Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • تکلی کی کہانی (ہندوستانی لوک ادب سے انتخاب)

    تکلی کی کہانی (ہندوستانی لوک ادب سے انتخاب)

    سورگ میں ایک دیوی رہتی تھی۔ اس کا نام پھرکی تھا۔ وہ بُنائی کا کام اتنی ہوشیاری سے کرتی تھی کہ کچھ نہ پوچھیے۔ جس وقت ہاتھ میں تیلیاں لے کر بیٹھتی تھی بات کی بات میں بڑھیا سے بڑھیا سوئٹر، بنیان، مفلر وغیرہ بُن کر رکھ دیتی تھی۔ اس لئے دور دور تک اس کی تعریف ہو رہی تھی۔

    پھرکی کی شہرت ہوتے ہوتے رانی کے کانوں تک پہنچی۔ وہ اپنی تمام بچیوں کو بُنائی کا کام سکھانا چاہتی تھی اور بہت دن سے ایک ایسی ہی ہوشیار دیوی کی تلاش میں تھی۔ اس نے اپنی سہیلیوں سے کہا۔’’سنتی ہوں پھرکی بہت ہوشیاری سے بنائی کا کام کرتی ہے۔ کہو تو اسے بلا لوں۔ وہ یہیں رہے گی اور راج کماریوں کو بنائی سلائی سکھلایا کرے گی۔‘‘

    ایک سہیلی کچھ سوچ کر بولی۔’’اس بات کا کیا بھروسہ کہ سلائی بنائی کے کام میں اکیلی پھرکی ہی سب دیویوں سے زیادہ ہوشیار ہے۔ میری بات مانیے ایک جلسہ کر ڈالیے۔ جس میں سلائی بنائی کا کام جاننے والی سب دیویاں آئیں اور اپنا اپنا ہنر دکھائیں۔ جو سب سے بازی لے جائے وہی پہلا انعام پائے اور ہماری راج کماری کو بھی ہنر سکھائے۔‘‘

    رانی کو یہ صلاح بہت پسندآئی۔ اس نے فوراً جلسہ بلانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی دن سارے سورگ میں منادی کرا دی۔ ٹھیک وقت پر جلسے میں سلائی بنائی کا کام جاننے والی سیکڑوں دیویاں آپہنچیں اور لگیں اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھانے۔ آخر پھرکی بازی لے گئی۔ رانی نے سہیلیوں کی صلاح سے اسے ہی پہلا انعام دیا۔ پھر اس سے کہا۔’’بس اب تمہیں یہاں وہاں بھٹکنے کی ضرورت نہیں۔ آج سے تم میری سہیلی ہوئیں۔ مزے سے یہیں رہو اور راج کماری کو بنائی سلائی سکھایا کرو، سمجھیں؟ ‘‘

    اس طرح پھرکی کی قسمت جاگ اٹھی۔ وہ رانی پاس رہنے لگی۔ راج کماریاں ہر روز تیلیاں، سوت، کپڑا، قینچی، سوئی دھاگا وغیرہ لے کر اس کے پاس جا بیٹھتیں اور وہ انہیں بڑی محنت سے سلائی بنائی کا کام سکھایا کرتی۔ رانی اس کا کام دیکھتی تو بہت خوش ہوتی اور اسے ہمیشہ انعامات سے نوازا کرتی۔

    رفتہ رفتہ پھرکی مالا مال ہو گئی۔ وہ سوچنے لگی۔’’رانی کی مہربانی ہے ہی۔ مال کی بھی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ سلائی بنائی کا کام بھی میں سب سے اچھا جانتی ہوں۔ اب سورگ میں ایسی کون سی دیوی ہے جو میرا مقابلہ کر سکے۔‘‘ بس اس کا غرور جاگ اٹھا اور پھرکی کا دماغ پھر گیا۔ وہ اب اور تو اور رانی کی سہیلیوں سے بھی سیدھے منہ بات نہ کرتی۔ پھرکی کا یہ سلوک رانی کی سہیلیوں کو بہت ناگوار گزرا۔ ایک دن انہوں نے رانی سے شکایت کی۔ ’’پھرکی کو تو آپ نے خوب سر چڑھایا ہے۔ اب تو وہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتی۔ جب دیکھو غرور سے منہ پھلائے رہتی ہے۔ آپ ہی بتائیں۔ وہ اب ہمارے سورگ میں کس طرح رہ سکتی ہے۔‘‘

    یہ سنتے ہی رانی آگ بگولا ہو گئی۔ بولی۔ ’’ایسا! کہتی کیا ہو؟ پھرکی غرور کرنے لگی ہے۔ پھر تو وہ دیوی ہی نہیں رہی اور جو دیوی نہیں ہے وہ سورگ میں کب رہ سکتی ہے۔ میں ابھی اسے سزا دوں گی۔ ذرا اسے پکڑ تو لاؤ میرے سامنے۔‘‘

    فورا دو تین دیویاں دوڑی دوڑی گئیں اور پھرکی کو پکڑ لائیں۔ رانی نے اس پر غصے کی نگاہ ڈالی اور کہا۔ ’’کیوں ری پھرکی۔ یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ تو غرور کرنے لگی ہے؟ جانتی ہے غرور کرنے والے کو کیا سزا ملتی ہے؟ غرور کرنے والا فورا سورگ سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور تو اور غرور کرنے پر تو میں بھی سورگ میں نہیں رہ سکتی۔ یہاں کا قانون یہی ہے۔‘‘

    پھرکی سہم کربولی، ’’اب تو غلطی ہو گئی۔ شریمتی جی! بس اس بار مجھے معاف کر دیجیے۔ پھر کبھی ایسی غلطی کروں تو آپ کی جوتی اور میرا سر۔‘‘ رانی نے کہا۔ ’’تیرے لیے قانون نہیں توڑا جا سکتا۔ تجھے ضرور سزا ملے گی اور سورگ چھوڑ کر زمین پر جانا ہی پڑے گا۔ ہاں میں اتنی مہربانی کر سکتی ہوں کہ تو جو شکل چاہے اسی شکل میں تجھے زمین پر بھیج دوں۔ بول تیری خواہش وہاں کس شکل میں جانے کی ہے؟‘‘ اسی وقت وہاں اچانک ایک فقیر آ پہنچا۔ وہ کپڑوں کی بجائے چغہ پہنے ہوئے تھا۔ اسے دیکھ کر سب دیویوں کو بہت تعجب ہوا۔ رانی نے اس سے پوچھا۔ ’’آپ کون ہیں؟ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ صورت تو آپ نے بہت عجیب بنا رکھی ہے۔ ہم نے تو آج تک ایسی عجیب و غریب صورت دیکھی ہی نہیں۔‘‘

    فقیر نے جواب دیا۔’’میں ایک معمولی انسان ہوں۔ زمین کا رہنے والا ہوں۔‘‘

    رانی نے کہا۔’’اچھا آپ انسان ہیں۔ زمین کے رہنے والے ہیں۔ انسان غرور کے پتلے ہوتے ہیں۔ وہ کبھی سورگ میں نہیں آسکتے۔ بھلا آپ کس طرح یہاں آ پہنچے۔‘‘

    فقیر بولا۔’’میں نے غرور چھوڑ کر بہت دنوں تک تپ کیا ہے۔ اپنی ساری زندگی اپنے ہم وطنوں کی خدمت ہی میں بسر کی ہے۔ اسی لئے میں یہاں آ سکا ہوں۔‘‘

    رانی نے خوش ہو کر کہا۔’’پھر تو آپ بھلے آدمی ہیں۔ آپ سے مل کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلاتا مل کہیے۔‘‘

    فقیر بولا۔ ’’دیوی زمین پر رہنے والے انسان بہت دکھی ہیں۔ کپڑے پہننا بھی نہیں جانتے۔ وہ بے چارے اپنے جسم پر پتے لپیٹ لپیٹ کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ مہربانی کرکے کوئی ایسی چیز دیجیے جس کے ذریعے سے وہ سوت کات سکیں۔ روئی تو زمین پر بہت ہوتی ہے۔ جہاں لوگوں نے اس کا سوت نکال لیا وہاں کپڑے تیار ہوئے ہی سمجھیے۔‘‘

    رانی نے کہا ۔’’اچھا اچھا آپ تشریف تو رکھیے۔ بھگوان نے چاہا تو میں ابھی آپ کی خواہش پوری کیے دیتی ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے پھرکی سے پھر وہی سوال کیا۔’’ہاں پھر تو کس شکل میں زمین پر جانا چاہتی ہے؟‘‘

    پھرکی نے آنکھوں میں آنسو بھر کر جوا ب دیا۔’’شریمتی جی! میں تو وہاں کسی بھی شکل میں نہیں جانا چاہتی۔ اگر آپ مجھے وہاں بھیجنا ہی چاہتی ہیں تو ایسی شکل میں بھیجیے جس سے میں سب انسانوں کی خدمت کر سکوں، ان کا دل بہلا سکوں اور ان سے عزت بھی پا سکوں۔‘‘

    رانی مسکرا کر بولی۔’’میں مانتی ہوں پھرکی تو سچ مچ بہت ہوشیار ہے۔ تُو نے ایک ساتھ تین ایسی بڑی بڑی باتیں مانگی ہیں جن سے تو زمین پر بھی ہمیشہ دیوی بن کر رہے گی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میں تجھے ابھی ایسی شکل دیتی ہوں جس سے تیری خواہش پوری ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے گی۔‘‘ یہ کہہ کر رانی نے چلّو میں تھوڑا سا پانی لیا اور کچھ منتر پڑھ کر پھرکی پر چھڑک دیا۔ پھر کیا تھا۔ پھرکی فوراً تکلی بن کر کھٹ سے گر پڑی۔ رانی نے جھپٹ کر وہ تکلی اٹھالی اور فقیر کو دے دی۔ فقیر نے تکلی لیتے ہوئے پوچھا- ’’اس کا کیا ہوگا دیوی؟ یہ تو بہت چھوٹی چیز ہے۔‘‘

    رانی نے جواب دیا۔ ’’چیز چھوٹی تو ضرور ہے۔ لیکن اس سے لوگوں کا بہت بڑا کام نکلے گا۔ اس کے ذریعے سے ان کو سوت ملے گا جس سے کپڑے بُنے جائیں گے۔ بچوں کو یہ کھلونے کا کام دے گی اور فرصت کے وقت سیانوں کا دل بہلایا کرے گی۔ وہ چاہیں گے تو آپس میں کھیلتے کھیلتے یا گپ شپ کرتے ہوئے بھی اس کے ذریعے سوت نکالتے رہیں گے، ابھی لے جائیے۔‘‘

    کہتے ہیں اسی تکلی سے انسان نے کاتنا سیکھا اور تکلی کی ترقی کے ساتھ ہی تہذیب کی ترقی ہوئی۔

    (مدھیہ پردیش کی لوک کہانی کا اردو ترجمہ)

  • دھرتی کے نیچے بیل…

    دھرتی کے نیچے بیل…

    ٹھٹھی کھار امرتسر سے زیادہ دور نہیں تھا اور وہاں تک پہنچنا کافی آسان تھا، کیونکہ وہ ان گاؤں میں سے ایک تھا جو پکی سڑک پر واقع تھے۔

    لیکن جس مسرت آمیز جذبے کے تحت مان سنگھ سفر کر رہا تھا اس سے کوئی بھی فاصلہ خوش گوار اور مختصر معلوم ہونے لگتا۔ حالانکہ شام کے سائے تیزی سے پھیلتے جا رہے تھے اور تانگے کی گھوڑی کی چال سے اس کی تھکن ظاہر ہو رہی تھی لیکن مان سنگھ ذرا بھی فکرمند نہیں تھا۔

    مان سنگھ فوجی تھا اور اپنی رجمنٹ سے چھٹی لے کر اپنے دوست کرم سنگھ کے گاؤں جارہا تھا۔ فوج سے زیادہ گہری اور پکی دوستی دنیا میں کہیں اور نہیں ہوتی۔ مان سنگھ اور کرم سنگھ دونوں ایک ہی رجمنٹل سینٹر میں تھے اور اب ایک ہی بٹالین میں برما کے مورچہ پر تعینات تھے۔ کرم سنگھ پہلے بھرتی ہوا تھا اور اب حوالدار بن گیا تھا جب کہ مان سنگھ حال ہی میں نائک کے عہدے تک پہنچا تھا۔

    کرم سنگھ کے گاؤں کے لوگ ہمیشہ اس کے باپ سے اس کی اگلی چھٹیوں کے بارے میں دریافت کرتے رہتے۔ اس کا کرم سنگھ یار باش آدمی تھا اس کا بات چیت کرنے کا انداز بہت ہی پرکشش تھا اور لوگ جنگ اور بہادری کے قصے سننے کے لیے اس کے پاس بیٹھنا بہت پسند کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گاؤں کے اور کئی نوجوان بھی فوج میں تھے۔ لیکن جب وہ گاؤں آتے تو لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے موضوع ہی تلاش کرتے رہتے۔ زیادہ تر لوگوں کے ساتھ وہ سلام و دعا سے آگے نہیں بڑھتے تھے مگر کرم سنگھ کا معاملہ دوسرا تھا۔ جب وہ گاؤں میں ہوتا تو صبح کے وقت غسل کے لیے لوگ کنویں پر عام دنوں سے زیادہ دیر تک رہتے اور سردیوں میں لوگ آدھی رات تک بھڑبھونجے کی بھاڑ کی گرم راکھ کے گرد جمع ہوتے اور کرم سنگھ کی بے تکان اور پرجوش بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا۔

    رجمنٹ میں کرم سنگھ اپنے اچوک نشانے کے لیے مشہور تھا۔ نشانے بازی کے مقابلوں میں اس کی گولیاں ٹھیک نشانے پر لگتیں تھیں، جیسے کسی نے ہاتھ سے سوراخ کر دیا ہو۔ جنگ کے دوران پیڑوں کی شاخوں میں چھپے ہوئے بہت سے جاپانی سپاہی پراسرار طور پر ان کی تباہ کن گولیوں کا شکار ہوئے تھے۔ اس طرح اس نے جاپانیوں کی گولیوں سے مرنے والے اپنے دوستوں کا حساب برابر کر کے اپنی رجمنٹ کے بجھے ہوئے حوصلے کو بڑھایا تھا۔ جہاں پوری مشین گن کی میگزین نشانے تک پہنچنے میں ناکام رہتی وہاں کرم سنگھ کی ایک گولی ہی کافی ہوتی۔ حالانکہ اس کا جسم جوانی کی پھرتی کھو چکا تھا مگر اب بھی ورزش گاہ میں اس کے کمالات لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتے تھے۔

    جنگ کے دوران ورزش اور بہت ساری سرگرمیاں ملتوی کر دی گئی تھیں۔ اب چست وردیوں میں بینڈ کے ساتھ پریڈ نہیں ہوتی تھی اور قرب و جوار میں کوئی بازار بھی نہیں تھا جہاں سادے کپڑوں میں گھوما جا سکے۔ راستے میں اپنے گاؤں یا قصبہ کے کسی آدمی سے ملاقات کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لیے مان سنگھ کا چھٹی پر جانے کا نمبر آیا تو کرم سنگھ کو جلن نہیں ہوئی۔ کاش اسے بھی چھٹی مل سکتی اور وہ ساتھ ساتھ گھر جاتے اورچھٹیاں ساتھ گزار سکتے اور پھر چوپڑ کانا امرتسر سے کوئی ایسا دور بھی تو نہیں تھا۔ دونوں کے گاؤں میں صرف پچاس میل کا فاصلہ تھا۔ ایک ماجھا کے علاقے میں تھا دوسرا بار کے علاقے میں۔ ایک کے ساتھ لمبا ماضی جڑا ہوا تھا اور دوسرا قدرے جدید تھا اور حال میں بسایا گیا تھا۔

    لیکن ان دنوں چھٹی حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ چھٹی صرف خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتی تھی اور بہادری دکھانے اور تمغہ حاصل کرنے کے لیے مواقع کی طرح نادر تھی۔

    جب مان سنگھ رخصت ہونے کے لیے سڑک پر چڑھنے لگا تو کرم سنگھ نے اسے الوداعی پیغام دیا، ’’واپسی سے پہلے میرے گاؤں ضرور جانا۔ میرے لوگوں سے ملنا نہ بھولنا، وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ تم انہیں میری خیریت کی خبر دینا۔ انہیں بالکل ایسا لگے گا جیسے میں ہی ان سے مل رہا ہوں اور جب میں تم سے دوبارہ ملوں گا اور تم مجھے ان کے بارے میں بتاؤ گے تو مجھے لگے گا میں خود ان سے مل رہا ہوں۔‘‘ پھر اپنے گاؤں کے جغرافیہ کے بارے میں مان سنگھ کو متوجہ کرتے ہوئے بولا، ’’کیا تم کبھی ادھر گئے ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ مان سنگھ نے جواب دیا، ’’میں امرتسر سے تو گزرا ہوں مگر کبھی آگے نہیں گیا۔‘‘

    ’’وہاں دیہات کے اطراف میں کئی گوردوارے ہیں۔ ترن تارن کھدور صاحب اور گوینددال۔ تم ان مقامات کی زیارت کرنے کے ساتھ میرے گاؤں والوں سے بھی مل سکتے ہو۔ میں انہیں خط لکھوں گا۔۔۔‘‘ کرم سنگھ اپنے آپ میں کھویا ہوا پرجوش انداز میں بولتا رہا۔

    اسی وجہ سے اب اپنی چھٹیوں کے اختتام کے قریب مان سنگھ تانگے میں کرم سنگھ کے گاؤں جا رہا تھا۔

    ’’میں مان سنگھ ہوں باپو جی۔۔۔ چوپڑ کانا سے آیا ہوں۔‘‘ مان سنگھ نے کرم سنگھ کے گھر میں ڈیوڑھی میں بیٹھے ہوئے بوڑھے کو ہاتھ جوڑ کر ست سری اکال کرتے ہوئے کہا۔

    ’’جی آیاں نوں۔‘‘

    ’’آؤ، بیٹھو۔‘‘ بوڑھے نے کھوئے ہوئے سے انداز میں کہا۔ مان سنگھ جاکر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ بوڑھا مان سنگھ کی آمد سے تھوڑا مضطرب لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اجنبی کے چہرے سے ہٹ کر اب زمین پر گڑ گئی تھیں۔ کسی بھی لحاظ سے مان سنگھ کے مزاج میں بے صبری نہیں تھی مگر پھر بھی اس طرح کا استقبال اسے عجیب سا لگا۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ یہ بوڑھا کرم سنگھ کا باپ نہیں ہے۔

    ’’آپ کرم سنگھ کے والد ہیں۔‘‘ مان سنگھ نے اپنی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے کہا، ’’کیا اس نے آپ کو میرے بارے میں لکھا تھا۔‘‘

    ’’ہاں۔ اس نے لکھا تھا کہ تم ہم لوگوں سے ملنے آؤ گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھا اٹھا اور صحن کی طرف چل پڑا۔ اس نے کٹرے کو ایک کھونٹے سے کھول کر دوسرے سے باندھ دیا اور اسے تھپتھپانے لگا اور اپنا ہاتھ چاٹنے کے لیے کٹرے کے سامنے کر دیا اور پھر وہ مان سنگھ کی آمد کی اطلاع دینے اور باہر چائے بھیجنے کو کہنے کے لیے گھر کے اندر چلا گیا۔ اب کی بار وہ گھوڑی کے پاس رک گیا جیسے وہ ڈیوڑھی میں آتے ہوئے ڈر رہا ہو پھر اس نے چارہ کو الٹا پلٹا اور کچھ چنے اس میں ڈالے۔ بالآخر وہ مہمان کے پاس لوٹ آیا لیکن وہ پہلے کی طرح ہی کھویا ہوا تھا۔

    ’’جسونت سنگھ کہاں ہے؟‘‘ مان سنگھ نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔ اسے معلوم تھا کہ کرم سنگھ کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا۔

    ’’وہ چارے کی گاڑی لے کر آتا ہی ہوگا۔‘‘

    اس بیچ میں کرم سنگھ کی ماں چائے لے آئی۔

    ’’ست سری اکال بے جی۔‘‘ مان سنگھ کے لہجہ میں ایک بیٹے کی سی محبت کی جھلک تھی۔ بوڑھی عورت کے ہونٹ لرزے اور ایسا لگا جیسے وہ کچھ کہنے والی ہے لیکن اس نے کچھ نہیں کہا۔ مان سنگھ نے پیالی اور چائے دانی اس کے ہاتھ سے لے لی اور وہ واپس چلی گئی۔ یہ مجھیل بھی عجیب لوگ ہیں، مان سنگھ نے اپنے آپ سے کہا۔ اس کے احساسات مجروح ہوئے تھے۔ بہرحال اب وہ واپس بھی تو نہیں جا سکتا تھا۔ اس کو رات اس گھر میں ہی گزارنی پڑے گی لیکن اس نے صبح سویرے نکلنے کا فیصلہ کیا۔

    رات کو جب جسونت سنگھ واپس آیا تو باتوں میں کچھ بے تکلفی ضرور پیدا ہو گئی۔

    ’’کرم سنگھ کی گولی اس برما کی جنگ میں بڑی مشہور ہو گئی ہے۔ ادھر وہ لبلبی دباتا ہے ادھر ایک جاپانی گرتا ہے۔ کسی کو پتہ نہیں کہاں سے، اس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہمیں بالکل پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسے انہیں ڈھونڈ لیتا ہے۔‘‘

    مان سنگھ اس امید میں کچھ وقفے کے لیے چپ ہوگیا کہ اس سے کرم سنگھ کے بارے میں جاپانیوں اور جنگ کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے جائیں گے۔ اس کے پاس بہت ساری باتیں جمع تھیں، جنہیں بتاکر وہ اپنے سینے کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے لگا جیسے کسی کو اس کی باتیں سننے میں دلچسپی نہیں تھی۔

    ’’جسونت ہمیں نہر کا پانی کب ملے گا؟‘‘ باپ نے کافی لمبے اور بوجھل وقفے کے بعد پوچھا۔

    ’’پرسوں، صبح تین بجے۔‘‘ وقت کے بارے میں اس حوالے نے مان سنگھ کو اپنی بات دوبارہ شروع کرنے کا ایک اور موقع دیا، ’’ہاں۔ فوج میں کرم سنگھ اتنے سویرے اٹھنے کے جھنجھٹ میں بہت کم پڑتا ہے۔ اسے صبح کی نیند بہت عزیز ہے اور وہ ہمیشہ سب سے آخر میں اٹھتا۔‘‘ مان سنگھ اپنے دوست کے بارے میں بغیر رکے بے تکان بول سکتا تھا لیکن یہ آخری جملہ بھی سننے والوں میں کوئی دلچسپی جگانے میں ناکام رہا۔ پھر کھانا آ گیا۔ مہمان کے لیے خصوصی پکوان تیار کیے گئے تھے۔ وہ کھاتا رہا اور جسونت سنگھ پنکھا جھلتا رہا۔

    مان سنگھ کا یہ احساس کہ اسے زیادہ توجہ نہیں ملی، اب کچھ کچھ کم ہوتا جارہا تھا۔ جب وہ کھانا ختم کرنے ہی والا تھا تو کرم سنگھ کا ننھا بچّہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا ہوا وہاں آ گیا۔ اگر وہ گھر میں کسی اور سے کرم سنگھ کے بارے میں بات نہیں کر پا رہا تھا تو بچے سے کر ہی سکتا تھا۔ اس نے اٹھا کر اسے گود میں بٹھاتے ہوئے کہا، ’’ہمارے ساتھ اپنے باپو کے پاس چلو گے؟ وہاں بہت بارش ہوتی ہے۔ تمہیں کھیلنے کے لیے بہت سارا پانی ملے گا۔‘‘

    مان سنگھ کی اس بات نے جیسے بوڑھے کا سینہ چیر کر رکھ دیا ہو، ’’بچّے کو لے جاؤ۔‘‘ وہ چلّایا، ’’یہ ہمیں چین سے کھانے نہیں دے گا۔‘‘ ماں آئی اور بچّے کو لے گئی۔ کھانا مان سنگھ کے حلق میں پھنسنے لگا۔ گھر کے اس ماحول میں سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ اسے دم سا گھٹتا محسوس ہوا۔ پھر وہ اگلی صبح واپسی کے سفر کے بارے میں معلومات کرنے لگا۔

    ’’یہاں سے ترن تارن کتنی دور ہے؟‘‘

    ’’تقریباً چار میل۔‘‘

    ’’کیا صبح سویرے مجھے تانگا مل جائےگا۔‘‘

    ’’اس کے بارے میں فکر نہ کرو۔ ہم جسونت کو تمہارے ساتھ بھیجیں گے تاکہ تم دونوں بھائی ساتھ ساتھ ان سب مقامات کی زیارت کر سکو۔‘‘ مان سنگھ اس پیش کش سے کافی مطمئن ہوا کیونکہ جسونت دوسروں کی طرح کم گو نہیں تھا۔ لیکن باہر نکلنے کے بعد جسونت سنگھ کے بھی ہونٹ سیل ہو گئے تھے۔ اگر راستہ میں کوئی دوست یاشنا سا مل جاتا تو دھیمے لہجہ میں ست سری اکال کہتا اور چل پڑتا۔ مان سنگھ رک کر لوگوں سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے بار بار ان جگہوں پر آنے کا موقع نہیں ملے گا۔

    ’’کرم سنگھ نے فوج میں اتنا نام کمایا ہے۔۔۔ تم بھی کیوں بھرتی نہیں ہو جاتے۔‘‘ مان سنگھ نے بات دوبارہ چھیڑتے ہوئے کہا۔ جسونت چونکا پھر اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے بولا، ’’کیا فوج میں ایک کافی نہیں ہے؟‘‘ اور پھر جلدی سے موضوع بدلتے ہوئے پوچھنے لگا، ’’تمہارے ضلع میں گنے کی فصل کتنی اونچی ہے؟‘‘ وہ اب ایک کھیت سے گزر رہے تھے۔

    ’’آدمی کے قد سے بھی اونچی ہے۔‘‘ مگر مان سنگھ کا دھیان تو کہیں اور تھا۔ وہ اپنے دوست کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

    گھر لوٹ کر وہ واپسی کے سفر کا پروگرام بنانے لگا۔ اس نے سوچا کہ وہ امرتسر سے رات کی گاڑی پکڑے گا۔ حالانکہ انہوں نے اس کے آرام کا بے حد خیال رکھا تھا مگر اسے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اسے توقع تھی۔ اب جب کہ اس کے لیے چائے بنائی جا رہی تھی، وہ ڈیوڑھی میں اکیلا بیٹھا تھا۔ اس نے گلی میں جھانکا تو ڈاکیہ کو کندھے پر جھولا لٹکائے قریب آتے دیکھا۔ لگ رہا تھا وہ سیدھا جائے گا مگر وہ مڑا اور اندر آکر مان سنگھ کے قریب چارپائی پر بیٹھ گیا۔

    ’’کیا لائے ہو تم؟‘‘

    ’’ارے کیا ہو سکتا ہے؟ بیچارے کرم سنگھ کی پنشن سے متعلق کاغذات ہوں گے۔‘‘

    ’’کرم سنگھ کی پنشن؟ تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘

    ’’کیا تم کو نہیں معلوم؟ اس گاؤں کے تو پیڑ اور پرندے بھی کرم سنگھ کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’پندرہ دن پہلے خط آیا تھا۔‘‘

    اس کو اپنے گلے اور سینہ میں سخت گھٹن محسوس ہوئی اور اسے لگا کہ اس کا جسم اچانک سن ہو گیا۔ پھر اس کے جذبات کا بندھ ٹوٹ پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ کرم سنگھ کے گھر، اس کے باپ اور اس کے ننھے بچّے نے اس عمل کو اور تیز کر دیا تھا۔

    باپ نے ڈاکیہ کو دیکھ لیا تھا اور فوراً سمجھ گیا تھا کہ وہ کرم سنگھ کے دوست سے خبر چھپانے میں ناکام رہا۔ اب تو بوجھ اتار پھینکنا ہی بہتر ہے۔ ضبط کا بندھ جو انہوں نے اپنے اوپر لگایا ہوا تھا، اچانک ٹوٹ گیا۔ کافی دیر تک وہ ساتھ بیٹھے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔

    ’’تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ مان سنگھ نے درد ناک لہجہ میں پوچھا۔

    ’’ہم نے سوچا کہ لڑکے کی چھٹیاں خراب کرنے سے کیا فائدہ؟ بہتر ہے کہ اسے رجمنٹ میں جاکر معلوم ہو۔ تمہیں کرم سنگھ کی طرح یا اس سے زیادہ چھٹیاں عزیز ہیں۔ باہر کے علاقہ کے لوگ زیادہ آسائشوں کے عادی ہیں۔۔۔ لیکن ہم یہ خبر تم سے چھپانے میں ناکام رہے۔ ہمیں معاف کرنا۔‘‘

    واپس جاتے ہوئے مان سنگھ کی تجسس آمیز نگاہیں اس گاؤں کا جائزہ لینے لگیں، جس کے ماحول میں کرم سنگھ کا باپ پلا بڑھا تھا۔ وہاں کے مقبرے اور تاریخی عمارتیں اپنے سینوں میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف جرأت مندانہ جنگوں کی داستان چھپائے ہوئے تھیں۔ اسی میں بوڑھے کی ہمّت اور صدمات برداشت کرنے کی قوت کا راز پنہاں تھا۔ وہ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لیے ان کا غم بخوشی اپنے اوپر لے لیتا تھا۔

    مان سنگھ نے سن رکھا تھا کہ دھرتی کے نیچے ایک بیل ہے جس نے اپنے سینگوں پر ساری دنیا کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ کرم سنگھ کا باپ بھی ایسا ہی نیک صفت انسان تھا جو اپنے دکھوں کے کمر توڑ بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود دوسروں کے غموں کا بوجھ بانٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔

    (مصنّف:‌ سردار کلونت سنگھ)

  • گھڑ سوار(چین کی قدیم حکایت)

    گھڑ سوار(چین کی قدیم حکایت)

    ایک بوڑھے آدمی کا نام چُنگ لَنگ تھا، مطلب “چٹانوں کا ماہر”، اور اس کی پہاڑوں میں چھوٹی سی جائیداد تھی۔

    ایک روز اس کے گھوڑوں میں سے ایک گم ہو گیا۔ اس کے ہمسائے آئے اور اس کے ساتھ بدقسمتی کی وجہ سے پیش آنے والے اس واقعے پر افسوس کرنے لگے۔

    اس بوڑھے نے لیکن پوچھا، “تم نے یہ کیسے جانا کہ یہ بدقسمتی ہے؟” پھر چند روز بعد وہ گھوڑا واپس آ گیا اور اپنے ساتھ جنگلی گھوڑوں کی ایک بڑی ٹکڑی بھی لے آیا۔ ہمسائے پھر آ گئے اور اسے اتنی اچھی قسمت پر مبارک باد دینے لگے۔ اس پر پہاڑوں میں رہنے والے بوڑھے نے پھر پوچھا، “تم نے یہ کیسے جانا کہ یہ خوش قسمتی ہے۔”

    اب چونکہ گھوڑے کافی زیادہ ہو گئے تھے، تو بوڑھے آدمی کے بیٹے کو گھڑ سواری کا شوق ہوا۔ ایک دن اسی شوق کی تکمیل میں وہ اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا۔ ہمسائے پھر آ گئے کہ اس بوڑھے سے افسوس کا اظہار کر سکیں۔ اس مرتبہ بھی اس نے ان سے یہی پوچھا، “تم نے یہ کیسے جانا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے؟”

    اگلے برس “ریاستی لٹھ برداروں” کا کمیشن پہاڑوں میں آیا تاکہ توانا مردوں کو بادشاہ کی پیدل فوج کے سپاہیوں اور شاہی پالکیاں اٹھانے والوں کے طور پر بھرتی کر کے ساتھ لے جا سکے۔ انہوں نے بوڑھے کے بیٹے کو، جس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ ابھی ٹھیک نہیں ہوئی تھی، اپنے ساتھ نہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ چُنگ لَنگ یہ دیکھ کر مسکرا دیا۔

    (ہَرمن ہَیسے کی ایک تصنیف سے ماخوذ، مترجم مقبول ملک)

  • اپنا الّو کہیں نہیں گیا! (کہاوت کہانی)

    اپنا الّو کہیں نہیں گیا! (کہاوت کہانی)

    کہاوتیں دراصل چھوٹے چھوٹے جملوں میں ہماری زندگی کے کسی رخ کی طرف اشارہ، کسی عام حقیقت کا بیان یا کسی روزمرہ کے تجربہ کا عکس ہوتی ہیں۔ ان کہاوتوں کا کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ اکثر کہاوتوں کے پیچھے کوئی واقعہ بھی کارفرما ہوتا ہے۔

    یہاں‌ ہم ایک کہاوت "اپنا الّو کہیں نہیں گیا!” سے جڑی ہوئی کہانی نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    پہلے تو اس کہاوت کا مطلب جان لیں۔ جب ہم کہنا چاہیں کہ کوئی نقصان اٹھائے یا فائدہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری بات یوں بھی سچ ہے اور سچ رہے گی۔ یہ کہاوت اس وقت بھی بولی جاتی ہے جب کسی بے وقوف آدمی سے اپنا مقصد نکالنے میں کام یاب رہیں۔

    اس کی کہانی یوں ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا ہمارے لئے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سواگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روزنامچے میں لکھا، ’’بادشاہ الّو ہے۔‘‘ اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شحص کہنے لگا، ’’حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔‘‘

    بادشاہ نے کہا، ’’اور اگر وہ واپس آگیا تو؟‘‘

    اس شخص نے فوراً جواب دیا، ’’تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الّو کہیں نہیں گیا۔‘‘

  • ملکہ اولگا کا انتقام (عالمی ادب سے انتخاب)

    ملکہ اولگا کا انتقام (عالمی ادب سے انتخاب)

    کئی سال پہلے ملک کیف پر ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس کا نام اغور تھا۔ وہ ہر وقت سیر و تفریح میں مصروف رہتا تھا۔ اسے ملک کے انتظام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوگ اغور کو بہت ناپسند کرتے تھے۔

    اس کی ملکہ اولگا بہت خوبصورت، عقلمند اور ہوشیار عورت تھی۔ اس نے ملک کا سب انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ مظلوم لوگ ظلم و ستم کی فریاد لے کر ملکہ کے پاس پہنچتے۔ وہ ان کی فریاد سنتی، ظالموں کو سخت سزا دیتی اور مظلوموں کو جو نقصان پہنچا تھا اسے خزانے سے پورا کر دیتی۔ وہ غریبوں اور حاجت مندوں کی امداد کرتی رہتی تھی۔ رعایا کے سب لوگ چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، سبھی ملکہ کو بے حد چاہتے تھے۔

    ایک دن بادشاہ اغور شکار کھیلتا ہوا اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور بدقسمتی سے ایک ایسے علاقے میں جا نکلا جہاں ایک دشمن قبیلے ڈرالون کی حکومت تھی۔ یہ وحشی اور جنگجو قبیلہ تھا۔ ان کی گزر اوقات لوٹ مار اور غارت گری پر تھی۔ وہ قافلوں کو لوٹ لیتے یا آس پاس کی بستیوں میں لوٹ مار کر قتل اور غارت گری کرتے۔ ان کی دہشت دور دور تک بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈرالون کے سردار نے بادشاہ اغور کو بہت تکلیفیں پہنچائیں۔ آخر اسے مار ڈالا اور لاش کو ایک صندوق میں بند کر کے ملکہ اولگا کے پاس بھیج دیا۔ جب ملکہ نے صندوق کھولا اور لاش کو دیکھا تو اسے بے حد رنج اور شدید صدمہ پہنچا۔ ملکہ اولگا بہت ہمت اور حوصلے والی تھی۔ اس نے اپنے رنج و غم کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ دربار میں موجود سب لوگوں کا یہی مطالبہ تھا کہ بادشاہ کے قتل کا انتقام لیا جائے اور ڈرالون قبیلے کو سخت سزا دی جائے۔

    ملکہ نے بہت تحمل سے جواب دیا، "میرے معزز درباریو! میں بادشاہ کے قتل کا انتقام ضرور لوں گی لیکن میں چاہتی ہوں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی میں ڈرالون والوں سے انتقام بھی لے لوں اور ہمارا کوئی نقصان بھی نہ ہو۔”

    شاہ اغور کو قتل کرنے کے بعد ڈرالون کے سردار کا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ اس نے سوچا اگر میں ملکہ اولگا سے شادی کر لوں تو اس طرح ملک کیف بھی ہمارے قبضے میں آ جائے گا۔ چنانچہ اس نے بیس آدمیوں کا ایک وفد ملکہ اولگا کی خدمت میں بھیجا اور ان کی معرفت شادی کا پیغام ملکہ کو پہنچایا۔ ملکہ اولگا، ڈرالون سردار کی اس جسارت پر بے حد ناراض ہوئی۔ وہ بہت ہوشیار اور عقلمند عورت تھی، اس لیے اس نے اپنے غیظ و غضب کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور بولی، "تم لوگوں نے میرے دل کی بات کہہ دی، میں خود بھی تمہارے سردار سے شادی کرنے کی آرزو رکھتی تھی۔ اب تم اپنے ڈیرے واپس جاؤ۔ کل میں اپنے امیروں اور وزیروں کو تمہارے پاس بھیجوں گی تاکہ وہ تمہیں عزت و احترام سے اپنے ساتھ لائیں۔”

    ملکہ اولگا نے وفد کے سربراہ کو بہت سے تحفے تحائف دے کر ڈرالون سردار کے پاس اسی وقت روانہ کر دیا اور کہلوایا کہ میں شادی کے لیے تیار ہوں۔

    جب ڈرالون والے اپنے ڈیرے پر جا چکے تو ملکہ نے اپنے امیروں اور وزیروں سے کہا، "انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ خبردار، میرے حکم کی تعمیل میں کوئی اعتراض نہ کرنا۔ میں جیسا کہوں ویسا ہی کرنا۔”

    اگلے دن صبح سویرے وزیر اور امیر وفد کے استقبال کے لیے جا پہنچے۔ انہوں نے کہا، "آپ تشریف لے چلیے، ملکہ حضور نے آپ لوگوں کو یاد فرمایا ہے۔”

    ڈرالون کے لوگ وحشی ہونے کے ساتھ ساتھ احمق بھی تھے۔ انہوں نے کہا، "ہم نہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جائیں گے اور نہ کسی اور سواری پر بیٹھیں گے۔ ہم تمہارے کندھوں پر سوار ہو کر جائیں گے تاکہ لوگوں پر ہمارا رعب بیٹھ جائے اور وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب ہم ان کے حاکم ہوں گے۔”

    یہ بیہودہ فرمائش سن کر کیف کے امیروں کو بےحد غصہ آیا۔ ایک وزیر نے کہا، "ہماری ملکہ کا حکم ہے کہ ہم آپ لوگوں کو عزت و احترام سے لے کر جائیں۔ اگر آپ لوگوں کی یہ مرضی ہے تو ہمیں آپ کی یہ شرط منظور ہے۔” یہ کہہ کر انہوں نے ڈرالون والوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور محل کی طرف لے چلے۔ جب وہ محل کے نزدیک پہنچے تو ایک دربان انہیں محل کی پچھلی طرف لے گیا۔ وہاں ایک گہرا کنواں کھدا ہوا تھا۔ انہوں نے ڈرالون والوں کو یہاں اتار دیا۔ دربان نے کہا، "ملکہ کا حکم ہے کہ ان معزز مہمانوں کو زندہ دفن کر دیا جائے۔”

    اب ڈرالون والے بہت گھبرائے اور انہوں نے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ملکہ اولگا کے امیروں نے انہیں دھکیل کر کنویں میں گرا دیا۔
    اس کام سے فارغ ہو کر ملکہ اولگا نے اپنے کچھ ہوشیار امیروں کو ڈرالون کے سردار کے پاس بھیجا۔ انہوں نے سردار کی خدمت میں بہت قیمتی تحفے پیش کیے اور کہا، "ہماری ملکہ کو آپ سے شادی کرنا منظور ہے۔ آپ نے جو لوگ بھیجے تھے وہ ملکہ نے اپنے پاس ٹھہرا لیے ہیں تاکہ وہ آپ کے آداب اور رسوم سے واقف ہو جائیں۔ ہماری ملکہ کی خواہش ہے کہ آپ اپنے اعلی شہہ سواروں، فوجی افسروں اور معزز لوگوں کو بھیجیں تاکہ وہ انہیں دھوم دھام سے یہاں لائیں۔”

    ڈرالون کا سردار یہ خوش خبری سن کر پھولا نہ سمایا۔ اس نے اپنے سب معزز سرداروں، فوجی افسروں، امیروں اور وزیروں کو ملکہ اولگا کے پاس بھیجا تاکہ وہ ملکہ کو شان و شوکت سے اپنے ساتھ لے کر آئیں۔ ملکہ اولگا نے ان لوگوں کی خوب خاطر و مدارت کی۔ اس نے کہا، "معزز مہمانو! آپ لوگ لمبے سفر سے تھک گئے ہوں گے، اس لیے پہلے غسل کر کے اپنے کپڑے تبدیل کر لیجیے۔”

    انہیں غسل کے لیے حمام بھیج دیا گیا۔ یہ گرم حمام یا غسل خانے خاص طرح کے ہوتے ہوتے تھے۔ ان کے فرش کے نیچے دھیمی دھیمی آنچ ہوتی تھی تاکہ غسل خانہ گرم رہے۔

    جب یہ لوگ حمام میں داخل ہوئے تو اس کے دروازے بند کر دیے گئے اور فرش کے نیچے آگ تیز کر دی گئی۔ تھوڑی دیر میں حمام میں سخت گرمی ہو گئی۔ ڈرالون کے لوگ گرمی سے بے تاب ہو کر چیخنے چلانے لگے لیکن کسی نے دروازہ کھول کر نہیں دیا۔ آخر وہ سب لوگ حمام کے اندر دم گھٹ کر مر گئے۔

    اب ملکہ اولگا نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ پہلے اس نے ایک قاصد ڈرالون سردار کے پاس بھیجا۔ اس نے اطلاع دی کہ ہماری ملکہ روانہ ہو چکی ہیں۔ وہ شہر کے باہر قیام کریں گی۔

    پہلے وہ سب سرداروں، معزز لوگوں اور فوج کے سب سپاہیوں کی دعوت کریں گی۔ اس کے بعد وہ ان سب لوگوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوں گی۔ شادی کی رسم محل کے اندر ادا کی جائے گی۔

    ڈرالون سردار بہت خوش ہوا۔ جب اسے ملکہ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ کی ہزاروں بہادر سپاہیوں، سرداروں اور امیروں کے ساتھ ملکہ کے استقبال کے لیے نکلا۔ ملکہ اولگا نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ سردار نے پوچھا، "میں نے جو فوجی افسر اور سردار آپ کے استقبال کے لیے بھیجے تھے وہ کہاں ہیں؟”

    ملکہ اولگا نے کہا، "وہ پورے لشکر کے ساتھ پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔” یہ جواب سن کر ڈرالون کا سردار مطمئن ہو گیا۔

    رات کے وقت ملکہ نے ڈرالون سردار اور اس کے ساتھیوں کی پُرتکلف دعوت کی۔ طرح طرح کے کھانے دستر خوان پر چنے گئے۔ سب لوگوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ اس کے بعد شراب کا دور چلا۔ شراب میں کوئی تیز نشہ اور دوا ملائی گئی تھی۔ اس لیے دو چار جام پی کر سب لوگ مدہوش ہو گئے۔ جب ملکہ کو یقین ہو گیا کہ اب انہیں کسی بات کا ہوش نہیں رہا ہے تو اس نے اپنے سپاہیوں کو اشارہ کر دیا۔ ڈرالون والوں کی یہ حالت تھی کہ وہ بھاگنا چاہتے تھے مگر نشے کی وجہ سے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ اٹھ اٹھ کر گرتے اور گرنے کے بعد پھر اٹھنے کی کوشش کرتے۔ ملکہ اولگا کے سپاہیوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔

    ڈرالون سردار کسی نہ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے ملکہ کی چال بازی کی سب کو اطلاع دی۔ اسی وقت شہر کے سب دروازے بند کر دیے گئے۔ ہر طرف ایک افراتفری مچ گئی۔ لوگ حیران پریشان تھے۔ ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟

    ملکہ نے ڈرالون والوں کی قوّت بالکل توڑ دی تھی۔ اب ان میں مقابلے کی سکت بالکل نہ رہی تھی۔ وہ قلعہ بند کر کے بیٹھ گئے۔ ملکہ نے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ اس نے قلعہ فتح کرنے کے لیے کئی حملے کیے، لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکی۔

    آخر ملکہ نے چالاکی سے کام لیا۔ اس نے اپنے سفیر کے ذریعے پیغام بھیجا، "میں نے قسم کھائی تھی کہ میں یہ قلعہ فتح کیے بغیر واپس نہیں جاؤں گی۔ لیکن اگر تم صلح کرنا چاہو تو میں تمہارا قصور معاف کر دوں گی۔ میں تم سے معمولی جرمانہ وصول کروں گی جو تم آسانی سے ادا کر سکتے ہو۔”

    ڈرالون سردار نے کہلوایا، "مجھے صلح کرنی منظور ہے۔ آپ جو جرمانہ طلب کریں گی میں ادا کروں گا۔”

    بچوں کی کہانیاں

    ملکہ نے کہلوایا، "ہمارے ملک میں کبوتر اور چڑیاں نہیں ہوتے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر گھر سے دو چڑیاں اور دو کبوتر بھیجے جائیں۔ میں اس جرمانے کو وصول کر کے واپس چلی جاؤں گی۔”

    ڈرالون سردار نے یہ پیغام سن کر کہا، "یہ کون سی مشکل بات ہے؟ ہم ایسی آسان شرط پر ملکہ سے صلح کرنے کو تیار ہیں۔”

    دو تین دن کے اندر ہر گھر سے چڑیا اور کبوتر اکھٹے کر کے ملکہ کی خدمت میں روانہ کر دیے گئے۔

    ملکہ نے حکم دیا جتنے کبوتر اور چڑیاں ہیں، اتنی ہی لوہے کی چھوٹی چھوٹی سلائیاں تیار کی جائیں۔ ان کے ایک سرے پر روئی کی گولی تیل میں ڈبو کر باندھ دی جائے۔ ان سلائیوں کا دوسرا سرا چڑیاؤں اور کبوتروں کی دموں سے باندھ دیا جائے۔

    سپاہیوں نے ملکہ کے حکم کی تعمیل کی۔ شام کے وقت روئی کی گولیوں میں آگ لگا کر ان چڑیاؤں اور کبوتروں کو چھوڑ دیا گیا۔ پرندوں کے اڑنے سے آسمان پر ایک عجیب قسم کی آتش بازی کا تماشا نظر آیا۔ ڈرالون کے لوگ یہ تماشا دیکھنے کے لیے اپنے کوٹھوں پر چڑھ گئے۔ ہر طرف پھلجڑیاں سی چھوٹ رہی تھیں۔ لوگ اس تماشے کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ ذرا دیر بعد یہ چڑیاں اور کبوتر اپنے اپنے گھونسلے میں جا پہنچے۔

    وہ جہاں پہنچے اور جس گھر میں اترے، اس میں آگ لگ گئی۔ قلعے کے ہر کونے اور آبادی کے ہر گھر سے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ ہر طرف آگ کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس میں جل کر مر گئے۔ لوگوں نے گھبرا کے قلعے کا پھاٹک کھول دیا اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ لیکن یہاں ملکہ اولگا کے سپاہی ان کی گھات میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ ہزاروں لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا اور ڈرالون کی پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔ اور ان کے قلعے اور آبادی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔

    اس طرح ملکہ اولگا نے بادشاہ کے قتل کا انتقام لیا۔ اس پورے معرکے میں اس کا ایک بھی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    ایک عقاب بادلوں کی چادروں کو چیرتا ہوا کوہ قاف کی چوٹیوں پر پہنچا اور ان کا چکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر بیٹھ گیا۔

    وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا اس کی خوب صورتی میں وہ محو ہوگیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے۔ کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔ کہیں پر جھیلیں اور جھیلوں کے آس پاس درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں۔ کہیں پر سمندر خفگی سے اپنے ماتھے پر بل ڈالے کوّے کی طرح کالا ہو رہا ہے۔

    اے خدا عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں۔ تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے جہاں میں پہنچ نہ سکوں، میں فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔‘‘

    ایک مکڑی درخت کی ایک شاخ سے بول اٹھی۔’’تو آخر کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ نیچی ہوں؟‘‘

    عقاب نے پھر کر دیکھا۔ واقعی ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالا تن رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی کہ گویا سورج تک کو عقاب کی نظر سے چھپا دے گی۔

    عقاب نے حیرت سے پوچھا ’’تو اس سربلندی پر کیسے پہنچی؟ جب وہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے کہیں زیادہ اڑنے کی طاقت ہے، یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے؟ تو کمزور اور بے پر کیا چیز ہے۔ کیا تو رینگ کر یہاں آئی؟‘‘

    مکڑی نے جواب دیا۔ ’’نہیں ایسا تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو پھر یہاں کیسے آگئی؟‘‘

    ’’جب تو اڑنے لگا تھا تو میں تیری دم سے لٹک گئی اور تُو نے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔ لیکن میں یہاں اب تیری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں، اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تو اپنے آپ کو بے کار بڑا نہ ظاہر کر اور سمجھ لے کہ میں ہی۔۔۔‘‘

    اتنے میں ایک طرف سے ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا کر زمین پر گرا دیا۔

    میرا خیال ہے اور آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہوگا کہ دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جو اس مکڑی سے بہت مشابہ ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی قابلیت اور محنت کے کسی بڑے آدمی کی دم میں لٹک کر بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایسا سینہ پھیلاتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو عقابوں کی سی طاقت بخشی ہے، مگر بات صرف یہ ہے کہ کوئی ذرا پھونک دے اور وہ اپنے جامے سمیت پھر زمین پر پہنچے ہوتے ہیں۔

    (معروف ہندوستانی اسکالر، ادیب اور ماہرِ تعلیم محمد مجیب کے قلم سے ایک حکایت)

  • خواہشوں‌ کی زنجیر (حکایت)

    خواہشوں‌ کی زنجیر (حکایت)

    ایک گاؤں میں ایک لوہار رہتا تھا۔ وہ سارا دن آگ کی بھٹی کے سامنے بیٹھا رہتا۔ لوہا گرم کرتا، اسے کوٹتا اور کسانوں کے لیے ہل، کلھاڑے کے پھل اور درانتیاں وغیرہ بناتا رہتا۔ سردی ہو یا گرمی ، سارا سال وہ اسی کام میں جٹا رہتا تھا۔

    ایک دن شدید گرمی میں لوہار بھٹی میں لوہا گرم کرنے کے بعد اسے کوٹ رہا تھا تاکہ وہ اوزار تیار کرسکے جو اسے گاہک کو بیچنا ہے۔ ایسا کام خطرناک بھی ہوتا ہے اور بہت زیادہ احتیاط بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن کبھی بھول چوک اور کبھی حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔ لوہار کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ حادثاتی طور پر اس روز گرم ایک ٹکڑا اس کے جوتے میں جا پڑا۔ اس نے جلدی سے جوتا اتارا، لیکن اس وقت تک پاؤں جل چکا تھا۔ لوہار کو سخت تکلیف بھی ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا:

    ’’یہ کام بہت سخت ہے۔ بھٹی کی گرمی اور پھر گرم لوہے کے ٹکڑے، میں تو اس کام سے تنگ آگیا ہوں۔ بہتر ہوتا، اگر میں پہاڑ پر پڑا ایک پتھر ہوتا۔ پہاڑ پر پڑا پتھر کتنا خوش ہوتا ہو گا۔ پہاڑ پر ہر وقت چلتی ہوا، اسے ٹھنڈا رکھتی ہو گی۔ پھر، پہاڑی پر درختوں کا سایہ بھی تو ہوتا ہے۔ شدید دھوپ میں بھی ٹھنڈک رہتی ہو گی۔‘‘
    جب لوہار باتیں کر رہا تھا تو اسی وقت وہاں سے ایک جنّ کا گزر ہوا۔ جنّ نے اس کی باتیں سنیں اور لوہار سے کہا: ’’چلو، میں تمہاری خواہش پوری کر دیتا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ لوہار کا وجود ایک پتّھر میں تبدیل ہوگیا۔ اور پھر اس پتّھر کو ایک بڑے پہاڑ کے اوپر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں‌ پہنچ کر لوہار جو اب ایک پتّھر بن چکا تھا، تھوڑی دیر تو آرام سے پڑا رہا، لیکن پھر ایک شخص اس پہاڑ پر آپہنچا۔ یہ شخص کچھ خاص قسم کے پتّھر ڈھونڈ رہا تھا تاکہ انہیں تراش کر مجسمے وغیرہ بنا سکے۔ اس نے کئی پتّھر اپنے تھیلے میں‌ اکٹھا کر رکھے تھے اور جب اس پتّھر پر نظر پڑی تو کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اسے اپنے مطلب کا جان کر اٹھایا اور تھیلے میں‌ کئی پتّھروں کی طرح اسے بھی ڈال لیا۔ یہ پتّھر جو اصل میں لوہار تھا، کچھ دیر ہلتے ہوئے تھیلے میں رہا اور محسوس کیا کہ وہ شخص یہ تھیلا اٹھائے اونچے نیچے راستوں‌ پر بڑھ رہا ہے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچ گیا اور پتّھروں سے بھرے ہوئے تھیلے کو ایک جگہ رکھ دیا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ وہ سنگ تراش آیا اور اس نے تھیلا الٹ دیا۔ اس میں‌ سے چند پتّھر دیکھ بھال کر اٹھائے جن میں‌ لوہار بھی شامل تھا۔ سنگ تراش نے اچانک اسے ہاتھ میں لے لیا اور لگا لوہے کے اوزار سے اسے کاٹنے۔ یہ پتّھر چلّانے لگا:

    ’’مجھے سخت درد ہو رہا ہے۔ ضرب سے میرا جسم ٹوٹ رہا ہے، میں پتّھر نہیں رہنا چاہتا۔ بہتر ہے میں پتّھر کاٹنے والا بن جاؤں۔‘‘ اس کی خواہش جنّ تک فوراً پہنچ گئی۔ اس نے اسے پتّھر سے دوبارہ انسان بنا دیا اور اسے سنگ تراشی کے پیشہ کا پابند بھی کردیا۔ اب وہ شخص جو کبھی لوہار تھا اور پتّھر بن گیا تھا، ایک سنگ تراش کی حیثیت سے پہاڑوں میں‌ پتّھروں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور تھا۔ اس نے پتّھر ڈھونڈنے کے لیے پہاڑوں کا رخ کیا، لیکن اسے مناسب پتھر نہیں مل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ ان سے خون رِسنے لگا۔ سورج کی تپش سے پہاڑ پر موجود پتّھر نہایت گرم ہو رہے تھے۔ اسے یہ سب مشکل لگا۔ اس نے چلّانا شروع کر دیا:

    ’’میں پتّھر کاٹنے والا نہیں رہنا چاہتا۔ میں سورج بننا چاہتا ہوں۔‘‘ اس مرتبہ جنّ نے پھر اس کی آرزو پوری کردی اور اسے سورج بنا دیا۔ سورج بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ اس کا اپنا وجود ہی لوہار کی بھٹی سے بھی زیادہ گرم ہے۔ تپتے پتّھر سے بھی زیادہ گرم ہے۔ سورج میں‌ تبدیل ہوتے ہی اس نے لمحوں‌ میں اپنی خواہش داغ دی اور کہا:‌

    ’’میں سورج نہیں رہنا چاہتا۔ چاند، سورج کے مقابلے میں کس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں چاند بننا چاہتا ہوں۔‘‘ جنّ نے سورج کی یہ آواز سنی۔ وہ بہت ہنسا اور اس نے لوہار کو چاند بنا دیا۔ چاند بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ چاند پر تو سورج کی ہی روشنی پڑتی ہے۔ یہ بھی اسی طرح تپتا ہے، جیسے سورج کی تپش سے پتھر تپتا ہے۔ اس نے کہنا شروع کر دیا:

    ’’میں چاند بن کر نہیں رہ سکتا، مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ لوہار کی زندگی ہی سب سے بہترین ہے۔‘‘ جنّ نے اس کی بات سنی اور کہنے لگا:

    ’’تم نے جو کہا، میں نے تمہیں ویسا ہی بنا دیا۔ اب میں تمہاری فرمائشوں سے تنگ آچکا ہوں۔ تم نے چاند بننے کا کہا، میں نے تمھیں چاند بنا دیا۔ اب تم چاند ہی رہو۔ اس نے یہ سنا تو جنّ کے آگے گڑگڑانے لگا اور بولا کہ میں‌ وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ اپنے پیشے کی برائی نہیں کروں اور بے جا خواہشات سے بھی باز آتا ہوں، تم مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ جنّ نے اس کے ساتھ نرمی برتی اور اسے لوہار بنا کر نصیحت کی کہ دیکھو جس حال میں‌ ہو خوش رہنا سیکھو، اور ذرا سی تکلیف یا برا وقت آنے پر اپنے اُس پیشے کو برا نہ کہو جس سے تم ایک عرصہ سے روزی کا بندوبست کرتے آ رہے ہو۔ ایسا کرنے والا ناشکرا اور بے وفا انسان ہوتا ہے۔

    (اطفالِ ادب سے انتخاب)

  • موچی (انگریزی ادب سے انتخاب)

    موچی (انگریزی ادب سے انتخاب)

    میں اسے تب سے جانتا تھا، جب میں بہت چھوٹا تھا۔ وہ میرے ابو کے جوتے بناتا تھا۔

    چھوٹی سی ایک گلی میں دو دکانیں ملا کر انھیں ایک دکان میں کر دیا گیا تھا۔ مگر اب وہ دکان نہیں رہی، اس کی جگہ ایک بے حد جدید طرز کی دکان تیار ہوگئی ہے۔

    اس کی کاری گری میں کچھ خاص بات تھی۔ شاہی خاندان کے لیے تیار کیے گئے کسی بھی جوتے کی جوڑی پر کوئی نشان نہیں ہوتا تھا سوائے ان کے اپنے جرمن نام کے’’گیسلر بردرس۔‘‘ اور کھڑکی پر جوتوں کی صرف چند جوڑیاں رکھی رہتیں۔ مجھے یاد ہے کھڑکی پر ایک ہی طرح کی جوڑیوں کو بار بار دیکھنا مجھے کھلتا تھا، کیوں کہ وہ آرڈر کے مطابق ہی جوتے بناتا تھا۔ نہ کم نہ زیادہ۔ اس کے تیار کردہ جوتوں کے بارے میں یہ سوچنا غیر تصوراتی تھا کہ وہ پاؤں میں ٹھیک سے نہیں آئیں گے؟ تو کیا کھڑکی پر رکھے جوتے اس نے خریدے تھے۔ یہ سوچنا بھی تصور سے دور تھا۔ وہ اپنے گھر میں ایسا کوئی چمڑا رکھنا برداشت نہیں کرتا تھا جس پر وہ بذاتِ خود کام نہ کرے۔ اس کے علاوہ پمپ شو کا وہ جوڑا بے حد خوبصورت تھا، اتنا شان دار کہ بیان کرنا مشکل تھا۔ وہ اصل چمڑے کا تھا جس کی اوپری تہہ کپڑے کی تھی۔ انھیں دیکھ کر ہی جی للچانے لگتا تھا۔

    اونچے اونچے بھورے چمک دار جوتے، حالانکہ نئے تھے مگر ایسا لگتا تھا جیسے سیکڑوں برسوں سے پہنے جارہے ہوں۔ واقعی جوتوں کا وہ جوڑا ایک مثالی نمونہ تھا۔ جیسے تمام جوتوں کی روح اس میں منتقل ہوگئی ہو۔

    دراصل یہ سارے خیالات میرے ذہن پر بعد میں ابھرے۔ حالانکہ جب میں صرف چودہ برس کا تھا، تب سے اسے جانتا تھا اور اسی وقت سے میرے دل میں اس کے اور اس کے بھائی کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہو چکا تھا۔ ایسے جوتے بنانا جیسے وہ بناتا تھا تب بھی اور اب بھی میرے لیے ایک عجوبہ یا حیرت انگیز بات تھی۔

    مجھے بخوبی یاد ہے، ایک دن میں نے اپنا چھوٹا سا پیر آگے بڑھا کر شرماتے ہوئے اس سے پوچھا تھا،’’مسٹر! کیا یہ بہت مشکل کام نہیں ہے؟‘‘

    جواب دیتے وقت سرخی مائل داڑھی سے ایک مسکان ابھر آئی تھی،’’ہاں، یہ مشکل کام ہے۔‘‘

    چھوٹے قد کا وہ آدمی جیسے بذات خود چمڑے سے بنایا گیا ہو، اس کا زرد چہرہ جھریوں بھرا چہرہ اور سرخی مائل گھنگھرالے بال اور داڑھی، رخساروں سے اس کے منہ تک دائروی شکل میں ابھری چہرے کی لکیریں، گلے سے نکلی ہوئی بھاری بھرکم آواز۔ چمڑا ایک نافرمان چیز ہے۔ سخت اور آہستہ آہستہ آکار لینے والی چیز۔ اس کے چہرے کی بھی یہی خاصیت تھی۔ اپنے آدرش کو اپنے اندر پوشیدہ رکھے ہوئے، محض اس کی آنکھیں اس سے عاری تھیں۔ جو بھوری نیلی تھیں اور جن میں ایک سادگی بھری گہرائی تھی۔

    اس کا بڑا بھائی بھی تقریباً اس جیسا ہی تھا بلکہ اس کا رنگ کچھ زیادہ زردی مائل تھا۔ شروعات میں میرے لیے دونوں میں فرق کر پانا دشوار مرحلہ تھا۔ پھر میری سمجھ میں آگیا۔ جب کبھی میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا، ایسا نہیں کہا جاتا تو میں جان لیتا تھا کہ یہ وہی ہے اور یہ الفاظ دہرائے جاتے تو یقیناً وہ اس کا بڑا بھائی ہوتا۔

    کئی بار برسوں بیت جاتے اور بل میں اضافہ ہوتا جاتا، مگر گیسلر بھائیوں کی رقم کوئی بقایا نہیں رکھتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس نیلے فریم کے چشمے والے جوتا ساز کی کسی پر دو جوڑیوں سے زیادہ رقم باقی ہو۔ اس کے پاس جانا ہی طمانیت کا احساس جگا دیتا تھا کہ ہم بھی اس کے گاہک ہیں۔

    اس کے پاس بار بار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، کیوں کہ اس کے بنائے جوتے بہت مضبوط ہوتے تھے۔ ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔وہ جوتے ایسے ہوتے جیسے جوتوں کی روح ان کے اندر سِل دی گئی ہو۔

    وہاں جانا کسی عام دکان پر خریداری کرنے کے مترادف نہیں تھا۔ ایسا قطعی نہیں تھا کہ آپ دکان میں داخل ہوئے اور بس کہنے لگیں کہ ’’ذرا مجھے یہ دکھاؤ‘‘ یا ’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر اٹھے اور چل دیے۔یہاں پورے اطمینان کے ساتھ جانا پڑتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے کسی گرجا گھر میں داخل ہوا جاتا ہے۔ پھر اس کی اکلوتی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر انتظار کریں، کیوں کہ اس وقت وہاں کوئی نہیں ہوتا۔جلد ہی چمڑے کی بھینی بھینی بو اور تاریکی سے بھری اوپر کی کنوئیں نما کوٹھری سے اس کا یا اس کے بڑے بھائی کا چہرہ نیچے جھانکتا ہوا نظر آتا۔ ایک بھاری بھرکم آواز اور لکڑی کی تنگ سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ سنائی دیتی۔ پھر وہ آپ کے سامنے کھڑا ہوتا، بنا کوٹ کے تھوڑا جھکا جھکا سا، چمڑے کا ایپرن پہنے، آستین اوپر چڑھائے، آنکھیں اور پلکیں جھپکاتے ہوئے جیسے اسے جوتوں کے خوبصورت خواب سے جگایا گیا ہو یا جیسے وہ الّو کی طرح دن کی روشنی سے حیرت زدہ اور خواب میں خلل کی وجہ سے جھنجھلایا ہوا ہو۔

    میں اس سے پوچھتا،ــ کیسے ہو بھائی گیسلر؟ کیا تم میرے لیے روسی چمڑے سے ایک جوڑی جوتے بنا دو گے؟‘‘ بنا کچھ کہے وہ دکان کے اندر چلا جاتا اور میں اسی لکڑی کی کرسی پر آرام سے بیٹھ کر اس کے پیشے کی بو اپنی سانسوں میں اتارتا رہتا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ لوٹتا۔ اس کے کمزور اور اُبھری ہوئی نسوں والے ہاتھوں میں گہرے بھورے رنگ کے چمڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا۔ اس کی آنکھیں اس پر گڑی رہتیں اور وہ کہتا،’’کتنا خوبصورت ٹکڑا ہے!‘‘جب میں بھی اس کی تعریف کردیتا تو وہ سوال کرتا، آپ کو جوتے کب تک چاہیے؟‘‘اور میں کہتا،’’اوہ بنا کسی دقت کے جتنی جلد ممکن ہوسکے بنا کر دے دو۔‘‘ اور پھر وہ سوالیہ انداز میں کہتا،’’کل دوپہر؟‘‘یا اگر اس کا بڑا بھائی ہوتا تو وہ کہتا،’’میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا۔‘‘

    پھر میں آہستہ سے کہتا،’’شکریہ مسٹر گیسلر، اب اجازت، خدا حافظ۔‘‘

    ’’خدا حافظ!‘‘ وہ کہتا۔ مگر اس کی نگاہ ہاتھ تھامے ہوئے چمڑے پر ہی ٹکی رہتیں۔ میں دروازے کی جانب مڑتا۔ مجھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی۔ جو اسے جوتوں کی اسی خوابوں بھری دنیا میں لے جاتی۔ مگر ایسا کوئی نیا جوتا بنوانا ہو، جو اس نے ابھی تک میرے لیے نہ بنایا ہو تو وہ جیسے مخمصے میں پڑ جاتا۔ مجھے میرے جوتے سے آزاد کر کے دیر تک ہاتھ میں لے کر اس جوتے کو دیکھتا رہتا۔ مسلسل شفقت بھری پارکھی نظروں سے نہارتا رہتا۔ جیسے اس گھڑی کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو جب بڑے جتن سے انھیں بنایا گیا تھا۔ اس کے ہاؤ بھاؤ میں کرب جھلکتا تھا کہ آخر کس نے اس قدر عمدہ نمونے کو اس حال میں پہنچایا ہے۔ پھر کاغذ کے ایک ٹکڑے پر میرا پیر رکھ کر وہ پینسل سے دو تین بار پیر کے گھیرے کا نشان بناتا، اس کی حرکت کرنے والی انگلیاں میرے انگوٹھے اور پیروں کو چھوتی رہتیں، جیسے میں نے یوں ہی اس سے کہہ دیا،’’بھائی گیسلر، آپ کو پتہ ہے، آپ نے جو پچھلا جوتا بنا کر دیا تھا، وہ چرمراتا ہے۔‘‘

    کچھ کہے بغیر اس نے پل بھر میری طرف دیکھا، جیسے امید کر رہا ہو کہ یا تو میں اپنا جملہ واپس لے لوں یا اپنی بات کا ثبوت پیش کروں۔

    ’’ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘وہ بولا۔

    ’’ہاں مگر ایسا ہوا ہے۔‘‘

    ’’کیا تم نے انھیں بھگویا تھا؟‘‘

    ’’میرے خیال سے تو نہیں۔‘‘

    یہ سن کر اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔ جیسے وہ ان جوتوں کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو، مجھے بے حد افسوس ہوا کہ میں نے یہ بات کیوں کہہ دی۔

    ’’جوتے واپس بھیج دو۔ میں دیکھوں گا۔‘‘وہ بولا۔ اپنے چرمراتے ہوئے جوتوں کے بارے میں میرے اندر رحم دلی کے جذبات ابھر آئے۔ میں بخوبی تصور کرسکتا تھا کہ دکھ بھری طویل بے چینی کے ساتھ نہ جانے کتنی دیر تک وہ ان کی مرمت کرے گا؟

    ’’کچھ جوتے۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’پیدائشی خراب ہوتے ہیں، اگر انھیں درست نہ کرسکا تو آپ کے بل میں اس کے پیسے نہیں جوڑوں گا۔‘‘

    اک بار، محض ایک بار، میں اس کی دکان میں بے خیالی سے ایسے جوتے پہن کر چلا گیا جو جلد بازی کی وجہ سے کسی مشہور دکان سے خرید لیے تھے۔ اس نے بنا کوئی چمڑا دکھائے میرا آرڈر لے لیا۔میرے جوتوں کی گھٹیا بناوٹ پر اس کی آنکھیں ٹکی ہوئی تھیں۔ میں اس بات کو محسوس کر رہا تھا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور وہ بول اٹھا،’’یہ میرے بنائے ہوئے جوتے تو نہیں ہیں؟‘‘

    اس کے لہجے میں نہ غصہ تھا نہ دکھ کا اظہار نہ نفرت کے جذبات۔مگر کچھ ایسا ضرور تھا، جو لہو کو سرد کر دے۔ اس نے ہاتھ اندر ڈال کر انگلی سے بائیں جوتے کو دبایا، جہاں جوتے کو فیشن ایبل بنانے کے لیے غیر ضروری کاری گری کی گئی تھی۔ مگر وہاں وہ جوتا کاٹتا تھا۔

    ’’یہاں، یہ آپ کو کاٹتا ہے نا؟‘‘اس نے پوچھا،’’یہ جو بڑی کمپنیاں ہیں انھیں عزت کا پاس نہیں ہوتا۔‘‘ پھر جیسے اس کے دماغ میں کچھ بیٹھ گیا ہو، وہ زور زور سے کڑواہٹ بھرے لہجے میں بولنے لگا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا، جب میں نے اسے اپنے پیشے سے پیدا ہونے والے ناگفتہ بہ حالات اور دقتوں کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سنا۔ ’’انھیں سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘اس نے کہا،’’ وہ کام کے بوتے پر نہیں، بلکہ اشتہار کے بوتے پر سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ ہمارے گاہک چھین لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج میرے پاس کام نہیں ہے۔‘‘ اس کی جھریوں سے بھرے چہرے پر میں نے وہ سب دیکھا جو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بے انتہا تکلیف، کڑواہٹ اور جدوجہد۔ اچانک اس کی سرخ مائل داڑھی میں سفیدی لہرانے لگی تھی۔

    اپنی جانب سے میں اتنا کرسکتا تھا کہ اسے حالات روشناس کراتا۔جس کی بنا پر میں اس گھٹیا جوتوں کو خریدنے پر مجبور ہو گیا تھا۔مگر ان چند لمحات میں اس کے چہرے اور آواز نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے کئی جوڑی جوتوں کے بنانے کا آرڈر دے دیا اور اس کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ جوتے گھسنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ تقریباً دو برس تک میں وہاں نہ جا سکا۔

    آخر جب میں گیا تو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اس کی دکان کی دو چھوٹی کھڑکیوں میں سے ایک کھڑکی کے باہر کسی دوسرے کے نام کا بورڈ آویزاں ہوگیا تھا۔ وہ بھی جوتے بنانے والا ہی تھا۔ شاہی خاندان کے جوتے۔ اب صرف ایک کھڑکی پر وہی جانے پہچانے جوتے رکھے ہوئے تھے۔ وہ الگ سے نہیں لگ رہے تھے۔ اندر بھی دکان کی وہ کنوئیں نما کوٹھری پہلے کی بہ نسبت زیادہ تاریک اور بُو سے اٹی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس بار ہمیشہ سے کچھ زیادہ ہی وقت لگا۔ کافی دیر بعد وہی چہرہ نیچے جھانکتا ہوا دکھائی دیا۔ پھر چپلوں اور قدموں کی آواز گونجنے لگی۔ آخر وہ میرے روبرو تھا، زنگ آلود ٹوٹے پرانے چشمے میں سے جھانکتا ہوا۔ اس نے پوچھا،ــ’’آپ مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا،’’کیا بتلائوں، آپ کے جوتے اتنے اچھے ہیں کہ گھستے ہی نہیں۔ دیکھیے یہ جوتے بھی ابھی تک چل رہے ہیں۔‘‘ اور میں نے اپنا پیر آگے بڑھا دیا۔ اس نے انھیں دیکھا۔

    ’’ہاں۔‘‘وہ بول اٹھا۔’’مگر لگتا ہے لوگوں کو اب مضبوط جوتوں کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘

    اس کی طنز بھری نظروں اور آواز سے نجات پانے کے لیے میں نے فوراً کہا،’’یہ تم نے اپنی دکان کو کیا کر ڈالا ہے؟‘‘ اس نے اطمینان سے کہا،’’بہت مہنگا پڑ رہا تھا۔ کیا آپ کو جوتے چاہییں؟‘‘ میں نے تین جوڑی جوتوں کا آرڈر دیا۔ حالانکہ مجھے ضرورت صرف دو جوڑی جوتوں کی ہی تھی اور جلدی سے میں وہاں سے باہر نکل آیا۔نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ اس کے ذہن میں کہیں یہ بات ہے کہ اسے یا سچ کہیں تو اس کے جوتوں سے متعلق جو سازش رچی جارہی ہے اس میں، مَیں بھی شامل ہوں۔ یوں بھی کوئی ان چیزوں کی اتنی پروا نہیں کرتا۔ مگر پھر ایسا ہوا کہ میں کئی مہینوں تک وہاں نہیں گیا۔ جب میں وہاں گیا تو میرے ذہن میں بس یہی خیال تھا، اوہ!میں بھلا اس بوڑھے کو کیسے چھوڑسکتا ہوں۔ شاید اس بار اس کے بڑے بھائی سے سامنا ہوجائے۔

    میں جانتا تھا کہ اس کا بڑا بھائی تیکھے لہجے میں یا نفرت آمیز لہجے میں بات نہیں کرسکتا۔ واقعی دکان میں جب مجھے بڑے بھائی کی شبیہ دکھائی دی تو میں نے راحت محسوس کی۔ وہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر کام کررہا تھا۔

    ’’ہیلو مسٹر گیسلر کیسے ہیں آپ؟‘‘میں نے پوچھا۔ وہ اٹھا اور غور سے مجھے دیکھنے لگا۔

    ’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’مگر میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    تب میں نے دیکھا کہ یہ تو وہ خود تھا۔ کتنا بوڑھا اور کمزور ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اسے اپنے بڑے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ مجھے بڑا دکھ ہوا۔ میں نے آہستہ سے کہا، ’’یہ تو بہت ہی برا ہوا۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘وہ بولا،’’وہ نیک دل انسان تھا، اچھے جوتے بناتا تھا، مگر اب وہ نہیں رہا۔‘‘ پھر اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا، جہاں سے اچانک اس کے بہت زیادہ بال جھڑ گئے تھے۔ اس کے بدقسمت بھائی کی طرح۔ مجھے محسوس ہوا شاید وہ اس طرح اپنے بھائی کی موت کا سبب بتارہا تھا۔ ’’بھائی اس دوسری دکان کو کھو دینے کا غم برداشت نہیں کر پایا۔ خیر، کیا آپ کو جوتے چاہییں؟‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمڑا اٹھا کر دکھایا۔’’یہ بہت خوبصورت ٹکڑا ہے!‘‘
    میں نے کئی جوتوں کا آرڈر دیا۔ بہت دنوں بعد مجھے وہ جوتے ملے جو بے حد شان دار تھے۔ انھیں بڑے سلیقے سے پہنا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد میں بیرونِ ملک چلا گیا۔

    لوٹ کر لندن آنے میں ایک برس سے بھی زیادہ وقت گزر گیا۔ لوٹنے کے بعد سب سے پہلے میں اپنے اسی بوڑھے دوست کی دکان پر گیا۔میں جب گیا تھا وہ ساٹھ برس کا تھا۔ اب جسے میں دیکھ رہا تھا وہ پچھہتر سے بھی زیادہ کا دکھائی دے رہا تھا۔ بھوک سے بے حال، تھکا ماندہ، خوفزدہ اور اس بار واقعی اس نے مجھے نہیں پہچانا۔

    ’’اور مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کہا۔ دل ہی دل میں دکھی تھا، ’’تمھارے جوتے تو واقعی کمال کے ہیں! دیکھو، میں بیرونِ ملک یہی جوتے پہنتا رہا اور اب بھی یہ اچھی حالت میں ہیں۔ ذرا بھی خراب نہیں ہوئے ہیں، ہیں نا؟‘‘

    بڑی دیر تک وہ جوتوں کو دیکھتا رہا۔ روسی چمڑے سے بنے ہوئے جوتے۔ اس کے چہرے پر ایک چمک سی لوٹ آئی۔ اپنا ہاتھ جوتے کے اوپری حصّے میں ڈالتے ہوئے وہ بولا۔’’کیا یہاں سے کاٹتے ہیں؟مجھے یاد ہے ان جوتوں کو بنانے میں مجھے کافی پریشانی ہوئی تھی۔‘‘

    میں نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہر طرح سے بہترین ہیں۔ ذرا بھی تکلیف نہیں دیتے۔

    ’’کیا آپ کو جوتے بنوانے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا، میں جلد ہی بنا کر دوں گا، یوں بھی مندی کا دور چل رہا ہے۔‘‘

    ’’میں بالکل نئے ماڈل کے جوتے بناؤں گا۔ آپ کے پیر تھوڑے بڑے ہوگئے۔‘‘ اور آہستگی سے اس نے میرے پاؤں کو ٹٹولا اور انگوٹھے کو محسوس کیا۔ اس دوران صرف ایک بار اوپر دیکھ کر وہ بولا،’’کیا میں نے آپ کو بتایا کہ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے؟‘‘
    اسے دیکھنا بڑا تکلیف دہ تھا، وہ بہت کمزور ہوگیا تھا، باہر آکر میں نے راحت محسوس کی۔

    میں ان جوتوں کی بات بھول ہی چکا تھا کہ ایک شام اچانک وہ آپہنچے۔ جب میں نے پارسل کھولا تو ایک کے بعد ایک چار جوڑی جوتے نکلے۔ بناوٹ، آکار، چمڑے کی کوالٹی اور فٹنگ ہر لحاظ سے اب تک بنائے گئے جوتوں سے بہتر اور لاجواب۔ عام موقع پر پہنے جانے والے جوتے میں مجھے اس کا بل ملا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح ہی دام لگایا تھا۔ مگر مجھے تھوڑا دھچکا لگا۔ کیوں کہ وہ کبھی تین ماہ کی آخری تاریخ سے قبل بل نہیں بھیجتا تھا۔ میں دوڑتے ہوئے نیچے گیا، چیک بنایا اور فوراً پوسٹ کر دیا۔

    ایک ہفتے بعد میں اس راستے سے گزر رہا تھا تو سوچا کہ اسے جاکر بتاؤں کہ اس کے جوتے کتنے شان دار اور بہترین ناپ کے بنے ہیں۔ مگر جب میں وہاں پہنچا جہاں اس کی دکان تھی تو اس کا نام غائب تھا۔ کھڑکی پر اب بھی وہی سلیقہ دار پمپ شو رکھے ہوئے تھے۔ اصل چمڑے کے اور کپڑے کی اوپری تہ والے۔

    بے چین ہو کر میں اندر گیا، دونوں دکانوں کو ملا کر دوبارہ ایک دکان کردی گئی تھی۔ایک انگریز نوجوان ملا۔’’مسٹر گیسلر اندر ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔

    ’’نہیں سر۔‘‘وہ بولا،’’مسٹر گیسلر نہیں ہیں۔ مگر ہم ہر طرح سے آپ کی خدمت کرسکتے ہیں، یہ دکان ہم نے خرید لی ہے، آپ نے باہر ہمارا بورڈ دیکھا ہوگا۔ ہم نامی گرامی لوگوں کے لیے جوتے بناتے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں، ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’مگر مسٹر گیسلر؟‘‘

    ’’اوہ!‘‘وہ بولا،’’ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    ’’کیا، انتقال ہو گیا؟ مگر انھوں نے مجھے پچھلے ہفتے ہی تو یہ جوتے بھیجے تھے۔‘‘

    ’’اوہ! بے چارہ بوڑھا، بھوک سے ہی مر گیا۔‘‘اس نے کہا۔’’بھوک سے آہستہ آہستہ موت، ڈاکٹر یہی کہتے ہیں! آپ جانتے ہیں وہ دن رات بھوکا رہتا تھا اور کام کرتا تھا۔ اپنے علاوہ کسی کو بھی جوتوں پر ہاتھ لگانے نہیں دیتا تھا۔ جب اسے آرڈر ملتا تو اسے پورا کرنے میں رات دن ایک کر دیتا۔ اب لوگ بھلا کیوں انتظار کرنے لگے۔ اس کے سبھی گاہک چھوٹ گئے تھے۔ وہ وہاں بیٹھا لگاتار کام کرتا رہتا۔ وہ کہتا کہ پورے لندن میں اس سے بہتر جوتے کوئی نہیں بناتا۔ اس کے پاس بہترین چمڑا تھا مگر وہ اکیلا ہی سارا کام کرتا تھا۔ خیر! چھوڑیے اس طرح کے آدرش میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    ’’مگر بھوک سے مرجانا؟‘‘

    ’’یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر میں جانتا ہوں دن رات اپنی آخری سانس تک وہ جوتوں پر لگا رہا۔ انھیں دیکھتا رہتا۔ اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ سب کچھ گروی رکھ دیا تھا۔ مگر اس نے چمڑا نہیں چھوڑا۔ نہ جانے کس طرح وہ اتنے دن زندہ رہا۔ وہ مسلسل فاقے کرتا رہا۔ وہ ایک عجیب انسان تھا، مگر ہاں، وہ جوتے بہت عمدہ بناتا تھا۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’وہ عمدہ جوتے بناتا تھا۔‘‘

    (نوبیل انعام یافتہ انگریز ادیب جان گالزوردی (John Galsworthy) کا یہ افسانہ کوالٹی کے نام سے شایع ہوا تھا جس کا اردو زبان میں ترجمہ قاسم ندیم نے کیا ہے۔)

  • دنیا کی کہانی!

    دنیا کی کہانی!

    دنیا کی کہانی ایک عجیب داستان ہے کہ جس کی زبانی بیان ہو، اُسی کے مطلب کی ہو جاتی ہے۔ وہ بہت لمبی ہے اور بہت چھوٹی بھی، بہت سیدھی سادی اور بہت الجھی ہوئی بھی۔

    وہ ہمیں دلاسا بھی دیتی ہے اور اداس بھی کرتی ہے، لبھاتی بھی ہے اور ڈراتی بھی ہے۔ وہ ان کہانیوں کی طرح ہے جنہیں بچے ضد کر کے رات کو سونے سے پہلے سنتے ہیں اور سنتے سنتے سو جاتے ہیں۔

    وہ کہیں سے شروع نہیں ہوتی اور کہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس میں جو سچی باتیں ہیں وہ کہانی معلوم ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں جنہیں ہم سچ سمجھتے ہیں، جی بہلانے کے قصے ہیں۔ وہ ہم میں سے ہر ایک کی آپ بیتی بھی ہو سکتی ہے اور ایک تماشا بھی کہ جس میں آدمی کی صورت کی بس ایک جھلک سی دکھائی دیتی ہے، ایسی کہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ اسے دیکھا یا نہیں دیکھا۔

    تو میں اس کہانی کو، جس کا سرا کہیں نہیں ملتا، کہاں سے شروع کروں؟اس وقت سے جب دنیا پیدا ہوئی؟ یعنی کب سے؟ بچّوں کو تو ہم سمجھا دیتے ہیں کہ اس دنیا کو خدا نے بنایا۔ کب بنایا؟ کیسے بنایا؟ کیوں بنایا؟ یہ ہم نہیں بتاتے، اس لیے کہ ہم خود جانتے نہیں۔ لیکن ہر زمانے میں عقل مند لوگ اپنی لاعلمی کو چھپانے اور کم سمجھ والوں کی تسکین کے لیے کوئی نہ کوئی دل چسپ کہانی سنا دیتے ہیں، سنسار کے بھیدوں پر کوئی ایسا خوب صورت پردہ ڈال دیتے ہیں کہ ہم پردے کو دیکھتے رہ جائیں اور یہ پوچھنا بھول جائیں کہ اس کے پیچھے کچھ ہے بھی یا نہیں۔

    آج کل کے عالم کہتے ہیں کہ ہماری دنیا پہلے ایک آگ کا گولا تھی، اس آگ کا نہیں جو ہمارے گھروں میں جلتی ہے، اس آگ کا بھی نہیں جو ہمارے دلوں کو گرم رکھتی ہے اور کبھی کبھی جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ یہ ایک اور ہی آگ تھی جو بن جلائے جلی اور بن بجھائے بجھ گئی۔

    شاید یہ وہ چیز تھی جسے ہم بجلی کہتے ہیں، شاید نہیں تھی۔ لیکن کبھی نہ کبھی دنیا آگ کا گولا تھی ضرور، کیونکہ ہمیں ایسے ہی لاکھوں اور کروڑوں آگ کے گولے آسمان میں چکر کھاتے دکھائی دیتے ہیں اور ہماری زمین پر اب بھی آتش فشاں پہاڑ جب چاہتے ہیں دہکتی آگ اگل دیتے ہیں یا زمین کے اندر سے کھولتے پانی کے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ دوسرے آگ کے گولے جو دنیا سے بہت بڑے اور بہت زیادہ پرانے ہیں، اب تک آگ ہی آگ ہیں۔ دنیا میں یہ آگ، پانی اور زمین کیوں بن گئی، یہ ہمیں نہیں معلوم، بس ہماری قسمت میں کچھ یہی لکھا تھا۔

    ہاں، تو پھر ایک وقت آیا جب دنیا سرد پڑ گئی، بھاپ اور دوسری گیسیں پانی ہو گئیں، جو زیادہ ٹھوس حصہ تھا وہ چٹان بن گیا۔ یہ سب ہوا کب؟ آج کل کے عالِم زمین کی ساخت سے، چٹانوں اور دھاتوں سے کچھ حساب لگا سکتے ہیں۔ لیکن یہ حساب سنکھ دس سنکھ برس کے بھی آگے نکل جاتا ہے اور ہم ایسے ہیں کہ کل پرسوں کی بات بھی بس یونہی سی یاد رکھتے ہیں۔ بیچارے آدمی کی کھوپڑی میں سائنس کا یہ حساب سما نہیں سکتا، اور جب سما نہیں سکتا تو اسے یہ حساب بتانے سے فائدہ کیا؟

    لیکن عقل مندی بھی ایک چیز ہے اور شاید یہ بھی ایک طرح کا علم ہے کہ جس میں آدمی کہہ سکے کہ میں جانتا ہوں مگر سمجھتا نہیں، اس لیے کہ میری سمجھ چھوٹی ہے اور علم بہت بڑا۔ میں اپنے چلّو سے اس سمندر کو ناپ نہیں سکتا تو نہ سہی، پر میں جانتا تو ہوں کہ اس میں کتنے چلّو پانی ہے اور کوئی میرے حساب کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ سائنس کا حساب بالکل چوکس ہے، فرق نکلا تو کروڑ دس کروڑ کا ہوگا اور ہو کوئی بات نہیں۔ لیکن کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ ایسا حساب کتاب کرنے والوں سے وہ لوگ زیادہ سمجھتے اور زیادہ جانتے ہیں جن کا یہ ایمان ہے کہ اس دنیا جہان کو خدا نے بنایا اور اس کا ہر ذرہ اس کی قدرت کا کرشمہ ہے اور اب تو وہ سائنسداں بھی جو اپنے علم کو ایک ڈھکوسلا نہیں بنانا چاہتے، کہتے ہیں کہ ہمارا حساب کا طریقہ ایک خاص حد کے آگے کام نہیں دیتا، ہم اپنے علم سے نہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ سورج، چاند، تارے اور ہماری یہ دنیا خود بخود پیدا ہو گئی نہ یہ کہ اسے کسی نے پیدا کیا۔

    دنیا جب سرد پڑ گئی تھی تو کہیں سے سمندر کی تہ میں زندگی کا بیج پہنچ گیا۔ وہاں وہ پھٹا اور پھلا پھولا۔ لاکھوں کروڑوں برس میں طرح طرح کے بھیس بدلے، آہستہ آہستہ یعنی وہی لاکھوں کروڑوں برس میں اس نے پودوں اور کیڑوں کی صورت میں خشکی کی طرف قدم بڑھایا۔ پانی کے بغیر، یعنی سانس لے کر زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کی۔ پودے اونچے ہونے لگے اور سر اٹھا کر آسمان کی طرف لپکے۔ جو کیڑے تھے وہ مچھلی بن کر تیرے، اتھلے پانی میں پاؤں کے بل چلنے لگے۔ خشک زمین پر رینگنا شروع کیا، ہوا میں پرند بن کر اڑے، چو پاؤں کا روپ لے کر دوڑنے پھرنے لگے۔

    کہتے ہیں کہ اتھلے پانی اور خشکی میں زندگی نے جو یہ ابتدائی شکلیں پائیں وہ بڑی بھیانک تھیں۔ چالیس پچاس فٹ لمبے مگرمچھ، بیس بیس ہاتھ اونچے ہاتھی، کسی جانورکی گردن اتنی لمبی کہ ہوا میں اڑتے پرندوں کو پکڑ لے، کسی کا منہ اتنا بڑا کہ آج کل کی گائے بھینس کو نگل جائے اور ڈکار نہ لے۔ ایک جانور کی ہڈیاں ملی ہیں جو منہ سے دُم کے سرے تک سو فٹ سے زیادہ لمبا ہوگا۔

    ان جانوروں کو جو نام دیے گئے ہیں وہ بھی ایسے ہی بھیانک ہیں۔ برنٹوسورس (BRONTO SAURUS)، اکتھیوسورس (ICHTHYO SAURUS)، میگیلوسورس (MEGALO SARUS) وغیرہ۔ لیکن دنیا کو شاید اپنی یہ اولاد پسند نہ تھی، یا یہ جانور بڑھتے بڑھتے ایسے بے ڈول ہو گئے کہ زندہ رہنا دشوار ہو گیا۔ بہرحال وہ غائب ہو گئے اور جب تک آج کل کے سائنسدانوں کوان کی ہڈیاں نہیں ملیں کسی کو پتا بھی نہ تھا کہ ایک زمانے میں ایسے دیو اور اژدہے ہماری دنیا میں آباد تھے۔

    خشکی پر ان بڑے جانوروں کے بعد جو نئے نمونے نظر آئے وہ تھے تو ایسے ہی ڈراؤنے مگر ان میں آج کل کے جانوروں کی طرح یہ صفت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو شروع میں دودھ پلاکر پالتے تھے۔ ایسے جانور شاید اس لیے کہ وہ غولو ں میں رہتے تھے، ماں باپ کو اولاد سے محبت تھی اور وہ اپنے بچوں کی حفاظت کرتے تھے، پہلی قسم کے جانوروں سے زیادہ سخت جان نکلے اور دنیا کی مصیبتوں کو جھیل لے گئے۔ پھر بھی ان کی بہت سی قسمیں مر مٹیں، جو باقی بچیں ان کے بھی جسموں میں ایسی تبدیلیاں ہوتی رہیں کہ وہ موسم کی سختیوں کو زیادہ اچھی طرح برداشت کر سکیں اور دوسرے جانوروں سے اپنی جان بھی بچا سکیں۔

    اسی طرح ترقی کرتے کرتے جانوروں کی ایک قسم نے ایسی شکل پائی ہوگی جو آدمیوں کی شکل سے کچھ ملتی ہو گی۔ جانوروں کی اس قسم کو آسانی کے لیے ہم مانس کہہ سکتے ہیں۔ ان بن مانسوں نے چار پیروں کی جگہ دو پیروں سے چلنا سیکھا اور اگلے دو پیروں سے پکڑنے، اٹھانے اور پھینکنے کا کام لینے لگے۔ قدرت نے ان کی مدد کی اور ان کے اگلے دو پیر پنجوں کی طرح ہو گئے۔ ان کی زبان بھی کچھ کھل گئی اور وہ دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ ہوشیار ہو گئے۔

    یہ سب ہزاروں برس میں ہوا اور پھر کہتے ہیں کہ دنیا کی آب وہوا بدلی، وہ ایسی ٹھنڈی پڑی کہ اس کا بہت سا حصہ برفستان ہو گیا اور برف کے کھسکتے اور پھسلتے پہاڑوں نے سب کچھ اپنے تلے روند ڈالا۔ پھر گرمی آہستہ آہستہ بڑھی۔ برفستان پگھل کر سمندر ہو گئے اور زندگی پھر ابھری اور پھیلی، اس طرح چار مرتبہ ہوا اور اس وقت زمین میں کئی سو گز نیچے تک ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ انہیں گرمی اور سردی کے پھیروں کی داستاں سناتا ہے۔ اس زمانے میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بن مانسوں کا برا حال ہوا ہوگا۔ ان میں سے بعض کی ایک دو ہڈیاں برف کے نیچے اور جانوروں کی ہڈیوں کے ساتھ دفن ہو گئیں اور اب زمین کے اندر بہت دور پر ملی ہیں، جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کتنے کروڑ یا لاکھ برس پہلے آباد تھے اور ان کے زمانے میں زمین کی صورت کیا تھی۔

    لیکن انہوں نے اسی دوران میں شاید دو چار باتیں سیکھ لی تھیں جو بہت کام کی تھیں۔ کہیں جنگلوں کو جلتے دیکھ کر انہوں نے پتا لگا لیا تھا کہ آگ کیسے جلاتے ہیں اور پھر وہ اپنی کھوہوں اور غاروں میں آگ جلاکر تاپنے لگے اور اس میں جانوروں کا گوشت اور شاید چند پھلوں اور جڑوں کو بھوننے لگے۔ وہ پتھروں کو گھس کر ان سے پھونکنے چھیلنے اور کاٹنے بھی لگے اور اس نے ان کی زندگی کو کچھ اور آسان کر دیا۔ آج کل کا علم ہمیں بتاتا ہے کہ ہم انہی بن مانسوں کی اولاد ہیں اور جیسے جانور ترقی کرتے کرتے بن مانس ہوئے تھے ویسے ہی بن مانس آدمی ہو گئے۔

    لیکن آج کل کا علم ان بن مانسوں کی کسی ایک قسم سے ہمارا رشتہ نہیں جوڑتا۔ ہیں تو ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے لیکن ہم جس خاص نمونے پر بنے ہیں اس کی پہلی مثالیں ابھی تک نہیں ملی ہیں۔ جاوا میں ایک جگہ پر ایک کھوپڑی کے اوپر کا حصہ، تھوڑے سے دانت، اور جبڑے کی ہڈی ملی ہے، یہ ایک ایسے جانور کی ہڈیاں معلوم ہوتی ہیں جس کا بھیجا بندر کے بھیجے سے کچھ بڑا تھا۔ یعنی اس کی عقل بندروں سے کچھ زیادہ تھی جو دو پیروں پر کھڑا ہو سکتا تھا اور دوڑ سکتا تھا اور اس لیے وہ اپنے ہاتھوں سے کام لے سکتا تھا۔

    جرمنی کے ایک شہر ہائیڈل برگ کے قریب اسی (۸۰) فٹ کی گہرائی پر جبڑے کی ایک ہڈی ملی اور بنانے والوں نے اس پر غور کرتے کرتے ایک جانور بنایا ہے، جو اس جانور کے مقابلے میں جس کی ہڈیاں جاوامیں ملی ہیں، آدمی سے زیادہ ملتا ہے۔ مگر نہیں آدمی یہ بھی نہیں۔ بس اس کے دانت ایسے ہیں جن کی مثال جانوروں میں نہیں پائی جاتی، وہ کسی طرح کے آدمی ہی کے ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انگلستان کے ضلع سسکن میں ایک کھوپڑی کے ریزے اور ٹکرے اور جبڑے کی ہڈی اتفاق سے ہاتھ لگی ہے۔ اس کی مدد سے بھی ایک شکل بنائی گئی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آدمی کی یا بندر کی، اس لیے کہ شکل بنانے والے خود فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ بہرحال وہ ایک طرح کے بن مانس کی شکل ہے، آدمی سے اس کا کتنے قریب کا دور کا رشتہ تھا، اس کاہم ٹھیک سے اندازہ نہیں کر سکتے۔

    ہڈیوں سے آدمی بنانے کا جو یہ فن ہے، اس کے عالم کہتے ہیں کہ ہم جیسا کہ چاہئے تلاش بھی نہیں کر سکے ہیں۔ ابھی تک صرف یورپ اور امریکہ میں لوگوں کواس مسئلے سے دل چسپی ہوئی ہے۔ یہ دنیا کے ایسے حصے ہیں جہاں ہمیشہ سے سردی زیادہ رہی ہے اور شروع میں آدمی کو ایسی جگہ زندگی بسر کرنے میں بے انتہا دشواریاں ہوئی ہوں گی۔ تلاش کرنے کی جگہیں اصل میں جنوبی اور جنوب مغربی ایشیا، افریقہ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ ہیں اور یہاں ابھی بہت کم کام ہوا ہے، یا بالکل ہی نہیں۔ یہاں اگر کافی شوق اور محنت سے کھوج کی جائے تو ہمیں ضرور ایسے آثار ملیں گے جن سے ہمارے علم کی کمی پوری ہو جائے گی اور آدمی اور جانور کا رشتہ ثابت اور مضبوط ہو جائے گا۔

    اب ایک بڑی مشکل بحث یہ ہے کہ عالم جو آدمی کو بن مانس کا سگا بتاتے ہیں اور وہ مذہب جو آدمی کو آدم کی اولاد ٹھہراتے ہیں اور آدمی کی کہانی اس وقت سے شروع کرتے ہیں جب حضرت آدمؑ جنت سے نکالے گئے، یہ دونوں ایک ہی بات اپنے اپنے طریقے سے کہتے ہیں یا مختلف باتیں، جن میں سے ایک غلط اور ایک صحیح ہے۔ میرے خیال میں حجّت کرنے کی نوبت نہ آئے گی، اگر ہم سمجھ لیں کہ مذہب علم کی ایک الگ اور اعلی قسم ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کے ذریعہ اور ہیں اور اس کا مقصد اور۔

    مذہب کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کس جانور کی ہڈیاں کیسی ہوتی ہیں اور اگر وہ اس گہرائی پر اور اس تہ میں ملیں تو اتنے زمانے کی ہیں اور اس کے اوپر ملیں تو اتنی پرانی۔

    مذہب میں وقت کوئی چیز نہیں، جو کچھ ہے زندگی ہے۔ مذہب کی نگاہ زمین پر نہیں ہوتی، آسمان پر ہوتی ہے، آدمی کے جسم پر نہیں ہوتی، اس کے دل پر ہوتی ہے۔ مذہب کے لیے مطلب کی بات وہ ہوتی ہے جو آدمی کو بہتر بنائے، اس کے لیے سچ وہی ہے جو سچائی کا حوصلہ پیدا کرے۔ دراصل سچے علم اور سچے مذہب کا اختلاف نہیں ہوتا، اختلاف تو ایک طرف وہ لوگ پیدا کرتے ہیں جو بغیر علم حاصل کیے مذہبی رہنما بننا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ جو مذہب کی اصلیت کو سمجھے بغیر اپنے علم کو اس کے مقابلے پر کھڑا کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ ہم ان کے جھگڑوں میں پڑے تو ہماری سمجھ میں بھی کچھ نہ آئےگا۔

    اب سات آٹھ دس ہزار برس پہلے تک دنیا کی کہانی جو سائنس ہمیں سناتی ہے، ہماری کہانی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس وقت ہمارے جیسے انسان جنہیں نیکی اور بدی کا علم تھا، پیدا نہیں ہوئے تھے۔ قدرت نے کس طرح کروڑوں برس میں بناتے بناتے آدمی کی شکل بنائی، اس کا بھی ہماری آپ بیتی سے کوئی تعلق نہیں کہ ہماری آپ بیتی تو تبھی سے شروع ہو سکتی ہے جب سے ہم نے اپنے آپ کو پہچانا۔ یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی برادری کو ایک قدیمی انسان کی اولاد بتانا زیادہ صحیح ہے یا اسے بیسیوں ایک دوسرے سے بیر رکھنے والی نسلوں میں تقسیم کرنا، فقط اس ضد میں کہ اس قدیمی انسان کی نہ کہیں ہڈیاں ملی ہیں اور نہ کسی پتھر پر اس کا نام کھدا ہوا ملاہے۔ سائنس یقین کے ساتھ نہیں بتلا سکتی کہ آدمیوں کی پہلی نسل کون تھی، اور کہاں تھی، تو پھر سائنس سے یہ کیوں پوچھیں کہ حضرت آدمؑ کوئی بزرگ تھے بھی یا نہیں۔

    (ہندوستان کے معروف اسکالر، ماہرِ تعلیم اور ادیب محمد مجیب کے قلم سے)

  • نیلم پری (ایک دل چسپ کہانی)

    نیلم پری (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک تھا درزی، اس کے تھے تین لڑکے۔ درزی بہت ہی غریب تھا۔ درزی کے پاس صرف ایک ہی بکری تھی۔ تینوں لڑکے اسی بکری کا دودھ پیتے اور کسی طرح گزر کرتے، ایک ایک دن ہر لڑکا بکری کو جنگل میں چرانے لے جاتا۔

    جب لڑکے کچھ بڑے ہو گئے تو بکری کادودھ ان کے لئے کم پڑنے لگا۔ مجبورا بڑا لڑکا گھر چھوڑ کر باہر کمانے نکلا، چلتے چلتے راستے میں ایک سوداگر ملا۔ سوداگر نے لڑکے سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ لڑکے نے سارا حال سنا دیا۔ سوداگر کو اس پر ترس آیا اور اپنے پاس نوکر رکھ لیا۔ سوداگر نے خریدنے اور بیچنے کا کام اس کو سکھایا۔ لڑکا اپنا کام بڑی ایمانداری اور محنت سے کرتا۔ سوداگر کے کام کو بہت آگے بڑھا دیا۔ سوداگر بہت امیر ہو گیا۔ سوداگر لڑکے کے کام سے بہت ہی خوش ہوا۔ جب کام کرتے کرتے کئی برس گزر گئے تو لڑکے نے گھر جانے کی چھٹی مانگی۔ سوداگر نے خوشی سے چھٹی دی اور کہا ’’میں تمہارے کام سے بہت خوش ہوں۔ تمہاری ایمانداری کے بدلے میں تم کو یہ عجیب وغریب گدھا دیتا ہوں۔ یہ گدھا اپنے ساتھ لے جاؤ۔ جب تم اس کے منہ میں تھیلی باندھ کر کہو گے کہ ’’اگل‘‘ تو یہ فورا سونا اگلے گا اور پوری تھیلی بھر دےگا۔ خواہ تھیلی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔‘‘ لڑکا خوش خوش گھر روانہ ہوگیا۔

    چلتے چلتے رات ہو گئی۔ لڑکا ایک سرائے میں ٹھہر گیا۔ بھٹیارے سے لڑکے نے کہا ’’خوب عمدہ عمدہ کھانا لاؤ۔‘‘ بھٹیارا اچھے اچھے کھانے پکوا کر لایا۔ لڑکے نے سونے کے ٹکڑے بھٹیارے کو دیے۔ بھٹیارا بڑا خوش ہوا اور سوچنے لگا یہ سونے کے ٹکڑ ے لڑکے کے پاس کہاں سے آئے۔ ہو نہ ہو کوئی خوبی اس گدھے میں ضرور ہے۔ یہ سوچ کر بھٹیارا جاگتا رہا۔ جب لڑکا سو گیا تو بھٹیارا گدھا چرا کر لے گیا اور دوسرا گدھا اس کی جگہ باندھ دیا۔ لڑکا اندھیرے منہ اٹھا اور گدھے لے کر روانہ ہو گیا۔ اس کو اپنے اصلی گدھے کی چوری کا کچھ حاصل نہ معلوم ہوا۔ گھر پہنچا تو اس کو دیکھ کر باپ بھائی سب جمع ہو گئے اور خوشی خوشی باتیں کرنے لگے۔

    باپ کہو بٹیا پردیس میں کیا کیا سیکھا۔

    لڑکا:۔ سوداگری۔

    باپ :۔ہمارے لئے کیا لائے ہو۔

    لڑکا یہ گدھا۔

    باپ توبہ کرو۔ گدھا لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں سیکڑوں گدھے مارے مارے پھرتے ہیں۔

    بیٹا:۔نہیں ابا۔ یہ معمولی گدھا نہیں ہے۔ اس میں ایک خاص بات ہے۔

    باپ:۔ وہ کیا خاص بات ہے۔

    بیٹا:۔ اس میں خاص خوبی یہ ہے کہ اس کے منہ میں تھیلی باندھ دیں اور کہیں کہ ’’اگل‘‘ تویہ فورا سونا اگلنے لگتاہے اور تھیلی کو بھر دیتا ہے، خواہ تھیلی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

    بوڑھا درزی بیٹے کی بات کوتعجب سے سنتا رہا اور شک کی نظروں سے دیکھتا رہا۔ آخر لڑکے نے باپ کے شک کو دور کرنے کے لئے کہا آپ اپنے دوستوں کو بلائیے۔ میں ابھی سب کو دولت سے مالامال کیے دیتا ہوں، درزی نے اپنے خاص خاص دوستوں کو لاکر جمع کیا اور دولت حاصل کرنے کی خوشخبری سنائی۔ سب لوگ آ گئے تو لڑکا گدھے لے کر آیا اس کے منہ میں تھیلی باندھی اور کہا کہ ’’اگل‘‘ لیکن گدھا جوں کا توں کھڑا رہا۔ لڑکے نے کئی مرتبہ چلا چلا کر کہا ’’اگل، اگل‘‘ لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ تھیلی جیسی خالی تھی ویسی ہی رہی اور گدھاچپ چاپ کھڑا رہا۔ اب لڑکا سمجھا کہ بھٹیارے نے گدھا چرا لیا۔ درزی اپنے دوستوں کے سامنے بڑا شرمندہ ہوا۔ لڑکے پر خفا ہونے لگا تو مجھے سب کے سامنے ذلیل کیا۔

    لڑکے نے سارا قصہ اپنے منجھلے بھائی کو سنایا۔ اب دوسرا بھائی سفر پر روانہ ہوا۔ کئی دن تک برابر چلتا رہا۔ رات کوپیڑ کے نیچے سو رہتا۔ آخر ایک دن اس کو ایک بڑھیا ملی، بڑھیا جنگل کے کنارے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتی تھی۔ لڑکا بڑھیا کے ساتھ رہنے لگا، بڑھیا جو کام بتلاتی اس کو بڑ ی محنت سے کرتا۔ بڑھیا اس کے کام سے بڑی خوش تھی۔ ایک دن لڑکے نے گھر جانے کو کہا، بڑھیا نے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا اور کہا کہ’’دیکھو بیٹا میرے پاس ایک ’’سینی‘‘ ہے۔ جب کہو گے ’’بھر جا‘‘ تو یہ بہترین کھانوں سے بھر جائے گی اور جتنے آدمی بیٹھے ہوں گے پیٹ بھر کر کھا لیں گے۔ تم یہ سینی لیتے جاؤ۔ ’’لڑکا سینی پاکر بہت خوش ہوا اور گھر کی طرف چلا۔ راستے میں اس کو وہی سرائے ملی جہاں بڑے بھائی کا گدھا چوری ہو گیا تھا۔ رات بسر کرنے کے لئے رک گیا۔ بھٹیارے نے کھانے کے لئے پوچھا۔ لڑکے نے کہا‘‘میں تم کو کھلاؤں گا’’ بھٹیارے نے کہا ‘‘تمہارے پاس تو کچھ ہے نہیں تم کہاں سے کھلاؤ گے؟ ’’لڑکے نے کہا ’’ٹھہرو’’سینی سامنے نکال کر رکھ دی اور کہا ’’بھر جا‘‘ یہ کہتے ہی سینی اچھے اچھے کھانوں سے بھر گئی۔ بھٹیارا اس نرالی سینی کو لالچ بھری نظروں سے تکنے لگا اور اس کے چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ لڑکا کافی تھک چکا تھا۔ کھانا کھاتے ہی سو گیا۔ بھٹیارا تاک میں تو لگا ہی ہوا تھا جب لڑکا سو گیا تو چپکے سے آیا اور سینی اٹھا کر لے گیا اور اس کی جگہ پر دوسری ویسی ہی سینی رکھ دی۔ لڑکا صبح سویرے اٹھا اور سینی لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچا تو باپ اور بھائی سب اس کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور باتیں کرنے لگے۔ لڑکے نے اپنے سفر کا سارا حال بیان اور مزے لے لے کر سینی کی خوبی بیان کی، درزی کو سینی کی اس خوبی کا یقین نہ آیا۔ لڑکے نے کہا ۔’’امتحان لے لیجیے۔ آپ لوگوں کو بلوائیے۔ دیکھئے میں ابھی سب کے لئے اچھے اچھے کھانے چنوائے دیتا ہوں۔‘‘ لڑکے نے جب بہت ہی اصرار سے سینی کی خوبی بیان کی تو باپ نے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی۔ سب لوگ گول دائرہ بناکر بیٹھے اور بیچ میں سینی رکھی گئی۔ لڑکے نے کہا ’’بھر جا‘‘ لیکن سینی خالی کی خالی ہی رہی۔ اس نے پھر کہا ’’بھر جا‘‘ لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ تین چار مرتبہ چلا چلاکر کہا ’’بھرط جا، بھر جا، بھر جا‘‘ لیکن سینی ویسی ہی خالی کی خالی پڑی رہی۔ سب لوگ لڑکے کا منہ تکنے لگے اور اسے جھوٹا بتانے لگے۔ لڑکا بہت شرمندہ ہوا اور باپ تو مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا۔ لڑکے کو ایک تو سب کے سامنے شرمندگی کا افسوس تھا اور دوسرے اصلی سینی کے گم ہو جانے کا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بلایا اور سارا قصہ بتلایا۔ یہ چھوٹا بھائی سمجھ گیا کہ یقیناً بھٹیارے ہی کی شرارت ہے اور اسی نے گدھا اور سینی دونوں چیزیں چرائی ہیں۔

    چھوٹا بھائی بہادر بھی تھا اور عقلمند بھی۔ ہمت باندھ کر روانہ ہوا کہ یہ دونوں چیزیں ضرور واپس لاؤں گا۔ کئی دن چلنے کے بعد اس کا گزر ایک میدان سے ہوا۔ یہ میدان پریوں کا تھا۔ رنگ برنگ کے پھول چاروں طرف کھلے ہوئے تھے۔ ہری ہری گھاس سبز مخمل کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ بیچ بیچ میں پانی کی سفید لہریں بہہ رہی تھیں۔ ہوا خوشبو میں بسی ہوئی تھی۔ لڑکا دم لینے کے لئے (سستانے کے لئے) ٹھہر گیا۔ ہوا کی مست خوشبو نے آنکھوں میں نیند بھر دی اور وہ جلدہی ایک گلاب کے پودے کے پاس پڑھ کر سو رہا۔ لڑکا ابھی سویا ہی تھا کہ نیلم پری جو اس گلاب پر رہتی تھی اتری اور لڑکے کو ہوا میں لے کر اڑ گئی۔ دوسرے دن لڑکے نے اپنے باپ کو ایک بہت ہی گھنے جنگل کے بیچ پایا۔ وہ کہاں ہے، یہاں کیسے آیا؟ ابھی ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ سارا جنگل طرح طرح کی آوازوں سے گونجنے لگا۔ اس کے بعد یک بیک لال رنگ کی روشنی سارے جنگل میں پھیل گئی۔ لڑکا بڑا پریشان ہوا۔ بار بار سوچتا ،کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ اتنے میں بڑے زور کی آواز اس کے کانوں میں آئی اور سارا جنگل نیلے رنگ میں رنگ گیا۔ اس آواز کو سن کر لڑکا کانپ گیا اور گھبرا کر ایک طرف بھاگا۔ اس کے بھاگنے پر جنگل کی سب پریاں ہنس پڑیں۔ بات یہ تھی کہ پریاں لڑکے سے کھیل رہی تھیں۔ جب پریوں نے اپنا کھیل ختم کر لیا تو نیلم پری چھم چھم کرتی ہوئی لڑکے کے پاس آئی اور بولی ’’تم ہمارے میدان میں کیوں آئے؟‘‘

    لڑکا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میدان آپ کا ہے۔ یہاں آنا منع ہے۔ اب کبھی نہیں آؤں گا۔

    نیلم پری:۔ (ہنستے ہوئے) کیا میدان پسند نہیں۔

    لڑکا:۔ جی۔ میدان تو پسند ہے لیکن جنگل ۔۔۔

    نیلم پڑیکیا ڈر لگتا ہے۔

    لڑکا:۔ جی ہاں۔

    نیلم پری:۔ اچھا۔ اپنی آنکھیں بند کرو۔ ادھر لڑکے نے آنکھیں بند کیں۔ ادھر پری نے ہوا میں اپنا آنچل ہلایا اور سارا جنگل پھر اسی ہرے بھرے میدان میں بدل گیا۔ لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ میدان دیکھ کر جان میں جان آئی۔ لڑکے کو جب ذرا اطمینان ہوا تو نیلم پری نے پوچھا ’’تم کیسے آئے؟‘‘ لڑکے نے دونوں بھائیوں کا سارا قصہ سنا دیا۔ وہ سینی اور گدھا واپس لینے جا رہا ہے۔ پری نے تالی بجائی اور فورا ایک دیو حاضر ہوئے۔ پری نے حکم دیا کہ ’’جاؤ سرائے والے بھٹیارے سے سینی اور گدھا چھین لاؤ۔‘‘ دیو آناً فاناً سرائے میں پہنچے اور چند منٹ میں سینی اور گدھا لاکر حاضر کر دیا۔ پڑی نے لڑکے کو ایک ڈنڈا دیا اور کہا ’’جو شخص تمہارا دشمن ہو اس کی طرف اس ڈنڈے کو پھینک کر کہنا ’’ناچ‘‘ پھر یہ ڈنڈا اس آدمی کی پیٹھ پر خوب ناچ دکھائے گا۔ اتنا مارے گا کہ وہ آدمی بے ہوش ہو جائے گا۔ ’’لڑکا سینی، گدھا اور ڈنڈا لے کر گھر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ پری نے دیو کو حکم دیا کہ جاؤ لڑکے کو گھر تک پہنچا آؤ ۔ دیو نے حکم پاتے ہی لڑکے کو تمام سامان کے ساتھ ہاتھ پر اٹھا لیا اور ہوا میں اڑتا ہوا آن کی آن میں گھر پہنچا۔

    گھرکے سب لوگ جمع ہو گئے۔ چھوٹے بھائی نے سب کی خوب دعوتیں کیں اور سونے کے ٹکڑے بھی بانٹے۔ اب درزی کی شرمندگی دور ہو گئی اور سب لوگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (بچوں کی اس کہانی کے مصنف ممتاز صاحب اسلوب ادیب، افسانہ نگار، صحافی اور مترجم اشرف صبوحی ہیں)