Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • سمندر کنارے دو بوڑھوں‌ کی بھیگی ہوئی یادیں

    سمندر کنارے دو بوڑھوں‌ کی بھیگی ہوئی یادیں

    سرما کی شام تھی۔ بندرگاہ پہلوی کے کہر آلود اور اُداس ساحل پر میں اور محمود چہل قدمی کر رہے تھے۔ موجوں کا شور اور پرندوں کی آوازیں چاروں طرف گونج رہی تھیں۔ وہ دور سمندر کی سطح سے ملے پَر مارتے چلے جاتے تھے۔ مزید آگے بڑھے تو سمندر تاریک ہو گیا۔ کالے بادل اس پر یوں جھک آئے کہ خیال ہوتا وہاں آسمان اور سمندر ایک ہو گئے ہیں۔

    ایک بہت بڑی موج سفید چادر کے مانند ہمارے پیروں کے آگے بچھ گئی۔ کچھ دیر زمین پر سفید سفید جھاگ ٹکا رہا، پھر وہیں جذب ہو گیا۔ ہمارے پیروں تلے ریت دب کر سخت ہو گئی اور اس میں سمندر کا پانی اکٹھا ہونے لگا۔ ہم پلٹے، مڑ کر دیکھا تو موجوں نے ہمارے قدموں سے پڑنے والے نشانوں کو بھر دیا تھا۔ گویا ہم وہاں تھے ہی نہیں، کبھی کسی نے وہاں قدم ہی نہیں رکھا تھا۔

    اسی دم محمود اپنی داستان سنانے لگا۔

    عجیب دنیا ہے۔ چند سال پہلے تک میں اس شہر میں توپ خانے کا افسر تھا۔ جنگ چھڑی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہوا۔ میں روسی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اسی شہر میں سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ روسیوں نے توپوں پر قبضہ کیا اور افسروں کو جیل میں ڈال دیا۔ سپاہی بھی اِدھر اُدھر ہوئے، بس گھوڑے باقی رہ گئے۔ میرا گھوڑا ابلق (سیاہ و سفید) تھا۔ بڑا خوش رنگ جوان اور چلبلا۔ خوب گردن اکڑا کر چلتا۔ اس کی آنکھوں کی رنگت بھی انوکھی تھی، نیلی نیلی سی معلوم ہوتی۔ فوجی بیرکوں میں اس کا نام کاسی پڑ گیا تھا۔

    کاسی میری سواری کا گھوڑا تھا۔ جوانی کے دن تھے۔ اِس پر سوار ہوتا تو مزہ آ جاتا۔ افسر کا گھوڑا تھا اسی لیے اس کی خیال داری بھی دوسرے گھوڑوں سے زیادہ ہوتی اور وہ ہمیشہ چاق چوبند رہتا۔ میں جیسے ہی اس پر سوار ہوتا وہ گردن اکڑا کر اگلی ٹاپوں پردُلکی چلنے لگتا۔ راستے کی پتھریلی زمین پر اس کے نعل پڑنے کی آواز سے فضا گونجنے لگتی۔ لوگ کاسی کی مستانہ چال دیکھنے چلتے چلتے رک جاتے۔ میں اس پر سینہ تانے بیٹھا گردن بھی اکڑا لیتا اور ترنگ میں آ کر جھومنے لگتا۔

    میں اور کاسی شہر بھر میں مشہور تھے۔ کاسی مجھ سے اتنا مانوس تھا کہ اگر میں دور سے اُسے پکارتا تو وہ فوراً گردن گھماتا اور جواب میں ہنہنا کر مجھے دیکھنے لگتا۔ جب میں جیل میں قید ہوا تو سب سے زیادہ فکر مجھے کاسی ہی کی تھی کہ معلوم نہیں اس کے دانے پانی اور گھاس کی خبر گیری ہو رہی ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کا کیا حشر ہو گا۔

    جنگی قیدیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے میں آ رہی تھیں، مختصر یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ جیل میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ میں ایک کونے میں جا بیٹھتا اور سوچتا رہتا۔ دل چاہتا تھا آزاد ہو جاؤں اور جا کر کاسی کو دیکھوں، اس کی گردن تھپتھپاؤں، اس کی تھوتھنی پر ہتھیلی رکھ کر سانس کی گرمی محسوس کروں۔ یہ سارے خیالات دن ہی دن میں رہتے، مگر راتیں۔۔۔

    راتیں وحشت ناک ہوتیں۔ قیدیوں کے سونے کی اپنی ادائیں تھیں۔

    میرے خوابوں کی دنیا کے زیادہ حصے پر کاسی کا عمل تھا۔ مجھے اس کی نیلگوں آنکھیں نظر آتیں کہ اندھیرے میں چمکتی ہوئی میری طرف ٹکٹکی باندھے ہیں۔ ان نگاہوں میں التجا ہوتی اور ملامت بھی۔

    ایک دن جیل میں خبر پھیل گئی کہ کل روسی توپیں اور گھوڑے جہازوں میں لے جا رہے ہیں۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ کاسی کا کیا ہوا؟ اسے بھی لیے جا رہے ہیں؟ اگر یہی ہوا تو میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ آس بھی ٹوٹ جائے گی کہ کاسی کو پھر دیکھ سکوں گا۔ وہ میرا دوست تھا۔ ہم دونوں ہی جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے۔

    میں نے ساتھی قیدیوں کے سامنے توپوں اور گھوڑوں کا ذکر چھیڑا اور کاسی کے بارے میں ان کا خیال دریافت کیا۔ سب قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ آخر ایک قیدی نے کہا کہ کاسی سواری کا گھوڑا ہے توپ گاڑی کھینچنے کے کام کا نہیں۔ پھر لڑائی کا زمانہ ہے رسد کی یوں بھی کمی ہے۔ اس لیے یقینی ہے کہ کاسی کو کھا لیا جائے گا۔

    گویا کاسی کو ذبح کرکے اس کا گوشت فوجیوں کو کھلادیا جائے گا۔

    جب یہ خبر اڑی کہ کل گھوڑوں کو لے جائیں گے، مجھے سارا دن کاسی ہی کا خیال آتا رہا۔ رات کوبھی بڑی بے چین نیند سویا۔ دوسری صبح ہم سب قیدی وقت سے پہلے جاگ اٹھے تاکہ جیل کی کھڑکیوں سے توپیں اور گھوڑے جانے کا منظر دیکھیں۔

    ہم کھڑکیوں کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ وہاں سے بیرکوں کا احاطہ اور اصطبل دکھائی دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بارش کی ہلکی دھند میں دور سے گھوڑوں کے سَر نظر آئے۔ ایک ایک روسی سپاہی دو گھوڑوں کو دہانوں سے پکڑے کھینچتا لا رہا تھا۔ اُنھیں دیکھ کر مجھ پر عجیب ناامیدی سی چھا گئی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا، ٹانگوں میں دَم نہ رہا اور منہ خشک ہو گیا۔ پھر بھی میں نے گردن آگے بڑھائی کہ اِن میں کاسی کو تلاش کروں۔ ہماری فوج کے سب گھوڑے گہرے رنگ کے سرنگ اور کمیت تھے۔ صرف کاسی کے رنگ میں سفیدی اور اجلا پن تھا۔ اس کے بدن پر چھوٹی چھوٹی بھوری اورکتھئی چتیاں تھیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید رنگ پر ان دو رنگوں کا چھینٹا دیا گیا ہو۔

    آخر میں نے اس کا چتکبرا رنگ دیکھا۔ میرا دَم گھٹنے لگا۔ یہ وہی تھا۔ اس کے تیوروں کا تیکھا پن اور گردن کا کھنچاؤ رخصت ہو چکا تھا۔ سَر لٹکا اور کنوتیاں گری ہوئی تھیں۔ چھل بل اور طراروں کا کہیں نشان نہ تھا۔ میلا چکٹ ہو رہا تھا۔

    وہ جیل کے سامنے پہنچا تو میری زبان کو قفل لگ گیا۔ چاہتا تھا پکاروں، اُسے بلاؤں، چوکی داروں سے کہوں کہ اسے ذرا میری طرف گھما دیں۔ میں نے کسی طرح خود کو سنبھالا اور سوکھے گلے سے دو تین بار صرف ایک لفظ نکال پایا

    کاسی، کاسی۔۔۔۔کاسی

    یہ آواز سن کر ابلق گھوڑے میں جان سی پڑ گئی۔ یقین کرو، اس نے گردن تان لی۔ پھر سَر گھمایا اور جہاں سے میں نے اسے پکارا تھا، اس طرف دیکھنے لگا اور زور سے ہنہنایا۔ نہیں معلوم قیدیوں کے جھرمٹ میں کھڑکی کے پیچھے میں اُسے دکھائی دیا کہ نہیں، مگر چند لمحوں کے لیے اس کے پیروں میں وہی رقص کی سی چلت پھر نظر آئی۔ پھر سپاہی نے اس کے دہانے کی آہنی ڈنڈی کو منہ کے اندر زور سے کھٹکھٹایا۔ تکلیف کی شدت سے اس کی حالت پھر اسی طرح ردی ہو گئی۔

    وہ کاسی کو لے گئے۔ دوسرے گھوڑوں کے ساتھ اسے بھی جہاز پر چڑھا دیا گیا۔ ہم دیکھتے رہے کہ وہ دور ہوتے جا رہے ہیں۔

    ہم دونوں سنسان پشتے پرچل رہے تھے۔ سمندر کی جانب سے تیز ہوا کے جھونکے آ رہے تھے۔ موجیں پشتے سے ٹکرا ٹکرا کرپانی اُڑا رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑرہی تھی۔ میں نے محمود کی طرف دیکھا،اس کی آنکھوں کے نیچے اور رخساروں پہ نمی تھی۔ میں نے پوچھا۔

    کیا روئے ہو؟ وہ بولا۔ نہیں، ہماری عمر کے آدمی روتے نہیں۔ آنسو ہی نہیں نکلتے، بارش ہوئی ہے۔

    اندھیرا پھیل رہا تھا۔ سمندر سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ ہم واپس آنے لگے۔ راستے میں محمود کو میں نے یہ قصہ سنایا۔

    میں فوج میں نیا نیا افسر ہوا تھا۔ روزانہ صبح اپنے گھر کی گلی کے آگے سڑک پر جا کھڑا ہوتا۔ میری رجمنٹ کی بس آتی اور میں اس پر کیمپ چلا جاتا۔ ایک دن میں ذرا جلد سڑک پرآ گیا۔ کچھ بس نے بھی دیر لگائی۔ میرا ایک دوست ادھر آ نکلا اور ہم وہیں کھڑے باتیں کرنے لگے۔ وہ بھی فوج میں افسر تھا۔

    باتوں باتوں میں اس نے بتایا، میرے پاس ایک خوب صورت سَمند (بادامی) گھوڑا ہے۔ وہ اُسے بیچنا چاہتا تھا۔ میں اس دوست سے بخوبی واقف تھا۔ وہ معاملت کا کھرا ہے اور سَمند گھوڑے مجھے پسند بھی تھے۔ لہٰذا میں نے دیکھے بغیر خرید لیا اور سودا وہیں کا وہیں پکا ہو گیا۔ دوست یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ اسی دن گھوڑے کو میری رجمنٹ میں بھجوا دے گا۔

    ہماری رجمنٹ کا پڑاؤ شہر سے فاصلے پر تھا اور دوپہر کو ہم وہیں رہ جاتے۔ اُس دن میں کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی خبر لایا، گھوڑا آ گیا ہے۔

    وہ بڑے قد کاٹھ اور بلند گردن کا گھوڑا تھا۔ جسامت ایسی کہ اس کے زین پر بیٹھا سپاہی چھوٹا سا معلوم ہوتا تھا۔ قریب آیا تو دیکھا کہ عجب خو ش انداز اور خوش رنگ گھوڑا ہے۔ اس کے رونگٹے سنہری مائل اور جھل مل جھل مل کر رہے تھے۔ چھوٹا سَر، نرم چمکیلی آنکھ، مضبوط جوڑ بند اور بھاری سُم، اونچی گردن، کشادہ سینہ، چلنے رکنے میں سَر کو تانے ہوئے۔ اس چھب کا گھوڑا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ خصوصاً یکساں اور شوخ بادامی رنگ کا۔

    آزمائش کے لیے اس کی رکاب میں پیر ڈال زین پر بیٹھ گیا۔ گھوڑا آگے بڑھا تو میں نے اسے پویا چلایا پھر دُلکی۔ اس کے بعد کیمپ کی سڑک پر دور تک بڑے اطمینان کے ساتھ سرپٹ دوڑایا۔ اس کی سواری ایسی ہم وار اور آرام دہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا نرم گدے پر بیٹھا فضا میں تیر رہا ہوں۔

    میں نے اُسے اصطبل پہنچا دیا۔ وہاں سپاہی کو لوٹانے کے لیے اس کا زین اتارا گیا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ خوب صورت گھوڑا زین پشت ہے۔ زین پشت اُسے کہتے ہیں جس کی کمر میں خم ہو۔ یہ گھوڑے کا عیب سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں اس خم کے زیادہ ہونے سے گھوڑے کا دَم کم ہو جاتا ہے۔ اس گھوڑے کی کمر میں زیادہ خم تھا۔ اس کی پیٹھ کا وہ حصہ جہاں زین رکھتے ہیں کمان کی طرح جھکا ہوا تھا۔

    لمحہ بھر کو مجھے خیال آیا کہ اسے واپس پھیر دوں، لیکن میرا جی نہ مانا۔ وہ بہت خوب صورت تھا۔ اس کی اصالت، تیور اور جمال سے کیوں کر آنکھیں پھیر لیتا؟ دوسرے دن سے وہ میری سواری میں رہنے لگا۔ میرا بلند قامت زین پشت سمند، جو گردن اٹھا کر چلتا اور بن بن کر زمین پر پاؤں رکھتا بہت جلد مشہور ہو گیا۔

    دو سال گزرے تھے کہ توپ گاڑیاں پٹرول سے چلنے لگیں۔ پرانی چال کی گاڑیاں کباڑخانوں میں ڈھیر ہوتی گئیں۔ انھیں کھینچنے والے گھوڑے گلوں میں بھیجے جانے لگے۔ فوج سے اصطبل اور گھوڑوں کا صیغہ ہی ختم ہوا تو میں بھی مجبور ہوا کہ اپنے سمند کو وہاں سے ہٹا لے جاؤں۔ چوں کہ میرے پاس رکھنے کا ٹھکانا نہیں تھا لہٰذا اِسے بیچنے کے سوا چارہ نہ رہا۔

    میری رجمنٹ کا سائیس ایک خریدار کو لے آیا۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ اس لاڈلے گھوڑے کو تکلیف نہ دینا۔ اگر اسے بیچے تو کسی ایسے آدمی کو دے جو اس کو فٹن یا چھکڑے میں نہ جوتے۔

    کئی مہینے گزر گئے۔ مجھے اپنے زین پشت سمند کی یاد آتی رہتی، جیسا کہ تم نے بتایا میرا بھی دل چاہتا کہ کسی صورت اسے دیکھوں تھپ تھپائوں، اس بے زبان کے منہ کے آگے ہاتھ کروں اور گرم اور نرم سانسوں کومحسوس کروں۔

    ایک دن خیابان شمیران کی چڑھائی پر مجھے ایک اونچا لاغر سمند گھوڑا دکھائی دیا۔ کوچوان نیچے اتر کر اس پر چابک برسا اور کھڑکھڑے کو دھکا لگا کر چڑھائی چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ وہی تھا!

    اس کا سنہرا بدن میل کچیل اور پسینے کے لیپ سے چکٹ کر کالا ہو چکا تھا۔ میرا بہت جی چاہا کہ قریب جا کر دیکھوں، اسے پکاروں اور اس کا بدن سہلاؤں، لیکن مجھے شرم سی آ رہی تھی۔ وہ ایسے حال میں نہ تھا کہ میں اس کے سامنے جا سکتا،اس کی رگیں ابھر آئی تھیں۔ میں نے سوچا کوچوان سے بات کر کے اِس کی کچھ سفارش کروں، لیکن اس سے کیا ہونا تھا؟ وہ شکستہ حال قیدی، تھکا ہارا زین پشت سمند جو اب میرا نہیں تھا، اپنے مقدر کا لکھا پورا کر رہا تھا۔ میں خود سمجھ سکتا تھا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہو گا۔

    بارش تیز برسنے لگی اور تاریکی پھیل گئی۔ میں اور محمود اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ بلب کی روشنی میں محمود نے مجھے دیکھا اور بولا۔

    تمھارا چہرہ بھیگا ہوا ہے۔ روئے ہو؟

    اس عمر کو پہنچ کر آدمی نہیں روتا… میں نے کہا، پانی برس رہا ہے۔

    نوٹ: اس فارسی کہانی کا عنوان باران و اشک ہے جس کے مصنف بابا مقدم ہیں‌ اور اسے اردو کے قالب میں‌ نیّر مسعود نے ڈھالا ہے

  • ایک اور ڈر کا جنم

    ایک اور ڈر کا جنم

    مریل سے کلرک نے جیب سے مہینے بھر کی تنخواہ نکال کے چارپائی پر رکھی اور سرہانے کے نیچے سے لین داروں کی فہرست نکالی، جمع تفریق کے بعد اس کے پاس صرف پچاس روپے بچے تھے اور پورے اکتیس دن آگے کھڑے تھے۔

    کمرے میں وہ اکیلا تھا، بچوں کی ضرورتیں اور بیوی کی حسرتیں فلم کی ریل کی طرح اس کی آنکھوں سے گزرنے لگیں۔ بیوی کی مطلوبہ چیزوں پر لکیر پھیرتے ہوئے اسے تھوڑی تکلیف ہوئی، لیکن اسے احساس تھا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔

    ششی کی اَدھ گھسی پتلون نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر پپی کے ٹوٹے ہوئے جوتے نے ایک جھٹکے سے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا۔ ابھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ بیوی اندر آگئی اور پچاس کا ٹوٹ اٹھا کر بولی۔

    "مجھے نہیں پتا، یہ تو میں نہیں دوں گی۔”

    "ارے میری بات تو سنو۔”

    "بالکل نہیں۔”

    "سردیاں شروع ہوگئی ہیں اور پپی…..” اس کی بات سنی ہی نہیں‌ گئی اور بیوی نے کہا۔

    "پپی کے جوتے سے زیادہ ضروری آپ کی دوا ہے۔”

    وہ کچھ نہ بول سکا۔ اس نے گلے سے اٹھتی ہوئی کھانسی جبراً روک لی کہ اسے کھانستا دیکھ کر بیوی ڈاکٹر کو بلانے نہ چلی جائے۔

    مصنف: نامعلوم

  • کرامات

    کرامات

    لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔

    لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے، کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔

    ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔ اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں کی توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک آیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔

    شور سن کر لوگ اکھٹے ہوگئے۔ کنوئیں میں رسیاں ڈالی گئیں۔

    دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔

    دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لیے اس کنوئیں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا!

    اسی رات اس آدمی کی قبر پر دیے جل رہے تھے۔

    مصنّف : سعادت حسن منٹو

  • دس پیسے

    دس پیسے

    بس ایک دس پیسے کے لیے جھگڑا ہوگیا دادی سے۔ اور چکو گھر سے بھاگ گیا۔

    دس پیسے بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟ رام منوہر کی جیب میں کتنی ریزگاری رہتی ہے، جب چاہیں جاکے پتنگ خریدسکتے ہیں۔ ایک کٹی اور دوسرے کی کنی بندھ گئی، مانجے کی چرکھی بس بھری ہی رہتی ہے….اور سدی کے کتنے سارے پتے رکھے ہیں گھر میں۔

    یہ سب یاد آتے ہی پھر غصہ آگیا اسے۔ دادی ہے ہی ایسے گھنی۔ اسی لیے اتنی جھریاں ہیں اس کی شکل پر۔ رام کی دادی کی شکل پر تو ایک بھی نہیں۔ ایک کے بعد ایک اسے دادی کے سارے نقص یاد آنے لگے۔ کان کتنے ڈھیلے ڈھیلے ہیں۔ جب بھی گالوں پر چومتی ہے تو آنکھوں پر لٹک جاتے ہیں، اور پلکیں تو ہیں ہی نہیں۔ رات کو سوتی ہے تو آدھی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ منہ بھی کھلا رہتا ہے۔

    دادی کے کارٹون بناتا، وہ ننگے پاﺅں ہی ریلوے اسٹیشن تک آگیا۔ بلا کسی ارادے کے وہ اسٹیشن میں گھس گیا۔ اور جیسے ہی گاڑی نے سیٹی دی، وہ دوڑ کے گاڑی میں چڑھ گیا۔

    گاڑی چلنے کے بعد ہی اس نے سوچا کہ چلو گھر سے بھاگ جائیں اور گاڑی میں ہی اس نے فیصلہ کیا کہ زندگی میں خود مختار ہونا بہت ضروری ہے، یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ ایک ایک پتنگ کے لیے اتنے بوڑھے بوڑھے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑیں۔ اسی لیے تو اس کے بڑے بھائی بھی دادی کو چھوڑ کر بمبئی چلے گئے تھے۔ اب کبھی نہیں آتے۔۔۔۔۔ کتنے سال ہوئے۔

    گاڑی کے دروازے کے پاس ہی بیٹھے بیٹھے اسے نیند آگئی۔ بہت دیر بعد جب آنکھ کھلی تو باہر اندھیرا ہوچکا تھا۔ اور تب اسے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ واقعی گھر سے بھاگ آیا ہے۔ دادی پر غصہ تو کچھ کم ہوا تھا لیکن شکایت اور گلہ ابھی تک گلے میں رندھا ہوا تھا۔

    دس پیسے کون سی ایسی بڑی چیز ہیں۔ اب اگر پوجا کی کٹوری سے اٹھالیے تو چوری تھوڑا ہی ہوئی۔ بھگوان کی آنکھوں کے سامنے لے کر گیا تھا۔ خود ہی تو کہتی ہے دادی کہ اس کے دیوتا "جاگرت” ہیں۔ دن رات جاگتے رہتے ہیں؟ کبھی نہیں سوتے؟ نہیں! وہ آنکھ بند کرلیں، تب بھی دیکھ سکتے ہیں۔

    ہونہہ! تو دس پیسے کیسے نہیں دیکھے؟ اور دیکھے تو بتایا کیوں نہیں دادی کو؟ وہ تو سمجھتی ہے، میں نے چوری کی ہے۔ دادی کے بھگوان بھی اس جیسے ہیں۔ گُھنے، کم سنتے ہیں، کم دیکھتے ہیں۔

    کسی نے دروازے سے ہٹ کر اندر بیٹھنے کے لیے کہا۔ اسٹیشن آرہا تھا شاید۔ گاڑی آہستہ ہو رہی تھی۔ گاڑی کے رکتے رکتے ایک بار تو خیال آیا کہ لوٹ جائے، لیکن اسٹیشن پہ ٹہلتے ہوئے پولیس والوں کو دیکھ کر اس کا دل دہل گیا۔ وہ بنا ٹکٹ تھا، یہ خیال بھی پہلی بار ہوا اسے!

    اس نے سنا تھا بنا ٹکٹ والوں کو پکڑ کے پولیس جیل بھیج دیتی ہے، اور وہاں چکی پسواتی ہے۔ دروازے کے پاس ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔ وہ اندر کی طرف سیٹوں کے درمیان آکر بیٹھ گیا۔ گاڑی چلی اور لوگ اپنی اپنی جگہوں پر لوٹے تو صندوق، پیٹی، بستر کے اوپر نیچے سے ہوتا ہوا وہ کھڑکی کے بالکل نیچے جاکر فٹ ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے بھوک اور پیاس کا احساس ستانے لگا۔ خود مختاری کے مسئلے ایک ایک کرکے سامنے آنے لگے۔ اسے بھوک بھی ستارہی تھی پیاس بھی۔ اوپر والی برتھ پر سوئے ہوئے حضرت کی صراحی مسلسل ٹرین کے ہچکولوں سے جھول رہی تھی اور صراحی کے منہ پر اوندھا لگا ہوا گلاس بھی مسلسل کٹ کٹ، کٹ کٹ کیے جا رہا تھا۔

    اس وقت نیلی وردی پر پتیلی کا چمکتا بلا لگائے، ٹکٹ چیکر داخل ہوا اس کے پیچھے ہی اس کا اسسٹنٹ، ایک بنا ٹکٹ والے کو گدی سے پکڑے ہوئے داخل ہوا۔ چکو کی تو جان ہی نکل گئی۔ چلتی ہوئی گاڑی میں یہ آدمی کیسے اندر آگیا۔ اسٹیشن سے چڑھتے ہوئے تو دیکھا نہیں تھا۔ ضرور کہیں چھپ کے بیٹھے رہتے ہوں گے یہ لوگ۔

    سیٹ کے نیچے ہی نیچے، گھسٹتا کھسکتا وہ نیلی وردی کے پیچھے کی طرف جا پہنچا۔ پھر وہاں سے کھسکتا ہوا ڈبے کے دوسری طرف جا نکلا جہاں اسے ٹائلٹ نظر آگیا۔ بس اسی میں گھس گیا اور کھول کے کموڈ پر بیٹھ گیا۔ یہاں تھوڑا ہی کوئی ٹکٹ پوچھنے آئے گا؟ یہ خیال بھی آیا کہ دوسرے لوگ یہ ترکیب کیوں نہیں استعمال کرتے۔ وہ چیچک کے داغوں والا تو کر ہی سکتا تھا جسے ٹی ٹی کے اسسٹنٹ نے گدی سے پکڑ رکھا تھا۔ بہت دیر۔۔۔۔ بہت دیر بیٹھا رہا۔ ننگی ٹانگوں پر ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کموڈ پر بیٹھے بیٹھے نیند بھی آنے لگی تھی۔

    پھر گاڑی نے پٹڑی بدلی، ایک دھچکا لگا۔ رفتار بھی کچھ کم ہونے لگی۔ بڑی احتیاط سے اس نے ٹائلٹ کا دروازہ کھولا۔ باہر جھانکا، کوئی اسٹیشن آ رہا تھا۔ نیلی وردی کہیں نظر نہیں آئی۔ گاڑی رکی تو وہ فوراً اتر گیا۔
    سنسان اسٹیشن، آدھی رات کا وقت، کوئی اترا بھی نہیں۔ گاڑی تھوڑی دیر کھڑی ہانپتی رہی، پھر بھک بھک کرتی ہوئی آگے چل دی۔

    چکو ایک بینچ پر سکڑ کے اپنی ہی ٹانگوں میں منہ دے کر بیٹھ گیا اور فوراً ہی تکیے کی طرح لڑھک گیا۔ ٹھک ٹھک کرتا لالٹین ہاتھ میں لیے ایک چوکی دار آیا اور کان سے پکڑ کر اٹھا دیا۔

    اے۔۔۔۔ چل باہر نکل! گھر سے بھاگ کے آیا ہے کیا؟….چل نکل، نہیں تو چوکی والے دھر لیں، چکی پسوائیں گے جیل میں۔

    ایک دھمکی میں وہ لڑکھڑا کے کھڑا ہو گیا۔ چوکی دار ٹھک ٹھک کرتا، پھر غائب ہوگیا۔ چکو، پلیٹ فارم کے نیچے کی طرف ٹہل گیا، جہاں مدھم سی روشنی میں ایک بوریوں کا ڈھیر پڑا نظر آرہا تھا۔ بوریوں کے پیچھے ہی کوئی بڑھیا دادی کی طرح منہ کھولے سو رہی تھی، پھٹا پرانا ایک لحاف اوڑھے۔ کوئی بھکارن ہوگی۔ نیند اور برداشت نہیں ہو رہی تھی، وہ اسی بھکارن کے لحاف میں گھس گیا۔ اسے لگا تھا جیسے دادی کے لحاف میں گھس رہا ہے۔ گاﺅں میں اکثر یہ ہوتا تھا۔ میراثن اپنے پاس سلاتی تھی اور وہ رات کو اٹھ کر دادی کے لحاف میں جا گھستا تھا۔

    سَر زمین پر لگتے ہی سو گیا۔ صبح جب اٹھا تو ویسے ہی بڑھیا سے لپٹ کے سویا ہوا تھا۔ بھکارن کے سرہانے پڑے کٹورے میں ریزگاری پڑی تھی۔ پھر وہی کٹوری یاد آگئی، کل رات کی بھوک پھر عود کر آئی۔ اتنی ساری ریزگاری کیا کرے گی بڑھیا۔ دادی سے پوچھا تھا تو کہتی تھی:
    مر کے بھی تو ضرورت پڑتی ہے پیسوں کی۔ ورنہ اس کاٹھی کو جلائے گا کون؟

    جھوٹی! کتنی لکڑیاں پڑی تھیں گھر میں۔ اس کی نظر پھر کٹورے پر گئی۔ ایک دس پیسے نکال بھی لیے تو کیا ہے؟ یہاں تو بھگوان بھی نہیں، دادی بھی نہیں۔ اس نے اٹھالیے دس پیسے۔

    بڑھیا کا لحاف ٹھیک کیا اور موتری کی طرف چلا گیا۔ واپس آکر مٹی سے ہاتھ دھوئے اور نیکر کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پونچھے تو ٹھنڈے ٹھنڈے دس پیسے کے سکے نے ہاتھ پر کاٹ کھایا۔

    واپس لوٹا تو بڑھیا کے پاس تین چار آدمی کھڑے تھے۔ ایک اس کے سَر کے پاس بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا۔
    اکڑ گئی ہے، مرے ہوئے بھی آٹھ دس گھنٹے تو ہو گئے ہوں گے۔
    رات نیند ہی میں چل بسی شاید! چکو گھبرا کے کھڑا ہوگیا، وہیں ویٹنگ روم سے بھی کچھ لوگ اسی طرف آرہے تھے۔
    اب کیا ہو گا اس کا؟
    اسٹیشن ماسٹر آئے گا تو کسی کو خبر کرے گا!
    کس کو؟
    میونسپلٹی کو، وہی جلائے گی لے جاکے۔

    جو پاس بیٹھا تھا اس نے لحاف کھینچ کے منہ ڈھک دیا۔ چکو نے نیکر کی جیب سے دس پیسے نکالے اور بڑھیا کے کٹورے میں پھینک دیے۔ سب نے دیکھا اس کی طرف اور وہ بھاگ لیا۔
    تیز، بہت تیز، اپنی دادی کے پاس۔

    مصنف: گلزار

  • چڑیا کے پیٹ میں پاؤ بھر وزنی موتی تھا!

    چڑیا کے پیٹ میں پاؤ بھر وزنی موتی تھا!

    یہ سبق آموز کہانی یا حکایت قدیم دور کی ہے۔
    یہ تو نہیں‌ کہا جاسکتا کہ یہ کس دور کی کہانی ہے اور یہ کس خطے کے باشندے کی اختراع ہے، مگر ہمارے ہاں‌ یہ حکایاتِ رومی کا حصہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایسے قصے اور کہانیاں‌ ہر سماج میں‌ اخلاقی تربیت اور کردار سازی میں‌ اہمیت رکھتے ہیں۔ آئیے، چڑیا اور ایک شکاری کی یہ کہانی پڑھتے ہیں۔

    کہتے ہیں‌ کسی شخص نے چڑیا پکڑنے کے لیے جال بچھایا۔ اتفاق سے ایک چڑیا اس میں پھنس گئی۔

    چڑیا نے شکاری سے کہا، اے انسان! تم نے کئی ہرن، بکرے اور مرغ وغیرہ کھائے ہیں، ان کے مقابلے میں میری کیا حقیقت ہے، ذرا سا گوشت میرے جسم میں ہے، اس سے تمہارا کیا بنے گا؟ پیٹ بھی نہیں بھرے گا، لیکن اگر تم مجھے آزاد کر دو تو میں تمہیں تین ایسی باتیں‌ بتاسکتی ہوں‌ جن پر عمل کرنے سے تم کو بہت فائدہ ہو گا۔

    شکاری کے دل میں‌ تجسس پیدا ہوا اور وہ اس کی بات سننے بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر چڑیا بولی۔

    دیکھو، ایک نصیحت تو میں ابھی کروں گی، مگر دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑ دو گے اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی۔ اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوار سے اڑ کر سامنے درخت کی شاخ پر جا بیٹھوں گی۔

    اس شخص نے چڑیا کی بات مان لی اور بولا، تم مجھے پہلی نصیحت کرو، تاکہ میں تم کو جال سے نکال کر چھوڑ دوں۔
    چڑیا نے کہا، پہلی نصیحت یہ ہے کہ جو بات ممکن نظر نہ آتی ہو، اس کا یقین بھی مت کرو۔

    یہ سن کر اس آدمی نے چڑیا کو چھوڑ دیا۔ چڑیا سامنے دیوار پر جا بیٹھی اور بولی۔ میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ جو بھی عمل کر گزرو، یا فعل انجام دے دو اس کا کبھی غم نہ کرنا۔

    پھر پھدکتے ہوئے اس چڑیا نے کہا۔ اے بھلے مانس! تم نے مجھے چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی، میرے پیٹ میں پاؤ بھر کا انتہائی نایاب پتھر ہے، اگر تم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تو مالا مال ہو جاتے، تم نے اپنے ہاتھوں‌ دولت گنوائی ہے۔

    اس شخص نے یہ سنا تو افسوس کرنے لگا۔ ملال اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا۔ چڑیا نے اسے یوں‌ پچھتاتا دیکھا تو درخت کی شاخ‌ پر بیٹھے بیٹھے بولی۔ میں نے ابھی تم کو نصیحت کی تھی کہ جو بات ممکن نہ ہو، اس کا یقین بھی نہ کرنا، لیکن تم میری اس بات کا اعتبار کرکے پچھتانے بیٹھ گئے کہ اس پدی سی چڑیا کے پیٹ میں پاؤ بھر وزنی موتی ہو گا، کیا یہ ممکن ہے؟

    میں نے دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ جو بات ہو جائے اس کا غم نہ کرنا، مگر تم نے دوسری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ لیا اور افسوس میں مبتلا ہو گئے کہ چڑیا کو کیوں‌ چھوڑا۔

    اے انسان، تجھے کوئی بھی نصیحت کرنا بے سود ہے۔ تُو نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا جو تیسری پر کرے گا، سچ ہے تُو اچھی بات کے لائق نہیں۔ یہ کہہ کر چڑیا وہاں‌ سے پرواز کر گئی۔

  • پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    مصنف: عبداللطیف ابوشامل

    ان کے ابُو جنھیں وہ بہت پیار سے پاپا کہتے تھے کسی ہنگامے میں تو نہیں مرے تھے، رات کو اپنی پرانی سی موٹر سائیکل پر گھر آرہے تھے کہ پیچھے سے آنے والی تیز رفتار کار انھیں کچلتی ہوئی ہوا ہوگئی اور وہ دم توڑ گئے۔
    جب وہ صبح سویرے اپنی موٹر سائیکل کو ککیں مار کر بے حال ہوکر زمین پر بیٹھ جاتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کب اس کھٹارے کا پیچھا چھوڑیں گے؟ تو وہ مسکرا کر کہتے تھے:
    ”بس اسٹارٹ ہونے میں ضد کرتی ہے ویسے تو فرسٹ کلاس ہے، بڑا سہارا ہے اس کا، ورنہ تو بسوں کے انتظار اور دھکوں سے ہی دم توڑ دیتا۔“
    آخر موٹر سائیکل ایک بھیانک آواز سے دم پکڑتی اور وہ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ گلے میں ڈالتے اور پھر رخصت ہوجاتے۔
    بہت محتاط تھے وہ۔ بہت عسرت سے جیتے تھے۔ بہت سلیقہ مند بیوی ہے ان کی۔ عید پر رات گئے گھر آتے تو میں پوچھتا:
    ”آج دیر ہوگئی۔“ ”ارے یار وہ چھوٹی والی ہے نا اس کی جیولری لے رہا تھا، وہ دو دن میں خراب ہوجاتی ہے، لیکن چھوٹی ضد کرتی ہے۔“
    بس اسی طرح کی زندگی تھی ان کی۔ اور پھر ایک دن وہ روٹھ گئے۔ مرنے سے ایک دن پہلے ہی تو انھوں نے مجھ سے کہا تھا:
    ”کچھ پیسے جمع ہوگئے ہیں، سوچ رہا ہوں اپنے ”گھوڑے“ کی فرمائش بھی پوری کر دوں، کچھ پیسے مانگ رہی ہے موٹرسائیکل۔“
    بندہ فرمائشیں پوری کرتے کرتے بے حال ہو جاتا ہے، لیکن خوش بھی کتنا ہوتا ہے! اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر اپنی تھکن بھول جاتا ہے۔
    تین بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوہ۔ تین دن تو ٹینٹ لگا رہا اور عزیزوں کا جمگھٹا…. اور پھر زندگی کو کون روک سکا ہے! سب آہستہ آہستہ رخصت، گھر خالی، تنہائی، خدشات اور نہ جانے کیا کیا خوف۔ بیٹے نے رب کا نام لیا اور پھر ایک دفتر میں معمولی سی نوکری کرلی۔ اٹھارہ سال کا نوجوان جس نے ابھی فرسٹ ایئر کا امتحان دیا تھا۔ اور کیا کرتا! ماں نے سلائی مشین سنبھالی اور پھر زندگی سے نبرد آزما تھے وہ سب۔ بڑی بیٹی نے جیسے تیسے میٹرک کیا اور ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے لگی۔ چھوٹی والی ٹیوشن پڑھاتی اور تیسری تو بہت چھوٹی تھی، ہنستی، کھیلتی بچی جو ہنسنا کھیلنا بھول گئی تھی۔
    بڑی بیٹی ایک دم بوڑھی ہوگئی تھی۔ ایک دن میں نے بڑی سے پوچھا:
    مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟ پھر تو سیلاب تھا. ”کیا کیا بتاؤں، صبح جاتی ہوں تو عجیب عجیب آوازیں، بے ہودہ فقرے، بسوں کے دھکے، اور پھر فیکٹری میں تو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا، واپس آؤ تو کئی کاریں قریب آجاتی ہیں، جن میں بیٹھے لوگ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔“
    ”جینا سیکھو“ بس میں اتنا کہہ سکا تھا۔ چھوٹی والی اسکول میں پڑھاتی تھی جس سے رجسٹر پر درج تنخواہ پر دست خط کرا کر اس سے نصف بھی نہیں دی جاتی تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد سب کے سب زندگی سے نبرد آزما۔ کیا کیا مرحلے آئے ان پر! جی جانتا ہوں میں لیکن کیا کریں گے آپ سن کر؟
    میرا بدنصیب شہر نہ جانے کتنے جنازے دیکھ چکا ہے اور کتنے دیکھے گا، اس کی سڑکیں خون سے رنگین ہیں اور اس کے در و دیوار پر سبزہ نہیں خون ہی خون ہے۔ قبرستان بس رہے ہیں، شہر اجڑ رہا ہے۔ اب تو کوئی حساب کتاب بھی نہیں رہا کہ کتنے انسان مارے گئے۔ اور شاید یہ کوئی جاننا بھی نہیں چاہتا۔
    تحقیق و جستجو اچھی بات ہے، ضرور کیجیے۔ چاند ستاروں پر تحقیق کیجیے۔ زمین پر انسانیت کا قتل عام کیجیے اور چاند اور مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کیجیے۔
    مجھ میں تو تحقیق کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں کوئی لکھا پڑھا آدمی ہوں۔ آپ میں تو ہے، تو کبھی اس پر بھی کوئی تحقیقی ادارہ بنا لیجیے۔ اس پر بھی اپنی محنت صرف کر لیجیے۔ ساری دنیا کو چھوڑیے، پہلے اپنی تو نبیڑ لیجیے۔ صرف اس پر تحقیق کر لیجیے کہ اس شہر ناپرساں و آزردگاں میں کتنے انسان بے گناہ مارے گئے اور اب ان کے اہل و عیال کس حال میں ہیں؟ وہ زندگی کا سامنا کیسے کرتے ہیں، ان کی نفسیاتی کیفیت کیا ہے، وہ کن مشکلات کا شکار ہیں؟ لیکن یہ کام کرے کون….؟
    اچھا ہے معصوم یتیم بچے کسی ہوٹل یا گیراج میں ”چھوٹے“ کہلائیں گے۔ ہماری جھڑکیاں سنیں گے۔ بیوہ ہمارے گھر کی ماسی بن جائے گی یا گھر گھر جاکر کپڑے لے کر انھیں سیے گی۔ جوان بہنیں دفتر یا فیکٹری کی نذر ہوجائیں گی، بھوکی نگاہیں انھیں چھیدیں گی، اور بدکردار کہلائیں گی۔ ان کے کانوں میں آوازوں کے تیر پیوست ہوتے رہیں گے۔ بوڑھا باپ کسی سگنل پر بھیک مانگے گا اور ماں دوا نہ ملنے پر کھانس کھانس کر مر جائے گی اور، اور، اور….
    اچھا ہی ہے، ہمیں چند ٹکوں میں اپنے کام کرانے کے لیے افرادی قوت میسر آجائے گی۔ اس سے بھی زیادہ اچھا یہ ہے کہ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ہمیں کھل کھیلنے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے اور ہم ٹھاٹ سے جیے جائیں گے۔
    پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔ اے دانش ورو، اے منبر و محراب سجانے والو! تمہارے لیکچر، تمہارے پند و نصائح اور تمہاری ”حق گوئی“ کسی ایک کا پیٹ نہیں بھر سکتی، چاہے کتنی محنت سے اپنے مقالات لکھو، چاہے کتنی قرأت سے وعظ فرمالو۔ پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔
    وہ دیکھ رہا ہے، تو بس پھر کیا ہے، خالق و مالک تو وہی ہے، ہم کیا کہیں گے اس سے کہ جب مظلوم کا خون آلود جسم مٹی چاٹ رہا تھا تب ہم کیا کر رہے تھے!
    نہیں رہے گا کوئی بھی، میں بھی اور آپ بھی، بس نام رہے گا اللہ کا۔
    فقیروں سے خوشامد کی کوئی امید مت رکھنا
    امیرِ شہر تو تم ہو‘ خوشامد تم کو کرنا ہے

  • انتخاب

    انتخاب

    ریاست کی جوائنٹ اسکول ہاکی ٹیم کے انتخاب کا عمل چل رہا تھا۔ مختلف اضلاع سے پینتیس لڑکوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ان میں سے سولہ لڑکوں کا انتخاب نیشنل اسکول کامپیٹیشن کے لیے کیا جانا تھا۔ تمام کھلاڑیوں کو تین ٹیموں میں تقسیم کیا گیا، جن کو آپس میں میچ کھیل کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا تھا۔

    چیف کوچ رحمان قریشی، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اہم گیم افسر رتی لال یادو اور حکومت کے گیم ڈیپارٹمنٹ کے نمائندے وامن راؤ ناگپورے کو سولہ کھلاڑیوں کے حتمی انتخاب کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

    میچوں کے اختتام کے بعد تمام سلیکٹرز اسٹیڈیم کی کینٹین میں ملے۔ وامن راؤ نے اپنی جیب سے ایک فارم نکالا اور ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولے۔

    وزیرِ کھیل کی طرف سے دو لڑکوں کے نام آئے ہیں۔ بھونیش کمار اور سشیل چوکسے۔ دونوں ان کے علاقے کے ہیں۔
    ٹھیک ہے۔ وزیر صاحب نے کہا ہے، تو دونوں کو ٹیم میں لینا ہی پڑے گا۔ رحمان بولے۔ یادو جی نے بھی رضامندی میں سر ہلایا۔

    ایک نام اسپورٹس ڈائریکٹر آشیش سنگھ نے بھی دیا ہے۔ ان کے کسی رشتہ دار کے بیٹے پریکشت سنگھ۔ وامن راؤ بولے۔ ان کا بھی نام لکھ لو۔ رحمان نے کہا۔

    سر دو نام ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری اور جوائن ڈائریکٹر صاحب نے دیے ہیں۔ رتی لال یادو نے ناموں کی پرچی سب کے سامنے رکھی۔ ان کا انتخاب بھی بلامقابلہ ہو گیا۔

    ٹریڑری کے بابو شیش راؤ کے بیٹے بھیم راؤ کو بھی لینا پڑے گا ٹیم میں۔ ورنہ ہمارے بل بھی پاس نہیں ہوں گے۔ مسئلے ہوتے رہیں گے۔ رتی لال نے پرانے تجربے کی بنیاد پر اپنی بات رکھی۔ بات میں دَم تھا سو سب نے فوری طور پر مان لی۔

    چھے لوگوں کا انتخاب تو ہو ہی چکا ہے۔ ایک نام ڈاکٹر صاحب سے لے لیتے ہیں اور باقی بچے نو لوگ، تین تین لوگوں کے نام ہم آپس میں فائنل کر لیتے ہیں۔ رحمان کی یہ تجویز سب کو پسند آئی۔

    ڈاکٹر صاحب نے فون پر اپنے پسندیدہ کھلاڑی کا نام نوٹ کرا دیا۔ رتی لال نے اپنی ذات برادری کے تین نام طے کیے۔ وامن راؤ نے بھی اپنے دو رشتہ داروں اور کالونی کے ایک لڑکے کا نام کمیٹی کے سامنے رکھا۔ رحمان نے ایک مسلمان اور دو کم سِن چھوکروں کے نام رکھے۔ ٹیم کا انتخاب ہو گیا تھا۔ چنانچہ سب نے دستخط کیے اور ایک اسٹیٹمنٹ جاری کیا۔

    اپنی ٹیم پر ایک گول بھی اسکور نہ ہونے دینے والے اور سب سے قابلِ اعتماد گول کیپر کے طور پر ابھرے پی رنگا ناتھ کو میڈیکلی ان فٹ ہونے کی وجہ سے نہیں لیا جا سکا۔ سب سے زیادہ گول کرنے والے پربھجوت سنگھ بھی ڈسپلن کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔ ان کے خلاف متفقہ طور پر مناسب کارروائی کرنے کے لیے کیس ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن کو بھیجنے کی سفارش کی گئی۔
    (مصنف: ارون ارنو کھرے)

  • ہرا چشمہ

    ہرا چشمہ

    مصنف: شرن مکڑ
    گؤ دان کی اپیل سن کر ایک سیٹھ نے گائے خیرات کی۔ جس شخص کو خیرات کی گائے ملی، وہ شہر کی گندی سی بستی میں رہنے والا ایک غریب مزدور تھا۔ اس کی کون سی زمین تھی جہاں ہری ہری گھاس اگتی۔ بستی کے آس پاس ہریالی کا نام و نشان نہ تھا۔

    خیرات میں اُسے گائے ملی تھی، گھاس نہیں۔ اس نے گائے کو کھلانے کے لیے سوکھی گھاس ڈالی۔ امیر کی گائے نے سوکھی گھاس دیکھ کر منہ پھیر لیا، وہ کسی حالت میں سوکھی گھاس کھانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ آدمی نے اس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیر کے منت کی گائے ٹس سے مس نہ ہوئی۔

    وہ دو دن سے بھوک ہڑتال پر ڈٹی ہوئی تھی۔ مزدور ڈر رہا تھا کہ گائے کو کچھ ہوگیا تو گائے کی موت کا گناہ اس کے سر ہوگا۔ وہ دل ہی دل میں خوف زدہ ہو رہا تھا۔

    اسے اس طرح پریشان اور گائے کی منت سماجت کرتے دیکھ کر کسی نے اسے گائے کی آنکھوں پر ہرا چشمہ باندھنے کا مشورہ دیا۔ مزدور نے ایسا ہی کیا۔ ہری پٹی کی عینک بناکر اس نے گائے کی آنکھوں پر لگا دی۔ اب گائے کے سامنے سوکھی گھاس کی جگہ ہری گھاس تھی۔ وہ خوش ہوگئی۔

    مزدور اب خوش تھا لیکن اس کا پڑھا لکھا بے روزگار بیٹا اداس تھا۔ مزدور نے اس سے اداسی کا سبب پوچھا، وہ روہانسا سا ہوکر بولا۔ ”بابو! مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم عوام بھی گائے ہیں۔ لوگ ہماری آنکھوں پر امیدوں کا ہرا چشمہ لگا کر ہم سے ووٹ لے جاتے ہیں اور ہم سوکھے کو ہریالی سمجھ لیتے ہیں۔“