Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • انوکھا بیج

    انوکھا بیج

    ایک تاجر اپنی مستقل مزاجی، لگن اور محنت سے کام یابی کی منازل طے کرتا چلا گیا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دل چسپ ترکیب نکالی۔

    اس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا “میری صحت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی، اس لیے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہوں۔ میں آپ سب کو ایک ایک بیج دوں گا۔ اسے بونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتِ حال سے مطلع کریں گے جس کی بنیاد پر میں اپنی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا۔”

    کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اُگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے سوائے زید کے جو پریشان تھا۔ وہ خاموش رہا اور اپنی خفت کو مٹانے کے لیے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہا تھا مگر اس کے بیج میں سے پودا نہ نکلا۔

    ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹروں کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا۔ سب خوب صورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اُگا نہیں تھا، خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دور والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

    اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا۔ اس اُمید پر کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے۔

    سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا، “ایک آدمی کم لگ رہا ہے۔” اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا، کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا، “جناب، مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اگا۔” اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کیا۔

    چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہو گا۔ اس پر کئی حاضرینِ مجلس کی حیرانی سے چیخ نکل گئی۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانت داری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانت دار بھی ہے۔

    میں نے آپ سب کو اُبلے ہوئے بیج دیے تھے جو اُگ نہیں سکتے۔ سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کر دیے۔”

    (ماخذ: انوکھا بیج از افتخار اجمل بھوپال)

  • بادشاہ کی وصیت

    بادشاہ کی وصیت

    ایک بادشاہ لا ولد تھا۔ جب اس کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اس نے وصیت کی کہ میری موت کے دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، میری جگہ اسے بادشاہ بنا دیا جائے۔

    خدا کی قدرت کا تماشا دیکھیے کہ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک فقیر تھا۔ اس کی ساری زندگی در در بھیک مانگتے اور اپنی گدڑی میں پیوند پر پیوند لگانے میں گزری تھی اور اچانک ہی اسے ایک بڑی سلطنت اور محل نصیب ہو گیا۔

    امیروں، وزیروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق اسے بادشاہ بنا دیا اور وہ تاج و تخت اور خزانوں کا مالک بن کر بہت شان سے زندگی گزارنے لگا۔ قاعدہ ہے کہ حاسد اور کم ظرف لوگ کسی کو آرام میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں۔ اس فقیر کے ساتھ بھی یہی ہوا جو اب بادشاہ بن گیا تھا۔ اس کے دربار کے کچھ امرا نے آس پاس کے حکم رانوں سے ساز باز کر کے ملک پر حملہ کروا دیا اور بہت سا علاقہ حملہ آوروں نے فتح کر لیا۔

    فقیر بادشاہ بہت افسردہ رہنے لگا۔ انھی دنوں اس کا ایک ساتھی فقیر ادھر آ نکلا اور اپنے یار کو ایسی حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اسے مبارک باد دی کہ خدا نے تیرا مقدر سنوارا اور فرشِ خاک سے اٹھا کر تختِ افلاک پر بٹھا دیا۔

    فقیر کی یہ بات بالکل درست تھی۔ کہاں در در کی بھیک مانگنا اور کہاں تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہونا، لیکن اس شخص کو تو اب بادشاہ بن جانے کی خوشی سے زیادہ ملک کا کچھ حصہ چھن جانے کا غم تھا۔ غم ناک آواز میں بولا، ہاں دوست تیری یہ بات تو غلط نہیں لیکن تجھے کیا معلوم کہ میں کیسی فکروں میں گھرا ہوا ہوں۔ تجھے تو صرف اپنی دو روٹیوں کی فکر ہو گی، لیکن مجھے ساری رعایا کی فکر ہے۔

    شیخ سعدیؒ کی اس حکایت میں یہ سچائی اور سبق پوشیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا اعزاز پا کر بھی انسان کو سچا اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ طاقت و منصب، جاہ و جلاس اس کی خواہشات بڑھا دیتے ہیں اور اگر ان میں‌ سے کوئی پوری نہ ہو تو وہ اداس اور افسردہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے مال و دولت چھن جائے یا اس میں‌ کمی آجائے تو اسے روگ لگ جاتا ہے۔

  • پُراسرار دستانے

    پُراسرار دستانے

    مصنّف: مختار احمد

    عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔ خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔

    عظیم کے والد بغرضِ ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔ یہ گاوٴں، دیہات اور ایک بڑے دریا سے ملحق بہت ہی خوب صورت اور پرسکون شہر تھا۔

    عظیم کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اس کے اسکول اور محلے کے تو کئی دوست تھے مگرخالہ زاد اور ممانی زاد بہن بھائیوں کی تو بات ہی دوسری ہوتی ہے۔ ان کے آنے کی خبر سے وہ بہت خوش ہوا تھا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ پرسوں اس کی چودھویں سال گرہ بھی ہے، سب لوگ ہوں گے اور خوب مزہ آئے گا۔

    چوں کہ ٹرین لیٹ ہو گئی تھی اس لیے وہ سب رات کو دیر سے گھر پہنچے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے اور باتیں کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ صبح کسی نے اسکول تو جانا نہیں تھا، اس لیے سونے کی کسی کو فکر بھی نہیں تھی۔ عظیم کی امی کو صبح جلدی اٹھنا تھا کیوں کہ اس کے ابّو کو آفس جانا تھا اور انھیں ناشتہ تیار کر کے دینا تھا، اس لیے وہ سونے کے لیے چلی گئیں۔ وہ گئیں تو یہ محفل بھی برخاست ہوگئی۔ آنے والے مہمان کافی تھکے ہوئے تھے، گھوڑے بیچ کر سو گئے۔

    عظیم کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اور پروگرام بنا رہا تھا کہ خالہ اور ممانی کے بچوں کے ساتھ کس طرح وقت گزارے گا۔ نیند تو خیر اس کو آگئی تھی مگر وہ صبح سویرے ہی جاگ گیا تھا۔ تھکن کی وجہ سے مہمان مزے سے سو رہے تھے۔ عظیم نے ہاتھ منہ دھویا، امی کے ساتھ نماز پڑھی۔ امی تو کچن میں مصروف ہو گئیں اس نے سوچا کہ باہر نکل کر تھوڑی سی ہوا خوری کرلے۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی اور کافی اندھیرا تھا۔

    وہ گھر سے قریب ایک پارک میں پہنچ گیا۔ اونچے اونچے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندوں کا شورسنائی دینے لگا تھا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی، گرم سویٹر پہننے کے باوجود اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ گھر سے چلتے ہوئے اس کی امی نے اسے مفلر بھی تھما دیا تھا جسے اس نے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔

    پارک سنسان پڑا تھا لیکن جب اس نے غور سے دیکھا تو پارک میں نصب آخر والی بینچ پر اسے کوئی شخص بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ ہی آیا کہ یہ کوئی بچے پکڑنے والا آدمی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس کے پاوٴں من من بھر کے ہوگئے، اس سے اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں گیا۔ وہ مفلر جو اس نے گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا اچانک اس کے گلے سے نکلا اور اڑتا ہوا اس شخص کی جانب چل دیا جو دور بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’امی۔۔۔۔!‘‘ عظیم کے منہ سے بے اختیار خوف بھری ایک چیخ نکلی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کی جان نکل گئی ہے۔ وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ اتنے اندھیرے میں گھر سے نکل کر یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس واقعے نے اسے اس قدر خوف زدہ کر دیا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔

    اس کے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ نے اس کے رگ و پے میں خوف کی سنسناہٹ دوڑا دی۔ وہ شخص اٹھ کر اسی کی طرف آنے لگا تھا۔ عظیم کا ڈر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس سے چیخا بھی نہیں جا رہا تھا، ایسا معلوم دیتا تھا جیسے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔

    ’’ماں کے لاڈلے۔ یہ لو پکڑو اپنا مفلر۔‘‘ قریب آنے والے اس شخص نے کہا۔ اب عظیم نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔

    ’’بھائی تم کون ہو؟‘‘عظیم نے تھوک نگل کر پوچھا۔

    ’’ڈر لگ رہا ہے تو بھائی بھائی کر رہے ہو۔‘‘ وہ لڑکا بڑی خوش دلی سے ہنسا، مگر پھر فوراً ہی اداس ہوگیا: ’’میں بہت بدنصیب ہوں۔ میرے لیے اب عام لڑکوں کی طرح زندگی گزارنا ایک خواب ہی ہے۔‘‘

    اس کے دکھ بھرے لہجے سے عظیم متاثر ہو گیا ۔ کچھ پوچھنے کے لیے اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ اتنے میں ایک ننھی سی چڑیا ان کے قریب سے اڑتی ہوئی گزری، اس پراسرار لڑکے نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنی مٹھی کھولی، چڑیا آگے جاتے جاتے بجلی کی تیزی سے پلٹی اور اس لڑکے کی مٹھی میں آگئی۔

    یہ دیکھ کر عظیم کے جسم پر کپکی طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور پیٹ میں جیسے کوئی چیز زور زور سے گھومنے لگی۔ اس سے کھڑا رہنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور خوف بھری نظروں سے اس لڑکے کو دیکھنے لگا۔ اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑی چڑیا کو فضا میں اچھال کر اسے اڑا دیا اور خود بھی عظیم کے پاس بیٹھ گیا۔

    عظیم اس سے دور ہٹتے ہوئے بولا:’’میں امی کے پاس جاوٴں گا۔‘‘

    لڑکا ہنس پڑا۔ ’’ہو تو تم میرے ہی جتنے مگر دودھ پیتے بچے بن رہے ہو۔ مجھ سے ڈرو مت، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوٴں گا۔ دیکھو میں نے تمہارا مفلر بھی واپس کر دیا تھا، اگر میں چاہتا تو اس کو لے کر بھاگ بھی سکتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن تم بہت عجیب سے ہو۔ ‘‘ عظیم نے تھوک نگل کر کہا۔ ’’تم کوئی جادوگر ہو، تم نے لڑکے کا روپ دھار رکھا ہے۔‘‘

    ’’اگر میں جادوگر ہوتا تو کسی شہزادی کو اپنے محل میں قید کر کے اس کی خوشامد کررہا ہوتا کہ وہ مجھ سے شادی کرلے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ لڑکا ہنسا پھر اداسی سے بولا۔ ’’میرے سب دوست مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔ سب لوگ مجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں اکیلا ہی گھومتا پھرتا ہوں، سب سمجھتے ہیں کہ میں کوئی جادوگر ہوں، حالاں کہ میں ہوں نہیں۔‘‘

    ’’پھر تم یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہو، جادوگر ہی ایسا کر سکتے ہیں؟‘‘۔ عظیم نے کہا۔

    ’’میرا نام انعام ہے۔ ‘‘ اس لڑکے نے کہا۔ ’’کیا تم میری کہانی سننا پسند کرو گے۔ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔‘‘

    انعام کی بات سن کر عظیم کا دل بھر آیا۔ ’’ہاں ہاں، میں ضرور تمہاری کہانی سنوں گا، اچھا ہے تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مجھے تو تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو بس تمہاری حرکتیں ٹھیک نہیں لگتیں۔‘‘

    اس کی بات سن کر انعام خوش ہوگیا اور اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ بد قسمتی سے اسکول میں میری دوستی چند آوارہ لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان لڑکوں نے مجھے اسکول سے بھاگنا سکھا دیا تھا۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میں بجائے اسکول جانے کے، دریا کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ دریا پر جا کر سیر کروں گا اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑوں گا۔ میں دریا پر پہنچا تو مجھے وہاں ایک بوڑھا شخص ملا۔ اس کی شکل عجیب سی اور خوف ناک تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا۔

    ’’مچھلیاں پکڑنے آئے ہو لڑکے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ دریا کی طرف کیا اور پل بھر میں اس کی ہتھیلی پر تین چار چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آکر تڑپنے لگیں۔ اس نے قریب پڑی پلاسٹک کی ایک تھیلی اٹھا کر اس میں پانی بھرا اور مچھلیوں کو اس میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں تمہاری طرح خوف زدہ نہیں ہوا تھا۔ میں ایک بہادر لڑکا ہوں، ہاں یہ ضرور ہے کہ تھوڑا بے وقوف ہوں۔ میں نے بوڑھے سے پوچھا کہ وہ یہ کیسے کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا ، لیکن اگر تم چاہو تو میں یہ طاقت تمہیں دے سکتا ہوں۔ مجھے تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو۔‘‘

    اس کی چاپلوسی کی باتیں سن کر میں خوش ہوگیا اور حامی بھر لی۔ ایک بات میں نے نوٹ کی تھی وہ شخص دستانے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے دستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو بولا۔ ’’ان دستانوں کو تم حیرت سے دیکھ رہے ہو۔ جب یہ طاقت تمہیں مل جائے گی تو تمہیں بھی ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ میں نے اس کی بات پر غور نہیں کیا، اسی سوچ میں مگن رہا کہ جب میں بھی ایسا کرنے لگوں گا تو اپنے دوستوں کو تماشا دکھا کر مرعوب کیا کروں گا۔ وہ کتنا حیران ہوں گے جب میں دور پڑی چیزوں کوایک جگہ بیٹھے بیٹھے اپنے پاس منگوا لیا کروں گا۔ اس نے مجھے قریب بلایا اور بولا۔ ’’آنکھیں بند کرو اور جو الفاظ میں کہوں تم انھیں دہراتے جاوٴ۔‘‘

    میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں اس طاقت کو اپنی مرضی سے لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘میں نے وہ الفاظ بھی دہرا دیے۔ اس نے کہا ۔ ’’اب آنکھیں کھو ل دو۔ تمہیں یہ عجیب و غریب طاقت مل گئی ہے۔‘‘

    میں نے آنکھیں کھول کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میرے دونوں ہاتھ کلائیوں تک بالکل سیاہ رنگ کے ہو گئے تھے۔ اس شخص نے اپنی مکروہ آواز میں کہا ۔ ’’تم چاہو تو اس طاقت کو آزما سکتے ہو۔ ‘‘ میں نے دور زمین پر پڑی ایک شیشے کی بوتل کی طرف دیکھ کر اسے اشارہ کیا، وہ زمین سے بلند ہوئی اور میرے ہاتھ میں آگئی۔

    اس طاقت کو حاصل کرکے مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے میرے ہاتھوں کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہونے لگی تھی کہ اب میں اپنی امی ابّا اور دوستوں کا کیسے سامنے کروں گا، ان سے اپنے کالے ہاتھوں کے بارے میں کیا کہوں گا۔

    اس بوڑھے نے اپنے ہاتھوں سے دستانے اتار کر میرے حوالے کیے اور خود ایک جانب روانہ ہوگیا۔ اس بات کو تین روز گزر گئے ہیں۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ میں ان دستانوں کو پہنے پہنے تنگ آگیا ہوں۔ ان کی وجہ سے میں کوئی کام ٹھیک طریقے سے بھی نہیں کرسکتا۔ وہ شیطان بوڑھا بھی پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے۔ اپنے دوستوں کو میں نے تماشے تو بہت دکھائے مگر مرعوب ہونے کے بجائے وہ مجھ سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ وہ مجھ سے دور دور رہنے لگے ہیں اور بات چیت کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ اور تو اور کل میرے ابّا بھی میری امی سے چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ اس کو کسی سینٹر چھوڑ کر آجائیں گے، یہ ہمارا والا انعام نہیں ہے کوئی اور ہے۔ پرسوں کی بات ہے انہوں نے باہر جانا تھا، مجھ سے بولے کہ میرے جوتے اٹھا دو۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ان کے جوتوں کی طرف اشارہ کیا، وہ میرے پاس آگئے۔ ابّا گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور بولے۔ ’’ان جوتوں کو اب میں کبھی نہیں پہنوں گا، ان میں جادو لگ گیا ہے۔‘‘

    اس کی یہ کہانی سن کر عظیم کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’اس دنیا میں عجیب عجیب لوگ موجود ہیں جیسے وہ بوڑھا۔ اس نے بچہ سمجھ کر اپنی مصیبت تمہارے گلے ڈال دی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ماں باپ ہمیں اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ اجنبیوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ان سے کسی قسم کی کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہیے، یہ لوگ ہمیں مصیبتوں میں پھنسا دیتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

    انعام نے افسردگی سے کہا۔ ’’میری امی بھی مجھے بہت سمجھاتی تھیں کہ کسی بھی اجنبی شخص سے کوئی بات چیت نہ کروں۔ وہ کوئی کھانے کی چیز دے تو وہ بھی نہیں کھاوٴں، ان چیزوں میں بے ہوشی کی دوا ہوتی ہے اور اسے کھلا کر وہ لوگ بچوں کو اغوا کرلیتے ہیں اور اتنی سی چیز کھلا کر ان کے ماں باپ سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔‘‘

    اب چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تھی۔ عظیم نے ایک مرتبہ پھر انعام کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور بولا۔ ’’انعام بھائی کیا تم مجھے دریا پر اس جگہ تک لے جا سکتے ہو جہاں وہ خبیث بوڑھا تمہیں ملا تھا؟‘‘

    ’’وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، آؤ۔‘‘ انعام نے کہا اور دونوں چل پڑے۔ عظیم ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس کو انعام پر بہت ترس آرہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ انعام کو اس مصیبت سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ کالے ہوگئے تھے۔ وہ دعا کررہا تھا کہ وہ بوڑھا ان کو دوبارہ مل جائے۔ اور پھر اس کی دعا قبول ہو ہی گئی۔ وہ بوڑھا انھیں نظر آگیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھا اس کے پانی سے گاجروں کو دھو دھو کر کھا رہا تھا۔ عظیم نے انعام کو رکنے کا اشارہ کیا اور اس کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔ اس کی بات سن کرانعام کا چہرہ جوش و مسرت سے تمتمانے لگا۔

    اس بوڑھے نے انعام کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ نظر آنے لگی، وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میاں خوب مزے آرہے ہیں۔ اب تو تمہیں کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا ہوگا۔ بیٹھے بیٹھے ہی سب چیزیں تمہیں مل جاتی ہوں گی۔‘‘

    انعام نے کہا۔ ’’اپنی یہ طاقت مجھ سے واپس لے لو۔ اس کی وجہ سے میرے دونوں ہاتھ بالکل سیاہ ہوگئے ہیں۔ لوگ مجھ سے ڈرنے لگے ہیں۔ میری امی تو مجھ سے اتنی خوف زدہ ہو گئی ہیں کہ انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ مجھے یہ دھمکی بھی نہیں دیتیں کہ آ لینے دے تیرے باپ کو تیری شکایت کروں گی۔ میں کسی کا سامنا بھی نہیں کرسکتا۔ رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو دونوں ہاتھ گرم ہوجاتے ہیں۔ میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتا۔‘‘

    ’’ان ہی تکلیفوں کی وجہ سے تو میں نے یہ طاقت تمہیں دی تھی۔ میں خود ان باتوں سے تنگ آگیا تھا۔‘‘ اس آدمی نے لاپروائی سے کہا۔ ’’میں اب اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ تم یہاں سے چلے جاوٴ۔ اگر زیادہ تنگ کرو گے تو میں تمہیں دریا میں دھکا دے دوں گا اور تمہارے ساتھ اس کو بھی جسے تم حمایتی بنا کرلائے ہو۔‘‘

    ’’اچھا یہ بات ہے۔ ‘‘ انعام نے دستانے اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر میری بات بھی کان کھول کر سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کیں اور بلند آواز میں بولا۔ ’’مجھے تمھاری یہ طاقت نہیں چاہیے۔‘‘

    اس کی بات کو سن کر بوڑھے نے ایک چیخ ماری اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ عظیم اور انعام نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ انعام کے ہاتھوں کا کالا رنگ دھویں میں تبدیل ہو کر بوڑھے کی طرف پرواز کرنے لگا اور اس کے قریب پہنچ کر اس کے جسم میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دونوں ہاتھ کالے نظر آنے لگے۔

    ’’لو۔ یہ پکڑو اپنے دستانے۔‘‘ انعام نے دستانوں کو پوری طاقت سے بوڑھے کی طرف پھینک دیا۔ اتنی دیر میں دریا کی ایک تیز لہر آئی اور اس بوڑھے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ انعام کے دونوں ہاتھ پھر پہلے کی طرح سرخ و سفید ہو گئے تھے۔ اس نے عظیم کو گلے سے لگا لیا۔

    ’’میرے دوست۔ اگر تم وہ الفاظ مجھے نہ بتاتے جو میں نے اس بوڑھے شیطان سے کہے تھے تو مجھے کبھی بھی اس مصیبت سے نجات نہ ملتی۔‘‘

    اس کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ عظیم گھر پہنچا تو سارے مہمان ناشتے میں مصروف تھے۔ اسے دیکھ کر امی نے کہا۔ ’’عظیم بیٹے۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ ہم ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے تھے۔‘‘

    عظیم نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے کے بعد خواتین تو باتوں میں مصروف ہوگئیں۔ عظیم بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ وہاں اس نے انہیں یہ عجیب و غریب کہانی سنائی۔ تمام بچے یہ کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    عظیم نے کہا۔ ’’آج سے ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اسکول جاتے ہوئے اور نہ ہی اسکول سے آتے ہوئے کسی اجنبی سے کوئی بات کریں گے تاکہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوں۔‘‘

    سب بچوں نے اس بات کا وعدہ کیا۔ وہ سب عظیم کی عقل مندی سے بھی بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے انعام کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا تھا۔

  • دو دوست، دو دشمن

    دو دوست، دو دشمن

    گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔

    بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘

    چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، ’’میرا خاندان بھی یہاں سیکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔‘‘

    یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تُو تُو مَیں میں شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

    ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔

    آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا، ’’اے چوہے! تو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوّت کا پتا چلے۔‘‘

    چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔

    دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

    ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔

    اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔ دلدل اب بھی موجود ہے۔

    (اس مختصر اور سبق آموز کہانی کے مترجم اردو کے معروف ادیب اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • لومڑی کا صبر

    لومڑی کا صبر

    ایک سوداگر جو ایک قلعے میں زندگی بسر کرتا تھا، اس کا پیشہ پوستین دوزی تھا۔ وہ گاؤں کے قصّابوں سے بھیڑ، گائے کی کھالیں خریدتا۔ انھیں رنگتا اور پھر پوستینیں بناتا اور بیچتا۔

    ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بھوکی لومڑی قلعے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اچانک بھیڑ کی کھال کی بُو اس کی ناک میں دَر آئی اور وہ خوراک کے لالچ میں قلعے کے نزدیک کی ایک بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوگئی، بُو سونگھتی سونگھتی پوستین دوز کی دکان تک جا پہنچی اور کھالوں کے سراغ میں مصروف ہوگئی۔ وہ کھالوں کی بُو سے سرشار اور خوش ہو گئی تھی۔

    اس نے چند کھالوں پر اپنے دانت صاف کیے اور ان سے کُچھ تکّے نوچ کھائے، بعض کھالوں کو جگہ جگہ سے پھاڑ ڈالا اور جب دیکھا کہ یہ تو صرف کھالیں ہیں اور ان میں گوشت نام کو نہیں تو جس راستے سے آئی تھی، اسی سے لوٹ گئی اور صحرا کی طرف بھاگ نکلی۔

    اگلی کئی راتوں تک اس کا یہی وتیرہ رہا۔ کھالوں کی بُو اور گوشت کے لالچ میں وہ بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی، سوداگر کی دکان کے اندر جاتی اور اُسی طرح کھالوں کو چیرتی پھاڑتی اور پھر لوٹ آتی۔

    بیچارہ سوداگر لومڑی کے پاؤں اور پنجوں کے نشان دیکھ کر حقیقتِ حال کو جان گیا تھا۔ لومڑی کے ہاتھوں اس کا ناک میں دَم آگیا تھا۔ اُس نے اپنے آپ سے کہا: بہتر ہے کہ میں کچھ راتیں بے خوابی میں گزاروں اور چالاک لومڑی کو اس کے کیے کا مزہ چکھاؤں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    اسے معلوم تھا کہ قلعے کی دیواریں بہت بلند ہیں اور اس کے دروازے بھی رات کو بند ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کتّوں کے ڈر سے لومڑی دن کے وقت قلعے میں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر وہ یہ راز پا گیا کہ لومڑی بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی ہے۔

    ایک رات سوداگر نے اپنے اوپر نیند کو حرام کیا۔ وہ بدر رو کے سوراخ کے قریب گھات میں بیٹھ گیا۔ بیٹھا رہا، بیٹھا رہا حتّٰی کہ صبح ہونے سے کچھ پہلے لومڑی حسبِ معمول بدر رو کے رستے اندر آئی اور اس نے کھالوں کے ذخیرے کی جانب رخ کیا۔ سوداگر نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی اور اس تختے سے، جسے وہ ساتھ لیتا آیا تھا، بدر رو کا رستہ بند کردیا اور اس کے ساتھ مٹی کا پشتہ لگا کر اسے خوب مضبوط کر دیا۔ پھر اس نے لاٹھی ہاتھ میں لی اور لومڑی کے کھوج میں چل پڑا۔

    جب وہ اپنی دکان کے قریب پہنچا، لومڑی اپنے کام سے فارغ ہوکر واپس جارہی تھی۔
    جونہی لومڑی کی نگاہ اس شخص پر پڑی جو ہاتھ میں لاٹھی تھامے اس کے درپے تھا، اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ سوداگر بھی اس کے پیچھے تیزی سے دوڑا۔

    جب لومڑی بدر رو کے سوراخ کے نزدیک پہنچی تو اُسے بند پایا۔ اس نے چاہا کہ دروازے کے رستے بھاگ لے، مگر قلعے کا دروازہ بھی بند تھا۔ اسے خیال آیا کہ گلی کوچوں میں داخل ہوکر بھاگ نکلے، مگر کتّوں کی عَو عَو نے اسے خوف میں مبتلا کر دیا۔ ناچار اس نے سوچا کہ سوداگر کو خوف زدہ کرنے کے لیے اس پر حملہ کرے۔ اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتی، سوداگر نے لاٹھی سے اس کے سَر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ درد سے بے حال ہوکر زمین پر گر پڑی۔

    لومڑی نے بھانپ لیا تھا کہ اس کے فرار کے سارے رستے بند ہوچکے ہیں۔ اب اگر وہ زیادہ دوڑ دھوپ کرتی ہے تو یا تو وہ لاٹھیاں کھا کر ماری جائے گی یا اس شور غوغے سے کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور معاملہ اور بگڑ جائے گا، لہٰذا اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ یونہی بے حس و حرکت پڑی رہے، گویا مرچکی ہے۔

    جب سوداگر کو اندازہ ہوا کہ اس کی پہلی ضرب ہی کاری ثابت ہوئی اور اس نے لومڑی کو ادھ موا کردیا تو اس کے دل میں رحم آیا اور وہ خود سے کہنے لگا: بس کافی ہے۔ اگر وہ مرنے کے لائق تھی تو قریبِ مرگ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بھی وہ بہرحال تائب ہو جائے گی اور دوبارہ اس قلعے کے نزدیک نہیں پھٹکے گی۔

    جاتے جاتے اس نے اُسے پاؤں سے ایک ٹھوکر بھی لگائی، مگر اسے بے حس و حرکت پاکر اپنے گھر لوٹ آیا۔ اسی اثناء میں اندھیرا چھٹنے لگا تھا اور لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر آنا جانا شروع ہوگئے تھے۔

    بدفطرت لومڑی جس وقت زمین پر پڑی خود کو جھوٹ موٹ مردہ ظاہر کررہی تھی، اسے خیال آیا کہ قلعے کا دروازہ اور بدر رو کا رستہ تو بند ہے، اب اگر میں حرکت کرتی ہوں اور کوئی مجھے دیکھ لے تو داد فریاد شروع ہو جائے گی، کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور وہ میری تِکّہ بوٹی کر ڈالیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ میں اسی طرح مچلی بنی پڑی رہوں تاکہ دھوپ نکل آئے، قلعے کا دروازہ کھُل جائے اور میں فوراً اٹھوں اور فرار کر جاؤں۔

    آہستہ آہستہ فضا زیادہ روشن ہوتی گئی۔ لوگ آنے جانے لگے اور ان کی نگاہیں لومڑی پر پڑنے لگیں۔ ان میں سے ایک قریب آیا اور اسے مردہ سمجھ، ٹھوکر مار کر آگے بڑھ گیا۔ ایک اور شخص نے اسے دیکھا، بُرا بھلا کہا اور چل دیا۔ اُدھر سے کچھ بچّوں کا بھی گزر ہوا۔ انھوں نے لومڑی کی دُم پکڑ کر ادھر اُدھر کھینچنا شروع کر دی، بڑی عمر کے لوگوں نے ان کی سرزنش کی۔

    لومڑی یونہی چپکی پڑی رہی اور اس نے کسی قسم کا ردِّعمل ظاہر نہ کیا اور یہی سوچتی رہی کہ جب تک کتّے قلعے کے اندر ہیں اور جب تک دروازہ بند ہے، راہِ فرار کی کوئی صورت نہیں۔ سو صبر کرنا چاہیے کیوں کہ صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    رفتہ رفتہ کچھ بیکار اور آوارہ منش لوگ لومڑی کے گرد آن اکٹھے ہوئے اور لگے اس کے بارے میں باتیں کرنے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ کہاں سے آٹپکی اور یہاں موت سے کیسے دوچار ہوئی۔

    ایک بولا: اسے یقیناً کتّوں نے مارا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا: نہیں اگر کتّوں کی نگاہ اس پر پڑی ہوتی تو وہ اتنی آسانی سے اُسے چھوڑ نہ دیتے۔ اتنے میں ایک بوڑھا، جو دراصل قلعے کا دروازہ کھولنے پر مامور تھا، موقع پر آن پہنچا اور گویا ہوا: میں نے ایک فال گیر سے سنا ہے کہ اگر لومڑی کے بال آگ میں جلائے جائیں تو جادو ٹونے کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور لومڑی کے جسم سے تھوڑی سی پشم کاٹ کر کاغذ میں رکھ، جیب میں اُڑس لی اور قلعے کا دروازہ کھولنے چل دیا۔

    ایک اور شخص جو وہاں کھڑا تھا بولا: یہ فضول باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جادو ٹونا جھوٹ ہے اور اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ لومڑی کے بالوں کا سحر اور جادو سے کیا تعلق؟

    لومڑی کہ اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں سن رہی تھی، اپنے دل میں کہنے لگی: یہ جو کہتے ہیں کہتے رہیں، پروا نہ کر۔ بہتر ہے صبر کر اور جب بھیڑ چَھٹ جائے، فرار ہو جا۔ وہ بوڑھا جو میرے جسم کی تھوڑی سی پشم کاٹ لے گیا، توجہ کے قابل نہیں۔ اِس وقت صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اتنے میں ایک بڑھیا بھی موقعے پر آپہنچی۔ اس نے لوگوں کے ہجوم کو چیر کر اپنا راستہ بنایا اور کہنے لگی: میں نے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ لومڑی کا کان چشمِ بد سے محفوظ رہنے کے لیے اچھا ہے۔ اس نے بھی آگے بڑھ کر لومڑی کے کان کا ذرا سا حصہ کاٹا اور ساتھ لیے چل پڑی۔ لومڑی کو کان کے کٹنے سے بڑی تکلیف پہنچی اور اس کا دل چاہا کہ روئے پیٹے، مگر لوگوں کے ہجوم سے ڈر کر اس نے چُپ سادھے رکھی اور خود سے کہنے لگی: کان کے ذرا سے حصّے کے کٹ جانے کا کیا مضائقہ۔ جانے دے، بڑھیا بھی اس سے خوش ہوئی ہوگی۔ میرے لیے صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اس موقع پر ایک اور شخص وہاں آدھمکا۔ لومڑی کو دیکھا اور کہا: واہ واہ! میں نے سنا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس لومڑی کا دانت ہو تو کتّا اس پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ یہ کہا اور ایک پتھر سے لومڑی کا ایک دانت توڑا اور اپنے ساتھ لے کر چلتا بنا۔

    اب لومڑی کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اور وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: کیسے احمق لوگ ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اگر میرے ایک دانت سے یہ معجزہ ممکن ہے تو پھر میں خود، جو منہ میں سولہ دانت رکھتی ہوں، کتّوں سے کیوں خوف کھاتی ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں ایک دانت کے چلے جانے کا کیا غم۔ جلد بازی میں حرکت کرنا خطرناک ہے اور جب تک چھری میری ہڈیوں تک نہیں جاپہنچتی، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اسی اثنا میں قلعے سے باہر کا کوئی شخص گھومتا گھامتا وہاں آپہنچا۔ لومڑی کو دیکھا اور گویا ہوا: تعجب ہے، کیا یہ لومڑی مرچکی ہے؟ کتنا اچھا ہوا کہ میں یہاں چلا آیا۔ میرے شہر میں لوگ لومڑی کی دُم خریدتے ہیں اور اسے اپنے لباس پر مڑھ لیتے ہیں۔ بہت خوب، میں اس لومڑی کی دُم لے جاتا ہوں۔ یہ کہا اور چھری جیب سے نکالی کہ اس کی دُم کاٹ لے۔

    لومڑی نے دل میں کہا: میں کس مصیبت میں آن پھنسی ہوں۔ یہ لوگ جب تک میرے جسم کی بوٹی بوٹی نہ کرلیں گے، ٹلیں گے نہیں۔ جب تک معاملہ میری پشم تک تھا، میں نے پروا نہ کی، جب بات میرے کان کی ہورہی تھی، میں نے پروا نہ کی اور سست اور ساکت پڑی رہی، جب میرا دانت لے اُڑنے کے لیے سوچا جارہا تھا، میں نے جی کڑا کر کے صبر سے کام لیا مگر اب جب چھری میری ہڈیوں تک پہنچنے کو ہے، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بدتر ہے۔

    مجھے چاہیے کہ اٹھوں اور خود کو نجات دلاؤں۔ اگر میں اب بھی یہاں پھنسی رہی تو میرے ساتھ بہت بُرا ہوگا۔ سو جونہی مذکورہ شخص چھری ہاتھ میں لیے نزدیک آیا، اچانک لومڑی نے جست لگائی اور لوگوں کے ٹانگوں اور پاؤں کے بیچ سے، جو اس کے اچانک حرکت کرنے سے وحشت زدہ ہوگئے تھے، نکلی اور قلعے سے فرار ہوگئی۔

    (فارسی ادب سے کہانی جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے کیا ہے)

  • انور چاچا کی وفاداری

    انور چاچا کی وفاداری

    یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزی کپڑوں اور انگریزی زبان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اس زمانے میں ہر ایسا آدمی جو حکومت سے کچھ فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا، اپنے لباس اور بول چال میں انگریزوں جیسا بننے کی کوشش کرتا۔

    بہت سے لوگ ایسے تھے، جن کے پاس کھیتی باڑی کے لیے بڑی بڑی زمینیں تھیں۔ بہت سے آدمیوں کی شہروں میں جائیدادیں تھیں۔ ایسے لوگوں کو اس بات کی تو کوئی فکر ہوتی نہیں تھی کہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے روپیہ کہاں سے کمائیں۔ ان کے پاس تو جائیداد کا کرایہ آ جاتا یا پھر کھیتوں سے پیسہ اور اناج گھر پہنچ جاتا۔ ایسے بڑے آدمی آرام سے زندگی گزارتے تھے۔ انھی میں سے کچھ ایسے تھے، جنھوں نے انگریزی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ یہ لوگ خود کو انگریزوں کا وفادار ثابت کرنے کے لیے بالکل ہی انگریزوں کی نقل کرنے لگتے۔

    انگریزوں کے دورِ حکومت میں جہاں بہت سے ایسے زمین دار موجود تھے، جو انگریزوں سے وفاداری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے، وہیں ایسے بھی بہت سے لوگ تھے جو انگریزوں سے نفرت کرتے تھے۔

    وفادار قسم کے زمین دار بالکل انگریزوں ہی کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے انگریزوں سے نفرت کرنے والوں کو برا بھلا کہتے رہتے، ان لوگوں کی یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ انگریز ان کی وفاداری کے بدلے انھیں کوئی خطاب دے دیں۔ ایسے بہت سے آدمیوں کی یہ خواہش پوری بھی ہو گئی۔ ان میں سے کوئی خان صاحب ہو گیا، کوئی خان بہادر اور کوئی رائے صاحب بن گیا۔

    انور چاچا بھی دراصل ایسے ہی لوگوں میں سے تھے، جن کے سر پر انگریزوں سے وفاداری کا بھوت سوار تھا۔ اتفاق سے انور چاچا نے تھوڑی بہت تعلیم بھی حاصل کر لی تھی۔ تھوڑی بہت تعلیم سے یہ مقصد تھا کہ میٹرک کے امتحان میں پانچ چھے بار شرکت کر چکے تھے۔

    انور چاچا کے والد چوں کہ بہت بڑے زمیں دار تھے اور انور چاچا ان کے اکلوتے بیٹے تھے، اس لیے لاڈلے ہونے کی وجہ سے امتحان میں کام یاب ہونے کی تکلیف ان سے برداشت نہ ہو سکی۔ ممتحن کی اس نالائقی پر انور چاچا کو اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے مزید پڑھنے لکھنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور اپنی زمین کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ اب ان کا کام ہر چھوٹے بڑے کو گھرکنا اور نصیحتیں کرنا رہ گیا تھا۔ شاید اسی کی وجہ سے سارا شہر انھیں انور چاچا پکارنے لگا تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور تھی کہ جب لوگ انھیں چاچا کہہ کر پکارتے تو ان کی گردن کچھ اور اکڑ جاتی۔

    ابھی انور چاچا کو اپنی زمینوں پر پہنچے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ پہلی جنگِ عظیم شروع ہو گئی۔ ہندوستان میں بھی فوجیوں کے لیے بھرتی شروع ہوئی۔ ہندوستان کے بڑے زمیں داروں اور جاگیرداروں نے دل کھول کر انگریزوں کی مدد کی اور اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کے والد بھی تو آخر زمیں دار ہی تھے، انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کا فوج میں عہدہ کیا تھا اور فوج کی ملازمت انھوں نے کس طرح حاصل کی، اس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ البتہ انور چاچا کے والد اپنے بیٹے کو ہمیشہ کپتان ہی کہتے تھے۔ یہ دوسری بات تھی کہ شہر والوں کو اس پر یقین کبھی نہیں آیا۔

    جنگ ختم ہوئی تو انور چاچا بھی واپس آ گئے، لیکن اتنے دن فوج میں رہنے کی وجہ سے بالکل ہی بدل چکے تھے۔ داڑھی مونچھیں بالکل صاف تھیں۔ فوج سے واپسی کے بعد شہر کے کسی آدمی نے انور چاچا کو کبھی پاجامے اور کرتے میں نہیں دیکھا، کیوں کہ انور چاچا ہر وقت سوٹ پہنے رہتے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چاچا کو انگریزی کپڑوں کا اتنا شوق ہے کہ سوتے وقت بھی ٹائی باندھ کر سوتے ہوں گے۔ بہرحال فوج سے واپسی کے کچھ ہی دن بعد انور چاچا کی شادی بھی ہو گئی۔ انھوں نے اپنی بیوی یعنی چاچی کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ لیا۔

    اسی طرح کچھ دن گزر گئے۔ انور چاچا کے والد بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ اب تو انور چاچا کے عیش تھے۔ کھیتوں پر کاشت کار کھیتی باڑی کرتے اور چاچا اپنے گھر پر آرام کرتے۔ البتہ ان کے ہاں آئے دن انگریز افسروں کی دعوتیں ضرور ہوتی رہتیں۔

    انور چاچا کا گھر خاصا بڑا تھا۔ کئی کمرے خالی پڑے رہتے تھے۔ گھر کے سامنے ایک بہت بڑا میدان بھی تھا۔ یہ زمین بھی انور چاچا ہی کی تھی۔ کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے اکثر انگریز افسر چھٹیاں گزارنے ان کے گھر چلے آتے، ان کے گھر میں جو بے شمار کمرے خالی پڑے رہتے تھے، ان میں انگریز افسروں کی رہائش کا انتظام بھی آسانی سے ہو جاتا تھا۔ پھر چاچا کی طرف سے مدارات کا جو سلسلہ شروع ہوتا تو آخری دن تک جاری رہتا۔ اس طرح انگریز افسروں کے چھٹیوں کے زمانے میں پیسے بھی بچ جاتے۔ اس کے علاوہ جس شہر میں انور چاچا کا مکان تھا، اس کی آب و ہوا بھی بہت اچھی تھی۔

    ایک مرتبہ ایک انگریز افسر چاچا کا مہمان تھا۔ اس افسر نے چاچا کے مکان کے سامنے بہت بڑا میدان جو دیکھا تو ایک دن کھانے کے بعد اس نے چاچا کو مشورہ دیا کہ اس میدان میں ایک چھوٹا سا خوب صورت باغ لگوا دیا جائے۔ اس نے چاچا کو یہ بھی بتایا کہ خود اسے باغ بانی کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق ایسا ہے جو ہر بڑے آدمی کو ہوتا ہے۔ اس انگریز افسر کو غالباً باغ بانی سے بہت زیادہ دل چسپی تھی، اس لیے اس نے بہت سے بڑے بڑے انگریزوں کی مثالیں بھی دیں، جنھیں باغ بانی کا شوق تھا، بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس آدمی کو باغ بانی کا شوق نہ ہو اسے تو بڑا آدمی کہا ہی نہیں جا سکتا۔

    انگریز افسر کی بات انور چاچا کے دل میں اتر گئی اور انھوں نے فوراً ہی بڑا آدمی بننے کا فیصلہ کر لیا، بس پھر کیا تھا، دوسرے ہی دن میدان کے چاروں طرف احاطے کی دیوار بننا شروع ہو گئی، یہ چہار دیواری اس طرح بنائی گئی کہ پورا میدان انور چاچا کے مکان کا احاطہ بن گیا، لیکن اب باغ لگانے کا مسئلہ پیدا ہوا۔

    انور چاچا نے تو زندگی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ وہ بھلا باغ بانی جیسا سخت کام کیسے کرتے؟ بہرحال یہ مسئلہ بھی جلد حل ہو گیا۔ چاچا نے قریب کے شہر سے ایک تربیت یافتہ مالی کو بلا لیا۔ وہ مالی تو بے چارہ دیہات کا رہنے والا تھا، لیکن انور چاچا نے اسے بھی زبردستی پتلون پہنا دی۔ دیہاتی زبان میں بات چیت کرنے والا غریب مالی جب انور چاچا کی دلائی ہوئی پتلون پہن کر اپنی دیہاتی زبان میں بات چیت کرتا تو بڑا عجیب سا لگتا، لیکن چاچا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور اکثر کہا کرتے: "میں نے تو اپنے مالی کو بھی انگریز بنا کر رکھا ہے۔”

    مالی نے باغ لگانا شروع کر دیا تھا۔ وہ روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پودا ضرور لگاتا، نئی کیاریاں بناتا، پرانی کیاریوں کی صفائی کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاچا کے باغ میں پھولوں کے بہت سے پودے نظر آنے لگے۔ ان میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے۔ بعض پھلوں کے پودے بھی تھے، لیکن ان میں ابھی پھل نہیں آئے تھے۔ چاچا بھی اپنا زیادہ وقت اپنے باغ ہی میں گزارتے تھے، لیکن ان کا کام صرف یہ تھا کہ کبھی کسی پودے کے پاس کھڑے ہو جائیں، کبھی کسی پھول کو ہاتھ میں لے کر دیکھیں۔ کبھی کوئی پھول مرجھاتا ہوا دکھائی دیتا تو فوراً مالی کو آواز دیتے: "آگسٹس! آگسٹس!”

    اصل میں مالی کا نام گھسیٹا خان تھا، لیکن چاچا نے مالی کو انگریز بنانے کی خاطر اس کا نام گھسیٹا خان کے بجائے آگسٹس خین رکھ دیا تھا۔

    چاچا کا باغ لگ گیا تو ان کے یہاں دعوتوں کا سلسلہ اور زیادہ بڑھ گیا۔ دعوت پر آنے والے انگریز افسروں کی تعداد بڑھ گی۔ کچھ ایسے انگریز افسروں نے جو چاچا کے زیادہ گہرے دوست بن گئے تھے، ایک آدھ بار خود بھی کیاریوں کی صفائی وغیرہ کی تو چاچا کو خیال آیا کہ صرف مالی رکھ کر باغ لگوانا ہی بڑا آدمی بننے کے لیے کافی نہیں۔ مجھے خود بھی باغ بانی کرنی چاہیے۔

    اس خیال کے آتے ہی انھوں نے باغ بانی کے لیے خاص قسم کے جوتے خریدے، تاکہ ان کی پتلون کے پائنچے مٹی میں خراب نہ ہونے پائیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ زمین کس طرح بنائی جاتی ہے اور بیج کس طرح لگائے جاتے ہیں۔ یہ تو چاچا کو معلوم ہی نہیں تھا، اس لیے اکثر یہ ہوتا کہ چاچا کہیں بیج بوتے وہاں کوئی پودا نہ اگتا۔ کبھی کبھی چاچا گھسیٹا خاں عرف آگسٹس خین کی بنائی ہوئی کیاری تباہ کر دیتے۔ بیچارہ دیہاتی گھسیٹا خان انگریزی کپڑے پہن کر آگسٹس خین بنے رہنے سے یوں بھی اکتایا ہوا تھا، اس لیے چاچا سے چڑچڑانے لگتا، لیکن آدمی محنتی تھا، اس لیے چاچا اس کے چڑچڑے پن کو برداشت کر لیتے کہ کہیں آگسٹس خین ناراض ہو کر نوکری نہ چھوڑ دیں اور ان کا باغ ویران نہ ہو جائے۔

    ایک دن چاچا کو خیال آیا کہ اتنے سارے انگریز افسر ان کے دوست ہیں، لیکن اس کے باوجود انھیں ابھی تک برطانیہ کی حکومت نے کوئی خطاب نہیں دیا، حالاں کہ وہ فوج میں بھی رہ چکے ہیں اور انگریز حکومت کے وفادار بھی ہیں۔ آخر انہوں نے اس سلسلے میں اپنے انگریز افسر دوستوں سے بھی مشورہ کیا۔ ان میں سے ایک افسر نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے باغ میں کوئی ایسا پھل پیدا کریں جو اپنی مثال آپ ہو یا ایسا پھل ہو جو اس شہر میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اسے سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں افسروں اور وائسرائے کے نمائندے کے سامنے پیش کریں تو انھیں بھی خطاب مل جائے گا۔

    یہ مشورہ انور چاچا کو پسند آیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان میں انگریز حکومت کی طرف سے وائسرائے ہی سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے۔ اگر اس کے نمائندے کو میرے باغ کا پھل پسند آ گیا تو مجھے ضرور خطاب مل جائے گا۔

    انور چاچا جس شہر میں رہتے تھے، اس کی آب و ہوا میں یوں تو بہت سے پھل پیدا ہو سکتے تھے، لیکن خربوزہ بالکل پیدا نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے باغ میں خربوزہ ہی پیدا کرنا چاہیے۔ انھوں نے آگسٹس پر اپنا یہ خیال ظاہر کیا تو اس نے خربوزے پر محنت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس شہر میں خربوزہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا، لیکن چاچا کے سر میں تو خربوزے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ آگسٹس راضی نہیں ہوتا تو کیا ہوا۔ میں خود ہی خربوزہ اگانے کی کوشش کروں گا۔ چناں چہ انھوں نے پہلے تو دہلی خط لکھ کر ایک کتاب منگوائی، جس میں خربوزے پیدا کرنے کے طریقے اور اس کی کاشت کے ضروری قاعدے لکھے ہوئے تھے۔ اس کتاب میں ایک ترکیب ایسی تھی، جس پر عمل کر کے خربوزے پیدا کرنے کے لیے کھلی جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ مکان کے اندر بھی گملے میں خربوزہ اگایا جا سکتا تھا۔

    چاچا نے اسی ترکیب پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر کے اندر ہی ایک گملے میں کتاب دیکھ دیکھ کر خربوزے کے بیج لگائے۔ پھر وہ ہر روز صبح اٹھ کر کتاب میں لکھی ہوئی ترکیب کے مطابق اس میں پانی ڈالتے اور ہر پندرہ دن کے بعد کھاد بھی ڈالتے۔

    خربوزے کے ننھے سے پودے کی خدمت کرتے ہوئے انھیں کافی دن ہو گئے۔ اب یہ خربوزے کا ننھا سا پودا بڑھ کر بیل کی شکل اختیار کر گیا۔ چاچا نے اب اس کی دیکھ بھال میں بھی اضافہ کر دیا۔ گھر میں تو انھیں پہلے بھی کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اب تو انھوں نے خود کو بالکل ہی خربوزے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ کچھ دن بعد اس بیل میں ایک ننھا منا سا خربوزہ نظر آیا۔ اب تو چاچا کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ چاچا نے اب پندرہ دن کے بجائے ہر ہفتے خربوزے کی بیل میں کھاد ڈالنا شروع کر دیا۔ اسی طرح چھے مہینے گزر گئے۔

    اب خربوزہ بہت بڑا ہو چکا تھا۔ جو بھی یہ خربوزہ دیکھتا حیرت میں رہ جاتا، کیوں کہ وہ عام خربوزوں سے کئی گنا بڑا تھا۔ بالکل ایک چھوٹی میز کے برابر۔ ابھی اس کا رنگ بالکل ہرا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ابھی اور بڑھے گا۔ خربوزہ دیکھ کر لوگ یہ سوچتے کہ یہ خربوزہ نجانے پکنے کے بعد کتنا بڑا ہوگا۔

    جب چاچا انھیں بتاتے کہ وہ یہ خربوزہ سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں رکھیں گے تو لوگ سوچنے لگے کہ اس وقت تک تو یہ خربوزہ بہت ہی بڑا ہو چکا ہوگا، کیوں کہ ابھی نمائش میں پورے چھ مہینے باقی تھے۔

    دن اسی طرح گزرتے رہے اور خربوزہ بڑا ہوتا رہا۔ اتنا بڑا کہ اب اسے ایک یا دو آدمی بھی مل کر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ پھر جب نمائش کا وقت آیا تھا یہ خربوزہ ایک چھوٹے کمرے کے برابر ہو چکا تھا۔ اونچا بھی اتنا ہی تھا کہ خربوزے کے اوپر کا حصہ دیکھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت پیش آتی۔

    خدا خدا کر کے نمائش کا دن آیا تو چاچا نے سیڑھی لگا کر خربوزے کو بیل سے کاٹ کر الگ کیا پھر ایک بڑی بیل گاڑی کا انتظام کیا، جس میں خربوزے کو نمائش تک پہنچایا گیا۔ نمائش شروع ہوئی تو ہر طرف چاچا کے خربوزے کا ہی ذکر تھا۔

    بہت سے انگریز افسر نمائش دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ چاچا ایک عمدہ سی سوٹ پہنے اپنے خربوزے کے پاس کھڑے تھے۔ نمائش میں ہمیشہ کی طرح وائسرائے کے نمائندے نے بھی شرکت کی تھی۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نمائش دیکھنے آیا تھا۔

    نمائش دیکھتے دیکھتے جب وہ چاچا کے خربوزے کے پاس پہونچا تو چاچا نے فوراً سیڑھی لگائی اور قصائی والے ایک چھرے سے خربوزے کی بڑی سی قاش کاٹی۔ یہ قاش اتنی بڑی تھی کہ چاچا کو اسے دونوں ہاتھوں سے سنبھالنا پڑا۔ وائسرائے کا نمائندہ اس قاش کو بڑی حیرت سے دیکھتا رہا۔ بہرحال اس نے وائسرائے سے چاچا کی باغ بانی اور خربوزے کاشت کرنے میں چاچا کی مہارت کی بڑی تعریف کی، جس کے نتیجے میں کچھ دن کے بعد چاچا کو انگریز حکومت نے ایک خطاب اور خربوزے اگانے کے متعلق ایک سند بھی دی۔

    مصنّف: نامعلوم

  • انڈے کی آدھی خدمت

    انڈے کی آدھی خدمت

    ایک چڑے چڑیا نے ایک اونچی کوٹھی میں اپنا گھونسلا بنایا تھا۔ اس کوٹھی میں ولایت سے بیرسٹری پاس کر کے آنے والے رہتے تھے اور ایک میم کو ساتھ لے کر آئے تھے۔

    ان کی بیرسٹری کچھ چلتی نہ تھی مگرا میر زمیں دار تھے، گزارہ خوبی سے ہو جاتا تھا۔ ولایت سے آنے کے بعد خدا نےان کو ایک لڑکی بھی عنایت کی تھی۔

    چڑے چڑیا نے کھپریل کے اندر ایک سوراخ میں گھر بنایا۔ تنکوں اور سوت کا فرش بچھایا۔ یہ سوت پڑوس کی ایک بڑھیا کے گھر سے چڑیا لائی تھی۔ وہ بیچاری چرخا کاتا کرتی تھی۔ الجھا ہوا سوت پھینک دیتی، تو چڑیا اٹھا لاتی اور اپنے گھر میں اس کو بچھا دیتی۔ خدا کی قدرت ایک دن انڈا پھسل کر گر پڑا اور ٹوٹ گیا۔ ایک ہی باقی رہ گیا۔ چڑے چڑیا کو اس انڈے کا بڑا صدمہ ہوا، جس دن انڈا گرا تو چڑیا گھونسلے میں ہی تھی۔ چڑا باہر دانہ چگنے گیا ہوا تھا۔ وہ گھر میں آیا تو چڑیا کو چپ چپ اور مغموم دیکھ کر سمجھا میرے دیر سے آنے کے سبب خفا ہوگئی ہے۔

    لگا پھدک پھدک کر چوں چوں۔ چیں، چڑچوں، چڑچوں، چیں چڑچوں، چوں کرنے۔ کبھی چونچ مار کر گدگدی کرتا۔ کبھی خود اپنے پروں کو پھیلاتا مٹکتا، ناچتا، مگر چڑیا اسی طرح پھولی اپھری خاموش بیٹھی رہی۔ اس نے چڑے کی خوشامد کا کوئی جواب نہ دیا۔ چڑا سمجھا بہت ہی خفگی ہے۔ مزاج حد سے زیادہ بگڑ گیا ہے۔ خوشامد سے کام نہ چلے گا۔ میری کتنی بڑی توہین ہے کہ اتنی دیر خوشامد درآمد کی، بیگم صاحبہ نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔

    یہ خیال کر کے چڑا بھی منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔ اور چڑیا سے بے رخ ہو کر نیچے بیرسٹر صاحب کو تاکنے لگا جو اپنی لیڈی کے سامنے آرام کرسی پر لیٹے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ چڑے نے خیال کیا یہ کیسے خوش نصیب ہیں۔ دونوں کا جوڑا خوش بشاش زندگی کاٹ رہا ہے۔ ایک میں بدنصیب ہوں، سویرے کا گیا دانہ چگ کر اب گھر میں گھسا ہوں، مگر چڑیا صاحبہ کا مزاج ٹھکانے میں نہیں ہے۔ کاش میں چڑا نہ ہوتا، کم سے کم آدمی بنا دیا جاتا۔

    چڑا اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ چڑیا نےغم ناک آواز نکالی۔ ’’چوں‘‘ چڑے نے جلدی سے مڑ کر چڑیا کو دیکھا اور کہا چوں چوں چڑچوں چوں کیا ہے، آج تم ایسی چپ کیوں ہو؟ چڑیا بولی انڈا گر کے ٹوٹ گیا۔ انڈا گرنے کی خبر سے چڑے کو رنج ہوا، مگر اس نے صدمہ کو دبا کر کہا، تم کہاں چلی گئیں تھیں۔ انڈا کیوں کر گر پڑا۔ چڑیا نے کہا میں اُڑ کر ذرا چمن کی ہوا کھانے چلی گئی تھی۔ انڈا پھسل گیا۔

    یہ سن کر چڑا آپے سے باہر ہو گیا۔ اس کے مردانہ جوش میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کڑک دار گرجتی ہوئی چوں چوں میں کہا۔ پھوہڑ، بدسلیقہ، بے تمیز تو کیوں اُڑی تھی۔ تجھ کو چمن کی ہوا کے بغیر کیا ہوا جاتا تھا۔ کیا تُو نے بھی اس گوری عورت کی خصلت سیکھ لی ہے جو گھر کا کام نوکروں پر چھوڑ کر ہوا خوری کرتی پھرتی ہے۔ تُو ایک چڑیا ہے۔ تیرا کوئی حق نہیں ہے کہ بغیر میری مرضی کے باہر نکلے۔ تجھ کو میرے ساتھ اُڑنے اور ہوا خوری کرنے کا حق ہے۔ آج کل تُو انڈوں کی نوکر تھی۔ تجھے یہاں سے ہٹنے کا اختیار نہ تھا، تُو نے ایک انڈے کا نقصان کر کے اتنا بڑا قصور کیا ہے کہ اس کا بدلہ کچھ نہیں ہوسکتا، تُو نے خدا کی امانت کی قدر نہ کی، جو اس نے ہم کو نسل بڑھانے کی خاطر دی تھی۔ میں نے تو پہلے دن منع کیا تھا کہ اری کم بخت اس کوٹھی میں گھونسلہ نہ بنا، ایسا نہ ہو اُن لوگوں کا اثر ہم پر بھی پڑ جائے۔ ہم بیچارے پرانے زمانے کے دیسی چڑے ہیں۔ خدا ہم کو نئے زمانے کے چڑیا چڑے سے بھی بچائے رکھے، کیوں کہ پھر گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے، مگر تُو نہ مانی، کہتی رہی ’’کوٹھی میں رہوں گی، کوٹھی میں گھر بناؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر میراناک میں دَم کر دیا۔

    چڑیا پہلے تو اپنےغم میں چپ چاپ چڑے کی باتیں سنتی رہی لیکن جب چڑا حد سے بڑھا تو اس نے زبان کھولی اور کہا۔

    بس، بس سن لیا، بگڑ چکے، زبان کو روکو۔ انڈے بچّے پالنے کا مجھی کا ٹھیکہ نہیں ہے، تم بھی برابر کے شریک ہو۔ سویرے کے گئے یہ وقت آگیا، خبر نہیں اپنی کس سگی کے ساتھ گلچھرے اڑاتے پھرتے رہے ہو گے۔ دوپہر میں گھر کےاندر گھسے ہیں اور آئے تو مزاج دکھانےآئے۔ انڈا گر پڑا۔ مرے پنجہ کی نوک سے، میں کیا کروں۔ میں کیا انڈوں کی خاطر اپنی جان کو گھن لگا لوں، دو گھڑی باہر کی ہوا بھی نہ کھاؤں۔ صبح سے یہ وقت آگیا، ایک دانہ حلق سے نیچے نہیں گیا۔ تم نے پھوٹے منہ سے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا تُو نے کچھ تھوڑا نگلا۔ مزاج ہی دکھانا آتا ہے، اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ اکیلی چڑیا یہ سب بوجھ اُٹھائے، اب آزادی اور برابری کا وقت ہے۔ آدھا کام تم کرو آدھا میں کروں۔ دیکھتے نہیں میم صاحبہ کو وہ تو کچھ بھی کام نہیں کرتیں۔ صاحب کو سارا کام کرنا پڑتا ہے۔ اور بچّے کو آیا کھلاتی ہے۔ تم نے ایک آیا رکھی ہوتی۔ میں تمہارےانڈے بچّوں کی آیا نہیں ہوں۔

    چڑیا کی اس تقریر سے چڑا سُن ہوگیا اور کچھ جواب نہ بن پڑا۔ بےچارہ غصّہ کو پی کر پھر خوشامد کرنے لگا اور اس دن سے چڑیا کے ساتھ انڈے کی آدھی خدمت بانٹ کر اپنے ذمہ لے لی۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، انشا پرداز اور طنز و مزاح نگاری کے لیے مشہور خواجہ حسن نظامی کی ایک شگفتہ تحریر، جس کا اصل عنوان "مس چڑیا کی کہانی” ہے)

  • خوشامد

    خوشامد

    کسی جنگل میں ایک پیڑ کے نیچے لومڑی آرام کررہی تھی کہ کہیں‌ سے ایک کوّا اڑتا ہوا آیا اور درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ کوّے کی چونچ میں ایک بڑا سا گوشت کا ٹکڑا دبا ہوا ہے۔ اس کا جی بہت للچایا اور وہ ترکیب سوچنے لگی کہ اسے کیسے ہڑپ کرسکے۔

    ادھر کوّا اس بات سے بے خبر اپنا سانس بحال کررہا تھا کہ اس کے لائے ہوئے گوشت کے ٹکڑے پر لومڑی کی نیّت خراب ہوچکی ہے۔

    کوّا اس وقت چونکا جب لومڑی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک واہ وا شروع کردی۔ وہ ایک سانس میں‌ بولے جارہی تھی کہ سبحان اللہ جیسی تیری صورت ہے، ویسی ہی سیرت بھی تُو نے پائی ہے۔ تیرے پر کیا خوش رنگ ہیں اور اس کی سیاہی کیسی چمک دار ہے۔ تیرے گلے پر کیسا اجلا نشان ہے اور تیری چونچ کتنی مضبوط اور حسین ہے۔

    کوّا اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھول گیا۔ پہلے کبھی کسی نے اس کی ایسی تعریف نہیں‌ کی تھی۔ ادھر لومڑی بولے ہی جارہی تھی۔‌ اے پرند تُو اپنی سیرت میں بھی یکتا ہے اور میں‌ نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ تُو بڑا دور اندیش بھی ہے، مگر قدرت نے ایک صفت سے تجھے محروم رکھا ہے تاکہ تُو اپنی اوقات میں رہے اور کسی میں کوئی کمی دیکھے تو اسے حقیر جان کر طعنہ نہ دے سکے۔ کوّا جس نے اب تک اپنے لیے صرف تعریفی کلمات سنے تھے، اچانک ایسی بات سن کر تڑپ اٹھا اور یہ جاننے کے لیے فوراً اپنا منہ کھول دیا کہ وہ کس صفت سے محروم ہے؟

    کوّے نے جیسے ہی منہ کھولا، اس کی چونچ سے گوشت کا ٹکڑا نکلا اور لومڑی کے سامنے آ گرا جس نے اسے ہڑپ کرنے میں‌ بس اتنی ہی دیر لگائی جتنی دیر میں‌ کوئی پلک جھپکتا ہے۔ کوّا سمجھ گیا تھا کہ لومڑی نے اسے بے وقوف بنایا ہے۔

    لومڑی نے کوّے سے کہا، اے کم عقل، تُو کس صفت سے محروم ہے، سچ پوچھ تو مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں‌، لیکن میں‌ یہ ضرور جانتی ہوں کہ خوشامد سے سو کام نکل سکتے ہیں۔

    (ماخوذ از حکایت)

  • ایمان دار موچی

    ایمان دار موچی

    مصنف:‌ مختار احمد

    سردیوں کے دن تھے۔ بالا موچی درخت کے نیچے اپنی چھوٹی سی دکان میں جوتوں کی مرمت کرنے میں مصروف تھا۔ اس کی دکان بغیر چھت اور دیواروں کے ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے، گاؤں کے بالکل بیچوں بیچ ایک صاف ستھرے میدان میں تھی اور اس دکان کا کُل اثاثہ لکڑی کا ایک صندوق تھا۔

    جب بالا کام ختم کر لیتا تھا تو اپنی ساری چیزیں اس صندوق میں بند کر کے اس کی کنڈی لگا دیا کرتا تھا اور یوں دکان بند ہوجاتی تھی۔

    دوپہر کا وقت ہو گیا تھا اور سر پر سورج بھی چمک رہا تھا مگر بالا پھر بھی سردی محسوس کر رہا تھا۔ اس نے اون کی بنی ہوئی پرانی شال کو اپنے جسم کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ اس کے باوجود اس کے باتھ پاؤں سردی سے ٹھنڈے ہو رہے تھے۔

    وہ گاؤں کا واحد موچی تھا ۔ گاؤں کے سب لوگ اپنے پھٹے پرانے جوتوں کی مرمت اس سے ہی کرواتے تھے، اس لیے اس کو خالی بیٹھنے کی ذرا بھی فرصت نہیں ملتی تھی اور وہ صبح سے شام تک اپنے کام میں ہی لگا رہتا تھا۔

    بالا تھا تو غریب آدمی مگر اس میں لالچ نام کو بھی نہ تھا۔ اسے علم تھا کہ گاؤں کے لوگوں کی آمدنی زیادہ نہیں ہوتی اور وہ بڑی مشکل سے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ بالا گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح ہی ان پڑھ تھا مگر اس کو گاؤں والوں کی غربت کا احساس تھا، اس لیے وہ ان سے جوتوں کی مرمت کے زیادہ پیسے نہیں لیتا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اس کو جوتوں کی مرمت کے بدلے رقم ہی ملتی ہو، گاؤں کے کچھ لوگ تو اس خدمت کے عوض اسے مرغی، انڈے، گندم، سبزیاں اور گڑ وغیرہ بھی دے جاتے تھے۔

    ایک دفعہ اس نے گاؤں کے ایک آدمی کے دو بچوں کے نئے جوتے بنائے تھے تو اس آدمی نے ان جوتوں کے بدلے اسے ایک بکری دے دی تھی۔ اس بکری کی وجہ سے بالے اور اس کے گھر والوں کو دودھ کی آسانی ہو گئی تھی۔

    وہ اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ گاؤں میں رہتا تھا۔ گھر چلانے کے لیے اسے سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔ اس کی بیوی ایک بہت اچھی اور محنتی عورت تھی۔ وہ جوتوں میں کام آنے والا چمڑا رنگنے میں بالا کا ہاتھ بٹاتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ گاؤں کے زمین داروں کے کھیتوں میں بھی کام کرتی تھی جس سے اسے کچھ پیسے مل جاتے تھے۔ دونوں کی اس جدوجہد کے نتیجے میں گھر کی گاڑی چلتی تھی۔

    ان کی دونوں بیٹیاں ابھی چھوٹی تھیں اور گاؤں کے کچّے مدرسے میں پڑھنے جاتی تھیں۔ دونوں میاں بیوی ان کو کسی کام میں ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے۔ بالا ان سے کہتا تھا کہ بس وہ پڑھتی لکھتی رہیں۔ اس کے باوجود دونوں لڑکیاں گھر کے مختلف چھوٹے موٹے کاموں میں لگی رہتی تھیں جس کی وجہ سے بالا کی بیوی کو بڑی آسانی ہوجاتی تھی۔

    بالا کے گھر کی ایک مدت سے مرمت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے گھر میں تین کمرے تھے اور ان کی چھتیں بوسیدہ ہو گئی تھیں۔ بارش ہوتی تھی تو پانی کمروں میں ٹپکنے لگتا تھا۔ بالا یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو جاتا تھا کہ اگر سردیوں میں بارشیں شروع ہو گئیں تو کیا ہوگا۔ اس نے پیسے جمع کرنا شروع کر دیے تھے تاکہ بارشوں کے ہونے سے پہلے ہی گھر کی چھتوں کی مرمت کروا لے، مگر ابھی اس کے پاس بہت تھوڑے پیسے ہی جمع ہوےٴ تھے۔ وہ اس مقصد کے لیے اب سورج غروب ہونے تک کام میں لگا رہتا تھا تاکہ کچھ اضافی رقم حاصل ہوجائے جو چھتوں کی مرمت میں کام آئے۔

    تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اس کی بیوی اس کا کھانا لے کر آ گئی۔ وہ اپنے ساتھ ٹین کا ایک بڑا سا ڈبہ بھی لائی تھی جس میں اس نے لکڑیوں سے آگ جلا رکھی تھی۔ بالا بیوی کو، کھانے کو اور آگ کے ڈبے کو دیکھ کر خوش ہوگیا، بولا۔

    ’’بالی۔ خوش رہ۔ تُو نے تو کمال کر دیا۔ تجھے کیسے پتہ چلا کہ مجھے سردی لگ رہی ہے۔‘‘ بالی اپنی تعریف سن کر شرما گئی۔ خوش ہو کر بڑے پیار سے بولی۔ ’’بالے جیسی سردی یہاں ہے، ویسی سردی گھر پر بھی ہے۔ میں نے سوچا کہ تو سردی میں کام کررہا ہوگا اس لیے میں ڈبے میں آگ جلا کر لے آئی ہوں۔ ‘‘

    یہ کہہ کر اس کی بیوی نے کھانا کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا اور بولی۔

    ’’بالے تُو کھانا کھا، میں گھر جاتی ہوں، دونوں بچیّاں مدرسے سے واپس آنے والی ہوں گی۔ انھیں بھی کھانا دینا ہوگا۔ ‘‘ بالے نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے تُو جا، مگر بالی یہ سن لے کہ تُو میری خاطر بہت تکلیفیں اٹھاتی ہے، مجھے تو اس کا افسوس ہوتا ہے کہ میں تجھے کوئی سکھ نہیں دے سکا۔ بس تُو دیکھتی رہ، جیسے ہی گھر کی چھتوں کی مرمت ہو جاتی ہے، میں پھر پیسے جمع کروں گا اور ان سے تیرے لیے سونے کی بالیاں اور ہاتھ کے کڑے بنواؤں گا۔‘‘

    اس کی بیوی بولی۔ ’’تو ہمارے لیے ہی تو صبح سے شام تک کام میں لگا رہتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ میں بہت سکھ میں ہوں۔ ہماری بچیاں پڑھ لکھ رہی ہیں، مجھے نہ بالیاں چاہیے اور نہ کڑے، اب تو اوڑھنے پہننے کی باری ہماری بچیوں کی ہے۔‘‘

    بالا سر ہلا کر جگ کے پانی سے ہاتھ دھونے لگا اور پھر کھانے میں مصروف ہوگیا۔ اس کی بیوی اٹھ کر گھر چلی گئی۔ بالا جلد ہی کھانے سے فارغ ہوگیا اور دوبارہ کام میں لگ گیا، زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس کو دور سے بہادر آتا دکھائی دیا۔ وہ بالا کے قریب ہی ایک گھر میں رہتا تھا اور اینٹوں کے ایک بھٹے پر مزدوری کرتا تھا، اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا۔

    قریب آکر اس نے وہ تھیلا بالے کے لکڑی کے صندوق پر رکھ دیا اور خود زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ بالے نے وہ جوتا جس کی وہ مرمت کر رہا تھا ایک طرف رکھا اور بولا۔ ’’بہادر بھائی کیسے آنا ہوا؟‘‘

    بہادر نے دھیرے سے کہا ’’پرسوں دوسرے گاوٴں سے لڑکے والے شادی کے لیے میری بڑی لڑکی کو دیکھنے کے لیے آرہے ہیں اس لیے جوتے مرمت کروانے کے لیے لایا ہوں، لڑکے والے آئیں گے تو ان پھٹے ہوئے جوتوں میں ان کے سامنے جاتے ہوئے شرم آئے گی۔‘‘ اس نے اپنا پاوٴں آگے کر کے کہا۔

    بالے نے دیکھا اس نے جو جوتے پہنے ہوئے تھے وہ انتہائی بدنما اور خستہ تھے، بالا نے خاموشی سے وہ تھیلا اٹھایا جس میں بہادر مرمت کروانے کے لیے جوتے لایا تھا، یہ جوتے بھی نہاہت خستہ حالت میں تھے اوپر کا چمڑا پرانا ہو گیا تھا مگر پھٹا نہیں تھا، اس نے انھیں پلٹ کر دیکھا تو دونوں جوتوں کے تلے پھٹے ہوئے تھے، بالے کی تجربہ کار انگلیوں نے جوتوں کے چمڑے کو چھو کر اندازہ کر لیا تھا کہ وہ ہرن کی کھال کے بنے ہوئے تھے، جو نہایت نرم، مضبوط اور ہلکی ہوتی ہے۔

    دوسری بات جو بالے نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ہرن کی کھال کے بنے ہوئے جوتے اگرچہ ہلکے پھلکے ہوتے ہیں، مگر یہ جوتے اسے کچھ زیادہ ہی وزنی لگے۔ اس نے اس بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔

    جب بہادر نے جوتوں میں بالے کا انہماک دیکھا تو وہ پریشان ہوگیا۔ اس کو یہ ڈر تھا کہ اتنے خراب جوتے دیکھ کر بالا ان کی مرمت سے انکار نہ کر دے اس لیے وہ بڑی لجاجت سے بولا۔ ’’بالے بھائی جوتے بہت پرانے ہیں۔ ان کو میں نے گھر میں پڑے پرانے سامان سے نکالا ہے، یہ جوتے میرے دادا کے تھے اور کسی زمانے میں بہت اچھی حالت میں تھے۔ دادا کے انتقال کے بعد میرے ابّا نے پہن پہن کر ان کا یہ حال کردیا تھا۔ اگر بیٹی کی بات پکّی ہونے کی تقریب نہ ہوتی تو میں کبھی بھی ایسے پھٹے پرانے جوتے لے کر تمہارے پاس نہیں آتا۔ بس یہ سمجھ لو عزت کا معاملہ ہے۔‘‘

    بالا اس کی بات سن کر رنجیدہ ہو گیا، اس نے کہا ’’یہ جوتے ہرن کی کھال کے بنے ہوئے ہیں اور ہرن کی کھال کے جوتے بہت قیمتی ہوتے ہیں، تمہارے دادا تو کافی پیسے والے ہوں گے۔‘‘

    بہادر نے بڑے فخر سے کہا۔ ’’وہ بہت بڑے زمین دار تھے۔ اس گاوٴں کی بہت سی زمینیں ان ہی کی ملکیت تھیں۔ ان کے مرنے کے بعد میرے باپ نے ساری زمینیں بیچ کر ان کے پیسے اپنے دوستوں پر اڑا دیے تھے۔ اگر وہ سنبھل کر چلتے تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔‘‘

    اس کی شرمندگی محسوس کرکے بالا نے اس کی تسلی کے لیے کہا۔ ’’تم فکر مت کرو، ان جوتوں کو تو میں ایسا کر دوں گا کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں گے۔‘‘

    اس کی بات سن کر بہادر نے نظریں جھکا کر کہا۔ ’’اور بالے بھائی ایک بات اور ہے۔ان کی اجرت میں بعد میں دوں گا۔ ابھی تو لڑکے والوں کے کھانے کا بھی انتظام نہیں ہوا ہے، وہ بھٹہ جہاں میں کام کر تا ہوں اب میں اس کے مالک کے پاس جاؤں گا، شاید وہ مجھے کچھ رقم ادھار دے دے اور میں کھانے کا انتظام کرسکوں۔‘‘

    بالے نے کہا۔ ’’دیکھو بہادر بھائی۔ جیسی تمھاری بیٹی، ویسی میری بیٹی۔ تم فکر مت کرنا۔ بھٹے کا مالک بھلے تمہیں ادھاردے یا نہ دے، میرے پاس چلے آنا، میرے پاس کچھ رقم موجود ہے، بارش میں چھتیں ٹپکنے لگتی ہیں ان کی مرمت کے لیے میں رقم جمع کر رہا ہوں۔ مرمت تو بعد میں بھی ہوجائے گی، ان پیسوں کو تم بس اپنا ہی سمجھو۔ تم آرام سے لڑکے والوں کی دعوت کا انتظام کرنا۔‘‘

    بالے کی ہم دردی اور محبت بھری باتیں سن کر بہادر کا دل بھر آیا اور اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ اسے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوا۔

    چوں کہ گاوٴں کی ایک بیٹی کی شادی کا معاملہ تھا اس لیے بالے نے دوسرے جوتوں کی مرمت کا کام چھوڑا اور بہادر کے جوتے لے کر بیٹھ گیا۔ جوتوں کے تلے تو بالکل بھی مرمت کے قابل نہ تھے، وہ نہ صرف بری طرح گھس گئے تھے بلکہ بیچ میں سے دو حصوں میں بھی تقسیم ہو گئے تھے۔ بالے نے اپنے لکڑی کے صندوق میں سے سب سے مہنگے والے تلے نکالے، یہ تلے وہ گاوٴں کے امیر زمین داروں کے جوتوں میں لگاتا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنے کام میں لگ گیا ۔

    شام تک جوتے تیار ہو گئے تھے۔ بالے نے ان پر بہت محنت کی تھی اور وہ بالکل نئے لگ رہے تھے۔ اس نے اپنی ساری چیزیں لکڑی کے صندوق میں بند کر کے اس کی کنڈی لگائی اور بہادر کے جوتوں کا تھیلا اٹھا کر گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

    اس پوری کارروائی کے دوران اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے اور دبے دبے جوش کے آثار تھے اور وہ بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ اس کے قدم تیزی سے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے ایسا معلوم دیتا تھا جیسے وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا ہو۔

    گھر پہنچ کر اس نے جوتوں کا تھیلا ایک طرف رکھا۔ دونوں بچّیاں باہر گلی میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ بالی رات کا کھانا پکا رہی تھی۔ بالے نے اسے آواز دے کر بلایا۔ وہ آئی تو بالے نے اسے بہادر کے جوتے دکھائے اور پھر اسے پاس بٹھا کر چپکے چپکے اس کو کچھ بتانے لگا۔

    بالے کی باتیں سن کر بالی آنکھیں حیرت سے چمکنے لگی تھیں۔ اپنی بات ختم کر کے بالے نے اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پرانے کپڑے کی ایک پوٹلی کھول کر بالی کو دکھائی۔ پوٹلی میں بہت سارے چمکتے ہوئے ہیرے اور سونے کی چھوٹی چھوٹی اینٹیں چمک رہی تھیں۔ ان کو دیکھ کر بالی حیران بھی تھی اور خوش بھی۔

    بالے نے کہا۔ ’’اب ہم بہادر کے گھر چلیں گے، بچّیاں باہر گلی میں کھیل رہی ہیں، تُو چولھے کی آگ ہلکی کردے، ہم جلدی واپس آجائیں گے۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد بالا اپنی بیوی بالی کو لے کر بہادر کے گھر پہنچا۔ بہادر گھر پر ہی مل گیا تھا اور سخت پریشان اور فکرمند نظر آ رہا تھا۔ اس نے بالے اور اس کی بیوی کو عزت سے بٹھایا۔ اس کی بیوی اور بیٹیاں بھی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔

    جب سب بیٹھ گئے تو بہادر نے بالے کو بتایا کہ اسے بھٹے کے مالک نے پیسے دینے سے انکار کر دیا ہے، اس نے اس کی بے عزتی بھی کی تھی کہ وہ ادھار لینے کے لیے ہر وقت منہ اٹھا کر چلا آتا ہے۔

    بالے نے کہا۔ ’’بہادر، اللہ بہت رحیم اور کریم ہے۔ اب میں تم سب لوگوں کو ایک عجیب و غریب کہانی سناتا ہوں۔ یہ کہانی سن کر تم سب بہت خوش ہو جاوٴ گے۔‘‘

    اس کی بات سن کر بہادر کی بیوی اور بیٹیاں اسے حیرت اور دل چسپی سے دیکھنے لگیں۔ بالی کو تو بالا یہ باتیں پہلے ہی بتا چکا تھا اس لیے وہ حیران نہیں ہورہی تھی۔ بہادر کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا تھا وہ منہ کھولے بالے کی باتیں سن رہا تھا۔ ان سب کی حیرانی اور پریشانی دیکھ کر بالے کی بیوی مسکرا رہی تھی۔

    بالے نے کہنا شروع کیا۔ ’’بہادر۔ تمہارے دادا بہت امیر آدمی تھے۔ جب میں نے ان کے جوتوں کی چیر پھاڑ کی تو ان کی ایڑیوں میں سے یہ چیزیں نکلی تھیں۔‘‘

    اس نے کپڑے کی و ہی چھوٹی سی پوٹلی نکال کر سرکنڈوں سے بنے مونڈھے پر رکھ دی۔ سب حیرانی سے اس پوٹلی کو دیکھ رہے تھے۔ جب بہادر نے وہ پوٹلی کھولی تو اس میں رکھے ہوئے ہیرے اور سونے کی چھوٹی چھوٹی اینٹیں دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔

    بہادر نے وہ پوٹلی اٹھا کر بہادر کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ’’میرا یہ خیال ہے تمہارے دادا نے اس دولت کو چوروں اور ڈاکووٴں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے جوتوں میں چھپا دیا تھا۔‘‘ اتنی ساری دولت سامنے پا کر بہادر کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس پوٹلی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی تو اتنی خوش ہوئی کہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔ جب تھوڑی دیر بعد ان لوگوں کی حالت سنبھلی تو بہادر بالے کے ہاتھ تھام کر رونے لگا۔

    ’’بالے بھائی تم انسان نہیں فرشتہ ہو۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’تمہارا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ تمہارے جیسا ایمان دار آدمی پورے گاوٴں میں کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔‘‘

    ’’بہادر میں تو اس بات پر خوش ہوں کہ تمہاری بیٹی کے نصیب سے یہ دولت تمہیں ملی ہے۔ اب تو تم اس گاوٴں کے بہت امیر آدمی ہو گئے ہو۔ ان چیزوں کو فروخت کر کے ان سے ملنے والی رقم سے پہلے تو بیٹی کی شادی کرنا پھر کوئی اچھا سا کام شروع کردینا۔‘‘

    تھوڑی دیر کے بعد بالا اور اس کی بیوی اپنے گھر جانے کے لیے اٹھ گئے۔ راستے میں اس کی بیوی نے کہا۔ ’’بالے تجھے یہ ایمان داری کس نے سکھائی ہے۔ تُو چاہتا تو اس قیمتی خزانے کو چھپا بھی سکتا تھا، کسی کو کیا پتہ چلتا۔ ان کو بیچ کر تو گھر کی چھتیں ٹھیک کروا سکتا تھا، میرے لیے سونے کے زیورات بنوا سکتا تھا۔ ہم اپنی بچیوں کو گاوٴں کے نہیں پڑوس کے قصبے میں کسی اچھے سے اسکول میں داخل کروا سکتے تھے۔‘‘

    بالا اس کی بات سن کر ہنسا پھر سینہ تان کر بولا۔ ’’ہمارے گھر کی چھتوں کی مرمت بھی ہوگی، تیرا زیور بھی بنے گا اور ہماری بچیاں قصبے کے اسکول میں نہیں شہر کے اسکول میں بھی پڑھنے جائیں گی۔ اور یہ سب میں اپنے ہاتھ کے کمائے ہوئے پیسوں سے کروں گا۔‘‘

    اس کی بات سن کر بالی کھل اٹھی اور بولی۔ ’’میں اور میری دونوں بچیاں بہت خوش نصیب ہیں، مجھے اتنا اچھا شوہر اور بچیوں کو اتنا اچھا باپ ملا ہے۔‘‘

    اپنی تعریف سن کر بالا شرما گیا تھا، بیوی سے اس شرم کو چھپانے کے لیے جھوٹ موٹ کے غصے سے بولا۔ ’’بالی ذرا تیز چل۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ گھر جاتے ہی کھانا کھاوٴں گا۔‘‘

    بالی سمجھ گئی تھی کہ اس کی تعریف سے بالا شرما گیا ہے، وہ مسکرائی اور تیز تیز چلنے لگی۔

  • گامُو کوچوان کے بیٹے کی موت (کہانی)

    گامُو کوچوان کے بیٹے کی موت (کہانی)

    شام کا جھٹپٹا پھیل رہا تھا۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گالے سڑک کنارے لگے کھمبوں کے گرد چکر کھا کھا کر نیچے گر رہے تھے اور گھروں کی چھتوں، گھوڑوں کی پیٹھوں، لوگوں کے شانوں، ٹوپیوں اور پگڑیوں پر برف کی سفید تہ جماتے جاتے تھے۔

    اس بار مری میں ہمیشہ سے زیادہ برف باری ہوئی۔ بوڑھا گامُو کوچوان کسی بھوت کی طرح سَر تا پا سفید ہوچکا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے یکّے پر اس قدر دہرا ہو کر بے حس و حرکت بیٹھا تھا کہ اس سے زیادہ خود کو دہرا کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ اس پر برف کی تہہ چڑھتی جا رہی تھی مگر وہ اس سے لاتعلق نظر آتا تھا۔ اس کی چھوٹی سی گھوڑی بھی برف پڑنے سے سفید نظر آرہی تھی اور کسی سوچ میں ڈوبی یوں ساکت و جامد کھڑی تھی گویا گھوڑے کا مومی کھلونا ہو۔ شاید دوڑتے بھاگتے لوگوں سے بھرے شہر اور شور و غل کے درمیان اسے گاؤں کے کھیتوں کی دل فریب پگڈنڈیاں بہت یاد آرہی تھیں۔

    گامُو کوچوان اپنے اڈّے سے کافی دیر کا نکلا ہوا تھا اور ابھی تک اسے کوئی سواری نہیں ملی تھی اور اب تو شام ہو رہی تھی۔ سڑکوں کے کنارے روشنی کے کھمبوں پر بجلی کے قمقمے روشن ہو رہے تھے۔

    ”یکّے والا ڈاک بنگلہ جانا مانگٹا؟“ بوڑھے گامُو نے اچانک کسی کو پکارتے سنا۔ اس نے برف سے ڈھکی پلکوں کو دھیرے سے اٹھا کر دیکھا، ایک گورا صاحب فوجی وردی میں ملبوس سر پر ہیٹ پہنے کھڑا تھا۔ ” ٹم سوٹا ہے کیا، ڈاک بنگلہ جائے گا؟“ گورے فوجی نے ڈانٹنے کے انداز سے بات دہرائی۔

    گامُو نے اپنا سکون اور سکوت توڑ کر گھوڑی کی لگام کھینچی اور برف کی قاشیں گھوڑی کے بدن سے پھسل کر نیچے جا گریں۔ گورا صاحب یکّے پر سوار ہوگیا۔ گامُو نے بگلے کی طرح گردن اٹھائی، سیدھا ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھا اور چابک گھمایا۔ گھوڑی نے بھی گردن اٹھائی اور بے دلی سے چلنا شروع کر دیا۔

    ” کہاں مر رہے ہو خبیث! اپنی راہ چلو!“ سڑک پر پیدل چلنے والا کوئی راہ گیر چلایا۔ ساتھ ہی صاحب بہادر بولا: ” کہاں مرٹا، بائیں جانیب چلو ٹم!“ گامُو نے خاموشی سے گھوڑی کی باگیں کھینچیں، اسی اثنا میں پہلو سے کسی اور تانگے والے نے گالیاں بکنا شروع کر دیں اور پھر کوئی دوسرا راہ گیر بڑبڑایا، جس کی قمیض سے گھوڑی کی ناک چُھوگئی تھی۔

    گامُو اپنی نشست پر بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ ” یہ الو کا پٹا ٹم سے مقابلہ کرٹا دیکھو۔“ گورے صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ لیکن گامُو کے دل و دماغ میں کوئی اور بات گردش کر رہی تھی۔ وہ اپنے گرد و نواح سے بے پروا تھا۔ اس نے چہرہ گھما کر ایک نظر پیچھے بیٹھے انگریز فوجی افسر کو دیکھا، کچھ کہنے کے لیے ہونٹ ہلائے لیکن کوئی بات تھی جو اس کی زبان پر آ کر پلٹ گئی۔

    ”ٹم کچھ کہنا مانگٹا؟“ صاحب بہادر نے بھنویں سکیڑ کر گامُو سے سوال کر دیا۔ گامُو کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ کر غائب ہوگئی۔ اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بہ مشکل کہا: صاحب جی وہ اسی ہفتے میرا بیٹا مر گیا ہے جی!۔ ” ہوں کیسے مرا۔“ انگریز نے سنجیدگی سے پوچھا۔

    گامُو پیچھے کو مڑا اور انگریز کو بتانے لگا: ﷲ کو پتا جی، کیا ہوا! بخار تھا، پھر تین دن ڈاکٹر ﷲ بخش صاحب کے ہاں رکا پڑا رہا، پھر مرگیا، جو مرضی اوپر والے کی۔

    ”پیچھے ہٹو، مردود۔“ اندھیرے سے پھر ایک آواز آئی، ”پاگل ہوگئے ہو باؤلے بڈھے؟ دیکھ کے چلو!“ نجانے پھر یکہ کس پر چڑھ دوڑا تھا۔ ”راہ دیکھ کر چلو بابا، جلدی کرو، ہم کو دیر ہوجائے گا۔“ انگریز فوجی نے ہولے سے کہا اور اپنی نشست پر نیم دراز ہوگیا۔

    گامُو پھر سے سیدھا ہو بیٹھا، چابک گھمایا اور یکّہ چلانے لگا۔ کئی بار اس نے مڑ کر دیکھا اور چاہا کہ گورے صاحب سے گفت گو کا سلسلہ وہیں سے جڑ جائے جہاں سے کٹ گیا تھا لیکن صاحب بہادر آنکھیں میچے سیٹ پر نیم دراز پڑا تھا۔ گورے صاحب کو ڈاک بنگلے اتار کر گامُو نے یکّہ ایک سستے سے ہوٹل کے سامنے جا کر کھڑا کیا اور ایک بار پھر یکّے پر اسی طرح بے حسّ و حرکت بیٹھ گیا۔ اور برف نے اسے اور اس کی گھوڑی کو ایک بار پھر مومی مجسمہ بنا دیا۔

    خدا جانے کتنی دیر گزر چکی تھی جب تین مشٹنڈے نوجوان یکّے کی طرف بڑھے۔ ایک کبڑا اور ٹھگنا سا اور دو لمبے گبھرو جوان تھے جو ایک دوسرے کو بھاری بھرکم گالیاں بکتے، جوتے پٹختے غالبا ڈھابے سے نکل رہے تھے۔

    ”لاری اڈّے جاؤ گے؟“ کبڑے نے بدتمیزی سے پوچھا۔ ”ہم تین ہیں، دو روپے دیں گے۔“ گامُو نے گھوڑی کی باگ کھینچی۔ لڑکوں نے کرایہ تو بہت کم کہا تھا لیکن گامُو کے پیشِ نظر کرایہ نہیں، تین سواریاں تھیں۔ تینوں نوجوان ایک دوسرے کو دھکیلتے، گالیاں بکتے یکّے پر بیٹھ گئے۔

    ”چلو چاچا!“ اس کے پیچھے بیٹھے کبڑے نے قریب ہو کر کہا۔

    ”ارے واہ!“ کبڑا، جو پی کر زیادہ ہی بکے جا رہا تھا، بولا: ”یہ پگڑی جو تو نے پہنی ہے کوچوان چاچا، اس سے میلی پگڑی تجھے پورے مری میں نہیں ملی کیا؟“

    ”ہی ہی اجی شیخی کیا بگھاریں، غریب آدمی ہیں۔ “ گامُومصنوعی سی ہنسی ہنس کر بولا۔

    ”ہاں، شاباش۔ شیخی نہیں بگھارتے، جلدی چلاؤ یکّہ، کیا ساری راہ ایسے ہی چلو گے؟ جماؤں ایک دھول!“ کبڑا بکنے لگا۔ ” یار میرے تو سَر میں درد ہونے لگا ہے۔“ لمبا نوجوان گویا ہوا۔ ”کل میں نے اور بخشو نے ولایتی کی چار بوتلیں چڑھا لیں بھئی۔“

    ”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تو اتنی لمبی کیوں ہانکتا ہے، گنواروں کی طرح۔ “ دوسرے لمبے نوجوان نے تیوری چڑھا کر کہا: ” نئیں یار، جھوٹ نہیں بولتا مولا قسم“ پہلا جوان بولا۔ ”سچ ہے۔ بالکل ایسے جیسے کھٹمل کھانستا ہے ہاہاہا۔“ دوسرے نے کہا اور تینوں نوجوان قہقہے لگا کر ہنس پڑے اور گامُو بھی کھسیانی ہنسی ہنسا۔

    ” ابے بڈھے۔ “ کبڑا چلّایا۔ ایسے چلاتے ہیں یکّہ؟ چابک لو اور لگاؤ اس گھوڑے کے۔“ کبڑے کے ڈانٹنے کے بعد ایک بار پھر گامُو کی توجّہ یکّے کی طرف ہوئی۔ وہ اپنے پیچھے بیٹھے کبڑے کی بک بک سنتا رہا۔ راہ گیروں کے کوسنے بھی وقفے وقفے سے اسے سننے کو مل رہے تھے اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر بھی اس کی توجہ اپنی تنہائی سے ہٹی تھی۔

    اس دوران لمبے نوجوانوں نے کسی لونڈیا کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ میرا بیٹا اسی ہفتے مرا ہے۔ گامُو نے کافی انتظار کے بعد ان کی گفت گو کے ایک وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا:” ہاں۔ ہم سب نے ایک دن مرنا ہے۔“ کبڑا کھانستے ہوئے بولا۔ لیکن تُو جلدی چل، جلدی!۔ دوستو! اس طرح رینگ رینگ کر چلنے سے تو ہم آج پہنچنے سے رہے۔ کبڑے نے کہا۔ ہاں اس کی ہمت بڑھاؤ ذرا۔ ایک جماؤ نا گدی پر لمبا نوجوان بولا: او بڈھی بیماری! میں سیدھا کر دوں گا تجھے۔ سن رہا ہے ناں؟ کبڑا بولا۔ گامُو خفیف سا ہنسا۔ ہاں صاحب، سنتا ہوں۔ مولا آپ کو سکھی رکھے۔

    کوچوان چاچا۔ تم شادی شدہ ہو؟ لمبے نوجوان نے پوچھا تو گامُو ہنس پڑا۔ میری شادی تو اب قبرستان میں پہنچ کر ہی ہوگی، اب دیکھو جی، میرا بیٹا مرگیا ہے اور میں زندہ ہوں۔ کیسی اڈھب سی بات ہے۔ موت کو ذرا بھی ڈھنگ نہ تھا، پہلے مجھ پر آتی۔ پھر گامُو ان نوجوانوں کی طرف گھوما تا کہ وہ انہیں اپنے بیٹے کے مرنے کا قصہ تفصیل سے سنائے لیکن اسی لمحے کبڑا بولا: لو جی۔ آ گیا لاری اڈّا۔ وہ تینوں کرائے کے دام چکا کر چلے گئے اور گامُو انہیں دیکھتا رہ گیا۔

    وہ ایک بار پھر اکیلا تھا اور جس بے چارگی کے درد سے وقتی طور پر اس کی توجہ ہٹ چکی تھی، وہ درد ایک بار پھر پوری شدّت سے جاگ اٹھا۔ گامُو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے سڑک کی دوسری جانب آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ ان میں ایسا کون تھا، کوئی ایک جو اس کی بپتا سن لیتا۔ لیکن لوگوں کا ہجوم تھا جو اس کی حالت سے بے خبر اپنے اپنے راستے پر رواں تھا۔ اس وقت اس کی بے چارگی کا یہ عالم تھا کہ اگر اس کا دل پھٹ جاتا اور درد کا سیلاب بن کر بہہ نکلتا تو گامُو کو یقین تھا کہ پورا جہان بہا لے جاتا لیکن خدا جانے کہاں ٹھہرا تھا یہ درد۔

    اسی لمحے گامُونے ایک قلی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تھیلا تھا۔ گامُو نے اس سے بات کرنے کا بہانہ تراشا۔ دوست، کیا وقت ہو گا ابھی؟ گامُو نے قلی سے پوچھا۔ دس بجنے والا ہو گا، تم یہاں کاہے کو کھڑا ہے، چلتا بن! قلی نے پان چباتے ہوئے کہا۔ گامُو چند قدم آگے بڑھ گیا۔ وہ ایک بار پھر تنہائی کے رحم و کرم پر تھا۔ اسے خیال آیا کہ لوگوں سے کیا کہنا۔ واپس اڈّے کو چلنا چاہیے۔ اب اسے سَر درد بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ گامُو نے باگ پکڑی اور اڈّے کی راہ لی۔

    تانگے والوں کے اڈے پر ایک ٹین کی چھت کے نیچے ایک چولھا ہلکی آنچ پہ جل رہا تھا اور سارے کوچوان اس کے گرد چوبی بنچوں پر لیٹے بیٹھے خراٹے لے رہے تھے۔ گامُو بھی درمیان میں جگہ پا کر بیٹھ گیا۔ میں نے آج کچھ بھی کمائی نہیں کی۔ گامُو سوچنے لگا۔ کچھ اپنے کھانے کے لیے خرید سکا نہ اپنی گھوڑی کے لیے۔ شاید اداسی کی یہی وجہ ہے۔ جس شخص کے پاس اپنے کھانے کے لیے کچھ ہو، گھوڑے کے لیے بھی ہو اور اپنا کام بخوبی کر لیتا ہو، وہ سکون میں رہتا ہے۔ گامُوکے ذہن میں خیالات آنے لگے۔

    اسی لمحے ایک نوجوان کوچوان نیند سے اٹھا اور ادھ کھلی آنکھوں سے پانی کے مٹکے کی طرف بڑھا۔ پانی پیو گے؟ گامُو نے اس سے پوچھا۔ ہونھ، میرا بیٹا اسی ہفتے مرا ہے، سن رہے ہو؟ ہاں۔ اسی ہفتے، ڈاکٹر ﷲ بخش صاحب کے شفا خانے پر، نرالے کام ہیں اوپر والے کے۔ ساتھ ہی گامُو نے اس خبر کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے غور سے نوجوان کی طرف دیکھا تو وہ پانی پی کر ایک بار پھر آنکھیں بند کرچکا تھا۔ گامُو چپ ہوگیا۔ جس طرح سے اس نوجوان کو پانی کی پیاس تھی، اسی طرح گامُو کو بھی اپنی بپتا سنانے کی حسرت تھی۔ وہ تو پانی پی کر سو رہا لیکن گامُو پھر تنہا تھا۔

    اس کے لڑکے کو مرے ایک ہفتہ ہونے کو تھا اور گامُو نے کسی کو ہنوز اپنے بیٹے کی موت کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتایا تھا۔ وہ پوری تفصیل سے کسی کو بتانا چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بیمار کیسے پڑا، وہ کس قدر تکلیف میں تھا۔ پھر مرتے وقت اس نے کیا کہا، پھر وہ کیسے مر گیا۔

    گامُو بتانا چاہتا تھا کہ اس کی آخری رسم کیسے ادا ہوئی، پھر گامُو اپنے بیٹے کے کپڑے اٹھا لانے کے لیے کیسے ڈاکٹر ﷲ بخش کے کلینک پر گیا۔ گاؤں میں گامُو کی ایک بچّی بھی تھی، شبنم، جسے وہ شبو کہا کرتا تھا۔ وہ اس بارے میں بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس کی بات سننے والا دکھ سے یقیناً رو پڑتا اور کسی عورت سے بیان کرنا تو اور بھی بہتر تھا کہ یہ بھلی مانس مخلوق ایسی بات پر پہلا لفظ سنتے ہی رو رو کر برا حال کر لیتی ہے۔

    ذرا باہر جا کر گھوڑی کو دیکھوں، گامُو کو خیال آیا تو اس نے چادر اوڑھی اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اپنی گھوڑی کے پاس آ کر وہ چارے کے بارے میں سوچنے لگا۔ موسم کے بارے میں سوچنے لگا لیکن تنہائی میں اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہ سوچ سکا۔ کسی دوسرے سے اس کا تذکرہ کرنا تو بوڑھے گامُو کے بس میں تھا لیکن اس کے بارے میں سوچنا اور اس کی تصویر اپنے خیالات کی تختی پر بنانا اس کے لیے ازحد درد ناک تھا۔

    تم جگالی کر رہی ہو؟ گامُو نے اپنی گھوڑی کی آنکھوں کی چمک میں جھانکتے ہوئے کہا: ہاں شاباش، دیکھو ہم نے آج کچھ نہیں کمایا۔ ہم دونوں آج گھاس کھائیں گے، دیکھو میں کافی بوڑھا ہوگیا ہوں اور یکّہ چلانے کے قابل نہیں رہا، میرا بیٹا زندہ ہوتا تو وہ میری جگہ یکّہ چلاتا، وہ اصل کوچوان تھا، اسے زندہ رہنا چاہیے تھا۔

    گامُوایک لمحے کو خاموش ہو کر پھر گویا ہوا: میرے بیٹے نے مجھے الوداع کہا اور وہ چلا گیا، کوئی بات ہی نہ تھی اور وہ چلا گیا دیکھو، تم ایک لمحے کو فرض کرو کہ تمہارا ایک بچھیرا ہوتا، تمہارا بچہ اور تم اس کی ماں ہوتیں اور پھر وہی چھوٹا بچھیرا تمہارا بچہ چلا جاتا یا مرجاتا، تم کتنا دکھی ہوتیں۔۔۔ ہوتیں ناں؟ گامُو کہے جا رہا تھا۔

    گھوڑی نے جگالی کی۔ گامُو کی بات سنی اور ایک گرم سانس اپنے مالک کے ہاتھ پر چھوڑ دی۔ پھر گامُو کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا اور اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اپنی دردِ دل کی ساری بپتا سنا ڈالی۔

    (اس کہانی کے مصنف ذکی نقوی ہیں‌ جن کی "مائے نی میں کنوں آکھاں” کے عنوان سے یہ المیہ روداد مشہور روسی ادیب چیخوف کی کہانی Misery: To whom shall i tell my grief سے ماخوذ ہے)