Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • دستاویز

    دستاویز

    ہمارا خاندان نسلوں سے نیو یارک میں آباد ہے۔ میرا نام انتھونی پورٹر ہے، یہ نام میرے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا۔

    21 دسمبر 1820 کی بات ہے۔ ویرک اسٹریٹ پر واقع مورٹیئر ہاؤس، چارلٹن کے آخری گوشے میں منتقل کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ اب نیو یارک کے وسط میں آگیا ہے۔ منتقلی کے موقع پر میرے دادا انتھونی پورٹر نے اپنے ملازموں کی خدمات مستعار دی تھیں۔

    اس پرانی حویلی کو ایک اعزاز حاصل تھا، یہ جون 1776 سے ستمبر 1776 تک جارج واشنگٹن کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کی گئی تھی۔ منتقلی کے موقع پر باورچی خانے کی چمنی کی ایک اینٹ اکھڑی ہوئی تھی، اس کے پیچھے سے ایک خط ملا تھا۔

    یہ خط لیفٹیننٹ جنرل سر ولیم ہوو کے نام تحریر کیا گیا تھا۔ خط پر 29 جولائی 1776 کی تاریخ پڑی تھی۔ سَر ولیم ان برطانوی فوجوں کے کمانڈر تھے جو نیویارک کے اطراف میں جمع تھیں۔

    نامعلوم وجوہ سے وہ انگریز قاصد یہ خط نکالنے سے قاصر رہا جو اسے خفیہ مقام سے نکال کر منزل تک پہنچانے کا ذمے دار تھا، اس طرح یہ خط کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔

    میرے آبا و اجداد یہ خط ایک یادگار کے طور پر محفوظ کیے ہوئے تھے مگر بعد کی نسلیں ماضی کے بجائے مستقبل پر زیادہ نگاہ رکھتی تھیں۔ لہٰذا خاندان کے دیگر اہم کاغذات کے ساتھ اس خط پر بھی مٹی جمتی رہی۔

    میں چوں کہ اپنی نسل کا آخری فرد تھا اور میں نے شادی بھی نہیں کی تھی اس لیے میرا شجرہ آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی بنا پر میری دل چسپی اپنے بزرگوں کے ادوار اور ان کی نشانیوں سے بڑھتی رہی۔

    پہلی ہی بار اس خط کے متن نے مجھے متاثر بھی کیا تھا اور الجھن میں بھی ڈال دیا تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا۔

    عزت مآب، عالی جناب جنرل صاحب!

    جب یہ خط آپ تک پہنچے گا آپ اس خط کی ایک اہم اطلاع سے با خبر ہوچکے ہوں گے یعنی ہمارا دشمن جارج واشنگٹن مرچکا ہوگا اس کے مرنے کے بعد ان کی فوج کی حیثیت ایک ایسی ناگن جیسی رہ جائے گی جس کا سر قلم کردیا گیا ہو۔

    دشمن کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کرنی پڑے گی لیکن اس میں کیا مضائقہ ہے۔ امید ہے، سورج غروب ہونے تک دشمن کا بالکل صفایا کردیا جائے گا۔ اس وقت تک میں بھی مرچکا ہوں گا لیکن یہ بات میرے اور میرے خاندان کے سوا کسی کے لیے اہم نہیں ہوگی۔

    میں جنرل واشنگٹن کے ادارے میں باورچی کی حیثیت سے ملازم ہوں اور پہلے بھی آپ کو باغیوں کے منصوبوں اور ان کی صف بندی کے بارے میں خبریں بھیجتا رہا ہوں اور یہ میرے اور میری نسلوں کے لیے باعثِ صد افتخار ہے کہ مجھے تاجِ برطانیہ کے لیے ایک انتہائی اہم خدمت انجام دینے کا موقع میسر آرہا ہے۔

    جنرل واشنگٹن ایک تنہائی پسند شخص ہے اور اپنے دانتوں کی تکلیف کی وجہ سے اکثر تنہا کھانا کھاتا ہے۔ حال میں سردی لگنے سے اس کے سر میں بھی تکلیف شروع ہوگئی، سر درد نے اس کے ذائقے کی حس بری طرح متاثر کی ہے۔

    آج رات کے کھانے میں، میں نے اس کے لیے بچھیا کا گوشت پیاز اور آلو پکائے ہیں اور ساتھ ہی اپنا ایک خاص جزو بھی کھانے میں شامل کیا ہے۔ یہ ایک لال پھل ہے جو نائٹ شیڈ فیملی کے ایک زہریلے پودے پر اُگتا ہے۔

    جناب والا کو اندازہ ہوگا کہ یہ ایک بے حد مشکل کام ہے، میں ایک باعزت آدمی ہوں، میں نے آج تک کسی کو چوری چھپے یا عیاری سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس کے علاوہ میری دانست میں جنرل واشنگٹن ایک عظیم راہ نما ہے، اس کے بلند مرتبے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

    خطرات میں ہوش مندی سے کام لینا اس کا شیوہ ہے، اس کی دیانت داری کی داستانیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، اس کی ہمت اور باتدبیری سے آپ خود بھی بہ خوبی واقف ہیں لیکن …… لیکن چوں کہ وہ میرے ملک معظم تاج دار برطانیہ عظمیٰ جارج کی خداداد حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اس لیے تاج شاہی کے ایک ادنیٰ وفادار کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں اپنے طور پر جب بھی مناسب موقع میسر آئے اس کا قصہ پاک کردوں۔

    مجھے ہر چند افسوس بھی ہے کہ میں جارج واشنگٹن، ایک بڑے آدمی کی موت کا ذمے دار ہوں گا، لیکن یہ احساس میرے افسوس پر غالب آجائے گا کہ میں نے یہ کام خدا، ملکِ معظم اور اپنے عظیم ملک کے لیے انجام دیا ہے۔

    یہاں سے چند سطریں خالی تھیں جیسے خط نا مکمل چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس کے بعد خط دوبارہ لکھا گیا تھا۔

    شکر ہے میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ میں نے جنرل کی موت اس کے خاص خادم کے ہاتھوں میں پہنچا دی ہے اور اس طرح میں نے اپنے بادشاہ (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) سے کیا ہوا عہد پورا کر دیا ہے۔ اب مجھے اپنے کام کا آغاز کرنا ہے۔ میں یہ خط مقرر کردہ جگہ پر رکھ دوں گا۔

    چوں کہ مجھے جنرل کے حامیوں کی جانب سے وحشیانہ انتقام کا خطرہ ہے چناں چہ اپنی جان خود لے رہا ہوں۔ زہر کھانے پر میری طبیعت مائل نہیں ہے۔ اپنے فربہ جسم کی وجہ سے میں گلے میں پھندا ڈال کر لٹکنے سے بھی قاصر ہوں البتہ چاقو کے استعمال میں مجھے خاصی مہارت حاصل ہے لہٰذا اسی کو ترجیح دے رہا ہوں۔

    الوداع، میری درخواست ہے کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کو کوئی مشکل پیش نہ آنے پائے۔ میں انھیں تاج دار برطانیہ جارج کی سخاوت کے نام پر اور سر ولیم آپ کی پناہ میں چھوڑے جارہا ہوں۔ میرے بعد میری شہرت اس بات کا ثبوت ہوگی کہ میں نے آپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، میں بہ صمیم قلب و دماغ اپنے ملک، اپنے بادشاہ اور آپ کی اقبال مندی کے لیے دعا گو ہوں۔

    مجھے فخر ہے کہ میں ہمیشہ آپ سب کا وفادار رہا ہوں۔

    آپ کا حقیر ترین تابع
    جیمز بیلی

    اس خط میں جولیس سیزر کے قتل کی تاریخ کے سب سے اہم قتل کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، ہم سب جانتے ہیں کہ جارج واشنگٹن اس کے بعد پورے تئیس برس یعنی 1799 تک زندہ رہا اور اس بات کا کہیں کوئی نشان نہیں ہے کہ 1776 میں اس کی جان لینے کی کوئی ناکام کوشش بھی کی گئی ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جیمز بیلی نے اس مفروضہ قتل کی انتقامی کارروائی کے خوف اور ندامت کے باعث خود کو ہلاک کرلیا تھا۔

    اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے جرم کی سزا دے ڈالی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا، میں نے خود کو اس تناقص کی توجہیہ کے لیے وقف کردیا کب کوئی قتل، قتل نہیں ہوتا؟

    یہ سوال بچوں کی پہیلیوں کے مانند میرے ذہن میں گردش کرتا رہاکہ کب کوئی زہر، زہر نہیں ہوتا؟ پھر میں نے اپنی توجہ اس پھل پر مرکوز کردی جس کا تذکرہ جیمز بیلی نے اپنے خط میں کیا تھا۔

    لال پھل؟ میری نگاہ میں یہی ایک کلید تھی، میں نے اپنی تحقیق کا آغاز اسی سے کیا۔

    آخر میں نائٹ شیڈ فیملی کا ایک ایسا پودا اور دریافت کرنے میں کام یاب ہوگیا جس پر لال پھل اُگتے تھے۔

    امریکا میں یہ پھل 1882 تک زہریلا سمجھا جاتا تھا۔ یہ پھل جب بھی موجود تھا اور آج بھی دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ اسے ہم سب ٹماٹر کے نام سے جانتے ہیں۔

    (رچرڈ ایم گورڈن کی اس کہانی کو رابعہ سلطانہ نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے)

  • فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم، درخت کی نئی اور پرانی چھال کا تصادم ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تصادم کوئی نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ زندگی مائل بہ ارتقا ہے۔

    وہ ہر سال اپنی پرانی کینچلی اتار کر ایک نئی کینچلی پہن لیتی ہے۔ ہمارا واہمہ ہے کہ ہمیں پرانی اور نئی کینچلی کے رشتے میں فرد اور معاشرے کا تصادم نظر آتا ہے۔

    زندگی کا اصل مقصد، تسلسل ہے اور یہ تسلسل زیر و بم کے اس انداز کے تابع ہے، جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے، یعنی آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا عمل، جس کے تسلسل اور تواتر میں کبھی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔

    جب زندگی آگے بڑھتی ہے تو اس کام کے لیے فرد کو بروئے کار لاتی ہے۔ جب وہ پیچھے ہٹتی ہے، تاکہ نئی فتح یا نئے قدم کے آثار بہرہ اندوز ہوسکیں تو سوسائٹی کی قدروں سے کام لیتی ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ پچھلے برس کی چھال ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کا ایک حصہ، روایت کی صورت میں زندگی کے تنے سے چپک جاتا ہے اور اس کی جسامت میں اضافہ کردیتا ہے، جیسے درخت کی نئی اور پرانی چھال میں لپکنے اور سمٹنے کا عمل جاری رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درخت کے اندر سے ایک تخلیقی جہت وجود میں آتی ہے، جو درخت کی نسل ہی کو بدل دیتی ہے۔

    فرد اور سوسائٹی کے رشتے میں بھی یہ بات عام ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایسا فرد پیدا ہوجاتا ہے، جو سوسائٹی کو اٹھا کر ایک نئی سطح اور ایک نئے مدار میں لے آتا ہے اور یہ بات ایک تخلیقی جست کے تابع ہے۔

    (ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ”فرد، معاشرے اور تخلیقی جست“ سے محسن علی کا انتخاب)

  • دوا کا نسخہ

    دوا کا نسخہ

    لڑکی دوا فروش سے سکون آور دوا کا مطالبہ کررہی تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر کا نسخہ دکھاؤ۔

    لڑکی کو یہ مطالبہ کچھ عجیب سا لگا کیوں کہ وہ خواب آور دوا نہیں مانگ رہی تھی۔ دوا فروش اس کی بات تو سمجھ گیا لیکن سکون آور دوا کے لیے بھی ڈاکٹر کا نسخہ ضروری تھا۔

    لڑکی اب بحث پر اتر آئی۔ ”سکون آور دوا سے کسی قسم کے نقصان کا خطرہ نہیں ہے اور میں اس دوا کی عادی ہوں۔“

    دوا فروش نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ”سوال یہ نہیں ہے کہ تم کیا کیا استعمال کرتی رہی ہو۔ تم جو کررہی ہو، یہ ایک خطرناک حرکت ہے۔“

    ”یعنی تم سمجھتے ہو کہ میرا خود کُشی کا ارادہ ہے؟“

    ”نہیں ایسا تو نہیں، مگر اس میں کافی خطرہ ہے۔“

    اب لڑکی نے ذرا مختلف انداز میں سوال کیا۔ ”تمہارے پاس سکون آور دوائیں کون کون سی ہیں۔“

    دوا فروش نے ایک نام بتایا۔ یہ ایک بہت ہی معمولی طاقت کی دوا تھی اور اس کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ پھر بھی اس کا خیال تھا کہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    ”دیکھو! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔“ لڑکی نے جھلا کر کہا۔

    ”اگر کوئی اس دوا سے خودکشی کرنے کی کوشش کرے تو اسے کم از کم ایک سو گولیاں کھانی ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی درجن بوتلیں درکار ہوں گی۔ انھیں نگلنے کے لیے بھی گھنٹوں لگ جائیں گے اور بے اندازہ پانی پینا پڑے گا۔ یہ تمام ملغوبہ مل کر اس کے پیٹ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دے گا اور اس قدر طویل وقت کو دیکھتے ہوئے موت کو بھی کچھ سوچنا پڑے گا۔

    گولیوں کو اپنا اثر دکھانے کے لیے ایک معقول وقت چاہیے اور یہ عمل پورا ہونے سے پہلے پہلے وہ آدمی اپنی حرکت سے توبہ کرلے گا اور فوراً اسپتال پہنچ جائے گا جہاں ڈاکٹر اسے بچالیں گے۔ اب تو تمہاری عقل میں یہ بات سماگئی ہوگی کہ اس قدر معمولی مقدار کی سکون آور دوا خودکشی کے لیے ناکافی ہے۔“

    ”آپ بڑی ذہین اور سمجھ دار خاتون ہیں۔“ دوا فروش نے مرعوب ہوتے ہوئے کہا۔ ”آپ پورے مرحلے سے اچھی طرح با خبر ہیں، فرض کرلیں کہ آپ کی تمام باتیں تسلیم کر لیتا ہوں…..“

    ”آپ جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں وہ سب غلط ہے۔“ لڑکی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
    دوا فروش نے یہ دیکھتے ہوئے کہ مزید بحث کرنا فضول ہے، اسے ایک بوتل پکڑا دی۔ لڑکی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل گئی۔

    اس نے دوسری فارمیسی میں بھی یہی ڈراما دہرایا۔ تیسری فارمیسی میں اسے اپنی کہانی سنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ دوا فروش نے بلا حیل و حجت ایک شیشی اسے پکڑا دی۔ چوتھی میں اسے زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں پڑی اور اسی طرح پانچویں میں بھی اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہا۔

    اخبار میں خبر کی اشاعت ہوئی کہ ایک نوجوان لڑکی اپنے بستر پر مردہ پائی گئی۔ اس کے قریبی میز پر سکون آور دوا کی کئی بوتلیں خالی پڑی تھیں اور اس کے ساتھ ہی ایک نوٹ بھی رکھا ہوا تھا۔

    ”میں نے اس زندگی کو خود پسند کیا تھا اور اس کے لیے کسی سے رائے نہیں مانگی، مگر زندگی نے میری قدر نہ کی لہٰذا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اپنی زندگی کو ختم کرلینے کا فیصلہ بھی میرا اپنا ہے۔“

    لوگوں نے یہ خبر پڑھ کر اظہار تاسف کیا۔ بے چاری لڑکی! نہ جانے کس بات سے عاجز آکر اس نے یہ فیصلہ کر ڈالا۔ ایک شخص نے تبصرہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس کے ساتھ بے وفائی کی، دوسرے نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

    دوا فروش نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہاکہ وہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھی اور اس نے خودکشی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا۔

    دوا فروش نے اخبار میں تصویر دیکھ کر اس کو پہچان لیا اور اپنے بیان میں کہاکہ اب اس بات کو زیادہ طول نہ دیا جائے جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اس کی ماں نے زار و قطار روتے ہوئے کہا۔

    ”ہم نے اس کی جان بچانے کی سَر توڑ کوشش کی۔ اس کی زندگی میں کوئی راز نہیں تھا۔ اسے اپنی زندگی سے بے حد پیار تھا۔ وہ بے حد شرارتی اور کھلنڈری لڑکی تھی۔ شاید اس نے کوئی شرارت سوچ کر یہ حرکت کی ہوگی۔

    (اس کہانی کے مصنف ڈیزی الامیر (عراق) اور مترجم ابوالفرح ہمایوں ہیں)

  • چڑیا کا گھونسلا اور ڈاکو

    چڑیا کا گھونسلا اور ڈاکو

    مصنف: رتن سنگھ

    ڈاکوﺅں کے پتھر جیسے دل عام طور پر موم نہیں ہوا کرتے، لیکن وہ لمحہ معلوم نہیں کیسا لطیف تھا جس نے ظالم سنگھ جیسے ڈاکوﺅں کے سردار کا دل بھی پگھلا کر رکھ دیا۔

    بات صرف اتنی سی تھی جو بچہ اغوا کرکے اس کے آدمی لائے تھے وہ کل سے رو رو کر بے حال ہو رہا تھا۔ ویسے یہ بھی کوئی نئی بات نہ تھی، شروع شروع میں سبھی اغوا ہونے والے بچے روتے ہیں، لیکن پھر رو دھو کر حالات سے سمجھوتا کرلیتے اور صبر کے ساتھ بہتر حالات کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

    اس سے ڈاکوﺅں کو بھی اطمینان ہو جاتا ہے۔ وہ بھی صبر و ضبط سے معاوضہ ملنے کے منتظر رہتے ہیں۔

    اس بچے کا معاملہ ذرا پریشان کن تھا، اسے آئے ہوئے چوبیس گھنٹے ہو رہے تھے۔ ان چوبیس گھنٹوں میں وہ ایک پَل نہیں سویا تھا۔ مزید ستم یہ کہ وہ رونا بند کرتا تو کسی زخمی پرندے کی طرح زمین پر لوٹنا شروع کردیتا۔ لوٹتے لوٹتے اس کے گھٹنے اور بازو چِھل گئے تھے، چہرے پر کتنی ہی خراشیں آگئی تھیں، عجیب ڈراﺅنا سا چہرہ ہوگیا تھا۔

    چوبیس گھنٹے میں اس نے کھانا تو درکنار پانی کی ایک بوند بھی حلق سے نہیں اتاری تھی، اسی لیے اس کے ہونٹ سوکھ سے گئے تھے اور چہرہ مرجھا گیا تھا۔ اس قسم کی باتوں کا ڈاکوﺅں پر زیادہ اثر نہیں ہوا کرتا، بچہ روتا ہے تو روتا رہے۔ کیا لیتا ہے؟

    ادھر ڈاکوﺅں کے جاسوس خبر لائے کہ بچے کی ماں پر بار بار غشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ اس کے منہ پر پانی چھڑک کر اسے ہوش میں لایا جاتا ہے تو وہ بچے کا نام لے کر پھر بے ہوش ہوجاتی ہے۔

    اغوا ہونے والے بچے کے گھر میں اس قسم کی پریشانیاں عام طور پر ڈاکوﺅں کا کام آسان کردیتی ہیں۔ گھر والے مقررہ وقت پر منہ مانگی رقم لے کر بتائے پتے پر پہنچ جاتے ہیں، مگر اس مرتبہ اغوا کیے ہوئے بچے کا تڑپنا، بلکنا، مچلنا اور کھانے پینے سے گریز ڈاکوﺅں کے لیے خاصا پریشان کن مسئلہ بن گیا تھا۔

    بچے کی پیدا کی ہوئی مصیبت کے ساتھ ہی ایک اور عجیب واقعہ بھی ہوگیا۔

    ہُوا یہ کہ جس پیڑ کے نیچے بچہ سردار کے قدموں تلے پڑا لوٹ رہا تھا، اسی پیڑ کی کسی شاخ پر چڑیوں کا ایک گھونسلا تھا۔ اس گھونسلے میں کچھ دن سے چڑیوں کے ننھے ننھے بچے چُوں چُوں کیا کرتے تھے، شام کے وقت جب نر اور مادہ کے لوٹنے کا وقت ہوتا تو وہ ننھے ننھے بچے اپنے ماں باپ کو دیکھ کر ایسے نہال ہوجاتے کہ اور بھی زور زور سے چہچہانے لگتے۔

    معلوم نہیں، ظالم سنگھ کا دھیان کیسے چڑیوں کے اس کنبے کی طرف چلا گیا۔

    وہ روز شام کے وقت چڑیوں کو اپنے بچوں کو دانہ کھلاتے دیکھتا، ان کی محبت اور لگاﺅ کا یہ منظر اسے بڑا اچھا لگتا تھا۔

    ایک دن ایک چیل کی نظر چڑیوں کے ننھے ننھے پوٹوں پر گئی اور وہ ان میں سے ایک کو اپنے پنجوں میں جھپٹ کر اڑا لے گئی۔

    اس شام چڑیوں کے جوڑے کی پریشانی اور صدمے کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ جب انھوں نے اپنے گھونسلے میں صرف ایک ہی بچہ دیکھا تو رات گئے تک گھونسلے کے گرد چکر کاٹ کاٹ کر شور مچاتے رہے۔

    چڑیوں کے جوڑے کی درد بھری چیخیں سُن سُن کر ڈاکوﺅں کے سردار کا دل بھر آیا۔ ساری رات وہ چین سے نہ سوسکا۔

    صبح اٹھتے ہی اس نے ایک ڈاکو کی ڈیوٹی لگادی تھی کہ وہ بندوق لے کر اس درخت کا پہرہ دے اور کسی چیل کو اس گھونسلے کے پاس نہ پھٹکنے دے۔

    اب اسے اتفاق کہیے جس وقت وہ اغوا کیا ہوا بچہ سردار کے سامنے پڑا ہوا مچل مچل کر بلک رہا تھا، اسی وقت چڑیا کا دوسرا بچہ اپنے گھونسلے سے پھسلا اور سردار کی گود میں آگرا۔

    سردار کتنی دیر تک یہ ننھی سی جان ہاتھوں میں لے کر تکتا رہا۔ بچہ بار بار چونچ کھول رہا تھا اور بند کر رہا تھا۔ اپنی ہتھیلی پر چڑیا کے بچے کے جسم کی گرمی سردار کو بڑی راحت بخش محسوس ہو رہی تھی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ گرمی اس کے جسم میں سرسراتی ہوئی روح کی گہرائیوں تک پہنچ رہی ہے۔

    اس وقت شام ہورہی تھی۔ پرندوں کے لوٹنے کا وقت قریب آرہا تھا۔ معلوم نہیں، سردار کے دل میں چڑیوں کے جوڑے کی پریشانی کا درد تھا یا اپنی روح کو تسکین دینے کا جذبہ، اس نے ایک نظر سہمے ہوئے چڑیا کے بچے کی طرف دیکھا اور پھر ایک جوان کو حکم دیا کہ وہ پیڑ پر چڑھ کر چڑیا کا بچہ گھونسلے میں پہنچا دے۔

    جیسے ہی اس کا آدمی چڑیا کے بچے کو پیڑ پر رکھ کر نیچے اترا، اسی دَم چڑیوں کا جوڑا لوٹ آیا، بچے نے چہچہاتے ہوئے ان کا استقبال کیا تو سردار کو بڑی خوشی ہوئی۔

    اسی لمحے اغوا کیا ہوا بچہ جو اب تک چڑیا کے بچے کو دیکھ کر بہلا ہوا تھا، زور زور سے چلّانے لگا۔

    سردار نے گھونسلے سے نظریں ہٹا کر اس بچے کی طرف دیکھا جو زمین پر لوٹ لوٹ کر ہلکان ہو رہا تھا۔

    اس کے دل میں ابھی جو نرمی چڑیا کے بچے کے لیے پیدا ہوئی تھی، کچھ اور زور پکڑ گئی، اس کا پتّھر جیسا دل کچھ اور پگھلا اور اس نے اپنے جوانوں کو مہم پر روانگی کا حکم دینے کے لیے اپنی مخصوص تالی بجائی۔

    دیکھتے ہی دیکھتے دس گُھڑ سوار پوری طرح لیس گھوڑوں کی لگامیں تھامے اس کے سامنے حاضر ہوگئے، وہ سارے کے سارے تھوڑی دیر پہلے چڑیا کے بچے کو گھونسلے میں پہنچانے کا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے، اس لیے انھوں نے سوچا کہ سردار کا دل پسیج گیا ہے اور وہ یہ بچہ بھی ماں باپ کے پاس واپس چھوڑ آنے کا حکم دینے والا ہے۔

    ایک اعتبار سے ان کا اندازہ ٹھیک ہی تھا، سردار کا دل واقعی نرم ہو رہا تھا اور اس کے چہرے پر بھی کسی سختی کے آثار نہیں تھے، ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ دونوں بازو پیچھے کی طرف باندھے تیز تیز قدموں سے ٹہل رہا تھا جیسے کوئی اہم فیصلہ کرنے والا ہو۔

    پھر ایک دَم کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ کر وہ اپنے جوانوں کی طرف مڑا اور کہنے لگا:

    مجھے اس بچے پر بڑا ترس آرہا ہے، میں نے بچے کو ماں سے جدا کرکے اچھا نہیں کیا، اس لیے فوراً جاﺅ اور اس کی ماں کو بھی اغوا کرکے لے آﺅ تاکہ ماں اور بچہ دونوں ایک ساتھ رہ سکیں اور سیٹھ کو یہ بتا دینا کہ اب معاوضے کی رقم ایک لاکھ کے بہ جائے سوا لاکھ ہوگی۔ دو جانوں کا معاوضہ کچھ تو زیادہ ہونا چاہیے۔

    یہ حکم دے کر سردار بہت خوش تھا کہ آج اس نے دو نیک کام کیے۔

    یہ کہانی "درد مند” کے عنوان سے مختلف ادبی رسائل میں شایع ہوچکی ہے

  • "کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں”

    "کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں”

    ایک راستہ ہے، اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں، ایک آدمی بے احتیاطی سے اس راستے میں گھس جاتا ہے۔ اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں، کپڑا پھٹ جاتا ہے، اپنی منزل پر پہنچنے میں اسے تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔

    اب وہ آدمی کیا کرے گا، کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کرے گا؟

    کانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شایع کرے گا؟

    وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے گا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹوں کا وجود ختم کر دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی مسافر اس مسئلے سے دو چار نہ ہو!

    کوئی سنجیدہ اور باہوش انسان کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس وہ صرف یہ کرے گا کہ اپنی نادانی کا احساس کرے گا۔

    وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو الله تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں، تو تم نے کیوں نہ ایسا کیا کہ کانٹوں سے بچ کر چلتے، تم اپنا دامن سمیٹ کر کانٹوں والے راستے سے نکل جاتے۔ اس طرح تمہارا جسم بھی محفوظ رہتا اور تم کو منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی۔

    الله تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی تاکہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس آیت کو کبھی کسی نے نہیں پڑھا، خدا کے اس پیغام کو سن کر کسی نے اس سے سبق نہیں لیا۔

    آج کی دنیا میں آپ کو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور جب کانٹے ان کے جسم کے ساتھ لگ کر انھیں تکلیف پہنچاتے ہیں تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر کانٹوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔

    وہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جس طرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں، اسی طرح سماجی دنیا سے کانٹے دار انسان بھی ختم نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

    اس دنیا میں محفوظ اور کام یاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں!

    (معروف اسکالر مولانا وحید الدین کی فکر)

  • "تیسری دفعہ کا ذکر ہے”

    "تیسری دفعہ کا ذکر ہے”

    تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کے تیسرے کنارے پر ایک جنگل تھا۔

    اس جنگل میں ظاہر ہے کہ جنگل ہی کا قانون نافذ تھا۔ جو جانور نہ تین میں ہوتا نہ تیرہ میں اس جنگل میں گلچھرے اڑاتا۔ دوسرے جنگلوں کی طرح اس جنگل میں بھی ایک بادشاہ موجود تھا۔ جو بھی اس کے سامنے تین پانچ کرتا، یہ بادشاہ اس کا تیا پانچا کر دیتا۔

    ہر طرف زاغ و زغن منڈلاتے پھرتے تھے۔ ہر شاخ پر بوم و شپر کا آشیاں تھا۔ تمام جانور اپنی اپنی دھن میں مگن مستقبل سے بے خبر سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کررہے تھے۔ سب سے زیادہ مست توتے تھے جو جی بھر کر چُوری کھاتے اور ٹیں ٹیں کر کے اس درندے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے، دوسرے طیور آوارہ، حشرات اور جانوروں کو سبز باغ دکھاتے اور بہتی گنگا میں چونچ دھو کر خوشی سے پروں میں پھولے نہ سماتے۔

    وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک رات موسلادھار بارش ہوئی۔ آسمانی بجلی گرنے سے شیر کا غار جل گیا۔ یہ خون آشام درندہ مرنے سے تو بچ گیا، مگر آگ سے بچ نکلنے کی کوشش میں اس کی چاروں ٹانگیں بری طرح جھلس گئیں اور وہ مکمل طور پر اپاہج ہو کر رہ گیا۔ اب وہ چلنے سے معذور تھا۔ اس عذاب میں بھی وہ اپنی عیاری، شقاوت اور لذت ایذا سے باز نہ آیا، اس نے کچھ ایسے گماشتے تلاش کر لیے جس اس کے لیے راتب بھاڑا فراہم کرتے، اس کے بدلے کچھ بچا کھچا مال انھیں بھی مل جاتا جس سے وہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیتے، لیکن اندر ہی اندر انھیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ انھیں شیر کا بچا کھچا گوشت، اوجھڑی، ہڈیاں، پسلیاں، گردن اور سری پائے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

    ان گماشتوں میں بجو، لومڑی اور بھیڑیا شامل تھے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگل میں نافذ جنگل کے قانون کے خلاف جو بھی صدائے احتجاج بلند کرتا اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جاتی تھی۔

    سیانے کہتے ہیں کبھی کبھی کوڑے کے ڈھیر کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے۔ بجو، لومڑی اور بھیڑیا ایک شام شیر کے پاس گئے اور احتجاج پیش کیا۔ بجو نے اپنی مکروہ آواز میں کہا۔

    ’’مجھے قبروں سے تازہ دفن ہونے والے مردوں کا گوشت بہت پسند ہے، مگر کیا کروں آج کل جو بھی مردے دفن کیے جاتے ہیں وہ محض ڈھانچے ہوتے ہیں۔ ان کے جسم سے تمام گوشت تو دنیا والے پہلے ہی نوچ لیتے ہیں۔ یہ مظلوم زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ میں تو اس آس پر فربہ جانوروں کو بہلا پھسلا کر یہاں لاتا ہوں کہ مجھے کچھ چربیلا گوشت ملے گا، مگر یہاں بھی سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا، یہ ہمارا استحصال ہے۔ اپنے جائز حقوق کی بحالی تک ہم مزید شکار نہیں لا سکتے۔ تمام جانور ہماری فریب کاری، غداری اور ضمیر فروشی کی وجہ سے ہم سے بیزار ہیں۔ ہماری غداری کا مناسب صلہ ملنا چاہیے۔‘‘

    بھیڑیا جو اپنی لاف زنی کے لیے مشہور تھا، اس نے بجو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’میں علی الصبح ایک ننھا بھیڑیا آپ کے پاس ورغلا کر لاتا جس کا آپ خون پی جاتے اور تمام گوشت ہڑپ کر جاتے۔ میں نے اب تک ساٹھ بھیڑیے آپ کے ناشتے کے لیے پیش کیے، مگر کبھی مجھے نرم گوشت آپ نے نہیں دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کا غدار ضرور ہوں، مگر احمق نہیں۔ مناسب معاوضے کے بغیر میں اب مزید اپنے ساتھی پکڑ کر آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘

    وقت کی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر جاندار کو کبھی نہ کبھی بے بسی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ جنگل کے بادشاہ شیر پر بھی ایسا ہی کٹھن وقت آ گیا تھا۔ درندوں کی زندگی میں جب سخت مقام آتے ہیں تو وہ حکمتِ عملی کے تحت شتر گربہ کی پالیسی اپناتے ہیں اور نرم رویہ اپنا کر نہ صرف اپنا الو سیدھا کرتے ہیں بلکہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گدھے کو بھی اپنا باپ کہنے میں تامل نہیں کرتے۔ شیر نے بڑی خند ہ پیشانی سے یہ سب باتیں خاموشی سے سنیں اور آنکھیں بند کر لیں۔ اب اس نے لومڑی سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بھی اپنا موقف بیان کرے۔لومڑی نے اپنی قبیح عادت کے مطابق چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے جنگل کے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔

    ’’انسانوں کو اپنے ابنائے جنس سے غداری کرنے پر ہر دور میں بھاری انعام ملتے رہے ہیں۔ ہماری ضمیر فروشی کا مناسب معاوضہ ہمیں آج تک کبھی نہیں مل سکا۔ اب ہم مزید یہ شقاوت آمیز ناانصافی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم شکار میں سے اپنا مساوی حصہ لیے بغیر اب کبھی جانوروں کے بے گنا ہ قتلِ عام میں شریکِ جرم نہیں رہ سکتے۔‘‘

    شیر یہ سب باتیں سن کر دہاڑا۔ ’’مجھے تمھارے تمام خیالات سے اتفاق ہے۔ آئندہ تم جو بھی شکار لاؤ گے اس کے چار برابر حصے کیے جائیں گے۔ اب جلدی جاؤ اور ایک نرم و نازک ہرن کو گھیر کر لاؤ ظل تباہی آج کا ناشتہ ہرن کے گوشت سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

    جنگل کے بادشاہ کا فیصلہ سن کر تینوں جانوروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور ان کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک پیدا ہو گئی۔ وہ اسی وقت ایک جھیل پر پہنچے، ایک کم سن ہرن پانی پی رہا تھا۔ لومڑی نے اس سے کہا،

    ’’اے میرے چاند ادھر میرے ساتھ آ، میں تمھیں آج جنگل کے بادشاہ کی زیارت کے لیے لے جاؤں گی۔‘‘

    ’’نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ چھوٹا ہرن بولا۔’’تم نے وہ مثل نہیں سنی کہ ’’اس ہرنی کی خیر نہیں جو شیر کی جانب جائے گی۔‘‘

    بجو بولا۔ ’’ہرن چاند تم کس قدر خوب صورت ہو؟ میرا دل چاہتا ہے کہ تم ہی ہمارے بادشاہ بن جاؤ۔‘‘

    ’’ واہ کیا اچھی بات کہی ہے۔‘‘ بھیڑیا بولا۔

    ’’اگر ہرن جنگل کا بادشاہ بن جائے تو انقلاب آ جائے گا۔ ہرن راج آج وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح جنگل کے جانور تیزی سے آگے بڑھ سکیں گے۔‘‘

    ’’میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں؟‘‘ہرن نے فرطَ اشتیاق سے کہا۔ ’’اس وقت جنگل کا بادشاہ تو شیر ہے۔ اسے کون ہٹائے گا؟‘‘

    لومڑی نے برف پگھلتی دیکھی تو بولی۔ ’’جنگل کا بادشاہ شیر اس وقت قریب المرگ ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا جانشیں تمھیں بنا دے، اس نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ آج ہی تمھاری تاج پوشی کر دی جائے گی۔ اس کے بعد جنگل میں ہرن راج کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘

    ہرن اسی وقت آمادہ ہو گیا اور لومڑی، بجو اور بھیڑیے کے ہمراہ لولے لنگڑے جنگل کے بادشاہ کے غار میں داخل ہو گیا۔ لومڑی، بھیڑیے اور بجو نے شیر کو ہرن کے ساتھ طے پانے والی تمام شرائط سے آگاہ کر دیا۔

    شیر نے کہا۔ ’’میرا جانشین ہرن ہی ہو گا، ہرن مینار کے بعد اب ہرن کی لاٹھ تعمیر ہو گی، ہر طرف ہرن کے نعرے بلند ہوں گے۔ آؤ میرے عزیز ہرن، میں تمھاری تاج پوشی کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کروں۔آؤ جنگل کے مستقبل کے حکمران میں اپنی بادشاہت تمھیں منتقل کروں۔‘‘

    یہ سنتے ہی ہرن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شیر کی آغوش میں جا بیٹھا۔ پلک جھپکتے میں شیر کے دانت ہرن کی شہ رگ میں پیوست ہو گئے۔ ہرن کی شہ رگ کا خون پینے کے بعد شیر نے ہرن کی کھال اپنے نوکیلے پنجوں سے ادھیڑ دی۔ اور تمام گوشت کے چار برابر حصے کر دیے۔ لومڑی، بجو اور بھڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انھیں یقین تھا کہ آج شیر اپنا وعدہ وفا کرے گا۔ وہ سب دل ہی دل میں متاسف تھے کہ اب تک ناحق شیر کی نیت پر شک کرتے تھے۔

    اچانک شیر زور سے دہاڑا۔ شیر کی آواز سن کر سارا جنگل گونج اٹھا۔ شیر نے کہا۔

    ’’میں نے حسبِ وعدہ شکار کے چار حصے کر دیے ہیں۔‘‘

    لومڑی بولی، ’’ اب ہمارے حصے ہمیں دیں۔ کل سے کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ اس کم بخت ہرن کو بڑی مشکل سے فریب دے کر یہاں لائے ہیں۔‘‘

    ’’چار حصے تو میں نے کر دیے۔‘‘ شیر نے گرج کر کہا۔

    ’’اب تقسیم اس طرح سے ہو گی کہ پہلا حصہ میں لوں گا کیوں کہ میں علیل ہوں اور مجھے غذا کی ضرورت ہے۔دوسرا حصہ بھی میرا ہے کیوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، تیسرا حصہ مجھے جنگل کے قانون کی شق آٹھ کے تحت ملے گا، جسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اور رہ گیا آخری اور چوتھا حصہ وہ یہ میری ناک کے نیچے پڑا ہے جس کو ضرورت ہے وہ آگے آئے اور اسے اٹھا کر لے جائے۔‘‘

    یہ سن کر لومڑی، بجو اور بھیڑیا وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدے کے سر سے سینگ۔

    انتخاب از حکایات اور کہانیاں

  • "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    بھاڑ میں جاؤ تم اور تمھاری ترقی۔ جب دیکھو ترقی، ترقی اور ترقی۔ کوئی اور بات ہی نہیں کرتا۔

    تو میں کیا غلط کہہ رہا ہوں، دیکھ نہیں رہا، اندھا ہوگیا ہے کتنی آسانی ہوگئی ہے۔ ہر میدان میں نت نئی ایجادات، اتنے بڑے بڑے فلائی اوورز، سڑکیں اور ان پر بھاگتی دوڑتی رنگ برنگی گاڑیاں۔

    رابطے کی تو دنیا ہی بدل گئی، اب آپ کہیں بھی نہیں چھپ سکتے۔ ایک چھوٹے سے آلے نے کتنی آسان کردی زندگی۔ دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ چھوٹے سے آئی پوڈ نے موسیقی کی دنیا بدل دی، ایک چھوٹے سے ڈبے نے خبروں کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ای کامرس نے جدید معیشت کی بنیاد ڈال دی۔۔۔۔۔

    کتنے پرسکون اور تاب ناک ہوگئے ہیں ہمارے چہرے۔ ایک چھوٹے سے پلاسٹک کارڈ سے تم دنیا کی ہر شے خرید سکتے ہو۔ پیسے ہوں نہ ہوں کریڈٹ کارڈ ہو تو جو چاہو خریدو، پیسے بعد میں دو۔ ہر طرف معلومات کا سمندر، بڑے بڑے بورڈ۔ اور ان پر عوام کی آگہی کے لیے درج کردیا گیا، یہ دودھ اچھا ہے، یہ کپڑا اچھا ہے، یہ رنگ خوب صورت ہے، یہ برش عمدہ ہے۔ مقابلے کی کتنی پُرکشش دنیا تخلیق ہوگئی ہے۔ اور دیکھ میں تجھے بتاتا ہوں کہ۔۔۔۔۔

    بند کر اپنی بکواس، بہت سن لی میں نے۔ جا کسی اور کو یہ رام کتھا سنا۔ تیری ترقی تجھے مبارک۔ جا چاٹ جاکر اسے، مجھے تو ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی نظر آتی ہے۔ یہ سحر انگیز گفت گو بھی ایک فریب ہے۔ بڑا آیا مجھے سمجھانے۔ جا اپنا رستہ لے۔

    لیکن تجھے ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ تیرے کہنے سے تھوڑی اندھیرا ہوگا، بربادی ہوگی۔ اور سن آج کل تو طب کی دنیا میں بھی ترقی ہوگئی ہے۔ جدید طبی آلات اور دوائیں انسانی زندگی کو طول دینے، پُرلطف بنانے کی جستجو میں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ کسی اچھے ماہر نفسیات سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس میں بھی بہت ترقی ہوگئی ہے۔ تُو جلد صحت یاب ہوجائے گا اور پھر تُو بھی کہے گا ترقی ہوگئی۔

    تُو باز نہیں آئے گا نا۔ اگر یہ بیماری ہے تو مجھے بہت پیاری ہے۔ جاں سے زیادہ عزیز ہے یہ مجھے۔ چل اب یہاں سے۔

    تُو میری بات کیوں نہیں سمجھتا۔ یہ تو اور زیادہ خطرناک بات ہے کہ تو اسے بیماری بھی نہیں سمجھتا۔ قنوطی انسان۔ پاگل ہوگیا ہے تو اسی لیے تو ہلکان رہتا ہے، اداس رہتا ہے۔ میری مان آ چل میرے ساتھ تجھے لے چلوں کسی ماہر کے پاس۔

    اچھا۔ اب تو ایسے باز نہیں آئے گا۔ بیمار میں نہیں تو ہے ذہنی بیمار۔ تو اسے ترقی کہتا ہے۔ اتنی دیر سے سن رہا ہوں تیری بکواس، یہ بتا یہ ساری ترقی جسے تُو اور تیرے جیسے کوڑھ مغز ترقی کہتے ہیں، کس کے لیے ہے؟ انسان کے لیے نا۔ میں مانتا ہوں ترقی ہوگئی، لیکن انسان تو دکھوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اتنی بڑی بھیڑ میں، ہجوم میں تنہا ہوگیا ہے۔ یہ ساری ترقی مٹھی بھر انسانوں کے شاطر ذہن کی پیداوار ہے، چند مٹھی بھر سرمایہ داروں نے دنیا کے ہر انسان کو جو آزاد پیدا ہوا تھا غلام بنالیا ہے۔۔۔۔۔

    ذہنی غلام، جسمانی غلام، ایسا سحر ہے اس کا کہ انسان غلامی کو غلامی ہی نہیں سمجھتا۔ اسے آزادی کا نام دے کر اترانے لگا ہے۔ بڑی بڑی کاریں، سڑکیں، آسائشیں انسان کو تن آسان بنا رہی ہیں اور تن آسانی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ اسے بے حس خود غرض، مفاد پرست بناتی ہے۔ اشتہار کی دنیا انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ ہو۔ ضرور خریدی جائے۔ یہ لے لو، وہ لے لو۔ اگر پیسے نہیں تو کریڈٹ کارڈ ہے۔ اس کے ذریعے خرید لو۔ اور پھر غلام بنے رہو۔ ان مٹھی بھر لوگوں نے انسان کو تباہ و برباد کردیا۔ لالچی بنا دیا۔ اسے ناامید کردیا۔ خوف زدہ کر دیا، انسان، انسان نہیں رہا پیسا کمانے اور خرچ کرنے کی مشین بن گیا۔۔۔۔۔

    یہ ایک مایا جال ہے جو سرمایہ داروں کے وحشی گروہ نے بُنا ہے، اسے پُرکشش بنایا ہے تاکہ دنیا کے معصوم اور آزاد انسان اس جال میں پھنس جائیں اور کوئی یہ سوچنے بھی نہ پائے کہ چند سرمایہ داروں نے دنیا بھر کے انسانوں کو غلام بنالیا ہے، بس ان کا کام چلتا رہے۔۔۔۔۔۔

    اصل ترقی انسان کو بامِ عروج تک پہنچاتی ہے۔ اسے زنجیروں سے آزاد کرتی ہے، لیکن یہ ترقی کے نام پر دھوکا ہے۔ اب کوئی سوچتا ہی نہیں کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے؟ اسے کیا کرنا ہے؟ اس مصنوعی ترقی نے انسان کو تنہائی، اداسی، کرب، دکھوں کے جہنم میں دھکیل دیا، یہ سب آسائشیں ہوتے ہوئے بھی سب ناآسودہ ہیں، سب دُکھی ہیں۔ مصنوعی خوشی خوشی نہیں ہوتی۔ خوشی انسان کے اندر سے پھولتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

    آزاد انسان حقیقی خوشی حاصل کرتا ہے، غلام نہیں۔ ہاں میں اس دن مان لوں گا جب انسان یہ سوچنے لگے گا کہ خود کو اس ہشت پا بلا سے کیسے چھڑایا جائے اور پھر وہ دن ہوگا سب سے عالی شان، جب دنیا کے وسائل پر قابض مٹھی بھر لوگوں سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے گا جس پر دنیا بھر کے انسانوں کا حق ہے۔ ہاں پھر میں مان لوں گا ترقی ہوگئی، انسان نے خود کو پہچان لیا۔

    اچھا، اچھا بس کر، بہت ہوگیا تیرا بھاشن۔ نہ جانے کیسے کیسے قنوطی بستے ہیں اس دنیا میں، جو ترقی کو غلامی کہتے ہیں، مایا جال کہتے ہیں۔

    میں وہاں سے نکلنے لگا تو وہ بولا، ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ ہزار فتنے بھی تو لائی ہے اس پر کب بات کرے گا؟

    مصنف عبداللطیف ابُوشامل نے اپنی اس کہانی کو "سراب” کا نام دیا ہے، جو ہماری ترقی اور مشینی دور کی آسانیوں‌ سے جھلکتی بدصورتی کو بے نقاب کرتی ہے
  • قوّت

    قوّت

    مصنف: سجاد حیدر یلدرم

    گلی کے کنارے اس مجمع کو اکثر دیکھا کرتا تھا۔ مزدوروں کے، قلیوں کے، لڑکوں کے غول کے غول دوپہر کو وہاں کھیلتے ہوتے تھے، آپس میں الجھتے تھے، چیختے تھے، چلاتے تھے۔

    ایک دن میں اس راستے سے گزر رہا تھا۔ لڑکوں کا مجمع تو تھا مگر کھیل نہ تھا بلکہ لڑکے حلقہ باندھے کسی چیز کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مزے دار تماشا انہیں بہت لطف دے رہا تھا۔

    سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ میں نے دیکھا کہ جسے وہ اس ذوق و شوق سے دیکھ رہے تھے، وہ ایسا تماشا تھا جو غالباً ان کی تفریحِ طبع کے لیے روز ہوتا ہو گا۔

    ایک لڑکا جو سن میں سب سے زیادہ معلوم ہوتا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قریب قریب جوان ہو چکا تھا، متکبرانہ بیچ میں کھڑا تھا اور ایک چھوٹا لڑکا اس سے دست و گریبان ہو رہا تھا۔ بڑا لڑکا اس کو ہٹا رہا تھا اور غلیظ گالیاں دے دے کر اپنے سے علیحدہ کر رہا تھا۔

    چھوٹا لڑکا گھونسے کھا رہا ہے، بڑے لڑکے کے ہر جھٹکے پر زمین پر گر پڑتا ہے، ہر گھونسے اور ہر تھپڑ پر ہائے کی آواز اس کی جگر گاہ سے نکلتی ہے، مگر گر کے اٹھتا ہے، روتا جاتا ہے، رونے سے اور زمین پر گرنے سے اس کے بال، اس کا چہرہ خاک آلود ہو رہے ہیں، لیکن وہ پھر بڑے لڑکے سے غصے میں چمٹ جاتا ہے۔ ہچکیاں بندھ رہی ہیں، مگر کہے جاتا ہے۔

    میری ہے۔۔۔۔ لاؤ۔ یہ کہہ کر ایک قمچی کو بڑے لڑکے سے چھیننا چاہتا ہے۔

    ہر طلبِ حق کے مقابلے میں اسے ایک گھونسا، ایک لات ملتی ہے جسے کھا کر وہ لڑکھڑا کے پیچھے ہٹتا ہے، مگر پھر آگے آتا ہے۔ رونے اور چیخنے کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئی ہے۔ اس کا عجز و ضعف بڑھتا جا رہا ہے، لیکن اپنی قمچی اس سے واپس لینے کی کوشش کیے جا رہا ہے۔

    آخر کار اس پر ایسا لپّڑ پڑا جس سے وہ بھنّا گیا اور چکر کھا کر زمین پر گر پڑا۔ اب اس میں اٹھنے کی قوت بھی نہ رہی تھی، کم زوری سے زمین پر پڑا رو رہا تھا اور بڑے لڑکے کو گالیاں دے رہا تھا۔ اور وہ جبرو قہر سے حاصل کی ہوئی قمچی کو متفخرانہ انداز سے ہلا ہلا کے اس چھوٹی سی مخلوق کی جو حلقہ باندھے کھڑی تھی (اور جو قوت کے مقابلے میں عاجز کو ہیچ جانتی تھی) قہقہوں، تالیوں میں جھومتا ہوا چلا گیا۔

    عین اس وقت اس منظر کے اوپر سے ایک کوّا جس نے ایک آشیانِ شفقت میں گھس کر ابھی ابھی انڈوں کو پھوڑا تھا، اور انہیں کھا کر شکم سیر ہوا تھا، مصنوعی فرار کے انداز سے گزر رہا تھا، اور فیضِ مادرانہ میں بھری ہوئی ایک مینا، سادہ لوحی سے ٹھونگیں مارنے کی کوشش کر کے قوّت اور حیلے کو اپنے زعم میں مجروح کر رہی تھی۔

  • سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    غفور علی مول تلا میں گوہر علی کے نام سے مشہور تھا۔ ایک دن نہ جانے اسے کیا ہوا کہ کُدال لے کر سڑک کو دیوانہ وار توڑنے پھوڑنے لگا۔

    دیکھنے میں تو اس کا یہ فعل بڑا ہی مجنونانہ تھا، لیکن درحقیقت یہ کوئی اضطراری فعل نہ تھا۔ اس کے پیچھے حالات کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ تھا۔ ورنہ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سڑک گاؤں کے سب سے لوگوں نے مل جل کر بنائی تھی اور جس کے لیے خود گوہر علی نے اپنی زمین کا بہت سا حصہ دیا تھا، وہ اسی کو دیوانہ وار تباہ کرنے کی کوشش کرے۔

    مول تلا ان چھوٹے چھوٹے دیہات میں سے تھا جن کا جنگ سے پہلے باہر کی دنیا سے بہت کم میل جول تھا۔ اور لوگ وہی پرانے زمانے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کم ازکم سڑک بننے سے پہلے اس کی وضع اور ماحول میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ان کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور تھا تو بالکل برائے نام۔

    وہ ایک خاص وضع کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں ان کی اپنی ہی رسموں اور ریتوں کو دخل ہوتا تھا۔

    ایک مرتبہ اس گاؤں کا نوجوان اس زندگی سے دامن چھڑا کر باہر نکل گیا۔ جب وہ واپس آیا تو وہ اپنے ساتھ روپیہ پیسہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا تصور اور بلند تر معیار زندگی بھی لے کر آیا۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ مول تلا کی ندیوں اور نہروں سے پرے، ایک جگہ ہے جسے ”شہر“ کہتے ہیں۔ زندگی کے بہتر پہلو سے روشناس ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شہروں اور بندرگاہوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا جائے۔ یہ مسئلہ فی الفور ایک سڑک تعمیر کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔

    اسی دن سے جناب علی حوالدار نے عہد کیا کہ اپنی ساری قوت اور ذرائع گاؤں کی ترقی پر صرف کرے گا۔ اس نے ڈسٹرکٹ بورڈ کو بھی سڑک بنانے پر آمادہ کرلیا ۔ گاؤں کے دوسرے مرفہ الحال لوگوں نے بھی بڑی سرگرمی سے سدھار کا بیڑا اُٹھایا جو ان کے خیال میں ضرور سماجی ترقی کا باعث ہوگا۔

    اس سلسلے میں زیادہ مشکل گوہر علی جیسے غریب کسانوں کے سبب پیدا ہوئی۔ جن کی زرعی زمینوں کا حصہ سڑک کی بھینٹ چڑھتا تھا۔ لیکن سڑک کے بارے میں دل میں عجیب و غریب تصورات کا ایک طلسم پیدا ہو گیا۔ اس نے سوچا وہ کب تک اس زمین کی معمولی سی پیداوار کو دانہ دانہ کرکے چُنتا رہے گا۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ وہ نئی زندگی کا خیر مقدم کرے۔ گھر واپس جاکر اس نے اپنی بیوی کو بھی اس زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔

    آخر کار سڑک تعمیر ہوگئی۔ لوگوں نے شہر آنا جانا شروع کردیا۔ جب سڑک کا پہلا پہلا طلسمی اثر دور ہوگیا تو لوگ سڑک کے کنارے اپنے ڈھور ڈنگر باندھنے لگے۔ اس کے کنارے بیٹھ کر حقہ پیتے اور گپیں ہانکتے۔ ادھر بعض نوجوان گاؤں کو چھوڑ کر دھن دولت کی تلاش میں شہر کو روانہ ہوجاتے۔

    ایک دن گوہر علی نے سج دھج کر تین دن کے لیے شہر میں رہنے کو چل پڑا۔ واقعی شہر کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی گئی تھیں۔ وہ بالکل صحیح تھیں۔ اس میں ایسے لوگ بستے تھے جن کی زندگیاں خوشی اور خوش نصیبی سے بھرپور تھیں، لیکن اس کے باوجود دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔

    ان لوگوں کو سمجھنا، ان کے دل کی تہ تک پہنچنا دشوار تھا۔ انھیں اس جیسے غریبوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اور کوئی اس سے ایک دو منٹ بھی بات کرنے کو تیار نہ تھا۔

    گوہر علی نے پوری شدت سے یہ محسوس کیا کہ شہروں میں ہر بات پیسے کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔ تیسرے دن وہ شہر کے خلاف بڑی نفرت اور غصے سے بھرا ہوا دل لے کر گاؤں واپس چلا آیا۔

    وہ خیالات میں کھویا رہا۔ آخر فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کی بنیاد دولت ہی پر رکھے۔ چنانچہ اس نے ایک کام شروع کردیا۔ ایک دن ہاجرہ کو کہنا ہی پڑا، ”اے میاں! جس طرح تم نے بے تحاشا چیزیں بیچنی شروع کردی ہیں کچھ عجب نہیں کہ ایک دن میں بھی بکاؤ مال میں شامل ہو جاؤں۔“

    گوہر علی اب دونوں ہاتھوں سے دھن کما رہا تھا۔ تین سال میں اس کی کٹیا پر ٹین کی چھت پڑ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سڑک پر دیوانی اور فوجداری عدالتوں کی طرف آمد و رفت بھی شروع ہوگئی۔ دیہاتیوں کی سیدھی سادی زندگی میں سازش اور مکاری بھی شامل ہوگئی۔

    سڑک کے دونوں طرف کتنے ہی گلی کوچے بن گئے جن میں خدا جانے کتنے ہیر پھیر تھے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن کسی شخص کی چند گائیں چرتی چرتی کسی اور کے کھیت میں جا نکلیں۔ جس پر جھگڑا ہوگیا اور ایک آدمی مارا گیا۔

    جب تک جناب علی کو اس کی خبر ہو اور وہ موقع واردات پر پہنچے۔ سڑک کا کافی حصہ بھی نابود ہوچکا تھا کیوں کہ لڑنے والوں نے اس کے اکھڑے اکھڑے پتھر اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کی۔

    جناب علی نے سب کو بلایا اور کہا ”کیا ہم نے سڑک اسی لیے بنائی تھی؟ ارے گنوار وحشیو!“ لیکن اس کے الفاظ کا لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ وہ سب تو تھانے، عدالت اور مقدمے کی فکر میں تھے۔

    اسی اثنا میں جنگ چھڑ گئی۔ گاؤں کی تاریخ میں یہ ایک نادر واقعہ تھا۔ جو کچھ گزشتہ کئی صدیاں نہیں کرسکی تھیں، وہ انگریزوں کی دو سو سال کی حکومت نے کر دکھایا۔

    اناج کا بھاؤ تیزی سے چڑھنے لگا۔ زندگی کے سوا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے سڑک کے راستے قحط بھی آن پہنچا اور چور بازاری اور اس قسم کے اور وتیرے بھی ریلے مار مار کر آنے لگے۔ ان کی امڈتی ہوئی موجیں اپنے ساتھ امن کو بہا لے گئیں۔

    ساتھ ہی سرکاری حکام سڑک کے راستے گاؤں میں آنے لگے۔ یہ لوگ اپنی جیبیں رشوتوں سے بھر بھر کر واپس جاتے۔ شہر کے ایک بڑے رئیس کا باورچی لطفو ایک شخص اصغر اللہ کی جوان بیٹی کلثوم کو لے بھاگا۔

    فوجیوں کی رسد کے لیے ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ سبزیاں، ترکاریاں، لکڑی، کاٹھ اور مرغیاں وغیرہ لینے آتے۔ گوہر علی کی ان میں سے ایک کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ قحط کا زمانہ تھا۔ گوہر علی بڑی مشکل میں تھا۔ اس نے سوچا کہ اپنے نئے دوست کے اثر و رسوخ سے آمدنی بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کرے۔ لیکن اس کی کوششوں کے باوجود کچھ بھی بن نہ پڑا۔ صرف ایک صبح ہاجرہ گھر سے کہیں غائب ہوگئی۔ وہ دوست اس کے بعد کبھی دکھائی نہ دیا۔

    پوچھ گچھ کرنے پر سات میل دور ایک کسان سے پتا چلا کہ اس نے ایک دن صبح سویرے ایک عورت کو کسی مرد کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

    قحط نے گوہر علی کو ظاہری حیثیت سے پہلے ہی قلاش کردیا تھا۔ اب وہ روحانی طور پر بھی قلاش ہوگیا۔ ایک دن گاؤں میں خبر مشہور ہوگئی کہ گوہر علی اپنی بیوی کے چلے جانے پر دیوانہ ہوگیا۔ سب لوگ اسے دیکھنے کے لیے دوڑ دوڑ کر آنے لگے۔

    گوہر علی سڑک پر اندھا دھند کدال پر کدال برسا رہا تھا۔ سب پوچھنے لگے یہ کیا کر رہا ہے؟“ اس نے کدال روکے اور آنکھیں اٹھائے بغیر جواب دیا۔

    ”اس سڑک کا صفایا کر رہا ہوں۔“

    ”وہ کیوں؟“

    اس لیے کہ اس سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی۔ اسے ہرگز نہیں بننا چاہیے تھا۔“

    گوہر علی نے کدال سے تابڑ توڑ چوٹیں برساتے ہوئے یہ الفاظ کچھ اس طرح کہے گویا وہ اپنے دل سے کوئی بات کررہا ہو۔

    (ابوالکلام شمس الدین کے بنگالی زبان کے افسانے کا ترجمہ)

  • نیچی جگہ کا پانی…

    نیچی جگہ کا پانی…

    تھوڑی سی بارش ہوتی اور پانی پھسلتا ہوا نشیب میں جمع ہوجاتا۔ مکھیاں اور مچھر گندگی پھیلاتے۔

     

    ”ایمرجنسی راج میں ہم سے فیصلوں میں تو کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بڑے عہدوں پر تعینات افسروں نے اچھے فیصلے لاگو کرنے میں شاید ہی غلطیاں کی ہوں۔“ ایمرجنسی کی وجہ سے ٹوٹ جانے والی حکومت کے ایک اہم عہدے دار کا خیال تھا۔

     

    ”چوکی دار ذمے دار ہے، گھونٹ لگا کے کہیں پڑ گیا ہوگا۔ پیچھے سے سارا گودام خالی ہوگیا۔“

     

    سرکاری گودام سے چینی چوری ہو جانے پر حفاظتی افسر کا بیان تھا۔

     

    ”متعلقہ فائل گم ہوگئی ہے تو متعلقہ کلرک سے پوچھو، اسی کی بے پروائی سے گم ہوئی ہے۔“ محکمے کا سربراہ کہہ رہا تھا۔

     

    لاکھوں روپے کا گھپلا پکڑے جانے کے بعد متعلقہ فائل گم ہوگئی تھی۔

     

    ”مقامی مل میں ملاوٹ! ہوسکتا ہے، رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کسی مزدور سے کوتاہی ہوگئی ہو اور مل کے باہر پڑے ہوئے کنکر پتھر اور مٹی مسالے میں مل گئی ہو۔ لکھو کے بچے کو ضرور سزا ملنی چاہیے، اسی کی غفلت سے یہ گڑبڑ ہوئی۔“ مل مالک پولیس سے کہہ رہا تھا۔

     

    مالی ذمے دار ہے، چپراسی ذمے دار ہے، بھنگی ذمے دار ہے، مزدور ذمے دار ہے۔

     

    بارش ہو رہی ہے۔ نیچے گندے تالاب میں اب اور پانی جمع نہیں ہوسکتا۔

     

    پانی کا دریا منہ زور ہو رہا ہے، کنارے کھڑی ہوئی مضبوط عمارتیں ریت کے گھروندوں کی طرح ڈھے رہی ہیں۔

     

    (ہم درد ویر نوشہروی کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ حکم راں یا صاحبانِ اختیار جب اپنے فرائض‌ اور ذمہ داریاں‌ ادا نہیں‌ کرتے اور مسائل اور مشکلات پر ماتحتوں‌ کو مطعون کرکے عوام کو دھوکا دیتے ہیں‌ تو بھول جاتے ہیں‌ کہ یہ بگاڑ‌ اور خرابیاں‌ ایک روز ان کے گھروں‌ کی بنیادیں‌ بھی ہلا سکتی ہیں)