Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • لالچی سپیرا اور اژدھا

    لالچی سپیرا اور اژدھا

    زمانۂ قدیم ہی سے قصّے کہانیاں انسانوں‌ کی دل چسپی اور توجہ کا محور رہی ہیں۔ بالخصوص بچّے اور نوجوان بہت اشتیاق اور ذوق و شوق سے اپنے بڑوں کی زبانی وہ کہانیاں سنتے رہے ہیں، جو ان تک سینہ بہ سینہ اور کتابوں کے ذریعے پہنچی تھیں۔

    یہ سبق آموز کہانیاں اور حکایات اکثر سچے واقعات پر مبنی ہوتی ہیں جن میں عقل و دانش کی بات اور کوئی ایسا نکتہ بیان کیا جاتا ہے جو بچّوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت، فکری اور جذباتی راہ نمائی اور ان کو معاملاتِ زمانہ سکھانے میں‌ مددگار ثابت ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں یہ درس گاہوں کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور لوگوں کو زبانی یاد ہوتی تھیں۔ دنیا کی کوئی قوم، کوئی علاقہ یا کوئی براعظم ایسی سبق آموز کہانیوں اور حکایات سے خالی نہیں اور ہر ایک قوم کے پاس لوک کہانیوں اور حکایات کا خزانہ موجود ہے۔ ان حکایات میں ہزاروں سال کے انسانوں کے مشاہدات، تجربات اور خیالات کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس سے بڑے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور اسے اپنے بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    بچّو! یہ ایک سپیرے کا قصہ ہے۔ سپیرا کسے کہتے ہیں، تم جانتے ہو نا؟ یہ وہ آدمی ہوتا ہے جو جنگل بیاباں میں جاکر سانپ پکڑتا ہے اور اسے حکیم اور طبیب وغیرہ کو فروخت کردیتا ہے یا اس کا تماشا دکھا کر روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے پاس ایک بین ہوتی ہے جسے بجاتا ہوا وہ اپنے شکار کی تلاش میں پھرتا رہتا ہے۔

    ہم جس سپیرے کی کہانی سنا رہے ہیں، وہ دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل، ویرانوں اور صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سخت سردی کا موسم تھا۔ سپیرا پہاڑوں میں سانپ تلاش کر رہا تھا۔ وہ خاصا تھک گیا تھا اور اب مایوس ہو کر گھر لوٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک اژدھا نظر آیا۔ یہ ایک بہت بھاری اور بہت لمبا اژدھا تھا۔ سپیرے نے غور کیا کہ اژدھا اس کے پیروں کی آواز اور اس کے بین بجانے پر ذرا بھی حرکت نہیں کر رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ مَر چکا ہے۔ سپیرے نے ہمّت کی اور اژدھے کے قریب گیا۔ اس نے اپنی چھڑی سے اس کے جسم پر متعدد بار ضرب لگائی اور ہلایا بھی، لیکن اس نے ذرا بھی حرکت نہ کی، تب سپیرے کو یقین ہوگیا کہ اژدھا مر چکا ہے، کیوں کہ پہاڑوں پر پچھلے چند ہفتوں کے دوران سخت سردی ہی نہیں پڑی تھی بلکہ برف باری بھی ہوئی تھی۔ سپیرے نے سوچا کہ موسم کی سختی کے باعث وہ شکار کر کے اپنا پیٹ بھرنے میں ناکام رہا ہوگا اور یخ بستہ ہواؤں کو برداشت نہیں کرسکا جس کے سبب اس کی موت واقع ہوگئی۔ سپیرے نے سوچا اگر اس مردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جاؤں تو اسے دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا اور یہ تماشا کرکے میں خوب مال کماؤں گا۔

    وہ اژدھا کیا تھا، ستون کا ستون تھا۔ سپیرے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جانا مشکل تھا۔ مگر اس نے دماغ لڑایا اور کسی طرح درختوں کے چند بڑے بڑے پتّوں کو جمع کر کے سوکھی ہوئی مضبوط شاخوں کی مدد سے اژدھے کے جسم کو ان پر پتّوں پر ڈال دیا۔ اب اس نے درختوں کی چھال سے ایک قسم کی رسّی بٹ لی اور جان لیا کہ وہ بڑی آسانی سے اژدھے کو کھینچ سکتا ہے۔ سپیرے نے خوشی خوشی شہر کا رخ کیا۔ وہ اسے ہموار راستے پر گھسیٹ کر اور ناہموار جگہوں پر پتّوں سمیت دونوں ہاتھوں میں‌ اٹھا کر، الغرض کسی طور شہر کے مصروف علاقے کے مرکزی بازار میں لے آیا۔ سپیرے کے اس کارنامے کی شہر میں دھوم مچ گئی۔ جس نے سنا کہ شہر میں فلاں سپیرا ایک نایاب نسل کا اژدھا پکڑ کر لایا ہے، وہی سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ آتے اور اژدھے کا مالک سپیرا دیکھتا کہ خاصے لوگ جمع ہوگئے ہیں‌ تو وہ اس کے جسم پر سے وہ چادر ہٹا دیتا جو اس نے یہاں‌ پہنچ کر ڈال دی تھی۔ اس کے ساتھ وہ لوگوں کو پہاڑوں کی جانب اپنے سفر اور خطرناک سانپوں کی تلاش کا قصّہ بڑھا چڑھا کر سناتا جاتا اور اس کا سچ جھوٹ سن کر لوگ حیران بھی ہوتے اور باتیں‌ بھی بناتے، مگر اسے انعام اور اس تماشے پر بخشش کے طور پر اشرفیاں ضرور دیتے۔ سپیرے کو اور چاہیے بھی کیا تھا۔ وہ ان لوگوں کے مذاق کا نشانہ بن کر اور ایسی ویسی باتیں سن کر بھی خوش تھا، کیوں کہ وہ شام کے آغاز سے اس وقت تک جتنی رقم جمع کرچکا تھا، وہ ایک سے دو ہفتے تک سپیرے اور اس کے گھر والوں کی کھانے پینے کی ضرورت کو کافی تھی۔ سپیرا لالچ میں آگیا اور گھر لوٹنے کے بجائے مرکزی چوک پر اژدھے کے ساتھ ہی سو گیا۔ اسے گھر جانے اور اس رقم کو اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کا خیال ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا زیادہ سے زیادہ مال بنا لے۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو کسے معلوم تھا کہ یہ دن سپیرے پر آج کیسا غضب ڈھائے گا۔

    بچّو! جب سپیرا اژدھے کے ساتھ شہر آیا تھا، تو شام کا وقت شروع ہوچکا تھا۔ سورج ٹھنڈا‌ پڑنے کے بعد ڈوبنے کو تھا۔ مگر آج تو اژدھا مسلسل سورج کی تپش اور سخت دھوپ میں پڑا رہا تھا۔ دراصل وہ اژدھا زندہ تھا اور پہاڑوں پر سخت سردی اور برف باری کی وجہ سے اس کا جسم سُن ہو چکا تھا۔ برف سے ٹھٹھرنے کے باعث وہ بے حس و حرکت ایسا پڑا تھا جیسے مردہ۔ آج جیسے جیسے سورج کی براہِ راست تپش اور دھوپ اس کے جسم پر پڑی، اس کا منجمد جسم زندگی کی طرف لوٹنے لگا۔ دوپہر کو سخت دھوپ تھی اور لالچ کا مارا سپیرا جو اسے مردہ سمجھ رہا تھا، اژدھے کے قریب ہی کھڑا تھا۔ اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدحواسی اور خوف کے عالم میں جس کا جدھر منہ اٹھا اسی طرف کو بھاگا۔ سپیرے نے جب اچانک بھگدڑ مچتے دیکھی اور شور سنا تو پلٹا اور تب مارے دہشت کے سپیرے کا خون ہی گویا اس کی رگوں میں جم گیا۔ اس نے دل میں کہا غضب ہو گیا۔ یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا۔ ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا بڑا سا منہ کھول کر اس سپیرے کو نگل لیا۔ لوگ تو اس افتاد سے ہڑبڑا کر دور جا کھڑے ہوئے تھے اور اکثر تو وہاں سے بھاگ ہی نکلے تھے۔ کون اس بیچارے سپیرے کو بچاتا؟

    سپیرے کو نگلنے کے بعد اژدھا رینگتا ہوا آگے بڑھا، اور ایک بڑے اور قدیم پیڑ کے مضبوط تنے سے خود کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اندر موجود اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئیں۔

    بچّو! یہ مولانا روم سے منسوب حکایت ہے جس میں ہمارے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ محض نام و نمود اور مال کی خواہش میں کیا گیا کوئی کام خطرے سے خالی نہیں‌ ہوتا۔ خوب سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے ہی کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس کی اچھائی اور نفع کا خوب یقین نہ ہو۔ اس حکایت سے ایک دوسرا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ہمارا نفس بھی سردی میں ٹھٹھرے ہوئے اژدھے کی مانند ہے جسے جب عیش و آرام کی حدّت اور سازگار ماحول ملتا ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے اور تب ہماری ہی جائز و ناجائز خواہشوں کی شکل میں ہمیں نگلنے کو لپکتا ہے۔

  • مچھلیاں مت پکڑنا!

    مچھلیاں مت پکڑنا!

    یہ جاتک کتھا اور تاریخی واقعات پر مبنی افسانہ ہے۔ سمندر کے کنارے ایک بستی ہے، اس بستی کے لوگ مچھلی کا شکار کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ انھیں ایک خاص دن کو مچھلی پکڑنے سے منع کیا جاتا ہے، لیکن لوگ بات کو ان سنا کر کے مچھلی پکڑتے ہیں اور وہ بندر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بس ایک شخص بچتا ہے جو بندر نہ بننے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

    اردو کے ممتاز فکشن رائٹر اور منفرد حکایتی اسلوب کے حامل ادیب انتظار حسین نے یہ کہانی آخری آدمی کے عنوان سے تحریر کی تھی انتظار حسین وہ پہلے پاکستانی ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ان کی کہانی پڑھیے۔

    الیاسف اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی کی جون میں مروں گا۔ اور اس نے آدمی کی جون میں رہنے کی آخر دم تک کوشش کی۔

    اور اس قریے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے۔ لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہو گئے۔ پر اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اس نے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے۔

    اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجر دم ، الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی۔ پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی۔ پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آئے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک ٹھٹھک گئے کہ الیعذر کی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔

    پھر یوں ہوا کہ ایک نے دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز! الیعذر بندر بن گیا ہے۔ اس پر دوسرا زور سے ہنسا، تو نے مجھ سے ٹھٹھا کیا۔ اور وہ ہنستا چلا گیا، حتٰی کہ منہ اس کا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خد و خال کھینچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا۔ تب پہلا کمال حیران ہوا۔ منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔

    اور الیاب، ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا ہے کہ تیرا چہرا بگڑ گیا ہے۔ ابن زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا۔ تب الیاب مزید ڈرا اور چلّا کر بولا کہ اے زبلون کے بیٹے! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور دانت بھینچ کر الیاب پر جھپٹا۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا۔ ابن زبلون غصے سے آپے سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں کہ ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوٹ تھے آپس میں گتھ گئے۔ ان کے چہرے بگڑتے چلے گئے۔ پھر ان کے اعضا بگڑے۔ پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاظ آپس میں مدغم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے۔ پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔

    الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا۔ تشویش سے کہا کہ اے لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہو گیا ہے۔ آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے۔ پھر الیاسف لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا۔ اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا کرتا تھا آج ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آ لیا۔

    دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔

    جاننا چاہیے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔ اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہراس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پایا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔

    الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا کہ بے شک میں انہی میں سے تھا اور اس نے وہ دن یاد کئے جب وہ ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے امنڈنے لگا۔ اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی۔ اور اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کے لئے اسے ٹٹولا جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں۔ اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا۔ جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ تو کہاں ہے؟ اے اخضر کی بیٹی! اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی، تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر آ۔ اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف بار بار پکارتا کہ اس کا جی بھر آیا اور بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔

    الیاسف بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی۔ حالانکہ اس کی ہڑکی بندھ گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقوش بگڑتے چلے گئے۔ اور ہڑکی کی آواز وحشی ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی۔ تب الیاسف نے خیال کیا۔ بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی۔ اور بے شک جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو فراموش کر دیا۔

    الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اس قریے کی حسین عورتوں میں سے تھی۔ وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں۔ اور الیعذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کہ میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی۔

    الیعذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی۔ الیعذر جھری جھری لے کر کھڑا ہو جاتا اور وہ دم کھڑی کر کے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھی۔ اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوئی اور وہ اپنے اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا۔ اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو انہیں کی جنس بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔

    الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر کلکاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کو لہو لہان کر دینا۔ یہ سب کچھ اسے آگے کبھی ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا۔ کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا۔ اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا۔ اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر کی جاتی رہی۔ کہ وہ اس کے اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اس کا اس نے افسوس کیا۔ الیاسف نے افسوس کیا اپنے ہم جنسوں پر، اپنے آپ پر اور لفظ پر۔ افسوس ہے ان پر بوجہ اس کے وہ اس لفظ سے محروم ہو گئے۔ افسوس ہے مجھ پر بوجہ اس کے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا۔ اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا۔ اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔

    الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے در گزرا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھو ں گا۔

    الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اس کے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اس کے اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اس کا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ اور بال بد رنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اس کے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔

    اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طور غلبہ پاؤں گا جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پا لیا۔ اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضاء دوبارہ کھلنے اور پھیلنے لگے۔ اس کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے۔ اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہو گئے اور اس کے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اس کے سارے اعضاء بکھر جائیں گے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپنے آپ کو اکٹھا کرنے لگا۔

    الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔

    اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں، میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھینے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف کنویں میں دھنستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگیں۔ الیاسف کو سبت کے دن ہم جنسوں کا مچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا کہ ان کے ہاتھوں مچھلیوں سے بھر ا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا۔ اور اس کی ہوس بڑھتی گئی اور انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا۔ تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سو گند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا اور گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھہرایا، سمندر تمہارے دستِ ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مباد ا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔ الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتلا تھا۔ سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطحِ آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں۔ اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ اس سے مکر کرے گا۔ اور بے شک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنے والا ہے اور الیاسف یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنے والے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے۔ تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا۔ اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنے والے تو اب مجھ سے مکر کرے گا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپنے حال پر رویا۔ اس کے بنائے ہوئے پشتہ میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔

    الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی۔ اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اس کے لئے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔

    جب صبح کو وہ جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اس وقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں، میں ہی ہوں اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی، آدمی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اور جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اس کی اندوہ سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اسے بنت الاخضر تو کہا ں ہے کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔ اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔

    جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بد لاہوں۔

    الیاسف نے پہلے بستی کو جانے کا خیال کیا مگر خود ہی اس خیال سے خائف ہوگیا، اور الیاسف کو خالی بستی اور اونچے گھروں سے خفقان ہونے لگا، اور جنگل کے اونچے درخت رہ رہ کر اسے اپنی طرف کھینچتے تھے، الیاسف بستی واپس جانے کے خیال سے خائف چلتے چلتے جنگل میں دور نکل گیا۔ بہت دور جاکر اسے ایک جھیل نظر آئی کہ پانی اس کا ٹھہرا ہوا تھا۔ جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس نے پانی پیا، جی ٹھنڈا کیا۔ اسی اثنا میں وہ موتی ایسے پانی کو تکتے تکتے چونکا۔ یہ میں ہوں؟ اسے پانی میں اپنی صورت دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی چیخ نکل گئی اور الیاسف کو الیاسف کی چیخ نے آلیا۔ اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔

    الیاسف کو الیاسف کی چیخ نے آلیا تھا۔ اور وہ بے تحاشا بھاگا چلا جاتا تھا۔وہ یوں بھاگا جاتا تھا جیسے جھیل اس کا تعاقب کررہی ہے۔ بھاگتے بھاگتے تلوے اس کے دکھنے لگے اور چپٹے ہونے لگے اور کمر اس کی درد کرنے لگی، پر وہ بھاگتا رہا اور کمر کا درد بڑھتا گیا اور اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی دوہری ہوا چاہتی ہے اور دفعتا جھکا بے ساختہ اپنی ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیں۔

    الیاسف نے جھک کر ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیں اور بنت الاخضر کو سوگھتا ہوا چاروں ہاتھوں پیروں کے بل تیر کے موافق چلا۔

  • بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کرسکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔

    فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت کرو۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    نیکیاں کر لے اگر تُو صاحبِ ثروت ہے آج
    کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترا یہ تخت و تاج

    سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ لاؤ لشکر رکھنے والے بادشاہوں سے بھی خوف نہیں کھاتا۔ نیز یہ کہ مال دار شخص کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔

    ( منسوب از شیخ سعدی، مترجم: نامعلوم)

  • چمپا

    چمپا

    شہر لکھنؤ کے محلے نشاط گنج میں میری والدہ ایک ایسے مکان میں رہتی تھیں جس میں شہتوت کا ایک اونچا اور گھنا درخت تھا۔ میری والدہ، جن کو سب باجی امّاں کہا کرتے تھے۔ بچّوں کو قرآن پڑھایا کرتی تھیں۔

    ان ہی میں سے ایک بچّے کو کہیں سے گلہری کا چھوٹا سا بچّہ مل گیا جو اس نے لا کر میری چھوٹی بہن نفیس کو دے دیا۔ بچہ بہت ہی چھوٹا اور کمزور تھا۔ نفیس نے جوتے کے ایک خالی ڈبے میں روئی بچھا کر اس کے لیے بستر تیار کیا اور روئی کی بتّی سے اس کو دودھ پلایا۔

    بچّہ جلد ہی اس قابل ہو گیا کہ روئی سے دودھ پینے کے بجائے دانتوں سے کتر کر چیزیں کھانے لگا اور والدہ اور بہن سے خوب ہل گیا۔ وہ سارے گھر میں بھاگا بھاگا پھرتا اور جب اسے کھانے کی کوئی چیز دکھائی جاتی تو وہ دوڑ کر آتا اور چیز لے کر کسی کونے میں چھپ جاتا۔ نفیس نے اس کا نام چمپا رکھ دیا۔

    دیکھتے دیکھتے چمپا کے رویے میں تبدیلی آنے لگی۔ اب وہ ڈبے میں رہنے کی بجائے شہتوت کے درخت پر رہنے لگی۔ اس نے سب سے اونچی شاخ پر اپنا گھر بنا لیا۔ دوسری تبدیلی اس میں یہ آئی کہ وہ گھر میں آنے والے ہر نئے آدمی کو کاٹنے لگی۔ کبھی کسی بچّے کے بھائی یا بہن آجاتے تو چمپا انہیں کاٹنے کو دوڑتی۔

    اب تک وہ بچّوں پر حملہ کرتی تھی اب وہ بڑوں پر بھی جھپٹنے لگی۔ لوگوں نے ڈر کے مارے آنا چھوڑ دیا۔ کوئی آتا تو پہلے باہر سے آوازیں دیتا، والدہ ہاتھ میں پتلی سی چھڑی لے کر جاتیں اور اسے اپنے ساتھ اندر لاتیں۔ چمپا درخت سے نیچے اتر آتی اور دور بیٹھ کر غصّے سے کٹ کٹ کی آوازیں نکالتی۔ اگر شامت کا مارا کوئی آدمی آواز دیے بغیر اندر آ جاتا تو چمپا اسے کاٹ کر بھاگ جاتی۔

    وہ میری بھی دشمن تھی۔ میں جب کبھی وہاں جاتی تو پہلے سے خبر کراتی تب کہیں داخلہ ملتا۔ والدہ نے کئی بار میرے ہاتھ سے چمپا کو کھانے کی چیزیں دلوائیں تاکہ گلہری مجھ سے مانوس ہو جائے مگر چمپا میرے ہاتھ سے کھانا لینے کے بجائے میرے ہاتھ پر پنجہ مار کر بھاگ گئی۔

    یہ معاملہ شاید یوں ہی چلتا رہتا لیکن ایک روز یہ ہوا کہ میرے والد صاحب، جو دہلی میں رہتے تھے، گھر آ گئے۔ چمپا ان کی بھی دشمن ہوگئی۔ وہ کبھی آنگن میں نکلتے تو چمپا نہ جانے کدھر سے ان پر چھلانگ لگا دیتی۔

    باجی امّاں سخت پریشان تھیں۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیا کریں۔ چمپا کسی طرح والد صاحب سے دوستی کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ ادھر والد صاحب کا باہر نکلنا بند تھا۔ وہ جب بھی آنگن میں وضو کرتے، گلہری چلّا چلّا کر آفت مچا دیتی۔ والد صاحب نے کئی بار اس کو سلیپر کھینچ کر ماری لیکن وہ ہر بار بچ کر نکل گئی اور واپس درخت پر چڑھ کر شور مچانے لگی۔

    آخر والد صاحب نے اعلان کر دیا کہ اس چمپا کی بچّی کو گھر سے نکالو ورنہ وہ واپس دلّی چلے جائیں گے۔ والدہ بے چاری نے تنگ آکر چمپا کو کہیں دور بھجوانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے جوں ہی آواز دی چمپا خوشی خوشی ان کے پاس آ گئی۔ والدہ نے اس کو پکڑا اور ایک تھیلے میں بند کر دیا۔ پھر انہوں نے تھیلے کا منہ اچھی طرح باندھا اور تھیلا ایک لڑکے کو دے کر اس سے کہا کہ جاکر گلہری کو دور والے باغ میں چھوڑ آئے۔

    لڑکے نے جب چمپا کو تھیلے سے باہر نکالا تو پہلے تو وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھتی رہی اور پھر ایک درخت پر چڑھ گئی۔ لڑکا جب واپس آنے لگا تو چمپا نے کچھ دور تک اس کا پیچھا بھی کیا لیکن جب ایک کتّے نے اس پر حملہ کرنا چاہا تو چمپا دوڑ کر جھاڑیوں میں چھپ گئی۔

    والدہ کئی روز تک اداس رہیں۔ بچّے برابر خبریں لاتے رہے کہ وہ جب بھی جا کر چمپا کو آواز دیتے ہیں، وہ آ جاتی ہے۔ باجی امّاں اکثر بچّوں کے ہاتھ اسے کھانے پینے کی چیزیں بھیج دیتیں۔

    کچھ عرصے بعد چمپا نے آواز پر آنا چھوڑ دیا۔ وہ درخت پر رہنے والی دوسری گلہریوں سے گھل مل گئی تھی۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب، مصنّف بیگم توفیق خان)

  • بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

    بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

    صدیوں پہلے ایک سلطنت کا بادشاہ بڑا ظالم تھا اور خود کو بہت عقل مند سجھتا تھا۔ وہ اکثر حیلوں بہانوں سے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگا دیتا تھا، مگر ان کی فلاح و بہبود پر کچھ توجہ نہ تھی۔ رعایا اس بادشاہ سے تنگ آچکے تھے اور خدا دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح اس سے نجات مل جائے۔

    بادشاہ ہر وقت خوشامدی لوگوں میں گھرا رہتا جو اس کی ہر جائز ناجائز بات اور فیصلوں پر اس کی تعریف کرتے اور اس کو قابل اور نہایت ذہین کہتے۔ بادشاہ کو وہ لوگ ناپسند تھے جو اس کی کسی غلط بات کی نشان دہی کرتے اور اس کے فیصلے پر تنقید کرتے۔ ایسے ہی لوگوں میں مشیر بھی شامل تھا جو بادشاہ کے والد کے زمانے سے دربار میں موجود تھا اور جس کی تنقید کی وجہ سے وہ اسے سخت ناپسند کرتا تھا۔

    وہ مشیر ایک انتہائی قابل اور ذہین شخص تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بادشاہ کو اپنی عوام کی فلاح کا خیال رکھنا چاہیے اور عوام کو جائز ٹیکس ادا کرنا اور بادشاہ کا وفادار ہونا چاہیے۔ وہ بادشاہ کو گھیرے ہوئے خوشامدیوں سے سخت بیزار تھا اور ان کو غلط مشورے دینے سے روکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سب ایسے موقع کی تلاش میں رہتے کہ اس مشیر کو بادشاہ کے سامنے ذلیل کر سکیں۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا جب ان لوگوں کو موقع مل گیا۔

    ایک دن مشیر نے بھرے دربار میں کہہ دیا کہ اگر کوئی انسان اپنی عقل اور ذہانت کو استعمال کرے تو وہ ہر جگہ اپنی روٹی روزی کا بندوبست کر سکتا ہے۔ بادشاہ جو مشیر سے اس کے سچ بولنے پر پہلے ہی ناراض تھا، اسے یہ وقت مناسب لگا کہ وہ مشیر کو اس کی حق گوئی کی سزا دے سکے۔ اس نے کہا کہ مشیر کو اپنی بات کی سچائی ثابت کرنی ہوگی اور حکم دیا کہ اسے گھوڑوں کے اصطبل میں بند کر دیا جائے۔ اسے کوئی تنخواہ نہیں ملے گی اور اصطبل سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ ایک ماہ میں ایک ہزار سونے کے رائج الوقت سکے اپنی عقل اور ذہانت کو بروئے کار لا کر کمائے اور خزانہ میں جمع کرائے۔ بصورتِ دیگر اس سے شاہی عہدہ واپس لے لیا جائے گا۔

    بادشاہ کے اس غیر منصفانہ فیصلہ پر مشیر بڑا دل برداشتہ ہوا مگر ہمت نہ ہارا۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی اور کہا کہ اسے اپنا وزنی کنڈا ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ جو بادشاہ نے منظور کر لی۔ مشیر کو اصطبل میں بند کر دیا گیا۔

    مشیر نے گھوڑوں کی خوراک کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو اصطبل کے ملازمین نے خیال کیا کہ مشیر کا دماغ چل گیا ہے، پھر بھی انہوں نے مشیر سے خوراک کے وزن کرنے کا سبب پوچھا تو مشیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ گھوڑوں کو پوری خوراک دی جا رہی ہے۔ یہ سن کر اصطبل کے ملازمین پریشان ہو گئے کیوں کہ وہ گھوڑوں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ چوری کرکے بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔ انہوں نے مشیر کی منت سماجت شروع کر دی اور کہا کہ بادشاہ کو کچھ نہ بتائے۔ اس کے عوض مشیر جو کہے وہ رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس طرح مشیر نے ایک ماہ میں سونے کے ایک ہزار سکے ان سے حاصل کیے اور خزانہ میں جمع کروا دیے۔

    ادھر بادشاہ نے مشیر کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ رقم اصطبل سے کما کر خزانہ میں جمع کروائی ہے بلکہ الٹا مشیر پر الزام لگا دیا کہ اس نے یہ رقم باہر سے اکٹھی کر کے خزانہ میں جمع کروائی ہے اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ لہٰذا مشیر کو دریا پر ایک جھو نپڑی میں بند کرنے کا حکم دے کر اسے کہا کہ اس دفعہ وہ دو ہزار سکے ایک ماہ میں سرکاری خزانہ میں جمع کروائے، بصورتِ دیگر اُس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ مشیر کے پاس بادشاہ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے دوبارہ ایک بڑا ترازو ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی جو منظور کر لی گئی۔

    مشیر نےدریا پر اپنے ترازو سے پانی کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ کشتی بانوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو مشیر نے ان کو بتایا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ جو کشتی بان زیادہ سواریاں کشتی میں سوار کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرےم یں ڈالتے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ کرے تا کہ انہیں سخت سزا دی جائے۔ چونکہ تم سب زیادہ سواریاں اٹھاتے ہوں اس لیے سزا کے لیے تیار رہنا۔

    تمام کشتی بان یہ جان کر فوراً مشیر سے معافی مانگنے لگے۔ معاملہ اس بات پر طے ہوا کہ وہ ماہ کے آخر تک دو ہزار سکے دیں گے اور آیندہ زیادہ سواریاں نہیں اٹھائیں گے۔ ماہ کے آخر تک کشتی باتوں نے دو ہزار سکے سوداگر کو ادا کر دیے جو اس نے خزانہ سرکار میں جمع کروا دیے۔

    دو ماہ کے بعد مشیر کو بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا، مشیر اس دفعہ بہت خوش تھا کہ اُس نے اپنی عقل اور دانش سے بادشاہ کے 2 ہزار سونے کے سکے ادا کر دیے ہیں اور ضرور اُس کو خوش ہوکر مشیر سے ترقی دے کر وزیر بنا دیا جائے گا۔

    بادشاہ کو جب پتہ چلا کہ مشیر اس دفعہ بھی کام یاب ہوگیا ہے تو وہ دل ہی دل میں غُصہ کرنے لگا کہ یہ مشیر اب اُسے دربار میں شرمندہ کرنے پھر آگیا ہے۔ اس لیے اُس نے اپنے ایک خوشامدی وزیر جو مشیر سے نفرت بھی کرتا تھا کو اشارہ کیا کہ وہ اُس کے قریب آئے اور جب خوشامدی بادشاہ کے قریب آیا تو بادشاہ نے اُس کے کان میں کہا ” اس مشیر کو فصیل سے دھکا دے دو تاکہ اس کی صورت ہم دوبارہ نہ دیکھیں۔

    وزیر انتہائی خوش ہوا اور مشیر کو انعام دینے کا کہہ کر فصیل پر لے گیا، جب مشیر فصیل پر پہنچا تو اُس نے وزیر سے کہا میری عقل اور دانش مجھے دکھا رہی ہے کہ تُم مجھے اس فصیل سے دھکا دینے والے ہو لیکن ایک بات یاد رکھنا جب کوئی بادشاہ اہلِ علم کو اپنے دربار سے یوں رسوا کر کے نکالتا ہے تب اُس کے تاج کے دن گنے جا چکے ہوتے ہیں۔

    وزیر نے مشیر کو بات ختم کرنے سے پہلے ہی فصیل دے دھکا دیا اور واپس چلا گیا۔ ٹھیک سات دن بعد بادشاہ کی سلطنت پر اُس کے طاقتور پڑوسی ملک نے حملہ کیا، بادشاہ دربار میں موجود تمام دانشوروں کو چُن چُن کر ختم کر چکا تھا جو ہمیشہ اُسے اپنی ذہانت سے طاقتور پڑوسی سے جنگ سے بچا لیا کرتے تھے۔ اس نے خوشامدی اکٹھے کر رکھے تھے۔ وہ اُسے اس جنگ سے کیسے بچاتے۔ بادشاہ بُری طرح جنگ ہارا اور جب پکڑا گیا تو پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اُسے اُسی فصیل پر کھڑا کر کے جہاں سے مشیر کو دھکا دیا گیا تھا نیچے دھکا دے دیا۔

  • اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    بندر میاں تو مشہور ہی اپنی نقالی اور شرارتوں کی وجہ سے تھے جس سے جنگل کے تمام جانور لطف اٹھا تے لیکن بی لومڑی کو اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ بندر میاں کی شرارت کا نشانہ بنتی تھیں۔

    بات محض شرارت تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، بندر میاں مذاق ہی مذاق میں بی لومڑی کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے اور اپنی عزّت تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔ بی لومڑی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بندر میاں سے اپنی بے عزّتی کا بدلہ ضرور لیں گی اور جلد ہی بی لومڑی کو موقع بھی مل گیا۔

    ہُوا یوں کہ بی لومڑی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔ انھوں نے چٹپٹی چاٹ بنائی جسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھا رہی تھیں، اپنی اُنگلیاں چاٹ چکیں تو پیالہ زبان سے چاٹنے لگیں۔ بندر میاں جو اتفاقاً وہاں آنکلے تھے، بڑے اشتیاق سے بی لومڑی کی ندیدی حرکتیں دیکھ رہے تھے اور وہ اس سے بے خبر مزے سے چٹخارے لیتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں واہ مزہ آ گیا۔ کیا چا ٹ بنائی ہے میں نے، واہ بی لومڑی واہ۔“

    بندر میاں اُس وقت تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے، لیکن کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے سارے جانوروں کو جمع کیا اور بی لومڑی کی وہ نقل اُتاری کہ ہنستے ہنستے سب کا بُرا حال ہو گیا۔ دل ہی دل میں بی لومڑی بھی بندر میاں کی فن کاری کا اعتراف کر رہی تھیں، لیکن بھرے مجمع میں اپنی بے عزّتی اُنھیں بہت کھل رہی تھی۔ بی لومڑی نے اپنی بے عزّتی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اُن کی فطرت تھی جب تک انتقام نہ لے لیتیں اُن کو چین نہ پڑتا تھا۔ اور بالآخر وہ دن آہی گیا جب بی لومڑی نے بندر میاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔

    اُس روز موسم سخت گرم تھا، دھوپ بھی بہت تیزتھی، بندر میاں گرمی سے نڈھال برگد کے سائے میں مزے سے سو رہے تھے۔ اُنھیں یوں بے خبر سوتا دیکھ کر بی لومڑی کو اپنا انتقام یادآ گیا۔ وہ دبے پاؤں بندر میاں کے نزدیک گئیں اور خار دار جھاڑی پہلے بندر میاں کے چہرے اور پھر کلائی پر زور سے مار کر پَل بھر میں‌ یہ جا، وہ جا۔

    بی لومڑی اپنی چالاکی کی وجہ سے مشہور تھیں، اب یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھیں کہ میں نے اپنا کام کر دکھایا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی، لیکن یہ اُن کی بھول تھی، کیونکہ بی لومڑی کے ستائے ہوئے ریچھ ماما اور بطخ خالہ نے بی لومڑی کی یہ حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ اب وہ بندر میاں سے جن کا چہرہ اور کلائی بُری طرح زخمی ہوگئے تھے، اُن کی تکلیف کی شدت محسوس کر کے نہ صرف ہمدردی کر رہے تھے، بلکہ جنگل کے بادشاہ شیر سے بی لومڑی کی شکایت کر کے انصاف کی درخواست پر اصرار بھی کر رہے تھے۔ پہلے تو بندر میاں نے انکار کر دیا اور پھر بطخ خالہ کے احساس دلانے پر کہ یہ خاموشی کل بی لومڑی کو اوروں پر ظلم کرنے پر اُکسائے گی بندر میاں نے جنگل کے بادشاہ سے انصاف طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بندرمیاں نے جب تمام ماجرا جنگل کے بادشاہ کو سُنایا تو اُنھوں نے فوراً تمام جانوروں کو دربار میں حاضری کا حکم دیا۔ تمام جانور بادشاہ کے دربارمیں حاضر ہو گئے۔

    بادشاہ سلامت انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے اور بندر میاں بی لومڑی کے ظلم کی داستان سُنا رہے تھے۔ ان کا زخمی چہرہ اور کلا ئی سے رِستا ہُوا خون بی لومڑی کے ظلم کی گواہی دے رہا تھا۔ بطخ خالہ اور ریچھ ماما نے بی لومڑی کے خلاف حلفیہ گواہی دی تھی۔ تمام جانور بی لومڑی کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔ پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں لیکن بندر میاں نے ثبوت پیش کر دیے۔ کوئی راہِ فرار نہ پا کر بالآخر بی لومڑی نے اقبالِ جرم کر ہی لیا۔

    جنگل کے بادشاہ شیر نے اپنی گرجدار آواز میں فیصلہ سُنایا کہ ایک ماہ تک جنگل کے تمام جانور بی لومڑی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور شاہی دربار میں ہونے والے جشن میں بھی بی لومڑی شرکت نہیں کریں گی۔

    یہ فیصلہ سُنتے ہی بی لومڑی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اُن کی آنکھیں بھر آئیں، جنگل کے اس سالانہ جشن کی تیاری تو وہ کئی ماہ پہلے سے کر رہی تھیں۔ بی لومڑی منہ بسورے، کبھی حسرت بھری نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھتیں جن کے ساتھ مل کر انھوں نے اس جشن کی تیاریاں کی تھیں اور کبھی بادشاہ سلامت پر التجا بھری نظر ڈالتیں۔ یہ منظر دیکھ کر بندر میاں نے اپنی تکلیف بھلا کر بی لومڑی کی نقل اُتاری۔ عادت سے مجبور جو تھے۔ پھر یہ عادت اُن کی پیدائشی بھی تو تھی۔ کیسے وہ اس سے چھٹکارا پاتے؟ تمام جانورہنس رہے تھے۔ بندر میاں کی بے ساختہ اداکاری پر شیر بادشا ہ بھی مسکرا دیے۔ اپنی بھد اڑتے دیکھ کر بی لومڑی شرمندہ بھی ہُوئیں اور اُداس بھی۔

    بندر میاں کو وقتی طور پر غصہ تو آگیا تھا لیکن اب اُنھیں افسوس ہو رہا تھا کیونکہ بی لومڑی کی کافی بے عزتی ہو چُکی تھی۔ خود بندر میاں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایسی شرارت یا مذاق نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزّت خراب ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔ فطرتاً بندر میاں بہت رحم دل تھے۔ اُنھوں نے بادشاہ سے بی لومڑی کے لیے معافی کی درخواست کی تو اُن کی سفارش پر لومڑی کی سزا ختم کر دی گئی۔

    بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہُوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔ بی لومڑی نے بندر میاں سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ اب انھوں نے انتقام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کا سبق بی لومڑی نے بندر میاں سے سیکھا تھا۔

    (شائستہ زرّیں کے قلم سے بچّوں کے لیے ایک سبق آموز کہانی)

  • غریب بادشاہ

    غریب بادشاہ

    قصّے، کہانیاں اور داستانیں ہمیں زندگی کو سمجھنے، سیکھنے کا موقع دیتی ہیں اور قدیم زمانے میں بھی افسانوی کرداروں کی مدد سے نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کا کام لیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی سبق آموز کہانیاں اور حکایات بچّوں کی ذہنی سطح اور ان کی دل چسپی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لکھی جاتی ہیں اور یہ بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

    یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جو بچّوں کی فکری تربیت اور کردار سازی کے ساتھ انھیں اپنے اسلاف کی حیاتِ مبارکہ اور بزرگوں کے روشن کارناموں سے روشناس کرواتی ہے۔ آپ بھی یہ کہانی اپنے بچّوں کو ضرور سنائیے۔

    جب تمام بچّے دادی کے پاس کہانی کے لیے جمع ہوئے تو ارشاد نے کہا دادی آج ہم کسی بادشاہ کی کہانی سنیں گے۔

    دادی نے کہا’’کہانی تو سناؤں گی مگر ایک غریب بادشاہ کی وہ بھی بالکل سچّی۔ تمام بچّے پوری توجہ سے دادی کے قریب بیٹھ گئے تو دادی نے کہانی شروع کی۔

    یہ ایسے بادشاہ کی کہانی ہے جو اپنے عہد کا سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ اس کی فوجوں نے دنیا کی دو بڑی حکومتوں کو شکست دے کر ان کے ملکوں پر قبضہ کیا اور وہاں لوگوں کو زندگی کا مقصد دیا۔ بڑے بڑے بادشاہ اس کا نام سن کر کانپتے تھے۔

    ’’پھر وہ بادشاہ غریب کیسے ہوا‘‘ عفیفہ نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’بیٹی ذرا صبر سے کام لو، وہی تو بتانے جارہی ہوں، تم لوگ درمیان میں سوال کرو گی تو میں کہانی ہی بھول جاؤں گی، ویسے بھی بڑھاپے میں حافظہ کمزور ہو جاتا ہے۔‘‘

    تمام بچّے غصے سے عفیفہ کو دیکھ رہے تھے۔ اس لئے وہ خاموش ہوگئی اور دادی نے کھنکھارتے ہوئے پھر کہانی شروع کی۔

    ہاں، بچّو، اتنا بڑا بادشاہ ہونے کے باوجود وہ بادشاہ بہت غریب تھا۔ اس کا گھر بہت معمولی تھا، ایک دو جوڑے کپڑے تھے، اس پر بھی درجنوں پیوند لگے ہوتے تھے، سر پر جو عمامہ ہوتا تھا وہ بھی اکثر پھٹا پرانا ہوتا تھا۔ پاؤں میں معمولی اور خستہ جوتیاں ہوتی تھیں۔ مسجد کے فرش پر بغیر کسی بستر کے لیٹا رہتا تھا۔ غذا اتنی سادہ اور معمولی ہوتی تھی کہ کوئی اس کے ساتھ جلدی کھانا کھانے کے لئے تیار ہی نہ ہو۔ ایک دفعہ اس کے ملک میں قحط پڑا تو اس نے ہر طرح کا سالن کھانا چھوڑ دیا۔ صرف سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے اور کھجوروں پر وہ گزر بسر کرتا تھا۔

    ایک دفعہ بادشاہ کو کسی مجلس میں‌ جانا تھا، لیکن دیر ہورہی تھی اوروہ اپنے گھر میں تھا جب کہ لوگ اس کا انتظار کررہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک ہی جوڑا کپڑا تھا جسے دھونے کے بعد سکھایا اور جب کپڑا سوکھ گیا تب وہ بادشاہ اسے پہن کر باہر آیا۔ وہ اگرچہ بادشاہ تھا مگر لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرنے میں اسے کبھی شرم نہ آتی تھی۔ وہ مجاہدین کے گھروں پہ جاتا اور عورتوں سے کہتا تم کو کچھ بازار سے منگوانا ہو تو میں لا دوں، وہ لونڈیوں کو ساتھ کر دیتیں، وہ چیزیں خرید کر ان کے حوالے کر دیتا۔

    وہ رعایا کی خبر گیری کے لئے راتوں میں شہر اور اس کے اطراف میں گشت کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ شہر کے باہر ایک قافلے کی حفاظت کے لئے پہرہ دے رہا تھا کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آئی۔ دیکھا تو ایک چھوٹا بچّہ رو رہا ہے۔ ماں سے کہا بچّے کو چپ کراؤ، تھوڑی دیر کے بعد جب بادشاہ وہاں سے گزرا تو دیکھا بچّہ پھر رو رہا ہے۔ بادشاہ کو غصہ آگیا، بولا ’’تو بڑی بے رحم ماں ہے۔‘‘ عورت نے کہا تم کو حقیقت معلوم نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جب تک بچّے ماں کا دودھ نہیں چھوڑتے انہیں وظیفہ نہیں ملتا، میں بچّے کا دودھ چھڑا رہی ہوں تاکہ اسے وظیفہ ملنے لگے۔ عورت کو معلوم نہ تھا کہ وہ بادشاہ ہی سے بات کررہی ہے۔ بادشاہ کو بڑا افسوس ہوا اور اسی دن بادشاہ نے حکم دیا کہ بچّہ جیسے ہی پیدا ہو اس کا وظیفہ جاری کر دیا جائے۔

    ایک بار وہ بادشاہ گشت کے لئے نکلا تو دیکھا کہ ایک عورت کھانا پکا رہی ہے اور دو تین بچّے رو رہے ہیں، اس نے بچّوں کے رونے کی وجہ پوچھی تو عورت نے کہا کئی وقتوں سے بچّوں کو کھانا نہیں ملا ہے۔ ان کو بہلانے کے لئے میں نے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دیا ہے۔ بادشاہ نے یہ سنا تو اسے بڑا افسوس ہوا وہ شہر میں آیا۔ بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور غلام سے کہا میری پیٹھ پر رکھ دو، غلام نے کہا میں لے چلتا ہوں، مگر بادشاہ نے کہا نہیں، کل قیامت کے دن تم میرا بوجھ نہیں اٹھاؤ گے۔ تمام سامان بادشاہ نے خود اٹھایا اور عورت کے پاس لے جا کر رکھ دیا۔ عورت نے کھانا تیار کیا اور بچّوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اچھلنے کودنے لگے۔ بادشاہ ان بچوں کو دیکھتا تھا اور خوش ہوتا تھا۔ اس عورت نے کہا، ’’اللہ تم کو جزا دے، سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے امیر ہونے کے لائق تم ہو۔‘‘

    ’’دادی میں جان گئی آپ کس بادشاہ کی کہانی سنارہی ہیں۔ یہی کہانی تو میں نے اردو کی کتاب ’’ہماری کتاب ‘‘ میں پڑھی ہے۔ وہ بادشاہ حضرت عمرؓ تھے۔‘‘

    عفیفہ بولی ’’مگر حضرت عمرؓ بادشاہ کہاں تھے، وہ تو خلیفہ تھے۔ بادشاہ اور خلیفہ میں تو بہت فرق ہوتا ہے۔‘‘ فاطمہ نے درمیان میں لقمہ دیا۔

    دادی جان تو ابھی اور نہ جانے کیا کیا بتاتیں مگر بچّوں کی گفتگو کی وجہ سے وہ آگے کی کہانی بھول گئیں۔ انہوں نے کہا ’’عفیفہ نے سچ کہا، میں حضرت عمرؓ کی زندگی کی کہانی سنا رہی تھی۔ ایک ہفتے سے میں علامہ شبلیؒ نعمانی کی کتاب ’’الفاروق‘‘ پڑھ رہی ہوں۔ بقیہ کہانیاں اور سچّے واقعات تم اسی کتاب سے پڑھ لو۔‘‘

    عدی نے جھپٹ کر دادی کی الماری سے کتاب لے لی۔ سب بچّے اس کے پیچھے دوڑے۔ اب عدی کتاب پڑھے گا اور سب بچّے سنیں گے۔

    (اختر سلطان اصلاحی)

  • "روٹی کیوں پھولتی ہے؟”

    "روٹی کیوں پھولتی ہے؟”

    دانیال جب ناراض ہوتے ہیں تو منہ پھلا کر کونے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج کل وہ چھٹیوں میں اپنی دادی کے پاس آئے ہوئے تھے۔

    برسات کا موسم شروع ہوگیا تھا۔ بادل خوب امنڈ کر آئے۔ پھر بارش ہونے لگی۔ دانیال باہر جا کر بارش میں بھیگنا چاہتے تھے۔ دادی نے منع کر دیا۔ موسم کچھ ایسا ہورہا تھا کہ کبھی سخت گرمی تو کبھی مرطوب ہوا۔ کچھ لوگوں کو کھانسی نزلہ ہورہا تھا۔ دادی نے کہا بھیگنے سے بیمار پڑگئے تو چھٹیاں غارت ہوجائیں گی۔ بس دانیال منہ پھلا کر ایک طرف کو کھڑے ہوگئے۔

    دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔ کھانا میز پر آچکا تھا۔ دادی نے آواز لگائی۔ ”آؤ بچّے کھانا کھا لو۔ دیکھو نسیمہ آپا نے گرم گرم پھولی ہوئی روٹیاں پکائی ہیں۔“

    ”ایسی گول اور پھولی ہوئی ہیں جیسے دانیال بھیا کا منہ۔“ نسیمہ نے انھیں چھیڑا۔

    دانیال کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ گرم گرم پھولی پھولی روٹیوں کی بات سن کر وہ غصہ بھول گئے اور ٹیبل پر آگئے۔

    ”پہلے جا کر ہاتھ دھوئیے۔ دادی نے تنبیہ کی۔ کھانے سے پہلے ہاتھ خوب اچھی طرح دھو لینے چاہییں۔ دانیال بھاگ کر واش بیسن پر چلے گئے۔ صابن لگا کر ہاتھ اچھی طرح دھوئے، پھر چھوٹی تولیہ سے پونچھ کر آگئے۔ تب نسیمہ نے ان کی پلیٹ میں توے سے اتاری پھولی ہوئی روٹی لاکر ڈالی۔ دانیال کی پسند کا انڈے آلو کا سالن بھی تھا۔

    ”بہت گرم ہے۔“ دانیال نے پھولی ہوئی روٹی میں انگلی ماری۔ بھاپ سے انگلی میں جلن محسوس ہوئی۔ جلدی سے اسے منہ میں ڈال لیا۔ اب روٹی پچک چکی تھی۔

    دادی۔ دادی۔ روٹی کیوں پھولتی ہے۔

    یہ اچھا سوال پوچھا تم نے۔ دادی نے کہا۔ پہلے کھانا کھالو، پھر بتاتے ہیں۔ کھانا کھالینے کے بعد دادی نے بتایا۔

    ”تمہیں معلوم ہے روٹی عام طور پر گیہوں کے آٹے سے بنتی ہے۔“

    ”معلوم ہے دادی۔ کچن میں کنستر بھر کر گیہوں کا آٹا رکھا ہے۔“

    ”ہاں۔ اسٹور روم میں گیہوں بھی ہے جو گاؤں سے آیا ہے۔ آٹا ختم ہوگا تو اسے لِپوا کر آٹا بنوا لیا جائے گا۔ روٹی پکانے سے پہلے اس آٹے کو گوندھا جاتا ہے۔

    دانیال نے سر ہلایا۔ ”جانتے ہیں“ دانیال اکثر کچن میں گھسے رہتے تھے۔

    ”گیہوں میں ایک چیز ہوتی ہے جسے گلوٹن (Gluten) کہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا پروٹین ہوتا ہے۔ تم ابھی چوتھے اسٹینڈرڈ میں ہو۔ اگلے سال شاید تمھیں پروٹین کے بارے میں کلاس میں بتایا جائے۔ بہرحال اس پروٹین کی وجہ سے آٹے میں لچک پیدا ہوتی ہے اور وہ کھینچا جاسکتا ہے۔ تم نے نسیمہ آپا کو یا ہمیں روٹی بیلتے دیکھا ہوگا۔ لچک کی وجہ سے ہی روٹی بڑھتی ہے۔ بہت سے لوگ تو بہت بڑی بڑی روٹیاں بنا لیتے ہیں۔“

    ”جیسے رومالی روٹی جو ہم نے ہوٹل میں کھائی تھی۔“

    ”شاباش۔ ٹھیک بتایا۔“ دادی نے کہا۔

    ”آٹے کو لوچ دار بنانے کے علاوہ یہ پروٹین اس میں ایک جال سا بنا دیتا ہے۔ اس کے ننھے ننھے خانوں میں گیس کے بلبلے پھنس جاتے ہیں۔ روٹی جب توے پر ڈالی جاتی ہے تو گرمی سے بھاپ بنتی ہے۔ یہ بھاپ گلوٹین کے ننھے ننھے خانوں کو پھلا کر اوپر کی طرف دھکیلتی ہے اور روٹی پھول جاتی ہے۔“

    دانیال نے سَر ہلایا۔ جیسے وہ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں۔ ”گرمی سے روٹی کے اندر بھاپ بنتی ہے۔ وہ آٹے میں موجود گلوٹین کے جال کو اوپر کی طرف دھکا دیتی ہے۔ اسی سے روٹی پھول جاتی ہے۔“ انھوں نے دہرایا۔ اور بولے ”ارے دادی پوریاں بھی تو پھولتی ہیں ا ور گول گپّے بھی۔“

    ”وہ بھی اسی اصول کے تحت پھولتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انھیں گرم تیل سے گرمی ملتی ہے۔“ وہ تیل میں تلے جاتے ہیں۔

    ”رات کے کھانے میں پوری کھلائیں گی دادی؟“ دانیال نے کہا۔

    ”ضرور۔ بشرطے کہ تم ساتھ میں ہری سبزی بھی کھاؤ۔ ہری سبزی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اسے کھانے کو کہا جائے تو روٹی کی طرح منہ مت پھلانا۔“ دادی نے پیار سے سَر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔

    (معروف بھارتی ادیب اور افسانہ نگار ذکیہ مشہدی کی بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانی)

  • تین بوڑھے اور کسان

    تین بوڑھے اور کسان

    کسی گاؤں میں ایک کسان کے گھر کے باہر تین پردیسی بوڑھے مرد آرام کی غرض سے بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔

    کسان کی بیوی نے ان کو دیکھا تو اُس کے دل میں آیا کہ یہ تینوں لمبے سفر سے آئے لگتے ہیں اور بھوکے ہوں گے۔ وہ انہیں کھانے کی دعوت دینے پہنچ گئی۔

    کسان کی بیوی نے انہیں کھانے کی دعوت دی تو ایک بوڑھا بولا ” کیا آپ کے گھر میں آپ کا شوہر یا رشتہ دار کوئی اور مرد موجود ہے؟” وہ بولی ” میرا شوہر کھیتوں میں ہل چلانے گیا ہے اور وہ شام کو واپس لوٹے گا۔” بوڑھے نے عورت کی بات سُن کر جواب دیا ” پھر ہم آپ کے گھر کھانا کھانے نہیں آ سکتے۔”

    بوڑھے کے جواب پر کسان کی بیوی واپس گھر لوٹ آئی اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہو گئی۔ شام کو کسان کھیتوں سے واپس لوٹا تو اُس نے تینوں بوڑھوں کو گھر کے قریب بیٹھا پایا تو اپنی بیوی سے پُوچھا ” یہ تینوں پردیسی مہمان لگتے ہیں کیا تم نے ان سے کھانے کا پوچھا۔”

    بیوی بولی، "میں نے پوچھا تھا، وہ تینوں کسی ایسے گھر میں کھانا نہیں کھاتے جہاں کوئی مرد موجود نہ ہو۔” یہ سُن کر کسان بولا، "تم ان کو دوبارہ دعوت دو اور بتاؤ کے میرا شوہر واپس لوٹ آیا ہے۔”

    کسان کی بیوی دوبارہ تینوں کے پاس گئی اور بولی کہ گھر میں میرا شوہر لوٹ آیا ہے، اب آپ تشریف لے آئیں اور کھانے پر ہمارے مہمان بنیں۔ ایک بوڑھا بولا ” ہم تینوں اکھٹے تمہارے گھر کھانا کھانے نہیں آ سکتے، تمہیں چاہیے ہم تینوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور کھانا کھلا دو۔”

    وہ بوڑھے کے عجیب جواب کو سن کر بولی ” آپ تینوں اکٹھے تشریف کیوں نہیں لاتے”، اس بات پر بوڑھے نے جواب دیا ہم تینوں میں سے کوئی ایک جہاں موجود ہو باقی دو وہاں سے چلے جاتے ہیں، پھر اپنے ایک ساتھی کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ دولت ہے اور یہ جس گھر میں جاتا ہے وہاں کے افراد کو دولت کی ریل پیل ہو جاتی ہے، پھر دوسرے ساتھ کی طرف اشارہ کر کے بولا یہ فتح ہے اور یہ جس گھر میں جائے اُس گھر کے افراد ہر میدان میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ پھر بولا میں محبت ہوں میں جہاں چلا جاؤں وہاں کے مکینوں کے دل محبت سے لبریز ہو جاتے ہیں، اس لیے تم گھر جاؤ اور مشورہ کرو کہ تمہیں ہم میں سے کس کی ضرورت ہے۔

    کسان کی بیوی گھر لوٹی اور شوہر کو بوڑھوں کے جواب سے آگاہ کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ہمیں دولت کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنا چاہیے تاکہ ہماری پیسے کی مشکلات حل ہو جائیں۔ یہ سُن کر کسان بولا ہمیں پیسے سے زیادہ کامیابی کی ضرورت ہے، اسے لیے ہمیں فتح کو اپنے گھر بلانا چاہیے، کسان کی بیٹی جو قریب بیٹھی دونوں کی گفتگو سُن رہی تھی بولی” اگر ہم محبت کو اپنے گھر بلائیں تو وہ ہمارے دلوں میں اتنا اطمینان بھر دے گا کہ ہم کو دولت اور کامیابی کی پروا نہیں رہے گی۔” دونوں میاں بیوی بیٹی کی بات سے متفق ہو گئے اور کسان کی بیوی نے جاکرمحبت کو دعوت دے دی۔

    ایک بوڑھا اٹھا اور کسان کی بیوی کے ساتھ چل پڑا، جب وہ کسان کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو کسان کی بیوی نے دیکھا کہ باقی بوڑھے بھی پیچھے ہی چلے آرہے ہیں۔

    اس نے پوچھا، آپ تینوں تو اکھٹے نہیں جاتے، اب کیا ہوا کہ دعوت پر اکٹھے آئے ہیں۔ بوڑھوں نے جواب دیا، فقط محبت ہم میں سے ایک ایسا فرد ہے جس کے بارے میں ہمیں حکم ہے کہ جہاں محبت جائے وہاں اُس کے پیچھے پیچھے چلے جاؤ۔

  • بسترِ مرگ پر بادشاہ کا سوال

    بسترِ مرگ پر بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ کی چار بیویاں تھیں۔ یوں تو وہ سبھی سے بہت محبت کرتا تھا، مگر ہر بیوی کے ساتھ اس کا الگ رویہ اور سلوک تھا۔

    چوتھی بیوی بادشاہ کی نورِ نظر تھی۔ بادشاہ اسے اکثر بیش قیمت تحائف دیتا اور باقی بیویوں کے مقابلے میں اُس کا جھکاؤ چوتھی بیوی کی طرف زیادہ تھا۔

    بادشاہ کی تیسری بیوی انتہائی خوب صورت تھی اور بادشاہ ہمیشہ دربار میں اُس کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتا تھا۔

    دوسری بیوی سمجھدار، بُردبار، مہربان اور تحمل مزاج تھی اور بادشاہ جب بھی کسی مشکل سے دوچار ہوتا اپنی اسی بیوی سے مشورہ کرتا اور اُس کے کہنے پر عمل بھی کرتا۔

    اس بادشاہ کی پہلی بیوی انتہائی وفا شعار اور ساتھ نبھانے والی خاتون تھی۔ اسی کی ہمّت اور حوصلہ افزائی نے بادشاہ کو اس سلطنت اور تاج و تخت کا مالک بنایا تھا مگر بادشاہ اُسے نظر انداز کر دیا کرتا تھا اور کبھی اُس کے کسی کام کی تعریف نہیں کی تھی۔

    ایک روز بادشاہ بیمار پڑ گیا۔ یہ بیماری اتنی بڑھ گئی کہ بادشاہ کو محسوس ہونے لگا کہ وہ اس دنیا میں کچھ دن کا مہمان ہے۔ وہ بستر پر پڑا سوچ رہا تھا کہ "میں کیسا بادشاہ ہوں؟، میری چار بیویاں ہیں اور جب میں مروں گا تو تنہا مروں گا۔ کوئی بھی میرے ساتھ نہیں جائے گا۔” اس نے اپنی چوتھی بیوی سے کہا ” میری نُور نظر میری موت قریب ہے، میں چاہتا ہوں تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ قبر کی تنہائی میں میرا ساتھ دے سکو۔” اس نے بادشاہ کی بات سن کر منہ دوسری طرف پھیر لیا اور پھر کمرے سے باہر چلی گئی۔ بادشاہ کو بڑا ملال ہوا۔ اس نے یاد کیا کہ کیسے وہ اس بیوی کی خاطر کرتا تھا اور اس کے لیے ہر آسائش مہیا کررکھی تھی۔ اس نے اپنی تیسری بیوی کو بلایا اور اس سے یہی بات کی مگر اس نے بھی ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔

    دونوں بیویوں کی ایسی سرد مہری دیکھ کر بادشاہ کا دل ڈوبنے لگا تو اُس نے اپنی دوسری زوجہ سے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ دوسری والی بولی، ” بادشاہ سلامت آپ خود ہی تو فرماتے ہیں، مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔ لہٰذا یہ منزل آپ کو تنہا ہی پار کرنی پڑے گی۔” بادشاہ نے مایوس ہوکر اس سے منہ پھیر لیا۔

    ان تینوں بیویوں کو آزمانے کے بعد جب بادشاہ تکلیف اور بے بسی کے ساتھ چھت کی طرف دیکھے جارہا تھا تو اس کے کانوں میں چوتھی بیوی کی آواز پڑی، وہ کہہ رہی تھی ”بادشاہ سلامت! میں آپ کے ساتھ چلوں گی جہاں بھی آپ جائیں گے میں ساتھ دوں گی۔” بادشاہ نے چوتھی بیوی کی طرف دیکھا جو دراصل بادشاہ کے التفات سے محرومی اور کسی موقع پر اہمیت نہ دیے جانے کے سبب ذہنی اذیت سے گزرتی رہی تھی، اور وہ انتہائی لاغر ہوچکی تھی۔ اس کی رنگت زردی مائل نظر آرہی تھی۔ بادشاہ نے اسے قریب پاکر انتہائی رنجیدہ لہجے میں کہا ” میری حقیقی غم خوار! ہائے صد افسوس، کاش میں نے تمہارا خیال اُس وقت رکھا ہوتا جب میرے قبضۂ قدرت میں اختیار تھا۔” یہ جملہ ادا کر کے بادشاہ کا سَر ایک طرف ڈھلک گیا۔ وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا تھا۔

    اس کہانی میں ایک سبق اور دنیا کی ایک حقیقت پوشیدہ ہے کہ گویا ہر انسان کی زندگی میں چار بیویاں ہوتی ہیں، چوتھی بیوی اُس کا جسم ہے جس کو توانا رکھنے کے لیے وہ ساری زندگی کوشش کرتا ہے مگر ایک دن اُسے یہ جسم چھوڑنا پڑتا ہے۔

    تیسری بیوی اس کا مال اور منصب ہے جو مرنے پر چھوٹ جاتا ہے اور دوسروں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دوسری بیوی کو اگر ہم اس کے رشتہ دار، دوست احباب فرض کریں تو ان کا حال ایسا کہ یہ ہر انسان کے مرنے کے بعد قبر تک اُس کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر واپس اپنی عارضی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

    پہلی بیوی کی مثال انسان کی روح جیسی ہے جس کا ہم ساری زندگی خوب صورت جسم حاصل کرنے کی چاہت، دولت، منصب و جاہ، شان و شوکت حاصل کرنے کی آرزو میں اور محفل عیش و طرب سجانے کے دوران خیال نہیں رکھ پاتے اور کوئی اہمیت نہیں دیتے، جب ہمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے تب تک یہ ضیف و لاغر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہمیں پہلی بیوی یعنی اپنی روح اور سیرت و کردار کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور یہی وہ سب ہے جو ہمارے مرنے کے بعد قبر میں ہمارا مضبوط سہارا بنتا ہے۔

    (قدیم اور سبق آموز کہانیاں)