Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • اونچی ذات

    اونچی ذات

    نانی پیار سے اسے سِلیا ہی کہتی تھی۔ بڑے بھیّا نے اپنی تعلیم یافتہ سوجھ بوجھ کے ساتھ اس کا نام شیلجا رکھا تھا۔ وہ ماں باپ کی سلّی رانی تھی۔ سِلیا گیارھویں کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ سانولی سلونی معصوم، بھولی، سیدھی اور سنجیدہ مزاج سِلیا اپنی اچھی صحّت کی وجہ سے اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی لگتی تھی۔ اسی سال 1960 کا سب سے زیادہ عجیب واقعہ ہوا۔

    ہندی اخبار ’نئی دنیا‘ میں اشتہار چھپا، ’’اچھوت خاندان کی بہو چاہیے۔‘‘ مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے جانے مانے نوجوان نتیا سیٹھ جی، اچھوت لڑکی کے ساتھ بیاہ کر کے سماج کے سامنے ایک مثال رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی صرف ایک شرط تھی کہ لڑکی کم سے کم میٹرک ہو۔

    مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع کے اس چھوٹے گاؤں میں بھی اشتہار کو پڑھ کر ہلچل مچی ہوئی تھی۔ گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں نے، برہمن بنیوں نے سِلیا کی ماں کو صلاح دی، تمھاری بیٹی تو میٹرک پڑھ رہی ہے، بہت ہوشیار اور سمجھ دار بھی ہے، تم اس کا فوٹو، نام پتہ اور تعارف لکھ کر بھیج دو۔ تمھاری بیٹی کے تو نصیب کھل جائیں گے، راج کرے گی۔ سیٹھ جی بہت بڑے آدمی ہیں۔

    سِلیا کی ماں زیادہ جرح میں نہ پڑ کر صرف اتنا ہی کہتی ہے۔‘‘ ہاں بھیّا جی، ہاں دادا جی….! ہاں بائی جی، سوچ سمجھ لیں۔‘‘

    سِلیا کے ساتھ پڑھنے والی سہیلیاں اسے چھیڑتیں، ہنسی مذاق کرتیں مگر سِلیا اس بات کا کوئی سَر پیر نہیں سمجھ پاتی۔ اسے بڑا عجیب لگتا۔ ’’کیا کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے؟‘‘

    اس بارے میں گھر میں بھی ذکر ہوتا رہتا۔ پڑوسی اور رشتے دار کہتے۔’’فوٹو اور نام پتہ بھیج دو۔‘‘

    تب سِلیا کی ماں اپنے گھر والوں کو اچھی طرح سمجھا کر کہتی۔ ’’نہیں بھیّا یہ سب بڑے لوگوں کے چونچلے ہیں، آج سب کو دکھانے کے لیے میری بیٹی کے ساتھ شادی کریں گے اور کل چھوڑ دیا تو ہم غریب لوگ ان کا کیا کر لیں گے؟ اپنی عزت اپنے سماج میں رہ کر ہی ہوسکتی ہے۔ دکھاوے کی چار دن کی عزت ہمیں نہیں چاہیے۔ ہماری بیٹی ان کے خاندان اور سماج میں ویسی عزت اور قدر نہیں پاسکے گی۔ ہم سے بھی دور کر دی جائے گی، ہم تو نہیں دیویں اپنی بیٹی کو۔ ہم اس کو خوب پڑھائیں گے، لکھائیں گے، اس کی قسمت میں ہو گا تو اس سے زیادہ عزت وہ خود پا لے گی۔‘‘

    بارہ سال کی سِلیا ڈری سہمی ایک کونے میں کھڑی تھی اور مامی اپنی بیٹی مالتی کو بال پکڑ کر مار رہی تھی۔ ساتھ ہی زور زور سے چِلّا کر کہتی جا رہی تھی ’’کیوں ری تجھے نہیں معلوم، اپنے وا کنویں سے پانی نہیں بھر سکے ہیں؟ کیوں چڑھی تو وہاں کنویں پر، کیوں رسّی بالٹی کو ہاتھ لگایا؟‘‘ اور جملہ پورا ہونے کے ساتھ ہی دو چار تھپڑّ، گھونسے اور برس پڑے مالتی پر۔ بے چاری مالتی دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ چھپائے چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ ساتھ ہی کہتی جا رہی تھی۔ ’’او بائی معاف کر دے اب ایسا کبھی نہیں کروں گی۔‘‘

    مامی کا غصہ اور مالتی کا رونا دیکھ کر سِلیا اپنے آپ کو مجرم محسوس کر رہی تھی۔ اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس مار پیٹ کے سلسلے میں اس کی آواز دھیمی پڑ جاتی۔ مامی کا تھوڑا غصہ کم ہوتا دیکھ سِلیا نے ہمّت بٹوری۔ ’’مامی میں نے تو مالتی کو منع کیا تھا مگر وہ مانی نہیں۔ کہنے لگی جیجی پیاس لگی ہے، پانی پئیں گے۔‘‘

    مامی بپھر کر بولیں۔ ’’گھر کتنا دور تھا، مَر تو نہیں جاتی، مَر ہی جاتی تو اچھا تھا۔ اس کی وجہ سے اسے کتنی باتیں سننی پڑیں۔‘‘ مامی نے دُکھ اور افسوس کے ساتھ اپنا ماتھا ٹھونکتے ہوئے کہا تھا۔’’ہے بھگوان تو نے ہماری کیسی جات بنائی۔‘‘
    سِلیا نیچے دیکھنے لگی، سچ بات تھی۔ گاڈری محلے کے جس کنویں سے مالتی نے پانی نکال کر پیا تھا۔ وہاں سے بیس پچیس قدم پر ہی ماما مامی کا گھر تھا جس کی رسی، بالٹی اور کنویں کو چُھو کر مالتی نے ناپاک کر دیا تھا۔

    وہ عورت بکریوں کے ریوڑ پالتی تھی۔ گاڈری محلے کے زیادہ تر گھروں میں بھیڑ بکریوں کو پالنے کا اور انھیں بیچنے خریدنے کا کاروبار کیا جاتا تھا۔ گاڈری محلّے سے لگ کر ہی آٹھ دس گھر بھنگی سماج کے تھے۔

    سِلیا کے مامی ماما یہیں رہتے تھے۔ مالتی سِلیا کی ہی ہم عمر تھی۔ بس سال چھے مہینے چھوٹی ہو گی، مگر حوصلہ اس میں بہت زیادہ تھا۔ جس کام کو نہ کرنے کی نصیحت اسے کی جائے اسی کام کو کر کے وہ خطرے کا سامان کرنا چاہتی تھی۔ سلیا سنجیدہ اور سادہ مزاج کی کہنا ماننے والی فرماں بردار لڑکی تھی۔

    مالتی کو روتا دیکھ کر اسے خراب ضرور لگا، مگر وہ اس بات کو سمجھ رہی تھی کہ اس میں مالتی کی ہی غلطی ہے۔ جب ہمیں پتہ ہے ہم اچھوت دوسروں کے کنویں سے پانی نہیں لے سکتے تو پھر وہاں جانا ہی کیوں؟‘‘ وہ بکری والی کیسے چِلّا رہی تھی۔ ’’دیکھو تو منع کرنے کے بعد بھی کنویں سے پانی بھر رہی ہے۔ ہماری رسی بالٹی خراب کر دی….‘‘ اور مامی کو اس نے کتنی باتیں سنائی تھیں: تہارے نزدیک رہتے ہیں تو کا ہمارا کوئی دھرم کرم نہیں ہے؟ کا مرضی ہے تمھاری۔ صاف صاف کہہ دو؟‘‘

    مامی گڑ گڑا رہی تھی۔’’بائی جی، معاف کر دو۔ اتنی بڑی ہو گئی مگر عقل نہیں آئی اس کو۔ کتنا تو مارو ہوں۔‘‘ مامی وہیں سے مالتی کو مارتی ہوئی گھر لائی تھیں۔ ’’بیچاری مالتی!‘‘ سِلیا سوچ رہی تھی بھگوان اسے جلدی سے عقل دے۔ تب وہ ایسے کام نہیں کیا کرے گی۔

    ایک سال پہلے کی بات ہے۔ پانچویں کلاس کے ٹورنامنٹ ہو رہے تھے۔ کھیل کود، کے مقابلوں میں اس نے بھی حصہ لیا تھا۔ اپنے کلاس ٹیچر اور کلاس کی لڑکیوں کے ساتھ وہ تحصیل کے اسکول میں گئی تھی۔ اس کے مقابلہ کی دوڑ شروع میں ہونے سے جلدی پوری ہو گئیں۔ وہ لمبی دوڑ اور کرسی دوڑ کی ریسوں میں اوّل آئی تھی۔ وہ اپنی کھو۔ کھو ٹیم کی کٹنچ تھی اور کھو کھو کے کھیل میں اس کی وجہ سے جیت ملی تھی۔

    اس کے ٹیچر گوکل پرساد ٹھاکر جی نے سب کے سامنے اس کی بہت تعریف کی تھی۔ ساتھ ہی پوچھا تھا، ’’ شیلجا‘‘ یہاں تحصیل میں تمھارے رشتے دار رہتے ہوں گے۔ تم وہاں جانا چاہتی ہو تو بتاؤ ہم پہنچا دیں گے۔‘‘ سِلیا ماما، مامی کے گھر کا پتہ جانتی تھی مگر ٹیچروں کے سامنے شرم کے مارے وہ نہیں بتا پائی۔ اس نے کہا، ’’مجھے تو یہاں کسی کا بھی پتہ نہیں معلوم۔‘‘ تب سر نے اس کی سہیلی ہیم لتا سے کہا تھا ’’اسے اپنی بہن کے گھر لے جاؤ، شام کو سبھی ایک ساتھ گاؤں لوٹیں گے، تب تک یہ وہاں آرام کر لے گی۔‘‘ ہیم لتا ٹھاکر سِلیا کے ساتھ ہی پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ اس کی بڑی بہن کا سسرال تحصیل میں تھا۔ ان کا گھر تحصیل کے اسکول کے پاس ہی تھا۔

    وہ سِلیا کو لے کر بہن کے گھر آئی۔ بہن کی ساس نے ہنس کر ان کا استقبال کیا۔ ہیم لتا کو پانی کا گلاس دیا۔ دوسرا گلاس ہاتھ میں لے کر سِلیا سے پوچھنے لگی، ’’کون ہے، کس کی بیٹی ہے؟ کون ٹھاکر ہے؟ سِلیا کچھ کہہ نہ سکی۔ ہیم لتا نے کہا ’موسی جی، میری سہیلی ہے، ساتھ میں آئی ہے۔ اس کے ماما مامی یہاں رہتے ہیں مگر اسے ان کا پتہ معلوم نہیں ہے۔‘‘ بہن کی ساس اسے دھیان سے دیکھتے ہوئے سوچتی ہے۔ پھر ہیم لتا سے اس کی ذات کے بارے میں پوچھتی ہے۔ ہیم لتا نے دھیرے سے بتا دیا۔ اسے لگا ذات کے بارے میں سن کر موسی جی ایک منٹ کے لیے چونکی۔ پھر انھوں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے سلیا سے پوچھا۔ ’’گاڈری محلہ کے پاس رہتے ہیں۔‘‘

    سِلیا نے ہاں کہہ کر سَر جھکا لیا۔ تب موسی جی نے بہت پیار جتاتے ہوئے کہا ’’کوئی بات نہیں بیٹی، ہمارا بھیا تمھیں سائیکل پر بٹھا کر چھوڑ آئے گا، ایسا کہتے ہوئے موسی جی پانی کا گلاس لے کر واپس اندر چلی گئیں۔ سلیا کو پیاس لگی تھی۔ مگر وہ موسی جی سے پانی مانگنے کی ہمّت نہیں کرسکی۔ موسی جی کے بیٹے نے اسے گاڈری محلے کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ سِلیا راستے بھر کڑھتی آ رہی تھی۔ آخر اسے پیاس لگی تو اس نے موسی جی سے پانی کیوں نہیں مانگ کر پیا۔ تب موسی کے چہرے پر ایک پل کے لیے آیا۔ رنگ اُس کی نظروں میں تیر گیا۔ کتنا مکھوٹا چڑھائے رکھتے ہیں یہ لوگ۔ موسی جی جانتی تھیں کہ اسے پیاس لگی ہے۔ پر ذات کا نام سن کر پانی کا گلاس لوٹا لے گئی۔ ’’کیا وہ پانی مانگنے پر انکار کر دیتی؟‘‘ سِلیا کو یہ سوال کچوک رہا تھا۔

    سلیا کو دیکھ کر ماما، مامی اور مالتی بہت خوش تھے۔ بڑے جوش و خروش سے ملے تھے۔ مگر سِلیا، ہیم لتا کی بہن کی سسرال سے ملی گھٹن کو بھول نہیں پا رہی تھی۔ شام کے وقت ماما نے اسے اسکول پہنچا دیا تھا۔ سلیا کا مزاج پریشان کن بنتا جا رہا تھا۔ ریت رواج سے الگ نئے نئے خیال اس کے من میں آئے۔ وہ سوچتی ’’آخر مالتی نے کون سا جرم کیا تھا۔ پیاس لگی، پانی نکال کر پی لیا۔‘‘ پھر وہ سوچتی، ’’ہیم لتا کی موسی جی سے وہ پانی کیوں نہیں لے سکی تھی؟ اور اب یہ اشتہار اونچے گھرانے کا نوجوان، سماجی کارندہ، ذات پات کے بھید بھاؤ مٹانے کے لیے نیچ ذات کی اچھوت لڑکی سے شادی کرے گا…. یہ سیٹھ جی مہاشے کا ڈھونگ ہے۔ دکھاوا ہے یا وہ سچ مچ کے سماج کے ریت رواج بدلنے والے سماجی انقلاب لانے والے مہان آدمی ہیں؟ اس کے دل میں یہ خیال بھی آتا کہ اگر اسے اپنی زندگی میں ایسے کسی مہان آدمی کا ساتھ ملا تو وہ اپنے سماج کے لیے بہت کچھ کر سکے گی۔ لیکن کیا کبھی ایسا ہوسکتا ہے؟

    یہ سوال اس کے من سے ہٹتا نہیں تھا۔ ماں کے سچ کی بنیاد پر کیے گئے تجربات پر اس کا اٹوٹ یقین تھا۔ مدھیہ پردیش کی زمین میں 60ء تک ایسی فصل نہیں اُگی تھی جو ایک چھوٹے گاؤں کی اچھوت جانی جانے والی بھولی بھالی لڑکی کے من میں اپنا اعتبار قائم کرسکتی۔ اور پھر دوسروں کے رحم و کرم پر عزت؟ اپنی خود داری کو کھو کر دوسروں کی شطرنج کا مہرہ بن کر رہ جانا، بیساکھیوں پر چلتے ہوئے جینا، نہیں کبھی نہیں۔

    سِلیا سوچتی۔’’ہم کیا اتنے لاچار ہیں، بے بس ہیں، ہماری اپنی بھی تو کچھ آن عزت ہے۔ انھیں ہماری ضرورت ہے۔ ہم کو ان کی ضرورت نہیں۔ ہم ان کے بھروسے کیوں رہیں۔ پڑھائی کروں گی، پڑھتی رہوں گی، تعلیم کے ساتھ اپنی شخصیت کو بھی بڑا بناؤں گی۔ ان سبھی رسم و رواج کی وجوہات کا پتہ لگاؤں گی جنھوں نے انھیں اچھوت بنا دیا ہے۔

    علم، عقل اور تمیز سے اپنے آپ کو اونچا ثابت کر کے رہوں گی۔ کسی کے سامنے جھکوں گی نہیں۔ نہ یہ بے عزتی سہوں گی۔‘‘ ان باتوں کو دل ہی دل میں سوچتی اور دہراتی سلیا ایک دن اپنی ماں اور نانی کے سامنے کہنے لگی۔ ’’میں شادی کبھی نہیں کروں گی۔‘‘

    ماں اور نانی اپنی بھولی بھالی بیٹی کو دھیان سے دیکھتی رہ گئیں۔ نانی خوش ہو کر بولی،’’شادی تو ایک نہ ایک دن کرنی ہی ہے بیٹی۔ مگر اس کے پہلے تو خوب پڑھائی کر لے۔ اتنی بڑی بن جا کہ بڑی ذات کے کہلانے والے کو اپنے گھر نوکر رکھ لینا۔‘‘

    ماں دل ہی دل میں مسکرا رہی تھی۔ سوچ رہی تھی۔ ’’میری سلو رانی کو میں خوب پڑھاؤں گی۔ اسے عزت کے لائق بناؤں گی۔‘‘

    (سشیلا ناک بھورے کی ہندی کہانی کے مترجم ف س اعجاز ہیں)

  • چُپ کہانی

    چُپ کہانی

    بعض ساعتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں، پل بھر میں بے جان چیزوں کو جاندار اور جاندار کو بے جان بنا دیتی ہیں۔ دین محمد میرے پاس سے گیا تھا تو کیسا زندہ آدمی تھا اور واپس آیا تو زندہ لاش بن چکا تھا۔ ساتھ کام کرنے والے دونوں لڑکے اس کے پاس افسردہ بیٹھے تھے۔

    دین محمد نے جب مجھ سے چھٹی مانگی تھی تو میں نے کہا تھا۔ ’’دیکھو رمضان کے مہینے میں ساری سلائیاں ہوتی ہیں، تم چلے جاؤ گے میرا بہت نقصان ہوجائے گا، بوتیک کی ساکھ خراب ہوجائے گی۔‘‘

    ’’باجی بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔‘‘ اس نے شوخی سے چٹکی بجاتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’تم نے کہا اور میں نے مان لیا، چار دن تو آنے جانے میں لگیں گے پھر اگر دو تین دن بھی رہے تو پورا ہفتہ ہوگیا، آخر اتنی جلدی کیا ہے، عید پر تو تمہیں جانا ہی ہے۔‘‘

    ’’باجی عید کس نے دیکھی ہے، بیچ میں پورا مہینہ رمضان کا پڑا ہے، عید پر لمبی چھٹی لوں گا۔ ابھی جاؤں گا صرف دو دن ٹھہروں گا۔‘‘ اس نے اپنے بیگ کو بند کرتے ہوئے کہا۔ دونوں لڑکے جو اس کی سفارش کے لیے پاس ہی کھڑے تھے مسکرائے۔

    ’’عید بعد اس کی شادی ہے، ابھی یہ اپنی ماں، بہن اور بھابھی کے جوڑے لے کر جا رہا ہے، دلہن کا جوڑا اس نے خود سیا ہے، آپ دیکھیں نا کتنا خوب صورت ہے۔‘‘ دونوں لڑکوں کی روشن آنکھوں کی چمک میں دین محمد کے خوابوں کی تعبیر کی آرزو یوں جھلک رہی تھی جیسے وہ ان کا بھی خواب ہو۔

    والدین اور گھر والوں سے ملنے دین محمد جارہا تھا مگر تصور میں یہ دونوں لڑکے بھی اس کے ہم سفر تھے، میرے اصرار پر دین محمد نے شرما کر اپنا سفری بیگ کھولا اور یکے بعد دیگرے بیس جوڑے نکال کر سامنے رکھ دیے۔ تین چار بہت قیمتی اور خوب صورت جوڑے تھے۔

    ’’یہ لشکارا مارنے والے جوڑے دلہن کے ہیں نا۔‘‘ میں نے اسی کے انداز میں پوچھا۔

    اس کی آنکھوں میں مستقبل کی خوشیوں کے چراغ جل اُٹھے۔ ’’یہ میری ماں کا جوڑا ہے، یہ تین جوڑے جو ایک سے ہیں ایک میری بھرجائی، ایک میری بہن اور یہ سرخ جوڑا اس کے لیے ہے۔‘‘ اس نے باری باری چاروں جوڑوں کو نکال کر وضاحت کی۔

    ’’بھائی نے کہا تھا اپنی بھرجائی کا جوڑا دلہن سے کم نہ ہو۔‘‘

    میں نے اس سے کہا تھا۔ ’’تمہاری دلہن کے لیے جھومر اور ٹیکا میں لاؤں گی، تصویریں اچھی آتی ہیں۔‘‘ اگلے دن میں نے صرف تین ہزار میں خوب صورت نگوں سے مزین جھومر اور ٹیکا اس کے سامنے رکھا، وہ خوشی کے مارے کھِل اُٹھا۔

    ’’باجی یہ تو بالکل ٹی۔ وی والی کشش کے جھومر اور ٹیکے جیسا ہے۔‘‘

    ’’ہاں یہ کشش جھومر اور کشش ٹیکا ہی ہے، ہیں تو یہ نقلی مگر بالکل اصلی لگتے ہیں، ان سے سج کر تمہاری دلہن ٹی۔ وی ڈرامے والی کشش ہی لگے گی۔‘‘ اس کے دونوں ساتھی بھی آنکھوں میں خواب سجائے محویت کے عالم میں جھومر اور ٹیکے کو دیکھنے لگے۔

    ’’میری شادی پر کشش بالیاں بھی دینا۔‘‘ جہانگیر کی آواز میں خواہش اور امنگ کا غلبہ تھا۔ دین محمد نے اپنا بیگ کھولا، کنگن، بالیاں اور پراندہ دکھاتے وقت اس کی آنکھوں میں سجی سجائی دلہن کی تصویر صاف نظر آرہی تھی، چہرہ دمک رہا تھا۔

    سات اکتوبر کی شام کو چنار پہنچتے ہی اس کا فون آیا۔ ’’باجی میں صرف دو دن یہاں رہوں گا، تم بالکل فکر نہ کرنا۔‘‘

    ’’دین محمد تم نے کپڑے اور زیور دکھائے سب کو، کیسے لگے؟‘‘ دوسری طرف سے امنگوں اور آرزوؤں سے بھری آواز میرے کانوں میں گونجی۔

    ’’باجی ابھی میں گھر نہیں گیا، پی سی او سے فون کر رہا ہوں، جہانگیر اور نور محمد سے کہنا مجھے رات کو موبائل پر فون کریں میں 13 یا 14 تاریخ کو آپ کے پاس آجاؤں گا۔‘‘

    ساری رات آنکھوں میں کٹی، سحری کے لیے بستر سے اُٹھی، فجر کی نماز کے بعد پل بھر کو آنکھ لگی، میں نے عجیب و غریب خواب دیکھا، مجھے محسوس ہوا جیسے زمین رو رہی ہے، میں نے آنکھیں ملیں اور پھر سونے کی کوشش کی، اس بار میں نے دیکھا تیز ہوائیں چل رہی ہیں اور زمین بین کر رہی ہے، یکایک محسوس ہوا ساری دنیا سمندر بن گئی ہے اور میں سمندر میں ہوں۔ خوف سے میری آنکھ کھل گئی مگر شاید یہ بھی خواب ہی کا عالم تھا کیوں کہ میں اس وقت بھی خواب کے حصار سے نکل نہیں پائی تھی۔

    زمین ایک ستم زدہ ماں کے روپ میں سینہ کوبی کررہی تھی، سمندر رو رہا تھا، ایک شور قیامت تھا، میں نے چیخنا چاہا مگر آواز گھٹ گئی تھی، میری نیند یوں اچاٹ ہوئی کہ پھر کوشش کے باوجود نہیں سوسکی، میرا دھیان اپنے سمندر کی طرف گیا، میں نے اپنے شہر کی سلامتی کی دعا ئیں مانگیں، دعاؤں کے بعد کمرے سے ٹی۔ وی لاؤنج کی طرف آئی، گھر کے سارے افراد ہمہ تن گوش تھے، ہر چینل سے پل پل زلزلے کی خبریں آرہی تھیں، پہلے تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا، خواب کے اثر سے باہر بھی نہیں نکلی تھی کہ یہ حقیقت آنکھوں کے سامنے تھی۔

    فوری طور پر میرے ذہن میں دین محمد کا شرماتا، مسکراتا خوابوں اور آرزوؤں سے بسا پیکر سوال کی صورت میں سامنے آیا۔

    ’’باجی عید کس نے دیکھی ہے۔‘‘ اس کا یہ جملہ مجھے اسی وقت کھٹکا تھا میں نے چاہا بھی تھا کہ کہہ دوں بری بات منہ سے نہیں نکالتے مگر اگلے سارے جملوں میں خوشیوں کی جھنکار تھی اس لیے وہ جملہ یاد بھی نہیں رہا تھا۔ میں نے بے شمار بار اس کے سیل فون پر رابطہ کرنا چاہا مگر دوسری طرف سے جواب نہیں آرہا تھا۔

    پندرہ دنوں کے بعد دین محمد کی آواز سن کر میں رو پڑی۔’’شکر ہے تم زندہ ہو دین محمد۔‘‘ میں نے بمشکل کہا۔ دین محمد کا نام سن کر دونوں لڑکے میرے پاس آگئے۔

    ’’باجی سب ختم ہوگیا۔‘‘ شدتِ غم سے اس کی آواز آنسوؤں میں ڈوب گئی، میں اور میرے پاس کھڑے دونوں لڑکے اس کا نام لیتے رہے، مگر وہ ایک لفظ بھی ادا نہیں کرسکا۔

    بیس دنوں کے بعد دین محمد واپس آیا مگر وہ دین محمد کب تھا، وہ تو کوئی اور ہی شخص تھا، ویران آنکھوں میں سارے جہان کا درد سمیٹے خوف زدہ سا ایک کونے میں کھوئی کھوئی سی پہچان لیے بالکل خاموش تھا۔

    بہت دیر کے بعد میں نے بولنے کی ہمت کی۔ ’’دین محمد چنار ایک بار پھر آباد ہوجائے گا، حوصلہ رکھو۔‘‘ میرا دل میری آواز کا ساتھ نہیں دے رہا تھا، اس نے بھی جن نظروں سے میری طرف دیکھا میں ان کی تاب نہ لاسکی گویا کہہ رہا ہو،

    ’’میرا شہر تو آباد ہوجائے گا، اینٹ، گارے، اور سریے سے بنی ہوئی عمارتیں دوبارہ کھڑی ہوجاتی ہیں مگر دل کا نگر اُجڑ جائے تو دوبارہ نہیں بستا۔‘‘ اس کا وجود بند قبر کی مانند تھا جس میں جیتا جاگتا دین محمد تمام امیدوں اور اُمنگوں کے ساتھ دفن تھا۔

    میرے پاس حروفِ تسلی تھے نہ اسم شفا۔ ’’باجی اب یہ کبھی کپڑے نہیں سی سکتا۔‘‘اس کے دونوں دوستوں نے روتے ہوئے کہا۔

    ’’کیوں نہیں سی سکتا، اسے اللہ نے زندہ رکھا ہے، تم لوگ اس کا حوصلہ بڑھاؤ، کشمیر کے لوگ بہت بہادر ہوتے ہیں، تم نے ٹی۔ وی پر ان کے انٹرویو سنے ہیں نا۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ اور لوگ ہیں باجی، اپنا دینے کراچی میں رہ کر کراچی والوں جیسا ہو گیا ہے، یہ اپنی روح وہیں چھوڑ آیا ہے۔‘‘

    ’’تم لوگ مجھے لاجواب کر دیتے ہو، اتنی بڑی بڑی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں؟‘‘

    ’’باجی ہم بھی انسان ہیں، ٹی وی اور فلموں میں ہماری کہانیاں ہوتی ہیں، آپ کو معلوم ہے اس نے گھر جا کر سارا سامان اپنی ماں کو دے دیا تھا، مگر اپنا لیا ہوا کنگن اور آپ کا دیا ہوا جھومر اسے لے جاکر ساری چیزیں دکھائی تھیں، اس کی کلائی میں اپنے ہاتھوں سے کنگن پہنایا تھا، اس نے شرما کر کنگن کو چوما تھا، اور پھر اتار کر دین محمد کو تھما دیا تھا کہ ماں سے کہنا صبح پہنا دے، ابھی پہنوں گی تو سب چھیڑیں گے۔

    ریشم گھر چلی گئی تھی مگر دین محمد سحری کے بعد اپنے دوست کے ساتھ کھلے میدان میں چادر تان کر سو گیا تھا، مجھے یہ سب اسی دوست نے بتایا تھا۔

    صبح ایک تیز آواز نے ان دونوں کو اُٹھایا جب تک یہ اپنے گھر گیا سب کچھ ختم ہو گیا تھا، اس نے اپنے ہاتھوں سے ملبہ ہٹایا تھا، ماں، باپ، بھائی، بھابھی، چاچا اور چاچی اور ان کی بیٹی سب اللہ کو پیارے ہوچکے تھے، تین چار دن تک کھدائی ہوتی رہی تھی، مٹی کے ڈھیر میں ایک ہی جگہ پر وہ پوٹلی پڑی تھی اور یہ کنگن جس میں ریشم کے ہاتھوں کی خشبو ہے، دین محمد کے پاس ہی پڑا تھا۔‘‘

    سحر زدہ سا دین محمد اپنے ساتھیوں سے اپنی ہی کہانی سن رہا تھا، اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ گویا کسی اور کی بات ہورہی ہو۔

    زلزلے نے اس کے دماغ کے کسی حصے کو ایسا دھچکا لگایا تھا کہ سارے کا سارا دین محمد اپنی آنکھوں میں آگیا تھا۔ گلے میں پڑا ہوا پراندہ درد کی تصویر بنا تھا۔ یکایک اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ کنگن نکالا جس میں ریشم کے ہونٹوں کی گرمی اور کلائی کی خوشبو بیتے دنوں کی یاد بن کر سسک رہی تھی۔

    دین محمد چپ تھا، مگر کنگن بول رہا تھا۔

    (اس کہانی کی مصنف شہناز پروین ہیں جنھوں نے برصغیر کے سیاسی اور سماجی حالات کو اپنی تخلیقات میں‌ سمویا ہے، افسانوں‌ کے علاوہ شہناز پروین کا ایک ناول بھی شایع ہوچکا ہے)

  • آدمی کہتے ہیں‌ جس کو….(لیاری کے ایک مزدور کی کہانی)

    آدمی کہتے ہیں‌ جس کو….(لیاری کے ایک مزدور کی کہانی)

    مصنف: عبداللطیف ابُوشامل

    عجیب بے تکا انسان ہے وہ۔ لوگ مارے مارے پِھر رہے ہیں، اپنی سہولتوں میں اضافے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور وہ سب سے الگ تھلگ اپنی زندگی آپ جی رہا ہے۔

    وہ میرا دوست ہے، داد محمد بلوچ، جسے ہم سب بہت پیار سے دادُو کہتے ہیں، بہت عزیز دوست۔ لیکن میں اس سے بہت تنگ ہوں اور مجھے اس کی ایک عادت سے چڑ ہے۔

    ہم سب اتنی آسودگی میں بھی پریشان ہیں اور وہ پریشانی میں بھی مطمئن ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کوئی بہت بڑا طرّم خان ہے۔ ارے بھئی، وہ بہت معمولی سا انسان ہے۔ لیاری میں دو کمروں کے گھر میں یوں رہتا ہے جیسے بہت بڑے محل میں رہتا ہو۔ پانی، فون نہ فریج اور تو اور اس کے مکان کی چھت بھی شیٹوں کی ہے۔ اتنی گرمی کہ خدا کی پناہ۔ اور جب کبھی میں اس سے ملنے جاتا ہوں، اسے مطمئن پاتا ہوں۔

    چلو اتنی سی بات بھی ہوتی کہ وہ اپنے حال میں مست ہے تو بھی مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی، وہ گاؤدی تو اپنے جیسے لوگوں کو اپنے حالات بدلنے پر اکساتا رہتا ہے، اپنی قسمت آپ بناؤ، حق مانگنے سے نہیں ملتا، حق چھیننا پڑتا ہے، اپنی محنت کا صحیح اجر طلب کرو، کوئی تم پر ظلم کرے تو اس کے سامنے ڈٹ جاؤ اور نہ جانے ایسی کتنی ہی بکواس۔

    ابھی کچھ دن پہلے میں اس کے گھر گیا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلایا۔
    ”اڑے، آگیا تم…… آج کدھر سے نازل ہوگیا؟ بیٹھو، بیٹھو۔“ کہہ کر اس نے اپنی بیوی کو آواز دی، ”اڑے صاحب لوگ آگیا نیک بخت، پانی وانی پلاؤ اس کو۔“

    ”بھائی سلام“ کے ساتھ ہی پیتل کے وزنی گلاس میں پانی میرے سامنے تھا۔
    ”اور بہن تم کیسی ہو…..؟“

    ”شکر ہے بھائی، بچہ لوگ کیسا ہے آپ کا…..؟“

    میں نے اسے سب کی خیریت سے آگاہ کیا۔ پانی کا گھونٹ لیتے ہی میں پھٹ پڑا، ”دادو، اتنا گرم پانی! اس میں روپے دو روپے کا برف ہی ڈال دیا کرو۔“

    ”ہاں صحیح بولتا ہے تم۔ باپ کا برف خانہ ہے ناں ادھر، اڑے پیتا ہے تو پیو، نہیں پیتا ہے تو پیاسا مرو، اپنا بھاشن اپنے پاس رکھو۔“

    میں نے گلاس پانی پیے بغیر نیچے رکھ دیا جسے وہ اٹھا کر غٹاغٹ پی گیا۔
    ”اور بولو خوار، کیا کرتا پڑا ہے آج کل تم…..“

    یار، بس وہی لکھنا پڑھنا اور کیا کروں، بہت پریشان ہوں گرمی سے۔“
    وہ بہت زور سے ہنسا۔

    ”اڑے، کدھر ہے گرمی؟ تمہارا گاڑی میں اے سی، گھر میں اے سی، دفتر میں اے سی، پھر کدھر ہے گرمی؟ تم لوگ کا بس نہیں چلتا کہ اپنے اندر بھی اے سی فٹ کرالو۔ اڑے تم لوگ ایک کام کرو۔ اپنا قبر میں بھی اے سی لگانا….!!

    اس کی ایسی ہی بکواس سے میں تنگ ہوں۔ اور سناؤ تم کیسی گزر رہی ہے؟

    ”اڑے، بس بہت مزے سے گزر رہا ہے، ہم بہت خوش ہے۔“

    کیا خوش ہے؟ کیا ہے بے تیرے پاس؟ پانی میں برف ڈالتا نہیں ہے اور بولتا ہے خوش ہے۔

    وہ پھر بہت زور سے ہنسا اور باہر نکل گیا۔ واپسی میں اس کے ہاتھ میں گنے کے رس سے بھرا ہوا گلاس تھا۔

    ”چلو بابو لوگ یہ پیو، ٹھنڈا ہے۔“

    یہ کہاں سے لے آیا….؟

    ”اڑے، باہر خان بھائی بیچتا ہے ناں۔“

    گلاس دھویا تھا یا ویسے ہی لے آیا گندے گلاس میں….؟

    ”اڑے پیو، زیادہ نخرا بند کرو۔ ادھر ہر چیز تم کو گندا لگتا ہے۔ تم لوگ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ خود کو دیکھو۔ تم بڑا صاف ہے۔ کوئی صاف کپڑا پہن کر صاف نہیں ہوجاتا۔ صاف کرنا ہے تو اپنا دل کو صاف کرو…..“ اس نے میرے سینے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے اپنی بکواس جاری رکھی۔

    اچھا اچھا اپنا بھاشن بند کر تُو۔

    ”ہاں، تم لوگ کو ہم جیسا کوئی شیشہ دکھاوے تو بہت تکلیف ہوتا ہے۔ اڑے، یہی ہے تم لوگ کا شکل، شیشے میں دیکھو، اوپر سے اچھا، اندر سے کالا۔“

    اور تم…؟

    ”اڑے، ہمارا کیا بات کرتا ہے، ہم اندر سے باہر سے کالا ہے۔ ہمارا سب کچھ کالا ہے۔ ہم کوئی لیکچر بازی تو نہیں کرتا ہے۔ بس جیسا ہے ویسا ہے۔ تم لوگ اندر کچھ باہر کچھ۔“ اچھا اچھا بند کر اپنی بکواس۔ اب میں چلتا ہوں۔

    ”کیدھر چلتا ہوں۔ ابھی بیٹھو، دو نوالہ روٹی کھاؤ، پھر جدھر غرق ہونا ہے، غرق ہوجاؤ۔“

    اس نے میرے موڈ کا جنازہ نکال دیا تھا، میں خاموش رہا تو وہ بولا، ”اچھا یار، یہ تو بولوِ نی کہ تم کیسے آیا تھا، ابھی ادھر لیاری میں تو کوئی آتا نہیں ہے، ہم لوگ کو تو سارا ملک میں ایک منصوبے کے تحت بدنام کیا ہوا ہے، اور مزے کا سنو یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سب جانتا ہے کہ کیوں ہوا، کیسے ہوا…؟“

    بس ویسے ہی تجھ سے ملنے کو جی چاہا تو آگیا۔

    ”اڑے، آفرین ہے تم پر، کوئی کام وام نہیں تھا؟“

    نہیں، کوئی کام نہیں تھا، بس ویسے ہی آگیا۔ میں اس سے ملنے نہیں گیا تھا، جس سے ملنے گیا تھا وہ گھر پر نہیں تھا۔ میں نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس سے ملنے پہنچ گیا، وہ اکثر میرے کام آیا ہے۔

    میں اور وہ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ بچپن سے ایسا ہی ہے۔ مطمئن، آسودہ، پڑھنے لکھنے میں جی نہیں لگتا تھا، بہت مشکل سے میٹرک کیا اور پھر اپنے کام میں جُت گیا۔ اس کے والد کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں وہ ایک ٹرانسپورٹر ہیں، مجھ سے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں اسے کہو انسان بن جائے۔ میں نے بہت دفعہ اس سے کہا کہ ابّا کا کہنا مان لے۔ کیوں ا پنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے لیکن وہ نہ مانا۔

    ایک دن میں نے اسے بہت پریشان کیا تو کہنے لگا، ”تم میرے کو لکھ کر دیو کہ ہمارا باپ کا سارا کمائی حلال ہے، پھر ہم سوچیں گا۔“

    وہ صبح سویرے اپنی گدھا گاڑی لے کر روزی کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور رات گئے گھر پہنچتا ہے۔

    ایک دن شام پانچ بجے تھے اور میں لی مارکیٹ سے گزر رہا تھا کہ میں نے اسے گھر جاتے دیکھ لیا۔ موقع اچھا تھا میں نے اسے آواز دی۔

    دادو، حرام خور، کام چور، اتنی جلدی گھر جارہا ہے۔

    اس نے اپنی گدھا گاڑی روکی، نیچے اتر کر مجھ سے بغل گیر ہوکر بولا۔
    ”اڑے، چائے پیے گا؟“ لیکن میں نے ٹھان لی تھی کہ آج اسے بہت ذلیل کروں گا، بالآخر وہ بتانے لگا۔

    ”یار ایسا بات نہیں ہے، آج جلدی اس لیے گھر جارہا ہوں کہ وہ میرا جوڑی دار ہے ناں، مراد۔“

    ”ام دونوں ایک ہی جگہ گدھا گاڑی کھڑا کرتا ہوں۔ صبح سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے کام نہیں ملا۔ مجھے تو اتنے پیسے مل گئے ہیں کہ بس گزارہ ہو جائے گا، لیکن اگر میں بھی رات تک وہاں کھڑا رہتا تو اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا۔ بس میں نے گھر جانے کا سوچا اور چلا آیا۔ اب کم از کم وہ وہاں اکیلا ہے، کوئی دو چار روپیہ کما ہی لے گا۔“

    میری آنکھیں اس دن بہت زور سے برسیں۔ گھر آتے آتے میری طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ یہ ہے وہ دادُو۔ یہ ہے انسان جو اپنے منہ کا نوالہ بھی دوسروں کو دے رہا ہے اور ہم دوسروں کے منہ کا نوالہ بھی چھین رہے ہیں۔ مجھے خود سے نفرت ہوگئی ہے۔

  • کنجوس جوہری(اردو ادب سے انتخاب)

    کنجوس جوہری(اردو ادب سے انتخاب)

    بہت دنوں کی بات ہے۔ کسی قصبے میں ایک جوہری رہا کرتا تھا۔ قصبہ چوں کہ چھوٹا تھا اس لیے یہاں کے رہنے والے تقریباً سبھی لوگ ایک دوسرے سے واقف تھے۔

    جوہری کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنے آپ پر اور بیوی بچوں پر تو خاصی رقم خرچ کرتا تھا، لیکن وہ دوسروں پر کسی مطلب کے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا فقیر اس کے پاس آ جاتا تو جو ہری اس کو اس بری طرح جھڑکتا کہ بے چارہ بھکاری پھر کبھی بھول کر بھی اس طرف کا رخ نہ کرتا۔

    کنجوس جوہری کے بہت کم دوست تھے۔ وہ اپنے دوستوں پر بھی پیسہ خرچ نہ کرتا، بلکہ ان سے ہی کھانے پینے کی توقع رکھتا۔ چوں کہ وہ باتیں بنانے کا ماہر تھا، اس لیے کچھ لوگ اس کے دوست بن گئے تھے اور کبھی کبھی اسے کھلا پلا دیتے تھے۔

    اسی قصبے میں ایک دھوبی رہا کرتا تھا۔ وہ جوہری کے بالکل برعکس تھا۔ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ جو پیسہ ہوتا، وہ دوستوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کر دیا کرتا۔ جب شاہی دھوبی بیمار ہو جاتا تو وہ بادشاہ کے کپڑے بھی دھویا کرتا۔ وہ لوگوں میں بڑا ہر دل عزیز تھا۔ وہ دھوبی تھا، مگر لوگ جوہری سے زیادہ اس کی عزت کرتے تھے۔

    ایک شام دھوبی کام ختم کر کے اپنے دوستوں سے گپ شپ کر رہا تھا کہ کنجوس جوہری کا ذکر چھڑ گیا۔ ایک دوست نے کہا: "اس جیسا کنجوس انسان تو ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا نہ سنا۔”

    دوسرے دوست نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی: "اس نے آج تک کسی کو ایک گلاس پانی نہیں پلایا۔”

    دھوبی بولا: ” میں اس کنجوس جوہری سے چائے پانی تو ایک طرف رہا۔ کھانا تک کھا سکتا ہوں۔”

    تمام دوستوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ ایک دوست نے ٹانگیں پھیلاتے ہوئے کہا: "بڑے بڑے تیس مار خاں اس سے چائے تک نہیں پی سکے، بھلا تم کھانا کیسے کھاؤ گے؟”

    دھوبی نے کہا: "آخر تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آ رہا؟”

    "جب اس کنجوس جوہری سے کوئی چیز کھانا ممکن نہیں تو یقین کیسے آئے گا؟”

    دھوبی نے کہا: "اگر میں نے اس سے کھانا کھا لیا تو تم مجھے کیا انعام دو گے؟”

    ایک دوست بولا: ” ہم سب مل کر تمھاری ایک شان دار دعوت کریں گے۔”

    دھوبی بولا: ” تو پھر ٹھیک ہے۔ میں کل دوپہر کا کھانا جوہری کے گھر کھاؤں گا۔”

    "ٹھیک ہے۔ ہم بھی وہاں آئیں گے۔” سب بے ایک زبان ہو کر کہا۔

    دھوبی رات دیر تک کنجوس جوہری سے کھانا کھانے کی ترکیب سوچتا رہا۔ آخر ایک ترکیب اس کی سمجھ میں آ ہی گئی۔

    دھوبی نے اگلے دن ایک خالی ڈبا لیا اور جوہری کے گھر جا پہنچا۔ اسے معلوم تھا کہ جوہری اس وقت دوپہر کا کھانا کھاتا ہے۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    "کون ہے؟” اندر سے جوہری کی آواز آئی۔

    "میں ہوں، دھوبی۔”

    "تمھیں معلوم نہیں، یہ میرے کھانے کا وقت ہے؟” جوہری بیزاری سے بولا۔

    دھوبی نے ادب سے جواب دیا: "معلوم ہے جناب! لیکن اس وقت میں آپ کے پاس ضروری کام سے آیا ہوں۔”

    "کون سا کام؟”

    دھوبی نے کہا: "آپ دروازہ کھولیے۔ ایک ہیرے کے بارے میں بات کرنی ہے۔”

    ہیرے کا نام سنتے ہی جوہری کے منھ میں پانی بھر آیا اور اس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ دھوبی کے ہاتھ میں ڈبا دیکھ کر وہ سمجھا کہ اس میں ہیرا ہے، جسے دھوبی بیچنے آیا ہے۔

    جوہری کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ دھوبی کبھی کبھی شاہی محل میں کپڑے دھوتا ہے۔ اس نے سوچا: بہت ممکن ہے، میلے کپڑوں میں بھولے سے کوئی ہیرا آ گیا ہو۔

    جوہری نے کہا: "باہر کیوں کھڑے ہو، ادھر آ جاؤ۔ بیٹھ کر آرام سے باتیں ہوں گی۔”

    دھوبی، جوہری کے گھر میں داخل ہو گیا۔ اس وقت دسترخوان پر کھانا چنا جا چکا تھا، جس کی خوشبو سے دھوبی کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھنے لگیں۔

    "مرغی کے انڈے کے برابر ہیرے کی آج کل کیا قیمت ہے؟ ” دھوبی نے اطمینان سے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

    یہ سن کر جوہری کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے سوچا کہ ڈبے میں ضرور کوئی بڑا ہیرا ہے، جو دھوبی کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ میں اسے بیوقوف بنا کر قیمتی ہیرے کو اپنے قبضے میں لے لوں گا۔ بھلا اسے ہیرے کے بارے میں کیا معلوم۔

    "ہاں تو بتائیے! مرغی کے انڈے کے برابر ہیرے کے کیا دام چل رہے ہیں ؟” جوہری کو خاموش دیکھ کر دھوبی نے دوبارہ پوچھا۔

    جوہری نے دعوت دی: "آؤ، پہلے کھانا شروع کرو، ہیرے کی باتیں کھانے کے بعد ہوتی رہیں گی۔”

    دھوبی تو اسی انتظار میں تھا۔ فوراً لذیذ کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے لگا۔ پلاؤ، شامی کباب، شاہی ٹکڑوں اور گاجر کے حلوے کو جلدی جلدی حلق سے نیچے اتارنے لگا۔

    جوہری نے اپنے دل میں کہا: کوئی بات نہیں بچو! اڑا لو میرا مال، جتنا اڑا سکو۔ میں نے بھی تم سے چند سکوں میں ہیرا نہ ہتھیایا تو جوہری کا کام چھوڑ دوں گا۔

    دھوبی نے کہا: "سنا ہے، مرغی کے انڈے جتنے ہیرے بڑے نایاب ہوتے ہیں۔”

    جوہری نے چالاکی سے کہا: "ہیروں کی قیمت آج کل گری ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب ہیروں کے دام بہت چڑھے ہوئے تھے، لیکن جب سے نقلی ہیرے بننے شروع ہوئے ہیں، اصلی ہیروں کی مانگ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔”

    "پھر بھی آخر اتنا بڑا ہیرا کتنے کا ہو گا؟” دھوبی شامی کباب منھ میں رکھتے ہوئے بولا۔

    "یہی کوئی پچاس ساٹھ روپے کا۔” جوہری نے ڈبے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

    "اتنے بڑے ہیرے کی اتنی کم قیمت!” دھوبی نے رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔

    "صحیح قیمت تو ہیرا دیکھنے کے بعد ہی بتائی جا سکتی ہے۔ آج کل تو نقلی ہیرے بھی اصلی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔” جوہری نے ملازم کو خالی برتن لے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    "بڑی مہربانی جوہری صاحب! آپ نے ہیروں کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔” دھوبی جوتا پہنتے ہوئے بولا۔

    جب وہ ڈبا اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھا تو جوہری بڑا سٹپٹایا اور بولا: "کیا تم ہیرا نہیں دکھاؤ گے؟ بیچنے کا ارادہ بدل دیا ہے کیا نقلی ہیرے کے بھی کچھ نہ کچھ پیسے تو مل ہی جائیں گے۔”

    دھوبی نے پُر اعتماد لہجے میں کہا: "آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، جوہری صاحب! میرے پاس نہ نقلی ہیرا ہے نہ اصلی۔ بھلا غریبوں کے پاس بھی ہیرے ہوا کرتے ہیں؟”

    "تو۔۔۔۔۔۔ تو پھر میرے پاس کس لیے آئے تھے؟”

    "چند دوستوں سے میری شرط لگی ہ، وہ کہتے ہیں کہ مرغی کے انڈے جتنا ہیرا ہوتا نہیں، جب کہ میں کہتا ہوں کہ ہوتا ہے۔ بس یہی بات آپ سے پوچھنے چلا آیا تھا۔”

    "مکار! دغا باز! نکال میرے کھانے کے پیسے، ورنہ تیری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔” جوہری ایک بڑا سا ڈنڈا لے کر اس کی طرف جھپٹا۔

    شور و غل کی آواز سن کر کئی لوگ جمع ہو گئے، جن میں دھوبی کے دوست بھی تھے۔ اتنے میں دھوبی نے چلانا شروع کر دیا: "ارے! میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ تمھارے کھانے نے میرے پیٹ میں درد کر دیا ہے۔ دوا کے پیسے نکالو، ورنہ تمھیں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔”

    لوگوں نے جب یہ سنا تو انھوں نے سوچا کہ جوہری تو کسی کو ایک گلاس پانی تک نہیں پلاتا، پھر اس نے دھوبی کو کھانا کیسے کھلا دیا؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ وہ سب مل کر بولے: "دھوبی کو دوا کے پیسے دو، ورنہ تمھیں پولیس کے حوالے کر دیں گے۔”

    اب تو جوہری بڑا گھبرایا۔ وہ پولیس سے بہت ڈرتا تھا۔ جی کڑا کر کے اس نے دھوبی کو دوا کے پیسے دیے اور اپنی جان چھڑائی۔ جب دھوبی دوستوں کے ساتھ دکان پر پہنچا تو انھوں نے اس سے کہا: "بھئی مان گئے! آج شام ہمارے طرف سے تمھاری دعوت ہے۔

    مصنف: مہروز اقبال

  • آخری جماعت

    آخری جماعت

    اس صبح مجھے اسکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سَر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم، صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔

    ایک لمحے کے لیے میں نے اسکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، میں یہ سب اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے اسکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔

    میں کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا تو دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا، ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔

    ایک محافظ لوہار نے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا۔ ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی اسکول پہنچ جاؤ گے۔“

    میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سَر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو اسکول میں اس کے لیے وقف تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اسکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔

    ”ایک دم خاموشی؟“ عام دنوں میں، مَیں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔

    اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سَر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

    سَر ہامل نے میری طرف دیکھا، ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
    ”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے۔“

    میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوب صورت نیلا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلو بند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیمِ انعامات کا موقع ہوتا یا اسکول کے آغاز کا دن۔

    اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لیے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔

    تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں والی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
    اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا، سَر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔

    ”میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔“

    ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔

    ”فرانسیسی میں میری آخری جماعت!“

    میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے سے بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دیے۔ گھونسوں کے پیچھے بھاگتے، سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزار دیا۔

    بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی اسکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایمان دارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔

    میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قرأت کرنے کی باری تھی۔ میں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔

    ”میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟“

    آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔ ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرانٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔“

    ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوب صورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔

    میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔

    جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سَر کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے خوشخط کر کے لکھیں۔

    اسکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔

    دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے اسکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔

    ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیوں کہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لیے۔ تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لیے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے، رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

    اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعا پڑھی گئی۔ سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے، اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔

    ”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں …. میں ….“ مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔

    وہ تختہ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔

    ”فرانس دائم آباد“

    پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. اب جاؤ۔“

    (فرانسیسی ادیب الفونزے ڈاؤڈٹ کی اس کہانی کے مترجم آکاش منور ہیں)

  • جادُوگر (کہانی)

    جادُوگر (کہانی)

    ملک کے سب سے اہم شہر میں میدان سجا تھا، تمام مجمع پر سحر طاری تھا، ایک جادوگر اپنے جادو کے حصار میں کھڑا منتر پھونک رہا تھا۔

    وہاں موجود ہزاروں کی تعداد میں اس کے چیلے دیوانہ وار جھوم رہے تھے۔ جادوگر نے اپنی شعلہ بیانی اور حُسنِ کلام سے چیلوں کے جذبات بلند از آسمان کیے ہوئے تھے۔ وہ اپنے سحر سے لوگوں کے دل و دماغ پر قابض ہوکر انہیں نئی دنیا کی سیر کرا رہا تھا۔

    جادوگر کہہ رہا تھا جھومو، ناچو، گاؤ کہ منزل آنے والی ہے، وہ دن دور نہیں جب تم سب فلاح پاؤ گے، اس سیاہ رات کی صبح طلوع ہونے کو ہے، پھر ہر جگہ تم ہی تم ہوگے، تمہاری بادشاہی، حکم رانی ہوگی۔ یہ چور لٹیرے جو تمہارے حکم ران بنے بیٹھے ہیں، ان کی عیاشیوں کے دن گنے جاچکے ہیں۔ ان سب سے تم لوگوں کی محرومیوں کا انتقام لیا جائے گا۔ تمہارے خواب کی تعبیر کا وقت بس آن ہی پہنچا ہے۔

    جادوگر یہ کہہ کر اپنے طلسمی حصار میں واپس چلا گیا اس کے چیلے الفاظ کی دیوی سے سحرزدہ ہو کر اپنی آنکھوں میں ایک نئی دنیا کے خواب سجا کر خوابوں کی تعبیر کی موعود ساعت کا انتظار کرنے لگے، لیکن رات ڈھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

    ان کا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا لیکن اب بھی وہ فُسوں کے حصار میں تھے، وہ حصار جس کی حدود صرف اس میدان تک تھیں اور اس میدان سے باہر موسم ویسا ہی سرد تھا۔ ہوا کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں کر رہی تھی۔

    چیلے ہوش و خرد سے بیگانہ اپنے ساحر کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن جادوگر کی نظریں اپنے چیلوں سے پرے اور اس میدان کے باہر کی دنیا دیکھ رہی تھی جہاں کوئی امید افزا پیغام نہیں تھا۔ جادوگر اپنی تمام شکتیاں بہ روئے کار لا رہا تھا مگر اس کی شکتیاں موسم میں کسی بھی قسم کی تبدیل لانے میں کام یاب نہیں ہو رہی تھیں۔

    اتنے میں کچھ غیبی طاقتیں اس کے پاس آئیں اور جا دو گر سے کہا: ”تمہاری شکتیاں ابھی کم زور ہیں تم جن سے لڑنے نکلے ہو ان کے پاس تم سے زیادہ شکتی ہے۔ تمہارا گیان ابھی ادھورا ہے۔ تمہیں اور تپسیا کی ضرورت ہے تب ہی تم ان سے جیت پاؤ گے۔“

    جادوگر بھی جان چکا تھا کہ ان شکتیوں کے ساتھ وہ کام یاب نہیں ہو سکتا لہذا ایک بار پھر اس نے اپنے طلسمی حصار سے اپنے چیلوں کو پکارا: ”مبارک ہو مبارک ہو ہم جس مقصد سے آئے تھے وہ پورا ہو گیا۔ ہماری جدوجہد کام یاب ہوئی۔ ہم اب بس اپنی مطلوبہ منزل سے ایک قدم دور ہیں اور جلد ہی وہ ہمارے قدموں میں ہوگی۔ اب ہم خوشیاں مناتے ہوئے بلند سروں کے ساتھ واپس جائیں گے۔“

    چیلے اپنے گرو کے حکم پر لفظ بہ لفظ عمل کرتے ہوئے مطمئن و شاداں واپس لوٹ آئے، مگر جادوگر خوش نہیں تھا۔ وہ تو اس زعم میں تھا کہ اس کے پاس ایسی قوت اور شکتیاں ہیں جن کی مدد سے وہ کسی کو بھی اپنے زیرِاثر لاسکتا ہے، کسی کا بھی تختہ الٹ سکتا ہے، مگر کیا ہوا کہ اس کی شکتیاں، اس کا جادو، اس کا طلسم کم زور پڑگیا۔

    اسے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اب اور کشٹ کرنا تھا اسے اور طاقت حاصل کرنی تھی۔ پس یہ سوچ کر جادوگر نے اپنا مال اسباب سمیٹا اپنے چیلوں اور ملک کو چھوڑ کر دور کسی جادو نگری میں شکتیوں کے حصول کے لیے نکل پڑا۔

    جادو نگری پہنچ کر سال بھر کڑی تپسیا کرتا رہا، کئی دوسرے طاقت ور جادوگروں سے ملا اور نئے جادو، ٹونے اور منتر سیکھے۔ برس بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد اسے لگا کہ اب اس نے تمام ضروری شکتیاں حاصل کرلیں ہیں اب وہ ایک شکتی شالی اور مہان جادوگر تھا۔ جادو نگری میں اس کی لگن اور کڑی تپسیا کو دیکھتے ہوئے اسے ایک خاص اور بہت بڑی شکتی ودیعت کی گئی لیکن اسے بتا دیا گیا کہ یہ شکتی ایک خاص وقت اور موقع پر ہی کارآمد ہوگی۔

    جادوگر اس شکتی کو پاکر بہت خوش ہوا اسے لگا کہ اس شکتی کی بہ دولت سفلتا اس کی جھولی میں آ گری ہے۔ غیبی طاقتوں نے جادوگر کو اپنی نئی طاقتیں آزمانے کا اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی جادوگر کو اپنے چیلوں کی یاد آئی۔

    جادوگر نے جادو نگری سے اپنے چیلوں کو پیغام بھیجا کہ متحد ہوجاؤ ہمارا جو خواب ادھورا رہ گیا تھا اس کی تکمیل کا وقت آن پہنچا ہے۔ اپنے گرو کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے چیلے اپنی اپنی پناہ گاہوں سے نکل کر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ وہ پُرجوش تھے۔

    چیلوں کے شور غل اور جادوگر کی نئی شکتیوں سے مغلوب ہو کر ”کالی طاقتوں“ سے ناراض کچھ گرو بھی جادوگر کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ چیلوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا جس سے ملک پر قابض بدی کی طاقتوں کو بھی پریشانی لاحق ہوگئی۔ انہیں لگا کہ جادو نگری سے آنے والا یہ جادوگر کہیں سچ مچ اتنا طاقت ور نہ ہوگیا ہو کہ ان کا قلع قمع کر دے۔ اسی سوچ کے کارن بدی کی طاقتوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، انہوں نے جادوگر کے چیلوں کو روکنے کی کوشش کی مگر چیلے تو سحر زدہ تھے وہ کہاں رْکنے والے تھے، اس پر بدی کی طاقتوں نے ان سحر زدہ چیلوں پر حملہ کرکے کئی چیلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کئی جاں بلب اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔

    اپنے چیلوں کے خون سے جادوگر نے اپنے جسم میں اور طاقت اور گرمی محسوس کی اور وہ طاقت کے اسی گمان میں اْڑن کھٹولے پر بیٹھا اور جادو نگری سے اپنے چیلوں کے دیس کا سفر شروع کر دیا۔

    ادھر بدی کی طاقتیں اپنا جال بچھا رہی تھیں انہیں معلوم تھا کہ جادوگر کا جادو صرف ملک کے اسی شہر میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ انہیں جادوگر کی اس کم زوری کا بھی پتا تھا کہ جادوگر کی آدھی طاقت اڑن کھٹولے پر بیٹھتے ہی سلب ہوجاتی ہے۔ جیسے ہی جادوگر کا اڑن کھٹولا بدی کی طاقتوں کے دیس میں داخل ہوا تو انہوں نے اس کا رخ اپنے مضبوط چکرویو کی طرف موڑ دیا جہاں وہ اسے آسانی سے قابو کرسکتے تھے۔

    جادوگر یہ جان کر پریشان ہوگیا، اس کی آدھی شکتیاں سلب ہوچکی تھی وہ ہوا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا لیکن اسے ایک اطمینان تھا کہ زمین پر پہنچتے ہی اس کی ساری قوتیں واپس آجائیں گی اور پھر وہ ان بدی کی طاقتوں سے نمٹ لے گا۔

    زمین پر پہنچتے ہی جادوگر کی ساری شکتیاں اسے واپس مل گئیں مگر جادوگر اپنی سب سے بڑی شکتی کا انتظار کر رہا تھا جس کے آسرے پر وہ جادو نگری سے یہاں تک آیا تھا۔ وہ شکتی ابھی تک اس کی مدد کو نہیں آ رہی تھی، جادوگر منتر پھونکتا رہا مگر بے سود۔ اسے جس شکتی کی ضرورت تھی وہ اس وقت کسی اور راون سے الجھی ہوئی تھی۔

    جادوگر کے کانوں میں ایک آواز گونجی کہ ہم نے کہا تھا کہ وہ خاص شکتی ہے جو خاص وقت پر ہی تمہارے کام آئے گی۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا۔ جادوگر اپنے جادو کے زعم میں وقت کا سندیسہ نہ پڑھ سکا۔

    ادھر جادوگر کے چیلے اس کے سحر میں گرفتار اپنی آنکھوں میں روشنیوں کے خواب بن رہے تھے لیکن جادوگر اس خاص شکتی کے بغیر نہ ہی کوئی میدان سجا سکتا تھا اور نہ ہی بدی کی طاقتوں پر غالب آسکتا تھا۔ اب جادوگر سوچ میں تھا کہ وہ اپنے چیلوں کی آنکھوں کو کون سا نیا منظر دِکھائے جس سے ان کی آنکھوں کو دکھلایا گیا خواب دھندلا جائے۔

    یاسر شہباز کا انتخاب

  • تعاون…..

    تعاون…..

    سعادت حسن منٹو

    چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

    دفعتا اس بھیڑ کو چیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کر اس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔‘‘

    ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں۔ کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔ چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔

    مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے۔ سب تمہارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا، آپس میں نہیں لڑنا۔۔۔آؤ۔‘‘

    ایک چلایا، ’’دروازے میں تالا ہے۔‘‘ دوسرے نے با آواز بلند کہا۔ ’’توڑ دو۔‘‘

    ’’توڑ دو۔۔۔۔۔۔ توڑ دو۔‘‘ ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا۔ ’’بھائیو ٹھیرو، میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی منتخب کر کے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندرداخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمہارا ہے، پھر اس افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے، لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

    دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا۔

    ’’بھائیو، آہستہ آہستہ۔۔۔۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو۔ اتنا بڑا مکان ہے، اپنے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو، مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمہارا ہی ہے۔‘‘

    لٹیروں میں ایک بار پھر نظم پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔

    دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا، ’’دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘

    ’’تہ کر لو بھائی، اسے تہ کر لو۔ اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے۔ بڑی نازک چیز ہے۔ ہاں اب ٹھیک ہے!‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ یہاں مت پیو۔ بہک جاؤ گے۔ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘

    ’’ٹھہرو، مجھے مین سوئچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا لگ جائے۔‘‘

    اتنے میں ایک کونے سے شوربلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کررہے تھے۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔

    ’’تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہو جائے گی، ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کرلو۔‘‘

    دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ’’عف عف، عف۔‘‘ اور چشمِ زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا۔ ’’ٹائیگر ۔۔۔۔۔۔۔ ٹائیگر!‘‘

    ٹائیگر جس کے خوف ناک منہ میں ایک لٹیرے کا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔ کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑا ٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

    ’’کون ہو تم؟‘‘

    دبلا پتلا آدمی مسکرایا۔ ’’اس گھر کا مالک۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔‘‘

  • بہروپیا

    بہروپیا

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب میری عمر بس کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے وہ شہر کے ایک بارونق بازار کے پچھواڑے واقع تھا۔

    اس جگہ زیادہ تر درمیانے طبقے کے لوگ یا غریب غربا ہی آباد تھے۔ البتہ ایک پرانی حویلی وہاں ایسی تھی جس میں اگلے وقتوں کی نشانی کوئی صاحب زادہ صاحب رہا کرتے تھے۔

    ان کے ٹھاٹھ تو کچھ ایسے امیرانہ نہ تھے، مگر اپنے نام کے ساتھ ’’رئیس اعظم‘‘ لکھنا شاید وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ ادھیڑ عمر بھاری بھرکم آدمی تھے۔

    گھر سے باہر ذرا کم ہی قدم نکالتے، ہاں ہر روز تیسرے پہر حویلی کے احاطہ میں اپنے احباب کے جھرمٹ میں بیٹھ کر گپیں لڑانا اور زورزور سے قہقہے لگانا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔

    ان کے نام کی وجہ سے اکثر حاجت مند، یتیم خانوں کے ایجنٹ اور طرح طرح کے چندہ اگاہنے والے ان کے دروازے پر سوالی بن کر آیا کرتے۔ علاوہ ازیں جادو کے پروفیسر، رمال، نجومی، نقال، بھاٹ اور اسی قماش کے دوسرے لوگ بھی اپنا ہنر دکھانے اور انعام اکرام پانے کی توقع میں آئے دن ان کی حویلی میں حاضری دیا کرتے۔

    جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں، ایک بہروپیا بھی طرح طرح کے روپ بھر کر ان کی حویلی میں آیا کرتا، کبھی خاکی کوٹ پتلون پہنے، چمڑے کا تھیلا گلے میں ڈالے، چھوٹے چھوٹے شیشوں اور نرم کمانیوں والی عینک آنکھوں پر لگائے چٹھی رساں بنا ہر ایک سے بیرنگ خط کے دام وصول کر رہا ہے۔ کبھی جٹا دھاری سادھو ہے، لنگوٹ کسا ہوا، جسم پر بھبوت رمائی ہوئی، ہاتھ میں لمبا سا چمٹا، سرخ سرخ آنکھیں نکال نکال ’’بم مہا دیو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کبھی بھنگن کے روپ میں ہے جو سرخ لہنگا پہنے، کمر پر ٹوکرا، ہاتھ میں جھاڑو لیے جھوٹ موٹ پڑوسنوں سے لڑتی، بھڑتی آپ ہی آپ بکتی جھکتی چلی آرہی ہے۔

    میرے ہم سبقوں میں ایک لڑکا تھا مدن۔ عمر میں تو وہ مجھ سے ایک آدھ برس چھوٹا ہی تھا مگر قد مجھ سے نکلتاہوا تھا، خوش شکل بھولا بھالا مگر ساتھ ہی بچوں کی طرح بلا کا ضدی۔

    ہم دونوں غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسکول کے بعد کبھی وہ میرے محلے میں کھیلنے آجاتا، کبھی میں اس کے ہاں چلاجاتا۔

    ایک دن سہ پہر کو میں اور مدن، صاحب زادہ صاحب کی حویلی کے باہر سڑک پر گیند سے کھیل رہے تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی وضع کا بوڑھا آدمی آتا دکھائی دیا۔ اس نے مہاجنوں کے انداز میں دھوتی باندھ رکھی تھی، ماتھے پر سیندور کا ٹیکا تھا۔

    یہ شخص حویلی کے پھاٹک پر پہنچ کر پل بھر کو رکا، پھر اندر داخل ہو گیا۔ میں فوراً جان گیا، یہ حضرت سوائے بہروپیے کے اور کون ہو سکتے تھے۔ مگر مدن ذرا ٹھٹکا۔ اس نے بہروپیے کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ذرا چھیڑنے کو پوچھا:’’مدن جانتے ہو ابھی ابھی اس حویلی میں کون گیا ہے؟‘‘

    ’’کوئی مہاجن تھا۔‘‘

    ’’ارے نہیں پگلے یہ تو بہروپیا ہے بہروپیا!‘‘

    ’’بہروپیا؟“مدن نے کچھ حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ لوگ طرح طرح کے روپ بھر کر امیر امرا کو اپنا کمال دکھاتے ہیں اور ان سے انعام لیتے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا یہ شخص ہر روز آتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، ہفتے میں بس دو ایک ہی بار۔ روز روز آئے تو لوگ پہچان جائیں۔ بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ لوگ دھوکا کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کسی شہر میں دو تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے۔‘‘

    ’’کیا ان کو ہر دفعہ انعام ملتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔ یہ جب پندرہ بیس مرتبہ روپ بھر چکتے ہیں تو آخری بار سلام کرنے آتے ہیں، بس یہی وقت انعام لینے کا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بھلا کتنا انعام ملتا ہو گا انہیں؟‘‘

    ’’کچھ زیادہ نہیں، کہیں سے ایک روپیہ، کہیں سے دو روپے اور کہیں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ رئیسِ اعظم صاحب اگر پانچ روپے بھی دے دیں تو بہت غنیمت جانو۔ بات یہ ہے کہ آج کل اس فن کی کچھ قدرنہیں رہی۔

    اگلے وقتوں کے امیر لوگ تو اس قسم کے پیشے والوں کو اتنا اتنا انعام دے دیا کرتے تھے کہ انہیں مہینوں روزی کی فکر نہ رہتی تھی۔ مگر آج کل تو یہ بے چارے بھوکوں مر رہے ہوں گے اور۔۔۔‘‘

    میں کچھ اور کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں وہی بہروپیا حویلی کے پھاٹک سے نکلا۔ مدن اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ بہروپیا ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر بازار کی طرف چل دیا۔

    بہروپیے کا پیٹھ موڑنا تھا کہ مدن دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’اسلم آؤ اس کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کیسا ہے، اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہوگا ہی، شاید اس تک ہماری رسائی ہو جائے، پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلی صورت میں کیا لگتا ہے۔‘‘

    ’’مدن دیوانے نہ بنو۔‘‘میں نے کہا،’’نجانے اس کا ٹھکانہ کدھر ہے۔ ہم کہاں مارے مارے پھریں گے۔ نجانے ابھی اس کو اور کن کن گھروں میں جانا ہے۔۔۔‘‘

    مگر مدن نے ایک نہ سنی۔ وہ مجھے کھینچتا ہوا لے چلا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کے مزاج میں طفلانہ ضد تھی۔ ناچار میں اس کے ساتھ ہو لیا۔

    یہ گرمیوں کی ایک شام تھی، کوئی چھے کا عمل ہو گا، اندھیرا ہونے میں ابھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔

    وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک سے دوسرے بازار میں گزرتا جارہا تھا۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑی حویلی یا کسی مکان کا دیوان خانہ نظر آتا تو وہ بلاتکلف اندر داخل ہو جاتا اور ہمیں دو تین منٹ باہر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ بعض بڑی بڑی دکانوں میں بھی اس نے حاضری دی، مگر وہاں وہ ایک آدھے منٹ سے زیادہ نہ رکا۔ بہروپیا اب شہر کے دروازے سے باہر نکل آیا تھا اور فصیل کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔

    ہم نے اب تک بڑی کام یابی سے اپنے کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ اس میں بازاروں کی ریل پیل سے ہمیں بڑی مدد ملی تھی مگر اب ہم ایک غیر آباد علاقے میں تھے جہاں اکا دکا آدمی ہی چل پھررہے تھے۔

    ہمیں زیادہ چلنا نہ پڑا۔ جلد ہی ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئے جہاں فصیل کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں اور غریب غربا نے پھونس کے جھونپڑے ڈال رکھے تھے۔ بہروپیا آخری جھونپڑے کے پاس پہنچا جو ذرا الگ تھلگ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔

    جھونپڑے کے باہر ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی تین برس ہو گی اور ایک پانچ برس کا لڑکا زمین پر بیٹھے کنکریوں سے کھیل رہے تھے۔ وہ خوشی سے چلانے لگے: ’’اباجی آگئے! ابا جی آگئے!‘‘ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔

    بہروپیے نے ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، پھر ٹاٹ کا پردہ سرکا کر بچوں سمیٹ جھونپڑے میں داخل ہوگیا۔ میں نے مدن کی طرف دیکھا،’’کہو اب کیا کہتے ہو؟‘‘

    ’’ذرا رکے رہو۔ وہ ابھی مہاجن کا لباس اتار کر اپنے اصلی روپ میں باہر نکلے گا۔ اتنی گرمی میں اس سے جھونپڑے کے اندر کہاں بیٹھا جائے گا۔‘‘

    ہم نے کوئی پندرہ بیس منٹ انتظار کیا ہو گا کہ ٹاٹ کا پردہ پھر سرکا اور ایک نوجوان آدمی ململ کی دھوتی کرتا پہنے پٹیاں جمائے، سر پردو پلی ٹوپی ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھے جھونپڑے سے باہر نکلا، بوڑھے مہاجن کی سفید مونچھیں غائب تھیں اور ان کی بجائے چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر زیب دے رہی تھیں۔

    ’’یہ وہی ہے‘‘۔ یک بارگی مدن چلا اٹھا، ’’وہی قد، وہی ڈیل ڈول۔‘‘

    اور جب ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے تو اس کی چال بھی ویسی ہی تھی جیسی مہاجن کا پیچھا کرنے میں ہم نے مشاہدہ کی تھی۔

    وہ شخص کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، پھر ایک گلی میں ہوتا ہوا دوبارہ شہر کے اندر پہنچ گیا۔ وہ بازار میں چلتے چلتے ایک پنواڑی کی دکان پر رک گیا۔ ہم سمجھے کہ شاید پان کھانے رکا ہے مگر ہم نے دیکھا کہ پنواڑی دکان سے اتر آیا اور بہروپیا اس کی جگہ گدی پر بیٹھ گیا۔

    پنواڑی کے جانے کے بعد اس دکان پر کئی گاہک آئے جن کو اس نے سگریٹ کی ڈبیاں اور پان بنابنا کر دیے۔ وہ پان بڑی چابک دستی سے بناتا تھا جیسے یہ بھی کوئی فن ہو۔ اور ہم وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔

    اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آٹھ نو بجے تک سو کر کل کی تکان اتاروں گا مگر ابھی نور کا تڑکا ہی تھا کہ کسی نے میرا نام لے لے کر پکارنا اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا تو مدن تھا۔ میں پیچ و تاب کھاتا سیڑھیوں سے اترا۔

    ’’اسلم جلدی سے تیارہو جاؤ‘‘۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔

    ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

    ’’جلدی کرو، کہیں بہروپیا صبح ہی صبح گھر سے نہ چل دے۔‘‘ اور اس نے مجھے ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا کہ میرا دل فوراً پسیج گیا۔

    جب ہم کبھی دوڑتے، کبھی تیز تیز قدم اٹھاتے فصیل کی طرف جارہے تھے تو مدن نے مجھے بتایا کہ رات بھر وہ بہروپیے کو خواب میں طرح طرح کے روپ میں دیکھتا رہا۔ ابھی سورج نکلنے نہیں پایا تھا کہ ہم بہروپیے کے جھونپڑے کے پاس پہنچ گئے۔

    دن کی روشنی میں ہمیں ان جھونپڑوں کے مکینوں کی غربت اور خستہ حالی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ بہروپیے کے جھونپڑے پر ٹاٹ کا جو پردہ پڑا تھا اس میں کئی پیوند لگے تھے۔

    ہم دو تین بار اس کے جھونپڑے کے سامنے سے گزرے۔ ہر بار ہمیں اندر سے بچوں کی آوازیں، دو ایک نسوانی آوازوں کے ساتھ ملی ہوئی سنائی دیں، آخر کوئی دس منٹ کے بعد ایک شخص بوسیدہ سا تہمد باندھے، بنیان پہنے، ایک ہاتھ میں گڑوی تھامے جھونپڑے سے برآمد ہوا۔ اس کی داڑھی مونچھ صاف تھی۔ سانولا رنگ، اس کو دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل تھا۔

    وہ شخص آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے۔ آگے ایک باڑا آیا، وہ شخص اس باڑے کے اندر چلا گیا اور میں اور مدن باہر ہی اس کی نظروں سے اوجھل ایک طرف کھڑے اس کی حرکات و سکنات کو بخوبی دیکھ سکتے تھے۔

    اس نے ایک بھینس کو پچکارا، پھر بھینس کو دوہنا شروع کیا۔ جب وہ ایک بھینس کو دوہ چکا تو دوسری کی طرف گیا۔ اس کام میں کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ ایک بڈھے نے اس کی گڑوی کو دودھ سے بھر دیا جسے لے کر وہ باڑے سے نکل آیا۔

    جب وہ ذرا دور چلا گیا تو میں نے کہا: ’’لو اب تو حقیقت کھل گئی تم پر۔ چلو اب گھر چلیں۔ ناحق تم نے میری نیند خراب کی۔‘‘

    ’’مگر بھیا وہ بہروپیا کہاں تھا۔ وہ تو گوالا تھا گوالا۔ آؤ تھوڑی دیر اور اس کا پیچھا کریں۔‘‘ میں نے مدن سے زیادہ حیل وحجت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب ہمیں اس کے جھونپڑے کے آس پاس گھومتے آدھ گھنٹہ ہوگیا تو ہمیں ایک تانگہ تیزی سے ادھر آتا ہوا دکھائی دیا۔

    یہ جھونپڑے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس کی آواز سنتے ہی ایک آدمی جھونپڑے سے نکلا، اس نے کوچوان کا سا خاکی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر تانگے والا اتر پڑا اور یہ شخص تانگے میں آبیٹھا اور گھوڑے کو بڑی مہارت سے ہانکنے لگا۔ جیسے ہی تانگہ چلا پہلے شخص نے پکار کر کہا،’’تانگہ ٹھیک دو بجے اڈے پر لے آنا۔‘‘

    دوسرے شخص نے گردن ہلائی۔ اس کے بعد وہ تانگہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    آخر مدن نے سکوت کو توڑا،’’چلو یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ یہ شخص دو بجے تک کیا کرے گا۔ اتنی دیر تک ہمیں بھی چھٹی ہوگئی۔ اب ہمیں ڈھائی تین بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘‘

    میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ میں اس کی اصلیت جاننے کے لیے اتنا ہی بیتاب ہو گیا تھا جتنا کہ مدن۔

    ہم لوگ تین بجے سے پہلے ہی پھر بہروپیے کے جھونپڑے کے آس پاس گھومنے لگے۔ جھونپڑے کے اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کسی مرد کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔ اس سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ بہروپیا گھر واپس پہنچ گیا ہے۔

    ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور اب کے بہروپیا ایک اور ہی دھج سے باہر نکلا۔ اس نے سیاہ چغہ پہن رکھا تھا۔ سر پر کالی پگڑی جو بڑی خوش اسلوبی سے باندھی گئی تھی۔ گلے میں رنگ برنگی تسبیحیں، ترشی ہوئی سیاہ داڑھی، شانوں پر زلفیں بکھری ہوئی۔ اس نے بغل میں لکڑی کی ایک سیاہ صندوقچی داب رکھی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آج اس نے ایک صوفی درویش کا سوانگ بھرا ہے۔

    ہم چپکے چپکے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، وہ شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ کئی بازاروں سے گزرا۔ تھوڑی دیر میں ہم جامع مسجد کے پاس پہنچ گئے جس کے آس پاس ہر روز تیسرے پہر بازار لگا کرتا تھا۔ پھیری والے، بچوں کے سلے سلائے کپڑے، مٹھائیاں، چاٹ علاوہ ازیں تعویذ گنڈے والے، جڑی بوٹی والے بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔

    ہمارا بہروپیا بھی خاموشی سے ان لوگوں میں آکر شامل ہو گیا۔ اس نے اپنی سیاہ صندوقچی کھول کر بڑے گمبھیر لہجے میں صدا لگانی شروع کی:’’آپ کی آنکھوں میں دھند ہو، لالی ہو، خارش ہو، ککرے ہوں، بینائی کم زور ہو، پانی ڈھلکتا ہو، رات کو نظر نہ آتا ہو تو میرا بنایا ہوا خاص سرمہ ’’نین سکھ‘‘ استعمال کیجیے۔‘‘

    ’’اس کا نسخہ مجھے مکہ شریف میں ایک درویش بزرگ سے دست یاب ہوا تھا۔ خدمتِ خلق کے خیال سے قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے۔ یعنی صرف چار آنے فی شیشی۔‘‘

    میں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کر دی تھی۔

    دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔

    ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔


    (مشہور ادیب اور افسانہ نگار غلام عباس کی ایک شان دار تخلیق)

  • انسان سے نہیں، انسان کو جیتنا سیکھو!

    انسان سے نہیں، انسان کو جیتنا سیکھو!

    تحریر: سردار فہد

    "یہ ہوس کا زمانہ ہے بابا جی، محبت کا نہیں۔ ضرورتیں کچھ دیر کے لیے کدورتوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے محبت کے دو بول بولتی ہیں اور پھر کدورتوں کے پیچھے چھپ جاتی ہیں۔”

    میں نے گِلہ کیا تو بابا جی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ نے میری دلیل کو جھٹ سے رد کر دیا۔ وہ بولے۔

    "بیٹا ! نہ ملنے کا گِلہ تو وہی کرتے ہیں جو کچھ دینا نہیں جانتے یا دینا نہیں چاہتے۔

    یاد رکھو! محبت اور عزت دینے سے ملتی ہے۔ یہ تو دیوار پر پھینکی ہوئی گیند کی طرح ہوتی ہے۔ جتنی قوت سے پھینکو گے اتنی قوت سے واپس تمہارے ہاتھوں میں آئے گی۔ بیٹا! دینا سیکھو۔ اوپر والا دس گنا کر کے لوٹائے گا۔ چاہے وہ محبت ہو یا عزت۔”

    "لیکن بابا! ایسے لوگ بھی تو ہیں جو اس قابل ہی نہیں کہ انہیں عزت دی جائے یا ان سے محبت کے بول بولے جائیں۔ بعض اوقات تو انسان کو خود پہ ترس آتا ہے کہ جس شخص کو اس نے اتنی محبت دی وہی شخص جب دغا کرنے پر آیا تو قرعہ بھی اسی کا نام نکلا جس نے اسے دل کے قریب تر رکھا تھا۔

    اور جس شخص کو عزت کی پگ پہنا کر وہ اس کا قد اونچا کرتا رہا اسی شخص نے اسے بونا سمجھنے میں دیر نہیں کی۔” غیر ارادی طور پر میرے منہ سے نکلا تو بابا جی کے چہرے کی مسکان غائب تھی۔

    "بیٹا ! رب کی بنائی ہوئی کوئی چیز بھی حقیر نہیں، بدصورت نہیں، کمتر نہیں ہے اور بے کار نہیں ہے۔ انسان تو ہے ہی اشرف المخلوقات اور انسان کو میرے اللہ نے بہت ہی خوب صورت بنایا ہے، اور ہر انسان کی مٹی میں محبت، اخلاق اور اخلاص کی خوش بُو ملائی ہے لیکن انسان ہی اپنے اندر کے شیطان کو اس قدر اختیار دے دیتا ہے کہ وہ اس کے اندر کی خوش بُو کو اپنی غلاظت بھری پوٹلی میں قید کرسکے، لیکن کبھی کسی باغ میں کانٹے کو دیکھا ہے؟”

    "کانٹے کو؟ باغ میں تو لوگ پھول دیکھتے ہیں بابا۔” مجھے حیرانی ہوئی۔

    "ہاں ! پھول ہی تو دیکھتے ہیں۔ ان کی خوش بو انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ان کی رنگت اور نازکی انہیں مسرور کرنے لگتی ہے۔ اور وہ اسے ہونٹوں سے لگا لیتے ہیں۔ کانٹے تو جب ان کی انگلیوں میں چبھنے لگیں تو تبھی انہیں کانٹوں کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔

    لیکن اگلی بار باغ میں جاؤ تو کانٹوں کے لیے جانا۔ انہیں محبت سے دیکھنا۔ ان کے اندر کی خوب صورتی کو محسوس کرنا۔ اور میری مانو تو انہیں ہونٹوں سے بھی لگا لینا۔ وہ اپنے اندر کی ساری نرمی تمہارے اس پیار کے صدقے تم پر نچھاور کر دیں گے۔ اور آزما لینا۔۔۔۔ ایسا سکون ملے گا جو پھولوں کی نازکی میں کہاں۔

    بیٹا! انسان بھی سخت ہو جاتے ہیں، کانٹوں کی طرح۔
    انہیں محبت نرم کرتی اور ایسا نرم کرتی ہے کہ پھر پھول جیسے نرم دل لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ بہت پیچھے۔”

    میں بابا جی کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ ان کے چہرے کی جھریوں میں نور چمکتا نظر آنے لگا۔ اور میری آنکھوں میں وہ نور اترنے لگا جو ہر سختی کو پگھلاتا ہوا کسی بھی چیز کو موم بنانے کی طاقت رکھتا ہو۔ جو انسان سے جیتنے کے بجائے انسان کو جیتنے کا ہنر جانتی ہوں۔ جو دلوں کی حکم رانی کا خواب دیکھنے لگی ہوں۔

     

    (مصنف کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے، شاعر ہیں، کہانیاں لکھتے ہیں اور مختلف سماجی موضوعات پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے بلاگ کا سہارا لیتے ہیں)

  • گھنٹی نہیں بجتی، کنڈی نہیں کھلتی، کوئی مانوس آواز سنائی نہیں دیتی….

    گھنٹی نہیں بجتی، کنڈی نہیں کھلتی، کوئی مانوس آواز سنائی نہیں دیتی….

    شہناز احد

    میں آخری بار کئی دن پہلے گھر سے باہر گئی تھی۔ میں سوچ رہی ہوں، کیا باہر سب کچھ ویسا ہی ہے؟

    روز سویرے سورج بھی نکلا ہوتا ہے، ہوا اور درخت بھی ہوا کے سنگ جھوم رہے ہوتے ہیں۔ چڑیاں بھی چہچہا رہی ہوتی ہیں۔ رزق کی تلاش میں کائیں کائیں کرتے کرتے کوے، دور آسمان پر دائروں کی شکل میں چیلیں بھی گھوم رہی ہوتی ہیں۔ کوئی جھونکا بہار کے تازہ کھلے پھولوں کی باس سے بھرا بھی ہوتا ہے۔

    ہر سال کی طرح بیا اور بلبل کا جوڑا گیلری میں رکھے گملوں اور بیلوں میں اپنے آشیانے کا پلاٹ بھی تلاش کررہا ہوتا ہے۔ پارکنگ لاٹ میں کھڑی گاڑیوں کے نیچے بلیاں اور ان کے بچے بھی آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے ہیں۔

    وقفے وقفے سے ادھیڑ عمر، عمر رسیدہ افراد اب گروپوں سے الگ تنہا واک کررہے ہوتے ہیں۔ غلطی سے کسی سے آنکھ چار ہو جائے تو وہ آداب کا پتھر مارتا ہوا آگے کو لپک جاتا ہے۔ جیسے اسے کسی بات کا خوف ہو۔

    ایسا ہی ایک بے نام سا خوف میرے اندر بھی ہے کہ….. دن بیت جاتا ہے، سورج ڈھل کر ایک جانب سے دوسری جانب چلا جاتا ہے، دروازے کی کنڈی نہیں کھلتی، بیل نہیں بجتی، کوئی مانوس انسانی آواز نہیں آتی۔

    آواز کی خواہش میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹی وی کھولتی ہوں اور گھبرا کر بند کر دیتی ہوں۔ میرے کان ترس گئے ہیں۔

    کسی خوش بُو لہجے، رس گھولتی آواز، امید دلاتی بات کے لیے۔ آج مہینے سے اوپر ہو چلا ہے کہ ساری گاڑیاں جیسے پتھر کی ہوگئی ہیں۔ کسی گاڑی کا ہارن نہیں بج رہا۔ کوئی ڈرائیور زور زور سے بولتے ہوئے گاڑی صاف نہیں کرتا۔ کوئی بچوں کے بیگ تھامے بھاگتا نظر نہیں آتا۔ کسی مچھلی اور سبزی والے کی آواز نہیں آتی۔ بلند آواز میں بولتی جوتیاں گھس گھس کر چلتی ماسیاں نظر نہیں آتیں۔ گاڑیوں کی جانب لپکتے، ٹائیوں کی گرہ درست کرتے انسان نظر نہیں آتے۔ سڑک پر کھیلنے والے تمام بچے جانے کن کمروں میں بند ہیں۔

    میں گھبرا کر سوچتی ہوں، یہ سب کچھ کب پہلے جیسا ہوگا۔ میرے اندر کچھ ٹوٹتا ہے، کوئی جواب نہیں‌ آتا، ایسا لگتا ہے میں چلتے ہوئے مُردوں کے قبرستان میں کھڑی ہوں۔ مجھے رات میں نیند نہیں آتی۔ میرے کان شور مچاتے، ان سائرنوں کی آواز کو ترس گئے ہیں جو زندگی کو اپنی گود میں سمیٹے ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہوتے تھے۔

    نجانے وہ پٹاخے، دھماکے کہاں سو گئے جو رات کے کسی بھی پہر مسرت کا اظہار کرنے لگتے تھے۔ رات کو جب کسی کی بارات آتی تھی اس وقت۔

    رات کے سناٹے میں کراچی کی شاہراہِ فیصل پر رواں دواں ٹریفک کی ساں ساں کرتی آواز بھی جانے کہاں گم ہوگئی ہے۔ رات گئے مختلف گھروں سے باتوں، قہقہوں اور ٹی وی پروگراموں کی آوازیں بھی خاموش ہیں۔

    یہ آوازیں اب کب سنائی دیں گی؟ میں سوچتی ہوں۔ مگر مجھے جواب نہیں ملتا۔

    میں نے کئی دنوں سے سڑک کی شکل نہیں دیکھی، تصور کی آنکھ کھول کر بار بار آنکھوں کو پٹپٹاتی ہوں اور ان مناظر کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں جنھیں دیکھ دیکھ کر میری جاگتی آنکھیں تھک چکی تھیں۔

    وہ امراضِ قلب کے اسپتال سے نکلتی ایمبولینس، ان میں آنسو پونچھتے مرد و زن، اسی دروازے سے سائرن بجاتی داخل ہونے والی دوسری ایمبولینس، اور اس میں سوار فق چہرے، دروازے سے اندر، باہر آتا جاتا لوگوں کا ہجوم۔
    کیا وہاں آج بھی یہ منظر ہے، اگر نہیں تو وہ سارے لوگ کہاں گئے، ان کے دلوں نے دھڑکنا بند کردیا کیا؟

    اس کے سامنے وہ بچوں کا اسپتال۔ اس کے آگے عورتوں کا جمِ غفیر، جس کے گیٹ پر ہر لمحے میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ اسی میلے میں اکثر و بیش تر کوئی باپ اپنے نومولود کی لاش ہاتوں پر لیے بھی کھڑا ہوتا ہے۔ کیا وہاں آج بھی یہ منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر نہیں تو وہ سب کہاں گئے؟

    لوگوں کے اسی ہجوم میں سستے میک اپ سے لیپا پوتی کیے چہروں اور جھلمل کرتے لباسوں میں ملبوس نوعمر لڑکیوں کے گروہ۔ وہ سفید کوٹ والے مستقبل کے مسیحا۔ میں خود سے پوچھتی ہوں، کیا باہر آج بھی یہ منظر ہوگا؟

    اوہ… میں تو بھول ہی گئی تھی، قانون کے ان رکھوالوں کو جو ہر شام سڑک کے کونے پر ناکہ لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔

    یہی سب سوچتے سوچتے میں اپنے کمرے میں آ گئی ہوں۔ دیوار کے ساتھ لگی کتابوں سے بھری الماری مجھے مسکراتی لگی جیسے پوچھ رہی ہو یہ کتب جو تم نے فرصت کے دنوں کے لیے جمع کی ہیں، لگتا ہے اب کبھی نہ پڑھ پاؤ گی۔ اسی کے نچلے حصے میں میری ذاتی اور کچھ دفتری فائلیں منہ کھولے مجھے تک رہی ہیں، ڈریسنگ پر میرے پسندیدہ پرفیوم پوچھ رہے ہیں، کیا تم ہمیں استعمال کرو گی؟……کب؟

    میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھتی ہوں اور خود سے سوال کرتی ہوں…. کیا اب کبھی ایسا نہ ہوگا کہ میں آرٹس کونسل جاکر ایک اچھا تھیٹر دیکھو سکوں، وہ شہر کے مختلف مقامات پر سجنے والے اردو زبان اور کتابوں کے میلے، کیا میں اب کبھی ان سے محظوظ نہ ہو سکوں گی؟

    سوچوں کی گلیوں میں چلتے چلتے میں بہت آگے نکل گئی تو لگا نمکو کارنر کے سموسے مجھے تَک رہے ہیں، لیکن میں ان تک نہیں پہنچ پارہی، چٹخارے ہاؤس کی چاٹ مجھے پکار رہی ہے۔ مگر کیسے جاؤں، کیا کروں؟

    کرنا تو بہت کچھ ہے، بہت سے کام ہیں جو ادھورے پڑے ہیں…اور وہ سب کے سب ضروری کام ہیں۔

    اوہ خدایا یہ سوچیں…. ماں کی قبر کے اطراف کو پکا کروانا ہے۔ میں سوچتی ہوں اور سوچے جارہی ہوں۔ میرے اندر کچھ ٹوٹ رہا ہے، مگر کوئی جواب نہیں مل رہا۔

    مجھے لگتا ہے میں ایک گنبد میں بند ہوں، ایسا گنبد جس کی نہ کوئی راہ داری ہے، نہ کھڑکی، نہ روشن دان۔
    اور ایک میں ہی نہیں ساری دنیا گنبد میں بند ہے۔ جس میں ہماری آوازیں گونج رہی ہیں اور ہماری ہی طرف واپس آرہی ہیں۔

    دروازے کی بیل مجھے زندہ ہونے کی نوید دیتی ہے….. شاید زندگی ہے۔ دروازہ کھولتی ہوں….. کوڑے والا ہے!
    دروازے سے لے کر بالٹی تک سب پر جراثیم کُش اسپرے کرتی ہوں۔

    واپس کمرے میں آتی ہوں، بیس سکینڈ تک ہاتھ دھونے کے بعد پھر سوچتی ہوں کہ میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں؟
    پھر کوئی جواب نہیں آتا۔

    کوئی ہے جو بتائے زندگی دوبارہ کب جیے گی؟ اس سکرات کا دورانیہ کتنا ہے؟

    کیا کوئی وینٹ ہے جو سانسوں اور سوچوں کی آمدو رفت کو آسان بنا دے۔ میرے اندر پھر کچھ ٹوٹ رہا ہے، کچھ لرزاں ہے، جواب نہیں آتا۔

    (شہناز احد صحافتی و سماجی تنظیموں سے وابستہ اور کڈنی فاؤنڈیشن آف پاکستان کی عہدے دار ہیں، آپ سماجی مسائل اور خاص طور پر صحتِ عامہ سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں)