ جس پانی میں روٹی کو ڈبویا تھا، اسے غٹا غٹ پی گیا۔ پھر آرام سے ایک طرف لیٹ گیا۔

    اب دوسرے سے بھی شاید رہا نہیں‌ جارہا تھا۔ اس نے بھی برتن میں پانی لیا، لیکن پھر ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے روٹی تو نکالی، لیکن نہ تو اسے توڑا اور نہ ہی پانی میں‌ ڈالا بلکہ اس انداز سے روٹی کو برتن کے اوپر پکڑا کہ دھوپ میں اس کا عکس برتن کے پانی پر پڑے۔ اس نے گویا پانی کو روٹی کی پرچھائیں دکھا کر وہ پانی پی لیا۔ اور روٹی توشہ دان میں محفوظ کر دی۔

    وہ آدمی جس نے روٹی کا ٹکڑا پانی میں‌ ڈبویا تھا، اس نے بھی یہ دیکھا اور سوچنے لگا کہ دوسرا آدمی بھی اس جیسا ہی ہے۔ تھے تو دونوں ہی حد درجہ بخیل اور کنجوس، مگر پہلا آدمی جس نے روٹی کو پانی میں بھگویا تھا، دوسرے والے کی حرکت دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔

    اب وہ ایک دوسرے کو گویا پہچان چکے تھے اور سخت ضرورت اور بھوک میں بھی کھانا بچا کر رکھنے والی حرکت کرتا دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے خیالات اور طبیعت میں یکسانیت موجود ہے اور تب انہوں نے آپس میں تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ انہوں نے اپنے اپنے سفر کا مقصد ایک دوسرے کو بتایا تو دونوں ہی کو بہت خوشی ہوئی، کیوں‌ وہ ایک ہی مقصد لے کر گھروں سے روانہ ہوئے تھے۔

    ان کا مقصد تھا رشتہ تلاش کرنا۔ ایک کو اپنے بیٹے کے لیے رشتہ چاہیے تھا اور دوسرا اپنی بیٹی کو بیاہنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ دونوں نے فیصلہ کر لیا کہ خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ان کے خاندانوں کے درمیان مثالی رشتہ قائم ہو سکے گا۔

    یوں‌ ایک کنجوس کے بیٹے کی شادی ایک بخیل کی بیٹی سے ہوگئی۔

    (ماخوذ از قصّۂ قدیم)

  • ”بہادر“ کی آرزو! (ایک سبق آموز کہانی)

    ”بہادر“ کی آرزو! (ایک سبق آموز کہانی)

    ٹنکو میاں سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی تھی۔ ان کی شرارتیں بے ضرر تو تھیں، لیکن خود کو بہادر اور نڈر ثابت کرنے کی جو دُھن ٹنکو پر سوار رہتی تھی، اسے ایک قسم کی خامی شمار کیا جاسکتا تھا۔

    جب بھی موقع ملتا وہ اپنی بہادری کا مظاہرہ کرنے میں‌ دیر نہ لگاتے۔ کبھی سننے میں آتا کہ ٹنکو میاں گلی کے کونے پر موجود برسوں سے بند پڑے مکان کی دیوار پھاند کر وہاں سے اپنی ٹیم کی گیند واپس لانے میں‌ کام یاب ہوگئے، تو کبھی کسی کسی آوارہ کُتّے کو ڈنڈا ہاتھ میں‌ تھام کر گلی بدر کرکے چھوڑا۔ چڑیا گھر گئے تو ہاتھی پر سواری کی، اس کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور اس بھاری بھرکم اور لمبی سونڈ والے جانور سے ڈرنے والے بچّوں کے لیے مثال بن گئے۔ بہن بھائیوں سے شرط لگائی کہ وہ رات کی تاریکی میں چھت پر تنہا کچھ وقت گزار سکتے ہیں اور ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد اگلے تین چار دن ٹنکو میاں گھر میں‌ فخر سے سینہ پُھلا کر گھومتے رہے۔ یہ چھوٹی عمر میں‌ ان کے بڑے کارنامے تھے۔

    اپنے ہم جماعتوں اور محلّے کے دوستوں‌ میں وہ ٹنکو بہادر مشہور ہوگئے تھے۔ یہ ایسی باتیں نہ تھیں کہ کوئی اعتراض کرتا یا ٹنکو میاں کو شرارتی کہا جاتا۔ لیکن ان کی ایک عادت بہت بُری تھی۔ سڑک عبور کرنے کے دوران بھی وہ اپنی دلیری اور پھرتی کا مظاہرہ کرنا ضروری سمجھتے تھے اور یہ خطرناک بات تھی، کیوں‌ کہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے۔ ان کی ناسمجھی اور ذرا سی کوتاہی انھیں کسی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی تھی۔

    صبح اسکول جاتے ہوئے اور وہاں سے واپسی پر دوسرے بچّے راستے میں پڑنے والی سڑک عبور کرنے کے لیے ٹریفک کے رکنے کا انتطار کرتے، اور کسی مقام پر اگر بالائی گزر گاہ یا ٹریفک سگنل کی سہولت نہ ہونے کے سبب انھیں سڑک عبور کرنا دشوار لگتا تو وہاں سے گزرنے والے کسی بڑے کی مدد لے لیتے تھے، لیکن ٹنکو میاں عجیب حرکت کرتے۔ وہ بالائی گزر گاہ کو استعمال کرنے کے بجائے سڑک پر ایک نظر ڈالتے، گاڑیوں کی تعداد اور رفتار کا اندازہ کرتے اور موقع پاتے ہی دوڑ پڑتے۔ کبھی سڑک خالی ہوتی یا کم از کم انھیں نکلنے کی جگہ ضرور مل جاتی تھی، لیکن اکثر یہ بھی ہوا کہ ان کی وجہ سے کسی ڈرائیور کو فوری بریک لگانا پڑا اور ٹائروں چرچرانے کی آوازوں نے سب کو متوجہ کر لیا۔ ڈرائیور غصّے میں ٹنکو میاں کو بُرا بھلا کہتے، آگے بڑھ گیا۔ راہ گیر ان کی یہ حرکت دیکھتے تو کوئی انھیں سمجھاتا، اور کچھ ڈانٹ بھی دیتے، مگر ٹنکو میاں نے اپنی عادت ترک نہیں‌ کی تھی۔

    کچھ عرصے سے وہ اپنے چند دوستوں کی طرح سائیکل چلانے کا شوق بھی پورا کر رہے تھے، لیکن جیب خرچ سے بچت کر کے۔ اب وہ چاہتے تھے کہ ایک عدد سائیکل کے مالک بن جائیں۔ یہ بات اپنے ابّا جان سے کہنا ان کے لیے اتنا آسان نہ تھا، مگر امّاں‌ سے سائیکل کے لیے ضد کرنا ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ ٹالتیں‌ تو ان کے سامنے رونے بیٹھ جاتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، سائیکل کیسے دلاؤں؟

    ”امّاں میں پڑھائی پر پوری توجہ دوں گا۔ صرف شام کے وقت سائیکل لے کر باہر نکلوں گا اور سچّی میں کسی کے ساتھ ریس نہیں لگاﺅں گا۔“ آج پھر ٹنکو میاں‌ ضد کررہے تھے۔ ماں تو ماں‌ ہوتی ہے۔ وہ کئی دنوں سے سوچ رہی تھیں کہ کسی طرح اپنے بیٹے کی فرمائش پوری کردیں۔ اس روز انہوں نے ٹنکو سے وعدہ کیاکہ وہ ماہانہ بچت کرکے انہیں جلد ہی سائیکل دلا دیں گی۔ لیکن انھیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ ٹنکو میاں یہ جان بہت خوش ہوئے، اور بڑی بے تابی سے اس دن کا انتظار شروع کردیا جب وہ ایک چمکتی ہوئی سائیکل کے مالک بن جاتے۔ ‌

    وہ ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی جب ٹنکو میاں اپنے پڑوسی اور ہم مکتب بچّوں کے ساتھ اسکول سے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے۔ ‌راستے میں سڑک پڑتی تھی جسے عبور کرنے کے لیے وہاں ایک پُل بنایا گیا تھا۔ ‌حسبِ معمول بچّے اس پُل کی طرف بڑھ گئے تاکہ باحفاظت سڑک عبور کرسکیں، لیکن ٹنکو میاں نے آج ان کا ساتھ نہ دیا۔ ‌وہ ہر دوسرے تیسرے روز ایسا ہی کرتے تھے۔ ‌آج بھی انھوں نے ایک نظر میں سڑک کا جائزہ لیا اور دوڑ لگا دی۔ یکایک فضا میں عجیب سی آوازیں ابھریں جیسے کوئی گھسٹتا ہوا جارہا ہے اور پھر ایسا لگا جیسے کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی ہیں۔ لمحوں میں‌ منظر تبدیل ہو گیا اور سڑک سے گزرنے والے اور قریبی دکان دار اس طرف دوڑے جہاں ایک موٹر سائیکل سوار بڑی سی گاڑی سے ٹکرانے کے بعد زمین پر گرا ہوا تھا۔ یہ حادثہ ٹنکو میاں کے غلط طریقے سے سڑک عبور کرنے کی وجہ سے پیش آیا تھا جو پلٹ کر یہ سب دیکھ چکے تھے اور گھر کی طرف دوڑ لگانے میں ذرا دیر نہ کی تھی۔

    ٹنکو میاں گھر پہنچے اور ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ وہ خوف زدہ تو بہت تھے کہ آج ان کی اس حرکت کی وجہ سے ایک بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں‌ کریں‌ گے۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور پھر انھیں‌ امّاں کی آواز سنائی دی۔

    ” کیا ہوا عادل میرے بچّے، یہ چوٹیں کیسے آئیں، کسی سے جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟ “
    امّاں، میں ٹھیک ہوں، معمولی ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا، یہ چوٹیں گرنے کی وجہ سے لگی ہیں۔ ٹنکو کو اپنے بھائی عادل کی آواز سنائی دی جو درد کے احساس کے ساتھ اپنی ایک پریشانی کا ذکر کچھ یوں کررہا تھا۔ ”امّاں آپ اسے چھوڑیں، میری ہڈی جوڑ سلامت ہیں، لیکن مجھے پانچ ہزار روپے لا کر دیں۔ دراصل ایک بچّہ غلط طریقے سے سڑک عبور کر رہا تھا، اسے بچاتے ہوئے میری موٹر سائیکل وہاں کھڑی ایک قیمتی کار سے ٹکرا گئی، اُس کا مالک بااثر آدمی ہے، مجھے اس کا نقصان پورا کرنا ہو گا۔“ بھائی کی بات سن کر ٹنکو میاں اپنی جگہ دبک گئے۔ وہی تو تھے جسے بچاتے ہوئے عادل حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اسے خوش قسمتی کہیے یا اتفاق کہ عادل اُس بچّے کو نہیں دیکھ سکا، جس کی غلط حرکت نے اس کی جان خطرے میں‌ ڈال دی تھی۔

    ”بیٹا، میں کہاں سے لاؤں اتنے سارے پیسے، تمہیں تو معلوم ہے۔۔۔۔ ارے یاد آیا، تم رُکو میں ابھی آتی ہوں۔“ امّاں کمرے میں گھس گئیں۔

    ”یہ لو عادل، پہلے ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور پھر اُس آدمی کو یہ رقم دے کر اپنی جان چھڑاؤ، یہ پیسے میں نے تمہارے بھائی کو نئی سائیکل دلانے کے لیے جوڑے تھے۔ چند دنوں میں اُسے تمہارے ساتھ بازار بھیجنا ہی تھا تاکہ اس کی پسند سے سائیکل خرید کر لے آؤ۔ خیر، خدا کی یہی مرضی تھی۔“

    اُف خدایا! امّاں کی بات سن کر ٹنکو کا سَر چکرانے لگا تھا۔ اس نے اپنی ایک بُری حرکت کی وجہ سے زبردست نقصان اٹھایا تھا۔

    (مصنّف: عارف عزیز)

  • ”گاؤں والے…“

    ”گاؤں والے…“

    گاﺅں کا نام تو امیر پور تھا، لیکن وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ ان میں‌ بعض لوگ ہنر مند اور کسی نہ کسی پیشے سے جڑے ہوئے تھے اور اسی سے اپنی روزی روٹی کا انتظام کر پاتے تھے۔ امیر پور کے یہ باسی بڑے صابر و شاکر تھے۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر خدا کا شکر ادا کرتے اور مل جل کر رہتے تھے۔

    گاﺅں سے تھوڑے فاصلے پر ایک پکّی سڑک موجود تھی۔ اس سڑک سے بیل گاڑی یا تانگے پر سوار ہو کر گاؤں والے کام کی تلاش میں‌ شہر جایا کرتے تھے۔ سڑک کے قریب ایک بڑا پرانا مکان تھا، جس میں میاں بیوی اور ان کا ایک بیٹا رہتا تھا۔ پورا گاﺅں انہیں حاجی صاحب اور امّاں بی کے نام سے جانتا تھا۔

    یہ میاں‌ بیوی بہت مہمان نواز اور خدا ترس تھے، لیکن ان کا بیٹا نہایت بدتمیز اور خود سَر تھا۔ اسے گاؤں والے ننّھے کے نام سے پکارتے تھے۔ ماں باپ اپنے بیٹے کو بہت سمجھاتے اور دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے، لیکن اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حاجی صاحب اور امّاں بی فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھ جاتے۔ وہ شہر جانے کے لیے گزرنے والے دیہاتیوں سے سلام دعا کرتے اور ان کی خیریت دریافت کرتے، اسی طرح شام کو جب لوگ اپنے کاموں سے لوٹتے تو ایک بار پھر حاجی صاحب اور ان کی بیوی سے سامنا ہوتا اور وہ مسکرا کر گویا ان استقبال کرتے۔

    خوش اخلاق اور ملن سار میاں بیوی کی آمدن اور گزر بسر کا ذریعہ ان کے دو مکانات اور تین دکانیں تھیں جو انہوں‌ نے کرایے پر اٹھا رکھی تھیں۔ حاجی صاحب سے گاؤں کے غریب لوگ ضرورت پڑنے پر کچھ رقم ادھار بھی مانگ لیتے تھے اور اکثر ان کے گھر ضرورت مند آتے جاتے رہتے تھے۔ یہ بات ننھّے کو بالکل پسند نہ تھی۔ حاجی صاحب کی غیر موجودگی میں اگر کوئی گاؤں والا ان کے گھر آجاتا تو ننھّا بدتمیزی سے پیش آتا اور انہیں جھڑک دیتا۔ غریب اور مجبور دیہاتی حاجی صاحب کی وجہ سے اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیتے تھے اور اُن سے اس کی شکایت بھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک دن یہ میاں بیوی اپنے بیٹے کو گھر پر چھوڑ کر کسی کام سے شہر گئے، جہاں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا۔ اس حادثے میں حاجی صاحب اور امّاں بی کی موت واقع ہو گئی۔ اس سانحے پر گاؤں کے ہر فرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ ہر کوئی ان کے اکلوتے بیٹے کو صبر کی تلقین کررہا تھا۔ حاجی صاحب اور امّاں‌ بی کی تدفین کے بعد گاؤں‌ کے بزرگ اور نوجوان سبھی دیر تک ننھّے کے ساتھ بیٹھے رہے۔ اُس دن وہ بہت رویا اور پھر اسے صبر آہی گیا۔

    چند دن بعد ننھّے کے تمام رشتے دار بھی اپنے گھروں کو چلے گئے اور وہ اکیلا رہ گیا تو گاﺅں کے چند بڑوں نے اس کی مزاج پرسی اور دل بہلانے کی غرض سے مرحوم کے گھر کا رخ کیا۔ ننّھا انہیں دیکھ کر بگڑ گیا اور بولا، ”تم لوگ اب یہاں کا رُخ مت کرنا۔ مجھے تم جیسے جاہل اور گنوار لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ گاﺅں والوں نے بڑے تحمّل کا مظاہرہ کیا اور خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

    حاجی صاحب اور امّاں بی کے انتقال کو تین ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ خود سَر اور بدتمیز ننّھے کی غلطی کی وجہ سے گھر کے ایک حصّے میں آگ لگ گئی۔ شاید قدرت اُسے اس کے رویّے کی سزا دے رہی تھی۔ گاﺅں والوں کو اس کی خبر ہوئی تو دوڑے دوڑے آئے اور کسی طرح آگ پر قابو تو پا لیا، مگر اس وقت تک خاصا مالی نقصان ہو چکا تھا۔ دیواریں کالی ہوچکی تھیں، لکڑی کے دروازے اور کمروں میں‌ موجود سامان خاکستر ہوچکا تھا۔ ننھّا شدتِ غم سے نڈھال تھا اور گھر کے سامنے زمین پر بیٹھا اپنا سَر پیٹ رہا تھا۔

    آگ بجھانے کے بعد گاؤں کے چند بڑے گامو، رستم اور شیر خان آگے بڑھے اور اس سے مخاطب ہو کہا، ”بیٹا، ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا نقصان ہے، مگر تم فکر نہ کرو، ہم ہیں تمہارے ساتھ۔“ شیر خان نے بات کرنے میں پہل کی۔ وہ ایک معمولی ٹھیکے دار تھا۔

    ”ہاں، ہم سب مل کر تمہارا مکان دوبارہ تعمیر کریں گے۔“ گامو نے کہا، جو شہر جاکر مزدوری کرتا تھا۔ ننّھے نے خالی خالی نظروں سے اِس کی طرف دیکھا۔ اس دوران دُور کھڑے دیہاتی بھی قریب آگئے اور ننھّے کی ہمّت بندھائی۔ ادھر ننّھا سوچ رہا تھا کہ یہ غریب لوگ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    چند دن گزرے تھے جب اپنے سوختہ گھر کے باقی ماندہ حصّے میں موجود ننھّے نے باہر کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا۔ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ گاؤں والے بیلچے اور پھاؤڑے لے کر جلے ہوئے مکان کا ملبا ہٹانے کی تیّاری کررہے ہیں۔ ابھی وہ کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ گامو اور شیر خان اس کے قریب آئے اور مسکراتے ہوئے کہا۔ ”ننھے میاں! گاﺅں کا ہر ہنرمند اور مزدور یہاں صفائی کرنے کے بعد تمھارا مکان دوبارہ تعمیر کرنے میں حصّہ لے گا، اور تم سے کوئی اُجرت نہیں لی جائے گی۔“

    ”اور ہاں، رنگ و روغن کا کام دو، چار دن میں نمٹا دوں گا، تم فکر نہ کرنا۔“ یہ رستم نامی رنگ ریز کی آواز تھی۔ شیر خان الیکٹریشن تھا۔ اس نے پورے گھر کا بجلی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اسی طرح گاؤں میں رہنے والے بڑھئی نے بھی دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ تیّار کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ گاؤں کا ہر فرد ننّھے کے ساتھ تھا، لیکن ضروری ساز و سامان کی خریداری بھی ایک مسئلہ تھا۔ قدرت نے اس کا انتظام بھی کردیا۔ گاؤں کے ایک شخص نے حاجی صاحب سے کچھ رقم قرض لے رکھی تھی، جو اس کام کے لیے کافی تھی اور یہ وہی مہینہ تھا جس میں اس نے حاجی صاحب سے قرض لوٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے گاؤں والوں کی موجودگی رقم ننھّے کو دے دی۔

    ننھّا جان گیا تھا کہ انسان کا امیر یا غریب ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، اصل چیز انسانیت ہے۔ وہ اپنے رویّے پر گاؤں والوں سے بہت شرمندہ تھا۔ اُس دن شہر کو جانے والی پکّی سڑک سے گزرنے والوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، ایک سوختہ عمارت سے ملبا ہٹانے کا کام کررہے ہیں۔

    (مصنّف: عارف عزیز)

  • بیل اور گدھا (دل چسپ کہانی)

    بیل اور گدھا (دل چسپ کہانی)

    کسی گاؤں میں‌ ایک بڑا زمیندار رہتا تھا۔ خدا نے اسے بہت سی زمین، بڑے بڑے مکان اور باغ ‌دیے تھے، جہاں ہر قسم کے پھل اپنے اپنے موسم میں پیدا ہوتے تھے۔

    گائے اور بھینسوں کے علاوہ اس کے پاس ایک اچھّی قسم کا بیل اور عربی گدھا بھی تھا۔ بیل سے کھیتوں میں‌ ہل چلانے کا کام لیا جاتا اور گدھے پر سوار ہو کر زمیندار اِدھر اُدھر سیر کو نکل جاتا۔ ایک بار اس کے پاس کہیں سے گھومتا پھرتا ایک فقیر نکل آیا۔

    زمیندار ایک رحم دل آدمی تھا۔ اس نے فقیر کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔ اس کے کھانے پینے اور آرام سے رہنے کا بہت اچھا انتظام کیا۔ دو چار دن بعد جب وہ فقیر وہاں سے جانے لگا تو اس نے زمیندار سے کہا "چودھری! تم نے میری جو خاطر داری کی ہے، میں ‌اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔ تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک فقیر ہوں۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں، جو تمھاری خدمت میں پیش کروں۔ ہاں، میں جانوروں اور حیوانوں کی بولیاں‌ سمجھ سکتا ہوں۔ تم چاہو تو یہ علم میں تمھیں سکھا سکتا ہوں، لیکن تم کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا کہ تم یہ بھید کبھی کسی کو نہیں بتاؤ گے، اور یہ بھی سن لو کہ اگر تم نے یہ بھید کسی سے کہہ دیا تو پھر زندہ نہ رہ سکو گے۔”

    چودھری نے کہا: "بابا! میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں یہ بھید کبھی کسی کو نہیں بتاؤں گا اور تمھارا یہ احسان عمر بھر یاد رکھوں گا۔”

    خیر، فقیر نے اسے جانوروں اور حیوانوں کی باتیں سمجھنے کا عمل سکھا دیا اور چلا گیا۔

    زمیندار کے پاس جو بیل تھا، وہ بیچارہ صبح سے پچھلے پہر تک ہل میں ‌جتا رہتا۔ شام کو جب وہ گھر آتا تو اس کے کھانے کے لیے بھوسا ڈال دیا جاتا، لیکن گدھے کو سبز گھاس اور چنے کا دانہ کھانے کو ملتا۔ غریب بیل یہ سب کچھ دیکھتا اور چپ رہتا۔

    وقت اسی طرح‌ گزر رہا تھا۔ ایک دن جب بیل کھیتوں سے واپس آتے ہوئے گدھے کے پاس سے گزرا تو گدھے نے اسے لنگڑاتے ہوئے دیکھ کر پوچھا: "بھائی آج تم لنگڑا لنگڑا کر کیوں چل رہے ہو؟”

    بیل نے جواب دیا: "گدھے بھائی! آج مجھے بہت کام کرنا پڑا۔ میں جب تھک جاتا تھا تو نوکر میری پیٹھ اور ٹانگوں پر زور زور سے لاٹھیاں مارتا۔ میری ٹانگ میں چوٹ لگ گئی ہے۔ خیر! اپنی اپنی قسمت ہے۔”

    گدھا چپ رہا اور بیل اپنے تھان کی طرف چلا گیا۔ جہاں بیل بندھا کرتا تھا، وہاں زمیندار کو اپنے نوکر کے لیے گھر بنوانا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد زمیندار نے بیل کے لیے بھی گدھے کے پاس ہی کھرلی بنوا دی۔ جب دونوں کو وقت ملتا، ایک دوسرے سے باتیں بھی کر لیتے۔

    ایک روز بیل کو اداس اور خاموش دیکھ کر گدھے نے اس سے پوچھا: "بیل بھائی! کیا بات ہے؟ آج تم چپ چپ کیوں ہو۔ کوئی بات ہی کرو۔”

    بیل نے کہا: "گدھے بھائی! کیا بات کروں؟ آج پھر بڑی لاٹھیاں پڑی ہیں۔”

    گدھا کہنے لگا: "بیل بھائی! سچ جانو تم۔ تمھاری جو درگت بنتی ہے، وہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے، لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں تمھارا دکھ بانٹ نہیں سکتا۔”

    بیل بولا: "گدھے بھائی! تم نے سچ کہا۔ دکھ تو کوئی کسی کا نہیں بانٹ سکتا، لیکن تم کچھ مشورہ تو دو کہ اس مصیبت سے میری جان کیسے چھوٹے گی، اور نہیں تو دو چار دن ہی آرام کر لوں۔”

    گدھے نے کہا: "ایک ترکیب میری سمجھ میں آئی ہے۔ اس پر عمل کرو گے تو پانچ، سات روز کے لیے تو بچ جاؤ گے۔ کہو تو بتاؤں؟”

    بیل بولا:” نیکی اور پوچھ پوچھ، بتاؤ، کیا ترکیب ہے؟”

    گدھے نے بتایا: "تم یہ کرو کہ جب ہل والا تمھیں ہل میں جوتنے کے لیے لینے آئے تو تم آنکھیں بند کر کے کھڑے ہو جانا۔ وہ تمھیں کھینچے تو تم دو قدم چلنا اور ٹھہر کر گردن ڈال دینا۔ پھر بھی اگر اسے رحم نہ آئے اور کھیت پر لے ہی جائے تو کام نہ کرنا اور زمین پر بیٹھ جانا۔ کیسا ہی مارے پیٹے، ہرگز نہ اُٹھنا۔ گر گر پڑنا، پھر وہ تمھیں گھر لے آئے گا۔ گھر لا کر تمھارے آگے چارا ڈالے تو کھانا تو ایک طرف رہا تم اسے سونگھنا تک نہیں۔ گھاس، دانہ نہ کھانے سے کم زوری تو ضرور آجائے گی، مگر کچھ دن آرام بھی مل جائے گا، کیونکہ بیمار جانور سے کوئی محنت نہیں لیا کرتا۔ لو یہ مجھے ایک ترکیب سوجھی تھی، تمھیں بتا دی۔ اب تم کو اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔”

    اتفاق سے زمیندار جو اس وقت ان کے پاس سے گزرا تو اس نے ان دونوں کی باتیں سن لیں اور مسکراتا ہوا اِدھر سے گزر گیا۔ چارے بھوسے کا وقت آ گیا تھا۔ نوکر نے گدھے کے منہ پر دانے کا تو بڑا چڑھایا اور بیل کے آگے بھی چارا رکھ دیا۔ بیل دو ایک منھ مار کر رہ گیا۔ اگلے دن ہل والا بیل کو لینے آیا تو دیکھا کہ بیل بیمار ہے۔ رات کو کچھ کھایا بھی نہیں۔ نوکر دوڑا ہوا مالک کے پاس گیا اور کہنے لگا: "نہ جانے رات بیل کو کیا ہوا۔ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور آج مجھے پورے کھیت میں ہل چلانا ہے، کہو تو باغ میں سے دوسرا بیل لے آؤں؟”

    زمیندار نے بیل اور گدھے کی باتیں تو سن ہی لی تھیں۔ دل میں بہت ہنسا کہ گدھے نے خوب سبق پڑھایا ہے۔

    زمیندار ہل والے سے بولا: "اچھا جاتا کہاں ہے؟ دوسرا بیل لانے کی کیا ضرورت ہے۔ گدھے کو لے جاؤ۔ ہل میں لگا کر کام نکال لو۔”

    گدھے پر مصیبت آ گئی۔ پہلے تو دن بھر تھان پر کھڑے کھڑے گھاس کھایا کرتا، اب جو صبح سے ہل میں جتا تو شام تک سانس لینے کی مہلت نہ ملی۔ دُم بھی مروڑی گئی، ڈنڈے بھی پڑے۔ سورج ڈوبنے کے بعد جب گدھا لوٹ کر اپنے تھان پر آیا تو بیل نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا: "بھیا تمھاری مہربانی سے آج مجھ کو ایسا سکھ ملا کہ ساری عمر کبھی نہیں ملا تھا۔ خدا تم کو خوش رکھے۔” گدھا کچھ نہ بولا۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ اگر دو چار دن یہی حال رہا تو میری جان ہی چلی جائے گی۔ اچھی نیکی کی کہ اپنے کو مصیبت میں پھنسا دیا۔

    دوسرے دن پھر ہل والا گدھے کو لے گیا اور شام تک اسے ہل میں لگائے رکھا۔ جب گدھا تھکا ہارا واپس آیا تو بیل نے پھر اس کا شکریہ ادا کیا اور خوشامد کی باتیں کرنی چاہیں۔

    گدھا کہنے لگا: "میاں ان باتوں کو رہنے دو۔ آج میں نے مالک کی زبان سے ایک ایسی بُری خبر سنی ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ خدا تم کو اپنی حفاظت میں رکھے۔”

    بیل نے کان کھڑے کر کے پوچھا: "گدھے بھائی! سناؤ تو، میرا تو دل دھڑکنے لگا۔”

    گدھا بولا: ” کیا سناؤں۔ مالک ہل والے سے کہہ رہا تھا کہ اگر بیل زیادہ بیمار ہو گیا ہے اور اُٹھنے کے قابل نہیں رہا تو قصائی کو بلا کر اس پر چھری پھروا دو۔” بیل قصائی کے نام سے کانپ اٹھا اور کہنے لگا:‌ "پھر تم کیا مشورہ دیتے ہو؟”

    گدھا بولا: "میں تو ہر حال میں‌ تمھاری بھلائی چاہتا ہوں۔ اب میرا یہ مشورہ ہے کہ تم کھڑے ہو جاؤ۔ چارا، بھوسا کھانے لگو اور صبح کو جب ہل والا آئے تو خوشی خوشی اس کے ساتھ جا کر ہل میں جت جاؤ۔”

    یہ باتیں بھی زمیندار چھپا ہوا سن رہا تھا اور دونوں کی باتوں پر اسے دل ہی دل میں ہنسی آ رہی تھی۔ جان جانے کے ڈر سے بیل نے پھر گدھے کے مشورے پر عمل کیا۔ چارے کی ساری ناند صاف کر دیں اور کلیلیں کرنے لگا۔ صبح ہوئی تو زمیندار اپنی بیوی کو ساتھ لیے بیل کے تھان پر پہنچا۔ بیل نے جو اپنے مالک کو دیکھا تو اچھلنا شروع کر دیا۔ اتنے میں‌ ہل والا بھی آ گیا۔ اس نے بیل کو بالکل تندرست پایا۔ کھول کر لے چلا، تو وہ اس طرح ‌دُم ہلاتا اور اکڑتا ہوا چلا کہ مالک کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔

    بیوی نے پوچھا: "تم کیوں ہنسے؟ ہنسی کی تو کوئی بات نہیں۔”

    زمیندار نے جواب دیا: "ایسی ہی ایک بھید کی بات ہے، جو میں نے سنی اور دیکھی جس پر میں ہنس پڑا۔”

    بیوی بولی:‌ ” مجھے بھی وہ بات بتاؤ۔”

    زمیندار نے کہا: "وہ بتانے کی بات نہیں ہے، اگر بتا دوں گا تو مر جاؤں گا۔”

    بیوی بولی: "تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم مجھ پر ہنسے تھے۔” زمیندار نے بہت سمجھایا کہ نیک بخت! تجھ پر میں کیوں ‌ہنسوں گا، تجھ کو تو وہم ہو گیا ہے۔ اگر مرنے کا ڈر نہ ہوتا تو ضرور بتا دیتا۔

    مگر وہ کب ماننے والی تھی، بولی: "چاہو مرو یا جیو، میں پوچھ کر ہی رہوں گی۔”

    جب بیوی کسی طرح نہیں مانی تو زمیندار نے سارے پڑوسیوں‌ کو جمع کیا اور سارا قصہ سنایا کہ میری بیوی ایک ایسی بات کے لیے ضد کررہی ہے، جسے ظاہر کرنے کے بعد میں مَر جاؤں گا۔ لوگوں نے اس کی بیوی کو بہت سمجھایا اور جب وہ نہ مانی تو اپنے گھر چلے گئے۔ زمیندار لاچار ہو کر وضو کرنے چلا گیا کہ بھید کھلنے سے پہلے دو نفل پڑھے۔

    زمیندار کے ہاں‌ ایک مرغا اور پچاس مرغیاں پلی ہوئی تھیں اور ایک کتّا بھی تھا۔ زمیندار نے جاتے جاتے سنا کہ کتّا مرغے پر بہت غصہ ہو رہا ہے کہ کم بخت!‌ تُو کہاں ‌مرغیوں‌ کے ساتھ ساتھ بھاگا چلا جاتا ہے۔ ہمارے تو آقا کی جان جانے والی ہے۔

    مرغ نے پوچھا: "کیوں‌ بھائی! اس پر ایسی کیا آفت آ پڑی! جو اچانک مرنے کو تیار ہو گیا۔”

    کتّے نے ساری کہانی مرغے کو سنا دی۔ مرغے نے جو یہ قصّہ سنا تو بہت ہنسا اور کہنے لگا: "ہمارا مالک بھی عجیب بے وقوف آدمی ہے۔ بیوی سے ایسا دبنا بھی کیا کہ مر جائے اور اس کی بات نہ ٹلے، مجھے دیکھو! مجال ہے جو کوئی مرغی میرے سامنے سر اٹھائے۔ مالک ایسا کیوں‌ نہیں کرتا کہ گھر میں‌ جو شہتوت کا درخت ہے، اس کی دو چار سیدھی سیدھی ٹہنیاں ‌توڑے اور اس ضدی کو تہ خانے میں لے جا کر اسے ایسا پیٹے کہ وہ توبہ کر لے اور پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرے۔”

    زمیندار نے مرغ کی یہ بات سن کر شہتوت کی ٹہنیاں توڑیں اور انھیں تہ خانے میں چھپا آیا۔

    بیوی بولی: "لو اب وضو بھی کر آئے اب بتاؤ؟”

    زمیندار نے کہا: "ذرا تہ خانے چلی چلو، تاکہ میں بھید بھی کھولوں تو کوئی دوسرا جانے بھی نہیں اور وہیں مر بھی جاؤں۔”

    بیوی نے کہا: "اچھا۔” اور آگے آگے تہ خانے میں گھس گئی۔ زمیندار نے دروازہ بند کر کے بیوی کو اتنا مارا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی:‌ "میری توبہ ہے، پھر کبھی میں‌ ایسی ضد نہیں کروں گی۔”

    اس کے بعد دونوں باہر نکل آئے۔ کنبے والے اور رشتے دار جو پریشان تھے، خوش ہو گئے اور میاں‌ بیوی بڑے اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔

  • قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔

    دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، ’’اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔‘‘

    کتّا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا، ‘’اے دوست! اگر تُو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تُو بھی میری طرح خوش رہے گا۔‘‘

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’بھائی! جلدی بتا، وہ بات کیا ہے؟‘‘

    کتّے نے جواب دیا، ’’تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔ بس یہی کام ہے۔”

    بھیڑیے نے کہا ’’بھائی! میں دل و جان سے یہ کام کروں گا۔ اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔ میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران و پریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔ بارش، پالے اور برف باری کے صدمے اٹھا تا ہوں، پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔ اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لیے اس سے بہتر کیا بات ہے۔‘‘

    کتّے نے کہا، ’’یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، سچ ہے۔ اب تو فکر مت کر۔ بس میرے ساتھ چل۔‘‘ یہ سن کر بھیڑیا کتّے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔

    ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتّے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹّے سے پڑ گیا تھا۔

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’اے دوست! تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟

    کتّے نے کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    بھیڑیے نے پھر کہا، ’’اے دوست! بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟‘‘

    کتّے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا ’’اگر تُو اصرار کرتا ہے تو سن، میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔ دن کو میرے گلے میں پٹّا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سو رہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹّا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔ رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لیے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔ جمع خاطر رکھ، یہی سلوک، جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی تیرے ساتھ ہو گا۔‘‘

    یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔ کتّے نے کہا، ’’چلو چلو! کیا سوچتے ہو۔‘‘

    بھیڑیے نے کہا، ’’اے دوست! مجھے تو بس معاف کرو۔ یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔ میرے لیے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جیسا تُو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔

  • سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    کسی ملک پر ایک مغرور بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ ہیرے جواہرات، شان و شوکت اور اپنے جاہ و جلال کے نشے میں بدمست ہوکر رعایا کی طرف سے بالکل غافل ہوچکا تھا اور اسے ان کی مشکلات اور پریشانیوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔ کچھ لوگ اس کے لیے بد دعائیں کرتے تو کچھ اس کے لیے ہدایت اور نیک توفیق کے طلب گار بھی ہوتے۔

    ایک وقت آیا جب خدا نے رعایا کی سن لی۔ ہوا یہ کہ بادشاہ ایک دن نہایت شان و شوکت سے سپاہیوں کے لاؤ لشکر کو ساتھ لے کر شکار پر نکلا۔ جنگل میں اسے ایک ہرن نظر آیا، اس نے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ ہرن کا تعاقب کرتے ہوئے وہ بہت دور نکل آیا اور راستہ بھٹک گیا۔ وہ اپنے محافظ دستے اور تمام درباریوں سے بچھڑ گیا تھا۔ ادھر انھوں نے بادشاہ کو بہت ڈھونڈا لیکن گھنے جنگل میں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اور یوں بھی رعایا کی طرح بادشاہ کے سپاہی اور درباری سبھی اس کی اکڑ اور غرور سے تنگ آچکے تھے۔ انھوں نے اپنے فرماں روا کی تلاش بند کر دی اور واپس لوٹ گئے۔

    بادشاہ سارا وقت راستہ تلاش کرتا رہا، لیکن نہ تو اسے اپنے محل کی طرف جانے کا راستہ ملا اور نہ اس کے درباری۔ اس دوڑ دھوپ میں اسے پیاس لگنے لگی۔ مگر کہیں بھی پانی نہیں ملا۔ میلوں چلنے کے بعد اسے بہت دور ایک جھونپڑی نظر آئی تو وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے سرپٹ گھوڑا دوڑایا اور جھونپڑی تک جا پہنچا۔ وہاں ایک بزرگ بیٹھے عبادت میں مشغول تھے اور ایک طرف کونے میں پانی کا گھڑا رکھا تھا۔ بادشاہ نے بڑی بیتابی اور خشک زبان کو بمشکل حرکت دے کر بزرگ سے پوچھا، ’’پپ…پانی مل جائے گا ایک گلاس؟‘‘ ’ہاں مل جائے گا مگر ایک شرط پر‘‘ بزرگ کی پُر جلال آواز جھونپڑی میں‌ سنائی دی۔

    ’’مجھے ہر شرط منظور ہے، میں اس سلطنت کا حکم راں ہوں، پپ… پانی… پلا دو! بادشاہ نے بے تابی سے کہا، مگر اس موقع پر بھی اس نے اپنی امارت کا احساس دلانا ضروری سمجھا تھا۔

    ’’پہلے شرط سن لو۔ پانی کے گلاس کے بدلے میں تمہاری پوری سلطنت لوں گا۔‘‘ بزرگ نے درشتی سے کہا۔

    ’’پوری سلطنت؟ ایک گلاس پانی کے بدلے‘‘؟ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔

    بزرگ نے کرخت لہجے میں کہا۔ ’’ ہاں‘‘، ’’منظور ہے تو ٹھیک ورنہ یہاں سے چلے جاؤ اور مجھے عبادت کرنے دو۔‘‘پیاس کی شدت سے بادشاہ کو اپنا دم نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے نڈھال ہو کر کہا۔ ’’ مجھے منظور ہے، اب مجھے پانی دے دیں۔‘‘

    پانی پی کر بادشاہ کی جان میں جان آئی تو وہ بزرگ سے کہنے لگا۔ ’’وعدے کے مطابق اب میں بادشاہ نہیں رہا، آپ میری جگہ بادشاہ ہوگئے ہیں۔‘‘آپ میرے ساتھ محل چلیں اور تخت سنبھال کر مجھے وہاں سے رخصت کریں۔‘‘

    بادشاہ کی بات سن کر بزرگ نے مسکراتے ہوئے اور ایک بے نیازی کے ساتھ کہا۔ ’’ جس سلطنت کی قیمت ایک گلاس پانی ہو، اس کی حقیر بادشاہت لے کر میں کیا کروں گا؟‘‘ یہ سن کر بادشاہ بہت شرمندہ ہوا۔ اسے اپنی اصلیت کا علم ہو گیا تھا اور وہ جان چکا تھا کہ واقعی انسان کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں یا کوئی بڑی سلطنت لیکن جب وہ مجبور ہو تو اس کی قیمت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے۔

    باشاہ کے دل سے شان و شوکت اور اپنی امارت کا سارا ذوق و شوق اور ہر آرزو گویا جاتی رہی۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آج اسے ہدایت ملی۔ بادشاہ نے ایک اچھے حکم راں کے طور پر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ تب اس بزرگ نے بادشاہ کو گھنے جنگل سے نکالا اور محل تک پنہچایا۔ اس موقع پر بادشاہ نے بزرگ سے وعدہ کیا کہ وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اور اپنی رعایا کی خبر گیری کرتا رہے گا۔

    (ماخوذ از بادشاہ کی کہانیاں)

  • پھولوں کی سیج

    پھولوں کی سیج

    کسی نگر میں ایک راجہ راج کرتا تھا۔ اس کی ایک رانی تھی۔ اس رانی کو کپڑے اور گہنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔

    اسے کبھی سونے کا کرن پھول چاہیے، کبھی ہیرے کا ہار تو کبھی موتیوں کی مالا۔ کپڑوں کی تو بات ہی نہ پوچھیے۔ بھاگل پوری ٹسراور ڈھاکے کی ململ اور رات کو سونے کے لیے پھولوں کی سیج۔ پھول بھی کھلے ہوئے نہیں بلکہ ادھ کلیاں جو رات بھر میں آہستہ آہستہ کھلیں۔

    ہر روز نوکر ادھ کھلی کلیاں چُن چُن کر لاتے اور باندی سیج لگاتی۔ اسی طرح اتفاق سے ایک دن ادھ کھلی کلیوں کے ساتھ کچھ کھلی ہوئی کلیاں بھی سیج پر آ گئیں۔ اب تو رانی کو بہت ہی بے چینی ہوئی۔

    رانی کو نیند کہاں؟ کھلی کلیاں چبھ رہی تھیں۔ دیپک دیو (دیا) جو اپنی روشنی پھیلا رہے تھے۔ ان سے نہ رہا گیا۔ وہ بولے، ’’رانی! اگر تمہیں مکان بناتے وقت راج گیروں کو تسلے ڈھو ڈھو کر گارا اور چونا دینا پڑے تو کیا ہو؟ کیا تسلوں کا ڈھونا ان کلیوں سے بھی زیادہ برا لگےگا؟‘‘ رانی نے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ لاجواب ہو گئی۔ راجہ بھی جاگ رہے تھے۔ انہوں نے ساری باتیں سن لیں۔

    راجہ نے رانی سے سوال کیا۔ ’’دیپک دیو کے سوال کی آزماش کر کے دیکھو نا؟ ان کا حکم نہ ماننا اچھا نہیں۔‘‘ رانی راضی ہو گئی۔

    راجہ نے کاٹھ کا ایک کٹہرا بنوایا۔ اس میں رانی کو بند کروا دیا اور پاس بہنے والی ندی میں بہا دیا۔

    وہ کٹہرا بہتے بہتے ایک دوسرے رجواڑے کے کنارے جا لگا۔ وہ راجہ کے بہنوئی کے راج میں تھا۔ گھاٹ والوں نے کٹہرے کو پکڑ کر کنارے لگایا۔ کھولا تو اس میں ایک خوب صورت عورت نکلی۔ رانی کے زیور اور قیمتی کپڑے پہلے ہی اتار لیے گئے تھے۔ وہ معمولی پھٹے چیتھڑے پہنے ہوئے تھی مگر خوب صورت تھی۔ راجہ اسے نہ پہچان سکا اور نہ رانی نے ہی اپنا صحیح پتہ بتایا۔ کیوں کہ دیپک دیو کی بات کا امتحان بھی تو لینا تھا۔

    راجہ کا ایک نیا محل بن رہا تھا۔ اس لیے راجہ کو مزدوروں کی ضرورت تھی۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’مکان بنانے میں تسلا ڈھونے کا کام۔‘‘

    راجہ نے اس رانی کو تسلا ڈھونے کے کام پر لگا دیا۔ رانی دن بھر تسلا ڈھوتی اور مزدوری کے تھوڑے پیسوں سے اپنی گزر کرتی۔ دن بھر کی سخت محنت کے بعد جو روکھا سوکھا کھانا ملتا وہ اسے بہت ہی میٹھا اور لذیذ معلوم ہوتا اور رات بھر کھردری چٹائی پر خراٹے لے لے کر خوب سوتی۔ منہ اندھیرے اٹھتی اور نہانے دھونے سے فارغ ہوکر دل میں امنگ اور حوصلے کے ساتھ اپنے کام میں لگ جاتی۔

    اسی طرح رانی کو کام کرتے کرتے بہت دن گزر گئے۔ ایک دفعہ رانی کا خاوند اپنے بہنوئی کے ہاں کسی کام سے آیا۔ خاص کر دل بہلانے کے خیال سے۔ کیوں کہ بغیر رانی کے راجہ کیا؟ اکیلے راج کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا۔ اس طرح راجہ نے رانی کو وہاں اچانک دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی راجہ رانی کو پہچان گئے۔ ہاں محنت مزدوری کرنے سے رانی کچھ سانوی سلونی سی ہو گئی تھی اور کچھ موٹی تازی بھی۔ رانی بھی راجہ کو پہچان گئی۔

    پھر راجہ نے پوچھ ہی لیا۔ ’’کہو تسلوں کا ڈھونا تمہیں پسند آیا؟‘‘

    رانی مسکراتی ہوئی بولی۔ ’’کلیاں چبھتی تھیں مگر تسلے نہیں چبھتے۔‘‘

    راجہ کے بہنوئی دونوں کی بات چیت سن کر حیران ہوئے۔ انہوں نے بھید جاننا چاہا۔ راجہ نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بہنوئی راجہ کی بات سن کر مست ہو گئے۔ انہوں نے رانی کو کام سے سبک دوش کر کے اس کے آرام سے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام کر دیا۔

    کچھ دنوں کے بعد رانی سے راجہ نے پوچھا۔’’کہو اب کیا حال ہے۔‘‘

    رانی نے کہا۔ ’’وہ لطف کہاں؟ کاہلی اپنی حکومت قائم کرنی چاہے ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کلیاں پھر سے چبھنے نہ لگیں۔‘‘راجہ نے اپنی رائے ظاہر کی۔’’تو ایک کام کرو، ہم دونوں مل کر دن بھر مزدوری کیا کریں اور رات کو کلیوں کی سیج پر سوئیں۔‘‘

    رانی نے اپنا تجربہ بتا کر کہا۔’’تو پھر کلیوں کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ ویسے ہی گہری نیند آجایا کرے گی۔‘‘

    (متھلا، ہندوستان کی ایک لوک کہانی جس میں محنت مشقّت کی اہمیت اور اس کے نتیجے میں‌ ملنے والی حقیقی راحت اور آرام و سکون کو اجاگر کرتی ہے)