Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • کچھوے کی عادت (ادبِ اطفال)

    کچھوے کی عادت (ادبِ اطفال)

    ایک جنگل میں بہت سارے جانور آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔ جنگل کا ماحول بہت خوش گوار تھا اور جانوروں میں باہمی اتفاق اور قربت ایسی تھی کہ کسی ایک پر کوئی مصیبت پڑتی تو سب اس کا ساتھ دینے جمع ہو جاتے۔ جنگل میں حشرات الارض کی بھی کمی نہ تھی اور وہاں کچھوے بھی پائے جاتے تھے۔ اسی جنگل میں ایک بچھو اور کچھوا گہرے دوست بن گئے تھے۔ کچھوے کو قدرت نے خوبی دی ہے کہ وہ پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے ہیں، لہٰذا کچھوے کا جب تک دل چاہتا جنگل کی سیر کرتا رہتا اور پھر دریا میں اتر جاتا۔ بچھو اپنے دوست کچھوے کی اس زندگی پر رشک کرتا تھا۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اچھا، کچھوے اور بچھو‌ میں دوستی تو ہوگئی تھی، لیکن فطرت ان کی بہت الگ تھی۔ اکثر بڑے بزرگ کچھوے کو سمجھاتے تھے کہ دوستی اور میل جول برا نہیں اور جنگل کے سب جانور آخر کو آپس میں مل جل کر ہی رہتے ہیں، لیکن سب کی اپنی اپنی قوم اور نسل میں دوست بناتے ہیں۔ دوسرے جانوروں سے تعلق رکھنا الگ بات ہے مگر ان کے ساتھ دن رات گزارے نہیں جاسکتے۔ بزرگ کچھوے اس نوجوان کچھوے کو کہتے تھے کہ ہر جانور اپنی فطرت کے مطابق ہی عمل کرتا ہے۔ وہ اس سے باز نہیں‌ رہ سکتا۔ بچھو کی فطرت میں‌ ڈنک مارنا شامل ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ وہ برا نہیں مگر اپنی فطرت میں‌ ڈھلا ہوا ہے اور مجبور ہے۔ کچھوا اس بات کو سنی ان سنی کردیتا تھا۔

    ادھر بچھو کو دریا بہت پسند تھا اور وہ اس کی سیر کرنے کی خواہش رکھتا تھا لیکن تیرنا نہیں جانتا تھا اور ڈوبنے کے خوف سے پانی میں نہیں اترتا تھا۔ ایک دن اس نے کچھوے سے کہا: یار! ہمیں بھی کسی دن دریا کی سیر کراؤ۔

    کچھوے نے حیرانی سے کہا: “کیا تم تیرنا جانتے ہو؟“

    بچھو نے جواب دیا: ”اگر تیرنا جانتا ہوتا تو تمھیں کیوں کہتا۔“

    کچھوا بولا: ”پھر تم دریا کی سیر کیسے کر سکتے ہو۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم دریا کا نظارہ کنارے ہی سے کر لو۔“

    بچھو نے کہا: ” میرے پاس ایک ترکیب ہے۔ کیوں نہ تم مجھے اپنی پیٹھ پر سوار کر لو اور اگر تم پانی کی سطح پر تیرتے رہو گے تو مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس طرح سے ہم دونوں ایک ساتھ دریا کی سیر کا لطف اٹھائیں گے۔

    کچھوے نے بچھو کی بات سے اتفاق کیا۔ وہ دونوں دریا کے کنارے پر پہنچے۔ کچھوے نے بچھو کو اپنی پیٹھ پر سوار کیا اور پانی میں اتر گیا۔ بچھو دریا کی سیر سے بہت خوش تھا اور کچھوا اپنے دوست کی خوشی میں خوش تھا۔

    دریا میں کچھ دور جانے کے بعد کچھوے نے اچانک اپنی پیٹھ پر کھٹ کھٹ کی آواز سنی۔ دراصل بچھو اپنے دوست کچھوے کی پیٹھ پر زور زور سے ڈنک مار رہا تھا۔ کچھوے نے جب دوبارہ وہی آواز سنی تو اس نے بچھو سے پوچھا: یہ آواز کیسی ہے؟ بچھو نے جواب دیا: “یار! تمھیں تو پتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کسی شے کو ڈنک مارنا میری عادت ہے۔ اس لیے تمھاری پیٹھ پر ڈنک مار رہا ہوں ۔ کچھوے نے اسے سمجھایا اور باز رہنے کے لیے کہا لیکن وہ اپنی حرکت سے باز نہ آیا۔

    کچھوے کو اپنے بڑوں کی بات یاد آنے لگی۔ کئی بار سمجھانے کے بعد آخرکار تنگ آکر کچھوے نے پانی میں غوطے لگانا شروع کر دیے۔ بچھو جب ایک دو مرتبہ پانی میں‌ ڈوبا تو پریشان ہوگیا اور کچھوے سے کہا یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس طرح سے تو میں مر جاؤں گا ۔ کچھوے نے جواب دیا: “یار! تمھیں تو پتا ہے کہ پانی میں غو طے لگانا میری عادت ہے اور میں اپنی عادت سے باز نہیں رہ سکتا۔“ اگلے ہی لمحے بچھو پانی میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے دریا کی تہ میں جا پہنچا۔ اس طرح بچھو اور ان کی دونوں کی دوستی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • وزیر کا جھوٹ (حکایت)

    وزیر کا جھوٹ (حکایت)

    کسی بادشاہ نے ایک جرم میں‌ گرفتار شخص کو قتل کر دینے کا حکم دیا۔ سپاہی اسے کھینچ کر دربار سے باہر لے جا رہے تھے تو اس شخص نے سخت ناامیدی کے عالم میں بادشاہ کو برا بھلا کہا اور گالیاں دے دیں۔

    مزید سبق آموز حکایات اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    کسی نے سچ کہا ہے کہ جب جان پر بن آئے اور انسان کو فرار کی راہ سجھائی نہ دے بلکہ بے بس ہوجائے تو اپنی جان بچانے کی خاطر تلوار کی دھار کو بھی ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح جب آدمی اپنی زندگی سے ناامید ہو جاتا ہے تو اس کی زبان کھل جاتی ہے جس طرح مجبور بلّی تنگ آ کر کتّے پر حملہ کر دیتی ہے۔ یہی کچھ اس آدمی کے ساتھ ہوا۔

    بادشاہ نے پوچھا یہ قیدی کیا کہہ رہا ہے۔ ایک نیک خصلت اور ذہین و باتدبیر وزیر نے عرض کیا۔ حضور یہ قیدی کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو غصّہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی خطا معاف کر دیتے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کو رحم آگیا اور اس نے فوراً قیدی کی خطا معاف کرتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم سنایا۔

    دربار میں موجود ایک اور وزیر جو اس دانا وزیر سے حسد کرتا تھا، اس نے یہ دیکھا تو بول اٹھا، حضور! ہمارے ساتھی وزیر کو جھوٹ نہ بولنا چاہیے۔ اس قیدی نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہا اور گالیاں بھی دی ہیں۔

    بادشاہ نے اس کی بات سنی اور کچھ توقف کے بعد درباریوں کو مخاطب کرکے کہا کہ مجھے پہلے وزیر کی جھوٹی بات اپنے اس وزیر کی سچّی بات سے زیادہ پسند آئی۔ وہ بات اس موقع پر مناسب تھی اور یہ سچّ ہمارے ایک اور وزیر نے بُری نیت سے بولا۔ ایک جھوٹ سے مجھے رحم اور نرمی کرنے کا موقع ملا اور ایک سچ مجھے مشکل میں ڈال رہا ہے۔ میں اپنے وزیر کے برمحل جھوٹ سے خوش ہوا ہوں۔ اس موقع پر عقل مند لوگوں نے کہا کہ جھگڑا فساد پیدا کرنے والی سچّی بات سے وہ جھوٹ زیادہ بہتر ہے جس سے فساد اور انتشار مٹ سکتا ہو۔

    اکثر یہ حکایت شیخ سعدی سے منسوب کی جاتی ہے اور اس میں صاحبِ مسند اور بااختیار لوگوں کے لیے یہ سبق ہے کہ ایسا شخص جس کا کہا کوئی فرماں‌ روا بہت مانتا ہو، اسے چاہیے کہ ہمیشہ موقع کی مناسبت سے اور حالات کی نزاکت کو دیکھ کر صلاح دے اور اچھی بات کرے۔

  • اکیلے نہیں! (ایک فلپائنی کہانی)

    اکیلے نہیں! (ایک فلپائنی کہانی)

    آپ نے کئی دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں پڑھی ہوں گی جو اچھی تربیت کا ایک ذریعہ ہیں اور ابتدائی عمر میں‌ بچّوں کو بہت کچھ سکھاتی ہیں۔

    یہ کہانیاں عام طور پر بچّوں کی اخلاقی تربیت اور تفریحِ طبع کا سامان کرتی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے بچّوں کو ہنسی مذاق اور کھیل کھیل سیکھنے اور کئی باتوں کو سمجھنے کا موقع دیا ہے۔ یہ کہانی ان بچّوں کے لیے ہے جن کا خاندان ایک نئے ملک میں بسنے جارہا ہو اور اپنا وطن، اپنے عزیزوں اور دوستوں سے دور ہوجانے کا سوچ کر بچّے اداس ہوں۔ یہ درست ہے نئے ماحول اور لوگوں کے درمیان کسی کو بھی گھلنے ملنے میں مشکل پیش آتی ہے، لیکن بچّے عام طور پر شرمیلے ہوتے ہیں اور انھیں عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا تو وہ گھبراہٹ بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنے والدین پر بھروسہ کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا بہت خوب‌ صورت لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ جہاں بھی جائیں گے انھیں بہت مخلص لوگ اور اچھے اچھے دوست مل سکتے ہیں۔

    کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    جب ڈیلیسے صرف آٹھ سال کی تھی تو اس کی ماں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر انگلینڈ چلے جائیں گے۔

    ڈیلیسے کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کے والد کو کام تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم آپ کے دادا دادی اور آپ کی آنٹی کی کفالت کے لیے رقم بھیج سکیں۔‘‘

    نوجوان لڑکی منیلا میں اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی جو کہ فلپائن کا ایک بہت بڑا شہر ہے اور جب اس کی والدہ نے اسے یہ خبر سنائی تو اسے بہت دکھ ہوا۔

    مزید کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’لیکن میرے تمام دوستوں کا کیا ہو گا؟’ ڈیلیسے نے پوچھا۔ ’’میں انگلینڈ میں کسی کو نہیں جانتی اور میں اکیلی ہوں گی۔‘‘

    اس کی والدہ نے ڈیلیسے کو یقین دلایا کہ یہ ان تینوں کے لیے ایک دلچسپ مہم جوئی والی بات ہونے والی ہے اور جب وہ انگلینڈ میں اسکول شروع کرے گی تو ڈیلیسے بہت سے نئے دوستوں سے ملے گی۔ ڈیلیسے کو اپنی ماں کے مہربان الفاظ پر یقین نہیں آیا۔ اسے اپنا گھر پسند تھا اور وہ اسکول جانا پسند کرتی تھی جہاں وہ تمام اساتذہ کو جانتی تھی اور اس کے بہت سے دوست پہلے سے ہی تھے۔

    ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں انگلینڈ کیوں جانا پڑے گا۔‘‘ ڈیلیسے نے ایک رات پہلے سوچا جب خاندان نے جانا تھا۔ ’’میں انگلینڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے انگریزی بھی زیادہ نہیں آتی اور میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی!‘‘

    اس آخری احساس نے نوجوان لڑکی کو مزید اداس کر دیا اور اس نے دل سے خواہش کی کہ وہ منیلا میں اپنی آنٹی یا اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ سکے۔

    سفر بہت لمبا تھا اور ڈیلیسے بڑے ہوائی جہاز اور ہوائی اڈے پر بھاگنے والے تمام لوگوں سے مغلوب تھی۔

    جب یہ خاندان آخر کار انگلینڈ پہنچا تو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ ہر کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برمنگھم کے شہر کی عمارتیں بڑی اور سرمئی تھیں اور ڈیلیسے کو گھر جیسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔

    پہلا مہینہ اچانک گزر گیا جب خاندان کو رہنے کے لیے ایک گھر مل گیا اور ڈیلیسے کے والد کام کی تلاش میں باہر گئے تاکہ وہ فلپائن میں باقی خاندان کو پیسے واپس بھیج سکیں۔

    نوجوان لڑکی بہت اکیلی تھی، اور اگرچہ اس کی ماں اس کے ساتھ کھیل کھیلتی تھی اور اسے ادھر ادھر گھمانے کے لیے باہر لے جاتی تھی، ڈیلیسے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتی تھی اور یہ محسوس کرنے میں اپنے آپ کو نہیں روک سکتی تھی کہ وہ نئے شہر میں بالکل اکیلی ہے۔ رات کو وہ اپنے بستر پر روتی رہتی تھی اور وہ اکثر خواب دیکھتی تھی کہ اگلے دن اس کے والد اسے جگائیں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر لوٹنے والے ہیں۔ لیکن ہر صبح ڈیلیسے بیدار ہوئی اور اسے احساس ہوتا کہ شاید وہ پھر کبھی گھر واپس نہیں جائے گی۔

    ایک صبح، جب وہ دودھ کے ساتھ اناج کا عجیب سا ناشتہ کھا رہی تھی – سینانگگ کے اس کے معمول کے ناشتے کی طرح کچھ بھی نہیں جو مزیدار انڈوں سے بنے چاول تھے، ڈیلیسے کو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جانے والی ہے۔ اس کی ماں نے کہا، ’’آپ کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور نئے دوستوں سے ملنا بہت اچھا ہو گا۔‘‘

    لیکن ڈیلیسے یہ خبر سن کر خوش نہیں ہوئی۔ اسے گھر واپسی پر اپنے دوستوں کی یاد آتی تھی، اور اگرچہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلنا چاہتی تھی، لیکن وہ اسکول جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ ڈیلیسے نے بہت سارے بچوں کو دیکھا تھا جب اس نے اور اس کی والدہ نے برمنگھم شہر کی سیر کی تھی، لیکن کسی نے بھی اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ زیادہ انگریزی نہیں بولتی تھی جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ اسے اسکول میں مشکل پیش آئے گی۔

    جب صبح ہوئی، ڈیلیسے نے یہ بہانہ کرنے کی کوشش کی کہ اسے بخار ہے اور وہ اسکول کے لیے بہت بیمار ہے، لیکن اس کی ماں ہمیشہ بتا سکتی تھی کہ ڈیلیسے کب ڈرامہ کر رہی تھی اور اس لیے اسے کپڑے پہننے اور اپنا ناشتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

    ڈیلیسے اور اس کی ماں اسکول کے دروازے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی رہیں جہاں ان کی ملاقات مسز مری نامی ایک استانی سے ہوئی۔ استانی بہت ملنسار تھی اور اس نے ڈیلیسے کا اسکول میں خیرمقدم کیا اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ تین بجے دوبارہ آ کر اپنی بیٹی کو واپس لے سکتی ہیں۔

    صبح ایک دھندلے انداز میں گزری جب ڈیلیسے کا تعارف مزید اساتذہ اور بہت سارے بچوں سے ہوا جنہوں نے مسکرا کر ہیلو کہا۔ ڈیلیسے کو بہت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا کہا گیا لیکن یہ سمجھایا گیا کہ دوپہر کو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی کلاس میں جائے گی جو پوری دنیا سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

    جب ڈیلیسے بعد میں اس دوپہر کو کلاس روم میں پہنچی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر چلی گئی۔ اجنبیوں سے ملنے کے اتنے لمبے دن سے وہ بہت نروس تھی اور بہت تھک بھی گئی تھی۔ لیکن جب وہ اندر آئی تو مسز محمود نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا جو پاکستان سے تھیں۔

    دوستانہ بنے چاولتھے نے کہا، ’’ڈیلیسے اندر آؤ۔ آج ہم ایک کتاب پڑھ رہے ہیں جس کا نام پُس اِن بوٹس ہے اور بعد میں ہم کچھ گیمز کھیلیں گے اور پینٹنگ کریں گے۔‘‘

    نوجوان لڑکی نے دیکھا کہ کلاس روم میں موجود تمام بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک لڑکا زمبابوے سے اور دو لڑکیاں پولینڈ سے تھیں۔ البانیہ کی ایک بڑی لڑکی تھی اور ایک لڑکا جو ڈیلیسے سے بھی چھوٹا تھا جس نے کہا کہ وہ ایران سے ہے۔ اور اسے حیران کرنے کی بات یہ ہے کہ کلاس روم کے پچھلے حصے میں پُس اِن بوٹس کی ایک کاپی ہاتھ میں پکڑے کالیا نامی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، جو کہ فلپائن کی تھی!

    ’’یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!’ کالیا نے کہا، جو ڈیلیسے کی طرح حیران تھی۔

    دونوں لڑکیاں فوری دوست بن گئیں کیونکہ کالیا نے پُس اِن بوٹس کی کہانی کے بارے میں اور بتایا کہ انہوں نے مسز محمود کے ساتھ اپنی انگلش کو کیسے بہتر بنانا سیکھا جو پوری دنیا کی بہترین ٹیچر تھیں۔

    اس دوپہر، ڈیلیسے نے کلاس میں ہر ایک بچے سے بات کی، اور اگرچہ وہ ہر دفعہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن وہ ایک بات یقینی طور پر جانتی تھی: تمام بچے نئی زندگی شروع کرنے کے لیے انگلینڈ آئے تھے، اور اگرچہ کبھی کبھی کسی نئی جگہ پر ہونا خوفناک ہوتا تھا جہاں آپ زبان نہیں بولتے تھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی آس پاس ہوتا جو مدد کرتا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دنیا میں کہاں گئے ہیں، آپ کو ہمیشہ ایک دوست ملے گا۔ ڈیلیسے کو تب احساس ہوا کہ وہ کبھی تنہا نہیں ہو گی۔ انگلینڈ اس کا نیا گھر تھا اور وہ اس سے بہترین فائدہ اٹھانے والی تھی۔

  • ایک تھی بڑھیا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تھی بڑھیا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تھی بڑھیا اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ بیٹا بہت دور رہتا تھا۔ بڑھیا اکیلی تھی اور بیمار رہتی تھی۔

    ایک روز بڑھیا نے سوچا، چلوں اپنے بیٹے کے گھر۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔ اس کا گھوڑا بھی نہیں تھا اور نہ کوئی سنگی ساتھی۔ وہ کیا کرتی۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔

    بچوں کی مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    بڑھیا نے سوچا، میں کیا کروں۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاؤں۔

    بڑھیا کے گھر میں ایک بڑا سا مٹکا تھا۔ مٹکے نے کہا، ’’کیوں فکر کرتی ہو۔ میں لے جاؤں گا تمہیں، تمہارے بیٹے کے گھر۔‘‘

    بڑھیا خوش ہو گئی۔ اس رات بہت بارش ہوئی۔ ندی نالوں میں پانی آ گیا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔ گلیاں اور بازار پانی سے بھر گئے۔

    مٹکے نے کہا، ’’جلدی کر، چلیں۔‘‘

    ’’بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔ مٹکا پانی میں اتر گیا اور تیرنے لگا۔‘‘

    بڑھیا بولی، چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا۔ راستے میں جنگل تھا۔ جنگل میں جانور تھے۔

    جانوروں کو دیکھ کر بڑھیا ڈر گئی۔ کہنے لگی، ’’ہائے! مجھے جانور کھا جائیں گے۔‘‘

    مٹکا بولا، ’’ڈر کاہے کا؟‘‘

    بڑھیا نے کہا، ’’جنگل میں شیر بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکا بولا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    بڑھیا بولی، ’’جنگل میں لکڑ بگا بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکے نے کہا، ’’ہوتا رہے۔‘‘

    بڑھیا بولی، ’’جنگل میں ریچھ بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکے نے کہا، ’’شیر، لکڑبگا، ریچھ جنگل میں ہیں تو آتے کیوں نہیں۔‘‘

    یہ سن کر شیر، لکڑبگا اور ریچھ آ گئے۔

    شیر بولا، ’’ہام ہام ہام بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘

    لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘

    ریچھ کہنے لگا، ’’مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ بڑھیا کو مجھے کھانے دو۔‘‘

    بڑھیا بولی، ’’کیوں کھاتے ہو مجھے۔ میں تو کمزور سی ہوں۔ مجھے بیٹے کے گھر جانے دو۔ بیٹے کے گھر۔ اچھے اچھے کھانے کھاؤں گی تو موٹی ہوجاؤں گی۔ جب بیٹے کے گھر سے واپس آؤں گی تب کھا لینا۔‘‘

    شیر بولا، ’’ہوں۔‘‘ لکڑبگا اور ریچھ بولے، ’’ہوں‘‘

    بڑھیا کی جان میں جان آئی تو بولی،
    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ بڑھیا، جنگل سے نکل کر اپنے بیٹے کے گھر پہنچی۔ وہ بہت خوش تھی۔ بیٹے نے اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے بڑھیا نے جی بھر کر کھایا۔

    بڑھیا، کھا کھا کر خوب موٹی تازی ہو گئی۔ ایک دن بڑھیا کہنےلگی، ’’بیٹا ، اب میں اپنے گھر جاؤں گی۔‘‘

    بیٹا بولا، ’’خیر سے جائیں۔‘‘ بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔

    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ راستے میں جنگل تھا۔

    جنگل میں شیر، لکڑبگا اور ریچھ تھے۔ شیر نے مٹکے میں بیٹھی بڑھیا کو دیکھ لیا۔ کہنے لگا،

    ’’بڑھیا تو خوب موٹی تازی ہوکر آئی ہے۔‘‘

    لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ مجھے تو بھوک لگ گئی۔‘‘

    ریچھ نے کہا، ’’آؤ اب بڑھیا کو کھالیں۔‘‘

    جنگل کے سارے جانور مل کر بولے، ’’اچھا، تو اب ہم بڑھیا کو کھائیں گے۔‘‘ یہ سن کر بڑھیا بولی، ’’پہلے مجھے دو دو مٹھی ریت لا دو، تب کھانا۔‘‘ وہ مان گئے۔

    دو مٹھی ریت شیر لایا۔ دو مٹھی لکڑبگا اور دو مٹھی ریچھ لایا۔ بڑھیا اپنے ہاتھوں میں ریت لے کر بیٹھ گئی اور بولی،

    ’’آؤ، اب مجھے کھاؤ۔‘‘ جب وہ اسے کھانے کو آگے بڑھے تو بڑھیا نے مٹھی بھر بھر کر ریت ان کی آنکھوں میں ڈال دی۔ اب جانور اسے کیسے کھاتے۔

    بڑھیا بولی،

    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ جنگل کے جانور پیچھے رہ گئے اور بڑھیا اپنے گھر پہنچ گئی۔

    (مصنّف: مرزا حامد بیگ)

  • کنجوس آدمی کا سخی بیٹا (حکایت)

    کنجوس آدمی کا سخی بیٹا (حکایت)

    کسی ملک کے ایک قصبہ میں کوئی کنجوس شخص رہتا تھا لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ اس کا بیٹا بڑا بہت دریا دل اور سخی مشہور تھا۔ باپ جس قدر کنجوس تھا، بیٹا اس سے کہیں زیادہ فیاض تھا۔

    آخر وہ وقت آیا جب اس کا کنجوس باپ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوا اور ظاہر ہے کہ اس نے جو مال بچایا تھا اور جو دولت اکٹھا کی تھی، وہ اس کے مرنے کے بعد اولادوں کو مل گئی۔ اس شخص کے فیاض بیٹھے کو جو دولت ملی وہ اس نے فراخ دلی سے خرچ کرنا شروع کر دی۔ وہ اپنے قصبے کے غریب اور نادار لوگوں کی ضروریات پوری کرنے لگا اور کوئی سوالی اس کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کے ایک خیر خواہ نے اسے سمجھایا کہ دیکھو میاں ایسی دریا دلی بھی اچھی نہیں جو تم کو کنگال کر دے۔ دولت ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے، حالت بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ خزانوں کے مالک پل بھر میں خاک چھاننے لگتے ہیں۔ کچھ اپنے آڑے وقت کے لئے بھی بچا رکھو۔ کون جانے کل کیا ہو۔ اس لڑکے نے یہ سنا تو پوچھا کہ اگر میں نے اسی طرح اپنی دولت غریبوں کو دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور کنگال ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟

    اس آدمی نے کہا، یہ کیسی بات پوچھی، کیا تم نہیں‌ جانتے کہ آج متمول ہو اور کل خدانخواستہ مفلس ہو گئے تو فقیروں کی جھولیاں بھرنے والا خود فقیر بن کے دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانا چاہے گا؟ دیکھو میاں میں تمہارے بھلے کی بات کہتا ہوں۔ ہم تو تمہارے خیر خواہ ہیں۔

    اس سخی نوجوان نے اس آدمی کا جواب سنا اور بولا ’’اے میرے ہمدرد و ناصح سنو، تم مجھے جس دولت کے بارے میں نصیحت کر رہے ہو، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ بخشے میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے یہ دولت کوڑی کوڑی جوڑ کر جمع کی تھی، جسے آخرت کے سفر پر جاتے ہوئے وہ دوسروں کے لیے چھوڑ گیا ہے۔ یہی معاملہ میرے ساتھ پیش آئے گا۔ میں بھی اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جاؤں گا۔ ایسی صورت میں کیا یہ اچھا نہیں کہ میں اسے مستحق لوگوں میں خرچ کر دوں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ مجھے یقین ہوگا کہ میں اللہ کے گھر میں اس کا اجر پاؤں گا۔ یہاں میرے بعد میں جمع پونجی میری اولاد کیسے اڑائے گی یہ میں نہیں‌ جانتا۔ اس لیے مجھے اپنا کام کرنے دو اور میرے حق میں دعا کرو۔

  • خود غرض دیو(ادبِ اطفال سے انتخاب)

    خود غرض دیو(ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ہر سہ پہر اسکول سے واپسی پر وہ سب بچے دیو کے باغ میں کھیلنے کو جایا کرتے تھے۔ یہ باغ بہت ہی خوب صورت تھا، نرم ملائم گھاس کے فرش سے آراستہ، جا بجا خوشنما پھول کھلے ہوئے، یوں محسوس ہوتے جیسے تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔ یہی نہیں وہاں بارہ آڑو کے درخت بھی تھے جو بہار کے آتے ہی نازک نازک گلابی اور آبی رنگوں کے پھولوں سے بھر جاتے اور خزاں کے آنے تک مزے دار پھلوں میں تبدیل ہو جاتے۔

    پرندے ان درختوں پر آ کر بیٹھتے اور اتنے مسحور کن گیت گاتے کہ بچے اپنا کھیل روک دیتے اور انہیں سننے میں محو ہو جاتے، وہ ایک دوسرے سے کہتے ہم کتنے خوش ہیں یہاں۔

    ایک دن کیا ہوا، دیو واپس آ گیا، وہ دراصل اپنے دوست کورنش اوگر سے ملنے گیا ہوا تھا۔ وہ چونکہ بہت ہی مختصر گفتگو کیا کرتا تھا اس لئے اسے اپنی بات مکمل کرنے میں سات سال لگے، جب سات سال مکمل ہو گئے اور اس نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا تو اپنے قلعہ میں واپس آنے کا ارادہ کیا۔ جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ بچے باغ میں کھیل رہے ہیں۔

    ’’تم سب یہاں کیا کر رہے ہو‘‘ اس نے غراتے ہوئے اتنے زور سے کہا کہ بچے ڈر گئے اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    ’’یہ میرا باغ ہے اور میں اپنے سوا کسی کو بھی یہاں کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘ دیو نے غرور سے کہا۔ پھر اس نے باغ کے گرد ایک بہت اونچی دیوار تعمیر کی اور اس پر ایک نوٹس بورڈ آویزاں کر دیا جس پر لکھا تھا ’’بلا اجازت باغ میں آنے والوں کو سزا دی جائے گی۔‘‘

    دیو کی خود غرضی نے بچوں کو بہت آزردہ کر دیا۔ اب ان کے پاس کھیلنے کے لئے کوئی جگہ نہ رہی، انہوں نے سڑک پر کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ دھول مٹی اور پتھروں سے اٹی ہوئی تھی، انہیں یہاں کھیلنے میں بالکل مزہ نہ آیا۔

    وہ اسکول سے واپسی پر اس اونچی دیوار سے گھرے ہوئے باغ کے آس پاس منڈلایا کرتے اور باغ کے متعلق باتیں کیا کرتے۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے: ’’ہم باغ میں کتنی خوشی سے کھیلتے تھے۔‘‘
    ٭٭٭
    پھر بہار آن پہنچی، درختوں میں پھول کھلنے لگے اور تمام علاقہ ننھے پرندوں سے بھر گیا لیکن خود غرض دیو کے باغ میں ابھی تک موسم سرما باقی تھا۔ وہاں پرندے گیت گانے نہیں آتے تھے کیونکہ بچے جو وہاں نہیں تھے اور درختوں میں بور آنا تو جیسے بھول ہی گیا تھا۔

    ایک خوب صورت پھول نے گھاس سے سر اٹھایا لیکن جب نوٹس بورڈ کی طرف دیکھا تو بچوں کے لئے بہت اداس ہو گیا اور دوبارہ زمین میں دبک کر گہری نیند سو گیا۔

    وہاں صرف دو ہی لوگ خوش تھے اور وہ تھے برف اور کہر۔ بہار تو اس باغ کا راستہ ہی بھول چکی تھی۔ وہ دونوں خوشی سے چلّاتے ’’اب تو ہم سارا سال یہیں رہیں گے۔‘‘

    برف نے اپنے سفید دبیز کوٹ سے گھاس کو ڈھانپ دیا اور کہرے نے تمام درختوں کو چاندی سے رنگ دیا، پھر انہوں نے کرّۂ شمالی سے آنے والی سرد ہواؤں کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آ کر رہیں۔ چنانچہ ہوا کا طوفان بھی ان کے ساتھ آ کر رہنے لگا، اس نے بھاری فر کا کوٹ پہن رکھا تھا اور سارا دن زور زور سے باغ میں دھاڑتا رہتا یہاں تک کہ اس نے آتش دان تک الٹ پلٹ کر ڈالے۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں پڑھیں
    ’’آہا یہ تو بہت اچھی جگہ ہے‘‘ وہ خوش ہو کر بولا اور اولوں کو بھی وہاں آنے کی دعوت دی اور وہ بھی وہاں آ کر رہنے لگے۔ وہ ہر روز تین گھنٹے تک قلعہ کی چھت پر دھما چوکڑی مچاتے یہاں تک کہ چھت کے کئی کنگرے ٹوٹ کر گر گئے پھر وہ باغ میں نہایت تیزی سے دائروں کی صورت گھوما کرتے، انہوں نے سرمئی لبادہ پہنا ہوتا اور ان کی سانس برف کی طرح سرد اور کاٹ دار ہوتی۔

    خود غرض دیو پریشان تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس بار بہار کو آنے میں اتنی دیر کیسے ہو گئی۔ وہ اپنے کمرے کی باغ کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا جو سفید دودھیا برف سے ڈھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

    ’’مجھے امید ہے موسم جلد ہی تبدیل ہو جائے گا‘‘ اس نے خود کو یقین دلایا۔ لیکن وہاں بہار کبھی نہ آئی اور نہ ہی موسم گرما۔ خزاں نے سارے باغوں کو لذیذ پھل تقسیم کئے لیکن دیو کے باغ کو ایک بھی نہ دیا، وہ بولی ’’ہنھ دیو بہت خود غرض ہے۔‘‘

    سو وہاں موسم سرما ہی رہا اور شمال سے آنے والی سرد ہوا اور اولے، برف، ژالہ باری اور کہرا درختوں پر ادھر سے ادھر کودتے پھاندتے پھرا کرتے۔

    ایک صبح دیو اپنے بستر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک اس نے نہایت ہی دلفریب اور مسحور کن موسیقی کی آواز سنی، وہ اس کے کانوں کو بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی اس نے سوچا شاید بادشاہ کے موسیقار وہاں سے گزر رہے ہیں، لیکن در حقیقت وہ بہت ہی نازک اور خوش الحان بلبل نما پرندہ تھا جو اس کی کھڑکی کے باہر گیت گا رہا تھا۔ دیو نے عرصے سے اپنے باغ میں کسی پرندے کا گیت نہیں سنا تھا اس وقت یہ مدھر آواز اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔

    تب ہی اولوں نے برسنا چھوڑ دیا اور شمالی سرد ہوا کے جھکڑ بھی ٹھہر گئے۔ یک بیک بہت خوشبو کی لہر نے فضا کو معطر کر دیا جب یہ لہر کھلی کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس کی ناک سے ٹکرائی، تو اس نے بے اختیار اپنے بستر سے چھلانگ لگائی اور باہر باغ کی طرف دیکھنے لگا، اس نے خود کلامی کی۔ … اب مجھے یقین ہو گیا ہے بالآخر بہار آ ہی گئی‘‘
    ٭٭٭

    آخر اس نے ایسا کیا دیکھ لیا تھا؟ اس نے بہت ہی شاندار نظارہ دیکھا تھا۔ دیوار میں کئے گئے چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے بچّے باغ میں داخل ہو گئے تھے، اور درختوں کی شاخوں پر براجمان تھے۔ اسے ہر درخت پر ایک بچہ بیٹھا ہوا دکھائی دے رہا تھا ان کے واپس آ جانے سے درخت اتنے خوش تھے کہ انہوں نے خود کو پھولوں سے لبریز کر لیا تھا اور ان کی پھولوں بھری ڈالیاں اپنے بازو بچوں کے سروں کے گرد حمائل کئے محسوس ہو رہی تھیں۔ پرندے خوشی سے چہچہاتے پھر رہے تھے اور پھول ہری گھاس سے ایک بار پھر جھانکنے اور مسکرانے لگے تھے۔

    یہ ایک بہت ہی دلکش نظارہ تھا، لیکن باغ کے ایک کونے میں ابھی بھی موسم سرما موجود تھا، یہ باغ کا سب سے آخری سرا تھا جہاں ایک چھوٹا سا لڑکا کھڑا تھا۔ وہ اتنا ننھا منا سا تھا کہ درخت کی شاخوں تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی، وہ درخت کے تنے سے لپٹا بری طرح رو رہا تھا۔ بے چارہ درخت ابھی بھی کہرے اور برف سے اٹا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف شمالی سرد ہوا منڈلا رہی تھی۔ درخت نے بچے سے کہا ’’ننھے لڑکے اوپر آ جاؤ۔‘‘ اس نے اپنی شاخیں اتنی نیچے تک جھکا دیں جتنا کہ وہ جھک سکتا تھا مگر بچہ بہت ہی چھوٹا تھا وہ پھر بھی کسی شاخ کو نہیں تھام سکا۔

    دیو نے یہ منظر دیکھا تو اس کا دل موم ہو گیا۔ اس نے سوچا میں بھی کتنا خود غرض تھا، اب میری سمجھ میں آیا کہ بہار میرے باغ میں کیوں نہیں آ رہی تھی۔ میں اس ننھے بچے کو درخت پر بٹھا دوں گا اور باغ کے اطراف کی اونچی دیواریں ڈھا دوں گا، میرا باغ بچوں کے کھیلنے کے لئے ہمیشہ وقف رہے گا۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ تھا۔ پھر وہ سیڑھیاں اترتا نیچے پہنچا اور صدر دروازہ آہستگی سے کھول کر باغ میں چلا گیا، لیکن جب بچوں نے اسے دیکھا تو بہت خوف زد ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔ باغ پھر سے برف اور کہرے سے بھر گیا موسم سرما نے اسے پھر سے گھیر لیا تھا۔ صرف وہ ننھا لڑکا بالکل نہ ڈرا اور نہ وہاں سے بھاگا۔

    اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں، دیو نے اسے پشت سے تھاما اور آہستگی سے اپنے ہاتھ میں لے کر درخت کی شاخ پر بٹھا دیا، اور یوں درخت ایک بار پھر بور سے لد گیا، ہر طرف پھول ہی پھول کھل گئے۔ پرندے وہاں آ کر چہچہانے اور گیت گانے لگے، ننھے لڑکے نے اپنے بازو دیو کی گردن میں حمائل کر دیے اور اسے پیار کیا۔ جب دوسرے بچوں نے یہ دیکھا کہ اب دیو پہلے جیسا برا نہیں رہا تو وہ بھاگتے ہوئے واپس آ گئے اور بہار دوبارہ سے باغ میں ہر طرف پھیل گئی۔

    ’’یہ اب تمہارا باغ ہے ننھے بچّو!‘‘ دیو نے کہا۔ اس نے بڑی کلھاڑی اٹھائی اور دیوار کو مسمار کر ڈالا۔ جب دوپہر کے بارہ بجے لوگ مارکیٹ جانے کے لئے وہاں سے گزرے تو انہوں نے دیکھا دیو بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اتنا خوب صورت باغ انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
    ٭٭٭

    بچّے سارا دن وہاں کھیلتے رہے۔ شام کو دیو کو خدا حافظ کہنے آئے تو اس نے پوچھا ’’تمہارا وہ ننھا دوست کہاں ہے؟، وہی جسے میں نے درخت پر بٹھایا تھا، مجھے وہ بہت اچھا لگا تھا اس نے مجھے پیار بھی کیا تھا‘‘

    بچوں نے جواب دیا، ’’وہ تو چلا گیا، ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم‘‘

    دیو نے ان سے کہا، ’’اس سے کہنا وہ کل ضرور یہاں کھیلنے آئے‘‘ لیکن بچے تو اسے جانتے ہی نہیں تھے نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے، انہوں نے تو اسے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔

    دیو اس بات پر اداس ہو گیا۔ ہر دوپہر اسکول کی چھٹی کے بعد بچے دیو کے ساتھ کھیلنے اس کے باغ میں آتے مگر وہ لڑکا دوبارہ کبھی دکھائی نہ دیا۔

    دیو اب بچوں کے ساتھ بہت مہربانی سے پیش آتا۔ وہ اکثر ان سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کرتا اور اس کی باتیں کرتا وہ کہتا کہ وہ اسے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔

    وقت گزرتا گیا۔ ….. یہاں تک کہ دیو بوڑھا اور کمزور ہو گیا، وہ اب بچوں کے ساتھ کھیل نہ پاتا بس اپنی بڑی سی وہیل چیئر پر بیٹھا انہیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا۔ بچے اس کے باغ کو بہت سراہتے، اس پر وہ کہتا ’’میرے باغ میں بہت سے خوب صورت پھول ہیں لیکن بچوں سے بڑھ کر خوب صورت پھول کوئی نہیں۔‘‘

    سردیوں کی ایک صبح وہ اپنے کمرے میں کپڑے بدلتے ہوئے کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ اسے اب موسم سرما برا نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا یہ بہار اور پھولوں کے آرام کا وقت ہے، انہیں کچھ وقت کے لئے سونا بھی ہوتا ہے، باہر دیکھتے ہوئے اس نے حیرت سے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور خوب غور سے بار بار دیکھا جیسے اسے اپنی بصارت پر یقین نہ آیا ہو، یہ بلا شبہ بہت ہی خوب صورت نظارہ تھا، باغ کے انتہائی کونے میں ایک درخت سفید پھولوں سے لدا ہوا تھا اس کی شاخیں سنہری اور نقرئی پھلوں کے بوجھ سے زمین پر جھک آئی تھیں۔ ….. اور۔ …. ان کے نیچے وہی ننھا لڑکا کھڑا تھا۔

    دیو خوشی سے اچھلتا کودتا سیڑھیوں سے اتر کر باغ میں پہنچ گیا اور گھاس پر لوٹتا جب لڑکے کے قریب پہنچا تو اس کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔ اس نے بے چینی سے لڑکے سے پوچھا ’’تمہارے جسم پر زخموں کے نشان کیسے ہیں، کس نے تمہیں زخمی کیا‘‘ لڑکے کی ہتھیلیوں اور پیروں پر کسی کے تیز ناخنوں کے نشان تھے۔
    ٭٭٭

    ’’وہ کون ہے، جس نے تمہیں زخم دیے؟ مجھے بتاؤ۔‘‘ دیو بے تابی‘‘ چلّایا۔ ’’میں اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دوں گا۔‘‘

    ’’نہ۔۔۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’یہ تو پیار کے زخم ہیں‘‘دیو نے اچنبھے سے لڑکے کی طرف دیکھ کر سوال کیا ’’آخر تم کون ہو؟‘‘ ایک تکلیف دہ کراہ اس کے منہ سے نکلی اور وہ بچّے کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

    لڑکا دیو کو دیکھ کر مسکرایا اور اس سے کہنے لگا۔ ’’ایک بار تم نے مجھے اپنے باغ میں کھیلنے دیا تھا، آج میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے باغ میں لے جانے کو آیا ہوں۔ جانتے ہو میرا باغ کہاں ہے؟

    جنّت میں ہے میرا باغ!‘‘
    ٭٭٭
    اسکول سے واپسی پر بچے جب کھیلنے کے لئے باغ میں آئے تو انہوں نے دیکھا باغ کے آخری سرے پر درخت کے نیچے دیو لیٹا ہوا تھا۔ انہوں نے قریب جا کر دیکھا وہ تو مر چکا تھا اور سفید پھولوں نے اس کے جسم کو پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔

    (آسکر وائلڈ کی کہانی جسے سلمیٰ‌ جیلانی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)

  • پرنسپل کی ڈانٹ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    پرنسپل کی ڈانٹ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ہنی گرائمر اسکول پہلی کلاس سے لے کر پانچویں کلاس تک تھا۔ یہ اسکول اپنی پڑھائی لکھائی اور مناسب فیسوں کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ یہاں ڈسپلن کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کی ایک انوکھی بات یہ بھی تھی کہ مختلف مضمون پڑھانے کے لیے الگ الگ ٹیچرز نہیں تھیں بلکہ ہر کلاس کی ایک مس مقرر تھیں اور سارا سال وہی ایک کلاس کو پڑھاتی تھیں۔ یہ استانیاں نہایت تعلیم یافتہ اور مختلف کورسز کر کے یہاں آتی تھیں۔

    اسکول کی پرنسپل جو اس اسکول کی مالک بھی تھیں، ایک سخت انٹرویو لے کر ٹیچرز کی تعیناتی کرتی تھیں اور اچھی بات یہ تھی کہ ان استانیوں کی معقول تنخواہیں بھی مقرر کرتی تھیں جس کی وجہ سے ساری ٹیچرز بچوں کو مزید دل لگا کر پڑھاتی تھیں۔ اس اسکول کے پہلی کلاس سے لے کر چوتھی کلاس کے بچے بہت تمیز دار اور پڑھائی میں دلچسپی لینے والے تھے مگر پانچویں کلاس کے بچوں کی اکثریت بہت شرارتی اور پڑھائی میں کم دلچسپی لینے والی تھی۔ ان میں سے تقریباً تمام بچے ہی پہلی کلاس سے اس اسکول میں پڑھ رہے تھے اور اب پانچویں جماعت میں آکر خود کو سینئر سمجھنے لگے تھے اور انھیں مستقل کلاس میں بیٹھنا دشوار لگنے لگا تھا۔ وہ مختلف حیلے بہانوں سے اپنی مس سے اجازت لے کر ادھر ادھر گھومتے رہتے۔

    جن بچوں کو کھڑکی کے پاس بیٹھنے کی سہولت میسر تھی اور وہ جب یہ دیکھتے کہ مس بلیک بورڈ پر کچھ لکھ رہی ہیں تو وہ چپکے سے کھڑکی سے کود کر باہر چلے جاتے اور اسکول کے گراؤنڈ میں مزے سے کھیلتے۔ مس کو تو پتہ بھی نہیں چلتا تھا مگر کبھی کبھی پرنسپل صاحبہ پر ان کی نظر پڑ جاتی تو وہ اپنے چپڑاسی سے کہہ کر انھیں اپنے آفس میں بلا کر ڈانٹ پلا دیتی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کی کلاس ٹیچر کی بھی تھوڑی بہت سرزنش ہوجاتی تھی۔ اسکول کے چھوٹی کلاس کے بچوں پر رعب جمانا بھی اس پانچویں جماعت کے شرارتی بچے اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کی کلاس ٹیچر مس ندا بہت اچھی تھیں۔ وہ نئی نئی آئی تھیں۔ ان کے بارے میں ان کی کلاس کے بچوں کو یہ پتہ چلا تھا کہ ان کے پاس ماسٹر کی ڈگری ہے مگر گھر کے حالات سے مجبور ہو کر انھیں اس اسکول میں نوکری کرنا پڑ گئی تھی۔ وہ بچوں کو ڈانٹتی بھی نہیں تھیں اور ان پر بہت محنت کرتی تھیں اور ان سے یہ توقع کرتی تھیں کہ وہ بھی خوب دل لگا کر پڑھیں گے۔

    مگر چونکہ ان کی کلاس کے اکثر بچوں کی توجہ پڑھائی سے ہٹ گئی تھی اس لیے جب ماہانہ ٹیسٹ ہوئے تو اس کلاس کی کارکردگی کوئی خاص نہیں تھی۔ بیشتر لڑکے فیل ہوگئے تھے اور باقیوں نے جو مارکس لیے تھے وہ بھی تسلی بخش نہیں تھے۔ یہ رپورٹ جب پرنسپل صاحبہ کے پاس پہنچی تو ان کا پارہ ہائی ہوگیا۔ انہوں نے فوراً مس ندا کو اپنے کمرے میں طلب کیا۔ مس ندا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ انھیں کیوں طلب کیا گیا ہے۔ وہ گھبرا کر جلدی سے کمرے سے نکل کر ان کے آفس کی جانب گئیں۔

    سب بچوں کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ ان کے رپورٹ کارڈ پرنسپل صاحبہ کی ٹیبل پر موجود ہیں۔ سن گن لینے کے لیے مس ندا کے پیچھے طارق بھی نکلا اور گھوم کر پرنسپل صاحبہ کے کمرے کے عقب میں آگیا۔ طارق اپنی کلاس کے لڑکوں میں سب سے بڑا تھا۔ پرنسپل صاحبہ کے کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھا اور وہاں سے اندر کا منظر بہ آسانی نظر آرہا تھا۔

    طارق نے دیکھا کہ مس ندا سر جھکا کر پرنسپل صاحب کے سامنے بیٹھی ہیں۔ پرنسپل صاحبہ کے چہرے پر شدید غصے کے آثار تھے۔ وہ مس ندا کے سامنے رپورٹ کارڈ پھینک کر بولیں۔ “مس ندا فاطمہ۔ میں نے آپ کی گھریلو مجبوریاں دیکھ کر اپنے اسکول میں نوکری دی تھی۔ آپ کی کارکردگی سے میں بہت مایوس ہوں۔ پورے اسکول میں آپ کی کلاس کا نتیجہ سب سے برا ہے۔”

    اس بے عزتی پر مس ندا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ “میں تو بہت کوشش کرتی ہوں۔ چوتھی کلاس پاس کرنے کے بعد اس کلاس میں ان بچوں کا یہ پہلا مہینہ ہے۔ ویسے بھی وہ لوگ دو ماہ کی چھٹیاں گزار کر آئے ہیں اس لیے پڑھائی پر زیادہ دھیان نہیں دے سکے۔ آپ مجھے ایک موقع دیں، میں کوشش کروں گی کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔”

    مس ندا کی حالت دیکھ کر طارق کے جسم سے تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ مس ندا بہت اچھی تھیں اور سب بچوں سے بہت اچھا سلوک کرتی تھیں جس کی وجہ سے وہ لوگ بھی ان سے بہت محبّت کرتے تھے۔ ان کی اس بے عزتی نے طارق کو افسردہ کر دیا تھا۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ ہماری لاپروائی اور پڑھائی سے دور دور رہنے کی وجہ سے مس ندا کو ڈانٹ سننا اور بے عزتی برداشت کرنا پڑی ہے۔

    “میں آپ کو آخری موقع دے رہی ہوں۔ آپ کی کلاس کا رزلٹ اگر ایسا ہی رہا تو یہ ہمارے اسکول کے لیے بدنامی کا باعث بنے گا۔ لوگ اپنے بچے یہاں داخل نہیں کروائیں گے۔ میں مجبور ہوجاؤں گی کہ آپ کی جگہ کسی اور ٹیچر کا بندوبست کرلوں۔ اپنے اسکول کا معیار مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ بس اب جائیے۔” پرنسپل صاحبہ نے نہایت سخت لہجے میں کہا۔ اس سے زیادہ سننے کی تاب طارق میں نہیں تھی۔ وہ بھاگ کر واپس اپنی کلاس میں آیا اور جلدی جلدی اپنے ساتھیوں کو بتانے لگا کہ پرنسپل صاحبہ کے کمرے میں کیا ہوا تھا۔ ابھی اس کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ مس ندا بھی کلاس میں آگئیں۔ انہوں نے شکایت کا ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا۔ البتہ ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور وہ سر جھکا کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی تھیں۔ ان کا اداس چہرہ دیکھ کر طارق کا دل کٹ کر رہ گیا۔ دوسرے بچے بھی غمزدہ تھے۔ ان کی وجہ سے ان کی پیاری مس کی بے عزتی ہوگئی تھی۔

    طارق نے اپنی بوتل میں سے پانی نکالا اور ان کے پاس گیا۔ “مس پانی پی لیں۔”اس نے ہلکی سی لرزتی آواز میں کہا اور سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔ مس ندا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس سے پانی لے کر پی لیا۔ “شکریہ طارق”۔ انہوں نے گلاس واپس کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ اب انہوں نے اپنی حالت پر قابو پا لیا تھا۔ ان کے چہرے پر وہ ہی پہلی والی مسکراہٹ نظر آنے لگی تھی۔ انہوں نے ایک نظر پوری کلاس پر ڈالی اور بولیں۔ “بچو! انٹرویل کی گھنٹی بج گئی ہے۔ اب تم لوگ لنچ کر لو۔ یہ کہہ کر وہ خود بھی اٹھ کر اسٹاف روم میں چلی گئیں۔

    سراج اپنی جماعت کا مانیٹر تھا۔ ان کے جانے کے بعد وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کربولا۔ “دوستو طارق کی زبان سے ہم نے سب کچھ سن لیا ہے۔ لنچ کرنے کو ہمارا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ ہماری وجہ سے ہماری مس ندا پر پرنسپل صاحبہ نے غصہ کیا اس کا ہمیں بہت افسوس ہے۔ اگر ہم لوگ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے، ٹھیک طرح سے اپنا سبق یاد کرکے ٹیسٹ دیتے تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ وہ تو ہمیں بہت محنت سے پڑھاتی ہیں۔ یہ ہماری ہی کمزوری ہے کہ ہم دھیان نہیں دیتے۔ ہم سب ہی بہت شرمندہ ہیں۔ اس کا ازالہ ہم صرف اس طرح سے کر سکتے ہیں کہ خود کو بدل ڈالیں اور اپنی پڑھائی میں خوب دلچسپی لیں تاکہ انھیں آئندہ ایسی صورت حال سے دو چار نہ ہونا پڑے۔ہماری وجہ سے ہی انھیں آج یہ بے عزتی اٹھانا پڑی ہے”۔

    سب بچوں نے اس بات کا عہد کیا کہ اب وہ خوب دل لگا کر پڑھیں گے اور نہ صرف ٹیسٹوں میں بلکہ سالانہ امتحانوں میں بھی سب سے زیادہ مارکس لے کر دکھائیں گے۔ اگلے روز اسکول کی ٹیچرز سمیت دوسری کلاس کے سب بچوں کو ایک خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچویں کلاس کے وہ شرارتی بچے جو پورے اسکول میں بدنام تھے، اپنی کلاس میں موجود تھے اور پورے انہماک سے پڑھائی میں مشغول تھے۔ اس روز ان میں سے کوئی بھی واش روم جانے کے بہانے ادھر ادھر گھومتا نہیں دکھائی دیا تھا۔

    انٹر ویل ہوا تو بھی وہ لوگ خاموشی سے اپنے ساتھ لایا ہوا لنچ کھاتے دکھائی دیے۔ انٹر ویل کے بعد چھٹی تک ایک بار پھر وہ لوگ نہایت سنجیدگی سے اپنی پڑھائی میں مصروف رہے۔ مس ندا یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ آج انہوں نے بچوں کو جو کچھ بھی پڑھایا تھا وہ انھیں ازبر یاد ہوگیا تھا کیوں کہ انہوں نے اسے دلچسپی سے پڑھا تھا۔

    ایک ماہ بعد پھر ٹیسٹوں کے رزلٹ پرنسپل صاحبہ کی ٹیبل پر رکھے ہوئے تھے۔ وہ حیرت سے پانچویں کلاس کے بچوں کے رپورٹ کارڈ دیکھ رہی تھیں۔ کوئی بچہ ایسا نہ تھا کہ جس نے نوے پرسینٹ سے کم مارکس لیے ہوں۔
    وہ اپنی سیٹ سے اٹھیں اور پانچویں کلاس میں آئیں۔ مس ندا بورڈ پر لکھ رہی تھیں اور تمام بچے ان کی طرف متوجہ تھے۔ پرنسپل صاحبہ کو دیکھ کر وہ اپنی اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

    “مس ندا شاباش۔” انہوں نے مس ندا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ ”آپ نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔”

    “یہ سب ان بچوں کی محنت کا نتیجہ ہے”۔مس ندا نے مسکرا کر کہا۔

    پرنسپل صاحبہ نے خوش دلی سے کہا۔ “ہمارے اسکول کے سب سے زیادہ شرارتی بچے اب سب سے زیادہ اچھے بن گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ بورڈ کے امتحانوں میں بھی یہ ایسی ہی کار گردگی دکھائیں گے۔” پھر انہوں نے بچوں کو بھی شاباش دی اور چلی گئیں۔ طارق نے اپنا ہاتھ کھڑا کر کے کوئی بات کہنے کی اجازت طلب کی۔

    “ہاں طارق! کہیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔”مس ندا نے خوشدلی سے کہا۔ پرنسپل صاحبہ کی تعریف سن کر وہ خاصی خوش دکھائی دے رہی تھیں۔ “مس میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے”طارق کھڑا ہو کر بولا۔ ”جس طرح اولاد اچھے اچھے کام کر کے اپنے ماں باپ کا نام روشن کرتی ہے۔ ویسے ہی اچھے طالب علم خوب محنت سے پڑھ کر اپنے اپنے ٹیچرز کی عزت کا سبب بنتے ہیں۔ ہمارے ٹیچرز بھی ماں باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی عزت اور تکریم کرنے کے ساتھ ساتھ خوب دل لگا کر پڑھیں تاکہ جب ہم امتحانوں میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوں تو ان کی عزت میں مزید اضافہ ہو۔ ہم سے بڑی غلطی ہوئی تھی جس کی وجہ سے پرنسپل صاحبہ نے آپ پر غصہ کیا تھا۔ مس ہمیں معاف کر دیں۔”

    “اس اچھے رزلٹ کا کریڈٹ آپ لوگوں کو جاتا ہے۔ اس روز میں نے طارق کو میڈم کے کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانکتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس نے ہی آپ کو بتایا ہوگا کہ آپ کی ٹیچر پر کیا بیتی ہے۔ یہ آپ سب لوگوں کا اچھا پن ہے کہ اپنی ٹیچر کو آئندہ ایسی صورت حال سے بچانے کے لیے تمام شرارتیں چھوڑ کر خود کو پڑھائی کی جانب راغب کرلیا۔ ایسا صرف حساس بچے ہی کرتے ہیں۔ ایسے بچے دل کے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد ہونے والی باتوں سے باخبر رہتے ہیں اور دوسروں کے کہے بغیر بھی اچھے اچھے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اب رہی بات پرنسپل صاحبہ کے غصہ کرنے کی تو اگر پرنسپل صاحبہ کی ڈانٹ نہ پڑتی تو اس ماہ بھی ہماری جماعت کا وہ ہی رزلٹ ہوتا جو پچھلے ماہ تھا۔”مس ندا نے ہنس کر کہا۔ سب بچوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔

    (بچوں کے لیے سبق آموز اور اصلاحی کہانیاں لکھنے والے مختار احمد کی ایک کہانی)

  • احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    یہ رمز و نکتہ آفریں حکایت شیخ سعدی سے منسوب ہے اور اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ سعدی کہیں جارہے تھے اور انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، جس کی ایک بکری اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی آ رہی تھی۔

    شیخ سعدی اسے دیکھنے لگے۔ وہ جوان جس سمت منہ کرتا اور آگے بڑھتا بکری بھی اسی جانب چل پڑتی۔ حضرت سعدی نے اس سے سوال کیا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسّی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے؟

    شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ میری بات کا جواب دیے بغیر اس جوان نے اپنی بکری کے پٹے کو کھول دیا۔ اب دیکھتا ہوں کہ بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی ہے۔ وہ جوان آگے بڑھ رہا ہے اور پٹے سے آزاد ہونے کے بعد بھی بکری اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے چلتی رہی، کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ بکری نے اس جوان کے ہاتھ سے چارہ کھایا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ جوان سیر کرکے واپس ہوا اور مجھے وہیں راستے میں پایا تو بولا، اے صاحب، اس بکری کو یہ رسّی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔

    جوان مزید بولا، حضرت! ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہٰذا ہمیں برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کرنا چاہیے، کیونکہ جو تیری روٹی کھائے گا وہ کہیں تجھ سے وفا ضرور کرے گا۔

  • بے زبان کا خوف (حکایت)

    بے زبان کا خوف (حکایت)

    اگرچہ سینہ بہ سینہ اور قدیم کتابوں سے لی گئی اکثر کہانیوں کے مصنّف اور حکایتوں‌ کے اصل وطن کا علم ہمیں نہیں‌ ہے، مگر یہ عقل و شعور اور آگاہی کا خزانہ ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی حکایت ہے۔

    آپ نے بھی ایسی کہانیاں‌ اور قصّے پڑھے ہوں گے جو بہت دل چسپ ہوتے ہیں اور ان میں‌ ہمارے لیے کوئی سبق بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہاں‌ ہم قارئین کی دل چسپی اور توجہ کے لیے جو حکایت نقل کررہے ہیں‌، اسے عربی ادب سے ماخوذ بتایا جاتا ہے۔

    کسی بستی کے لوگ جھوٹ بولنے کے عادی تھے اور مقدمات میں سچ بات کہنے کے بجائے عدالت کے سامنے جھوٹی گواہی دینے اور مکر جانے کے لیے مشہور تھے۔

    اس بستی کے ایک مرد و عورت نے نکاح کرلیا جس کا کھل کر اعلان تو نہیں‌ کیا مگر نکاح شریعت کے مطابق تھا۔ یہ نکاح قاضی اور گواہوں کی موجودگی میں انجام پایا تھا۔

    کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں ناچاقی ہوگئی اور شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا، اور اسے تمام حقوق سے بھی محروم کر دیا۔ خاتون نے قاضی سے رجوع کیا اور اس کے روبرو کہا کہ شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے۔

    قاضی نے کچھ سوالات پوچھے اور تفصیل جاننے کے بعد کہا، تمہارے اس نکاح کی تو کسی کو خبر ہی نہیں۔ خاتون بولی، جناب ہمارا نکاح شریعت کے عین مطابق ہوا تھا مگر کسی وجہ سے ہم نے اس کو عام نہیں‌ کیا۔

    قاضی نے پوچھا: کیا تمھارے پاس اس نکاح کا کوئی گواہ ہے؟

    خاتون نے کہا، جی قاضی صاحب! دو گواہ بھی تھے، ان ہی کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا۔ قاضی نے عورت کے کہنے پر اس کے سابق شوہر اور ان گواہوں کو طلب کرلیا جن کا نام اور پتہ عورت نے بتایا تھا۔ مگر شوہر نے بھری عدالت میں خاتون کو پہچاننے سے انکار کردیا جب کہ گواہوں‌ نے بھی جھوٹ کا سہارا لیا وار کہا کہ وہ اس عورت کے نکاح کی تقریب میں شریک نہ تھے۔ انھوں نے بیک زبان ہور یہ تک کہہ دیا کہ ہم نے تو آج سے پہلے اس خاتون کو کبھی دیکھا تک نہیں۔

    قاضی صاحب نے ان کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے خاتون سے پوچھا۔ کیا تمہارے شوہر کے گھر پر کتّے ہیں؟

    خاتون نے کہا جی ہاں۔

    قاضی نے خاتون سے پوچھا۔ کیا آپ ان بے زبانوں کی گواہی کو قبول کریں گی؟

    خاتون نے کچھ سوچ کر کہا، جی قاضی صاحب مجھے ان کی گواہی اور فیصلہ قبول ہوگا۔ اس پر قاضی نے حکم دیا کہ خاتون کو اس شخص کے گھر لے جایا جائے۔ اگر وہ کتّے اس خاتون کو دیکھ کر بھونکنے لگیں تو یہ عورت جھوٹی ہے۔ اور اگر وہ اسے دیکھ کر خوش ہوں اور اس کا استقبال کریں تو مجھے خبر کرو۔ یہ حکم جاری ہوا تو قاضی اور عدالت میں موجود لوگوں نے اس عورت کے شوہر اور گواہوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ ان کے چہروں پر خوف نمایاں‌ تھا اور وہ اپنا جھوٹ پکڑے جانے کی وجہ سے پریشان نظر آنے لگے تھے۔

    تب قاضی کی آواز کمرۂ عدالت میں گونجی کہ فیصلہ تو ہوچکا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ کیا ضرورت ہے کہ وقت برباد کیا جائے اور انصاف میں تاخیر ہو۔ اس کے ساتھ ہی قاضی نے سپاہیوں کو حکم جاری کیا کہ طلاق دینے والے اور نکاح کے گواہوں کو گرفتار کیا جائے اور جھوٹ بولنے اور ایک عورت کی حق تلفی کی سزا کے طور پر کوڑے لگائے جائیں۔

    قاضی نے اپنے مشاہدے میں لکھا، وہ بدترین بستیاں ہوتی ہیں جن میں منصف کو انسانوں کے بجائے عقل و شعور سے عاری اور بے زبان جانوروں کی گواہی پر فیصلہ سنانا پڑتا ہے۔”

  • بہرام بادشاہ اور شہر بانو (لوک کہانی)

    بہرام بادشاہ اور شہر بانو (لوک کہانی)

    پرانے وقتوں میں بہرام نامی ایک بادشاہ گزرا ہے۔ وہ بہت خوبصورت، نیک سیرت، رحم دل اور انصاف پسند تھا۔ اس کے دور میں عوام خوش حال تھے۔ لیکن ایک بات بہت عجیب تھی کہ بادشاہ کبھی اپنے محل سے باہر نہیں نکلتا تھا اور کسی نے کبھی اس کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ ملک کے تمام حکومتی امور اس کا وزیر سر انجام دیا کرتا تھا۔ اس کی رعایا کے علاوہ قرب و جوار میں رہنے والے جنات بھی اس کی صورت دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ سب کی بڑی آرزو تھی کہ وہ بادشاہ کا دیدار کریں‌ لیکن اس سے محروم تھے۔

    ایک دیو جس کا نام سفید دیو تھا وہ دن رات بادشاہ کو دیکھنے کی ترکیبیں سوچتا رہتا۔ ایک دن دل میں یہ ٹھان کر کہ بادشاہ کو دیکھ کر رہوں گا وہ محل کی طرف چل پڑا اور دروازے پر کر پہنچ کر ملازمت کی درخواست کی۔ اسے خدمت گاروں میں رکھ لیا گیا۔ کافی عرصہ گزر گیا لیکن بادشاہ کو پھر بھی نہ دیکھ سکا۔ اس کے ذاتی کمرہ تک تو اس معمولی خدمت گار کو رسائی تھی ہی نہیں اور اس کی کوئی صورت نظر بھی نہیں آتی تھی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ بادشاہ کے پاس صرف اس کا وزیر بلا روک ٹوک جا سکتا تھا۔

    ایک دن اسے سوجھی کہ کیوں نہ وزیر کی کھال میں گھس کر اندر داخل ہوا جائے۔ چنانچہ اگلے دن وزیر جب بادشاہ کو سلام کرنے کی غرض سے آیا تو وہ اس کی کھال میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ کے خاص کمرے کے دروازے پر پہنچا تو خدام نے با آواز بلند وزیر کی آمد کی اطلاع دی۔ اجازت ملنے پر وزیر کمرے میں داخل ہوا اور بادشاہ کو سلام کرکے اپنی مخصوص نشست پر جا بیٹھا۔ بادشاہ اور وزیر امور سلطنت پر گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں وزیر نے عرض کی بادشاہ سلامت رعایا آپ کو ایک نظر دیکھنے کی بے حد متمنی ہے۔بہت سے لوگ تو آپ کو دیکھنے کی حسرت دل میں لئے اس جہان سے رخصت ہو چکے ہیں۔آپ اپنی رعایا کی یہ آرزو پوری فرما دیجیے۔ بادشاہ نے کہا مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میری رعایا مجھے اس قدر چاہتی ہے۔ کل صبح ہم شکار کے لئے نکلیں گے اور ہمارے ساتھ تمام امراء اور خاص ملازمین بھی ہمرکاب ہوں گے۔ وزیر باہر نکلا تو بادشاہ کا حکم تمام متعلقہ لوگوں تک اس تاکید کے ساتھ پہنچا دیا کہ صبح وقت مقررہ پر سب لوگ تیار رہیں۔

    سفید دیو وزیر کی کھال سے نکل کر شکار گاہ کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے آپ کو ایک نہایت خوبصورت سفید گھوڑے کے روپ میں ڈھال لیا جس پر سنہری زین کسی ہوئی تھی اور اس کی باگیں بھی سنہری تھیں۔ سفید دیو نے رات اسی شکل میں وہیں گزار دی۔

    اگلی صبح بادشاہ پورے تام جھام کے ساتھ اپنے محل سے نکلا۔ راستے کے دونوں طرف رعایا بیتاب نظروں سے اپنے بادشاہ کو ایک نظر دیکھنے کے لیے قطار اندر قطار کھڑی تھی۔ بادشاہ لوگوں کے نعروں کا جواب دیتا ہوا اپنے مصاحبوں کے جلو میں شکار گاہ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

    بادشاہ کے آگے آگے چلنے والے مددگار شکاری جب شکار گاہ کے قریب پہنچے تو سنہری زین اور سنہرے لگاموں والے خوبصورت سفید کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھیں‌ یہ بہت پراسرار لگا تھا اور وہ بادشاہ کے پاس واپس گئے اور اس پراسرار گھوڑے کے بارے میں بتایا۔ بادشاہ بھی اشتیاق میں گھوڑے کو ایڑھ لگا کر وہاں جا پہنچا۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ جاؤ اس گھوڑے کی سواری کر کے دکھاؤ۔ وزیر نے عرض کیا حضور یہ گھوڑا آپ کے شایان شان ہے اور لگتا ہے کہ صرف آپ ہی کی سواری کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ بادشاہ اپنے گھوڑے سے اتر ا اور بسم اﷲ پڑھ کر سفید گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ بادشاہ اپنے وزیر اور مصاحبوں کو واپسی کا حکم دے کر مڑ گیا۔ بادشاہ نے جب محسوس کیا کہ اس کی رانوں تلے ایک شاندار سواری ہے تو اسے ایڑھ لگا دی۔ گھوڑا اتنا تیز رفتار تھا کہ اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پیچھے آنے والے اس کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے۔

    ایک جگہ پہنچ کر گھوڑا اپنی اصلی یعنی سفید دیو کی شکل میں آ گیا اور بادشاہ کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ ایک بہت خوبصورت مکان میں پہنچ کر دیو نے بادشاہ بہرام کو کندھے سے اتارا۔ عزت کے ساتھ ایک عالیشان مسند پر بٹھایا اور سلام کر کے عرض کیا۔ آج میری دلی آرزو پوری ہوئی اور میں نے آپ کو دیکھ لیا۔ اب میں چاہتا ہوں آپ میرا بیٹا بن کر یہیں رہیں۔ آج سے آپ میری تمام دولت کے مالک ہیں۔ بادشاہ دیو کے آگے بے بس تھا اس لئے خاموشی سے اس کی ہر بات مان لی۔ وہ اب سفید دیو کی تحویل میں تھا۔ دیو اس سے روز ملتا اور نہایت محبت، شفقت اور عزت سے پیش آتا۔ کئی پریوں کو اس کی خدمت پر مامور کر دیا گیا تھا۔ وہ ان کے ساتھ باغات کی سیر کو جاتا تھا۔

    ادھر جب بادشاہ اپنے محل واپس نہ پہنچا اور کئی روز گزر گئے تو امرائے دربار نے رو پیٹ کر وزیر کو اپنا بادشاہ چن لیا اور عنان حکومت اس کے ہاتھوں میں سونپ دی۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ ایک دن سفید دیو کو اپنے بھائی کی طرف سے اس کے بیٹے کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ وہ بہرام بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بولا کہ وہ کچھ دنوں کو اپنے بھتیجے کی شادی میں شریک ہونے جا رہا ہے۔ پریاں موجود ہیں جو آپ کا پورا خیال رکھیں گی۔ پریوں‌ کو سفید دیو نے جاتے ہوئے کہا کہ ایک بات کا خیال رکھنا کہ جس باغ کا دروازہ بند ہے اسے کبھی نہ کھولنا۔

    اگلے روز بہرام پریوں کے ساتھ گھومتا ہوا جب بند دروازے والے باغ تک پہنچا تو پریوں کو اس کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ پریوں نے کہا کہ ہمیں یہ دروازہ کھولنے کا حکم نہیں ہے۔بادشاہ بہرام نے بہت اصرار کیا لیکن وہ نہیں مانیں۔ دراصل وہ باغ سفید دیو نے ایک نہایت حسین و جمیل پری شہر بانو کے لیے بنایا تھا۔ شہر بانو اس باغ میں ایک طرح سے قید تھی۔دیو اس کی محبت میں گرفتار تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن شہر بانو رضا مند نہیں تھی۔ اس بات سے دیو سخت ناخوش اور نالاں تھا۔ بادشاہ بہرام نے اگلے روز پھر دروازہ کھولنے کی ضد کی۔ اس نے پریوں سے کہا کہ اگر آج تم نے دروازہ نہ کھولا تو میں اپنی جان لے لوں گا۔ پریاں یہ سوچ کر ڈر گئیں کہ اگر یہ مرگیا تو سفید دیو ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔چنانچہ انہوں نے باغ کادروازہ کھول دیا۔ بہرام جب باغ میں داخل ہوا تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ باغ کیا تھا جنت کا ٹکڑا تھا۔ وہاں ایک بید کا درخت تھا جس سے آنسوؤں کی طرح خوشبودار پانی نکل کر تالاب کو معطر کر رہا تھا۔ اس روز بہرام گھوم گھام کر اپنے کمرے میں واپس آ گیا۔ اگلی صبح پھر اس باغ میں چلا گیا اور تالاب کے قریب ایک جھاڑی میں گڑھا کھود کر اس میں چھپ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ سات کبوترآکر بید کے درخت پر بیٹھ گئے۔ تھوڑا سستا لئے تو اس میں سے ایک بولا آؤ شہر بانو کی آمد سے پہلے تالاب میں ڈبکی لگالیں۔ یہ کبوتر اصل میں پریاں تھیں اور شہر بانو کی خدمت پر مامور تھیں۔ تالاب میں ڈبکی لگا کر وہ ساتوں اڑ گئیں اور کچھ ہی دیر بعد شہر بانو کو اپنے جھرمٹ میں لا کر تالاب کے کنارے ایک پلنگ پر بٹھا دیا۔ شہربانونے آتے ہی آدم بو آدم بو چلانا شروع کردیا اور حکم دیا کہ کوئی آدم زاد باغ میں گھس آیا ہے فوراً اسے ڈھونڈھ کر لاؤ۔ پریوں نے بہت تلاش کیا لیکن کوئی نہ ملا۔

    شہر بانو کا ملکوتی حسن دیکھ کر بادشاہ بہرام اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اب وہ اسے حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔ اس نے گائے کے گوبر سے بنے اپلوں کو جلایا اور شہر بانو کے وہ کپڑے اٹھا کر انہیں دھونی دینے لگا جو اس نے تالاب میں‌ نہانے کے لیے جاتے وقت اتارے تھے۔ پریاں یہ دیکھ کر غائب ہو گئیں اور شہر بانو اپنی برہنگی کی وجہ سے تالاب میں رہ گئی۔ اس نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا تم جو بھی ہو میرا لباس مجھے واپس کر دو۔ بہرام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن پھر شہر بانو نے منت کی اور پھر ایک پری نے کہا تو بہرام نے دھونی لگے ہوئے کپڑے اس کی طرف اچھال دیے۔ پری نے کپڑے پہن لئے لیکن کپڑوں میں اپلوں کی دھونی کی وجہ اس کی اڑنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔ یہ سب دراصل بادشاہ جانتا تھا اور ایک منصوبے کے تحت ایسا کیا تھا۔ اب اس نے تالاب میں‌ موجود شہر بانو کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔

    ادھر سفید دیو اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے بعد واپس آگیا اور شہزادہ بہرام کو سلام کرنے چلا گیا۔ دیو کی آواز سن کر دونوں بہت گھبرائے۔ بہرام نے ڈر کر شہر بانو کو چھپا لیا۔ دیو مزاج پرسی کے بعد واپس چلا گیا۔ اگلے روز جب دیو حاضر ہوا اور بہرام کو خاموش اور افسردہ پایا تو پوچھا تو اس نے سب کچھ بتا دیا اور یہ سن کر سفید دیو کو غصہ تو بہت آیا کیونکہ وہ خود بھی شہر بانو کو چاہتا تھا۔ لیکن بہرام کو بیٹا بنا چکا تھا اس لیے اسے معاف کردیا اور دونوں کا نکاح کروا دیا۔

    کافی عرصہ بیت گیا۔ ایک روز شہزادہ بہرام نے ایک بھیانک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کہ اس کے ملک میں عنان حکومت ایک شہنائی بجانے والے میراثی کے ہاتھوں میں آ چکی ہے جو اس کی بیوی اور بچوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ اس نے شہربانو کو یہ بتایا اور دونوں نے سفید دیو کی خدمت میں حاضر ہو کر اس سے زمین پر جانے کی اجازت طلب کی جو فوراً مل گئی۔ دیو نے اپنا ایک بال اسے دیا اور کہا جب میری ضرورت ہو تو اسے آگ دکھا دینا میں مدد کو حاضر ہو جاؤں گا۔ بہرام اور شہر بانو ایک گھنٹے کے بعد ملک کی سرحد پر پہنچ گئے۔ عین سرحد پر انہیں ایک چھوٹا سا مکان نظر آیا۔ دروازے پر دستک دی تو ایک بوڑھا آدمی باہر نکلا اور بات کرنے پر دونوں کو گھر کے اندر لے گیا۔ اندر پہنچ کر اس نے شہزادہ بہرام کو پہچان لیا کیوں کہ وہ اس کا اتالیق تھا۔ وہ اتالیق کے کہنے پر چند روز اس کے گھر رک گیا اور ایک روز ملک کا وہی حکمران جسے بہرام کی جگہ بادشاہ مقرر کیا گیا تھا شکار کے لئے ادھر آنکلا۔ جب وہ بوڑھے کے مکان کے قریب سے گزرا تو اس کی نظر کھڑکی میں بیٹھی شہر بانو پر پڑ گئی جس کے حسن نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر کے رکھ دیا۔ اس نے اپنے دو پیادوں کو حکم دیا کہ گھر کے اندر جاؤ اور وہاں جو عورت ہے اس سے کہو کہ ملک کا بادشاہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ دونوں پیادے جب گھر میں داخل ہوئے تو شہر بانو کی خوبصورتی دیکھ کر بیہوش ہو گئے۔ کافی دیر تک جب وہ باہر نہیں آئے تو اس نے شادی کے پیغام کے ساتھ دو اور پیادے اندر بھیجے۔ پیادوں نے بادشاہ کا پیغام شہر بانو کو پہنچایا تو اس نے جواب دیا میں شادی شدہ ہوں تمہارے بادشاہ سے شادی نہیں کر سکتی۔ بادشاہ کو جب یہ جواب ملا تو اس نے حکم دیا کہ اسے زبردستی اٹھا لاؤ۔ لیکن وہ جادوئی لباس پہن کر بوڑھے اتالیق کو اپنا پیغام دے کر پرواز کرگئی۔

    بوڑھے اتالیق نے شہر بانو کا پیغام سن لیا اور شہزادہ بہرام کو بتانے دوڑا۔ یہ جان کر بہرام نے آگ جلائی اور سفید دیو کا دیا ہوا بال اس میں پھینک دیا۔ دیو فوراً حاضر ہو گیا اور بادشاہ کے پیادوں اور تمام لشکری کو ہڑپ کر گیا۔

    اب بہرام نے محل کا رخ کیا اور سب اسے دیکھ کر حیران ہوگئے۔ اس نے بوڑھے اتالیق کو قائم مقام بادشاہ مقرر کیا رعایا کو نصیحت کی کہ میرے واپس آنے تک ان کی اطاعت تم پر فرض ہے۔ میں اپنی بیوی شہر بانو کو لینے شہر شاسکن جا رہا ہوں۔ لیکن یہاں ایک مصیبت یہ تھی کہ وہ اس شہر شاسکن کا راستہ نہیں‌ جانتا تھا اور پھر سفید دیو کے ایک ساتھی نے مدد کی تو وہ اس نئے سفر پر روانہ ہوسکا جہاں شہر بانو اس کی منتظر تھی۔ بہرام اور شہر بانو دوبارہ اپنے ملک پہنچے تو رعایا نے پورے جوش و خروش کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ بادشاہ کی حیثیت سے بہرام نے بوڑھے اتالیق کو اپنا وزیر مقرر کر لیا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (ہنزہ کی لوک کہانی کا انگریزی سے ترجمہ اور تلخیص)