Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    پیرس میں ابراہیم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔

    اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔ اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سی سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہیم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہیم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہیم کے گھر والوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہیم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکریہ ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہیم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچّے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اورایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہیم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑرہے تھے۔ اس نے ابراہیم کا دروازہ کھٹکھٹایا، ابراہیم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بیٹھا دیا۔ کچھ دیرآرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہیم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق ابراہیم نے دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہوکر دہرایا۔ابراہیم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے؟ تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی۔ ‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘ اتنا سن کر ابراہیم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا میں یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہیم نے اسے کھانا دیئے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کرلیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔ ابراہیم یہ تم نے کیا کیا ؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے، خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہوگے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہیم کو بہت تعجب ہوا کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (فرانس کی ایک لوک کہانی جسے اردو میں نیرا سکسینہ نے ڈھالا)

  • آدمی کا مرتبہ

    آدمی کا مرتبہ

    ایک بادشاہ کے کئی بیٹے تھے۔ اُن میں ایک کوتاہ قد اور معمولی شکل و صورت کا تھا اور اس وجہ سے اسے اپنے باپ کی ویسی توجہ اور شفقت حاصل نہ تھی جیسی اس کے دوسرے بھائیوں کو حاصل تھی۔

    ایک دن بادشاہ نے اس پر نظرِ حقارت ڈالی تو شہزادے کا دل بے قرار ہو گیا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا۔ بے شک انسان کی شکل صورت بھی لائقِ توجہ ہوتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ انسانیت کا اصلی جوہر انسان کی ذاتی خوبیاں اور حسنِ سیرت ہے۔

    آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
    پست ہمّت یہ نہ ہو گو پست قامت ہو تو ہو

    اے والد محترم، حقیر جان کر مجھے نظر انداز نہ فرمائیے بلکہ میری ان خوبیوں پر نظر ڈالیے جو اللہ پاک نے مجھے بخشی ہیں۔ اپنے بھائیوں کے مقابلے میں بیشک میں کم رو اور پست قامت ہوں، لیکن خدا نے اپنے خاص فضل سے مجھے شجاعت کا جوہر بخشا ہے۔ دشمن مقابلے پر آئے تو اس پر شیر کی طرح جھپٹتا ہوں اور اس وقت تک میدانِ جنگ سے باہر قدم نہیں نکالتا جب تک دشمن کو بالکل تباہ نہ کر دوں۔

    بادشاہ نے اپنے بیٹے کی ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ وہ یوں مسکرایا جیسے کسی نادان کی بات سن کر مسکراتے ہیں۔ اس کے بھائیوں نے کھلم کھلا اس کا مذاق اڑایا۔

    خیر بات آئی گئی۔ یہ شہزادہ پہلے کی طرح زندگی گزارتا رہا۔ لیکن پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ طاقت ور پڑوسی بادشاہ نے اس کے ملک پر حملہ کر دیا۔ عیش و عشرت میں زندگی گزارنے والے شہزادے تو اس فکر میں پڑ گئے کہ اب ان کی جانیں کس طرح بچیں گی۔ لیکن چھوٹے قد والا شہزادہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کے لشکر میں جا گھسا اور اپنی تیز تلوار سے کتنے ہی سپاہیوں کو قتل کر دیا۔ بادشاہ کو اس کی شجاعت کا حال معلوم ہوا تو اس کا بھی حوصلہ بڑھا اور وہ مقابلے کے لیے نکلا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حملہ کرنے والے بادشاہ کے سپاہیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ گھمسان کی لڑائی شروع ہونے کے بعد دشمن کا دباؤ بڑھنے لگا اور بادشاہ کی فوج کے سپاہی اپنی صفیں توڑ کر بھاگنے لگے شہزادے نے یہ حالت دیکھی تو وہ گھوڑا بڑھا کر آگے آیا اور بھاگنے والوں کو غیرت دلائی بہادرو! ہمت سے کام لو دشمن کا خاتمہ کر دو۔ یاد رکھو! میدان جنگ سے بھاگنے والے مرد کہلانے کے حق دار نہیں۔ انھیں عورتوں کا لباس پہن کر گھروں میں بیٹھ جانا چاہیے۔”

    شہزادے کی تقریر سن کر بھاگتے ہوئے سپاہی پلٹ آئے اور غصے میں بھر کر انھوں نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ دشمن فوج میدان جنگ سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئی۔ بادشاہ اپنے بیٹے کی بہادری دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اس کی خوب تعریف کی اور اعلان کر دیا کہ ہمارے بعد ہمارا یہی بیٹا تاج اور تخت کا ملک ہو گا۔ شہزادے کے دلی عہد بن جانے کی سب کو خوشی ہوئی لیکن اس کے بھائی حسدکی آگ میں جلنے لگے۔ اور انھوں نے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔

    یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے بہادر شہزادے کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا۔ اتفاق سے یہ بات شہزادی کو معلوم ہو گئی۔ جب شہزادہ کھانا کھانے لگا تو شہزادی نے زور سے کھڑکی بند کر کے یہ اشارہ دیا کہ یہ کھانا ہرگز نہ کھائے۔ شہزادہ اس کا اشارہ سمجھ گیا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے حاسد بھائیوں سے کہا، مجھے یہ عزت میری خوبیوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ اگر میں مر بھی جاؤں تو تم میری جگہ نہ لے سکو گے کیونکہ تمھارے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ اگر ہما دنیا سے نابود بھی ہو جائے پھر بھی کوئی الّو کے سائے کو پسند نہ کرے گا۔

    بادشاہ کو اس بات پتا چلا تو اس نے حاسد شہزادوں کو بہت ڈانٹا اور پھر اس فساد کو ختم کرنے کے لیے، جو سلطنت کی وجہ سے ان بھائیوں کے درمیان پیدا ہو گیا تھا، یہ تدبیر کی کہ ریاست کو ان کی تعداد کے مطابق تقسیم کرکے شہزادوں کو ایک ایک ریاست کا مالک بنا دیا۔ بہادر شہزادے نے اس فیصلے کو دل سے قبول کر لیا۔

    (از قدیم حکایات، مترجم نامعلوم)

  • چار دوست اور پانچ جھوٹ

    چار دوست اور پانچ جھوٹ

    ایک گاؤں میں چار دوست رہتے تھے۔ وہ چاروں بے حد نکمّے اور کام چور تھے۔

    وہ چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی کام بھی نہ کرنا پڑے اور کھانے، پینے اور رہنے کی ہر چیز بھی میسر آتی رہے۔ ان چاروں میں جو سب سے بڑا تھا، وہ بہت چالاک اور ذہین کا تھا۔ اس نے انہیں لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسے بٹورنے کا ایک عجیب طریقہ بتایا۔ اس نے کہا ہم کسی دوسرے گاؤں چلے جاتے ہیں، وہاں کے لوگ ہمارے لئے اجنبی ہوں گے اور ہم ان کے لئے اجنبی ہوں گے، ہم گاؤں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر جھوٹ موٹ کی کہانیاں سنائیں گے اور اپنی مظلومیت بیان کریں گے یوں ہمیں کچھ نہ کچھ پیسے مل ہی جائیں گے۔ تینوں دوستوں نے اس طریقہ سے اتفاق کیا۔ چنانچہ اگلے ہی دن چاروں دوستوں نے رخت سفر باندھا اور ایک گاؤں میں پہنچے۔ وہاں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر عجیب و غریب جھوٹی کہانیاں گھڑتے اور بعض دفعہ اپنی مظلومیت بیان کرتے تو لوگ ان کو پیسے دے دیتے۔ جب یہ چاروں گاؤں کے امیر لوگوں کو اچھی طرح لوٹ لیتے اور گاؤں کے لوگ ان کی چالاکی اور مکاری کو سمجھنے لگتے تو یہ اس گاؤں سے بھاگ کر کسی دوسرے گاؤں میں پہنچ جاتے اور وہاں کے لوگوں کو بے وقوف بنانے لگتے۔ اس طرح انہوں نے اچھا خاصا مال جمع کرلیا تھا۔ اور جھوٹ بولنے میں مہارت ہوگئی تھی۔

    ایک دفعہ یہ چاروں یوں سفر کرتے کرتے ایک دور دراز کے گاؤں میں پہنچے، وہاں ایک ہوٹل میں انہوں نے دیکھا کہ ایک کونے میں امیر کبیر تاجر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے آس پاس اس کا قیمتی سامان بھی پڑا ہوا تھا اور اس تاجر نے قیمتی لباس پہنا ہوا تھا۔ تاجر کو دیکھ کر ان چاروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور سب سوچنے لگے کہ کسی طرح اس تاجر کا سب مال ہمیں مل جائے۔ ان چاروں میں سب سے بڑے کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے یہ ترکیب تینوں کو بتائی تو تینوں نے اثبات میں سر ہلا دیے۔

    چنانچہ یہ چاروں دوست تاجر کے پاس گئے، سلام دعا کے بعد ان میں سے ایک دوست نے تاجر سے کہا: اگر آپ رضا مند ہوں تو ہم آپ کے ساتھ ایک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم سب ایک دوسرے کو جھوٹی کہانیاں سنائیں گے اور شرط یہ ہوگی کہ ان جھوٹی کہانیوں کو سچ کہنا پڑے گا، اگر ان کہانیوں پر کسی نے جھوٹا ہونے کا الزام لگایا تو وہ ہار جائے گا اور اس ہارنے والے کا سارا مال لے لیا جائے گا۔

    تاجر نے کہا واہ! یہ کھیل تو بہت مزیدار ہوگا۔ میں تیار ہوں اگر میں ہار گیا تو یہ سارا مال تمہارا ہو جائے گا۔ چاروں دوست یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ ہم ایسی ایسی جھوٹی کہانیاں اس کو سنائیں گے کہ یہ فوراً پکار اٹھے گا، یہ جھوٹ ہے ایسا نہیں ہوسکتا اور ہم جیت جائیں گے اور اس تاجر کا سارا مال قبضہ میں کرلیں گے۔

    ضروری ہے کہ ہمارے اس کھیل میں گاؤں یا ہوٹل کا بڑا بھی موجود ہو تاکہ وہ ہار، جیت کا فیصلہ کرسکے۔ تاجر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ چاروں دوستوں نے اس بات سے اتفاق کیا چنانچہ گاؤں کے چوہدری کو بلایا گیا اور وہ ان پانچوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔

    پہلے دوست نے کہانی شروع کی، کہنے لگا: میں ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا یعنی پیدا نہیں ہوا تھا کہ میری ماں اور باپ سفر پر روانہ ہوئے۔ راستہ میں آم کا ایک درخت نظر آیا، میری ماں نے وہاں رک کر میرے باپ سے کہا، مجھے آم کھانے ہیں، آپ درخت پر چڑھ کر آم توڑ کر لا دیں۔ میرے باپ نے کہا یہ درخت کسی اور کا ہے اور آم بھی بہت اوپر لگے ہوئے ہیں، میں نہیں چڑھ پاؤں گا۔ لہٰذا میرے باپ نے انکار کر دیا۔ مجھے جوش آیا میں چپکے سے ماں کے پیٹ سے نکلا اور درخت پر چڑھ کر آم توڑے اور لاکر ماں کے سامنے رکھ دیے اور واپس پیٹ میں چلا گیا۔ میری ماں اپنے سامنے آم دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مزے لے لے کر کھانے لگی۔

    پہلے دوست نے کہانی سنا کر تاجر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ تاجر نے کہا: واہ! کیا زبردست کہانی ہے ماں کے کام آئے، یہ کہانی کیسے جھوٹی ہوسکتی ہے، نہیں یہ بالکل سچی کہانی ہے۔

    پہلے دوست نے جب یہ سنا تو منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ اب دوسرے دوست کی باری تھی وہ کہنے لگا: میری عمر ابھی صرف سات سال تھی، مجھے شکار کھیلنے کا بے حد شوق تھا، ایک دفعہ میں جنگل میں گیا وہاں اچانک مجھے دور ایک خرگوش نظر آیا، میں اس کے پیچھے دوڑ پڑا یہاں تک کہ میں اس کے قریب پہنچ گیا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ خرگوش نہیں بلکہ شیر ہے۔ شیر نے مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھنا شروع کیا اب تو میں بہت گھبرا گیا اور شیر سے کہا: دیکھو شیر بھائی میں تو تمہارے پیچھے صرف اس لئے آیا تھا کہ مجھے لگا جیسے آپ خرگوش ہو، خدا کے لئے مجھے جانے دو، لیکن شیر نے میری بات نہیں مانی اور دہاڑنے لگا، مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے ایک زور دار تھپڑ شیر کو مارا، شیر وہیں دو ٹکڑے ہوکر مرگیا۔

    واہ واہ! کیا بہادری ہے۔ بندہ کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہیے۔ یہ کہانی بالکل جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ تاجر نے دوسرے دوست کی کہانی سن کر اسے داد دیتے ہوئے کہا۔ اب وہ دونوں دوست جنہوں نے کہانی سنائی تھی انہوں نے ﴿اپنے تیسرے ساتھی کو﴾ چپکے سے آنکھ ماری کہ تو کوئی ایسی غضب کی جھوٹی کہانی سنا، جسے تاجر فوراً جھوٹ مان لے۔

    چنانچہ تیسرے دوست نے کہنا شروع کیا: مجھے مچھلیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا۔ اس وقت میری عمر صرف ایک سال تھی، ایک دن میں دریا کے کنارے گیا اور وہاں پانی میں جال ڈال کر بیٹھ گیا، کئی گھنٹوں جال لگانے کے باوجود ایک مچھلی بھی جال میں نہ آئی، میں نے پاس کھڑے مچھیروں سے پوچھا کہ آج دریا میں مچھلی نہیں ہے کیا؟ انہوں نے بتایا کہ تین چار دنوں سے ایک بھی مچھلی ہمیں نظر نہیں آئی۔ میں یہ سن حیران ہوا اور دریا میں غوطہ لگا دیا۔ دریا کی تہہ میں پہنچ کر میں نے دیکھا، ایک بہت بڑی مچھلی بیٹھی ہوئی ہے اور آس پاس کی تمام چھوٹی بڑی مچھلیوں کو کھائے جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے اس بڑی مچھلی پر بہت غصہ آیا۔ میں نے اس مچھلی کو ایک زبردست مکا رسید کیا اور اسے وہیں ڈھیر کردیا، پھر میں نے وہیں دریا کی تہہ میں بیٹھ کر آگ جلائی اور وہیں مچھلی پکائی اور کھا کر واپس دریا سے باہر آگیا اور اپنا سامان لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔
    تیسرے نے کہانی سنا کر امید بھری نظروں سے تاجر کی طرف دیکھا، تاجر نے کہا بہت اچھی کہانی ہے، دریا کی سب چھوٹی مچھلیوں کو آزادی دلائی، کتنا نیکی کا کام ہے بالکل سچی کہانی ہے۔

    اب چوتھے دوست کی باری تھی اس نے کہنا شروع کیا: میری عمر صرف دو سال تھی، ایک دن میں جنگل میں گیا، وہاں کھجوروں کے بڑے بڑے درخت تھے اور ان پر کھجوریں بہت لگی ہوئی تھیں۔ میرا بہت دل چاہا کہ میں کھجوریں کھاؤں، چنانچہ میں درخت پر چڑھا اور پیٹ بھر کر کھجوریں کھائیں۔ جب میں نے درخت سے نیچے اترنے کا ارادہ کیا تو مجھے لگا میں نیچے اترتے اترتے گر جاؤں گا۔ میں بھول گیا تھا کہ درخت سے نیچے کیسے اترتے ہیں۔ میں درخت پر بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ کیوں نہ میں گاؤں سے سیڑھی لاکر اس کے ذریعے سے نیچے اتروں۔ چنانچہ میں گاؤں گیا، وہاں سے سیڑھی اٹھا کر درخت کے ساتھ لگائی اور اس کے ذریعے سے نیچے اترگیا۔

    اب چاروں دوستوں نے امید بھری نظروں سے تاجر کو دیکھا کہ اب ضرور کہہ دے گا نہیں یہ کہانی جھوٹی ہے۔ لیکن تاجر نے آگے بڑھ کر چوتھے سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگا کیا زبردست دماغ پایا ہے۔ ایسی ترکیب تو بہت ذہین آدمی کے ذہن میں آسکتی ہے۔ بالکل سچی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

    اب تو چاروں بہت گھبرائے کہ کہیں ہم ہار نہ جائیں اور ہمارا سارا مال یہ تاجر لے اڑے۔ کہانی سنانے کی باری اب تاجر کی تھی۔ تاجر کہنے لگا: میں نے بہت سال پہلے ایک خوبصورت باغ لگایا تھا۔ اس باغ میں ایک سنہرے رنگ کا بہت نایاب درخت تھا۔ میں اس کی خوب حفاظت کرتا تھا، اور اس کو روز پانی دیتا تھا، یہاں تک کہ ایک سال بعد اس درخت پر چار سنہرے رنگ کے سیب نمودار ہوئے، وہ سیب بہت خوبصورت تھے اسی لئے میں نے ان کو نہیں توڑا اور درخت پر لگا رہنے دیا۔ ایک دن میں اپنے باغ میں کام کررہا تھا کہ اچانک ان چاروں سیبوں سے ایک ایک آدمی نکلا، چونکہ یہ چاروں آدمی میرے باغ کے ایک درخت سے نکلے تھے اس لئے میں نے ان کو اپنا غلام بنا لیا اور چاروں کو کام پر لگا دیا، لیکن یہ چاروں بہت نکمے اور کام چور تھے، ایک دن یہ چاروں بھاگ گئے اور خدا کا شکر ہے آج وہ چاروں غلام میرے سامنے بیٹھے ہیں۔

    یہ کہانی سن کر چاروں دوستوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ گاؤں کے چوہدری نے پوچھا: ہاں بتاؤ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی؟ چاروں دوستوں کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ تاجر کی اس کہانی کو جھوٹ کہیں تو ان کا سارا مال تاجر کا ہوجاتا ہے اور اگر سچ کہیں تو تاجر کے غلام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ چاروں خاموش ہوگئے نہ ہاں میں جواب دیا اور نہ ہی ناں میں۔ گاؤں کے چوہدری نے ان کو چپ دیکھ کر تاجر کے حق میں فیصلہ کر دیا کہ یہ چاروں تمہارے غلام ہیں۔ یہ سن کر وہ چاروں تاجر کے قدموں میں گر پڑے اور لگے معافیاں مانگنے۔ تاجر نے چوہدری سے کہا: یہ چاروں بھاگتے ہوئے میرا سارا سامان بھی اپنے ساتھ لے بھاگے تھے، چلو میں ان کو آزاد کرتا ہوں لیکن ان کے پاس جو مال ہے وہ میرا ہے۔ چنانچہ گاؤں کے چوہدری نے ان چاروں دوستوں کے پاس جتنا مال تھا وہ سارا تاجر کو دے دیا۔

    وہ تاجر سارا سامان اور مال و دولت لے کر چلا گیا، یہ چارون بہت سخت پشیمان ہوئے انہیں جھوٹ کی نہایت بری سزا ملی تھی۔ چاروں دوستوں نے تہیہ کیا کہ وہ کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گے اور محنت کر کے روزی کمائیں گے۔ چاروں واپس اپنے گاؤں چلے گئے اور جھوٹ سے توبہ کر لی۔

  • سنتری کی لاش (عالمی ادب سے انتخاب)

    سنتری کی لاش (عالمی ادب سے انتخاب)

    کروڑ پتی مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس سزا پر عمل درآمد کے لیے اسے شہر سے دور دراز ایک گمنام جزیرے کی جیل میں قید کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی دولت یا اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

    کروڑ پتی مجرم نے اس جزیرے پر ہی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے اس نے جیل کے سنتری کو رشوت دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی قیمت پر جیل کے جزیرے سے باہر وہ فرار ہو سکے۔

    سنتری نے اسے بتایا کہ یہاں پر حفاظتی اقدامات بہت سخت ہیں اور کوئی بھی قیدی جزیرے سے باہر نہیں نکل سکتا سوائے ایک صورت کے، جو کہ… موت ہے!
    لیکن لاکھوں کے لالچ نے سنتری کو قیدی کا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا۔ اس کے لیے سنتری نے ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا اور اس کروڑ پتی مجرم کو بتا دیا، جو درج ذیل ہے…

    "سنو: جیل کے جزیرے سے صرف ایک چیز جو بغیر کسی حفاظتی انتظامات اور تفتیش کے باہر آتی ہے وہ ہے مُردوں کا تابوت۔ جب کبھی کسی کو پھانسی دے دی جائے یا وہ طبعی موت مر جائے تو ان کی لاشوں کو مردہ خانے سے تابوت میں ڈال کر بحری جہاز پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں پر غیر مسلح چند محافظوں کی نگرانی میں کچھ سادہ رسومات ادا کرنے کے بعد ان تابوتوں کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، وہ محافظ ان تابوتوں کو بحری جہاز سے خشکی پر منتقل کرنے اور پھر دفنانے کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس کارروائی پر روزانہ صبح دس بجے اس صورت میں عمل درآمد کیا جاتا ہے کہ وہاں مردہ خانے میں مردہ اور تابوت موجود ہوں، آپ کے فرار کا واحد حل یہ ہے کہ اختتامی لمحات سے پہلے آپ کسی طرح کسی ایک تابوت میں پہلے سے مردہ شخص کے ساتھ لیٹ جائیں، معمول کی کارروائی اختتام پذیر ہو، بحری جہاز سے آپ زمین اور زمین سے قبرستان پہنچ جائیں، وہاں جا کر تابوت کو دفن کر دیا جائے، اور جیسے ہی عملہ وہاں سے واپسی کے لیے نکلے تو میں ہنگامی رخصت لے کر آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہاں پہنچ کر آپ کو قبر اور تابوت سے باہر نکال لوں۔ پھر آپ مجھے وہ رقم دے دیں جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے، اور میں چھٹی کا وقت ختم ہوتے ہی واپس جیل چلا جاؤں گا اور آپ غائب ہو جائیں گے۔ یوں آپ کی گمشدگی ایک معمہ ہی رہے گی، اور اس معمے سے ہم دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا… آپ کا کیا خیال ہے؟

    کروڑ پتی نے سوچا کہ یہ ایک جنونی قسم کا منصوبہ ہے، لیکن پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے یہ پھر بھی ہزار درجے بہتر ہے… کروڑ پتی نے تگڑی رقم دینے کا وعدہ کیا اور پھر دونوں نے اسی طریقہ کار پر اتفاق کر لیا۔

    سنتری کے منصوبے کے مطابق اس قیدی نے اتفاق کیا کہ وہ مردہ خانے میں چپکے سے جائے گا اگر وہ خوش قسمت رہا اور وہاں کسی کی موت واقع ہوگئی تو وہ اپنے آپ کو بائیں طرف کے پہلے نمبر والے تابوت میں بند کر لے گا جس کے اندر پہلے سے ایک لاش موجود ہوگی۔

    اگلے دن حسبِ منصوبہ سنتری کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے وہ کروڑ پتی شخص مردہ خانے کے اندر گھسنے میں کام یاب ہوگیا، وہاں مردہ خانے کے فرش پر دو تابوت رکھے ہوئے تھے۔ پہلے تو وہ تابوت میں کسی مردے کے ساتھ لیٹنے کے خیال سے گھبرا گیا لیکن ایک بار پھر زندہ رہنے کی جبلت اس عارضی خوف پر غالب آگئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے احتیاط سے تابوت کو کھولا تاکہ لاش کو دیکھ کر خوفزدہ نہ ہو، اور اپنے آپ کو تیزی سے تابوت کے اندر مردے کے اوپر گرا دیا اور اس وقت تک بے چینی اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ وہ انتظار کرتا رہا جب تک کہ اس نے محافظوں کی آواز نہ سن لی۔ وہ تابوت کو جہاز کے عرشے پر لے جانے کے لیے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔

    مردہ خانے سے لے کر جہاز پر پہنچنے تک اسے قدم بہ قدم جگہ کی تبدیلی کا احساس ہوتا رہا۔ جہاز کا لنگر اٹھنے سے لے کر پانی پر اس کی حرکت کو اس نے محسوس کیا، سمندری پانی کی مہک جب تک اس کے نتھنوں سے ٹکراتی رہی تب تک اس کا عدم تحفظ کا احساس برقرار رہا۔ جہاز ساحل پر پہنچ کر لنگر انداز ہوا۔ محافظوں نے کھینچ کر تابوت کو خشکی پر اتارا تو اس کے کانوں سے محافظوں کی گفتگو کے چند الفاظ ٹکرائے، وہ اس تابوت کے عجیب و غریب وزن کے بارے میں ایک دوسرے سے تبصرہ کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اتنے وزنی تابوت سے زندگی میں پہلی دفعہ پالا پڑا ہے۔ اس گفتگو سے اس کروڑ پتی قیدی نے عجیب سا خوف اور تناؤ محسوس کیا۔ وہ ڈر گیا تھا کہ کہیں یہ محافظ اس تابوت کو کھول کر دیکھ ہی نہ لیں کہ اندر کیا ہے۔ لیکن یہ تناؤ اس وقت ختم ہو گیا جب اس نے ایک محافظ کو لطیفہ سناتے ہوئے سنا جس میں وہ زیادہ وزن والے قیدیوں کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مردہ خانے سے لے کر قبرستان پہنچنے تک شاید یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے تھوڑی سی راحت محسوس کی۔

    اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ تابوت کو گڑھے میں اتارا جا رہا ہے، چند لمحوں بعد اسے تابوت کے اوپری حصے پر مٹی کے بکھرنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، اور محافظوں کے بولنے کی آواز آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی تھی۔ اور اب اس اندھیری قبر میں وہ ایک عجیب صورت حال سے دوچار تھا، انسانی لاش کے ساتھ تین میٹر کی گہرائی میں وہ زندہ دفن تھا، اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے لیے سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے سوچا یہ بات درست ہے کہ وہ اس سنتری پر بھروسہ نہیں کرتا تھا، لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دولت سے محبت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اور وہ سنتری وعدے کے مطابق لاکھوں کی رقم لینے کے لیے دولت سے اپنی محبت کی بدولت ضرور آئے گا۔

    انتظار طویل ہوتا جارہا تھا.. جسم پر پسینہ بہنے کا احساس یوں ہو رہا تھا جیسے ہزاروں چیونٹیاں دھیرے دھیرے رینگ رہی ہوں۔ سانسیں دھونکنی کی مانند تیز تیز چلنے لگی تھیں اور حبس سے دم گھٹ رہا تھا۔

    خود کو مطمئن کرتے ہوئے وہ کہنے لگا، بس مزید دس منٹ کی بات ہے، اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اور وہ دوبارہ آزاد فضاؤں میں سانس لے گا اور ایک بار پھر روشنی دیکھے گا۔

    سانس لینے میں دقت کے باعث اب وہ مسلسل کھانسنے لگا تھا۔ مزید دس منٹ گزر گئے۔ اس قبر میں آکسیجن ختم ہونے والی ہے، اور وہ سنتری ابھی تک نہیں آیا۔ اسی سوچ میں تھا کہ اس نے بہت دور سے قدموں کی آہٹ سنی۔ ان آوازوں کے ساتھ ہی اس کی نبض تیز ہو گئی۔ ضرور یہ وہ سنتری ہی ہوگا۔ آخر وہ آ ہی گیا۔ آواز قریب پہنچ کر پھر دور ہوتی چلی گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑ رہا ہے۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے لاش حرکت رہی ہو۔ ساتھ ہی اس نے تصور میں دیکھا کہ اس کے نیچے دبا ہوا مردہ آدمی اس کی حالت پر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا ہے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں ماچس کی ڈبیہ ہے اور تیلی سلگا کر وہ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھ سکتا ہے کہ سنتری کے وعدے کے مطابق کتنا وقت گزر گیا تھا اور کتنا باقی ہے۔ اسے امید تھی کہ سنتری کے بتائے ہوئے وقت میں سے ابھی چند منٹ باقی ہوں گے۔

    جب اس نے تیلی سلگائی تو آکسیجن کی کمی کے باعث مدھم سی روشنی نکلی۔
    شعلے کو گھڑی کے قریب لاکر اس نے دیکھا تو پتا چلا کہ پینتالیس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر اب وہ حقیقی معنوں میں خوف زدہ ہو چکا تھا۔ ملگجی روشنی میں اسے محسوس ہوا کہ اس کا چہرہ مردے کے چہرے کے بالکل قریب ہے۔ اس نے خود سے سوال کیا، کیا مردہ شخص کا چہرہ دیکھنا اسے مزید خوف میں مبتلا کرے گا؟

    تجسّس اور خوف کے ساتھ اس نے اپنی گردن موڑی ، شعلے کو لاش کے چہرے کے قریب کیا اور دہشت کے مارے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔

    مرنے سے پہلے اس نے دیکھا کہ یہ تو اس شخص کا چہرہ ہے جسے زندہ دیکھنے کی امید میں وہ یہاں زندہ دفن تھا۔ وہ اُسی سنتری کی لاش تھی۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم: توقیر بُھملہ)

  • چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    بچّو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

    چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔

    چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی: ’’بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پَروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑ سکتے ہو، میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کر سکتے۔ میں بلّی کو حملہ کر کے زخمی کر سکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کر سکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔‘‘

    میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

    بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔

    جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لوگے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دوگے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرّم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔

    چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیارے محبت سے ان باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

    ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

    اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

    بچّو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلّے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلّا ڈر کر بھاگ گیا۔

    چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔

    اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔

    ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔

    تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں، بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اس دن اگر اس بڑے سے بلّے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلّا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔

    یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔

    اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔

    اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہو گئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ہمارے بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟ اب کیا ہو سکتا ہے؟

    (بچّوں کی اس کہانی کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    کہتے ہیں، ایک بادشاہ کسی باغ کی سیر کو گیا۔ وہاں اپنے مصاحبوں کے درمیان وہ خوش و خرم بیٹھا جو اشعار پڑھ رہا تھا ان کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ دنیا میں مجھ جیسا خوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔

    اتفاق سے ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں ایسا شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں‌ تھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟

    یہ آواز بادشاہ کے کانوں میں پڑی تو اس فقیر کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ واقعی فقیر کا کرتہ نہایت خستہ تھا اور اس کا دامن تار تار تھا۔ اس کی یہ بات سن کر بادشاہ ایک لمحے کو جیسے لرز کر رہ گیا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخش دیا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر اپنا دکھڑا پھر رونے لگا۔

    کسی نے بادشاہ کو اطلاع کی کہ وہی فقیر اب محل کے اطراف گھومتا رہتا ہے اور آپ کو اپنی حالت پر متوجہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ بادشاہ کو فقیر پر غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا۔

    جو شخص دن میں جلاتا ہے شمعِ کا فوری
    نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت

    بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہم درد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضورِ والا نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور، اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔ وزیر نے بادشاہ کے سامنے یہ خوب صورت اشعار پڑھے اور فقیر پر رحم کرنے کی درخواست کی۔

    دیکھا نہیں کسی نے پیاسے حجاز کے
    ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر
    آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ
    پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر

    سبق: شیخ سعدی سے منسوب اس حکایت میں دو امر غور طلب ہیں۔ ایک طرف تو فضول خرچی اور روپے پیسے کے سوچے سمجھے بغیر استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اسے غلط بتایا ہے جب کہ مال و دولت رکھنے والوں کو کہا گیا ہے کہ جذبات میں آکر نادان اور کم عقل لوگوں پر مال نہ لٹائیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر ضرورت کے مطابق ہی غریبوں کی امداد کریں، لیکن انھیں دھتکارنا درست نہیں ہے کہ وہ مال داروں کی طرف نہ دیکھیں‌ تو کہاں‌ جائیں گے؟ یہ حکایت بتاتی ہے کہ جو لوگ کسی کی بخشش اور خیرات کو بلا ضرورت اور ناجائز صرف کرتے ہیں، ایسی ہی تکلیف ان کا مقدر بنتی ہے۔

  • پاکنز کا انتقام (ایک دل چسپ کہانی)

    پاکنز کا انتقام (ایک دل چسپ کہانی)

    آپ لوگوں نے شاید ہیپلے کا نام سن رکھا ہو جو علم حیاتیات میں کیڑوں کا مطالعہ کرنے والا سب سے مشہور سائنس دان تھا۔ اگر آپ نے اس کا نام سن رکھا ہے تو یقیناً آپ ہیپلے اور پروفیسر پاکنز کے درمیان ہونے والے مشہور جھگڑے سے بھی واقف ہوں گے۔ لیکن شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ اس جھگڑے کا انجام کیا ہوا؟

    اس جھگڑے کا آغاز برسوں پہلے ہوا جب پاکنز نے ”مائیکرولیپا ڈوپٹرا“ (اس کا مطلب راقم الحروف کو خود بھی نہیں معلوم) پر ایک سائنسی مضمون لکھا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ ایک نئی قسم کا کیڑا جو ہیپلے اپنی دریافت بتاتا ہے، وہ کوئی نئی قسم ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ کیڑا ویسا ہی ہے جیسے اور ”مائیکرولیپا ڈوپٹر“ ہوتے ہیں۔ ہیپلے جو ویسے ہی تیز مزاج تھا، اس مضمون کی اشاعت پر بہت سیخ پا ہوا اور اس نے اپنی دریافت کا دفاع کرنے کے لیے نہایت سخت الفاظ میں جواب دیا۔ پاکنز نے اس جواب کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہیپلے کا مطالعہ و مشاہدہ اتنا ہی ناقص ہے جتنا اس کا مائیکرو اسکوپ!

    ہیپلے نے جوابی حملہ کرتے ہوئے ”آپ جیسے اناڑی سائنس دان“، اور ”آپ کے بے ڈھنگے آلات“ جیسے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا۔ سرد جنگ چھڑ چکی تھی۔
    اس دن کے بعد سے مستقل بنیادوں پر دونوں سائنس دانوں میں ہر موضوع اور ہر موقعے پر بحث ہونے لگی۔ میرا خیال ہے کہ عام طور پر پاکنز، ہیپلے کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہوتا تھا لیکن ہیپلے کو اپنا موقف کہنے کا ڈھنگ زیادہ بہتر طریقے سے آتا تھا۔ اس کے پاس اپنے مخالف کو احمق ثابت کرنے کے درجنوں دلائل موجود ہوتے تھے۔

    دوسری طرف پاکنز کو اپنی بات منوانے کا سلیقہ نہیں آتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ساکھ اس حوالے سے بھی خراب تھی کہ وہ طالب علموں کو پاس کرنے کے لیے پیسے طلب کرتا تھا۔ لہٰذا نوجوانوں کی اکثریت ہیپلے کے ساتھ تھی۔ یہ سرد جنگ کئی برس تک جاری رہی اور دونوں سائنس دانوں کے درمیان نفرت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

    1891ء میں پاکنز (جس کی صحت اب بہت خراب رہنے لگی تھی) نے ڈیتھ ہیڈ نامی کیڑے کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون میں بے شمار غلطیاں قابلِ گرفت تھیں اور ہیپلے نے اس مضمون کے خلاف لکھتے ہوئے ان ہی غلطیوں کا حوالہ دیا۔ یہ مضمون بہت بے رحمی سے لکھا گیا تھا جس میں ہر ایک غلطی کی نشان دہی بڑی تفصیل سے کی گئی تھی اور پاکنز کو مکمل طور پر احمق ثابت کیا گیا تھا۔ پاکنز نے ان اعتراضات کا جواب دیا لیکن اس کے دلائل بودے تھے اور لکھنے کا طریقہ بھی کمزور تھا۔ البتہ اس میں نفرت کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ وہ ہیپلے کو تکلیف پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس پر قادر نہیں تھا۔ وہ بہت بیمار رہنے لگا تھا۔
    اس کامیاب حملے کے بعد ہیپلے نے اپنے دشمن کو فیصلہ کن شکست دینے کی ٹھان لی۔ اس نے ایک تفصیلی مضمون لکھا جو بظاہر تو کیڑوں کے متعلق ایک عام مضمون تھا لیکن درحقیقت اس میں پاکنز کی تمام تحقیقات کو رد کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی زبان بہت جارحانہ تھی لیکن اس میں دیے گئے دلائل بہت مضبوط تھے جنھوں نے پاکنز کو شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

    اب تمام سائنس دان پاکنز کی طرف سے جوابی حملے کے منتظر تھے۔ لیکن ان ہی دنوں پاکنز شدید بیماری کے باعث انتقال کر گیا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ شاید اس کی وفات ہی اس کی طرف سے ہیپلے کو دیا جانے والا بہترین جواب تھا۔ کیوں کہ اس کے بعد لوگوں نے ہیپلے کی حمایت کرنا چھوڑ دیا۔ وہ لوگ جو اس لڑائی میں ہیپلے کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، اب بہت سنجیدگی سے پاکنز کی وفات پر افسردگی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ ہار جانے کی ذلّت ہی پاکنز کی موت کا اصل سبب تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنسی بحث و تکرار کی بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔ اتفاق سے ہیپلے کا لکھا ہوا ایک تنقیدی مضمون جو اس نے کچھ ہفتے قبل لکھا تھا، عین اس دن ایک میگزین میں شائع ہو گیا جس دن پاکنز کی تدفین تھی۔ اس مضمون کی اشاعت نے لوگوں کو ہیپلے کے خلاف کر دیا۔ عوامی ہمدردیاں اب پاکنز کے ساتھ تھیں اور وہ اس کے لکھے گئے تمام مضامین بھول گئے جو مرحوم نے ہیپلے کے خلاف لکھے تھے۔ یہاں تک کہ اخبارات تک نے ہیپلے کے اس مضمون کی مذمت کی جو پاکنز کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔

    سچ تو یہ تھا کہ اس طرح مر جانے پر ہیپلے، پاکنز کو کبھی معاف نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اوّل تو یہ فیصلہ کن شکست سے بچ نکلنے کا بہت بزدلانہ طریقہ تھا اور دوسرا یہ کہ اب ہیپلے کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پاس کوئی کام کرنے کو بچا ہی نہیں ہے۔ گزشتہ بیس برسوں سے وہ اپنی ساری توانائیاں صرف پاکنز کی ساکھ برباد کرنے میں صرف کرتا چلا آیا تھا جس کے نتیجے میں اس کی اپنی ساکھ ہمیشہ بہتر ہوتی چلی گئی تھی۔

    یہ سچ تھا کہ ان کے آخری قلمی جھگڑے نے پاکنز کی جان لے لی تھی۔ لیکن اس واقعے نے ہیپلے کی زندگی کو بھی بہت متاثر کیا تھا۔ اس کے ڈاکٹر نے اسے کچھ عرصہ مکمل آرام تجویز کیا تھا۔ لہٰذا ہیپلے ایک پُرفضا مقام پر چھٹیاں گزارنے چلا گیا۔ لیکن یہاں بھی وہ دن، رات پاکنز کے خلاف ان تمام دلائل کے بارے میں سوچتا رہا جو اب نہیں دیے جا سکتے تھے۔
    ٭٭٭

    آخرکار ہیپلے نے اس حقیقت کا ادراک کر ہی لیا کہ پاکنز کے متعلق مستقل سوچتے رہنا اسے ذہنی طور پر بیمار کر سکتا ہے۔ اس نے پاکنز کو اپنے دماغ سے نکالنے کی شعوری کوششیں شروع کر دیں۔ وہ بہت ساری کتابیں خرید کے لایا لیکن جب بھی وہ کوئی کتاب اٹھا کے پڑھنے کی کوشش کرتا تو اسے کتاب کے ہر صفحے پر پاکنز کا سفید چہرہ نظر آ رہا ہوتا۔ وہ اسے تقریر کرتے ہوئے دیکھتا، ایک ایسی تقریر جس میں سے ہیپلے بیسیوں غلطیاں نکال سکتا تھا۔

    پھر ہیپلے نے شطرنج کھیلنا شروع کی۔ وہ جلد ہی اس کھیل میں ماہر ہو گیا اور اپنے مخالف کو باآسانی شکست دینے لگا۔ تاہم جب شطرنج میں اس کے مخالف کھلاڑی کی شکل پاکنز سے ملنے لگی تو اس نے اس کھیل کو بھی خیرباد کہہ دیا۔
    آرام کی سب سے بہترین شکل یہ تھی کہ وہ کسی نئی قسم کے کام میں مصروف ہو جائے۔ اس نے پانی میں اُگنے والے پودوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کام میں مشغول ہونے کے بعد تیسرا دن تھا جب اس نے ایک نئی قسم کے کیڑے کو دیکھا۔ وہ رات کا وقت تھا اور کمرے میں روشنی کا واحد ذریعہ ایک ننھا سا لیمپ تھا۔ اس کی ایک آنکھ اپنے مائیکرو اسکوپ پر مرکوز تھی جب کہ دوسری آنکھ سے وہ میز پوش کو دیکھ سکتا تھا۔ کپڑے کی زمین سرمئی تھی اور اس پر شوخ سرخ، سنہرے اور نیلے رنگ سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ اس نے اچانک کپڑے میں ایک جگہ حرکت محسوس کی اور اپنا سر اُٹھا کر دونوں آنکھوں سے کپڑے کا جائزہ لیا۔ اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ میز پوش کا یہ رنگین حصہ باقاعدہ حرکت کر رہا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کمرے کی ساری کھڑکیاں اور دروازہ بند تھے تو یہ کیڑا اندر کہاں سے آ گیا؟ یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ اس نے یہ کیڑا کہیں سے اُڑ کے آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس کیڑے کا میز پوش کے رنگوں سے ہم آہنگ ہونا بھی عجیب تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیپلے جو کیڑوں کے علم کا سب سے بڑا ماہر تھا، وہ اس کیڑے کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔

    کیڑا آہستہ آہستہ لیمپ کی طرف رینگ رہا تھا۔ ”ایک نئی قسم کا کیڑا!“ ہیپلے کا فطری تجسس بیدار ہو گیا۔ اسے اچانک پاکنز کا خیال آ گیا: ”اگر پاکنز کو پتا چل جائے کہ میں نے ایک بالکل انوکھی قسم کا کیڑا دریافت کیا ہے تو جلن کے مارے اس کا برا حال ہو جائے۔ لیکن پاکنز تو مر چکا ہے!“

    اس نے سوچا، ”مجھے اس کیڑے کو پکڑنا چاہیے۔“

    اب اس نے اردگرد کسی ایسی چیز کی تلاش شروع کی جس کی مدد سے وہ اس کیڑے کو پکڑ سکے۔ وہ بہت آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اچانک کیڑا ہوا میں بلند ہوا اور لیمپ سے ٹکرایا۔ لیمپ ایک طرف لڑھک کر بجھ گیا۔ اب کمرے میں مکمل تاریکی تھی۔ ہیپلے نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کے لیمپ کو سیدھا کیا اور کمرے میں دوبارہ روشنی ہو گئی۔ لیکن کیڑا اب میز پر موجود نہیں تھا۔ ہیپلے نے کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اسے وہ کیڑا دروازے کے قریب دیوار پر بیٹھا دکھائی دیا۔ ہاتھ میں لیمپ شیڈ پکڑ کر وہ کیڑے کو اس میں قید کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن کیڑا اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُڑ گیا۔ اب ہیپلے اس کیڑے کے تعاقب میں کمرے میں ناچتا پِھر رہا تھا۔ ایک بار اس کا لیمپ شیڈ والا ہاتھ لیمپ سے ٹکرا گیا اور وہ لڑھک کر میز کے نیچے جا گرا۔ کمرے میں ایک بار پھر تاریکی کا راج ہو گیا۔ ہیپلے کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا سخت بھنا رہا تھا۔ ایک بار کیڑا اس کے منہ سے آ کر ٹکرایا بھی لیکن اس کے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی اُڑ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ اگر وہ کمرے کا دروازہ کھولتا ہے تو کیڑا اُڑ کے باہر چلا جائے گا اور پھر شاید وہ اسے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکے۔

    اندھیرے میں اس نے اچانک پاکنز کا چہرہ دیکھا۔ وہ زور زور سے اس پر ہنس رہا تھا۔ ہیپلے نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں اور اتنی زور سے پاؤں پٹخے کہ کمرہ اس کے جوتوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور کسی نے باہر سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔
    ٭٭٭

    مالک مکان خاتون کے خوف زدہ چہرے نے دروازے کی جھری سے جھانکا۔ ”کیا بات ہے؟ یہ شور کی آواز کیسی ہے؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ اسی وقت باہر سے آنے والی روشنی میں ہیپلے کو وہ کیڑا ادھ کھلے دروازے سے بالکل قریب نظر آیا۔

    ”دروازہ بند کر دو!“ہیپلے پوری قوت سے چلایا اور دروازے کی طرف دوڑا۔ مالک مکان اس کے چہرے کے تاثرات سے سمجھی کہ وہ شاید اسے مارنے دوڑا ہے۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور اوپری منزل پر پہنچ کر اپنے کمرے کا دروازہ بھی بند کر لیا۔ وہ ہیپلے کے اس عجیب و غریب رویّے سے بہت سہم گئی تھی۔ ہیپلے کے کمرے میں اب پھر گھپ اندھیرا تھا۔ ہیپلے کو اندازہ تھا کہ اس کا رویہ پراسرار اور خوف زدہ کر دینے والا ہے۔

    ہیپلے اندھوں کی طرح ٹٹولتے ہوئے الماری کی طرف بڑھا اور ماچس تلاش کرنے لگا۔ اس تلاش کے دوران اس کا ہاتھ شیشے کے ایک گلدان سے ٹکرا گیا جو چھناکے سے ٹوٹ گیا تاہم اس کے بعد ہیپلے ماچس ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اس نے ایک موم بتی جلا کے اس کی روشنی میں کیڑے کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہاں کیڑے کا نام ونشان بھی نظر نہ آیا۔ ہیپلے اب بری طرح تھک چکا تھا۔ اس نے سو جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہ پرسکون نیند نہ سو سکا۔ رات بھر خواب میں اسے وہ کیڑا اور پاکنز نظر آتے رہے۔ رات میں دو بار اُٹھ کر اس نے اپنے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا۔

    ایک بات تو طے تھی، وہ مالک مکان خاتون کو اپنے عجیب و غریب رویے کی کوئی وضاحت نہیں دے سکتا تھا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ کیڑا پکڑنے میں ناکام رہا تھا۔ صبح اٹھ کر اس نے طے کیا کہ وہ رات کے واقعات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔ وہ ناشتے کے بعد چہل قدمی کرنے نکل گیا۔ چہل قدمی کے دوران تمام تر کوشش کے باوجود وہ کیڑے کو اپنے دماغ سے نہیں نکال سکا۔ ایک دفعہ تو اس نے بڑے واضح طور پر کیڑے کو باغ کی پتھریلی دیوار پر بیٹھے دیکھا لیکن جب وہ بھاگ کر وہاں پہنچا تو وہ کیڑے کے بجائے محض پتھر کا قدرتی رنگ اور ڈیزائن نکلا۔

    دوپہر میں ہیپلے پادری صاحب سے ملنے گیا۔ وہ گرجے کے باغ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہیپلے نے اچانک کہا: ”آپ وہ کیڑا دیکھ رہے ہیں؟“

    ”کہاں؟“ پادری صاحب نے حیران ہو کر کہا۔

    ”کیا آپ کو اس بینچ کے کونے پر کیڑا بیٹھا ہوا نہیں نظر آ رہا؟“ ہیپلے نے اس سے بھی زیادہ حیران ہو کر کہا۔

    ”نہیں تو!“ پادری صاحب نے نفی میں سر ہلایا اور ہیپلے حیران، پریشان نظر آنے لگا۔ پادری صاحب اسے گھور رہے تھے۔

    اس رات ہیپلے نے کیڑے کو اپنے بستر پر رینگتے ہوئے دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرنے لگا کہ کیا یہ اس کا وہم ہے یا حقیقت میں کیڑا اس کے بستر پر رینگ رہا ہے۔ اسے لگا جیسے وہ پاگل ہو جائے گا۔ اس نے اس پاگل پن سے اسی طرح لڑنے کی کوشش کی جیسے وہ اپنے سابق حریف پاکنز سے لڑتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ اب پاکنز سے لڑتے رہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ وہ انسانی نفسیات بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ دماغ جب تھکا ہوا ہو تو وہ طرح طرح کی ایسی چیزیں اختراع کرنے لگتا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ کیڑے کو محض دیکھ ہی نہیں رہا تھا، اس نے رات کی تاریکی میں کیڑے کو دو بار اپنے چہرے سے ٹکراتے ہوئے بھی محسوس کیا۔ اس نے موم بتی کی روشنی میں غور سے دیکھا۔ وہ کیڑا مجسم حقیقت تھا۔ اس نے کیڑے کا بالوں سے بھرا جسم دیکھا، اس کے پر دیکھے، اس کی باریک ٹانگیں دیکھیں اور ایک لمحے کے لیے اسے خود پر شدید غصہ آیا کہ وہ ایسے ننھے منے کیڑے سے کیسے ڈر سکتا ہے!
    ٭٭٭

    مالک مکان خاتون نے اس رات اپنی ملازمہ کو کمرے میں بلا لیا تھا کیوں کہ اسے اکیلے سوتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔ اس نے کمرہ بند کر کے دروازے کے ساتھ ایک بھاری میز بھی لگا دی تھی۔ رات گیارہ بجے کے قریب انھوں نے کرائے دار کے کمرے میں بھاری قدموں کی آواز سنی۔ ایک کرسی گرنے کی آواز آئی پھر ایک دیوار پر زبردست مکا مارا گیا۔ اس کے بعد شیشے کی کوئی چیز چھناکے سے ٹوٹ گئی۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پھر ہیپلے سیڑھیاں اترتے ہوئے محسوس ہوا۔ دونوں خواتین نے ڈر کے مارے ایک دوسرے کو پکڑ لیا۔ قدموں کی آواز بار بار سنائی دے رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بار بار سیڑھیاں چڑھ اور اُتر رہا تھا۔ آخرکار گھر کا مرکزی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ شاید وہ گھر سے باہر جا رہا تھا۔ وہ بھاگ کر کھڑکی کے پاس گئیں اور پردہ ہٹا کر تاروں کی ملگجی روشنی میں ہیپلے کو جاتے دیکھا۔ وہ نہ صرف سڑک پر دیوانوں کی طرح دوڑ رہا تھا بلکہ بار بار ہوا میں اس طرح ہاتھ چلا رہا تھا جیسے کچھ پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ تاہم ان دونوں کو ہیپلے کے سوا اس وقت سڑک پر کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دوڑتے ہوئے سڑک کے کنارے جنگل میں غائب ہو گیا۔

    ابھی وہ دونوں آپس میں اس بات کا فیصلہ کر ہی نہ پائی تھیں کہ نیچے جا کر دروازہ کون بند کرے کہ ہیپلے گھر واپس لوٹ آیا۔ اس نے خاموشی سے دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے بعد گہرا سناٹا چھا گیا۔

    ”مسز کولول! مجھے امید ہے کہ میں نے کل رات آپ کو خوف زدہ نہیں کیا ہو گا۔“ ہیپلے نے اگلی صبح مالک مکان سے کہا۔ مالک مکان نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ”دراصل مجھے نیند میں چلنے کی بیماری ہے۔ میں نے گزشتہ دو راتوں سے نیند کی دوا نہیں لی تھی، اس لیے ایسا ہوا۔ آپ کو خوف زدہ ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کو میرے رویے سے پریشانی ہوئی تو میں اس کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔ میں آج کیمسٹ سے اپنی نیند کی دوا خرید لاؤں گا۔ بلکہ مجھے یہ کام کل ہی کر لینا چاہیے تھا۔ بہت معذرت!“ ہیپلے نے جلدی، جلدی کہا۔
    لیکن کیمسٹ کی دکان جاتے ہوئے ہیپلے کو وہ کیڑا دوبارہ نظر آ گیا۔ وہ بار بار اس کے چہرے سے ٹکرا رہا تھا اور ہیپلے کو اسے ہاتھ ہلا کر بھگانا پڑ رہا تھا۔

    اچانک اسے اپنے اندر وہی غصہ ابھرتا ہوا محسوس ہوا جو وہ پاکنز کے لیے محسوس کرتا تھا۔ اس نے غصے میں مٹھیاں بھینچ کر کیڑے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی اور کسی چیز پر سے پھسل کر گر پڑا۔

    جب وہ کوشش کر کے اُٹھا تو اسے پتا چلا کہ وہ ایک کھائی کے اندر جا گرا ہے اور اس کی ٹانگیں اس کے بوجھ تلے مڑ گئی ہیں۔ عجیب و غریب کیڑا اس وقت بھی اس کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر کیڑے کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن حسب سابق ناکام رہا۔ اسی اثنا میں اس نے دو مردوں کو سامنے سے آتا دیکھا۔ ان میں سے ایک قصبے کا ڈاکٹر تھا۔ ہیپلے نے ان کے آنے کو اپنی خوش قسمتی خیال کیا کیوں کہ اسے باہر نکلنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت تھی۔ تاہم اسے یہ بھی یقین تھا کہ دونوں اشخاص اس کے سر پر منڈلاتا کیڑا نہیں دیکھ پائیں گے۔ لہٰذا اس نے طے کیا کہ وہ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔
    ٭٭٭

    رات تک اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا درد تو خاصا کم ہو چکا تھا لیکن اسے ہلکا سا بخار ہو گیا تھا۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے کمرے کا جائزہ لیا۔ پہلے پہل اس نے فیصلہ کیا کہ کمرے میں کیڑے کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن اسے خودبخود وہ کیڑا بستر کے سرہانے رکھے لیمپ پر بیٹھا ہوا نظر آ گیا۔ اس کو اچانک شدید غصہ آنے لگا اور اس نے کیڑے کو مارنے کے لیے زور سے اپنا ہاتھ گھمایا۔ لیمپ الٹ گیا اور سامنے کرسی پر بیٹھی نرس جو تقریباً سو چکی تھی، گھبرا کر اٹھ گئی۔

    ”وہ کیڑا! نہیں…میرا مطلب ہے کہ مجھے اپنے تصور میں یہاں ایک کیڑا نظر آ رہا ہے اور کوئی بات نہیں۔“

    ہیپلے نے جلدی جلدی کہا۔ اسے وہ کیڑا کمرے میں اڑتا ہوا بالکل صاف نظر آ رہا تھا۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نرس اسے نہیں دیکھ سکتی۔ اس نے خود پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کی لیکن جیسے جیسے رات گزرتی گئی، اس کے بخار میں شدت آتی گئی اور کیڑے کو نہ دیکھنے کی ناکام کوشش میں اس کا سر درد سے پھٹنے لگا۔ اس نے بستر سے اٹھ کر کیڑے کو پکڑنے کی کوشش کی مگر اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ چل نہ سکا۔ نرس نے بڑی مشکل سے اسے اس ارادے سے باز رکھا۔ لیکن وہ ہر دس منٹ بعد اٹھنے کی کوشش کرتا۔ مجبوراً اس کے ہاتھ پاؤں بستر کے ساتھ باندھ دیے گئے۔ اسے بندھا دیکھ کر کیڑے کی جرات میں اضافہ ہو گیا۔ اب وہ کبھی اس کے بالوں پر آ بیٹھتا کبھی بازو پر اور کبھی اس کے چہرے پر چہل قدمی شروع کر دیتا۔ ہیپلے کبھی غصے سے چلاتا، برا بھلا کہتا اور کبھی رو دیتا۔ وہ نرسنگ اسٹاف سے درخواست کرتا کہ اس کے اوپر سے کیڑے کو ہٹا دیا جائے لیکن یہ سب کرنا بے سود ہی رہا۔

    اس کا ڈاکٹر شاید انسانی نفسیات کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، لہٰذا وہ محض یہ کہہ دیتا کہ کمرے میں کوئی کیڑا نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو وہ ہیپلے کو اس اذیت سے بچا سکتا تھا۔ وہ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ کیڑا وہاں موجود ہے، ہیپلے کو منہ ڈھانکنے کے لیے کوئی رومال دے سکتا تھا تاکہ کیڑا اس کے منہ پر نہ بیٹھ سکے۔ لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا اور ہیپلے اپنی ٹانگ کے صحت یاب ہو جانے تک بستر سے بندھا رہا۔ اس سارے عرصے میں کیڑا اسے کسی عفریت کی طرح ڈراتا رہا جسے وہ سوتے جاگتے اپنے اردگرد پاتا تھا۔

    ہیپلے اب اپنی باقی ماندہ زندگی ایک پاگل خانے میں ایک ایسے کیڑے سے خوف زدہ ہو کر گزار رہا ہے جو کسی اور کو نظر نہیں آتا۔ پاگل خانے کے معالج کا کہنا تھا کہ یہ کیڑا ہیپلے کے دماغ کی اختراع ہے۔ لیکن ہیپلے جب اپنے ہوش و حواس میں ہوتا تھا تو لوگوں کو بتاتا کہ یہ کیڑا پاکنز کی روح ہے لہٰذا اس کو پکڑنا سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

    (مصنّف: ایچ جی ویلز، مترجم: گل رعنا صدیقی)

  • پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    سَنی نے کئی بار پیسے گنے لیکن ہر بار نتیجہ ایک جیسا رہا۔ اُن پیسوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ایک پاؤنڈ چونتیس پنس اور بس……!

    ”تمہیں پیسے احتیاط سے خرچ کرنے چاہییں۔“ اُس کے بھائی وکی نے کہا۔ ”پیسے جمع کیا کرو، وہ چیزیں مت خریدا کرو جن کی تمہیں ضرورت نہ ہو۔“ وکی ہمیشہ اچھی نصیحتیں کرتا تھا لیکن سَنی بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتا تھا۔

    ”مجھے دیکھو! میں بچّوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں، روز اسکول جانے سے پہلے لوگوں کے گھروں میں اخبار دینے جاتا ہوں اور جو پیسے ملتے ہیں، اُنہیں جمع کرتا رہتا ہوں تاکہ کوئی ضرورت کی چیز لے سکوں۔“

    سَنی کو رقم جمع کرنا تو اچھا لگتا تھا، لیکن پیسے کمانے کا خیال اُسے پسند نہیں تھا۔ وہ سوچتا کہ کیا ممکن ہے؟ کوڑھ مغز بچّوں کو ٹیوشن پڑھانا یا صبح سویرے گرم بستر سے نکل کر باہر سردی میں اخبار دینے جانا۔ نہیں ہرگز نہیں!

    ”امّی کی سال گرہ آرہی ہے اور انھیں تحفہ دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ سَنی وکی کی باتیں اَن سنی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔ ”ظاہر ہے! پیسہ کمانے اور محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ محنت تم کرنا نہیں چاہتے۔“ وکی بولا۔

    سَنی نے ٹھنڈی سانس بھری، لیکن پھر اچانک ہی اُس کے دماغ میں ایک زبردست خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر پرانے سامان کی دکان سے وہ اپنی امّی کے لیے کوئی تحفہ لے آئے۔ ”اصل تو انسان کی نیت ہوتی ہے! سستا، مہنگا کیا ہوتا ہے۔“ اُس نے خود سے کہا۔

    پندرہ منٹ بعد وہ پرانے سامان کی دکان پر کھڑا تھا۔ یہاں اُسے پرانی میزیں، کرسیاں، تصاویر اور سامانِ آرائش نظر آیا۔ زیادہ تر چیزیں بہت ردّی حالت میں تھیں، پھر سَنی کو اچانک ایک زنگ آلود چراغ نظر آگیا: ”امّی کو نوادرات سے خاصی دل چسپی ہے اور یہ زنگ آلود چراغ بہت نادر معلوم ہوتا ہے۔“ اُس نے سوچا۔ ”یہ کتنے کا ہے؟“ سَنی نے دکان دار سے پوچھا۔

    ”ایک پاؤنڈ اور چونتیس پنس۔“ دکان دار کا جواب سن کر سَنی خوش ہوگیا۔ ”آپ ایسا کریں، یہ چراغ مجھے دے دیں۔“ اس نے فوراً اپنی کُل جمع پونجی دکان دار کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ دکان سے نکل کر اُس نے چراغ اپنی بائیک کی باسکٹ میں احتیاط سے رکھا اور روانہ ہونے ہی والا تھا کہ ایک بہت بڑی کار دکان کے باہر آکر رُکی۔ ایک لمبا چوڑا شخص قیمتی سوٹ پہنے کار سے باہر آیا۔ اُس نے سن گلاسز لگائے ہوئے تھے۔

    ”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے امیر لوگ بھی کباڑیے کی دکانوں سے خریداری کرتے ہوں گے۔“ سَنی نے حیران ہو کر سوچا، پھر اُس نے بائیک اسٹارٹ کی، لیکن فوراً ہی اُسے اپنے پیچھے کار کا ہارن سنائی دیا۔ یہ وہی بڑی کار تھی جو اُس نے دکان کے باہر دیکھی تھی۔ کار اُس سے آگے نکل گئی اور پھر اُس کا راستہ روک لیا۔ سَنی نے بڑی مشکل سے بریک لگائے۔ کار کی کھڑکی کھلی اور لمبے چوڑے شخص نے باہر جھانکا۔

    ”اس حرکت کا مطلب؟ ابھی ایکسیڈنٹ ہوتے بچا ہے۔“ سَنی نے غُصّے سے کہا۔

    ”بہت معذرت! میرا ڈرائیور بعض اوقات بہت بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتا ہے۔“ آدمی نے مسکرا کر کہا اور دوبارہ گویا ہوا: ”مجھے اپنا تعارف کرانے دیجیے۔ میرا نام بلڈ ہاؤنڈ ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اُس کی مُسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔

    سَنی جانتا تھا کہ اُسے اجنبیوں سے بات نہیں کرنی چاہیے اسی لیے اُس نے بائیک دوبارہ اسٹارٹ کر دی، لیکن بلڈ ہاؤنڈ نے جلدی سے کہا: ”تم یقیناً حیران ہو رہے ہوگے کہ ہم نے تمہارا راستہ کیوں روکا؟ تو سنو! میں کئی برس سے ایک خاص چیز کی تلاش میں تھا۔ آج مجھے پتا چلا کہ وہ چیز اُس دکان پر مل سکتی ہے، لیکن جب میں دکان پر آیا تو مجھے پتا چلا کہ تم وہ چیز پہلے ہی خرید چکے ہو۔“

    ”اوہ! تو یہ چراغ کا چکّر ہے مگر میں یہ چراغ نہیں دوں گا۔“ سَنی نے کندھے اچکائے۔

    ”میرے خیال میں تم میری بات سمجھے نہیں۔“ بلڈ ہاؤنڈ کی آواز سرد ہو گئی: ”پیسوں کے لحاظ سے اس چراغ کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن مجھے اس چراغ سے ایک ذاتی لگاؤ ہے اسی لیے میں تم سے یہ چراغ خریدنا چاہتا ہوں۔“

    ”بہت معذرت! میں یہ چراغ بیچنا نہیں چاہتا۔“ سَنی نے کہا۔

    ”سو پاؤنڈ میں بھی نہیں؟“ سَنی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

    ”سو پاؤنڈ!“ وہ چراغ باسکٹ سے نکال کر اُس کے حوالے کرنے ہی والا تھا کہ اُس نے بلڈ ہاؤنڈ کی آنکھوں میں لالچ کی چمک دیکھی۔ وہ یک دم ٹھٹک گیا۔

    ”نہیں! ہوسکتا ہے، یہ چراغ سو پاؤنڈ سے زیادہ قیمتی ہو۔“ اُس نے سوچا اور پھر تیزی سے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔

    ”ایک ہزار پاؤنڈ؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے بولی لگانے والے انداز میں کہا۔ سَنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ شاید یہ کوئی انمول چراغ ہے اور پھر اس شخص کا چہرہ کس قدر سفّاک اور مکروہ لگ رہا ہے، چناں چہ اُس نے پھر نفی میں سَر ہلا دیا۔

    بلڈ ہاؤنڈ کی بھنویں تن گئیں، اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھ کر پر چلّایا: ”بہت ہوگیا! اس لڑکے سے چراغ چھین لو!“

    ڈرائیور گاڑی سے اُترا اور اُس کی طرف لپکا۔ وہ سَنی سے بہت طاقت ور تھا لیکن جب سَنی بائیک پر سوار ہو تو اُس کی تیز رفتاری کو شکست نہیں دی جاسکتی، پھر یہی ہوا۔ جلد ہی وہ اُن کی پہنچ سے دور تھا۔ ساتھ ہی سَنی نے گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی۔ یقیناً وہ لوگ کار میں اُس کا تعاقب کررہے تھے۔ اُس نے جلدی سے اپنی بائیک، پتلی تنگ گلیوں میں گھسا دی تاکہ کار والے اُس تک نہ پہنچ سکیں۔ آخر کار وہ کئی گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا۔

    وہ وکی کو یہ سارا واقعہ سُنانے کے لیے بے چین تھا، لیکن گھر آکر پتا چلا کہ اُس کا بھائی ٹیوشن پڑھانے جا چکا ہے۔ اُس نے چراغ میز پر رکھ دیا۔ یہ ایک عام سا چراغ لگ رہا تھا، لیکن سَنی جانتا تھا کہ یہ یقیناً بے حد قیمتی چراغ ہے جب ہی تو بلڈ ہاؤنڈ اسے ہر حالت میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سَنی نے دل ہی دل میں منصوبہ بندی کر لی۔ وہ پہلے اپنی امّی کو یہ چراغ بطور تحفہ دے گا، پھر وہ اسے نوادرات کے کسی ماہر کے پاس لے کر جائیں گے تاکہ چراغ کی اصل قیمت کا علم ہوسکے اور پھر…… اُف! وہ کتنے امیر ہو جائیں گے۔“ وہ خیالوں کی دنیا میں گم تھا۔

    اُس نے جھاڑن اُٹھا کر چراغ کو صاف کرنا شروع کیا، لیکن اچانک کمرے میں جیسے بجلی چمکنے لگی ہو۔ پرانی جرابوں کی تیز بدبو آئی اور پھر کمرے میں دھواں بھر گیا۔ جوں ہی دھواں چَھٹا، اُس نے دیکھا کہ وہ کمرے میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک عجیب و غریب سا آدمی تھری پیس سُوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لیے میز کے سامنے کھڑا ہے۔ اور اُس کا قد اتنا لمبا ہے کہ سَر چھت سے ٹکرا رہا ہے۔

    ”کیا حکم ہے میرے آقا! میں اس چراغ کا جنّ ہوں اور آج کے دن آپ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں۔“ اُس نے گونج دار آواز میں کہا۔ سَنی کچھ دیر کے لیے حیران و پریشان ہوا، لیکن وہ ڈرنے والا نہیں تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں اُس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔ اس سے قبل کے وہ کچھ بول پاتا، جن کہنے لگا: ”اب میں ذرا آپ کو خواہشات ظاہر کرنے کے اصول سمجھا دوں۔“

    جی نہیں شکریہ! میں اس بارے میں سب کچھ پہلے ہی جانتا ہوں۔ میں کوئی سی بھی تین خواہشات کرسکتا ہوں۔“ سَنی نے اُس کی بات کاٹ دی۔

    ”اوہو! نہیں بھئی! یہ سسٹم آج سے دو سو سال پہلے ہماری ”جن یونین“ نے ختم کردیا تھا۔ اب جونیا سسٹم آیا ہے، اُس کے مطابق چراغ کا مالک دو گھنٹے کے اندر کوئی بھی خواہش کرسکتا ہے۔ دو گھنٹے کے بعد جن دوبارہ چراغ میں واپس چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ دیگر اُصول و قوانین کچھ یوں ہیں ……“

    ”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“ سَنی نے ایک بار پھر اُس کی بات کاٹ دی۔ ”زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس دو گھنٹے ہیں۔ کیا تم مجھے دس لاکھ پاؤنڈ دے سکتے ہو؟“

    ”ہاں!“ جن نے اکتاہٹ سے بھرپور لہجے میں کہتے ہوئے سرد آہ بھری اور چٹکی بجائی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔

    ”یہ کیا بھئی……؟“ سَنی نے مایوسی سے کہا۔

    ”کیا مطلب؟ تو کیا تمہارے سامنے سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا کوئی صندوق آجاتا ابھی؟ ہم اب ان پرانے طریقوں سے کام نہیں کرتے۔ اپنی جیب میں دیکھو!“ جن نے برا سا منہ بنایا۔

    سَنی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک کاغذ برآمد ہوا۔ یہ اُس کے بینک اکاؤنٹ کا اسٹیٹمنٹ تھا۔ ”دس لاکھ پاؤنڈ اور تین ین۔“ اُس نے باآواز بلند پڑھا۔

    ”تین ین تمہارے اکاؤنٹ میں پہلے سے موجود تھے۔“ جن نے وضاحت کی۔ سَنی نے خوشی سے ہاتھ مَلے۔ اُس کا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا۔

    جب وکی ٹیوشن پڑھا کر گھر لوٹا تو حیران و پریشان رہ گیا۔ اُس کے گھر کی جگہ سنگ مَر مَر کا ایک عالی شان محل کھڑا تھا۔ وہ ڈرتے، ڈرتے اندر داخل ہوا تو اُس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کیا وہ راستہ بھٹک کر کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہے! وہ واپس جانے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اُسے کچن سے سَنی کی آواز سُنائی دی: ”ہیلو! وکی بھائی!“

    ”یہ…… یہ سب کیا ہے سَنی؟“ اُس نے کچن میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔

    ”میرے نئے دوست سے ملو وکی!“ سَنی نے جنّ کی طرف اشارہ کیا تو وکی جنّ کو دیکھتے ہی خوف سے بے ہوش ہوگیا۔

    جب اُسے ہوش آیا تو جنّ بدستور وہاں موجود تھا۔ ”دوبارہ بے ہوش نہ ہونا! میں بتاتا ہوں، یہ کیا معاملہ ہے۔“ سَنی نے جلدی سے کہا اور ساری تفصیل وکی کو سنا دی۔

    ”لیکن کیا ہمارے پڑوسی یہ سب دیکھ کر حیران نہیں ہوئے؟“ وکی نے کہا۔

    سَنی مسکرایا۔ ”بہت آسان بات ہے۔ میں نے خواہش کی ہے کہ یہ سب تبدیلیاں ہم گھر والوں کے سوا اور کسی کو نظر نہ آئیں۔“

    ”اوہ! امّی ابّو شام کو آئیں گے تو یہ دیکھ کر کتنا حیران ہوں گے!“ وکی نے کہا۔

    ”ہاں! اور میرے بھائی! آج تمہارا خیال بھی غلط ثابت ہوگیا ہے۔ بعض دفعہ ہم بغیر محنت اور بغیر پیسے کے بھی بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔“ سَنی نے فخر سے کہا۔

    یہ سُن کر جن آہستہ سے کھنکھارا: ”کیا کہا؟ بغیر محنت اور پیسے کے؟“

    ”ہاں تو اور کیا؟“ سنی نے کہا۔

    ”تمہارا خیال بالکل غلط ہے۔ میں تمہیں چراغ استعمال کرنے کے سارے اُصول و ضوابط شروع میں ہی سمجھانے جا رہا تھا، لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ جنّ یونین نے قوانین میں بہت ترمیم کی ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ جو بھی کام کریں گے، اُس کا معاوضہ خواہش کرنے والے سے وصول کریں گے۔ ہم کیوں مفت میں دوسروں کے کام کرتے پھریں؟ دو گھنٹے پورے ہوتے ہی ہم خواہش کرنے والے کو اس کا بِل پیش کر دیتے ہیں۔“

    ”بِل؟ یعنی مجھے ان سب چیزوں کی قیمت ادا کرنا ہو گی؟“ سَنی چلّایا۔

    ”بالکل! اور یہ تو تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ محل اتنے سستے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ سب چیزیں جو اس وقت یہاں نظر آرہی ہیں۔“ جنّ مسکرایا۔ وکی نے مایوسی سے سر ہلایا۔ اُس کا بھائی ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔

    ”اور بل کہاں ہے؟“ سنی نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ جن نے اپنی جیب سے بل نکالنا شروع کردیا جو اتنا لمبا تھا کہ کمرے کے دروازے سے باہر تک چلا گیا۔ سَنی کا رنگ زرد پڑ گیا۔

    ”اگر میں یہ خواہش کروں کہ مجھے یہ پورا بل بھرنے کے پیسے مل جائیں تو؟“ اُس نے جلدی سے پوچھا۔

    ”تو اس خواہش کے نتیجے میں جو پیسے ملیں گے، تمہیں وہ بھی لوٹانے ہوں گے۔“ جّن ایک بار پھر مسکرایا۔

    ”اوہ! اب میں کیا کروں؟ کیا اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟“ سَنی نے سر پکڑ لیا۔ ”ایک راستہ یہ ہے کہ تم ہماری اس فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دو جہاں ہم یہ خواہشاتی محل اور دیگر سامان تیار کرتے ہیں۔ ایک منٹ!“

    یہ کہہ کر جنّ نے جیب سے کیلکولیٹر نکالا: ”تم اگر بارہ ہزار آٹھ سو ساٹھ سال اس فیکٹری میں کام کرو تو یہ بِل ادا ہوسکتا ہے۔“ اُس نے حساب لگا کر بتایا۔

    ”لیکن یہ ناممکن ہے۔“ سَنی نے رو کر کہا۔

    ”قانون تو پھر قانون ہے۔ اگر یہ بل ادا نہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔“ جّن نے کندھے اُچکائے۔ سَنی نے بے بسی سے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دو گھنٹے پورے ہونے میں صرف چالیس منٹ باقی تھے۔

    ”کیا تمہارے پاس یہ نئے قوانین کتابی شکل میں موجود ہیں؟“ وکی نے کچھ سوچ کر کہا تو جنّ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک پتلی سی کتاب نکالی اور وکی کے ہاتھ میں تھما دی۔ وکی جلدی، جلدی ورق گردانی کرنے لگا۔ بظاہر اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن پھر اچانک وکی کو ایک کام کی شِق نظر آہی گئی۔

    ”اگر چراغ کا مالک دوگھنٹے سے قبل چراغ کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دے، لیکن یہ وہ شخص نہیں ہوسکتا جس سے اس نے چراغ خریدا ہے، تو اُس کی تمام خواہشات صِفر ہوجائیں گی اور معاہدہ ختم ہوجائے گا۔“ اُس نے باآوازِ بلند پڑھا۔

    ”اِس کا کیا مطلب ہے؟“ سَنی نے سر کھجایا۔

    ”مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے یہ چراغ دو گھنٹے سے پہلے فروخت کر دیا، تو یہ محل و دیگر سامان غائب ہو جائے گا اور تمہیں اس کا بِل ادا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن تم اب یہ چراغ دوبارہ اس دکان پر نہیں بیچ سکتے جہاں سے خریدا تھا۔

    سوال یہ ہے کہ تم اسے بیچو گے کہاں؟ تمہارے پاس صرف بیس منٹ رہ گئے ہیں۔“ وکی نے پریشان ہو کر کہا۔ سَنی کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا: ”بلڈ ہاؤنڈ! وہ اس چراغ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں یہ چراغ اس کو بیچ سکتا ہوں لیکن مجھے اُس کا گھر معلوم نہیں ہے۔“ اُس نے اپنے بھائی کو جلدی، جلدی بتایا۔

    ”جنّ بھائی! کیا تم مجھے اس کے گھر لے جاسکتے ہو؟“ نہیں! ہمارے قانون کی ایک شِق کہتی ہے کہ ہم چراغ کا نیا گاہک ڈھونڈنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔“ جنّ نے نفی میں سر ہلایا۔

    ”سَنی! کیا تمہیں اس کی گاڑی کا نمبر یاد ہے؟“ وکی نے پوچھا۔

    ”ہاں! بی بی ایکس دو سو چھے۔“ سَنی کی یاد داشت بہت اچھی تھی۔ وکی کی بھی کم نہ تھی۔ وہ یہ نمبر سنتے ہی اچھل پڑا۔

    ”سَنی! اس گاڑی کا مالک یہاں سے چار گلیوں کے فاصلے پر جو مارکیٹ ہے، اُس کے پیچھے واقع ایک بنگلے میں رہتا ہے۔ میں اس کے برابر والے گھر میں ٹیوشن پڑھانے جاتا ہوں، یہ لو ایڈریس!“ وکی نے جلدی سے ایک کاغذ پر پتا لکھتے ہوئے کہا۔

    ”لیکن یہاں سے اس جگہ کا فاصلہ تقریباً پندرہ منٹ ہے اور اب ہمارے پاس صرف پندرہ ہی منٹ بچے ہیں۔“ وہ پریشان ہوکر بولا۔

    ”جنّ بھائی! فوراً چراغ کے اندر جاؤ۔“ سَنی چلّایا۔ جنّ یہ سنتے ہی دھواں بن کر چراغ کے اندر گھس گیا۔ سَنی باہر کی طرف دوڑا۔ اُس نے پوری زندگی میں کبھی اتنی تیز بائیک نہیں چلائی ہوگی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی، لیکن اُس نے ہمّت نہیں ہاری۔ آخر کار وہ بلڈ ہاؤنڈ کے گھر کے دروازے پر پہنچ ہی گیا۔ آخری پانچ منٹ!! اُس نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور بیل پر اُنگلی رکھ دی۔ جب تک دروازہ کھل نہ گیا، اُس نے اپنی انگلی بٹن سے نہیں ہٹائی۔

    ”کون بدتمیز ہے؟“ دروازہ کھولنے والا دہاڑا، یہ بلڈ ہاؤنڈ تھا۔ اُس نے جب سَنی کو چراغ کے ساتھ دروازے پر کھڑا پاپا تو اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اب صرف دومنٹ باقی تھے۔ ”میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ آپ یہ چراغ لے سکتے ہیں۔“ سَنی نے جلدی، جلدی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ لالچی تھا مگر بے وقوف نہیں۔

    ”تم نے اپنا ارادہ کیوں بدل لیا؟“ اُس نے شک بھرے لہجے میں پوچھا۔

    ”کیوں کہ…… کیوں کہ……“ سَنی کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا ”کیوں کہ اس میں ایک طرف خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی خراب ہوگیا ہے۔ میرے گھر میں یہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا۔“ وہ دل ہی دل میں کہتا جارہا تھا، ”پلیز! میری بات کا یقین کر لو! میرے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے۔“

    ”اور تمہیں اس چراغ میں کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوئی؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے پوچھا۔ ”جی نہیں۔“ سَنی نے فوراً کہا: ”اس چراغ میں خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی اُترا ہوا ہے، تو اس لیے اب میں تمہیں اس کے صرف پانچ پاؤنڈ دے سکتا ہوں۔“

    ”منظور ہے۔“ سنی نے اُس کا جملہ پورا ہوتے ہی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ نے جیب سے پانچ پاؤنڈ کا نوٹ نکال کر سَنی کے ہاتھ پر رکھا اور چراغ چھین کر دروازہ بند کر لیا۔ سنی نے پانچ پاؤنڈ کے نوٹ کو خوشی سے لہرایا۔

    ”چراغ تمہیں مبارک ہو مسٹر بلڈ ہاؤنڈ! امّی کی سال گرہ کے تحفے کے لیے مجھے کافی پیسے مل گئے ہیں۔ اُمید ہے تم جنّ سے اتنی ہی فرمائشیں کرو گے جتنا کہ تم بِل بھر سکو۔“

    (بچّوں کے ادیب پال شپٹن کی اس کہانی کا اردو ترجمہ گل رعنا صدیقی نے کیا ہے)

  • بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ ہاتھی پر سوار کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک ایسے بوڑھے شخص پر پڑی جو درختوں کی کاٹ چھانٹ میں‌ مصروف تھا۔

    وہ پھل دار درخت تھے، لیکن ابھی ان پر پھل آنے کا موسم نہ تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شخص خاصا سن رسیدہ ہے اور اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا اور شاہی سواری کو فیل بان نے اس مقام پر ٹھہرا لیا۔ اب بادشاہ نے سپاہیوں‌ کو کہا کہ اس بوڑھے کو میرے سامنے حاضر کرو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

    بوڑھا بادشاہ کے روبرو آیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاصا کمزور ہے اور اس کی جلد جھریوں سے بھری ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا، اے بوڑھے! تُو جن درختوں کا خیال رکھ رہا ہے، کیا تجھے ان درختوں کا پھل کھانے کی اُمید بھی ہے؟

    بوڑھے نے کہا، بادشادہ سلامت! ہمارے پہلے لوگوں نے زراعت کی، اپنے جیتے جی اناج پایا اور اسے پکا کر کھایا، پھر باغات کی زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ بیج کو اپنے اندر دبا کر اللہ کے حکم سے اس کے بطن سے پودا نکالے جو توانا درخت بنے اور اس کی شاخیں پھلوں سے بھر جائیں۔ وہ زندہ رہ سکے تو پھل بھی کھایا اور جب وہ نہیں رہے تو ان کے بچّوں اور ان بچّوں‌ کی اولادوں‌ نے وہ پھل کھائے۔ ان کی محنت سے ہم سب لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے حضور لیکن اب میں اپنے بعد آنے والوں کے لیے یہ محنت کر رہا ہوں تاکہ وہ نفع حاصل کریں۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بامذاق اور مفید بات بہت ہی پسند آئی۔ خوش ہو کر بادشاہ نے بوڑھے کو ایک ہزار اشرفیاں انعام کے طور پر دیں۔ اس پر بوڑھا ہنس پڑا۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟ بوڑھے نے کہا مجھے اپنی محنت کا اس قدر جلد پھل مل جانے سے تعجب ہوا۔ اس بات پر بادشاہ اور بھی زیادہ خوش ہوا۔ بوڑھا یقیناً ذہین بھی تھا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار اشرفیاں اور دیں۔ باغ بان بوڑھا پھر ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اب کیوں ہنسے؟ وہ بولا کہ کاشت کار پورا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے میری باغ بانی نے تھوڑی سے دیر میں دو مرتبہ اپنی محنت کا ثمر دے دیا۔ بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے ایک ہزار اشرفیاں مزید دیں اور سپاہیوں‌ کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔

    سبق: زندگی میں‌ کوئی کام صرف اپنے مفاد اور نفع کی غرض‌ سے نہیں‌ کرنا چاہیے، بلکہ نیک نیّتی کے ساتھ دوسروں‌ کی بھلائی کے لیے بھی اگر کچھ وقت نکال کر کوئی کام کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اور اکثر ہماری توقع سے بڑھ کر اور آن کی آن میں قدرت ہم پر مہربان ہوسکتی ہے۔

  • موتی کہاں ہیں؟ (دل چسپ حکایت)

    موتی کہاں ہیں؟ (دل چسپ حکایت)

    یہ ایک سوداگر کی کہانی ہے جس کی چار سو دینار سے بھری ہوئی تھیلی گم ہوگئی تھی۔ اس نے منادی کروا دی کہ جس شخص کو اس کی تھیلی ملے اور وہ اس تک لے آئے تو اُسے دو سو دینار انعام دیا جائے گا۔

    اتفاقاً یہ تھیلی ایک غریب شخص کو مل گئی۔ وہ اُسے لے کر مالک کے پاس انعام کی اُمید میں پہنچ گیا۔ لیکن سوداگر نے جب اپنی گم شدہ تھیلی کو پایا، تو اس کے دل میں دو سو دینار کے خسارے کا خیال آگیا۔ وہ بدنیّت ہو گیا تھا اور اسے ایک بہانہ سوجھا۔ سوداگر اس غریب آدمی سے کہنے لگا’’اس تھیلی میں نہایت قیمتی موتی بھی تھے۔ کیا وہ بھی اس کے اندر ہیں؟‘‘ وہ آدمی بڑا گھبرایا اور سمجھ گیا کہ یہ اب دھوکا کر رہا ہے اور انعام نہ دینے کے لیے جھوٹ بولنے لگا ہے۔ اب ان دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ آخر یہ دونوں لڑتے ہوئے فیصلے کے لیے قاضی کے پاس پہنچے۔ قاضی نے اس غریب آدمی سے موتیوں کے بارے میں پوچھا تو وہ قسم کھا کر کہنے لگا کہ تھیلی میں اسے دیناروں کے سوا اور کوئی چیز نہیں ملی۔ اب قاضی نے سوداگر سے پوچھا کہ بتاؤ وہ موتی کیسے تھے؟ سودا گر نے الٹی سیدھی باتیں کیں اور کچھ صحیح نہ بتا سکا۔

    قاضی سمجھ گیا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اور جھوٹ سے مقصد اس کا یہ ہے کہ اپنے اعلان کے مطابق اسے انعام نہ دینا پڑے۔ قاضی نے کہا کہ میرا فیصلہ سنو! اے سوداگر! تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہاری تھیلی گم ہو گئی جس میں دینار تھے اور موتی بھی تھے اور یہ آدمی جو تھیلی لایا ہے اس میں کوئی موتی نہیں ہے، لہٰذا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ تھیلی تمہاری ہے ہی نہیں۔ تم اپنی گم شدہ تھیلی کے لیے دوبارہ منادی کراو۔ ممکن ہے تمہاری گم شدہ تھیلی تمہیں مل جائے جس میں وہ موتی بھی موجود ہوں اور تم بامراد بن جاؤ۔ یہ تھیلی تو تمہاری نہیں ہے۔

    اب قاضی نے اس غریب آدمی سے مخاطب ہو کر کہا: ’’ یہ تھیلی چالیس روز تک احتیاط سے رکھو۔ اگر اس کا کوئی دوسرا دعوے دار نہ ہو تو یہ تمہاری ہے۔‘‘ قاضی کا فیصلہ سن کر سوداگر کا دل بجھ گیا مگر وہ کیا کرسکتا تھا؟ دل میں‌ آئے کھوٹ نے اسے یہ دن دکھایا تھا۔ وہ بری طرح‌ پچھتایا اور وہ غریب شخص خوشی خوشی چار سو دیناروں‌ والی تھیلی لے کر اپنے گھر کو روانہ ہوگیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا کوئی دعوے دار نہیں‌ آئے گا اور اب وہی اس رقم کا مالک ہے۔

    (انتخاب از دل چسپ حکایات)