Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • شرط (روسی لوک کہانی)

    شرط (روسی لوک کہانی)

    کسی ملک میں ایک سوداگر رہتا تھا، جس کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک دفعہ سوداگر کو دوسرے ملک میں مال خریدنے کے لیے جانا پڑا تو اس نے اپنی لڑکیوں سے پوچھا، ’’ میں تمہارے لیے کیا تحفہ لاؤں؟‘‘

    بڑی لڑکی نے ایک نئے کوٹ کے لیے فرمائش کی، منجھلی نے بھی کوٹ ہی کو پسند کیا مگر چھوٹی نے کاغذ کا ٹکڑا اٹھا کر اس پر ایک پھول بنا دیا اور کہا،’’ ابا میرے لیے اس طرح کا پھول لانا۔‘‘

    چنانچہ سوداگر اپنے سفر پر چلا گیا اور بہت عرصے تک مختلف ممالک میں گھومتا رہا مگر اسے اس قسم کا پھول نظر نہ آیا۔ جب وہ گھر کی طرف لوٹا تو اسے راستے میں ایک باغ نظر آیا جس کے اندر ایک بڑی عالیشان عمارت بنی ہوئی تھی۔ وہ باغ کے اندر چہل قدمی کی خاطر چلا گیا۔ باغ مختلف قسم کے پھولوں اور درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ جا بجا غنچے چٹک رہے تھے۔ ہر پھول خوب صورتی اور حسن میں دوسرے سے بڑھا ہوا تھا۔ اچانک اسے ایک ٹہنی پر وہی پھول نظر آیا جس کی اسے تلاش تھی اس نے دل میں خیال کیا’’ یہاں باغ میں کوئی رکھوالا تو ہے نہیں اس لیے میں بے خوف و خطر پھول توڑ کر اپنی پیاری لڑکی کے لیے لے جاسکتا ہوں۔‘‘

    چنانچہ وہ ٹہنی کی طرف بڑھا اور پھول توڑ لیا۔ پھول کا توڑنا تھا کہ یک لخت آندھی چلنا شروع ہوگئی، رعد گرجنے لگا، طوفان سا برپا ہوگیا اور چند لمحے بعد تین سروں والا سانپ نمودار ہوا اور بلند آواز میں کہنے لگا۔ ’’تم نے میرے باغ میں ایسی حرکت کی کیونکر جرات کی؟۔۔۔۔۔۔ تم نے اس پھول کو کیوں توڑا ہے؟‘‘

    سوداگر تھرتھر کانپنے لگا اور سانپ کے پیروں پر گر کر معافی مانگنے لگا۔ اس پر سانپ کو رحم آگیا اور بولا’’ بہت اچھا۔ میں تمہیں معافی دے سکتا ہوں، مگر صرف ایک شرط پر، وہ یہ کہ گھر جاتے ہی جو شخص تمہیں پہلے ملے اسے میرے حوالے کردینا اور اگر تم نے دھوکا دیا تو خیال رہے کہ میرے انتقام سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ میں تمہیں دنیا کے ہر کونے میں ڈھونڈ لوں گا۔‘‘

    سوداگر نے یہ شرط منظور کرلی اور گھر کی طرف چل پڑا۔ سب سے پہلے اس نے اپنی چھوٹی لڑکی کو کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے دیکھا، جو اسے دیکھ کر دوڑتی ہوئی آئی اور اس سے لپٹ گئی۔ مگر سوداگر بجائے خوش ہونے کے رونے لگا۔

    یہ دیکھ کر اس کی لڑکی نے دریافت کیا۔’’ابا! کیا سبب ہے جو تم رو رہے ہو؟‘‘
    جواب میں سوداگر نے وہ پھول پیش کرتے ہوئے تمام واقعہ بیان کردیا۔ یہ سن کر لڑکی نے اپنے باپ کو تسلی دی’’ ابا کسی قسم کی فکر نہ کرو، شاید خدا کو اسی میں بہتری منظور ہو۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سانپ کے پاس لے چلو۔‘‘

    چنانچہ سوداگر اپنی لڑکی کو اس باغ میں چھوڑ کر واپس چلا آیا۔ لڑکی اس باغ والے عالیشان محل میں داخل ہوئی اور دیر تک اس کے مختلف کمروں میں گھومتی رہی۔ کمرے زر و جواہر سے بھرے ہوئے تھے مگر کوئی متنفس موجود نہ تھا۔
    وقت گزرتا گیا۔

    اب جو اس حسین دوشیزہ کو بھوک محسوس ہوئی تو وہ سوچنے لگی۔’’کاش مجھے کچھ بھی کھانے کے لیے مل جائے!‘‘

    یہ خیال کرنا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک میز نمودار ہوئی جس پر انواع و اقسام کے لذیذ کھانے چُنے ہوئے تھے۔ سب لوازم موجود تھے اگر کمی تھی تو صرف چڑیا کے دودھ کی۔ لڑکی نے جی بھر کے کھانا کھایا اور جب ہاتھ اٹھایا تو میز مع طشتریوں کے غائب تھی۔

    جب تاریکی چا گئی تو سوداگر کی لڑکی سونے کے لیے خواب گاہ میں چلی گئی۔ وہ بستر پر لیٹا ہی چاہتی تھی کہ ایک آندھی کے ساتھ تین سروں والا سانپ ظاہر ہوا اور اس سے کہنے لگا۔

    ’’پیاری حسینہ میرا بستر اس دروازے سے باہر لگا دو!‘‘ لڑکی نے سانپ کا پلنگ دروازے کے باہر بچھا دیا اور خود دوسرے بستر پر لیٹ گئی۔

    جب صبح کو بیدار ہوئی تو حسبِ سابق گھر میں کوئی ذی روح موجود نہ تھا مگر جو چیز بھی اس نے طلب کی ایک پراسرار طریق پر حاضر ہوگئی۔ شام کے وقت وہی سانپ اس کے پاس پرواز کرتا ہوا آیا اور اس سے کہنے لگا۔

    ’’پیاری حسینہ میرا بستر اپنے پلنگ کے ساتھ بچھا دو!‘‘ لڑکی نے سانپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنا پلنگ اس کے بستر کے ساتھ بچھا دیا۔ رات گزر گئی اور صبح ہوئی تو حسبِ معمول گھر ویسا ہی سنسان تھا۔

    شام ہوتے ہی سانپ پھر تیسری بار نمودار ہوا اور اس سے کہنے لگا: ’’پیاری حسینہ۔ اب میں تمہارے ساتھ لیٹوں گا۔‘‘ لڑکی پہلے پہل تو ایک سانپ کے ساتھ لیٹنے سے بہت خوف زدہ ہوئی مگر قہر درویش بر جانِ درویش، جی کڑا کر کے اس کے ساتھ سو ہی گئی۔

    صبح بیدار ہوتے وقت سانپ نے لڑکی سے کہا’’ اگر تم یہاں سے اکتا گئی ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ ایک دن کے لئے اپنے باپ سے مل آؤ مگر خیال رہے دیر نہ کرنا۔ اگر تم نے ایک منٹ بھی زیادہ لگا دیا تو میں غم کے مارے مر جاؤں گا۔‘‘
    ’’نہیں آپ متفکر نہ ہوں! میں دیر نہ لگاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر سوداگر کی لڑکی وہاں سے رخصت ہوئی۔

    محل کے دروازے پر ایک گاڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اس میں سوار ہوئی اور چشم زدن میں اپنے گھر کے صحن میں پہنچ گئی۔ جب باپ نے اپنی لڑکی کو صحیح و سلامت واپس آتے دیکھا۔ تو بہت خوش ہوا اور اس کی پیشانی کا بوسہ لے کر پوچھنے لگا۔’’میری بچی! تم بچ کر کس طرح آگئی ہو؟۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے خدا تم پر مہربان ہے!‘‘

    ’’ہاں ابا‘‘ یہ کہتے ہوئے لڑکی نے اپنے باپ کو محل کے کمروں میں بکھری ہوئی دولت اور سانپ کی محبت کا تمام حال سنا دیا۔ جب اس کی بہنوں نے یہ واقعہ سنا تو حسد کی آگ میں جل کر رہ گئیں۔ دن لحظہ بہ لحظہ ڈھل رہا تھا۔ سوداگر کی لڑکی نے سانپ کے پاس واپس جانے کی تیاری شروع کر دی اور اپنی بہنوں سے کہا’’ اب مجھے جانا چاہیے۔ کیونکہ مجھے دیر کرنے کا حکم نہیں ہے۔‘‘

    یہ سن کر حاسد بہنوں نے آنکھوں پر پیاز مل مل کر آنسو بہانے شروع کر دیے اور کہنے لگیں’’عزیز بہن ابھی نہ جاؤ۔ کل چلی جانا۔‘‘ یہ دیکھ کر چھوٹیی لڑکی بہت متاثر ہوئی اور ایک دن کے لئے اور ٹھہر گئی۔ دوسرے روز وہ صبح ہی سب کو الوداع کہہ کر وہاں سے روانہ ہوگئی۔ محل پہلے کی طرح بالکل خالی تھا مگر جب وہ باغ کے تالاب کے پاس پہنچی تو اسے سانپ پانی پر تیرتا ہوا نظر آیا۔ اس نے فرقت کی تاب نہ لا کر خود کشی کرلی تھی!

    سوداگر کی لڑکی چلائی۔’’ آہ میرے اللہ! یہ میں نے کیا کر دیا!!‘‘ وہ بہت دیر تک روتی رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے سانپ کو تالاب سے باہر نکالا اور اس کا سر چُوم لیا۔

    سر کا چُومنا تھا کہ سانپ کے مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور لمحہ بھر میں اس نے خوب صورت جوان کی صورت اختیار کر لی۔ نوجوان نے کہا،’’شکریہ۔ پیاری حسینہ۔ تم نے مجھے بچا لیا۔ میں سانپ نہیں ہوں بلکہ ایک مسحور شاہزادہ ہوں۔‘‘

    وہ دونوں وہاں سے سوداگر کے پاس گئے۔ ان کی شادی ہوگئی اور دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    (روسی لوک ادب سے انتخاب)

  • ملا نصر الدین ہندوستان آئے!

    ملا نصر الدین ہندوستان آئے!

    پیارے بچو! اگر آپ کو کہیں تیز چالاک آنکھیں اور سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی لیے کوئی شخص نظر آ جائے تو رک جائیے اور غور سے دیکھئے، اگر اس کی قبا پرانی اور پھٹی ہوئی ہو، سر پر ٹوپی میلی اور دھبوں سے بھری ہوئی ہو اور اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے اور خستہ حال ہوں تو یقین کر لیجیے کہ وہی خواجہ نصر الدّین عرف خواجہ بخارا ہیں۔

    وہی خواجہ نصر الدّین جو ملا نصر الدّین کے نام سے معروف ہیں اور جن کی کہانیاں آج بھی عراق، ایران، ترکی، روس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ میں بہت سے لوگوں کو یاد ہیں، ازبکستان، آذربائیجان، ترکمانیہ اور تاجکستان وغیرہ میں اُن کا ذکر اس طرح رہتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کے ہوں!

    خواجہ بخارا کا گدھا بھی گھر ہی کا کوئی فرد نظر آتا ہے جہاں خواجہ کا ذکر وہاں ان کے گدھے کا ذکر۔

    تو بچو، خواجہ نصر الدّین عرف خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین اپنے گدھے پر سوار ہندوستان کے سفر پر آئے ہوئے ہیں، ہوشیار چمکتی ہوئی آنکھوں، سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی اگائے، پھٹی پرانی قبا اور سر پر میلی کچیلی ٹوپی کے ساتھ کوئی شخص گدھے پر سوار یا اپنے گدھے کو تھامے کہیں نظر آ جائے تو بلا تکلف اسے روک لیجیے ورنہ آپ ایک بہت بڑی شخصیت کے حقیقی دیدار سے محروم ہو جائیں گے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے خواجہ کو ایک شام پرتکلف کھانا ضرور کھلائیے، ہاں جب بھی خواجہ کو مدعو کیجیے تو یہ ہرگز نہ بھولیے کہ ان کے گدھے کے لیے ہری ہری گھاس کی بھی ضرورت ہو گی۔ ایسا نہ ہوگا تو گدھا بدک جائے گا، خدانخواستہ گدھا بدکا تو یہ سمجھئے کہ خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین بدکے۔

    ایک شام انڈیا گیٹ سے سرپٹ جو اپنا گدھا دوڑایا تو خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین نے بوٹ کلب کے میدان کے پاس ہی آ کر دم لیا۔

    بوٹ کلب پر اتنی بھیڑ تھی کہ اللہ توبہ کوئی جلسہ ہو رہا تھا اور نیتا لوگ تابڑ توڑ اپنا بھاشن داغ رہے تھے۔ ملا جی اپنے گدھے کو لیے ایک طرف بیٹھ گئے، گدھا بھوکا تھا اور خواجہ بخارا کو بھی بھوک لگ رہی تھی۔ گدھا اطمینان سے پیٹ بھر نے لگا اس لیے کہ لان میں ہری ہری گھاس موجود تھی، ملا نصر الدّین کی نظر سامنے کھڑے خوانچے والے کے اوپر تھی کہ جس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا، انھیں معلوم نہ تھا کہ خوانچے والا کیا فروخت کر رہا ہے۔ سوچ رہے تھے بھیڑ چھٹ جائے تو دیکھیں اس کے پاس کیا ہے۔

    بچو، تم سب جانتے ہو کہ اپنے دیش کے نیتا لوگ کیا پسند کرتے ہیں۔ ایک عدد مائیکرو فون اور ایک اسٹیج۔ سننے والے دو چار ہی کیوں نہ ہوں، یہاں اسٹیج بھی تھا، مائیکرو فون بھی اور جنتا بھی، بھلا کس بات کی کمی تھی، نیتا لوگوں کی پھٹی پھٹی آوازوں سے کان کے پردے پھٹ رہے تھے۔ درمیان میں نعرے بھی بلند ہو رہے تھے، زندہ باد، مردہ باد۔ ملا نصرالدین کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا، سوچنے لگے یہ لوگ دیوانے ہیں یا خون کے پیاسے۔ یہ بات بخوبی سمجھ رہے تھے کہ جو نیتا لوگ بھاشن دے رہے ہیں وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ اپنے لفظوں سے نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملا جی سوچنے لگے عجیب بات ہے۔ کہنے کو یہ لوگ رہنما ہیں اور باتیں نفرت کی کرتے ہیں۔ اس سے تو نقصان ان کے اپنے لوگوں کا ہی ہوگا۔ اپنے ملک کا ہوگا۔ جب خواجہ صاحب دہلی پہنچے تھے تو انھوں نے ایک شخص سے پوچھا تھا ’’میاں دلی کا کیا حال ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا تھا ’’کیا پوچھتے ہو صاحب، ہر جانب صرف دھما چوکڑی ہے۔‘‘ اب ملا جی کی سمجھ میں دھما چوکڑی کا کیا مطلب سمجھ میں آیا۔ اچانک جلسہ ختم ہوا اور ملا جی نے دیکھا ایک بھگدڑ مچ گئی ہے۔ لوگ ہیں کہ بس ایک دوسرے پر لڑھکتے جا رہے ہیں، کچھ لوگ پستے جا رہے ہیں لیکن نیچے گر کر بھی اپنی بتیسی نکالے ہوئے ہیں جیسے ان کے جوڑوں کا درد ٹھیک ہو رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام خوانچے والوں کی چلتی پھرتی دُکانیں لٹنے لگیں۔ خوانچہ والے آئس کریم والے سب اس طرح بھاگ رہے تھے جیسے دم دبا کر بھاگ رہے ہوں۔ خواجہ بخارا کو بصرہ کا وہ ساربان یاد آ گیا بچو، جسے آہن گر نے قرض وصول کرنے کے لیے صرف ایک طمانچہ رسید کیا تھا اور وہ اپنی اُونٹنی چھوڑ سرپٹ دوڑا تھا جیسے اس کے پیچھے بوتل کا جن نکل آیا ہو۔

    خواجہ نصر الدّین سوچ رہے تھے لوگ اطمینان سے کیوں نہیں نکل رہے ہیں، یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ وہ یہ کہ وہ لوگ جو نیتا لوگوں کا بھاشن سن رہے تھے آپس میں لڑنے لگے، دھول اڑنے لگی، چیخ پکار، نعرے بازی، مُلّا جی کا گدھا بھی گھاس چھوڑ کر اس جانب دیکھنے لگا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو لگا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے۔ ملا جی نے اسے ڈانٹا، کہا: ’’اے عقلمند گدھے تجھے کیا ہو گیا ہے، یہ لوگ تو تقریریں سن کر باؤلے ہو رہے ہیں۔ نفرت اپنی جھولی میں بھر بھر کر لیے جا رہے ہیں، لڑتے بھی جا رہے ہیں اور نفرت سے جھولی بھرتے بھی جا رہے ہیں، ذرا اُن کی آوازیں تھم جائیں پھر اپنا راگ سنانے کی کوشش کر۔’’ گدھا اپنے مالک کی بات فوراً سمجھ گیا اور خاموش ہو گیا۔

    ملا جی نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’میرے پیارے گدھے تو نیتاؤں سے بہت اچھا ہے تو مدد کرنے والا جانور ہے اور وہ — وہ نفرت پھیلانے والے لوگ! میرے پیارے گدھے، میں نے بخارا میں سنا تھا کہ اس ملک میں بھوک ہے، بیکاری اور بیروزگاری ہے۔ غریبی اور مہنگائی ہے۔ سیلاب اور خشک سالی ہے، اتنی ساری بیماریاں ہیں، پھر یہ نئی بیماری نفرت کی کہاں سے ٹپک پڑی۔’’ گدھے نے ان کی باتیں سنتے ہوئے ایک بار ’ڈھینچو’ کہا یعنی مالک آپ ٹھیک فرما رہے ہیں اور خاموش ہو گیا۔

    جب اندھیرا ہونے لگا تو ملا نصر الدّین اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ ایک شخص دوسری جانب سے دوڑا آ رہا تھا۔ اس نے ملا جی کو گدھے پر سوار دیکھا تو ہانپتے ہوئے بولا: ’’حضرت آپ جو بھی ہوں یہاں سے چلے جائیے، اس طرف پولیس کی گولیاں چل رہی ہیں۔ آپ خواہ مخواہ شہید ہونا کیوں چاہتے ہیں۔‘‘

    ملا نصر الدین نے اس شخص کو روک کر کہا: ’’السلام علیکم۔‘‘

    اس شخص نے کہا: ’’وعلیکم السلام۔ کہنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے، میں تو بھاگ رہا ہوں، سنا ہے کہ بھاگنے والے سلام کا جواب دیتے ہیں تو پیچھے سے شیطان اسے دبوچ لیتا ہے۔‘‘ وہ شخص بری طرح ہانپ رہا تھا۔

    ملا نصر الدین مسکراتے ہوئے بولے ’’میاں جو ہو رہا ہے ہونے دو، میں تو کبیر داس کی تلاش کر رہا ہوں۔ وہ مجھے مل جائیں تو ہم دونوں حالات پر قابو پالیں گے۔‘‘

    ’’کبیر داس؟ وہ برسے کمبل بھیگے پانی والے کبیر داس؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔

    ہاں وہی کہاں ملیں گے؟’’ ملا نصر الدین نے پوچھا۔ ’’

    ’’وہ تو ہمارے حال پر ماتم کرتے ہوئے جانے کہاں گم ہو گئے، انھوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن کسی نے ان کی بات نہیں مانی، پھر وہ چلے گئے، مجھے معاف کیجیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ وہ شخص پھر دوڑنے لگا۔

    ملا نصرالدین نے کہا ’’آپ شوق سے دوڑیے، صرف ایک پیغام ہے میرا اسے اس ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دیجیے، یہ پیغام دراصل داس کبیر کا ہے اور اب میرا بھی سمجھئے، لوگوں سے کہیے اس پیغام کو پانی میں گھول کر پی جائیں، اللہ شفا دے گا۔‘‘

    جلدی بتائیے پیغام کیا ہے، میں دوڑ رہا ہوں۔’’ اس شخص نے کہا۔’’

    ’’میرا پیغام یہ ہے، اِسے پڑھ لیجیے، یاد کر لیجیے اور اس ملک کے تمام لوگوں سے کہیے یہ بابا کبیر داس کا پیغام ایک بار پھر سن لو۔ ملا نصرالدّین یہی پیغام سن کر بخارا سے ہندوستان آئے ہیں‘‘۔

    آپ جلدی سے پہلے پیغام تو پڑھیے میں دوڑ رہا ہوں۔’’ اس شخص نے کہا۔’’

    ملا نصرالدین نے داس کبیر کا یہ شعر پڑھا:

    چھینہ بڑھے چھن اوترے سو تو پریم نہ ہوئے
    اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے

    اس کا مطلب جلدی سے بتائیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ اس شخص نے گزارش کی۔’’

    ملا نصرالدّین نے کہا ’’میاں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایک لمحے میں چڑھے اور دوسرے لمحے میں اتر جائے وہ محبت نہیں ہوتی جب ایسی محبت انسان میں پیدا ہو جو کم ہونے والی نہ ہو وہی محبت کہلاتی ہے۔‘‘

    اس شخص نے کہا ’’بہت خوب بہت خوب۔ بابا کبیر داس کا جو پیغام آپ لائے ہیں میں اسے ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دوں گا۔ میں دوڑ رہا ہوں، دوڑتے دوڑتے ہر گھر میں یہ بات پہنچا دوں گا۔ اب چلا اس لیے کہ میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘

    ملا نصرالدین مسکرائے اور گدھے پر سوار جامع مسجد علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان کی زبان پر یہ مصرع تھا۔

    اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے۔

    (کہانی کے مصنّف شکیل الرحمٰن کا تعلق بھارت سے ہے)

  • اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔

    وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریو، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘

    یہ سن کر ایک پری آئی اور بولی، ’’آؤ میں تمہاری مدد کروں۔ ذرا تم پہیوں کے آس پاس سے کیچڑ تو ہٹاؤ۔‘‘ گاڑی والے نے فوراً کیچڑ ہٹا دی۔

    پری بولی، ’’اب ذرا راستے سے کنکر پتھر بھی ہٹا دو۔‘‘ گاڑی بان نے کنکر پتھر بھی ہٹا دیے اور بولا، ’’پیاری پری، اب تو میری مدد کرو۔‘‘

    پری ہنستے ہوئے بولی، ’اب تمہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تم نے اپنا کام آپ کر لیا ہے۔ گھوڑے کو ہانکو۔ راستہ صاف ہو گیا ہے۔‘‘

    (معروف پاکستانی شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • قصہ لکھن لال جی کا…

    قصہ لکھن لال جی کا…

    مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا۔

    وہ اچانک ہماری حویلی میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے، انتہائی بھیانک چہرہ، کہیں سے بھالو، کہیں سے ہنومان اور کہیں سے لنگور، بڑے بڑے بال، ایک اچھلتی لچکتی بڑی سی دُم، میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور اچھل اچھل کر کہنے لگے،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    میں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا۔ میرے ماموں کو شرارت سوجھی۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر ان کے اور بھی قریب کر دیا اور انھوں نے مجھے گود میں لے لیا۔ پھر کیا تھا پوری حویلی میری چیخ سے گونجنے لگی، روتے روتے بے حال ہو گیا، تم نہیں جانتے بچو میرا کیا حال ہو گیا۔ جب انھوں نے مجھے چھوڑا تو میں نڈھال ہو چکا تھا تھر تھر کانپ رہا تھا— پھر مجھے فوراً ہی تیز بخار آ گیا۔ شب میں بھی میرے کانوں میں ان کی آواز گونجی،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھر رہے کھاں’’

    ابھی تک مجھے وہ بے معنی آواز یاد ہے۔ بچپن کی یادوں کے ساتھ یہ آواز بھی آ جاتی ہے۔ کل اس آواز کا خوف طاری ہو جاتا تھا تو تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔

    وہ ہر جمعہ کو آ جاتے، اسی طرح چیختے ہوئے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں۔’’ اور میں سہم جاتا۔ دالان کے دروازے کے پیچھے چھپ جاتا، چونکہ ہر ہفتے جمعہ کے دن میرے ابو میرے ہاتھ سے محتاجوں کو پیسے کپڑے تقسیم کراتے۔ اس لیے وہ بھی ہر ہفتے بس اس دن آ جاتے ہیں، جو مل جاتا لے کر چلے جاتے۔ اُنھیں دیکھ کر میری روح فنا ہو جاتی۔

    وہ۔۔۔ اور ان کے بے معنی لفظوں کی بھیانک آواز مجھے پریشان کر دینے کے لیے کافی تھی۔ حویلی کے کچھ لوگوں کو مجھے ڈرانا ہوتا نا بچو، تو وہ کہتے ’’دیکھو وہ آ گیا بندر کی دُم والا۔‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    اور میری حالت غیر ہو جاتی، کبھی پلنگ کے نیچے کبھی لحاف کمبل میں دبک جاتا۔

    بہت دن بیت گئے۔ جب کچھ بڑا ہوا تو معلوم ہوا ان کا نام لکھن لال ہے اور وہ ایک بہروپیا ہیں، مختلف قسم کے بھیس بدلتے اور گھر گھر جاکر پیسے مانگتے ہیں۔

    یاد ہے ایک روز وہ ڈاکیہ بن کر آئے اور حویلی کے چبوترے پر بیٹھے کچھ لوگ دھوکہ کھا گئے۔ پھر وہ بیٹھے رہے چبوترے پر اور اپنی کہانی سناتے رہے۔ میں بھی پاس ہی بیٹھا ان کی کہانی سننے لگا۔ مجھے یاد نہیں ان کی کہانی کیا تھی البتہ یہ تاثر اب تک ہے کہ وہ جو کہانی سنا رہے تھے اس میں کچھ دُکھ بھری باتیں تھیں، اپنی کہانی سناتے سناتے رو پڑے تھے۔ میرا دل بھی بھر آیا تھا اس لیے کہ میں کسی کو روتا دیکھ نہیں سکتا۔

    اتنا یاد ہے ان کا نام لکھن لال تھا، موتی ہاری شہر سے کچھ دور ’’بلوا ٹال’’ میں رہتے تھے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں۔ آہستہ آہستہ ان سے دوستی ہونے لگی۔ مجھے بتاتے کس کس طرح بہروپ بھر کر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالتے رہے ہیں۔ اُن کی ہر بات بڑی دلچسپی سے سنتا، وہ کبھی عورت بن جاتے، کبھی پوسٹ مین، کبھی ہنومان، کبھی کرشن کنہیا۔ جب وہ اپنی بات پوری کر لیتے تو میں فرمائش کرتا ایک بار بولیے نا ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر…’’ اور وہ میری خواہش پوری کرتے ہوئے اپنے خاص انداز سے کہتے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘ ان سے اس طرح سنتے ہوئے اچھا لگتا۔

    پھر وہ کہاں اور میں کہاں، میں اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست سے بہت دور اور وہ میرے اور اپنے پرانے شہر میں جانے کتنا زمانہ بیت گیا۔ ان کی یاد آئی تو اپنے پہلے خوف سے ان سے دوستی تک ہر بات یاد آ گئی۔ کشمیر میں اپنے بچّوں کو ان کے بارے میں بتایا اور میرے بچّوں کو بھی ان بے معنی لفظوں سے پیار سا ہو گیا۔ ’’ناک دھودھڑکی ناک نجر کھررے کھاں۔‘‘

    بہت دن بیت گئے۔ موتی ہاری گیا تو لکھن لال کی یاد آئی، پرانے لوگوں میں ان سے بھی ملنے کی بڑی خواہش ہوئی، اپنے عزیز دوست ممتاز احمد سے کہا ’’میرے ساتھ بلوا ٹال چلو، لکھن جی کا مکان ڈھونڈیں شاید زندہ ہوں اور ملاقات ہو جائے۔‘‘

    بڑی مشکل سے ان کی جھونپڑی ملی، ہم اندر گئے، دیکھا ایک کھٹولہ ہے، اسی کھٹولے پر ایک چھوٹا سا پنجر، ایک انسان کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے، لکھن لال بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور سکڑ گئے تھے۔ اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، بال ابرو غائب، دانت ندارد، حد درجہ سوکھا جسم، کھلا ہوا منہ، چہرے پر اتنی جھریاں کہ بس انھیں ہٹاکر ہی چہرے کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ منہ کھولے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کہانی بس ختم ہونے کو تھی، چراغ بس بجھنے کو تھا، اچھا ہوا جو مل لیے، اچھا ہوتا جو نہ ملتے۔ وہ اس رُوپ میں ملیں گے، سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بھالو، ہنومان، لنگور کا مکسچر یاد آ گیا کہ جس نے اُچھل اُچھل کر پہلی بار مجھے اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ اب تک بھولا نہیں ہوں۔

    کیا یہ وہی شخص ہے؟ کیا یہ وہی لکھن لال ہیں؟ انھوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ ممتاز نے انھیں میری یاد دلائی۔ انھیں یاد آ گیا، پرانا وقت، میرا نام سنتے ہی کھٹولے پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ان کے پیار کی خوشبو مجھ تک پہنچ گئی۔ دھنسی ہوئی آنکھوں سے کئی قطرے ٹپک پڑے، میری آنکھوں میں بھی اپنے پرانے بزرگ دوست کو دیکھ کر آنسو آ گئے۔ اُنھوں نے آہستہ آہستہ ایک ہاتھ بڑھایا تو میں نے تھام لیا۔ اسی وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔ ایسی لکیر جو مٹائے نہ مٹے۔ نیم آلود دھنسی ہوئی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ ایک ٹک بس مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ ہم دونوں آنکھوں میں پچھلی کہانیوں اور رشتوں کو پڑھ رہے تھے۔ کوئی آواز نہ تھی۔ بچّو! میں سوچ رہا تھا عمر بھر بہروپ بھرتے رہے ، سب کو ہنساتے ڈراتے رہے، آپ کا جواب نہیں لکھن جی، مالک کے پاس جانے کے لیے جو نیا بہروپ بھرا ہے وہ اے- ون ہے۔ سنتے ہیں مالک ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے اور اسی کی ہنسی پر دنیا قائم ہے۔ ذرا اب تو ہنس کر دیکھے یہ بہروپ دیکھ کر رو پڑے گا۔

    جب رخصت ہونے لگا تو انھوں نے روکا، آہستہ آہستہ بولنے لگے ’’ناک۔۔۔ دھو۔۔۔ دھڑ۔۔۔ کی ناک۔۔۔ نجر۔۔۔ کھررے۔۔۔ کھاں۔’’ پورے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ پھیلی۔

    پھر میری طرف دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں بند کر لی۔ پاس کھڑے ان کے کسی رشتہ دار نے بتایا وہ اچانک اسی طرح سو جاتے ہیں۔ اور ایک دن لکھن اچانک ابدی نیند سو گئے۔

    بہروپیا اپنے نئے روپ کے ساتھ مالک کے پاس پہنچ گیا۔

    (اردو میں جمالیاتی تنقید کے ممتاز نقاد شکیل الرّحمٰن کی بچّوں کے لیے ایک کہانی)

  • گھیراؤ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    گھیراؤ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    پچھلے پچاس منٹ سے تینوں بچے سَر جوڑے غور و فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لیکن ابھی تک کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ تینوں کی خواہش تھی کہ کل اتوار کو انٹرنیشنل سرکس دیکھا جائے۔ اس سرکس کی بے حد تعریف ہو رہی تھی اور آج یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ اسی ہفتے میں اس شہر سے سرکس والوں کا ڈیرا اٹھنے والا ہے۔

    تینوں میں سب سے بڑا شہیر تھا۔ وہی ممی کے پاس اجازت لینے کے لیے پہنچا، لیکن ابھی اس کے منہ سے سرکس کی بات نکلی ہی تھی کہ ممی کا سنسناتا ہوا طمانچہ اس کے گال پر پڑا۔ شہیر کی آنکھوں کے سامنے رنگ برنگے تارے ناچ گئے۔ ہما اور ڈولی دروازے کے قریب ہی کھڑے اندر جھانک رہے تھے۔ چٹاخ کی آواز سنتے ہی ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی اور دونوں وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آ گئیں۔

    ممی چلا رہی تھیں: "جمعرات سے امتحان شروع ہو رہا ہے اور تمھیں سرکس کی سوجھ رہی ہے۔”

    ممی کے اس سخت برتاؤ پر غور کرنے کے لیے ہی وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ "ہمارے سرکس دیکھنے جانے پر ممی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” ہما نے کہا۔

    "امتحان تو صرف بہانہ ہے۔ امتحان جمعرات سے شروع ہو گا اور ہم کل سرکس دیکھنے جانا چاہتے ہیں۔” ڈولی بولی۔

    شہیر اپنا گال سہلاتے ہوئے بولا: "سرکس دیکھنے سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔”

    ڈولی بولی: "بھیا! آپ ایک غلطی کر رہے ہیں۔”

    شہیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا: "کیا؟”

    "ممی کا طمانچہ آپ کے بائیں گال پر پڑا ہے، مگر غلطی سے دایاں گال سہلا رہے ہیں۔”

    "ڈولی! اس مسئلے کو یوں مذاق میں نہ ٹالو۔” ہما نے چھوٹی بہن کو ڈانٹا۔

    "آئی ایم سوری۔” ڈولی غلطی مان گئی۔

    ہما اصل موضوع پر آتے ہوئے بولی: "ممی کے سلسلے میں ہمیں کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔ آج بھیا کے طمانچہ لگا ہے، کل ہمارے بھی لگ سکتا ہے۔”

    شہیر نے مشورہ دیا: "کیوں نہ ہم ممی کا گھیراؤ کریں۔”

    "گھیراؤ!” ڈولی نے پوچھا: "یہ کیا چیز ہوتی ہے؟”

    "ٹھیک طرح تو مجھے بھی نہیں معلوم ہے، ویسے ریڈیو پر اکثر سنتا ہوں کہ فلاں جگہ مزدوروں نے مینجر کا گھیراؤ کیا اور اپنی باتیں منوا لیں۔”

    ہما نے کہا: "ہاں ٹھیک ہے۔ جس کا گھیراؤ کرنا ہو اس چاروں طرف سے گھیر لو۔”

    ڈولی بیچ میں بول پڑی: "پھر اسے نہ کام کرنے دو اور نہ کھانا پکانے دو، مزہ آ جاتا ہو گا۔”

    "بالکل۔” شہیر نے کہا۔

    ڈولی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: "لیکن ہم تو صرف تین ہیں۔ ممی کو تین طرف سے ہی گھیر سکتے ہیں۔ چوتھی طرف سے وہ نکل جائیں گی۔”

    "اس بات کی تو اتنی فکر نہیں ہے، لیکن مجھے ڈولی پر بھروسا نہیں ہے۔ ابھی پرسوں یہ ایک چھوٹی سی چوہیا سے ڈر کر ممی سے لپٹ گئی تھی۔” ہما نے ڈولی کا مذاق اڑایا۔

    ڈولی تلملا کر بولی: "چوہیا، چوہیا ہوتی ہے۔ میں گھیراؤ کرنے سے بالکل نہیں ڈرتی۔”

    ہما نے اسے چڑایا: ” رہنے بھی دو، میں نہیں مان سکتی۔ گھیراؤ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔”

    "اچھی طرح سوچ لو، ممی کا گھیراؤ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ہم طمانچوں اور جھڑکیوں کی بارش ہو جائے۔ اس وقت ہمیں گھبرا کر میدان نہیں چھوڑنا ہو گا۔”

    اتنے میں باورچی خانے سے ممی کی آواز سنائی دی: "شہیر! جلدی سے یہاں آؤ۔”

    "مت جاؤ بھیا۔” ڈولی نے کہا۔

    "نہیں مجھے ضرور جانا چاہیے۔” شہیر کانپتے ہوئے بولا۔

    ڈولی ہنس کر بولی: "لو، مجھے کہتے ہیں اور اب خود ہی ڈرنے لگے۔”

    "تم سمجھتی کیوں نہیں ڈولی! ہو سکتا ہے طمانچہ مار کر ممی پچھتا رہی ہوں اور آئس کریم کھانے کے لیے پیسے دینا چاہتی ہوں۔” یہ کہہ کر شہیر چلا گیا۔

    ایک منٹ بعد شہیر پچاس روپے کا نوٹ ہاتھ میں لیے لوٹا۔

    "ممی نے یہ نوٹ نکڑ والی دکان سے مسور کی دال لانے کے لیے دیا ہے۔” اس نے بتایا۔

    ہما نے پاؤں پٹک کر کہا: "آپ کو دال کبھی نہیں لانی چاہیے۔”

    ڈولی بولی: "یہ دال لانے کا نہیں، آپ کی ناک کا سوال ہے۔”

    شہیر کا ہاتھ اپنی ناک پر چلا گیا اور اسے اچھی طرح ٹٹول کر بولا: "کیوں؟ کیا ہوا میری ناک کو؟”

    "بھیا! میرا مطلب آپ کی عزت اور بے عزتی سے ہے۔ دال آگئی تو گھراؤ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” ڈولی بولی۔

    شہیر چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا: "ٹھیک ہے، میں دال نہیں لاؤں گا، اور ۔۔۔ ۔۔”

    اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ شہیر گھبرا کر بولا: "ممی ادھر ہی آ رہی ہیں، میں دال نہیں لایا تو۔۔۔ ۔” گھبرا کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔

    ممی کے قدموں کی آہٹ ہر لمحہ نزدیک ہوتی جا رہی تھی۔ سوچنے کا قطعی وقت نہیں تھا۔ سامنے ہی چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ شہیر اسی کے نیچے گھس گیا۔

    ممی ریل گاڑی کے انجن کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ آتے ہی بولیں: "ذرا نکڑ تک دیکھ کر آؤ، شہیر دال لینے گیا ہے۔ ابھی تک نہیں لوٹا۔ چولہا بےکار جل رہا ہے۔”

    ہما نے کہا: "آ جائیں گے۔”

    ممی نے دھم سے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا: "کیا بات ہے، تم دونوں اداس نظر آ رہی ہو؟”

    ممی کے بیٹھتے ہی شہیر کا برا حال ہو گیا۔ چارپائی اونچائی میں بہت کم تھی۔ یوں بھی اس کی بنائی ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ ممی کا وزن جب شہیر کی پیٹھ پر پڑا تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔”

    اسی وقت باہر سے ڈیڈی کی موٹر سائیکل کی آواز آئی۔ وہ بھی کمرے میں آ گئے اور اسی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ شہیر کے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کسی نے پانچ من کا وزن لاد دیا ہو۔ دباؤ کی وجہ سے پھیپھڑے بھی آدھی سانس لے پا رہے تھے۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے گھیراؤ کرنے کی اسکیم بنائی اور خود چارپائی کے نیچے آ پھنسا۔

    ڈولی ہما کے کان میں بولی: "گھیراؤ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ دیکھو پیچھے دیوار ہے، ایک طرف سے ہم ممی اور ڈیڈی دونوں کو ہی گھیر سکتے ہیں۔”

    "لیکن بھیا کا تو اپنا ہی گھیراؤ ہو گیا ہے۔” ہما بولی۔ "کسی طرح بھیا تک اسکیم پہنچائی جائے۔” ڈولی منمنائی ڈیڈی بوٹوں کے تسمے کھولتے ہوئے بولے: "بھئی آج تو کمال ہو گیا۔ ہماری کنجوس کمپنی نے اس بار تین مہینے کا بونس دے ڈالا۔ تیس ہزار ہاتھ آ گئے۔”

    "تیس ہزار!” ممی کھل اٹھیں۔

    "ہاں، اسی خوشی میں کل ہم سرکس دیکھنے چلیں گے۔ اس کی بڑی تعریف سن رہا ہوں۔”

    ہما اور ڈولی اچھل پڑے۔ دونوں چلائے: "ہپ ہپ۔”

    چارپائی کے نیچے سے دبی دبی آواز آئی: "ہرا!”

    ممی اور ڈیڈی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دیکھا تو نیچے سے شہیر اپنی کمر پکڑے نکل رہا تھا۔

    "ارے تم دال لینے نہیں گئے؟” ممی نے پوچھا۔

    "ذرا جھپکی آ گئی تھی۔ بس اب میں یوں گیا اور یوں آیا۔” شہیر نے کہا اور دال لانے کے لیے دوڑ گیا۔

    (مصنّف: پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)

  • کرتب ( افریقی ادب سے ایک کہانی)

    کرتب ( افریقی ادب سے ایک کہانی)

    جوسیلڈو اپنی زندگی کی مشکلات کے حل کے لیے ہمیشہ اپنے کان کھلے رکھتا۔ جس وقت کوئی مسافر اس کے پاس سے گزرتا یا گاڑی رکتی وہ گفتگو سننے کے لیے قریب ہو جاتا۔ ایسے ہی کسی لمحے میں اس نے اپنی بڑی بیٹی کے لیے کئی سپنے دیکھے۔

    پورے ہفتے یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ ایک لڑکا اپنے جسم کو سانپ کی طرح بل دینے پر قادر ہے۔ وہ پورے ملک کا دورہ کرتا ہے اور ہر کوئی اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لڑکے نے بہت دولت کمائی ہے اور پیسوں سے صندوق بھر لیے ہیں۔ یہ سارا کچھ اس کے کرتبوں کے طفیل ہے۔ کرتب دکھانے والے کا ہر جگہ ذکر ہوتا اور گاڑی ڈرائیور اس کو مرچ مسالا لگا کے لوگوں کو سناتے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ اس نے کس طرح اپنے جسم کو اپنے آپ سے باندھ لیا۔ اگر اسے کھولا نہ جاتا تو وہ اب بھی اسی حالت میں ہوتا۔

    جوسیلڈو نے اپنی حیاتی اور بارہ بچوں کے بارے میں سوچا، ان بچوں کا مستقبل کیا ہے؟ پورے بارہ بچے۔ اس نے فیصلہ کر لیا فلومی کرتب دکھائے گی، سڑکوں اور راستوں پر اس کے اشتہار لگے ہوں گے۔ اس نے اپنی بیٹی کو حکم دیا “آج سے تم کرتب دکھانے کی مشق شروع کر دو، سر کو فرش سے لگانے کی مشق۔” لڑکی نے کرتب دکھانے شروع کر دیے، لیکن اس کی رفتار بہت سست تھی۔

    جوسیلڈو کرتبوں اور مشقوں کے لیے ورکشاپ سے بڑے بڑے ڈرم لے آیا۔ رات کو اس کی کمر کو ڈرم سے باندھ دیا جاتا اور صبح کو اس پر گرم پانی پھینکا جاتا۔” یہ گرم پانی اس لیے ہے کہ تمہاری ہڈیاں نرم اور لچکدار ہو جائیں۔”

    جس وقت لڑکی کو کھولا جاتا وہ پیچھے گر جاتی۔ اس کی خون کی گردش معمول پر نہ رہتی اور ہڈیاں چٹخ جاتیں۔ اس نے درد اور نیند کی شکایت کی۔ “تم قربانی کے بغیر کیسے امیر ہو سکتی ہو”؟ اس کا والد جواب دیتا۔ اس کا جسم درد سے چور چور ہو جاتا۔” ابا میرے جسم میں درد ہوتا ہے، مجھے سونے دو”۔

    “نہیں بیٹی، جس وقت تم امیر ہو جاؤ گی، ہماری غربت دور ہو جائے گی، تم اپنی نیند خوب پوری کرنا۔” وقت گزرتا رہا، جوسیلڈو کرتب دکھانے والے کا منتظر رہا۔ وہ اپنے کان اینٹنے کی طرح کھلے رکھتا اور اس کی آنکھیں کسی خبر کی کھوج میں رہتیں۔ کرتب دکھانے والا پتہ نہیں کس دیس چلا گیا تھا۔

    اب فلومی کی حالت بہت غیر ہوگئی تھی۔ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی اور اسے الٹیاں لگ گئیں۔ لگتا تھا اس کا اندر منہ کے راستے باہر آ جائے گا۔ پَر اس کا باپ کہتا ان کمزوریوں کی طرف دھیان نہ دو۔ کرتب دکھانے والے کو تمہیں اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ تمہیں کرتب دکھانے والی نظر آنا چاہیے، الٹیاں کرنے والی نہیں۔

    جوں جوں وقت گزر رہا تھا اس کے باپ کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں خبریں باہر سے آتیں۔ دنیا میں کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں وقت تھم جاتا ہے، یہ علاقہ بھی ایسا ہی تھا۔ ابھی تک وقت کے ہاتھ خالی تھے۔ ایک شام جوسیلڈو نے اس لکی اسٹار کی خبر سنی جو شہر میں شو کی تیاری کر رہا تھا، وہ دوڑا دوڑا گھر آیا اور اپنی بیوی کو کہنے لگا “فلومی کو نئے کپڑے پہناؤ”۔ اس کی بیوی پریشان ہو گئی اور پھر بولی “لڑکی کے پاس تو نئے کپڑے ہی نہیں ہیں”۔

    “اپنا اسکارف اتار دو، فن کار سر نہیں ڈھانپتے، بیوی اس کے بال بھی درست کرو، میں ریل گاڑی کا ٹکٹ لے کے آتا ہوں۔”

    “تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے۔”

    “یہ پوچھنا تمہارا کام نہیں، عورت میرے سر پر سوار نہ ہوا کر۔”

    کچھ دیر بعد وہ شہر روانہ ہو گئے۔ وہ گاڑی میں سوچ رہا تھا، پھل اتنے جلدی نہیں پکتے، گنے سے چینی بننے میں کچھ وقت لگتا ہے۔

    پھر وہ گاڑی میں بیٹی کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا وہ کانپ رہی تھی۔ اس نے اس سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا۔ اس نے ٹھنڈ کی شکایت کی۔ “کون سی ٹھنڈ، کیسی سردی،؟” پھر اس نے ٹھنڈ کو تلاش کرنا شروع کر دیا جیسے اس کا بھی کوئی جسم ہو۔

    “بیٹی گھبراؤ نہیں، کچھ دیر میں، یہاں گرمی ہو جائے گی”۔

    لڑکی کی کپکپاہٹ اور بڑھ گئی۔ لگتا تھا جیسے وہ ٹرین سے زیادہ کانپ رہی ہو۔ اس کے باپ نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا۔” اپنی کپکپاہٹ کم کرو، نہیں تو میرا کوٹ ادھڑ جائے گا”۔

    وہ شہر پہنچ گئے اور لکی اسٹار کی تلاش شروع کر دی۔ وہ گلی گلی پھرتے رہے۔

    ” اتنی گلیاں؟ “وہ لڑکی کو اپنے ساتھ کھینچ رہا تھا۔

    “فلومی اٹھ کے کھڑی ہو جاؤ، وہ سمجھیں گے میں تمہیں اسپتال لے کے جا رہا ہوں۔”

    آخر وہ اس گھر تک پہنچ گئے۔ انہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں انتظار کے لیے کہا گیا۔ فلومی کرسی پر سو گئی۔ جبکہ اس کا باپ پیسے کے خواب دیکھتا رہا۔ وہ انہیں شام کے وقت ملا۔ اس نے سیدھی بات کی،

    ” مجھے اس کی ضرورت نہیں “۔

    “…مگر، جناب…۔ “

    ” میرا وقت نہ ضائع کریں، مجھے یہ نہیں چاہیے، اس طرح کے کرتب کا اب زمانہ نہیں رہا”۔

    “مگر میری بیٹی دیکھیں تو سہی وہ اپنے سَر کو…”۔

    “میں نے بتایا ہے کہ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ لڑکی بچاری بیمار ہے۔”

    “یہ لڑکی نری ربڑ ہے، بس اسے سفر کی تھکان ہے۔”

    ” مجھے صرف ایک چیز میں دلچسپی ہے، مجھے وہ لڑکے چاہیں جن کے لوہے کے دانت ہوں جو لکڑی اور کیل کھا سکیں “۔

    جوسیلڈو پریشان ہو گیا” میں یہ نہیں کر سکتا “۔

    وہ وہاں سے نکل آئے جبکہ لکی اسٹار کرسی پر بیٹھا رہا۔

    اس کے باپ کا دھیان لڑکی کی طرف گیا جو ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہی تھی۔

    راستے میں جوسیلڈو اپنی قسمت کو برا بھلا کہتا رہا۔

    ” دانت، اب وہ دانت مانگتے ہیں “۔ فلومی اس کے ساتھ اپنے آپ کو گھسیٹ رہی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اس کا باپ اب برف ہو رہا تھا۔ اس نے اسٹیشن کی طرف دیکھنا شروع کر دیا پر اس کی نظر بہت دور تک نہیں گئی۔ پھر اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے بیٹی کو پکڑا اور دیکھے بغیر پوچھا،” یہ بات ٹھیک ہے کہ تمہارے دانت بہت سخت ہیں تمہاری ماں یہی کہتی ہے؟” اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے لڑکی کو ہلایا تو وہ پوری کی پوری اس کے بازوؤں میں‌ آگئی۔

    (مایا کوٹو (موزمبیق) کے اس افسانے کا ترجمہ حمید رازی نے کیا ہے)

  • ‘سزا’

    ‘سزا’

    ایک ملک کے کسی بڑے شہر کا حاکم اپنے مشیروں اور چند سپاہیوں کے ساتھ مرکزی بازار کے گشت پر نکلا۔ اس نے وہاں‌ ایک پرندے بیچنے والے کو دیکھا جس کے پاس ایک پرندوں سے بھرا ہوا ایک پنجرہ تھا اور اس کی قیمت وہ ایک دینار لگائے ہوئے تھا جب کہ اسی پنجرے کے ساتھ ایک اور پنجرے میں ویسا ہی صرف ایک پرندہ تھا جس کی قیمت وہ دس دینار مانگ رہا تھا۔

    حاکمِ وقت کو اس عجیب فرق پر بہت تعجب ہوا تو اس نے پوچھا: ایسا کیوں ہے کہ پرندوں سے بھرا ہوا پورا ٹوکرا محض ایک دینار کا اور ویسا ہی ایک اکیلا پرندہ دس دینار کا؟

    بیچنے والے نے عرض کی : حضورِ والا، یہ اکیلا پرندہ سدھایا ہوا ہے، جب یہ بولتا ہے تو اس کے دھوکے میں آکر باقی کے پرندے جال میں پھنس جاتے ہیں، اس لیے یہ قیمتی ہے اور اس کی قیمت زیادہ ہے۔

    حاکمِ وقت نے دس دینار دے کر وہ پرندہ خریدا، نیفے سے خنجر نکالا اور اس پرندے کا سَر تن سے جدا کر کے پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر عسکری و سیاسی مصاحبوں سے رہا نہ گیا اور تعجب سے پوچھا: حضور، یہ کیا؟ اتنا مہنگا اور سدھایا ہوا پرندہ خرید کر مار دیا؟ اس پر حاکمِ وقت نے کہا: یہی سزا ہونی چاہیے ہر اس خائن اور چرب زبان منافق کی، جو اپنی ہی قوم کے لوگوں کو اپنی بولی سے بلائے، ان کو سبز سہانے مستقبل کے خواب دکھائے، اور اس قوم کو اپنے مطلوبہ مقام و منزل پر لا کر ان سے خیانت کرے۔

    (ماخوذ از حکایات)

  • اوس اور گدھے کی آواز (ایک حکایت)

    اوس اور گدھے کی آواز (ایک حکایت)

    ایک ٹڈا کسی شاخ پر بیٹھا سیٹیاں بجا رہا تھا۔ قریب سے ایک گدھا گزرا۔ اس کے کانوں‌ میں‌ چھوٹے سے ٹڈے کی سیٹیاں پڑیں تو اس سے رہا نہ گیا۔

    اکثر ٹڈے گدھے کے جسم پر بھی بیٹھ جایا کرتے تھے۔ یوں وہ اس چھوٹے سے کیڑے سے واقف ہی تھا۔ گدھے کا ایک احساسِ کمتری یہ تھا کہ اسے اپنی آواز بھونڈی اور نہایت فضول معلوم ہوتی تھی۔ آج ٹڈے کو سن کر وہ اس سے کہنے لگا۔​

    "ٹڈے میاں! تمہاری آواز بڑی سریلی ہے۔ میں تو اس پر عاشق ہو گیا ہوں۔ تم کیا کھاتے ہو؟ بتاؤ، میں بھی وہی غذا استعمال کر کے اپنی آواز تمہاری طرح سریلی بنا سکوں۔”​

    ٹڈا اپنی آواز کی تعریف سن کر بڑا خوش ہوا اور بولا۔ "تم میرے دوست ہو۔ کبھی کبھی میں شاخ سے اچھل کر تمہاری گردن پر بیٹھ جاتا ہوں تو مجھے پنگوڑے کا مزہ آتا ہے۔ تم اپنی گردن ہلا کر مجھے خوش کر دیتے ہو۔ آج تمہیں اپنی آواز سریلی بنانے کا خیال آیا ہے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ ہے تو راز کی بات لیکن میں تمہیں بتائے دیتا ہوں۔ دیکھو، یہ راز کسی اور کو مت بتانا۔ تم خود اس سے فائدہ اٹھاؤ۔”​

    گدھے نے قسم اٹھا کر ٹڈے کو یقین دہانی کرائی کہ وہ یہ راز کسی کو نہیں بتائے گا۔ اس پر ٹڈے نے کہا۔” اوس کھایا کرو۔”​

    گدھا واقعی سنجیدہ تھا۔ وہ ٹڈے کی زبانی آواز اچھی بنانے کا یہ راز جان کر بہت خوش ہوا۔ اس نے سب کھانا پینا چھوڑ کر اوس چاٹنا شروع کر دی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ چند ہی دنوں میں گدھا بھوک پیاس کی شدّت سے مر گیا۔​

    اس حکایت سے سبق یہ ملا کہ دوسروں سے اپنا موازنہ نہیں‌ کرنا چاہیے اور اگر کوئی نئی بات معلوم ہو تو اس کی خوب تحقیق اور اطمینان کرلینا بہتر ہے۔

  • دربان اور قاضی (ترکی کی لوک کہانی)

    دربان اور قاضی (ترکی کی لوک کہانی)

    پرانے زمانے میں ترکی میں ایک کسان تھا جس کا نام عبدل تھا۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی مگر اس زمین سے اس کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بیوی نے دو بھینیسں رکھی ہوئی تھیں، وہ ان کا دوودھ نکالتی اور دودھ سے گھی، مکھن اور پنیر بناتی۔ کسان یہ دودھ اور پنیر شہر لے جاتا اور وہاں سے اس کے بدلے شہد خرید لاتا۔ گاؤں میں شہد کی بہت مانگ تھی، واپس آکر وہ شہد بیچ کر رقم حاصل کر لیتا تھا۔

    کچھ عرصہ سے مسئلہ یہ ہورہا تھا کہ جب وہ اپنا سامان لے کر شہر کے دروازے پر پہنچتا تو وہاں‌ کا دربان روک لیتا کہ قاضی کے اجازت نامے کے بغیر تم شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک مرتبہ عبدل مکھن اور پنیر کے برتن لے کر شہر پہنچا تو دربان نے اسے روک لیا کہ تم قاضی کی اجازت کے بغیر شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔

    عبدل نے اس کی بہت منت سماجت کی مگر دربان نے شہر میں داخل ہونے نہ دیا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد عبدل نے کہا کہ دربان بھائی تم ایسا کرو ان برتنوں میں سے ایک برتن تم رکھ لو۔ دربان کو برتن میں سے تازہ پنیر کی مہک آرہی تھی، اس نے برتن رکھ لیا اور عبدل کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ عبدل کا مال جلد ہی بک گیا، اس نے اس رقم سے شہد خریدا اور واپس گاؤں کو چل دیا۔ اس مرتبہ شہر کے دروازے پر اسے پھر دربان نے روک لیا اور کہا کہ قاضی کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ عبدل نے دربان کو شہد سے بھری بوتل پیش کی۔ تب دربان نے اسے شہر سے باہر جانے دیا۔ گھر آ کر عبدل سوچتا رہا کہ اگر ایسے ہی دربان کو رشوت دیتا رہا تو بہت نقصان ہو جائے گا، اگلے دن وہ سیدھا قاضی کے پاس پیش ہو گیا تاکہ اجازت نامے کی درخواست کرے اور دربان کو رشوت دینے سے اس کی جان چھوٹ جائے۔ مگر قاضی اپنی کتابوں میں ایسے گم ہو گیا، جیسے اس کے سامنے کوئی موجود ہی نہ ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے عبدل کو دیکھا اور کہا آج وقت نہیں ہے کل آنا۔ اگلے روز عبدل پھر پیش ہوا مگر قاضی نے اسے پھر ٹال دیا۔ عبدل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا نیک دل قاضی ایسا کیوں کر رہا ہے۔

    راستے میں اسے ایک بزرگ ملے انہوں نے بتایا کہ اس شہر کا حاکم بدل گیا ہے اور اب نئی تنظیم کے بعد کوتوالی، محافظ اور قاضی سمیت سب محکموں میں نئے منصب دار آگئے ہیں، اب رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، تم قاضی صاحب کو جا کر نذرانہ پیش کرو گے تو تب تمہارا کام ہو جائے گا۔ عبدل کو یہ جان کر بڑا رنج ہوا اور اسے غصّہ بھی آیا کہ وہ اور اس کی بیوی محنت کرکے یہ سب حاصل کرتے ہیں اور وہ سڑکوں بازاروں پر پیدل پھر کر رقم جمع کرتا ہے جس میں سے یہ لوگ رشوت چاہتے ہیں۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد پنیر کے ایک برتن میں گوبر بھر لیا مگر اوپر کی تھوڑی سی جگہ خالی رکھی۔ اس پر اس نے پنیر ڈال دیا، دیکھنے سے یوں لگ رہا تھا جیسے سارا برتن پنیر سے بھرا ہوا ہے۔ اگلے دن وہ برتن لے کر قاضی کی خدمت میں پیش ہو گیا کہ حضور یہ ہمارے علاقے کی خاص سوغات ہے آپ اسے قبول فرمائیں۔

    قاضی نے اس روز کچھ دیر نہ لگائی اور برتن لے کر ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا تمہاری درخواست کہاں ہے؟ عبدل نے درخواست سامنے رکھی تو قاضی نے اسے منظور کر کے اجازت نامے پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ عبدل نے اجازت نامہ جیب میں رکھا اور پوچھا کہ حضور کیا پنیر لیے بغیر آپ میری درخواست پر دستخط نہیں کر سکتے تھے؟

    قاضی نے کہا تمہارا کام ہو گیا، اب گھر جاؤ اور یاد رکھو معاملے کی گہرائی میں کبھی نہیں جانا چاہیے۔ عبدل نے قاضی کے دفتر سے باہر قدم رکھا اور اونچی آواز میں بولا: قاضی صاحب آپ بھی برتن کی گہرائی میں نہ جائیے گا۔

  • ہاتھی اور چوہے (حکایت)

    ہاتھی اور چوہے (حکایت)

    ایک دفعہ ایک خوفناک زلزلے نے ایک گاﺅں کو کھنڈر بنا ڈالا۔ گھر اور گلیاں چونکہ تباہ ہو گئے تھے، لہٰذا گاﺅں کے باسی اسے خیر باد کہہ کر کہیں اور جا بسے۔ ان کے جانے کے بعد چوہوں نے گاﺅں کے کھنڈرات میں بسیرا کر لیا۔ انہیں یہ جگہ نہ صرف پسند آئی بلکہ راس بھی آ گئی اور دیکھتے دیکھتے ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

    اس گاﺅں کے پاس ہی ایک جھیل تھی جہاں ہاتھیوں کا ایک ریوڑ باقاعدگی سے نہانے اور پانی پینے جاتا تھا۔ وہ جھیل تک پہنچنے کے لئے گاﺅں کے ان کھنڈروں میں سے گزر کر جایا کرتے تھے۔ البتہ جب بھی ہاتھی وہاں سے گزرتے تو بہت سے چوہے ان کے پیروں تلے آ کر کچلے جاتے۔ چوہوں کی اس روز روز کی ہلاکت پر ان کے سردار نے سوچا کہ وہ ہاتھیوں سے بات کرے تاکہ اس بات کا کوئی حل نکل سکے۔

    اگلے روز جب ہاتھیوں کا ریوڑ آیا تو چوہوں کا سردار ان سے خوشگوار ماحول میں ملا اور ان سے کہا، ” محترم ہاتھیو! ہم اس گاﺅں کے کھنڈرات میں رہتے ہیں اور جب آپ یہاں سے گزرتے ہیں تو ہمارے بہت سے چوہے آپ کے قدموں کے نیچے آ کر کچلے جاتے ہیں۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ آپ جھیل پر جانے کے لئے اپنا راستہ بدل لیں اور اگر آپ ہم پر یہ مہربانی کریں گے تو ہم اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ضرورت پیش آنے پر آپ کی مدد کے لئے حاضر ہو جائیں گے۔

    یہ سن کر ہاتھیوں کا سردار ہنسا اور بولا، ” چُنے منے چوہوں کے اے سردار، تم ہم لحیم شحیم ہاتھیوں کے کیا کام آسکو گے؟ بہرحال میں تمہاری درخواست کا احترام کرتا ہوں، ہم جھیل تک جانے کے لئے آج سے ہی راستہ بدل دیتے ہیں۔ تمہیں اب ہم سے مزید کسی خطرے کی چنتا نہیں ہونی چاہیے۔”

    چوہوں کے سردار نے اس پر ہاتھیوں کے سردار کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد ہاتھی دوبارہ گاﺅں کے کھنڈرات میں سے نہ گزرے۔

    کچھ عرصہ بعد ہاتھیوں کا ریوڑ شکاریوں کے دام میں آ گیا۔ سردار سمیت کئی ہاتھی ان کے مضبوط جالوں میں اس بری طرح سے پھنسے کہ باوجود کوشش کے خود کو آزاد نہ کرا پائے۔ اچانک ہاتھیوں کے سردار کو چوہوں کے سردار کی بات یاد آئی۔ اس نے اپنے ریوڑ کے ایک ایسے ہاتھی کو بلایا جو جال میں پھنسا ہوا نہیں تھا اور اسے کہا کہ وہ چوہوں کے سردار کے پاس جائے اور اسے اس کا وعدہ یاد کرائے اور اس سے مدد کی درخواست کرے۔

    اس ہاتھی نے جا کر چوہوں کے سردار کو صورت حال سے آگاہ کیا تو اس نے تمام چوہوں کو اکٹھا کر کے کہا، "اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہاتھیوں کے احسان کا بدلہ چکائیں۔ ہمیں فوراً ان کی مدد کے لئے جانا چاہیے۔”

    ہاتھی انہیں اس جگہ پر لے آیا جہاں اس کے ساتھی جالوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ تمام چوہے مضبوط جالوں کو کترنے لگے اور جلد ہی ہاتھیوں کو ان سے آزاد کر دیا۔

    ہاتھی جالوں سے آزاد ہونے پر خوش تھے۔ ان کے سردار نے چوہوں کے سردار کا بَر وقت مدد کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔

    اسی لئے تو سیانے کہتے ہیں کہ کسی کی ظاہری حالت کو دیکھ کر اسے غیر اہم نہیں گرداننا چاہیے۔

    (کتاب: حکایاتِ عالم، مترجم: قیصر نذیر خاور)