Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)

    چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)

    چار دیہاتی ایک قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ وہ صبح سے سہ پہر تک مچھلیاں پکڑتے رہے۔ جب بہت ساری مچھلیاں پکڑ لیں تو ان کو بانس میں پرو کر اپنے اپنے کندھے سے لٹکا لیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ چاروں بہت خوش تھے۔

    ایک نے کہا، "آج کا دن تو بہت اچھا رہا۔ ہماری بیویاں اتنی ساری مچھلیاں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔”

    دوسرے نے کہا، ” ہاں، اور ہم سب کے گھر والے خوب مزے لے کر مچھلیاں کھائیں گے۔” باقی دو دیہاتی کچھ نہیں بولے اور ان کی باتوں پر صرف سَر ہلا دیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور گئے تھے کہ ان میں سے ایک اچانک رک گیا۔ وہ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر عجیب عجیب سی نظروں سے دوسروں کو دیکھنے لگا۔

    اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے پوچھا، "کیا ہوا؟”

    اس کے منہ سے نکلا، "چوتھا کہاں گیا؟”

    باقی سب نے ایک آواز ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟”

    وہ بولا "بھئی دیکھو! صبح جب ہم گھر سے آئے تھے تو چار تھے۔ اب ہم صرف تین ہیں۔ چوتھا کہاں گیا؟”
    اس بات پر سب حیران ہو گئے۔ اب دوسرے نے گننا شروع کیا، "ایک، دو، تین۔” اس نے خود کو چھوڑ کر باقی کو گنا اور بول اٹھا، "ارے واقعی چوتھا کہاں گیا؟” ان دونوں کو پریشان دیکھ کر باقی دو دیہاتیوں نے بھی باری باری سب کو گنا اور چونکہ ہر دیہاتی خود کو نہیں گنتا تھا، اس لیے ان چاروں کو یقین ہوگیا کہ وہ واقعی تین رہ گئے ہیں اور ان میں سے ایک غائب ہے۔ اب تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔ وہ سوچنے لگے چوتھا اگر غائب ہوا تو کیسے، وہ سب تو ساتھ ہی تھے۔

    آخر ان میں سے ایک چیخا، "ہو نہ ہو، وہ بے وقوف ابھی تک مچھلیاں پکڑ رہا ہو گا۔”

    اس کی یہ بات سب کے دل کو لگی۔ وہ دریا کی طرف بھاگے، مگر دریا کے کنارے پر تو کوئی بھی نہ تھا۔ انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ ایک روہانسا ہو کر بولا، "آخر اسے ہوا کیا؟ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟”

    ایک دور کی کوڑی لایا، "ہو سکتا ہے وہ دریا میں گر گیا ہو۔ آؤ دیکھیں ورنہ اس کی بیوی ہمارا نجانے کیا حشر کرے۔”

    وہ ادھر ادھر ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملا، البتہ ایک مکّار اور کام چور آدمی ان کو مل گیا۔ وہ کافی دیر سے چھپ کر ان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ یہ سب بیوقوف اور گاؤدی ہیں۔ اس نے ان سے مچھلیاں ٹھگنے کی ٹھانی۔

    وہ اچانک ان کے سامنے آ کر بولا، "شام بخیر دوستو! کیسے ہو؟”

    ان میں سے ایک بولا، "ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔”

    وہ بناوٹ سے بولا، "ارے! کیا ہو گیا؟”

    ان میں‌ سے ایک دہیاتی نے سارا ماجرا اس کے سامنے رکھا کہ ہم چاروں دوست گھر سے شکار کو آئے تھے، مگر ہمارا چوتھا ساتھی غائب ہوگیا ہے۔ وہ چالاک شخص دل ہی دل میں ان پر ہنس رہا تھا مگر بناوٹی لہجے میں فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے بولا، "ادھر ادھر دیکھا بھی ہے؟”

    چاروں افسردہ ہو کر بولے، "ہاں بڑا تلاش کیا، مگر وہ مل ہی نہیں رہا۔” "اب ہم اس کی بیوی سے کیا کہیں گے۔ وہ تو ہماری جان کو آ جائے گی۔ ہے بھی بڑی لڑاکا۔”

    مکّار اور کام چور آدمی نے مصنوعی حیرت سے یہ سب باتیں سنیں۔ کچھ دیر یونہی سامنے گھورتا رہا، پھر اچانک لرزنے لگا اور گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ چاروں اس کی حالت دیکھ کر اور بھی ڈر گئے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا، تم کہہ رہے تھے کہ تم چار تھے۔”

    "ہاں ہم چار تھے۔”

    "دریا پر تم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں؟”

    "ہاں ہم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں۔”

    "لیکن اب صرف تین رہ گئے ہو۔” وہ بظاہر لرزتا ہوا مگر اندر سے اپنی ہنسی ضبط کرتا ہوا بولا۔

    چاروں نے ایک آواز ہو کر کہا، "ہاں ہم صرف تین رہ گئے ہیں۔”

    وہ آدمی بولا، "اوہ میرے الله!”

    وہ چاروں لرز گئے، "کیا ہوا؟”

    وہ بری طرح کانپنے لگا اور بولا، "مجھے ڈر لگ رہا ہے۔”

    وہ بے وقوفوں کی طرح بولے، "ڈر تو ہمیں بھی لگ رہا ہے، مگر کس بات سے یہ معلوم نہیں۔”

    مکّار شخص کانپتے ہوئے بولا، "میں بتاتا ہوں کہ مجھے ڈر کیوں لگ رہا ہے۔ وہ چوتھا اسی لیے غائب ہے کہ وہ تمہارا دوست تھا ہی نہیں۔”

    چاروں کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ وہ بولے، "پھر کون تھا وہ؟”

    مکّار آدمی بولا، "وہ؟ وہ تو جنّ تھا۔ وہ جن تھا جنّ۔۔۔۔”

    یہ کہہ کر وہ گاؤں کی طرف بھاگ نکلا۔ ان چاروں احمقوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر انہوں نے اپنا اپنی مچھلیاں وہیں پھینک دیں اور خود بھی یہی چیختے ہوئے بھاگ نکلے، "وہ جنّ تھا جنّ۔”

    وہ ایسے بھاگے کہ مڑ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کام چور آدمی جو ان سے پہلے بھاگ نکلا تھا، کدھر ہے۔ وہ تو ایک پیر کے پیچھے چھپ گیا تھا اور ان بے وقوفوں کے بھاگتے ہی پیڑ کی اوٹ سے نکل کر ان کی مچھلیاں جمع کرنے لگا۔ وہ ان بے وقوفوں‌ کی شکار کی ہوئی مچھلیاں اپنے گھر لے گیا۔

    اس مکّار اور کام چور شخص کی بیوی اس سے بڑی تنگ تھی۔ وہ کوئی کام دھندا نہیں‌ کرتا تھا اور دن بھر گھر سے باہر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔ اس کی بیوی محنت مزدوری کرکے کسی طرح کنبے کا پیٹ بھرنے پر مجبور تھی۔ آج اس عورت نے سوچ رکھا تھا کہ آتے ہی اس کام چور کی خبر لوں گی، لیکن کام چور کی قسمت اچھی تھی۔

    اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں، کیوں کہ وہ ڈھیر ساری مچھلی لے کر آیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بولا، "صبح سے اب تک دریا پر مچھلیاں پکڑتا رہا، بہت تھک گیا ہوں۔ اب تم جلدی سے ایک بڑی مچھلی پکا کر مجھے کھلا دو، بہت بھوک لگ رہی ہے۔ باقی کو اس طرح رکھ دو کہ وہ خراب نہ ہوں۔”

    "ہاں، ہاں، کیوں نہیں‌، اتنی محنت تم نے کی ہے، میرا فرض بنتا ہے کہ تم کو مزیدار سالن بنا کر دوں، آج تو کمال ہی ہوگیا۔” بیوی نے کہا اور چولھے کی طرف بڑھ گئی۔ کام چور چارپائی پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔ وہ دل ہی دل میں ان بے وقوفوں پر ہنس رہا تھا اور اپنی بیوی کو دھوکا دینے پر خوش بھی تھا۔

    سچ ہے کاہل اور کام چور آدمی سے غیر ہی نہیں اپنے بھی نہیں‌ بچ پاتے اور وہ سب کو یکساں طور پر دھوکا دیتا ہے۔

    (ملایا کی یہ لوک کہانی بچّوں کے ماہ نامہ ‘نونہال’ میں‌ 1988ء میں شایع ہوئی تھی جس کے مترجم اشرف نوشاہی ہیں)

  • سترنگا ہیرا

    سترنگا ہیرا

    کسی ملک پر ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ کے سپاہی آئے روز شہریوں اور محل میں آنے والے فریادیوں کو تنگ کرتے اور ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کی گردن تک مار دیتے۔ اگر کوئی بھی شخص ان کی شکایت کرنے بادشاہ کے پاس جاتا تو بادشاہ کہتا کہ تم ہمارے سپاہیوں پر الزام لگاتے ہو اور جلّاد کو حکم دیتا کہ اس کا سَر قلم کر دیا جائے تاکہ دوسرے عبرت حاصل کریں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بادشاہ کے خلاف بات کرتا تو سپاہی فوراً اسے گرفتار کرلیتے اور سخت ترین سزا دی جاتی۔ رعایا بادشاہ اور اس کے سپاہیوں سے متنفر ہو چکے تھی۔

    بادشاہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام شہزادی نشاط تھا۔ بادشاہ کو اس سے بہت پیار تھا۔ شہزادی نشاط جب اٹھارہ برس کی ہوئی تو ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئی۔ اس کا جسم موم کی طرح گھلتا ہی جا رہا تھا۔ اس بیماری کا علاج کسی کے پاس نہ تھا۔ شاہی حکیم اور ہر شہر کے بڑے طبیب جواب دے چکے تھے۔ ایک دن بادشاہ کے خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے تو بادشاہ بزرگ کے پاؤں پر گر پڑا اور اپنی بیٹی کی بیماری کا علاج پوچھنے لگا۔ بزرگ نے کہا، ’’یہ تیرے ظلم کی سزا ہے۔ اگر تو اللہ کی مخلوق پر ظلم نہ کرتا تو یہ پریشانی نہ آتی۔ اگر تم اپنی بیٹی کو صحت یاب دیکھنا چاہتے ہو تو اللہ کی مخلوق پر ظلم کرنا چھوڑ دو، عدل کے ساتھ حکومت کرو، کیا تم یہ کر سکتے ہو؟ پھر میں بتاؤں گا کہ تمہاری بیٹی کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے کہا ’’میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ بزرگ نے کہا’’ اب میری بات غور سے سن، یہاں سے جنوب کی طرف 12 کوس دور ایک سردار کے لشکر نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے، اس کا ایک بے حد خاص درباری ہامان ہے، اس کے پاس طلسمی انگوٹھی ہے، اگر اس کو راضی کرلیا تو سمجھو تمہاری بیٹی کا علاج ہو گیا۔ اب تم انصاف کے ساتھ حکومت چلانا اور کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کرنا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر بزرگ غائب ہو گئے۔

    بادشاہ نے اگلے روز وزیر اور سپاہیوں کو لیا اور سردار کے لشکر کی طرف چل پڑا۔ چند گھنٹوں بعد سردار کے سامنے حاضر ہوا، دعا سلام کے بعد بادشاہ نے اپنی پریشانی بتائی تو سردارنے فوراً ہامان کو بلایا اور اسے یہ سب بتایا۔ ہامان بولا ’’عالی جاہ! آپ کہتے ہیں تو میں یہ کام کرتا ہوں اور بیماری کا علاج ڈھونڈ لوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر ہامان وہاں سے نکل گیا، پھر اپنی طلسمی انگوٹھی سے پوچھا ’’اے طلسمی انگوٹھی مجھے بتاؤ کہ شہزادی نشاط کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے؟ تو طلسمی انگوٹھی نے بتایا کہ یہاں سے شمال کی طرف تین کوس دور ایک جنگل ہے، اس میں ایک سیاہ غار ہے، اس کے اندر ایک شیش ناگ رہتا ہے، اسے مار کر اس کے منہ سے ایک سترنگا ہیرا نکال لینا۔ اگر وہ ہیرا شہزادی کے بالوں میں دو دن تک باندھ دیا جائے تو شہزادی صحت یاب ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر ہامان اس جنگل کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر ہی دم لیا۔ اس نے غار ڈھونڈ کر اس میں موجود شیش ناگ کو اپنی تلوار سے مار کر ہیرا نکالا اور بادشاہ کے ساتھ اس کے ملک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر شہزادی نشاط کے بالوں میں وہ سترنگا ہیرا باندھا گیا تو وہ ٹھیک ہونے لگی۔ ہفتہ بھر میں شہزادی خود بخود چلنے پھرنے لگی۔ یہ دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور ہامان کے لیے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا۔ ہامان نے بادشاہ سے انعام لیا اور کئی خچروں پر لاد کر اپنے سردار کے پاس لوٹ گیا۔ بادشاہ نے کئی محافظ بھی اس کے ساتھ روانہ کیے تاکہ اسے منزل پر پہنچا سکیں۔ اس کے بعد بادشاہ بھی عدل کے ساتھ حکومت کرنے لگا اور ظلم و ستم سے باز آگیا۔

    (بادشاہ اور طلسماتی دنیا کی کہانیاں)

  • خطا کس کی؟

    خطا کس کی؟

    کہانیاں اور حکایات سبق آموز بھی ہوتی ہیں اور بہت سی حکایات ہماری اخلاقی تربیت اور اصلاحِ احوال کے علاوہ ہمیں پُر لطف اور دل چسپ انداز میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ایک مختصر اور بہت سادہ حکایت ہے جو نہ صرف پُرلطف ہے بلکہ اثر انگیز بھی ہے۔

    ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور بارشوں کا موسم تھا۔ وہ غریب آدمی اُس چھت کو کسی طرح سدھارنے کی کوشش کررہا تھا اور اس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا تاکہ برسات میں کمرے پانی سے بچے رہیں۔ اتفاق سے ایک سخی اور امیر شخص اُدھر آ نکلا۔ اس غریب آدمی کو یہ سب کرتا ہوا دیکھ کر اس نے کہا۔ بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘

    غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! آپ کا فرمانا تو بے شک بجا ہے اور میں بھی جانتا ہوں۔ مگر حضور! میرے پاس پکی چھت بنوانے کے لیے رقم کہاں؟‘‘

    امیر آدمی نے اس سے پوچھا۔ ’’پکی چھت بنانا چاہو تو اس پر کیا لاگت آئے گی؟‘‘

    غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! ڈیڑھ سو روپے تو لگ ہی جائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر امیر نے جھٹ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس غریب کو ڈیڑھ سو روپے نکال کر دے دیے۔ اور یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ جاؤ اس سے اپنا کام چلاؤ۔

    جب امیر کی دی ہوئی رقم اس غریب نے گنی تو اس پر شیطان حاوی ہوگیا اور اسے بہکایا کہ یہ تو بڑا سخی دولت مند تھا۔ تم نے بیوقوفی کی، اگر پانسو کہتے تو اتنے ہی دے جاتا۔ غریب نے سوچا کہ اس نے بڑی غلطی کر دی ہے۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ اچانک اس غریب نے آگے قدم بڑھا دیے اور سیدھا اس سخی انسان کے بڑے سے مکان پر پہنچا اور اسے بلا کر کہنے لگا، جناب! میں نے اندازے میں غلطی کی تھی۔ چھت پر پانسو روپے خرچ ہوں گے۔‘‘

    امیر نے یہ سن کر کہا۔ ارے، اچھا بھائی، وہ ڈیڑھ سو کہاں ہیں جو میں نے تمھیں دیے تھے؟‘‘

    غریب آدمی نے فوراً‌ رقم نکال کر اس کے سامنے کر دی۔ امیر آدمی نے وہ رقم اٹھائی اور اپنی جیب میں رکھ کر کہا۔ ’’جاؤ، میری تو اتنی حیثیت نہیں کہ تم کو پانسو دے سکوں۔ کوئی اور اللہ کا بندہ دے دے گا۔

    یہ دیکھ کر غریب بہت گھبرایا۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا؟ امیر آدمی اس کی طرف دیکھے بغیر اپنے گھر کے اندر چلا گیا- وہ غریب یہ کہتا ہوا گھر کو پلٹ آیا کہ امیر کی کوئی خطا نہیں۔ یہ میرے ہی لالچ کی سزا ہے۔

  • بوتل کا قیدی

    بوتل کا قیدی

    وہ ایک بڑا سنسان جزیرہ تھا۔ اونچے اونچے اور بھیانک درختوں سے ڈھکا ہوا۔ جتنے بھی سیاح سمندر کے راستے اس طرف آتے، ایک تو ویسے ہی انھیں حوصلہ نہ ہوتا تھا کہ اس جزیرے پر قدم رکھیں۔ دوسرے آس پاس کے ماہی گیروں کی زبانی کہی ہوئی یہ باتیں بھی انھیں روک دیتی تھیں کہ اس جزیرے میں آج تک کوئی نہیں جا سکا اور جو گیا وہ واپس نہیں آیا۔ اس جزیرے پر ایک انجانا خوف چھایا رہتا ہے۔ انسان تو انسان پرندہ بھی وہاں پر نہیں مار سکتا۔

    یہ اور اسی قسم کی دوسری باتیں سیاحوں کے دلوں کو سہما دیتی تھیں۔ بہتیروں نے کوشش کی مگر انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

    ایک دن کا ذکر ہے کہ چار آدمیوں کے ایک چھوٹے سے قافلے نے اس ہیبت ناک جزیرے پر قدم رکھا۔ کمال ایک کاروباری آدمی تھا۔ وہ بمبئی کے ہنگاموں سے اکتا کر ایک پرسکون اور الگ تھلگ سی جگہ کی تلاش میں تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ جزیرہ ابھی تک غیر آباد ہے تو اس نے اپنی بیوی پروین، اپنی لڑکی اختر، اپنے لڑکے اشرف جس کی عمر پندرہ سال تھی، ان کو بتایا۔ دونوں بھائی بہن نے جو یہ بات سنی تو بے حد خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس جزیرے پر ایک چھوٹے سے گھر میں کچھ وقت گزارنا جنت میں رہنے کے برابر تھا۔

    آخر کار وہ دن آہی گیا جب کمال اپنے بچوں کے ساتھ اس جزیرے پر اترا۔ جزیرہ اندر سے بہت خوبصورت تھا۔ جگہ جگہ پھولوں کے پودے لہلہا رہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پھل دار درخت سینہ تانے کھڑے تھے۔ اونچے اونچے ٹیلوں اور سبز گھاس والا جزیرہ بچوں کو بہت پسند آیا۔ مگر اچانک کمال نے چونک کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے ہلکا قہقہہ لگایا ہو۔ پہلے تو اس نے اس بات کو وہم سمجھ کر دل میں جگہ نہیں مگر دوبارہ بھی ایسا ہی ہوا تو اس کے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے دل میں سوچ لیا کہ ماہی گیروں کی کہی ہوئی باتوں میں سچائی ضرور ہے۔ مگر اس نے بہتر یہی سمجھا کہ اپنے اس خیال کو کسی دوسرے پر ظاہر نہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو بچے ضرور ڈر جاتے۔

    جب تک دن رہا وہ سب جزیرے کی سیر کرتے رہے۔ رات ہوئی تو انہیں کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنی پڑی جہاں وہ خیمہ لگانا چاہتے تھے۔ آخر ایک چھوٹے سے ٹیلے سے نیچے انہوں نے خیمہ گاڑ دیا۔ مگر کمال بار بار وہی سوچ رہا تھا کہ وہ ہلکے سے قہقہے اسے پھر سنائی دیے۔ کمال کو پریشانی تو ضرور ہوئی مگر وہ اپنی اس پریشانی کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی بیوی سے کہا، ’’ابھی تو اسی جگہ رات بسر کی جائے۔ صبح کو ایسی جگہ دیکھوں گا جہاں مکان بنایا جا سکے۔‘‘

    ’’مگر سنو کمال۔ کیا تم نے کسی کے ہنسنے کی آواز سنی ہے؟‘‘ پروین نے سہم کر پوچھا۔

    ’’سنی تو ہے۔‘‘ کمال نے آہستہ سے کہا۔ ’’مگر اس بات کو بچوں سے چھپائے رکھنا، میرے خیال میں ماہی گیر ٹھیک کہتے تھے۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ میں اتنا بزدل نہیں ہوں کہ ان معمولی باتوں سے گھبراؤں۔‘‘

    ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اشرف نے سہم کر کہا ’’ابا۔ میں نے کسی کی ہنسی سنی ہے اور یہ ہنسی بہت قریب ہی سے سنائی دی ہے۔ کیا بات ہے؟ کہیں یہاں بھوت ووت تو نہیں ہیں؟‘‘

    ’’پاگل مت بنو اشرف۔ یہ تو کسی پرندے کی آواز ہے۔ میں بھی بہت دیر سے سن رہا ہوں۔‘‘

    کمال نے تو یہ کہہ کر اشرف کو ٹال دیا۔ مگر اشرف سوچ رہا تھا کہ اس جزیرے میں تو ایک بھی پرندہ نہیں ہے۔ پھر آخر ابا جھوٹ کیوں بول رہے ہیں! جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو وہ خاموشی سے اندر خیمے میں جاکر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ جب صبح ہوگی تو خواہ مخواہ کا ڈر بھی اس کے دل سے دور ہوجائے گا۔ رات کو تو ایسے ہی اوٹ پٹانگ خیال ذہن میں آیا کرتے ہیں۔

    صبح بھی آ گئی۔ دوسری جگہوں کی طرح یہاں پرندوں کی چہچہاہٹ بالکل نہیں تھی۔ پھولوں پر تتلیاں نہیں منڈلا رہی تھیں۔ ایک پراسرار خاموشی نے پورے جزیرے کو اپنی گود میں لے رکھا تھا۔ کمال نے سب کو اٹھایا اور پھر کہا ’’آؤ جزیرے کے کونے کونے کو دیکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں ہمیں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں پینے کا پانی بھی ہو اور جو سمندر سے قریب بھی ہو۔ بس ایسی ہی جگہ ہم اپنا چھوٹا سا گھر بنائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر سب نے سامان باندھا اور اپنے کندھوں پر لٹکا لیا۔ پھر یہ چھوٹا سا کنبہ گھر بنانے کے لئے جزیرے کے اندر بڑھنے لگا۔ شاید ایک دو فرلانگ چلنے کے بعد ہی کمال ٹھٹھک گیا۔ اس کی نظریں سامنے کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ اس جزیرے کے خوبصورت سے جنگل میں ایک نہایت ہی خوبصورت مکان بنا ہوا تھا۔ شاید یہ مکان بہت اونچا تھا۔ کیونکہ اس کا اوپر کا حصہ درختوں میں چھپ گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ یہ مکان بالکل شیشے کا نظر آتا تھا۔ گو اس کی دیواروں کے آر پار کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن دیواروں کی چمک بتاتی تھی کہ وہ شیشے کی بنی ہوئی ہیں۔ بالکل سامنے ایک دروازہ تھا اور دروازے کے آگے ننھی منی سی روش تھی۔

    ’’ابا۔ یہ مکان کس کا ہے؟‘‘ اختر نے پہلی بار پوچھا۔

    ’’کوئی نہ کوئی یہاں رہتا ضرور ہے۔‘‘ کمال نے جواب دیا۔ ’’ماہی گیر غلط کہتے تھے کہ یہ غیر آباد جزیرہ ہے۔‘‘

    ’’ارے۔ مگر دروازہ تو کھلا ہوا ہے۔‘‘ اشرف نے حیرت سے کہا۔

    ’’آجائیے، اندر آجائیے۔ میں تو برسوں سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ ایک بڑی بھاری آواز اندر سے آئی۔

    ’’چلیے۔ اندر چل کر تو دیکھیں کون ہے۔ کوئی ہمیں بلا رہا ہے۔‘‘ پروین نے کمال کے کان میں کہا۔

    کمال نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک کر کے سب اندر داخل ہو گئے۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کیونکہ اس شیشے کے کمرے میں فرنیچر بالکل نہیں تھا اور کمرہ خالی تھا۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی اچانک دروازہ بند ہو گیا۔ کمال نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دروازہ باہر سے بند ہو گیا ہے اور اب کھل نہیں سکتا۔ یکایک وہی قہقہے پھر سنائی دینے لگے۔ پہلے ان کی آواز مدھم تھی مگر اب بہت تیز تھی۔

    ’’یہ قہقہے کس کے ہیں کون ہنس رہا ہے؟‘‘ کمال نے چِلّا کر پوچھا۔ مگر اس کی آواز شیشے کے مکان میں گونج کر رہ گئی۔

    چند منٹ کے بعد شیشے کی دیواروں کے باہر کا منظر نظر آنے لگا اور کمال نے دیکھا کہ باہر جنگل میں دھواں زمین سے اٹھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ دھواں آسمان تک جا پہنچا اور پھر اس دھویں نے انسان کی شکل اختیار کر لی۔ ان لوگوں کو شیشے کے مکان میں دیکھتے ہی اس نے قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ اس کے سر پر ایک لمبی سی چوٹی تھی جو اس کے کندھوں پر جھول رہی تھی۔

    ’’میں آزاد ہوں۔ میں آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘ اس لمبے آدمی نے قہقہے لگاتے ہوئے کہنا شروع کیا ’’میں آزاد ہوں۔ اے اجنبی جانتے ہو۔ میں پانچ سو سال سے اس شیشے کی بوتل میں بندھا تھا۔ لیکن اب آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘

    ’’لیکن تم ہو کون اور ہمیں اس طرح قید کرنے سے تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘ کمال نے پوچھا۔

    ’’میں جن ہوں۔ میں دنیا کا ہر وہ کام کر سکتا ہوں جو تم نہیں کر سکتے۔ پانچ سو سال پہلے ایک ماہی گیر نے مجھے ایک موٹی سی بوتل کے قید خانے میں سے نکالا تھا اور جب میں نے اسے کھانے کا ارادہ کیا تھا تو اس کمبخت نے مجھے دھوکے سے بوتل میں بند کر دیا تھا۔ میں وہی جن ہوں اجنبی۔ سمجھے۔‘‘

    ’’مگر یہ تو ایک من گھڑت کہانی ہے۔‘‘ پروین نے کہا۔

    ’’بہت سے افسانے دراصل حقیقتوں سے ہی جنم لیتے ہیں۔‘‘ جن نے کہا’’ ماہی گیر نے مجھے بوتل میں قید کیا تھا وہ پانچ سو سال کے بعد ٹوٹ گئی۔ میں پھر آزاد ہو گیا اور میں نے کچھ ایسے کام کیے جن کی بدولت مجھے بڑی طاقتوں نے پھر سے اس بوتل میں، اس جزیرے میں قید کر دیا۔ میری آزادی کی شرط یہ رکھی گئی کہ ادھر کوئی انسان اس جگہ آکر میری جگہ لے لے تو میں آزاد ہو سکتا ہوں اور اس لیے آج اے بے وقوف اجنبی تم نے مجھے آزاد کیا ہے اور اب میری جگہ تم اس بوتل کے قیدی ہو۔ ہاہا ہا۔‘‘

    ’’خدا کی پناہ۔ تو کیا یہ مکان بوتل کی شکل کا ہے۔‘‘ کمال نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’اب میں دوبارہ قیدی بننے کی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘ جن نے کہا ’’اب دوبارہ میں قید نہیں ہوں گا۔ ہا ہا ہا۔‘‘

    یہ سنتے ہی کمال کی بری حالت ہو گئی۔ اس نے دیوانوں کی طرح جلدی سے آگے بڑھ کر اس شیشے کے دروازہ پر زور کی ایک لات رسید کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہمت ہار کر وہ بے بسی سے جن کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگا۔

    ’’بے وقوف اجنبی۔ تم اب یہاں سے کبھی باہر نہ نکل سکو گے۔ تم زندگی بھر کے لیے قید ہو گئے ہو۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ مجھے بہت سے کام کرنے ہیں۔ جب تم خود مجھ سے جانے کے لیے کہو گے اس وقت جاؤں گا۔ اس لیے مجھے اجازت دو۔‘‘

    ’’ابھی آپ کو اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ آپ مجھے ایک شریف جن معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اختر نے حوصلہ کر کے کہا۔

    ’’وہ تو میں ہوں ہی۔ کون کہتا ہے کہ میں شریف نہیں ہوں۔ بھولی؟‘‘

    ’’اگر آپ شریف ہیں تو ٹھہریے اور میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔ یہ ایک پہیلی ہے۔ اگر آپ نے اس پہیلی کا ٹھیک جواب دے دیا تو ہم اپنی مرضی سے یہیں قید ہو جائیں گے اور اگر آپ نے صحیح جواب نہیں دیا تو مجھے امید ہے کہ آپ اپنی شرافت کا مظاہرہ کریں گے اور ہمیں جانے دیں گے۔ کہانیوں میں میں نے یہی پڑھا ہے کہ شریف جن قول دے کر نہیں مکرتے۔ میں آپ کو تین موقع دوں گی۔ اگر تینوں بار صحیح جواب نہ دے سکے تو آپ ہار جائیں گے۔ بولیے منظور ہے؟ آپ خاموش کیوں ہیں۔ کیا آپ ڈرتے ہیں؟‘‘

    یہ سن کر جن بڑے زور سے ہنسا اور اس کی ہنسی سے جنگل کے درخت لرزنے لگے۔ اس کے بعد وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور اپنا منہ شیشے کی دیوار کے پاس لاکر زور سے کہنے لگا۔ ’’میں ڈرتا ہوں! ہاہاہا۔ میں جو پوری دنیا کا مالک ہوں۔ تم جیسی ننھی سی گڑیا سے ڈر جاؤں گا۔ ہاہاہا۔ میں دنیا کا سب سے عقلمند جن ہوں۔ اپنی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں کہ تم مجھ سے اپنی پہیلی پوچھو، بولو وہ کیا پہیلی ہے؟‘‘

    کمال، پروین اور اشرف حیرت سے اختر کو دیکھ رہے تھے جو اتنے بڑے جن سے مقابلہ کرنے کو تیار تھی۔

    ’’وہ کیا چیز ہے جو پوری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ زمین پر، سمندر میں، ہوا میں، خلا میں سب جگہ موجود ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو مگر دیکھ نہیں سکتے۔ تم اسے محسوس کر سکتے ہو مگر محسوس نہیں کر سکتے۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہے تو سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتی ہے اور دنیا کا ہر انسان اسے اچھی طرح جانتا ہے بتاؤ وہ کیا ہے؟‘‘۔

    جن نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’بھولی گڑیا، پہیلی کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز ایٹم ہے۔ ایٹم ہر جگہ ہے لیکن ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ صرف سائنس داں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے لیکن اگر کسی چیز کو چھوئیں تو محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہیں تو سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘

    ’’بالکل غلط۔‘‘ اختر نے مسکرا کر کہا۔ ’’دنیا کے بہت سے آدمی ایٹم کو نہیں جانتے۔‘‘

    یہ سن کر جن بہت گھبرایا اور بولا۔ ’’ٹھہرو، مجھے سوچنے دو، ہاں ٹھیک ہے، اب صحیح جواب مل گیا۔ وہ چیز روشنی ہے۔ روشنی ہر جگہ ہے اور ہر آدمی اسے دیکھ سکتا ہے۔ کیوں۔‘‘

    ’’اب بھی غلط۔ ’’اختر نے خوش ہوکر کہا۔ ’’اندھے آدمی روشنی کیسے دیکھ سکتے ہیں؟‘‘

    ’’بےوقوف لڑکی۔‘‘ جن نے گھبرا کر کہا۔ ’’تم مجھے نادان سمجھتی ہو اور دھوکا دینا چاہتی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ اس پہیلی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لیے اب میں کوئی جواب نہ دوں گا۔‘‘

    ’’جواب کیوں نہیں ہے؟‘‘ اختر نے کہا۔ ’’اس کا جواب ہے سچ۔ سچ ہر جگہ ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو اور محسوس بھی کر سکتے ہو اگر تم سچے ہو اور اگر تم سچے نہیں ہو تو تم نہ اسے دیکھ سکتے ہو اور نہ محسوس کر سکتے ہو۔ دنیا کا ہر شخص سچ کو جانتا ہے۔ سچ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور ایک سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘

    یہ سنتے ہی جن نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور کہا’’تم نے مجھ سے چالاکی سے کام لیا اور میں نے بھی تم سے۔ میں نے بھی چالاکی سے تم سے صحیح جواب معلوم کر لیا۔ تم نے مجھے تین موقعے دیے تھے اور میں نے دو ہی مرتبہ میں تم سے ٹھیک جواب حاصل کر لیا۔ کہو کیسی رہی؟ کیونکہ تم نے تیسرے موقع کا انتظار کیے بغیر ہی صحیح جواب بتا دیا اس لیے تم ہار گئیں۔‘‘

    اختر تو اب چپ ہو گئی مگر کمال نے آگے بڑھ کہا۔’’یہ تمہاری کمزوری کی پہلی نشانی ہے۔ تم نے ایک بچی سے چالاکی سے ٹھیک جواب معلوم کر لیا۔ سچ جتنا بڑا ہے، تم اتنے بڑے نہیں ہو۔ میری بچی نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔‘‘

    ’’بکواس مت کرو۔ میں ہر چیز سے بڑا ہوں۔‘‘ جن نے جواب دیا۔

    ’’غلط ہے۔ تم سچ سے بڑے نہیں ہو۔‘‘ کمال نے کہا۔ ’’سچ ایک سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتا ہے۔ تم نہیں نکل سکتے۔ ہمارے پاس اس وقت کوئی سوئی نہیں ہے جو ہم اس کا تجربہ کریں لیکن اس دروازے میں تالے کے اندر کنجی ڈالنے کا سوراخ تو ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سوئی کا ناکہ تو پھر چھوٹا سا ہے مگر تم اس بڑے سے سوراخ میں سے بھی نہیں گزر سکتے۔‘‘

    ’’یہ جھوٹ ہے۔ میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ سوئی کے ناکے میں سے بھی گزر سکتا ہوں اور تالے کے سوراخ میں سے بھی۔ لو دیکھو، میں دھواں بن کر ابھی تمہیں یہ تجربہ کر کے دکھاتا ہوں۔‘‘

    اتنا کہتے ہی جن ہوا میں تحلیل ہونے لگا اور پھر دھواں بننے لگا۔ اس کے دھواں بنتے ہی کمال نے جلدی سے اپنی پانی کا چھاگل نکالی اور اس کی ڈاٹ کھول کر سب پانی فرش پر گرا دیا۔ جیسے ہی جن دھواں بن کر تالے کے سوراخ سے اندر آنے لگا۔ کمال نے جلدی سے چھاگل کا منہ اس سوراخ سے لگا دیا۔ جب تمام دھواں چھاگل میں چلا گیا تو کمال نے ڈاٹ مضبوطی کے ساتھ بند کر دی اور ہنس کر کہا ’’ہاں واقعی تم تالے کے سوراخ میں سے نکل سکتے ہو اور پھر چھاگل میں قیدی ہوسکتے ہو۔‘‘

    ’’تم نے مجھے دھوکا دیا۔ چالاکی سے مجھے بند کر دیا۔‘‘ جن نے چھاگل میں سے چلانا شروع کیا۔ ’’مجھے آزاد کرو۔‘‘

    ’’تم نے سچ کی بڑائی کو نہیں مانا اس لیے تم ہار گئے۔‘‘ اتنا کہہ کر کمال نے دروازے کو کھولنا چاہا تو وہ کھل گیا۔ ’’لو دروازہ بھی کھل گیا۔ اب میں تمہیں سمندر میں واپس پھینکے دیتا ہوں تاکہ تم دوبارہ باہر نکل کر کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کر سکو۔ تم نے ہمیں اس بوتل کا قیدی بنایا تھا۔ لیکن اب تم خود قیدی ہو گئے۔‘‘

    جن التجا کرتا رہا مگر کمال نے ایک نہ سنی اور پھر باہر آکر اس نے چھاگل سمندر میں پھینک دی۔ ایک زور دار تڑاخہ ہوا اور شیشے کا وہ قید خانہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جس کی شکل بوتل کی سی تھی اور جس کا قیدی یہ چھوٹا سا کنبہ تھا۔

    (مصنّف: سراج انور)

  • پیڑ یا کنواں (مُلّا نصر الدین کی دل چسپ کہانی)

    پیڑ یا کنواں (مُلّا نصر الدین کی دل چسپ کہانی)

    ایک شخص کہیں جا رہا تھا۔ راستے کی دونوں طرف اونچے گھنے پیڑ تھے۔ انہیں دیکھتے دیکھتے اسے اپنا بچپن یاد آگیا۔ ترنگ میں آکر وہ ایک اونچے پیڑ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔

    بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں، کس طرح وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پیڑوں پر چڑھتا، کچے پکے پھل توڑتا، سب مل کر پھل کھاتے، ہنسی مذاق کرتے۔

    کافی وقت گزر گیا۔ اب جو اس نے نیچے اترنے کا قصد کیا تو یہ تلخ حقیقت اس پر آشکار ہوئی کہ پیڑ پر چڑھنا آسان ہے، نیچے اترنا بہت مشکل ہے۔ وہ گھبرا گیا۔

    ہر طرح کوشش کر لی مگر کامیاب نہ ہوا۔ چھلانگ لگانے کی سوچی۔ نیچے دیکھا تو اوسان خطا ہوگئے۔ وہ کافی اونچائی پر تھا اور نیچے پکی سڑک تھی۔ ہراساں ہو کر اس نے مدد کے لئے چیخ و پکار شروع کر دی۔ کئی لوگ پیڑ کے نیچے جمع ہوگئے۔ مشورہ دینے لگے۔

    ’’اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف کی شاخ پکڑ کر بدن کا وزن سنبھالو۔۔۔‘‘

    ’’دوسری ٹانگ کو مضبوطی سے نیچے والی ٹہنی پر جماؤ۔‘‘

    ’’دونوں پاؤں لٹکا کر بیٹھو۔۔۔ اور نیچے اترنے کی کوشش کرو۔۔۔‘‘

    ’’ہمت نہ ہارو۔۔۔ حوصلہ رکھو۔۔۔‘‘

    ’’زمین کی طرف نہ دیکھو۔۔۔ نیچے اترنے کا ارادہ کرو اور۔۔۔‘‘

    ہر مشورہ ناکام ہو رہا تھا۔ درخت پر پھنسا شخص ہمت ہار رہا تھا کہ اچانک بھیڑ میں سے ملا نصرالدین باہر آئے۔ منہ پر دونوں ہاتھوں کا بھونپو بنا کر چلائے: ’’حوصلہ کرو بھائی! تمہیں نیچے اتارنے کی ایک ترکیب میرے پاس ہے۔‘‘

    ’’ارے تو جلدی اتاریے نا۔۔۔‘‘ وہ اوپر سے چیخ کر بولا : ’’دیر کیوں کر رہے ہیں؟‘‘

    ملا نصرالدین بولے: ’’رسی، ایک مضبوط رسی ملے گی؟‘‘

    ’’وہ ادھر میرا مکان ہے۔‘’ ایک آدمی بولا: ’’میں ابھی رسی لاتا ہوں‘‘ وہ دوڑ کر گیا۔ رسی لے کر آیا۔ ملا نصرالدین نے رسی کے ایک سرے کو گول کر کے اوپر پھینکا اور زور سے بولے: ’’رسی پکڑو۔‘‘

    اوپر بیٹھے شخص نے رسی پکڑ لی۔ توازن بگڑنے کا خدشہ تھا مگر جان کے خوف نے یہ کام اس سے کروا ہی لیا۔

    ’’اب رسی کو اپنی کمر سے باندھ لو۔‘‘ ملا نصر الدین نے ہدایت دی۔ رسی کمر کے گرد باندھ لی گئی۔ ملا نے رسی کا دوسرا سرا پکڑ کر دوسری ہدایت دی۔ ’’بدن ڈھیلا چھوڑ دو۔‘‘

    کئی لوگ آگے آئے، بولے: ’’کیا کرنا ہے ہمیں بتاؤ مدد کریں گے ہم۔‘‘

    ’’میں تنہا کافی ہوں، آپ بس دیکھتے رہیں۔ یہ دیکھیے میں نے رسی کو جھٹکا دیا۔ رسی کھینچی، زور سے کھینچی اور بھائی آگئے نیچے۔‘‘

    درخت پر لٹکا شخص دھڑام سے نیچے آگرا۔ گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ لوگ دوڑے، اسے سنبھالا، چہرے پر ہوا کرنے لگے۔ جس کا گھر نزدیک تھا وہ پانی لے آیا۔ منہ پر چھینٹے دیے گئے۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔

    دوسری طرف چار پانچ لوگوں نے مُلّا کو پکڑا۔ ان کا گریبان کھینچ کر انہیں بے بھاؤ کی سنانے لگے:

    ’’یہ کوئی طریقہ ہے مدد کرنے کا‘‘ ایک نے غصہ سے کہا۔

    ’’آپ احمق ہیں۔۔۔ انسان کو نیچے اتارنا تھا، آپ نے بوری کی طرح کھینچ لیا۔‘‘

    ’’جس طرح آپ اپنے گدھے کو کھینچتے ہیں اس طرح اس بے چارے کو کھینچا، مر جاتا تو؟‘‘ تیسرے نے کہا۔

    ’’مرا تو نہیں نا، آپ لوگ کیوں میرے پیچھے پڑ گئے۔ میں نے تو اس کی مدد کی ہے۔ ملا نصرالدین ناراض ہوگئے۔

    بے ہوش شخص کو ہوش آگیا۔ اٹھ کر لنگڑاتا ہوا ملا پر جھپٹا:

    ’’یہ کون سا طریقہ تھا نیچے اتارنے کا؟ کود تو میں بھی سکتا تھا۔‘‘

    ’’تو کود کیوں نہیں گئے؟‘‘ ملّا نے اطمینان سے کہا: ’’کیا میرا انتظار کر رہے تھے۔‘‘ وہ شخص لاجواب ہوگیا۔

    ’’نیکی کا زمانہ نہیں‘‘ مُلا نے تماشائیوں کی طرف دیکھ کر کہا:

    ’’میرا ارادہ نیک تھا، میں واقعی بھائی کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ آپ یقین کریں میں اسی ترکیب سے پہلے بھی ایک شخص کی جان بچا چکا ہوں۔‘‘

    کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟ کسی نے سوال کیا۔

    ’’مجھے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں۔ سو فیصدی سچ کہہ رہا ہوں۔ اس شخص کی جان خطرہ میں تھی۔ میں نے رسی منگوائی، اس کی کمر میں بندھوائی اور کھینچ لیا۔۔۔ لیکن لیکن۔۔۔‘‘ انہوں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

    ’’کیا لیکن۔۔۔؟‘‘

    ’’لیکن مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔۔۔‘‘ مُلا سر کھجاتے ہوئے بولے۔

    ’’کیا یاد نہیں آرہا ہے؟‘‘

    ’’وہ ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ مُلّا کے حلق میں الفاظ اٹک گئے۔

    ارے تو جلدی بولیے نا۔۔۔ کیا یاد نہیں آرہا ہے۔ خواہ مخواہ بات کو طول دیے جارہے ہو۔‘‘ ایک پہلوان قسم کے جوان نے آگے آکر ڈانٹ لگائی۔

    ’’بولتا ہوں بابا بولتا ہوں‘‘ ملا نصرالدین آنکھیں نچا کر بولے: ’’مجھے یہ یاد نہیں آرہا ہے کہ میں نے اسے پیڑ سے نیچے کھینچا تھا یا کنویں میں سے اوپر نکالا تھا۔‘‘

    تماش بینوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔

    (مصنّفہ: بانو سرتاج)

  • بادشاہ اور تاجر (دل چسپ کہانی)

    بادشاہ اور تاجر (دل چسپ کہانی)

    پرانے زمانے کی بات ہے، ایک تاجر تجارت کی غرض سے بغداد پہنچا۔ پچھلے وقتوں میں تجارت کا یہ قانون تھا کہ تجارتی سامان کے ساتھ جس ملک میں کوئی تاجر داخل ہوتا تو اسے سب سے پہلے وہاں کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ تاجر اپنا تعارف کرواتا اور سامانِ تجارت کی خوبیوں اور انفرادیت سے آگاہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس تاجر کو بھی بغداد میں بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔

    تاجر نے بیش قیمت تحائف بادشاہ کی نذر کیے۔ پھر مالِ تجارت کی تفصیل بتاتے ہوئے ایک ایک چیز کی خوبی بیان کرنے لگا۔ اس دوران تاجر نے بادشاہ کو پانی سے چلنے والی ایک گھڑی دکھائی اور بتایا یہ میں نے یونان سے خریدی ہے۔ اس کے بعد قالین دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ میں نے ایران سے خریدا ہے اور خالص ریشم کے تار سے بنا ہے۔ اس نے ایک قلم دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ جاپان سے بہت مہنگے داموں خریدا ہے۔ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بہت خوب، تمام چیزیں بہت عمدہ نایاب ہیں جو تم نے ایران، یونان اور جاپان سے خریدی ہیں لیکن یہ تو بتاﺅ کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایانِ شان کوئی چیز نظر آئی۔ تاجر نے بادشاہ کو متاثر کرنے کے لیے کہا، یوں تو بادشاہ سلامت آپ کے شایانِ شان بہت چیزیں تھیں لیکن جو چیز مجھے پسند آئی۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے مجھے کچھ عرصہ وہاں قیام کرنا پڑتا جب کہ میرے پاس صرف دو دن کا وقت تھا۔

    بادشاہ نے پوچھا۔ اچھا وہ کیا چیز تھی۔ تاجر بولا، جناب وہ ایک موتی ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ اس کو کوئی چرا بھی نہیں سکتا اور اس موتی سے بہت سارے زیور بھی بنا کر پہنے جاسکتے ہیں۔ بادشاہ کو یہ سن کر تعجب ہوا اور کہنے لگا۔ میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہوں گا۔ اس نے فوراً اپنے ایک خاص وزیر کو اس ہدایت کے ساتھ رخصت کیا کہ اب وہ موتی لے کر ہی لوٹے۔ وزیر اپنے مقصد کے لیے نکل پڑا۔ ادھر تاجر دربار سے رخصت ہوگیا۔

    جنگلوں، سمندروں، پہاڑوں اور صحراﺅں غرض یہ کہ ہر جگہ کی خاک چھان ماری۔ وادی وادی گھوما، ہر شخص سے اس نادر و نایاب موتی کا پوچھا مگر سب نے یہ ہی کہا کہ ایسا کوئی موتی نہیں ہے جو چوری نہ ہوسکے اور اس سے بہت سارے زیور بن جائیں۔ لوگ اس کی بات سن کر ہنستے اور کہتے۔ مسافر پاگل ہوگیا ہے۔

    یوں ہی مہینوں بیت گئے، ناامیدی کے سائے گہرے ہونے لگے لیکن بادشاہ کے سامنے ناکام لوٹنے کا خوف اس کو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ وزیر نے ہر ممکن کوشش کر لی، سو اس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ وزیر اپنی ناکامی پر خوف زدہ اور روتا ہوا جنگل سے گزر رہا تھا۔ رات کافی ہوچکی تھی اور وزیر بہت تھک بھی گیا تھا۔ ایک درخت کے پاس آرام کے ارادے سے لیٹا ہی تھا کہ اسی لمحے ایک روشنی اپنی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ پہلے تو وزیر ڈر گیا مگر پھر ایک آواز نے اس کو حوصلہ دیا۔

    اے نوجوان ڈرو مت، میں اچھی پری ہوں۔ بتا تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے، تو مدتوں کا تھکا ہوا مسافر معلوم ہوتا ہے، بتا میں تیری کیا مدد کروں۔

    وزیر نے اپنی داستان کہہ سنائی کہ اسے جس موتی کی تلاش تھی، وہ کہیں نہیں ملا۔ اب اچھی پری وزیر کے سامنے آچکی تھی اور وہ وزیر کی بات سن کر بے ساختہ ہنس پڑی، پھر بولی۔ افسوس کہ تو نے عقل سے کام نہ لیا اور محض ایک موتی کی تلاش میں مہینوں مارا مارا پھرتا رہا۔

    وزیر بولا۔ اچھی پری، میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔ وہ بولی، بھلے آدمی، وہ موتی دراصل علم کا موتی ہے لیکن تو اس کی ظاہری شکل کو تلاش کرتا رہا۔ علم تو ایک ایسی شے ہے جسے ہزاروں نام دیے جاسکتے ہیں۔ کہیں اسے پھل دار درخت کہتے ہیں تو کبھی سورج سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسے سمندر بھی کہا جاتا ہے لیکن اسے کوئی چرا نہیں سکتا۔

    لیکن اس سے زیور بنانے والی صفت۔ وزیر نے حیرت سے پوچھا۔

    پری نے مسکراتے ہوئے کہا۔ علم کی بہت ساری صفات ہیں۔ تم اس موتی کی صورت کو کیوں تلاش کرتے ہو۔ یاد رکھو، ہر شے کی تاثیر کا تعلق اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کی اندرونی خوبیوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح علم بھی ایک نایاب موتی ہے کہ جس سے یہ حاصل ہوجائے، وہ اس سے ایسے ہی سج جاتا ہے جیسے انسان زیور پہن کر سجتا ہے اور اسے کوئی چرا نہیں سکتا بلکہ یہ تو بانٹنے سے بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔

    وزیر بڑے غور سے پری کی بات سن رہا تھا اور بالآخر اس بات کا قائل ہوگیا کہ واقعی علم ایک ایسا موتی ہے کہ جس کے پاس ہو، وہ دراصل دنیا کے سب سے قیمتی زیور کا مالک بن جاتا ہے۔ وزیر نے پری کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد اچھی پری وہاں سے غائب ہوگئی۔ اب وزیر بہت خوش تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ بادشاہ کو بھی قائل کر لے گا، وہ اپنے ملک خوشی خوشی روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بادشاہ کو علم کے موتی کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی پری کی بات کا قائل ہوگیا کہ صرف علم ہی وہ موتی ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔

    وہ تاجر بغداد میں اپنا سامان فروخت کر کے اپنے ملک جاچکا تھا۔ بادشاہ نے وزیر کو کہا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں‌ تھا بلکہ ایک دانا اور قابل شخص تھا اور یقیناً اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت سے ہمارے ملک کے اس عظیم شہر میں اپنا مال بیچ کر خوب منافع پایا ہو گا۔

    (بچوں کے ادب سے انتخاب)

  • بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔

    اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکّہ چلتا تھا۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوّت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں‌ استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کرکے انھیں بھی فتح کرلیا تھا۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہورہی تھی۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہوچکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کرلینی چاہیے۔

    یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکّہ جاری کرکے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کردیتا اور اس وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کرکے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں‌ کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کردیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گویا فراموش کر بیٹھا تھا۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہوگیا۔ اس نے مزید لشکر تیّار کرکے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہوگیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کردیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہورہی تھی۔

    اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کررہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ‌ جنگ میں کام یاب ہوسکتا ہے۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں‌ طلب کیا۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کردیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں‌ آکر خود ملے۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہوگیا۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے۔

    ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہوگیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گُر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے۔ بادشاہ کو غصّہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہوچکا تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو بزرگ نے کہا، "اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے! تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے۔

    یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کرکے قانع ہوجائے۔

  • بادشاہ کے تین سوال

    بادشاہ کے تین سوال

    ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو تین سوالوں‌ کا درست جواب دینے پر آدھی سلطنت دینے کا وعدہ کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ چاہے تو یہ چیلنج قبول کرے اور اگر اسے لگتا ہے کہ ناکام ہوجائے گا تو معذرت کر لے، لیکن ان سوالوں کو جان لینے کے بعد اسے جواب لازمی دینا ہو گا اور اس امتحان میں ناکامی کی سزا موت ہوگی۔

    وزیر لالچ میں آگیا۔ اس نے سوچا ایسا کون سا سوال ہے جس کا جواب نہ ہو۔ وہ کسی دانا اور عالم سے پوچھ کر بادشاہ کو ضرور جواب دے سکے گا۔ اس نے ہامی بھر لی۔ بادشاہ نے اس کے سامنے اپنا پہلا سوال یہ رکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟ اور تیسری بات جو بادشاہ نے پوچھی وہ یہ تھی کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟

    بادشاہ نے اپنے وزیر کو ایک ہفتہ کی مہلت دی اور وزیر نے سلطنت کے عالی دماغ اور دانا لوگوں کو اکٹھا کرلیا۔ وہ ان کے سامنے یہ سوال رکھتا گیا لیکن کسی کے جواب سے وزیر مطمئن نہیں ہوا۔ اسے موت سر پر منڈلاتی نظر آنے لگی۔ مہلت ختم ہونے کو تھی، تب وزیر سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر محل سے فرار ہوگیا۔ چلتے چلتے رات ہوگئی۔ ایک مقام پر اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا۔ وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دیے۔ اس نے پہلے سوال کا جواب دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ اسی طرح‌ دوسرا جواب تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔ اور تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کے جواب بتا دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔

    کسان کی بات سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے شاہی اصطبل کا نگران بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا۔ وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤ گے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے ہرکارے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤ گے۔ یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے مسترد کر دیا۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا۔ کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے، بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لو تو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتا دوں گا۔ یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔

    وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
    تو کسان نے کہا کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے! جس کے لیے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے!

  • بیش قیمت کیا؟ (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت کیا؟ (سبق آموز کہانی)

    دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی شے یا انسان کے لیے بعض حالات میں ازحد ضروری چیز کیا ہوسکتی ہے؟ یقیناً ہر ایک کا جواب مختلف ہوگا۔ کوئی ہیرے جواہرات، بہت سی جائیداد اور ایک بڑے اور جمے جمائے کاروبار کو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ضروری سمجھتا ہوگا، لیکن یہ کہانی قدرت کی عطا کردہ ایک نعمت کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں ہمارے لیے سبق پوشیدہ ہے۔

    کہتے ہیں کسی ملک کی ملکہ نے ایک روز اپنے زیرِ ملکیت سب سے بڑے بحری جہاز کے کپتان کو بلا کر کہا۔ ”‌ فوراً بادبان چڑھاؤ، لنگر اٹھاؤ اور جہاز لے کر روانہ ہو جاؤ۔ تم کوشش کر کے دنیا کے ان حصّوں میں بھی جاؤ جہاں اب تک جانے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اور وہاں جو چیز تم کو سب سے زیادہ عمدہ، عجیب اور قیمتی نظر آئے، جہاز میں بھر کر لے آؤ۔ قیمت کی ہرگز پروا نہ کرنا۔ میں ایک بار اپنے ملک والوں کو ایسی چیز دکھانا چاہتی ہوں جسے حقیقی معنوں میں سب سے زیادہ قیمتی اور ایک آسمانی نعمت کہا جا سکے۔“

    ملکہ حکم دے چکی تھی۔ کپتان کے لیے سوچ بچار کا وقت بچا ہی کہاں تھا۔ کپتان فوراً ساحل پر پہنچا۔ اپنے معاون ملاحوں کو جمع کیا اور انھیں‌ یہ بات بتائی اور ساتھ ہی فوراً روانگی کا اعلان کرتے ہوئے عملے کو جہاز کے بادبان کھول کر اس کا لنگر اٹھانے کی ہدایت کردی۔ جہاز چل پڑا اور کچھ دیر بعد سمندر کے بیچ میں پہنچ گیا۔

    تب، کپتان نے اپنے تمام نائبیں اور عملہ میں شامل پرانے اور بڑی عمر کے ساتھیوں کو بلا کر مشورہ کیا کہ انھیں کس سمت جانا چاہیے اور اگر وہ کسی ملک پہنچتے ہیں تو وہاں‌ سے کیا خریدنا چاہیے۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ کسی نے کہا کہ عمدہ ریشم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ کسی نے کہا کہ ایسے زیورات خریدے جائیں جن کی بناوٹ اور ساخت بالکل نئی ہو۔ کسی نے کہا کہ کیوں نہ اعلیٰ قسم کے نیلم، زمرد، لعل و یاقوت یا بڑے بڑے موتی خریدے جائیں اور پھر اپنی نگرانی میں ان کے زیورا ت تیار کرائے جائیں۔ لیکن ان سب چہ مگوئیوں کے دوران میں ایک کمزور سا ملاح، جس کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ وہ ہمیشہ فاقے کرتا رہا ہے، کسی قدر ہچکچاتا ہوا بولا۔’’ معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں پر کبھی برا وقت نہیں آیا، اس لیے تم کسی چیز کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ بتاؤ جب تم بری طرح بھوکے یا پیاسے ہو تو کون سا ہیرا یا موتی، زیور یا کپڑا کھا پی کر زندہ رہ سکتے ہو۔ اطمینان کی زندگی کے لیے خوراک کا ایک لقمہ، پانی کا ایک گھونٹ اور عمدہ ہوا میں ایک سانس ….سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے کھانے کی چیزوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور کھانے کی چیزوں میں گیہوں ہمارے لیے بنیادی غذا ہے۔ دنیا میں اس سے زیادہ قیمتی چیز کوئی نہیں۔ میں نے زندگی میں بہت سے فاقے کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے۔ اگر تم بھی ان پہلوؤں پر غور کر لو تو میرے ہم خیال ہوجاؤ گے۔“

    سب لوگ حیران رہ گئے۔ ملاح کی بات ان کے دل میں اتر گئی۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ”‌گیہوں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ پورا جہاز اس سے بھر لیا جائے کہ جب قحط بھی پڑے تو اس کا مقابلہ ہو سکے۔“

    لہٰذا جہاز کا رخ سرزمینِ مصر کی طرف پھیر دیا گیا جہاں کا گیہوں اس زمانے میں بہت مشہور تھا۔ کہتے تھے کہ وہاں‌ کا گیہوں سب سے زیادہ اچھا اور صحت بخش ہوتا ہے۔ یہ جہاز پانی پر مسافت طے کر کے مصر کی بندرگاہ پر جا لگا۔ وہاں قانونی تقاضے پورے کرنے اور محصول ادا کرنے کے بعد کپتان اور اس کے ساتھی شہر میں‌ داخل ہوسکے۔ شہر میں کپتان نے محکمۂ تجارت سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھ کر گیہوں کے سب سے بڑے تاجر تک پہنچ گیا۔ ان کا کاروبار بہت پھیلا ہوا تھا اور اس وقت مصر میں گیہوں کی بڑی مقدار ذخیرہ تھی۔ کپتان نے سودا کیا اور بہت سا گیہوں خرید کر جہاز کے اوپر لاد لیا۔

    اب ملکہ کے دیس کی سنیے۔ جہاز روانہ ہو جانے کے بعد خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اس پورے خطے میں سمندری طوفان کی صورت میں بڑی آفت آ پہنچی جس کی وجہ سے تمام آبادی اور زرعی زمینیں زیرِ‌ آب آگئیں۔ کھیت برباد اور لہلہاتی فصلیں مٹ گئیں۔ بڑی تعداد میں لوگ در بدر ہوگئے اور حالت یہ تھی وہاں لوگوں کو فاقے کرنے پڑ گئے۔ خود ملکہ کے گودام بھی غلّے اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء سے خالی ہو گئے۔ ایسے میں وہاں کے لوگوں سمیت اس ملکہ کے بھی ہوش ٹھکانے آ گئے تھے۔ دور تک کوئی آسرا اور امداد کا امکان نہ تھا۔ جس ملک میں خزانہ زر و جواہر سے بھرا ہوا تھا، وہاں عام لوگ تو ایک طرف خود ملکہ اور شاہی خاندان، وزیر، امیر سبھی غذائی قلّت اور اجناس کی عدم دست یابی کی وجہ سے سخت پریشان تھے۔ ملکہ کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی۔ پورے ملک میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔

    جیسے جیسے دن گزر رہے تھے، بھوک سے اموات کا سلسلہ بھی دراز ہوتا نظر آرہا تھا۔ کئی آبادیوں کا نام و نشان نہ رہا تھا اور جو جہاں تھا، وہاں سے اس کا نکلنا مشکل تھا۔ کیوں کہ سواری اور باربرداری کے جانور پانی میں بہہ گئے تھے اور بچّوں، عورتوں اور بوڑھوں کو چھوڑ کر جوان مردوں کا غذا اور محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں‌ نکلنا آسان نہ تھا۔ ملکہ سخت پریشان تھی اور کچھ سوجھتا نہ تھا کہ کیسے خود کو اور اپنی رعایا کو اس مصیبت سے نکالے۔

    ایک روز بہت دور سمندر کے سینے پر جہاز کے مستول نظر آئے۔ سمندری محافظوں کو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی جہاز ہے جو ملکہ کے حکم پر نکلا ہوا تھا۔ ملکہ کو خبر دی گئی۔ بندرگاہ سے متصل شہر کے بچّے، بوڑھے، عورت، مرد سب اور خود ملکہ اور اس کے وزراء بھی اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوگئے اور جہاز کے لنگر انداز ہونے تک طرح طرح کی باتیں ان کے دماغ میں‌ آرہی تھیں کہ نجانے جہاز پر کون سی قیمتی چیز آئے گی۔ زندگی میں پہلی بار سب لوگ دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی چیز دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ اس جہاز نے ان کو کچھ وقت کے لیے اپنی مصیبت سے بے نیاز کردیا تھا۔ تجسس بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ جہاز لنگر انداز ہوا اور کپتان کو معلوم ہوا کہ ساحل پر ملکہ خود موجود ہے اور اس کا ملک آفت زدہ ہے۔

    کپتان جہاز سے اتر کر تیزی سے ملکہ کی جانب بڑھا اور ملکہ کو دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ وہ بہت کم زور اور افسردہ تھی۔ بیماری کے باوجود ملکہ ساحل تک آئی تھی۔ اس نے کہا۔ ”‌ملکہ میں ایک بہت ہی قیمتی چیز لایا ہوں جو حقیقتاً زندگی کا سہارا ہے۔‘‘

    ”‌ وہ کیا؟“ ملکہ نے پیشانی پر بِل ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    ”‌ آپ اس سے واقف ہوں گی اسے کہتے ہیں گیہوں۔‘‘ کپتان نے جواب دیا۔

    ”‌گیہوں؟“ ملکہ نے حیرانی اور کچھ مسرت کے ساتھ دہرایا۔

    ارد گرد کھڑے لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو وہ خوشی سے چلّا اٹھے، اور ”‌گیہوں گیہوں“ کے نعرے لگانے لگے۔ ملکہ نے خوشی سے کہا۔”‌ گیہوں…. واہ تم نے کمال کر دیا۔“

    اس کڑے وقت میں وافر مقدار میں گیہوں کی صورت میں کوئی دوسری چیز قیمتی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ فوراً گیہوں جہاز سے اتروا کر گودام میں رکھوائی گئی اور ملک بھر میں‌ تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ یوں اس سن رسیدہ ضعیف ملاح کی دور اندیشی نے نہ صرف ملکہ کو خوش کردیا بلکہ اس ملک کے لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بھی پوری ہوئی اور انھوں نے نعمت کی قدر جان لی۔

    (قدیم لوک کہانی)

  • جو جہاں ہے وہیں عافیت اور چین سے ہے!(کہانی)

    جو جہاں ہے وہیں عافیت اور چین سے ہے!(کہانی)

    یہ ایک غریب اور محنت کش کی کہانی ہے جو اپنے گدھے پر مشکیں لاد کر لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچاتا اور ان سے اپنی محنت اور اس مشقّت کا معاوضہ وصول کرتا۔ سب اسے ماشکی کہتے تھے۔

    یہ بیچارہ اس کام سے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل ہی بھر پاتا، لیکن کوئی دوسرا ذریعۂ معاش اس کی سمجھ نہیں‌ آتا تھا، اس لیے برسوں‌ سے یہی کام کیے جارہا تھا۔

    ایک طرف یہ ماشکی صبح سے دن ڈھلنے تک یہ کام کرتے ہوئے تھک جاتا تھا تو دوسری طرف اس کا گدھا بھی مشکوں میں‌ بھرے ہوئے پانی کو ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہوجاتا تھا۔ شہر کے ایک کنویں‌ کے علاوہ کچھ فاصلے پر جنگل کے قریب ایک میٹھے پانی کا چشمہ تھا، جہاں‌ دن میں‌ کئی چکر لگانے پڑتے تھے۔ اب اس گدھے کی حالت ابتر ہوگئی تھی۔ اکثر اسے کھانے کو پیٹ بھر کچھ نہ ملتا اور کام بہت زیادہ کرنا پڑتا تھا۔ اس کی پیٹھ پر زخم پڑ جاتے یا کبھی کوئی چوٹ لگ جاتی تو ماشکی دوا دارو، مرہم پٹّی پر توجہ نہ دیتا اور گدھا تکلیف برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ وہ بے زبان ان حالات سے تنگ آکر ہر وقت اپنی موت کی آرزو کرنے لگا۔

    ایک دن شاہی اصطبل کے داروغہ کی نظر اس گدھے پر پڑی اور اسے گدھے کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ اس نے محنت کش سے کہا،’’تمھارا گدھا قریب المرگ ہے، اس کی حالت تو دیکھو، اسے کچھ دن آرام کرنے دو اور پیٹ بھر کر کھانے کو دو۔‘‘ ماشکی نے مؤدبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا، ’’مائی باپ! گدھے کو کہاں سے کھانے کے لیے دوں؟ خود میری روٹیوں کے لالے پڑے ہیں، دن رات مشقت کرنے کے باوجود بال بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی نہیں‌ کھلا پاتا۔‘‘

    یہ سن کر داروغہ کو اور ترس آیا۔ کہنے لگا، ’’میاں ماشکی، تم چند روز کے لیے اپنے گدھے کو میرے حوالے کر دو، میں اسے شاہی اصطبل میں رکھوں گا۔ وہاں یہ تروتازہ گھاس، چنے اور جو کا دانہ کھا کر کچھ ہی دن میں موٹا تازہ ہو جائے گا۔‘‘ ماشکی یہ سن کر خوش بہت ہوا اور اپنا مریل گدھا اس کے سپرد کر دیا۔ داروغہ کے کہنے پر اس کے آدمی نے گدھے کو لے جا کر شاہی اصطبل میں باندھ دیا۔ وہاں جا کر گدھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ہر طرف ترکی اور عربی النّسل گھوڑے نہایت قیمتی ساز و سامان کے ساتھ اپنے اپنے تھان پر بندھے ہوئے تھے۔ ہر گھوڑے کا بدن خوب فربہ تھا اور ان کی کھال آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ چار چار آدمی ایک ایک گھوڑے کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی کھریرا کر رہا تھا، کوئی مالش، کوئی دانہ کھلا رہا تھا، کوئی پیٹھ پر محبت سے تھپکیاں دینے میں مصروف تھا۔ پھر گدھے نے یہ بھی دیکھا کہ گھوڑوں کے تھان نہایت صاف ستھرے ہیں۔ لید کا نام و نشان نہیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ناندوں میں ہری ہری گھاس، جَو اور چنا بھیگا ہوا ہے۔

    یہ دیکھ کر گدھے نے اپنی تھوتھنی اٹھائی اور خدا سے فریاد کی ’’یا الٰہی! یہ کیا تماشا ہے، بے شک میں گدھا ہوں، لیکن کس جرم کی پاداش میں میرا برا حال ہے اور کس لیے میری پیٹھ زخموں سے بھری ہوئی ہے؟ کیا میں تیری مخلوق نہیں ہوں؟ کیا تُو نے مجھے پیدا نہیں فرمایا اور کیا تُو میرا ربّ نہیں ہے؟ پھر کیا سبب ہے کہ یہ گھوڑے اتنی شان و شوکت سے رہیں، دنیا کی بہترین نعمتیں ان کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں اور میں دن بھر بوجھ ڈھو کر بھی اپنے مالک کی مار پیٹ اور گالیاں کھاؤں؟‘‘

    ابھی گدھے کی یہ فریاد ناتمام ہی تھی کہ اصطبل میں ہلچل مچی اور ایک منظر دیکھنے کو ملا۔ گھوڑوں کے نگہبان اور خدمت گار دوڑے دوڑے آئے، ان پر زینیں کسیں اور ٹھیک کر کے باہر لے گئے۔ اتنے میں طبلِ جنگ بجنے لگا۔ معلوم ہوا کہ سرحد کے قریب گاؤں میں ایک بڑے گروہ سے جھڑپ چھڑ گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فوجی گھوڑوں پر سوار ہو کر گئے ہیں۔

    شام کے وقت گھوڑے میدانِ جنگ سے اس حال میں لوٹے کہ ان کے جسم زخموں سے چور اور لہو میں رنگین تھے۔ بعض گھوڑوں کے بدن تیروں سے چھلنی ہو رہے تھے اور تیر ابھی تک ان کے جسموں میں گڑے تھے۔ اپنے تھان پر واپس آتے ہی تمام گھوڑے لمبے لمبے لیٹ گئے اور ان کے پیر مضبوط رسوں سے باندھ کر نعل بند قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ پھر گھوڑوں کے بدن میں پیوست تیر کھینچ کھینچ کر نکالے جانے لگے۔ جونہی کوئی تیر باہر آتا، گھوڑے کے بدن سے خون کا فوارہ بلند ہوتا۔ تکلیف دہ منظر تھا۔ گدھے نے یہ تماشا دیکھا تو مارے ہیبت کے روح کھنچ کر حلق میں آگئی۔ خدا سے عرض کی کہ مجھے معاف کر دے، میں نے اپنی جہالت اور بے خبری سے تیرے حضور میں گستاخی کی۔ میں اپنے اس حال میں خوش اور مطمئن ہوں۔ میں ایسی شان و شوکت اور ایسے کروفر سے باز آیا جس میں بدن زخموں سے چور چور ہو اور خون پانی کی طرح بہے۔

    سچ ہے کہ میں ان سے بہت بہتر ہوں، مار کھاتا ہوں‌، تیر تو جسم میں‌ پیوست نہیں ہوتے، ڈنڈے پڑنے سے میری ہڈیاں‌ درد کرتی ہیں، لیکن بھاگتے ہوئے ایسے نہیں‌ گرتا کہ ہڈی چور چور ہو جائے، اکثر میری کھال کٹ پھٹ جاتی ہے، لیکن ایسا تو نہیں‌ ہوتا جو ان گھوڑوں کے ساتھ ہوا ہے، میرا مالک دن ڈھلنے پر مجھے ایک کونے میں‌ چھوڑ کر جیسے بھول جاتا ہے اور میں اپنی مرضی سے اپنی جگہ پر گھوم پھر لیتا ہوں، لیکن ان گھوڑوں کے خدمت گار تو دن رات ان کے ساتھ ہی چمٹے رہتے ہیں۔ چند دن بعد داروغہ نے ماشکی کو اس کا گدھا لوٹا دیا۔ گدھا پہلے کی نسبت کافی بہتر لگ رہا تھا۔ اس کے مالک نے سوچا کہ اس کا سبب اچھی خوراک اور آرام و سکون ہے، مگر گدھا جانتا تھا کہ اصطبل میں‌ رہ کر‌ اسے جن نعمتوں کے ساتھ اپنی حیثیت اور مقام کا جو احساس ہوا ہے، وہ یہ سب دیکھنے سے پہلے کبھی نہیں‌ ہوا تھا۔

    سبق: خدا کی اس دنیا میں ہر جاندار کا ایک مقام اور مرتبہ رکھا گیا ہے، جو جہاں‌ ہے، وہیں‌ عافیت اور چین سے ہے، جب کہ ہمیں ہر چیز کی آرزو نہیں‌ کرنا چاہیے۔