Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • نابینا لڑکی

    نابینا لڑکی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو یہ حقیقت جاننے کے بعد بھی کہ وہ لڑکی نابینا ہے اس سے شادی کرتا ہے جو اس کے باپ کے دوست کی بیٹی ہے۔

    اس لڑکی کی پہلی بارات آئی تھی تو لڑکے والوں کی جانب سے لڑکی پر بہتان لگاتے ہوئے اسے لوٹا دیا گیا تھا۔ اس شخص نے بھی ان باتوں کو سچ جانا تھا اور نابینا لڑکی کے باپ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔ مگر ایک رات اس نے سرگوشی کی وہ آواز سنی جس پر وہ اس نابینا اور بہتان لگائی گئی لڑکی سے شادی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ کہانی پڑھیے۔

    میرے گھر کے برابر دیوار بیچ، ایک قاضی صاحب کا مکان تھا۔

    بیچارے ایک زمانے میں بڑے متمول آدمی تھے، مگر ریاست کی زندگی خصوصاً ملازمت انقلاب کی تصویر ہوا کرتی ہے۔ ذرا راجہ صاحب کے کان بھرے اور بے قصور پر آفت برپا ہوگئی۔ اسی طرح ان شریف قاضی صاحب کے تموّل نے افلاس کا پہلو بدلا، اور فقط پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار کی قلیل رقم بہ ہزار دقت بچ بچا کر رہ گئی۔ اسی پر صبر شکر کے ساتھ قانع تھے اور اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتے تھے۔

    عربی اور فارسی کی قابلیت کے لحاظ سے دور دور تک ان کا شہرہ تھا، اور باہر سے اکثر اشخاص مشکل سے مشکل مسئلے حل کرانے آتے تھے۔

    قاضی صاحب کی صاحب زادی کی شادی کی تقریب جب ہوئی تو نکاح میں مجھے بھی مدعو کیا گیا مگر چند دو چند ضروریات کی وجہ سے میں شامل نہ ہو سکا۔ مگر ہمسایہ تھا، واقعات کی خبر برابر مل گئی۔ معلوم ہوا کہ دولھا کو پہلے سے اس لڑکی کی نسبت جس سے اب اس کی قسمت وابستہ ہونے والی تھی کچھ بھی معلوم نہ تھا، اور عین نکاح کے وقت نامعلوم کس بات کے علم پر اس نئی روشنی کے شیدا نے شادی سے قطعی انکار کر دیا۔ طرفین کی بڑی بدنامی ہوئی۔ اور آخر کار بارات واپس آگئی۔

    اس کے بعد خود دولھا سے میری راہ و رسم ہو گئی اور اس کی وجہ اس نے غریب لڑکی کی بدچلنی بیان کی۔ یہ سن کر میرے خیالات بھی قاضی صاحب کی طرف سے خراب ہونے لگے، اور میں نے ان سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ راستہ میں بھی ان سے کترا کر نکل جاتا۔ وہ دراصل مجھ سے محبت کرتے اور میرے والد بزرگوار کے بڑے سچّے دوست تھے۔

    اسی طرح چھ مہینے گزر گئے، اب گرمی کا موسم آ پہنچا۔ میری والدہ ضعیفہ تو صحن میں سویا کرتی تھیں۔ مگر میں اکیلا چھت پر لیٹا کرتا تھا۔ ایک دفعہ مجھے خوب یاد ہے جمعہ کا دن تھا۔ چلچلاتی گرمی تھی۔ پہر بھر دن سے ہوا بند تھی، دونوں وقت ملتے ہی مارا مارا کرکے میں نے کھانا کھایا اور سیدھا کوٹھے پر جا پڑا۔ چاروں طرف اجلی چاندنی چٹکی ہوئی تھی اور تارے اکا دکا نظر آتے تھے۔ دو تین گھنٹے یوں ہی کروٹیں بدلتے اور ہاتھ پاؤں مارتے کٹے۔ خداخدا کر کے 11 بجے ہوا ذرا سرسرائی اور کچھ جان میں جان آئی۔

    نیند کی غنودگی میں یکایک مجھے یہ معلوم ہوا کہ کوئی میرے سرہانے بول رہا ہے۔ میں فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھا۔ مگر آدمی تو آدمی پرچھائیں تک دکھائی نہ دی۔ اتنے میں ہوا کے جھونکے کے ساتھ ایک درد بھری آواز قاضی صاحب کی چھت سے آئی۔

    ’’خدا جانے کیونکر بدنامی ہوتی ہے۔ مگر خیر ربُّ العالمین خوب جانتا ہے، مجھے کسی سے غرض ہی کیا! پاک پروردگار!! میں نہیں چاہتی کہ میری شادی ہو۔ مجھ دکھیاری اندھی کو کون قبول کرے گا؟ مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ میں پاک ہوں اور باعصمت ہوں۔ آپ سے میں یہ چاہتی ہوں کہ میری بدنامی نہ ہو، اور برا کہنے والوں کا منہ تو بند کر دے۔‘‘ ان درد بھرے جملوں کے بعد پھر کوئی آواز قطعی نہ آئی۔

    یہ الفاظ میرے چوٹ کھائے ہوئے دل کے ساتھ نمک کا کام کررہے تھے، اور میری ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ صبح ہوتے ہی میں جناب والد صاحب کی اجازت پر ایک دوست کے ذریعے سے پیغام بھیجا اور قاضی صاحب کی غلامی میں اپنے آپ کو دینا چاہا۔ مگر ان سچّے اور پاک باز انسان نے اس کے جواب میں آب دیدہ ہو کر کہا کہ ’’ان سے کہہ دینا، ابھی صاحب زادہ ہو، نا تجربہ کار ہو۔ کیوں اپنی زندگی تلخ کرتے ہو۔ وہ بدنصیب لڑکی اندھی ہے۔ میں تمہارے والد کا نیاز مند ہوں۔ قیامت کے دن انھیں کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘

    بمشکل تمام میں نے قاضی صاحب کو کئی دنوں میں مجبور کر لیا، اور اس مصیبت زدہ نابینا لڑکی سے چپ چپاتے شادی کر لی۔ اب وہ میرے گھر میں آئی اور میری بیوی بن کر رہنے لگی۔ اس کی خصائل کی نسبت میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ صبر، قناعت، سچائی، ہمدردی، محبت اور پاک بازی کی مجسم تصویر تھی۔ اکثر اوقات پچھلی رات کبھی میری آنکھ کھل جاتی۔ تو میں ایک عجیب مؤثر نظارہ دیکھتا۔ وہ پلنگ پر لیٹے لیٹے نہایت عاجزی کے ساتھ دعا میں مشغول ہوتی اور ہزار ہزار طرح سے پہروں میری ترقّی، آرام اور آسائش کے لیے دعائیں مانگتی حتّٰی الامکان میں اس کی خوشی کا خیال از حد رکھتا۔ جب تک میری والدہ ضعیفہ زندہ تھیں۔ میری نابینا بیوی کو میرے حاضر و غائب میں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچی، مگر انھوں نے بھی ایک دن اس دارِ فانی کو الوداع کہا اور ان کے صدمے نے میری ہمت پست کردی۔

    اب گھر میں صرف ایک خادمہ تھی اور ڈیوڑھی پر ایک نوکر۔ والدہ صاحبہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی خادمہ نے اسے تکلیف پہنچانی شروع کی، مگرمیں سچ عرض کرتا ہوں، کبھی بھول کر بھی اس نے خادمہ کی شکایت مجھ سے نہیں کی، اور مجھے قطعی اس بات کی اطلاع نہیں ہوئی۔

    ایک روز اتفاقیہ خلافِ معمول دوپہر کو گھر میں واپس آیا۔ جب کہ میری بیوی کھانا کھا رہی تھی اور خادمہ دسترخوان کے پاس بیٹھی تھی۔ سالن وغیرہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا، اور اس ماما کو برا بھلا کہنے لگا کیوں کہ پورے خرچ پر بھی کھانا بہت خراب تھا، اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھے اچھا کھلاتی تھی اور میری غریب نابینا بیوی کے سامنے روکھی سوکھی روٹیاں اور بچا کھچا سالن رکھ دیتی تھی اور باقی سب اچھا اچھا تیر کر جاتی تھی۔

    اسی دن سے میں صبح کو جب تک میری قابلِ رحم بیوی ضروریات اور نماز سے فارغ نہ ہو لیتی تھی، باہر نہ جاتا، اور دوپہر سے پہلے واپس آکر کھانا اسی کے ساتھ کھاتا۔ پھر شام سے ہی گھر میں آپڑتا اور تمام رات کہیں نہ نکلتا۔ اس کی سچّی محبت اور راست بازی نے اس قدر میرے دل میں گھرکر لیا تھا کہ اکثر ماما کے نہ ہونے پر میں خود کام کرتا۔ اس کے لیے وضو وغیرہ کے لیے پانی لانے میں مجھے عار نہ تھا۔ اس طرح گھر میں گھسے رہنے کی وجہ دوست احباب مجھ پر فقرے کسنے لگے اور میرے ہم عمر میرا مذاق اڑانے لگے۔ مگر میں نے پروا نہ کی اور میرے معمول میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔

    اسی اثنا میں ان نئی روشنی کے نوجوان کی جس نے میری نابینا بیوی پر جھوٹا الزام لگایا تھا، بڑی دھوم دھام سے شادی ایک متمول لڑکی سے ہو گئی۔ مشکل سے ایک برس گزارا ہوگا کہ شکر رنجی ہوئی اور بڑھتے بڑھتے خانہ جنگیوں کی نوبت آئی۔ تمام شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ان کی بیوی آوارہ ہے۔ انھوں نے اس کو نکال دیا۔ اس نے میکے پہنچتے ہی نان نفقہ اور مہر کی نالش ٹھوک دی، اور نئی روشنی کے نوجوان کو چھٹی کا کھایا ہوا یاد آگیا۔ غرض خوب عرضی پرچہ ہوتا رہا۔ ان پر بیوی کی ڈگری ہوگئی۔ اب انھوں نے خاندان کے بزرگوں کے سامنے منت سماجت کی اور صلح ہو گئی۔ ان کی بیوی گھر میں آگئی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد پھر وہی تکا فضیحتی شروع ہوگئی۔ بہرحال ڈگری کے خوف سے وہ غصہ دباتے اور بیوی کی جوتیاں کھاتے رہتے۔

    اس دارِ ناپا ئیدار کے قانون کے موافق مجھ بدنصیب پر ایک اور مصیبت آئی۔ میری نابینا بیوی کو بخار آنے لگا، میں نے ڈاکٹر، حکیم، ملاّ، سیانے، دوا، ٹھنڈائی، گنڈا غرض کچھ نہ چھوڑا۔ مگر بخار میں کمی نہ ہونی تھی نہ ہوئی۔

    میں نے بالکل ہر جگہ کا آنا جانا چھوڑ دیا۔ وہ برابر چھ مہینے تک بیمار رہی۔ میں نے ہر قسم کی خدمت کی۔ یہاں تک کہ چوکی پر لے جانا۔ دوائی پلانا وغیرہ میرا روزانہ معمول تھا۔ کئی بار میرے اگال دان اٹھاتے ہی ابکائی آئی، اور جونہی میں نے اگال دان سامنے کیا اس نے ڈالنا شروع کیا جس سے میرے ہاتھ بھی بھر گئے۔ اگرچہ میں شہر میں نازک مزاج مشہور ہوں۔ لیکن بخدا کبھی مجھے ایسی کراہت نہیں آئی کہ محبت پر غالب آتی۔

    ایک دن اس نے متواتر بارہ گھنٹے آنکھ نہ کھولی اور مجھے از حد تشویش ہوئی۔ رات کے تقریباً نو بجے جب کہ اس کا سر میرے زانو پر تھا۔ اسے ہوش آیا۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا۔ ’’تم اس قدر کیوں تکلیف اٹھاتے اور مجھے شرمندہ کیے جاتے ہو؟ میں اس شرمندگی سے مر جاؤں تو اچھا ہے۔ تمہیں ماما پر اعتبار نہ ہو تو اپنی شادی کسی سے کرلو۔ وہ گھر کا انتظام خود کرے گی، اور تمہیں اس قدر درد سری نہیں کرنی پڑے گی۔ یہ نہ سمجھنا کہ مجھے سوکن کا خیال ہوگا۔ تمہارا یہی ایک احسان کہ تم نے میرا سرتاج بننا منظور کیا، ایسا ہے جس کا میں کسی طرح بدلہ نہیں دے سکتی۔ تم نے میرے ساتھ شادی کر کے واقعی اپنے اوپر بڑا ظلم کیا۔

    کچھ نہ پوچھیے کہ ان الفاظ نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میرے خون میں چکر آیا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے کلیجہ تھام لیا۔ حالت روز بروز خراب ہوتی گئی۔ قاضی صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اس لیے اس نے اپنی والدہ کو بلایا اور درد بھرے الفاظ کے ساتھ مہر معاف کر دیا، اور میں روتے روتے بے ہوش ہوگیا۔ اسی دن سے ہچکی لگ گئی۔ اس کے آخری الفاظ یہ تھے ’’اگر تم کو تکلیف ہوئی تو میری روح کو صدمہ ہوگا۔‘‘

  • حقّا تُو مولٰی تُو…

    حقّا تُو مولٰی تُو…

    کہتے ہیں بعض پرندوں کی بولیاں اور جو مختلف آوازیں وہ اکثر نکالتے ہیں، وہ بے مقصد، مہمل اور لایعنی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا اور ایسے کلمات ادا کرتے ہیں جو غور سے سننے پر ہماری سمجھ میں بھی آسکتے ہیں۔

    ایسی کئی کہانیاں اور حکایات مشہور ہیں جنھیں ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ یہ لیلیٰ خواجہ بانو کی ایک ایسی ہی کہانی ہے جس کے کردار فاختہ اور کوّا ہیں۔

    یہ دل چسپ اور سبق آموز والدین اپنے بچّوں کو سنا سکتے ہیں۔

    بچاری فاختہ جہاں دیکھو دیوار پر حقّا تو حقّا تو کہا کرتی ہے۔ اصل میں یہ اللہ میاں سے فریاد کرتی ہے۔ کیوں کہ کوّے نے اس پر بڑاظلم کیا ہے۔

    سنا نہیں؟ لوگ کہا کرتے ہیں محنت کریں بی فاختہ، کوّا میوہ کھائے۔ اس کی کہانی اس طرح ہے کہ ایک دفعہ کوّے اور فاختہ نے مل کر باغ لگایا تھا اور دونوں محنت اور نفع میں ساجھے تھے۔

    پہلے دن جب باغ میں پودے لگانے کا وقت آیا تو فاختہ کوّے کے پاس گئی اور اس سے کہا چل کوّے چل کر باغ میں درختوں کے پودے لگائیں۔ کوّے نے جواب دیا۔

    تُو چل میں آتا ہوں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی چھائیاں بیٹھا ہوں
    چلم تمباکو کو پیتا ہوں، پئیاں پئیاں آتا ہوں

    فاختہ نے کوّے کی بہت راہ دیکھی۔ جب وہ نہ آیا تو اس نے خود اکیلے ہی محنت کر کے پودے لگا دیے۔ اس کے بعد باغ میں پانی دینے کا وقت آیا تو فاختہ کوّے کے پاس پھر گئی کہ چلو چل کر پانی دے آئیں۔ کوّے نے پھر وہی جواب دیا کہ:

    تو چل میں آتا ہوں، ٹھنڈی ٹھنڈی چھائیاں بیٹھا ہوں
    چلم تمباکو پیتا ہوں پئیاں پئیاں آتا ہوں

    فاختہ نے پھر بہت راہ دیکھی مگر کوّا نہ آیا تو بچاری نے خود ہی پانی بھی دے لیا۔ اس کے بعد باغ کی رکھوالی کا وقت آیا۔ تب بھی کوّے نے یہی جواب دیا۔ جب میوہ پک گیا تو فاختہ پھر گئی کہ چلو چل کر میوہ توڑ لائیں۔ کوّے نے پھر وہی جواب دیا۔

    فاختہ نے میوہ توڑنے کی محنت اٹھائی اور میوہ باغ میں ایک جگہ جمع کردیا۔ دوسرے دن کوّے کے پاس گئی کہ چلو چل کر میوہ لائیں تو کیا دیکھتی ہے کہ کوّا گھر سے غائب ہے۔ وہ فوراً باغ میں گئی تو دیکھا سارا میوہ کوئی لے گیا۔ یعنی کوّا اس کے آنے سے پہلے آیا اور سب میوہ اٹھا کر کسی اور گھر میں لے گیا۔

    فاختہ بے چاری بہت روئی پیٹی۔ مگر کیا کر سکتی تھی۔ خدا کے سوا کوّے سے بدلہ کون لے سکتا تھا۔ اس واسطے وہ اس دن سے جب بولتی ہے یہی بولتی ہے، حقّا تُو، حقّا تُو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الہٰی تُو حق ہے، میرا حق کوّے سے دلوا۔

  • "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    ایک بادشاہ کو اس کے وزیروں اور مشیروں نے بتایا کہ حضور آپ کی سلطنت میں دو ایسے شخص بھی رہتے ہیں جن سے ان کے اڑوس پڑوس والے بے حد تنگ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں دربار میں طلب کرکے سرزنش کی جائے۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ مجھے ان کے متعلق تفصیل بتاؤ تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان کا قضیہ دربارِ شاہی میں لانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔

    وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت ان دونوں میں سے ایک حاسد ہے اور ایک بخیل، بخیل کسی کو کچھ دینے کا روادار نہیں اور حاسد ہر کسی کے مال سے حسد رکھتا ہے۔ بادشاہ نے ان دونوں کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم صادر کردیا۔

    اگلے روز جب دونوں بادشاہ کے حضور پیش ہوئے تو، بادشاہ نے پوچھا کہ تم دونوں کے متعلق مشہور ہے کہ ایک حسد میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا حد درجے کا کنجوس ہے، کیا یہ سچ ہے؟

    وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے نہیں بادشاہ سلامت، یہ سب افواہیں ہیں، جو نجانے کیوں لوگ پھیلا رہے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر کہا، اچھا پھر میں تم دونوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، وہ انعام تم دونوں کی مرضی کا ہوگا، جو مانگو گے ملے گا، اور جو پہل کرتے ہوئے مانگ لے گا اسے تو ملے گا ہی مگر دوسرے کو وہی انعام دگنا کرکے دیا جائے گا۔

    اب دونوں کشمکش میں گرفتار ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسرا ہی پہل کرے، کنجوس نہیں چاہتا تھا کہ میں پہلے بول کر زیادہ انعام سے محروم رہوں، اور حاسد اسی سوچ میں تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میں مانگوں، اس کا دگنا انعام اس بخیل کو بھی ملے۔ وہ بھی بنا مانگے۔ اس کشمکش میں دنوں نے کافی وقت گزار دیا مگر بولنے میں پہل کسی نے بھی نہ کی۔

    اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ان دونوں پر ایک جلّاد مقرر کیا، اسے حکم دیا کہ تین تک گنتی گنو اور اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی بولنے میں پہل نہ کرے تو قید خانے میں ڈال دو،

    جلّاد نے جیسے ہی گننا شروع کیا تو حاسد فوراً بول اٹھا۔

    "بادشاہ سلامت، میری ایک آنکھ نکال دیجیے!”

    (قدیم عربی حکایت سے ماخوذ)

  • بھونرا

    بھونرا

    آج ننّھی کنول کو زکام ہو گیا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔

    گھر میں امّی اور نرسری میں آنٹی بہت منع کرتیں، بہت روکتیں، آنٹی نرسری میں سمجھاتیں، مگر ربر کے غباروں میں پانی بھر کر اس کا فوّارہ بنانا، اسے دوسروں پر پھینکنا اور پانی کے سارے کھیل اسے بہت اچھے لگتے تھے اور ننگے پاؤں گھومنے میں تو اسے بہت ہی مزہ آتا تھا۔ بس پھر اسے زکام ہو گیا۔ ناک سے پانی، آنکھوں سے پانی، آنکھیں لال۔

    ’’آچھیں‘‘ کھوں، کھوں اور پھر بخار بھی ہوگیا۔ اب وہ نرسری کیسے جاتی۔ تو اسے چھٹی کرنی پڑی۔

    گھر پر اکیلے لیٹے لیٹے اس کا جی بہت گھبرا رہا تھا۔ امّی گھر کے کام میں لگ گئی تھیں۔ بہن بھائی سب اپنے اپنے اسکول چلے گئے تھے اور ابّا اپنے دفتر۔ پڑوس کے بچّے بھی سب اپنے اپنے اسکول جاچکے تھے اور باہر گلی میں کھیلنے پر امّی بہت خفا ہوتی تھیں۔

    جب لیٹے لیٹے اس کا جی گھبرایا تو وہ چپکے سے اٹھی اور گھر کے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی گئی اور آہستہ آہستہ اپنی گیند سے کھیلنے لگی۔ مگر اکیلے کب تک کھیلتی۔ بس اس کا دھیان پھولوں پر ادھر سے ادھر اڑتی تتلیوں کی طرف چلا گیا۔

    رنگ برنگی تتلیاں ،لال پیلی نیلی تتلیاں، پھولوں پر ناچتی پھررہی تھیں۔ وہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بھونرے پر پڑ گئی۔

    بھن بھن کرتا کالا کلوٹا بھونرا جلدی جلدی ایک پھول سے دوسرے پھول پر اور دوسرے سے تیسرے پر اڑتا پھر رہا تھا۔ جب وہ کسی پھول پر بیٹھتا تو پھول کی پتلی سی ڈنڈی جھولنے لگتی۔ ننّھی کنول تھوڑی دیر بھونرے کوغور سے گھورتی رہی اور پھر جیسے کوئی اپنے آپ سے بولنے لگے، اس نے بولنا شروع کردیا۔

    ’’میاں بھونرے۔ میاں بھونرے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اور تم اتنے کالے کلوٹے کیوں ہو؟ یہ سب تتلیاں تو کتنی رنگ برنگی اور سندر ہیں؟‘‘

    ننّھی کنول ایک آواز سن کر ایک دم چونک پڑی۔

    ’’کیا تم میری کہانی سنو گی؟‘‘ اس نے پھر وہی آواز سنی اور پھر اسے یقین ہوگیا کہ یہ بھونرے کی ہی آواز ہے۔ بھونرا بھن بھن کررہا تھا۔ اور اسی میں سے یہ آواز آرہی تھی۔

    ’’کیوں!‘‘ کیا تمہاری کوئی کہانی ہے؟‘‘ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں سنو! بھونرے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونے، چاندی، ہیرے سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے، ہیرے موتی کے پردے تھے۔ میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔ یہ پھول، پتّے، ہری ہری گھاس سب سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اور ہاں مجھے چڑیو ں کی چوں چوں، کبوتروں کی غٹرغوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔

    بس میں نے ایک دم حکم دیا۔ یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتّے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔ چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں کے پودے لگائے جائیں، ان میں سونے چاندی کی گھنٹیا‌ں باندھی جائیں۔‘‘

    ’’بس میراحکم ہونے کی دیر تھی۔ تمام باغ اجڑ گئے۔ چڑیاں مرگئیں۔ تتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگا دی گئیں۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ مت پوچھو!‘‘

    ’’کیا ہوا‘‘؟ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’میرے دیس کے بچے جو باغوں میں کھیلتے پھرتے تھے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے، چڑیوں کے میٹھے گیت سنتے تھے وہ سب اداس ہوگئے۔ اور پھر بیمارہوگئے۔ اب پڑھنے لکھنے میں ان کا دل نہ لگتا تھا۔ اس لیے بچّوں کے ماں باپ پریشان ہوگئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ انہیں بہت غصہ آیا اور ایک دن دیس کے سارے بچوں نے اور ان کے ماں باپ نے میرے محل کو گھیر لیا۔ مجھے محل سے نکال دیا۔ میرے سارے بدن پر کالک مل دی۔

    انہوں نے کہا تم نے ہمارے دیس کو اجاڑ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو دکھی کر دیا ہے۔ انہیں بیمار ڈال دیا ہے۔ تمہارا سارا سونا چاندی ہمارے کس کام کا ہے۔ جاؤ، یہاں سے چلے جاؤ۔ باغ کی روٹھی ہوئی بہاروں، پھولوں، کلیوں، ہری ہری گھاس اور جھومتے پودوں کو لے آؤ، ان سب ناچتی گاتی چڑیوں اور رنگ رنگیلی تھرکتی تتلیوں کو لاؤ جنہیں تم نے دیس سے بھگا دیا ہے۔ ان سب کو منا لاؤ تو اس دیس میں آنا۔

    ’’بس اسی دن سے میں روٹھے پھولوں، کلیوں اور تتلیوں کو مناتا پھر رہا ہوں، میں تمہارے اس ہرے بھرے دیس میں پھولوں، پتّوں اور ہری ہری گھاس کی خوشامد کرتا پھررہا ہوں۔ ننھی کنول! کیا تم ان سے میرے دیس چلنے کے لیے کہہ دوگی۔ اب مجھے پھولوں ،پتّوں، کلیوں، تتلیوں، چڑیوں سب سے بہت پیار ہو گیا ہے۔‘‘

    ننھی کنول کی امی کو جب اپنے کام سے ذراچھٹی ہوئی تو وہ اسے دیکھنے اس کے بستر کے پاس آئیں اور جب وہ وہاں نہ ملی تو وہ سیدھی باغ میں پہنچیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کنول پھولوں کی اک کیاری کے پاس دھوپ میں لیٹی سورہی ہے اور ایک بھونرا اس کے پھول جسے لال لال کلے کے پاس بھن بھن کرتا ہوا اُڑ رہا ہے۔

    (مصنّف: سیدہ فرحت)

  • لاٹری ٹکٹ

    لاٹری ٹکٹ

    ملک کمال صاحب ایک مڈل کلاس طبقہ کے آدمی تھے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک پوش علاقے میں رہتے تھے۔

    اچھی آمدنی تھی، جس پر وہ صابر و شاکر تھے۔ شام کا ہلکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد صوفے پر اخبار پڑھنے بیٹھ گئے۔

    ‘‘میں تو آج صبح اخبار پڑھنا بھول ہی گئی۔ ’’ ان کی بیگم نے میز صاف کرتے ہوئے مخاطب کیا۔

    ‘‘دیکھو کیا قرعہ اندازی کی لسٹ آئی ہے؟’’

    ‘‘او، ہاں، لیکن کیا تمہارے ٹکٹ کا وقت ختم نہیں ہو گیا؟’’

    ‘‘نہیں، میں نے منگل ہی کو نئی لاٹری لی ہے۔’’

    ‘‘نمبر کیا ہے؟’’

    ‘‘لاٹری سیریز 9499 نمبر 26’’

    ‘‘ٹھیک ہے، دیکھتے ہیں۔ ’’

    کمال صاحب لاٹری پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اصولاً وہ لاٹری لسٹ دیکھنے پر راضی بھی نہ ہوتے لیکن اس وقت وہ بالکل فارغ تھے، اور اخبار اُن کی آنکھوں کے سامنے۔ انہوں نے نمبروں کے کالم پر اوپر سے نیچے انگلی پھیری۔ فوراً ہی جیسے ان کے شکوک وشبہات کا تمسخر اڑانے کے لئے اوپر سے دوسری لائین پر ان کی نگاہیں 9499 پر رک گئیں۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

    اخبار ان کے گھٹنوں پر سے پھسل گیا۔ ٹکٹ کا نمبر دیکھے بغیر، جیسے انہیں کسی نے ٹھنڈے پانی کی پھوار سے نہلا دیا ہو، انہوں نے معدے میں خوشگوار سی ٹھنڈک محسوس کی، انہوں نے اپنی بیگم کو آواز دی۔
    ‘‘کلثوم!9499 تو یہا ں ہے۔’’

    یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بالکل خالی خالی تھی۔ ان کی بیگم نے ان کے حیرت زدہ اور گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور سمجھ گئی کہ وہ مذاق نہیں کررہے۔ زرد پڑتے ہوئے تہ کیا ہوا میز پوش واپس میز پر گراتے ہوئے انہوں نے پوچھا،‘‘9499۔’’

    ‘‘ہاں….ہاں….واقعی….’’

    ‘‘اور ٹکٹ نمبر؟’’

    ‘‘او….ہاں….ٹکٹ کا نمبر بھی لکھا ہے۔ لیکن رکو۔ ذرا انتظار کرو۔ سیریز نمبر تو ہمارا ہی ہے۔ بہرحال….’’

    بیگم کو دیکھتے ہوئے کمال صاحب مسکرائے، اس بچے کی طرح جسے کوئی روشن چمکدار چیز مل گئی ہو۔ ان کی بیگم بھی مسکرا دیں، دونوں ٹکٹ نمبر دیکھے بغیر خوش تھے۔ مستقبل کی خوش بختی کی امید تھی ہی اتنی مزے دار اور سنسنی خیز۔

    کافی دیر خاموش رہنے کے بعد کمال صاحب نے پھر کہا ‘‘سیریز تو ہماری ہی ہے۔ اس لئے امید ہے ہم جیتے ہیں۔ یہ محض امید ہی ہے، پر ہے تو سہی۔ ’’

    ‘‘اچھا دیکھو! ’’

    ‘‘ذرا صبر کرو ۔ ناامید ہونے کے لئے کافی وقت پڑا ہے، اوپر سے دوسری لائن ہے۔ انعام پانچ کروڑ روپے ہے۔ یہ رقم نہیں، طاقت اور سرمایہ ہے۔ ایک منٹ میں لسٹ دیکھوں گا۔ پھر ….26….آہا’’

    ‘‘میں کہتا ہوں اگر ہم واقعی جیت گئے تو….’’

    دونوں میاں بیوی ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کو خاموشی سے گھورنے لگے۔ جیتنے کی امید نے انہیں حیران و پریشان کر دیا تھا۔

    وہ نہ کہہ سکتے تھے نہ خواب دیکھ سکتے تھے کہ انہیں یہ روپے کس لئے چاہییں؟ وہ کیا خریدیں گے، وہ کہاں جائیں گے۔ وہ صرف 9499 اور پانچ کروڑ روپے کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔

    چشمِ تصوّر سے دیکھ رہے تھے، لیکن اس خوشی کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے جو ممکن ہو سکتی تھی۔

    کمال صاحب اخبار ہاتھ میں پکڑے ایک سرے سے دوسرے تک ٹہل رہے تھے۔ اور جب وہ پہلے جھٹکے سے نکلے تو انہوں نے خواب دیکھنے شروع کئے۔

    ‘‘اگر ہم جیت گئے۔ ’’ انہوں نے کہا،‘‘یہ ایک نئی زندگی ہو گی، مکمل کایا پلٹ۔ ٹکٹ تمہارا ہے، اگر یہ میرا ہوتا تو میں سب سے پہلے تین کروڑ کی جائیداد خریدتا۔ ایک کروڑ فوری اخراجات کے لئے، جیسے گھر کی نئی سجاوٹ، سیروتفریح، قرض کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ۔ باقی ایک کروڑ بنک میں رکھ دیتا اور سالانہ منافع لیتا۔ ’’

    ‘‘ہاں….جائیداد، اچھا خیال ہے۔ ’’بیگم نے ہاتھ اپنی گود میں رکھ کر صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

    ‘‘ڈیفنس، گلشن یا سی سائیڈ کسی اچھے علاقے میں کہیں….سب سے پہلی بات ہمیں بنگلہ یا فارم ہاؤس نہیں چاہیے۔ بلکہ آمدنی میں اضافہ کا سوچناچاہیے۔’’

    اس طرح کے خیالات ان کے دماغ پر چھانے لگے۔ ہر ایک پہلے سے زیادہ دلفریب اور شاعرانہ۔

    ‘‘ہاں ،جائیداد خریدنا اچھا رہے گا۔’’ بیگم کلثوم نے کہا۔ وہ بھی خواب دیکھ رہی تھی۔ ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ اپنے خیالات سے خوش ہے۔
    ملک کمال صاحب نے خزاں کی بارشوں کا تصور کیا۔ سرد شاموں کا اور گرمیوں کی چھٹیوں کا۔

    کمال صاحب رکے اور بیوی کو دیکھنے لگے۔ ‘‘جانتی ہو گرمیوں اور برسات کے موسم میں شمالی علاقہ جات یا بیرونِ ملک گھومنا ہی بہتر رہے گا۔’’

    انہوں نے دوبارہ سوچنا شروع کردیا کہ ایسے موسم میں شمالی علاقہ جات یا ملک سے باہر جانا، مری، گلگت، سوات یا لندن، پیرس کتنا اچھا لگے گا۔
    ‘‘میں بھی یقیناً باہر جاؤں گی۔ ’’ بیگم کلثوم بھی چہک کر بولیں، ‘‘لیکن ٹکٹ کا نمبر تو دوبارہ کنفرم کر لو۔ ’’

    ‘‘صبر، صبر۔’’

    وہ پھر کمرے میں چکر لگانے لگے، اور سوچنے لگے، اگر ان کی بیوی واقعی باہر ملک گئی تو کیا ہو گا؟

    اکیلے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یا پھر ایسی عورت کے ساتھ جو لاپروا سی ہو، حال میں زندہ رہے نہ کہ ایسی جو سارے سفر کے دوران بچوں کے بارے میں بولتی رہے۔ ہر دھیلے کے خرچنے پر آہیں بھرے۔
    کمال صاحب نے بیوی پر نگاہ دوڑاتے ہوئے سوچا۔

    ‘‘لاٹری ٹکٹ اس کا ہے، لیکن اس کے بیرون ملک جانے کا فائدہ۔ اس نے باہر کیا کرنا ہے۔ وہ ہوٹل میں بند ہو جائے گی۔ مجھے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے گی۔’’

    زندگی میں پہلی بار انہوں نے سوچا کہ اب بیوی کی عمر ڈھل رہی ہے۔ وہ عام سی دکھائی دیتی ہے۔ کھانے پکانے کی بو سے بھری رہتی ہے۔ جب کہ وہ خود ابھی تک جوان تروتازہ اور صحت مند ہیں۔ دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔

    ‘‘بے شک یہ بیوقوفانہ سوچ ہے پر وہ ملک سے باہر جائے کیوں؟ اس نے کرنا کیا ہے؟ وہ ضرور میرے رستے میں رکاوٹ رہے گی۔ میں اس کا محتاج رہوں گا۔ مجھے معلوم ہے جونہی رقم ملے گی وہ عام عورتوں کی طرح رقم کو تالے لگا کر رکھے گی۔ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے گی اور مجھے ہمیشہ رقم کے لئے ترسائے گی۔’’

    کمال صاحب نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں کے بارے میں سوچا۔ کمال صاحب نے اپنے رشتہ داروں اور ان کے چہروں کو یاد کیا۔ انہیں اپنی بیوی کا چہرہ بھی قابل نفرت لگا۔ ان کے دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ انہوں نے کینے بھرے دل سے سوچا۔

    اسے رقم کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں پھر کنجوس بھی ہے۔ اگر وہ جیت گئی تو مجھے سو سو روپے پر ٹرخاتی رہے گی۔ اور باقی کہیں تالا لگا کر بند کردے گی۔

    انہوں نے بیوی کی طرف دیکھا مسکراہٹ کے ساتھ نہیں بلکہ نفرت سے۔ بیوی نے بھی انہیں نفرت اور غصے سے دیکھا، اس کے اپنے خیالی پلاؤ اور پروگرام تھے۔

    ‘‘سیریز نمبر 94990 ٹکٹ نمبر چھبیس 26 …. ارے نہیں یہاں تو چھیالیس 46 ہے۔’’

    فوراً نفرت اور امید دونوں غائب ہو گئے۔ کمال صاحب نے غصہ سے اخبار کو صفحہ کو پرزہ پرزہ کر ڈالا۔

    اب دونوں میاں بیوی کو اپنے کمرے تاریک اور چھوٹے لگنے لگے اور شام کا جو کھانا کھایا تھا وہ ان کے معدے پر بوجھ ڈالنے لگا۔ شام لمبی اور تھکا دینے والی محسوس ہونے لگی۔

    ‘‘لعنت ہے،’’ کمال صاحب بدمزاجی اور چڑچڑاہٹ سے بولے۔ ‘‘جہاں قدم رکھو ہر قدم کے نیچے کاغذ کے پرزے اور کوڑے کے زرّے آتے ہیں، کمروں کو کبھی صاف نہیں کیا جاتا۔ بندہ گھر سے باہر جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ’’ یہ کہتے ہی وہ غصہ سے گھر سے باہر نکل گئے۔

    (روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی کا اردو ترجمہ جس میں اچانک لاٹری نکلنے کی خبر پر شوہر اور بیوی کی نفسیات دکھائی گئی ہے، مترجم نے اردو قارئین کی دل چسپی کے لیے کرداروں کو مقامی نام دے دیے ہیں)

  • ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا۔ مینا کا گھر موم کا تھا اور کوّے کا نون کا تھا۔

    مینا نے ایک دن کھچڑی پکائی۔ بازار بند ہوگیا تھا۔ نمک نہ ملا تو اس نے اپنے بچّے کو کوّے کے پاس بھیجا کہ اپنے گھر میں سے ذرا سا نون دے دے۔ مینا کے بچّے نے جب کوّے سے یہ بات جاکر کہی تو کوّا بہت خفا ہوا اور کہنے لگا جا، جا بڑا بچارا نمک مانگنے والا آیا، تیری ہنڈیا کی خاطر میں اپنے گھر کی دیوار توڑ دوں، تب تجھ کو نمک دوں؟ ایسے بیوقوف مینا کے محلّہ میں رہتے ہوں گے۔

    مینا کا بچہ اپنا سا منہ لے کر ماں کے پاس آگیا اور اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا کی کہ الہٰی گھمنڈ کرنے والوں کو نیچا دکھا، یہ دعا کرنی تھی کہ ایسا مینہ برسا کہ جل تھل بھر گئے۔ کوّے کا گھر تو نون کا تھا، سب بہہ گیا۔ مینا کا گھر موم کا تھا، اس کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا۔

    جب کوّے کا گھر برباد ہوگیا تو وہ مینا کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا بی مینا رات کی رات مجھے اپنے گھر میں ٹھہرا لو۔ مینا نے جواب دیا تُو نے غرور کا کلمہ بولا تھا اور مجھ کو نمک نہ دیا تھا، خدا نے اس کا بدلہ دکھایا ہے، اب میں تجھے گھر میں کیوں ٹھہراؤں، تُو بڑا خود غرض اور خدا کا گنہگار بندہ ہے۔ کوّے نے بہت عاجزی کی تو مینا کو ترس آگیا اور اس نے خیال کیا ایسا نہ ہو خدا مجھ سے بھی ناراض ہوجائے کہ تُو نے مصیبت زدہ کی مدد کیوں نہ کی، اس واسطے اس نے دروازہ کھول دیا اور کوّے کو اندر بلا لیا۔

    کوّے نے کہا آپا مینا میں کہاں بیٹھوں۔ مینا بولی چولھے پر بیٹھ جا۔ کوّے نے کہا۔

    میں جَل مروں گا، میں جَل مروں گا۔

    مینا نے کہا اچّھا جا میری چکّی پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں پس مروں گا، میں پس مروں گا۔

    مینا نے کہا اچھا میرے چرخے پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں کٹ مروں گا، میں کٹ مروں گا۔

    تو مینا نے کہا اچھا کوٹھری میں جا بیٹھ، وہاں میرے چنے بھرے ہوئے ہیں، ان کو نہ کھا لیجو۔ کوّے نے کہا، توبہ ہے آپا مینا، تم بھی کیسی بدگمان ہو۔ تم مجھ پر احسان کرو، گھر میں جگہ دو اور میں تمہارے ہاں چوری کروں گا۔ توبہ توبہ، اس کا تو خیال بھی نہ کرنا۔

    مینا نے کوٹھری کھول دی اور کوّا اندر جاکر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کو مینا کی آنکھ کھلی تو کوٹھری میں کچھ کھانے کی آواز آئی۔ مینا نے پوچھا بھائی کوّے کیا کھا رہے ہو۔ بولا آپا مینا میری سسرال سے بن آئے تھے۔ وہ سردی میں چبا رہا ہوں۔

    مینا چپکی ہوئی۔ پچھلی رات کو مینا کی آنکھ پھر کھلی تو کھانے کی آواز آئی اور مینا نے پھر پوچھا تو کوّے نے وہی جواب دیا۔

    کوّا سب جانوروں سے پہلے جاگا کرتا ہے۔ مینا ابھی بچھونوں سے اٹھی بھی نہ تھی جو کوّا کوٹھری سے نکل کر بھاگ گیا۔ مینا نے اٹھ کر دیکھا تو ساری کوٹھری خالی تھی۔ کوّے نے سب چنے کھالئے تھے۔

    مینا نے کہا، بد ذات اور شریر کے ساتھ احسان کرنے کا یہ بدلہ ملتا ہے۔

    (از قلم لیلیٰ خواجہ بانو)

  • تین انگوٹھیاں، تین سو سال (ایک حکایت)

    تین انگوٹھیاں، تین سو سال (ایک حکایت)

    کہتے ہیں مشہور بادشاہ نوشیروان نے ایک عالی شان محل تعمیر کروانے کی غرض سے جس مقام اور جگہ کا انتخاب کیا، وہاں ایک بڑھیا کی جھونپڑی بھی تھی۔

    معماروں نے بادشاہ کے حکم پر کام شروع کردیا، لیکن جیسے جیسے محل کی عمارت تعمیر کرتے گئے اور جب اس کی وسیع چار دیواری بنانے کا موقع آیا تو جھونپڑی ان کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔

    نوشیروان کو اس کا علم ہوا تو اس نے بڑھیا کو طلب کرکے اس سے کہا، ’’جو تیری مرضی ہو تو یہ جھونپڑی مجھے دے دے، اس کے بدلے جہاں کہیں تیری خوشی ہو، محل بنوا دوں گا۔‘‘

    بڑھیا نے نہایت ادب اور عاجزی سے کہا، ’’مجھے اس سے زیادہ اور کس بات کی خوشی ہوگی ہے کہ اسی جگہ رہوں تو ہر روز آپ کا دیدار کرنے کا موقع ملے گا۔‘‘

    بادشاہ نے کہا۔ ’’جیسے تیری خوشی بڑھیا، میں تجھ پر اس حوالے سے کوئی جبر نہیں کرتا۔‘‘ نوشیروان کے حکم پر جھونپڑی ویسی کی ویسی ہی رہی اور محل تعمیر کرلیا گیا۔ وہ جھونپڑی اب اس عالی شان قصر کے ایک طرف وسیع باغ کے احاطے میں آچکی تھی۔

    اس بڑھیا کے پاس ایک گائے تھی، وہ آتے جاتے قصر شاہی میں گندگی کرتی، لیکن نوشیروان کچھ نہ کہتا۔ اس نے پہلے بھی بڑھیا پر جبر نہیں‌ کیا تھا اور بعد میں بھی اس کی ناگوار حرکت یا نالائقی پر اسے کچھ نہ کہتا۔ وزرا اور درباری نوشیروان کے ضبط و برداشت کے قائل ہو چکے تھے۔ اس کا عدل تو مشہور ہی تھا، اب اس کی برداشت اور تحمل مزاجی بھی ان کے سامنے تھی۔

    جب نوشیروان نے اس منزلِ فانی سے کوچ کیا اور اس کی وفات کے لگ بھگ تین سو سال کے بعد ایک بادشاہ کسی سبب اپنے مصاحبوں سمیت اس کی قبر پر آیا اور اس کے مرقد کو کھودا تو دیکھا کہ اس کا مردہ جسم گویا گہری نیند میں ہے، اور اس کی انگلی میں بڑی جواہر جڑی انگوٹھیاں موجود ہیں جن پر تین نصیحتیں لکھی ہوئی ہیں۔

    ایک انگوٹھی پر لکھا تھا، ’’دوست دشمن سب سے دار مدار رکھو۔‘‘

    دوسری پر ’’سب کام مشاورت سے کرو۔‘‘ اور تیسری پر نقش عبارت تھی ’’ قناعت پکڑو۔‘‘

    تب اس بادشاہ نے اپنے وزیروں اور مصاحبوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ نوشیروان نے ان نصیحتوں پر خوب عمل کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج تین سو برس بعد بھی ان کا عدل و انصاف اور رحم دلی مشہور ہے۔

  • بھیڑ اور درہم (حکایتِ رومی)

    بھیڑ اور درہم (حکایتِ رومی)

    ایک شخص اپنی بھیڑ کو کہیں لے کر جارہا تھا۔ اس نے ایک لمبی رسّی سے اس بھیڑ کو باندھ رکھا تھا۔

    راستے میں ایک چور نے موقع دیکھ کر رسّی کاٹی اور بھیڑ کو لے کر چل دیا۔ مالک کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ دائیں‌ بائیں دوڑنے لگا۔

    اتنے میں‌ چور اس بھیڑ کو چھپا کر ایک کنویں پر آ بیٹھا اور زار قطار رونے اور واویلا کرنے لگا۔ بھیڑ کے مالک کو شبہ تو ہوا، لیکن یہ حالت دیکھ کر اس نے پوچھا، اے بھائی کیوں روتا ہے؟

    اس (چور) نے جواب دیا کہ میری روپوں کی تھیلی کنویں‌ میں گرگئی ہے، اگر کسی کو کنویں میں اترنا آتا ہے تو اترے اور تھیلی نکال لائے، اس کا پانچواں‌ حصّہ میں‌ خوشی خوشی اسے دے دوں گا، میری تھیلی میں پانچ سو درہم ہیں۔

    بھیڑ والے نے دل ہی دل میں سوچا کہ یہ دس بھیڑوں‌ کی قیمت ہے۔ اگر ایک دروازہ بند ہُوا تو کیا ہے، دس دروازے کھل گئے۔ میری ایک بھیڑ گئی تھی، خدا نے بدلے میں‌ اونٹ دلوا دیا۔

    وہ فوراً کپڑے اتار کنویں میں‌ اترا۔ ادھر چور اس کے کپڑے بھی سمیٹ کر بھاگ گیا۔

    سبق: ہوشیار آدمی کو چاہیے سیدھے راستے سے گھر جائے، جہاں احتیاط نہیں ہوتی اور سوچ سمجھ کر کام نہیں‌ کیا جاتا، وہاں لالچ طاعون لے آتا ہے۔

    (کتاب حکایاتِ رومی سے انتخاب جس کے مترجم مرزا شاہ صاحب لبیب ہیں)

  • سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    ایران کے ایک قدیم شہر کا نام شاید آپ نے بھی سنا ہو، جو خراساں کے صوبے کا صدر مقام رہا ہے۔ یہ شہر ہے نیشا پور۔ اس شہر کے ایک سوداگر کی یہ کہانی سبق آموز ہی نہیں، دل چسپ بھی ہے۔

    نیشا پور میں ایک سوداگر رہتا تھا جو خود کو نہایت عقل مند سمجھتا تھا۔ وہ شہروں شہروں گھوم پھر کر اپنا مالِ تجارت فروخت کرتا اور جو رقم حاصل ہوتی اسے لے کر گھر لوٹ جاتا۔ کبھی وہ قریبی شہروں اور مضافات کا چکر لگاتا اور کبھی کئی دنوں کا سفر کرکے دور کے علاقوں‌ تک بھی چلا جاتا۔ قسمت سے وہ اچھا کمانے لگ گیا تھا۔ اسے تجارت میں‌ زبردست نفع ہوا جس نے اس کا دماغ خراب کردیا۔ وہ خود کو نہایت دانا اور عاقل سمجھنے لگا تھا اور دوسرے لوگوں کو کم عقل۔ اسی زعم میں اس نے خود کو عاقل مشہور کردیا۔ لوگ اسی نام سے اسے جاننے اور پکارنے لگے تھے۔ اس ’’عاقل‘‘ کا اصل نام نصیر الدّین تھا۔

    وہ جس شہر میں نادر و نایاب اشیاء کے بارے میں سنتا، اور مشہور ہنرمندوں یا دست کاروں کے مال کی بات اس کے کانوں میں پڑتی، کوشش کرتا کسی طرح اس تک پہنچ کر مال کا سودا کرلے اور اسے منافع کے ساتھ فروخت کرے۔ واقعی، وہ ایسی اشیاء لے کر آتا کہ دیکھنے والے فوراً متوجہ ہوتے اور منہ مانگے دام دینے کو بھی تیّار ہوجاتے تھے۔

    ایک دن وہ بازار میں بیٹھا اپنے دوست سے باتیں کررہا تھا۔ ایک چڑی مار اس کے قریب سے گزرا جو گا رہا تھا۔

    سونے کی چڑیا
    جادو کی پڑیا
    بجتا ہے گھنٹہ
    دیتی ہے انڈا

    اس نے جو یہ سنا تو اپنے دوست سے رخصت لی اور چڑی مار کے پیچھے چل دیا۔ چڑی مار کے پاس سب پنجرے خالی تھے۔ بس ایک پنجرے میں خاکی رنگ کی چڑیا اپنے پر پھڑپھڑا رہی تھی۔ سوداگر چلتے چلتے سوچنے لگا کہ سونے کی چڑیا مجھے خرید لینی چاہیے۔ اگر یہ واقعی سونے کا انڈا دیتی ہے تو پھر مجھے اتنی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔‘‘ اسے اچانک خیال آیا بچپن میں اس کی دادی اس کی ماں کو میکے جانے پر کہا کرتی تھیں۔

    ’’تم کیا سونے کی چڑیا ہو جو میکے چلی گئیں، تو میرا بیٹا غریب ہوجائے گا۔‘‘

    تو گویا سونے کی چڑیا ہوتی ہے۔ بس اس کی یہ خواہش تھی کاش اس کے پاس وہ چڑیا واقعی ہو۔ ایک مقام پر پہنچ کر سوداگر نے چڑی مار کو روکتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی کیا یہ واقعی سونے کی چڑیا ہے، یہ تو عام سی چڑیا لگ رہی ہے۔‘‘

    چڑی مار نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور جان گیا کہ کوئی بے وقوف شخص ہے جو امیر ہونا چاہتا ہے۔ اس نے نہایت پُراعتماد لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی چڑیا نہیں جادو کی پڑیا ہے۔‘‘

    چودھویں رات کو جب دور کہیں گجر بجتا ہے، یہ سونے کا انڈا دیتی ہے۔ اس چڑیا نے مجھے امیر کردیا ہے۔ میرے گھر میں اب تک دس انڈے دے چکی ہے۔ میرے ملک چلو وہاں میرے بڑے شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہیں۔ میں اسے نہیں بیچتا، مگر یہ اپنے مالک کو صرف دس انڈے دیتی ہے اس کے بعد اگر کوئی اسے خرید لے۔ پھر اس کے پاس مزید دس انڈے اور اسی طرح دوسرے مالک کو پھر دس انڈے دے گی۔‘‘

    سوداگر چڑی مار کی باتوں میں آگیا اور چڑیا خرید لی۔ اس کے بدلے میں‌ اس نے اپنا سب سامانِ تجارت اور گھر بار کا سارا سامان تک چڑی مار کو دے دیا۔ چڑی مار اگلے روز بازار میں پھر کسی کو نظر نہ آیا۔

    سوداگر سارا مال و دولت، گھر بار ایک چڑیا کے عوض چڑی مار کو فروخت کر کے، ایک جھونپڑی میں چڑیا کا پنجرہ رکھ کر رہنے لگا۔ وہ امیر ترین شخص بننے کا خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اسے کچھ پُرخلوص احباب نے سمجھایا کہ ’’اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے اور دھوکہ کھایا ہے۔‘‘ مگر سوداگر کا کہنا تھا،’’ وہ بہت سمجھ دار ہے، وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا، تم دیکھنا مجھے کتنا فائدہ ہوگا۔

    سوداگر کو بس چودھویں رات کا انتظار تھا۔ آخر وہ رات آگئی۔ سوداگر بہت خوش تھا کہ اس کی چڑیا آج سونے کا انڈا دے گی۔ پوری رات جاگتا رہا۔ چڑیا پنجرے میں کبھی سوتی اور کبھی پر پھڑپھڑاتی رہی۔ آخر صبح ہونے لگی گجر بجا اور سوداگر سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی اور وہ پنجرے کے پاس گیا تو پنجرے میں انڈا نہیں تھا۔ چڑیا اسے بہت عام سا پرندہ لگی۔ وہ اسی طرح پنجرے میں ادھر سے ادھر اڑتی اور پھدکتی پھر رہی تھی۔ آج جانے کیوں سوداگر کو اس میں‌ کچھ بھی خاص نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بہت پچھتایا اور جان گیا کہ چڑی مار نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔

    سوداگر نے سبق سیکھا کہ غرور و تکبر اور دوسروں سے مشورہ نہ کرنے اور کسی کو خاطر میں‌ نہ لانے سے نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ کسی بڑے کام کو کرنے سے پہلے خوب سوچ لینا چاہیے اور اپنے احباب سے مشورہ کرنا چاہیے۔

    (قصّوں اور قدیم حکایات سے انتخاب)

  • کنجوس کی بیوی اور جعلی فقیر (کہانی)

    کنجوس کی بیوی اور جعلی فقیر (کہانی)

    یہ کہانی ایک ایسے کنجوس شخص کی ہے جس سے سب گھر والے بیزار تھے۔

    اس کی کنجوسی کا عالم یہ تھا کہ جب گھر کا کوئی فرد بیمار پڑ جاتا تو وہ اسے طبیب کے پاس لے جانے کے بجائے سب سے پہلے ٹوٹکے اور دیسی نسخے اس پر آزماتا۔ بعض اوقات اس شخص کی وجہ سے گھر والوں کو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑتی، لیکن وہ اپنے خاندان کا سربراہ تھا اور اسے کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا تھا۔

    اسے اپنی دولت سے اتنا پیار تھا کہ وہ پہلے اسے ایک لوہے کے ڈبّے میں رکھتا اور پھر اس ڈبّے کو لوہے کے ایک بڑے ڈبّے میں بند کر کے چابی کو گلے میں لٹکا لیتا، وہ ہر چند منٹ بعد اس چابی کو ہاتھ سے چُھو کر دیکھتا۔ اس کی بیوی اور اولاد چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے ترستے رہتے، لیکن وہ بہانہ کرکے انھیں ٹال دیتا اور کہتا کہ فضول خرچی سے بچو اور کفایت شعار بنو۔

    وقت گزرتا گیا اور جوانی پر بڑھاپا غالب آگیا تو کنجوس کو فکر لاحق ہوئی کہ یہ ساری دولت جو اُس نے زندگی بھر جمع کی ہے اُس کا کیا بنے گا، اس فکر نے بڑھاپے میں‌ بھی اسے بے چین رکھا۔ وہ ہر وقت غم زدہ رہتا۔ ایک دن اُس کی ملاقات ایک بوڑھے سے ہوئی جس نے ایک دانا فقیر کا بہروپ بھر رکھا تھا۔ یہ بوڑھا دراصل نہایت شاطر اور ٹھگ تھا۔ اس نے کسی طرح کنجوس شخص کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنا عقیدت مند بنا لیا۔ تب اس کنجوس نے اسے اپنی دولت اور تمام حالات بتائے اور بولا، ”بابا، میری موت کے بعد یہ ساری دولت اور مال ضایع ہوجائے گا، جس کا غم میں برداشت نہیں کرسکتا۔”

    اس جعلی فقیر نے کہا، ”بیٹا تمہاری دولت ہماری دعا سے دنیا میں بھی تمھارے کام آئے گی اور آخرت میں بھی، تم ہمارا یہ تعویذ اپنے سرمائے والے ڈبّے میں رکھ لو اور مرنے پر اپنے اہل عیال سے وصیت کر کے مرنا کے تمہارے سرمائے والے ڈبّے کو تمہارے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے، ہمارے دیے ہوئے تعویز کی بدولت تمھاری دولت اگلی دنیا میں تمھارے ساتھ ہی جائے گی، جسے تم وہاں اچھے مقاصد کے لیے استعمال کر سکو گے۔”

    اس جعلی فقیر کی بات پر شاید کوئی احمق بھی یقین نہ کرتا مگر جب عقل پر پٹی بندھی ہو اور ساری عمر دولت کی ہوس میں مبتلا رہ کر گزاری ہو تو ایسے انوکھے واقعات رونما ضرور ہوتے ہیں، لہٰذا اس کنجوس نے بابا جی کی بات پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    وہ گھر لوٹا اور اپنی بیوی کے سامنے وصیّت کی کہ میرے مرنے کے بعد تم بچّوں کو لے کر اپنے باپ کے گھر چلی جانا اور میری دولت والا ڈبّہ میرے ساتھ دفنا دینا تاکہ میں بابا جی کے تعویذ کی مدد سے اگلی دنیا میں تم لوگوں کے لیے اچّھا بندوبست کر سکوں۔ اُس نے بیوی سے قسم اٹھوائی کہ وہ اس کی وصیّت پر حرف بہ حرف عمل کرے گی۔

    بیوی سے زیادہ کون اس کنجوس سے واقف تھا۔ اس عورت نے ساری زندگی اپنے شوہر کو مال و دولت کی ہوس میں مبتلا پایا تھا اور اس کی کنجوسی کی عادت کی وجہ سے اپنی جائز خواہشات بھی پوری نہیں‌ کرسکی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ آدمی کسی کے کہنے میں‌ آکر اپنی موت کے بعد بھی اولاد کو ان کے حق سے محروم رکھنا چاہتا ہے، چناں چہ اُس نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کی اور شوہر کے کہنے پر قسم کھائی کہ وہ اُس کی وصیت پر عمل کرے گی۔

    چند دن گزرے تھے کہ قضا آئی اور اس دولت کے پجاری کی روح جسم سے نکال کر لے گئی۔ کنجوس کی موت کی خبر اس جعلی فقیر تک بھی پہنچی جس نے گھر پہنچ کر اس کی بیوی سے کنجوس کی وصیّت پُوری کرنے کو کہا۔ بیوی فوراً اندر گئی کنجوس کا وہ ڈبّہ اٹھا لائی جس میں‌ اس نے اپنی دولت رکھی ہوئی تھی اور اُسے کنجوس کے جنازے پر رکھ کر وصیّت سُنائی اور کہا کہ اس ڈبّے کو کنجوس کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے۔

    تدفین کے بعد سب لوگ جب گھر آئے تو ایک سمجھ دار رشتے دار نے کنجوس کی بیوہ کو کہا کہ ایسی بیوقوفانہ وصیّت پر عمل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

    وہ عورت بولی، ” میں نے مجبوراً ساری زندگی اس شخص کے ساتھ بسر کی، میں اس شخص کی رگ رگ سے واقف ہوں اور جس وقت اس نے اپنی دولت کو ساتھ دفن کرنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو یہ مجھے اپنے راستے سے ہٹا دے گا، لہٰذا میں نے اس کی ہامی بھر لی۔ میں نے اس کے ڈبّے سے ساری دولت نکال لی تھی اور جب وہ جعلی بابا آیا تو میں سمجھ گئی کہ یہ سارا کھیل اسی کا رچایا ہوا ہے۔ میّت کے ساتھ خالی ڈبّہ دفن کروا دیا ہے، آپ قبرستان جاکر دیکھیں، مجھے یقین ہے وہ جعلی بابا دولت حاصل کرنے کے لیے ضرور قبر کھودنے آئے گا۔”

    وہ رشتے چند گاؤں والوں کو لے کر قبرستان پہنچا تو وہاں‌ واقعی جعلی بابا قبر کھودنے میں مصروف تھا جسے انھوں نے پکڑ لیا اور تحصیل دار کے حوالے کردیا تاکہ وہ اس ڈھونگی کو سزا دلوائے۔

    اس کہانی سے سبق یہ ملتا ہے کہ بعض اوقات کسی کی احمقانہ اور انتہائی فضول بات کو نہ صرف تحمل سے سننا بلکہ دکھاوے کی غرض سے اس پر عمل بھی کرنا پڑتا ہے، کسی بات پر فوری ردعمل اور غصّے کا اظہار کرنے کے بجائے ذہانت اور عقل سے کام لے کر ہم بہت سے نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔