Tag: بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات۔

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف بچوں کی تفریح ​​کرتے ہیں بلکہ انہیں سکھانے اور ان کی تربیت میں بھی مدد کرتے ہیں۔

Urdu stories and anecdotes have immense importance for children, including: 1. Language development: Exposes them to rich vocabulary, grammar, and pronunciation.

بچوں کے لیے اردو کہانیاں اور حکایات اردو کہانی

  • اصلی کون؟

    اصلی کون؟

    صدیوں پہلے ایک بادشاہ کو کیا سوجھی کہ اس نے اپنی سلطنت کے ہر خاص و عام کا امتحان لینے کی غرض سے ہیرے سے بھرا ایک بڑا تھیلا وزیر کو تھمایا اور کہا، ”اس میں چند اصلی ہیروں کے ساتھ نقلی ہیرے موجود ہیں جن میں‌ تمیز کرنا آسان نہیں‌ ہوگا۔ اصلی اور نقلی ہیروں کی پہچان کے لیے جوہریوں کو نہیں‌ عام آدمی کو بلانا، یہ کام کوئی بھی ذہین اور دانا شخص کرسکتا ہے۔”

    وزیر نے بادشاہ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اس کی سلطنت میں اعلان کروایا ”جوہریوں کے علاوہ جس شخص کو اپنی ذہانت اور قابلیت پر ناز ہو اور وہ اصلی اور نقلی ہیروں کو پہچان کر الگ کر دے اُسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا لیکن اگر کوئی ناکام ہوگیا تو ہمیشہ کے لیے زندان میں پھینک دیا جائے گا۔”

    یہ اعلان سن کر کئی لوگ اپنے علم اور ذہانت کو آزمانے کے لیے بادشاہ کے محل پہنچے مگر نقلی ہیرے ظاہری طور پر اور ہر لحاظ سے اصلی ہیروں سے اس قدر قریب تھے کہ ان سے تو جوہری بھی یہ دھوکا کھا جاتے، عام آدمی کیسےکام کرتا اور یہی وجہ تھی کہ ان سب کو قید خانہ میں پھینک دیا گیا۔ کئی لوگوں کو ناکام کوشش کے بعد سزا ہو چکی تھی اور یہ دیکھ کر کوئی بھی منہ مانگے انعام کی لالچ میں آگے بڑھنے کو تیار نہ تھا۔

    ایک روز ایک عمر رسیدہ اندھا محل کے دروازے پر پہنچا اور کہا کہ وہ منادی سن کر آیا ہے اور اصلی ہیروں کو الگ کرنا چاہتا ہے۔ اسے بادشاہ تک رسائی دی جائے۔ محافظوں نے یہ سنا تو قہقہے لگانے لگے اور بوڑھے کا خوب مذاق اڑایا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور تب اس کو وزیر تک پہنچا دیا گیا۔ وزیر اور اس کے ساتھیوں کو جب معلوم ہوا کہ بوڑھا نابینا ہے تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگے اور طعنے دیے۔ وزیر نے کہا بڈھے کیوں اپنی جان کا دشمن ہوا ہے، یہاں‌ تجھ سے پہلے کئی جوان اور ہر لحاظ سے صحت مند آئے مگر ان سے یہ کام نہ ہوسکا۔ اب بھی وقت ہے گھر لوٹ جا اور باقی ماندہ زندگی بینائی لوٹ آنے کی دعائیں‌ کرتے ہوئے گزار دے۔ یہ کڑوی اور دل فگار باتیں سن کر بوڑھے نے وزیر کو کہا کہ آپ کی شان سلامت رہے، میں قسمت آزمائے بغیر نہیں‌ جانا چاہتا۔ وزیر نے اسے بادشاہ تک پہنچا دیا۔

    بادشاہ نے اسے دیکھ کر کہا ” کیوں اپنی جان کے دشمن بنتے ہو، تم سے پہلے آنکھوں والے کئی قابل لوگ اس مقصد میں ناکام ہوکر زندان میں سڑ رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ تم اپنے اس قصد سے باز آجاؤ، میں ڈرتا ہوں کہ اس عمر کے ایک اندھے کو قید خانہ میں زندگی کے دن پورے نہ کرنا پڑ جائیں۔”

    اندھے نے ادب سے جواب دیا، ” بادشاہ سلامت میں اگر اصلی ہیرے نہ پہچان سکا تو میں آپ کی سزا کے لیے خوشی سے تیار ہوں۔ یہ میرا انتخاب ہو گا، آپ سے کوئی شکوہ کیوں کروں گا۔”

    بادشاہ نے اندھے کو ہیرے پہچاننے کی اجازت دے دی۔ وہ اندھا ہیروں کا تھیلا لے کر ایک کمرے میں چلا گیا۔ اور کچھ دیر کے بعد آکر بولا کہ اس نے اصلی اور نقلی ہیرے الگ کر لیے ہیں۔ بادشاہ نے وزیر کو اشارہ کیا۔

    وزیر نے اچھی طرح ہیروں کا معائنہ کیا اور بادشاہ سے بولا ” عالی جاہ! حیرت کا مقام ہے، ایک اندھا نقلی ہیروں کو اصلی ہیروں سے الگ کرنے میں واقعی کام یاب ہو گیا ہے۔”

    بادشاہ یہ جان کر دنگ رہ گیا۔ اس نے بے چینی سے اندھے سے پوچھا، تم نابینا ہو اس کے باوجود اصلی اور نقلی ہیروں کو پہچان لیا، ہمیں‌ یہ راز بتاؤ؟ اندھا بولا ” یہ کام بہت آسان تھا جناب۔ میں نے سارے ہیرے آگ کے قریب رکھ دیے، جو ہیرے اصلی تھے ان کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ آگ کی حدّت سے گرم نہیں ہوئے تھے اور جو نقلی تھے وہ تپنے لگے، میں ان کو الگ کرتا گیا۔”

    بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اندھے کو بہت سا انعام دیا اور جب وہ بوڑھا رخصت ہونے لگا تو بادشاہ سے بولا کہ میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے اسے بخوشی اجازت دے دی۔ وہ بولا، حضور دنیا میں محنتی اور بہترین اوصاف کے مالک انسان کی پہچان بھی اسی طرح کی جاسکتی ہے کہ جو محنتی اور اعلیٰ ظرف ہوتا ہے وہ ان ہیروں جیسا ہی ہے کہ جب دنیا کی مشکلات اور تلخیاں اس پر پڑتی ہیں‌ تو وہ ان کو سہہ لیتا ہے اور دل شکنی کرنے والوں اور ان کے طنز اور طعنوں کے مقابلے میں اپنے اوصافِ‌ حمیدہ کو مٹی میں‌ نہیں ملا دیتا اور اخلاق سے نہیں گرتا بلکہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے شخص کی مثال اصلی ہیرے جیسی ہوتی ہے۔ مگر وہ جو ان تلخیوں پر اپنا توازن کھو بیٹھے، اور نچلی سطح تک گر جائے، وہ نقلی ہوتا ہے۔ یہ کہہ نابینا شخص دربار سے چلا جاتا ہے اور وہ تمام وزیر اور درباری شرمندہ ہو کر نظریں نیچی کر لیتے ہیں جو کچھ دیر پہلے اسے معذور اور ناتواں سمجھ کر طعنے دے رہے تھے۔

    (ایک سبق آموز قدیم کہانی)

  • وہ کوئی عام چور نہیں تھا!

    چین کے ہانگی چو شہر میں ایک مشہور ڈاکو رہتا تھا۔ اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا مگر سب اسے ’لو میں آیا‘ کے نام سے جانتے تھے۔ وہ جہاں بھی ڈاکہ ڈالتا، چوری کرتا وہاں کسی دیوار پر’’لو میں آیا‘‘ ضرور لکھ دیا کرتا تھا۔

    رفتہ رفتہ اس کی سرگرمیاں اتنی بڑھی گئیں کہ عوام نے حکومت سے درخواست کی کہ انہیں اس سے چھٹکارا دلایا جائے۔ کوتوال کو حکم دیا گیا کہ کسی بھی طرح ’’لو میں آیا‘‘ کو گرفتار کر لیا جائے۔ گرفتاری کے لئے آٹھ روز کی مدت مقرر کر دی گئی۔

    کوتوال سوچ میں پڑ گیا۔ وہ کوئی عام چور نہیں تھا، وہ اتنا چالاک تھا کہ کسی کے پاس اس کی پوری معلومات نہیں تھی، کوئی اس کے رنگ روپ، قد و قامت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ایسے چور کو ایک مقررہ وقت کے اندر گرفتار کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔

    کوتوال اور اس کے عملے نے چور کی تلاش میں رات دن ایک کر دیے۔ آخر ایک شخص کو گرفتار کر کے منصف کے سامنے پیش کر دیا۔ کوتوال نے کہا ’’حضور! یہی ’’لو میں آیا‘‘ ڈاکو ہے۔ اسے سخت سے سخت سزا دے کر شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کیجئے۔ ‘‘

    منصف نے پوچھا ۔’’تمہار پاس کیا ثبوت ہے کہ یہی وہ ڈاکو ہے۔‘‘

    ’’حضور!‘‘ کوتوال نے عرض کیا ’’ہم نے بڑی ہوشیاری سے اس پر نگاہ رکھی اور اس کی نقل و حرکت کی خبر رکھتے رہے۔ یقین ہو جانے کے بعد ہی ہم نے اسے گرفتار کیا ہے۔‘‘ منصف نے ملزم سے پوچھا ۔’’تمہارا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟‘‘

    ’’حضور! انہیں اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کسی نہ کسی کو گرفتار کرنا ہی تھا۔ بدقسمتی سے میں ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ یہ مجھے پکڑ لائے میں بے گناہ ہوں۔‘‘ ملزم نے کہا۔

    مصنف کو شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر کوتوال نے کہا،’’حضور! آپ اس کی باتوں کا اعتبار نہ کریں۔ یہ بہت چالاک ہے۔‘‘

    منصف نے کوتوال کی بات کا اعتبار کر لیا اور قیدی کو فی الحال قید خانے میں رکھنے کا حکم جاری کر دیا۔

    قیدی درحقیقت ’’لو میں آیا‘‘ ہی تھا۔ اس نے قید خانے پہنچتے ہی اپنی چالاکی دکھانی شروع کر دی۔ اس نے جیل کے محافظوں سے تو دوستی کی ہی جیل کے افسر سے تنہائی میں کہا: ’’خالی ہاتھ بڑوں کی خدمت میں حاضر ہونا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ میرے پاس جو کچھ تھا وہ مجھے قید کرنے والے سپاہیوں نے چھین لیا۔ پھر بھی آپ کو میں ایک چھوٹا سا نذرانہ دینا چاہتا ہوں۔ پہاڑی پر دیوتا کے مندر کے اس ایک اینٹ کے نیچے میں نے تھوڑی سی چاندی چھپا رکھی ہے۔ آپ اسے لے لیں۔‘‘

    افسر نے پہلے تو قیدی کی بات کا اعتبار نہیں کیا، مگر پھر بھی قیدی کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا اور نشان زدہ اینٹ ہٹا کر دیکھا تو وہاں سے ایک سیر چاندی برآمد ہوئی۔ افسر نے وہ چاندی رکھ لی۔

    اس واقعے کے بعد قید خانے کا وہ افسر ڈاکو کے ساتھ دوستانہ سلوک کرنے لگا۔ چند روز گزر گئے۔ ایک روز ڈاکو نے افسر سے موقع دیکھ کر کہا کہ صاحب، میں نے فلاں پل کے نیچے بہت سے دولت گاڑ رکھی ہے۔ آپ وہ بھی لے لیجئے۔ اب میرے تو کسی کام کی نہیں۔ افسر نے کہا ’’پل پر ہمیشہ لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ میں وہاں سے گڑی ہوئی دولت کیسے نکل سکتا ہوں؟‘‘

    ’’آپ اپنے ساتھ دو چار جوڑے کپڑے لے جائیں۔ ساتھ میں ایک خالی تھیلا بھی لے جائیں۔ سب سمجھیں گے آپ ندی پر کپڑے دھونے گئے ہیں۔ آپ دولت نکال کر تھیلے میں ڈال لیں۔ کپڑے بھی پانی میں گیلے کر کے تھیلے میں ڈال لیں اور تھیلا لے آئیں۔ کوئی آپ پرشک نہیں کر سکتا۔‘‘ قیدی نے ترکیب بتائی۔ افسر نے قیدی کی ترکیب پر عمل کیا اور پل کے نیچے سے دولت نکال لایا۔ اب ان دونوں کی دوستی اور گہری ہو گئی۔

    ایک رات افسر اپنے قیدی دوست کے لئے جیل خانے میں شراب لایا۔ دونوں نے بیٹھ کر شراب پی۔ جب افسر کونشہ چڑھ گیا تو قیدی نے اس سے کہا، آج رات مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئے، سویرے تک میں لوٹ آؤں گا۔ آپ اپنے دل میں یہ خیال بالکل نہ لائیں کہ میں فرار ہونا چاہتا ہوں، اگر میں فرار ہوتا ہوں تواس کا مطلب ہوگا کہ میں نے اپنے جرم کو قبول کر لیا۔ اور میں بھاگوں کیوں؟ آج نہیں تو کل منصف مجھے رہا کر ہی دے گا، کیوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔‘‘

    قیدی نے اتنے اعتماد سے یہ بات کہی کہ کوتوال پس و پیش میں پڑ گیا۔ قیدی کے فرار ہونے یا جیل خانے سے باہر جانے کی بات پھیل جاتی تو اس کی ملازمت کو خطرہ ہو سکتا ہے مگر قیدی پر اسے بھروسہ ہو چکا تھا، اس لئے اس نے اسے اجازت دے دی۔

    قیدی نے باہر جانے کے لئے دروازے کا استعمال نہیں کیا۔ وہ چھت پر سے کود کر قید خانے سے باہر چلا گیا۔ صبح ہونے سے پہلے وہ واپس بھی آ گیا۔ اس نے خراٹے لے کر سوتے افسر کو جگایا۔

    ’’لو میں آیا!‘‘افسر نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’آتا کیسے نہیں؟ میرے نہ لوٹنے سے آپ کی عزّت خاک میں مل جاتی۔ مجھے یہ گوارا نہ تھا۔ آپ نے جو احسان مجھ پر کیا ہے اسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ شکریے کے اظہار کے لئے میں آپ کے گھر میں، ایک چھوٹا سا تحفہ دے آیا ہوں۔ آپ گھر جاکر تحفہ دیکھ آئیں۔ مجھے تو اب قید خانے سے جلد ہی رہائی مل جائے گی۔‘‘ قیدی نے کہا۔

    قید خانے کا افسر فوراً گھر پہنچا۔ اس کی بیوی نے خوشی خوشی اسے خبر دی۔’’جانتے ہو آج کیا ہوا؟ سویرا ہونے میں تھوڑی دیر باقی تھی کہ روشن دان میں سے ایک گٹھری اندر آ گری۔ میں نے کھول کر دیکھا، اس میں سونے چاندی کی تھالیاں تھیں۔‘‘

    افسر سمجھ گیا کہ قیدی اسی تحفے کا ذکر کر رہا تھا۔ اس نے بیوی کو ہدایت دی ۔’’کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا۔ ان تھالیوں کو چھپا کر رکھ دو۔ جب کچھ وقت گزر جائے گا تب ہم انہیں بیچ کر نقد روپے حاصل کر لیں گے۔‘‘

    دوسرے دن عدالت میں کئی فریادی حاضر ہوئے۔ سب کا کہنا یہی تھا کہ رات ان کے گھر سے سونے چاندی کا قیمتی سامان چوری ہو گیا۔ سب کے گھر کی دیواروں پر’’لو میں آیا‘‘ لکھا ہوا تھا۔

    منصف نے کوتوال سے کہا ۔’’وہ قیدی صحیح کہتا تھا، وہ ’’لو میں آیا‘‘ نہیں ہے۔ وہ تو قید خانے میں ہے اور’’لو میں آیا‘‘ اب بھی دھڑلے سے چوریاں کر رہا ہے۔ اصلی چور کی تلاش کی جائے اور اس بے گناہ کو آزاد کر دیا جائے۔

    قید خانے کا افسر اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ یہی اصلی چور ہے مگر وہ کسی سے اس حقیقت کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اس نے چور سے نہ صرف پہلے بلکہ حالیہ چوری میں سے بھی حصہ حاصل کیا تھا۔ قیدی کو آزاد کر دیا گیا۔

    (بھارتی ادیب بانو سرتاج کی بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانی)

  • راتب

    انکم ٹیکس انسپکٹر کو تین ماتحتوں کے ساتھ دیکھ کر اُس نے اپنی حالت درست کی پھر دکان کی گدی سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔

    اُس نے عجلت سے ہاتھ جوڑ کر اُنہیں سلام کیا اور اُنہیں بٹھانے کے لیے سامنے پڑی کرسیوں کو اپنی دھوتی کے پلو سے صاف کرنے لگا۔

    آنے والے افسر اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو وہ اُن کے کھانے کے لیے کچھ خشک میوے اور پھلوں کا جوس لے آیا۔

    افسر اعلیٰ نے کھانے پینے کے بعد انگلیوں سے اپنی مونچھوں صاف کیں اور دکان دار سے حساب کتاب کا رجسٹر لے کر اُس کی پڑتال کرنے لگا۔ ایک صفحے پر اُس کی نظر ٹھہر گئی۔ وہ کچھ حیران سا ہوا پھر مسکرایا۔ اُس نے اپنے ماتحتوں کو وہ صفحہ دکھایا اور پڑھ کر سنایا تو وہ تینوں بھی مسکرانے لگے۔

    "کیسے لوگ ہیں۔ انکم ٹیکس بچانے کے لیے کتّے کو ڈالی گئی روٹی کے ٹکڑے تک کی قیمتِ اخراجات میں لکھ دیتے ہیں۔” افسرِ اعلیٰ نے تبصرہ کیا۔

    رجسٹر کے کھلے صفحے پر درج تھا: ” مورخہ بارہ فروری سنہ…. کتّے کا راتب 50 روپے۔”

    دکان دار بھی کھسیانے انداز میں اُن کے ساتھ ہنسنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ چلے گئے۔
    دکان دار نے وہ رجسٹر دوبارہ کھولا۔ خشک میوے اور پھلوں کے جوس پر آنے والے اخراجات جوڑے اور رجسٹر میں ایک نئی سطر کا اضافہ کر دیا۔

    تاریخ 20 اگست سنہ…. کتّوں کا کھانا 150 روپے۔

    (درشن متوا کی اس ہندی کہانی کے اردو مترجم احمد صغیر صدیقی ہیں)

  • جواری لڑکا اور بیج

    پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ایک گاؤں میں ایک نوجوان رہتا تھا، جس کی عادتیں خراب ہو گئی تھیں۔

    وہ ہر روز جوا کھیلتا اور اکثر ہار جاتا۔ کبھی کبھی تو وہ ہر چیز جوے میں ہار جاتا تھا اور پھر اپنے باپ کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرتا تھا۔ اس کے باپ نے کئی مرتبہ ڈانٹا ڈپٹا، مگر لڑکے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ البتہ دو چیزیں اس کو ایسی عزیز تھیں کہ انھیں کبھی داؤ پر نہیں لگاتا تھا۔ یہ اس کا برچھا اور ڈھال تھی۔

    ایک دن وہ بہت دیر تک جوا کھیلتا رہا اور ان دو چیزوں کے علاوہ ہر چیز ہار گیا۔ جب وہ گھر گیا تو باپ نے پوچھا کہ اتنی دیر تک وہ کیا کرتا رہا؟ اس کو جھوٹ بولنے کی عادت نہیں تھی۔ یہ بڑی خوبی تھی، اس نے سچ سچ کہہ دیا کہ وہ جوا کھیل رہا تھا اور آج ہر چیز ہار گیا۔ اس کا باپ تنگ آ چکا تھا، اس لیے اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا: "میرے بیٹے! ایک مدت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ تو جوا کھیلتا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ سمجھایا، مگر تو باز نہیں آتا۔ اب میں تیری اس حرکت کو برداشت نہیں کر سکتا۔ تو اب میرے گھر میں نہیں رہ سکتا، تو اب کسی اور جگہ چلا جا۔”

    یہ سن کر نوجوان تھوڑی دیر تک سوچتا رہا، اس کے بعد اس نے کہا: "اچھا میں جاتا ہوں۔ اب میں ان شاءاللہ اچھے اچھے کام کروں گا۔”

    یہ کہہ کر اس نے اپنا برچھا اور ڈھال اٹھائی اور گھر سے نکل گیا اور پھر گاؤں سے باہر چلا گیا۔ کچھ دیر تک وہ چلتا رہا۔ اس کے بعد اچانک اس کو ایک شور سا سنائی دیا، جیسے بڑے زور کی آندھی آ رہی ہو۔ یہ آواز اس کے قریب آتی گئی اور ایسا لگا کہ آواز اس کے سر کے اوپر سے آ رہی ہے، مگر تھوڑی دیر میں آواز آنا بند ہو گئی اور کسی نے کہا: "میں تیری تلاش میں آئی ہوں۔ مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں۔”

    یہ آواز ہوا کی تھی۔ نوجوان ہوا کے ساتھ جانے پر فوراً تیار ہوگیا۔ ہوا نے اس کو اوپر اٹھایا اور مغرب کی طرف روانہ ہو گئی۔ کئی روز تک وہ دونوں مغرب کی طرف اڑتے رہے۔ راستے میں پہاڑ، دریا، سبزہ زار، ریگستان سب گزرتے رہے۔ آخر وہ دنیا کی آخری سرحد پر وہاں پہنچ گئے، جہاں آسمان جھک کر زمین سے مل جاتا ہے۔ وہاں نوجوان نے آسمان کے کنارے پر بڑا سا پھاٹک دیکھا۔ اس پھاٹک پر ایک بہت بڑا بھینسا راستہ روکے کھڑا تھا۔ اس بھینسے کی کھال لمبے لمبے بالوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہر سال اس کی کھال سے ایک بال جھڑ جاتا تھا۔ مشہور تھا کہ جب اس کے تمام بال جھڑ جائیں گے تو تمام دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جب ہوا پھاٹک پر پہنچی تو بھینسا ایک طرف ہٹ گیا۔ ہوا نوجوان کو لے کر پھاٹک کے اندر چلی گئی۔ پھاٹک سے گزرنے کے بعد نوجوان کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دونوں ایک بڑے سمندر پر سے گزر رہے ہیں۔ آسمان اور پانی کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آخر کار وہ ایک زمین پر اترے۔ یہاں بہت سارے آدمیوں کا ایک مجمع لگا ہوا تھا۔ ہوا نے نوجوان سے کہا: "یہ سب لوگ بابا کے نوکر چاکر ہیں۔”

    اس مجمع سے گزر کر یہ دونوں آگے بڑھے اور بابا کے محل پر پہنچے۔ محل میں داخل ہو کر دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ بابا نے نوجوان سے کہا: "میرے بیٹے! میں تجھے ایک مدت سے جانتا ہوں۔ میں تجھے برابر دیکھتا رہتا تھا، میں تجھ سے ملنا چاہتا تھا، اس لیے میں تجھے جوے میں ہرا دیتا تھا۔ میں نے تجھے بلانے کے لیے اپنی ہوا کو بھیجا۔ تیری قوم کے لوگ آج کل فاقوں سے مر رہے ہیں، کیوں کہ انھیں شکار کرنے کے لیے بھینسے نہیں مل رہے ہیں۔ میں تجھے ایسی چیزیں دوں گا کہ اگر کبھی بھینسے نہ ملیں’ تب بھی تیری قوم بھوکی نہیں رہے گی۔”

    یہ کہہ کر بابا نے اسے تین تھیلیاں دیں۔ ایک تھیلی میں کدو کے بیج تھے، جو سرخ، سفید، نیلے اور پیلے رنگوں کے تھے۔

    بابا نے کہا: "ان تھیلیوں کو تو اپنی ڈھال میں باندھ لے۔ اس کا خیال رکھا کہ کوئی تھیلی گر نہ جائے۔ جب تو اپنی قوم میں پہنچ جائے تو ہر ہر شخص کو ان تھیلیوں کے تھوڑے تھوڑے بیج دے کر کہہ دے کہ وہ انھیں زمین میں گاڑ دیں۔ ان میں سے جو پودے نکلیں گے، ان میں یہی بیج بکثرت پیدا ہو جائیں گے۔ یہ سب کھانے کے قابل اور مزے دار ہوں گے، مگر پہلے سال ان کو کوئی نہ کھائے، بلکہ جو بیج حاصل ہوں، انھیں پھر زمین میں بو دیں۔ اس کے بعد ان پودوں میں جو کچھ بیج لگیں گے، ان کا ایک حصہ کھا لیں اور ایک حصہ پھر بو دیں۔ اس طرح تیری قوم کے پاس ہر وقت کچھ نہ کچھ موجود رہے گا، خواہ بھینسوں کا شکار ملے یا نہ ملے۔”

    یہ کہہ کر بابا نے اس کو بھینسے کی ایک جھول بھی دی اور کہا: "کل جب تو اپنے گاؤں پہنچ جائے تو اپنی قوم کے لوگوں کو اپنے گھر پر جمع کر اور جو کچھ اس جھول میں ہے’ ان لوگوں کو دے دینا اور یہاں کی سب باتیں بتا دینا۔ اچھا اب تو چلا جا۔”

    ہوا اس نوجوان کو پھر اڑا کر لے گئی۔ وہ بہت دیر تک اڑتے رہے۔ اور گاؤں پہنچ گئے۔ وہاں ہوا نے آہستہ سے اس کو زمین پر اتار دیا۔ نوجوان اپنے باپ کے گھر پہنچا اور کہا: "ابا! دیکھو’ میں آگیا ہوں۔”

    باپ کو یقین نہیں آیا۔ اس نے کہا: "تو میرا بیٹا نہیں ہے!”

    نوجوان کو گاؤں سے گئے ہوئے اتنی مدت گزر چکی تھی کہ سب نے یہ سمجھ لیا کہ وہ کہیں مرکھپ گیا ہو گا۔ باپ کا جواب سن کر نوجوان ماں کے پاس گیا اور کہا: "اماں! دیکھو میں آگیا ہوں۔”

    ماں اس کو پہچان گئی اور بہت خوش ہوئی۔ اس زمانے میں گاؤں والے بھینسوں کو تلاش کر رہے تھے، مگر کوئی بھینسا نہیں ملا تھا۔ سب کے سب فاقے کر رہے تھے۔ چھوٹے بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔

    دوسرے دن نوجوان نے ایک بوڑھے آدمی کو قوم کے تمام آدمیوں کے پاس بھیج کر انھیں اپنے باپ کے گھر بلوایا۔ جب سب جمع ہو گئے تو اس نے وہ جھول کھولی۔ جھول کھول کر بچھاتے ہی اس پر بھینسے کے عمدہ، چربی دار گوشت کا ڈھیر نظر آیا۔ نوجوان نے ہر ایک کو اتنا گوشت دیا’ جتنا وہ اٹھا کر لے جا سکتا تھا۔ نوجوان جب گوشت تقسیم کر رہا تھا تو اس کے باپ نے چاہا کہ بھینسے کی دو پچھلی ٹانگیں چپکے سے نکال کر کہیں چھپا دے۔ باپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں نوجوان سارا گوشت تقسیم نہ کر دے اور ان کے اپنے لیے کچھ نہ رہے۔ اتفاق سے نوجوان نے اپنے باپ کی یہ حرکت دیکھ لی۔ اس نے اپنے باپ سے چپکے سے کہا: "ابا! اس میں سے کچھ نہ لو۔ اس گوشت کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ گوشت سب کو کافی ہو جائے گا۔”

    جب نوجوان سب گوشت تقسیم کر چکا تو اس نے وہ تھیلیاں نکالیں اور سب کو سمجھا دیا کہ وہ بیج بو دیں، مگر پہلے سال اس کی پیدوار میں سے کچھ نہ کھائیں۔ دوسرے سال پھر بو دیں اور پیداوار کا ایک حصہ کھائیں اور ایک حصہ بونے کے لیے رکھ دیں۔

    سب آدمیوں نے اس کی ہدایت غور سے سنی اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔

    اس کے بعد نوجوان نے کہا: "میں نے سنا ہے تمھیں کئی روز سے شکار نہیں ملا۔ کل تم سب لوگ میرے ساتھ شکار کے لیے چلو، میں تمھیں ایسی جگہ لے جاؤں گا جہاں بھینسے موجود ہیں۔”

    یہ سن کو لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی، کیوں کہ وہ گاؤں کے اطراف کا سارا علاقہ چھان چکے تھے۔

    دوسرے دن سب گاؤں والے اس نوجوان کے ساتھ شکار کو نکلے۔ گاؤں سے کچھ دور جانے کے بعد وہ لوگ ایک پہاڑی کے قریب پہنچے۔ نوجوان نے دو لڑکوں کو پہاڑی پر بھیجا اور کہا: "اس پر چڑھ کر چاروں طرف نظر ڈالیں اور پھر بتائیں کہ کہیں بھینسے نظر آتے ہیں یا نہیں؟ جب وہ لڑکے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئے تو انھوں نے پہاڑی کی دوسری طرف بھینسوں کا ایک بہت بڑا گلہ دیکھا اور گاؤں والوں کو اس کی اطلاع دی۔ گاؤں والے شکار کے لیے تیار ہو گئے اور اپنی کمانیں سنبھال کر شکار کی طرف دوڑے۔ بھینسوں کا گلہ دوڑنے لگا۔ گاؤں والوں نےا پنے تیروں سے کئی بھینسوں کو گرا دیا۔ اب گاؤں میں گوشت کا ڈھیر لگ گیا۔ اس کے چار روز بعد نوجوان نے پھر ان ہی لڑکوں کو بھینسوں کی تلاش میں بھیجا۔ بھینسے پھر مل گئے اور خوب شکار ہوا۔

    اب گاؤں کے لوگوں کے ہاں گوشت کا بڑا ذخیرہ ہو گیا۔ بہار کا موسم شروع ہوا اور انھوں نے نوجوان کی ہدایت کے مطابق وہ بیج بو دیے۔ جب ان بیجوں سے پودے نکلے تو انھیں دیکھ کر گاؤں والوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ انھوں نے زمین سے اس طرح پودوں کا اگنا نہیں دیکھا تھا۔ یہ سب پودے ایسے تھے کہ اس سے پہلے انھوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جب ان پودوں میں سے دانے نکلنے لگے اور وہ پک گئے تو نوجوان نے ان میں سے چند دانے گاؤں والوں کو کھلائے۔ سب نے ان کو چکھ کر مزیدار بتایا، پہلی فصل کے سارے بیج محفوظ رکھ دیے گئے اور پھر دوسرے سال بو دیے گئے۔ اب مکئی کے ڈھیر لگنے لگے۔ گاؤں والے انھیں کھاتے بھی تھے اور اگلے سال کے لیے بیج بچا کر بھی رکھتے تھے۔ نوجوان نے انھیں یہ ترکیب سکھائی کہ جو بیج اگلے سال بونے کے لیے رکھے جاتے ہیں، ان کے اندر چربی کا ایک ٹکڑا بھی رکھ دیا کریں اور ان بیجوں کو نگاہوں سے دور رکھا جائے۔ موسم خزاں میں یہ بیج نکال کر ان پر چربی مل دی جائے اور پھر یہ بیج بو دیے جائیں۔ اس طرح فصل اچھی پیدا ہو گئی اور کبھی فاقوں کی نوبت نہیں‌ آئے گی۔

    (مصنّف: نامعلوم)

  • ٹیڑھی کھیر ہے!

    اونٹ کے گلے میں بلی، دودھ کا دودھ پانی کا پانی، یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے، اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا، اس قسم کے عجیب جملے آپ اپنے بڑے بوڑھے اور بزرگوں سے اکثر سنتے ہوں گے۔

    ایسے جملوں کو کہاوت یا ضرب المثل یا مختصراً صرف مثل کہا جاتا ہے۔ کہاوت کسی واقعے یا بات میں چھپی ہوئی سچائی یا عقل کی بات کو سمجھانے کے لیے بولی جاتی ہے۔

    کہاوتیں بڑی دل چسپ اور مزے دار ہوتی ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی بھی ہوتی ہے۔ مگر ایک بات یاد رکھیے گا، یہ کہانیاں ضروری نہیں کہ سچ ہی ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کہاوت مشہور ہوئی تو لوگوں نے اس کی کہانی بنا لی، ہاں ان کہانیوں سے یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ کہاتوں کا مطلب، ان کا صحیح استعمال اور ان میں چھپا ہوا سبق یا دانش مندی کی بات ذہن میں بیٹھ جاتی ہے۔

    یعنی مشکل کام ہے۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی ٹیڑھا اور بہت مشکل کام سر پر آن پڑے۔

    اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کھیر پکائی۔ سوچا اللہ کے نام پر کسی فقیر کو بھی تھوڑی سی کھیر دینی چاہیے۔ اسے جو پہلا فقیر ملا اتفاق سے نابینا تھا اور اس فقیر نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی۔ جب اس شخص نے فقیر سے پوچھا، ’’کھیر کھاؤ گے؟‘‘

    تو فقیر نے سوال کیا، ’’کھیر کیسی ہوتی ہے؟‘‘

    اس شخص نے جواب دیا، ’’سفید ہوتی ہے۔‘‘

    اندھے نے سفید رنگ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ پوچھنے لگا، ’’سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟‘‘

    اس شخص نے کہا، ’’بگلے جیسا۔‘‘

    فقیر نے پوچھا، ’’بگلا کیسا ہوتا ہے؟‘‘

    اس پر اس شخص نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بنایا اور بولا، ’’بگلا ایسا ہوتا ہے۔‘‘

    نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگا، ’’نہ بابا یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ گلے میں اٹک جائے گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔‘‘

    (کہاوتوں کی کہانیاں سے ایک کہانی جس کے مصنّف رؤف پاریکھ ہیں)

  • مالی کا ارادہ

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی، موگرا موتیا وغیرہ۔ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دلربا بنائے ہوئے تھے۔

    شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔ بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔

    پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالانکہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہوں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا ہے، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے۔ لیکن ہم تو راجا ہیں راجا بغیر گھی مسالہ کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹھل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم…”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی: سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی: میں اپنی تعریف کیا سناؤں، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کرتی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل:۔ میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی:۔ میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں، اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقتور اور روغنی ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا۔ کیا معلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)

  • پمپیائی کا کتّا

    پمپیائی کا کتّا

    آج سے دو ہزار سال پہلے پمپیائی سلطنت روم کا ایک نہایت خوبصورت شہر تھا۔ اس شہر کے باہر ایک آتش فشاں پہاڑ تھا جسے ویسوَیس کہتے تھے۔ پمپیائی کے باشندے بڑے عیّاش اور بد کار لوگ تھے۔ اُن میں نیکی اور خدا ترسی نام کو یہ تھی۔ طاقت ور کم زوروں کو بے گناہ مار ڈالتے۔ ساہوکار اور مال دار غریبوں کا خون چوستے اور اس طرح اُنہوں نے اپنے گھروں میں بے شمار سونا چاندی جمع کر لیا تھا۔

    آخر جب ان لوگوں کے گناہ حد سے زیادہ ہو گئے تو اُن پر خدا کا عذاب نازل ہوا۔ ایک روز آتش فشاں پہاڑ پھٹ گیا اور اُس میں سے پگھلتا ہوا سرخ لاوا پانی کی طرح بہہ نکلا۔ پمپیائی پر آگ کے شعلوں کی بارش ہوئی اور سارا شہر ایک خوف ناک زلزلے سے تھوڑی ہی دیر میں خاک کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔ یہ کہانی جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں اِسی پمپیائی سے تعلّق رکھتی ہے۔

    ٹیٹو اور اُس کا کُتّا بمبو، شہر کی فصیل کے باہر رہا کرتے تھے۔ قریب ہی بڑا دروازہ تھا، جس کے راستے باہر کے لوگ شہر میں جاتے تھے۔ ٹیٹو اور بمبو یہاں سونے کے لیے آتے تھے۔ اُن کا یہاں گھر نہ تھا۔۔۔ اُن کا گھر تو کہیں بھی نہ تھا۔ وہ جہاں چاہتے، چلے جاتے اور جس جگہ جی چاہتا سو جاتے۔ شہر میں ہر وقت دھماچوکڑی مچی رہتی تھی۔ میدانوں میں مختلف کھیل تماشے ہوتے رہتے۔ اسٹیڈیم میں جنگی کھیل دکھائے جاتے۔ غلاموں کی آپس میں لڑائیاں کرائی جاتیں اور کبھی کبھی بھُوکے شیروں سے بھی لڑوایا جاتا۔

    سال میں ایک مرتبہ روم کا بادشاہ پمپیائی آیا کرتا تھا۔ اس کی آمد پر شہر میں کئی روز تک خوشیاں منائی جاتیں اور خوب جشن ہوتے لیکن بے چارہ ٹیٹو ان کھیل تماشوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا وہ اندھا تھا۔ شہر کے کسی باسی کو معلوم نہ تھا کہ اُس کے ماں باپ کون تھے؟ اس کی عمر کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اس بھری دنیا میں اُس کا ہمدرد اور غم خوار صرف بمبو تھا اور وہ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ لیکن دن میں تین مرتبہ ایسا ہوتا کہ وہ اپنے دوست کو کسی محفوظ جگہ چھوڑ کر چلا جاتا اور تھوڑی دیر بعد منہ میں روٹی یا گوشت کا ٹکڑا دبائے واپس آ جاتا۔ پھر دونوں مِل بانٹ کر کھا لیتے اور خدا کا شکر ادا کرتے۔

    کُتّے کی بدولت ٹیٹو کو دِن میں تین وقت کھانا مِل جایا کرتا تھا اور کبھی فاقے کی نوبت نہیں آئی تھی لیکن اِس کے باوجود وہ ہر وقت اُداس سا رہتا تھا۔ وہ پمپیائی کی گلیوں میں بچّوں کو بھاگتے دوڑتے ہوئے سُنتا، کبھی وہ آنکھ مچولی کھیلتے اور کبھی چور اور بادشاہ کا کھیل۔ اُن کے اچھلنے کودنے کی آوازیں ٹیٹو کے کانوں میں پہنچتیں تو اُس کا دل چاہتا کہ وہ بھی اُن کے ساتھ کھیلے لیکن وہ ایسا نہ کر سکتا تھا۔ وہ تو ایک بے سہارا، غریب اور اندھا لڑکا تھا اور سوائے ایک کتّے کے اُس کا کوئی دوست نہ تھا۔ خدا نے اگرچہ اُسے آنکھوں کی روشنی سے محروم کر دیا تھا لیکن سننے، سونگھنے اور چُھو کر محسوس کرنے کی قوّتیں دگنی دے دی تھیں۔ وہ انہی قوّتوں کی بدولت ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی واقف ہو جاتا جو دوسرے لوگ آنکھیں رکھنے کے باوجود معلوم نہ کر سکتے تھے۔

    جب دونوں دوست شہر کی سیر کے لیے نکلتے تو ٹیٹو ارد گرد کی آوازیں سن کر صحیح اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔

    پمپیائی کی اکثر عمارتیں بالکل نئی تھیں کیونکہ بارہ سال پہلے یہاں ایک زلزلہ آیا تھا جس سے بہت سی عمارتیں گِر گئی تھیں۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد لوگوں نے سارا شہر گِرا کر اُسے دوبارہ تعمیر کیا جو پہلے سے بھی زیادہ خوب صورت شہر بن گیا اور نیپلز اور روم جیسے عالی شان شہروں کا مقابلہ کرنے لگا۔

    پمپیائی کے کسی باشندے کو معلوم نہ تھا کہ زلزلہ کیوں آتا ہے۔ ملّاح کہا کرتے تھے کہ زلزلہ آنے کا سبب یہ ہے کہ شہر کے لوگ ملّاحوں کی عزّت نہیں کرتے۔ ملّاح سمندر پار سے اُن کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لاتے ہیں اور سمندری ڈاکوؤں سے بھی اُن کو محفوظ رکھتے ہیں۔ مندروں کے پُجاری کہا کرتے تھے کہ زلزلہ آنے کی وجہ آسمانی دیوتاؤں کی ناراضگی ہے کیونکہ لوگوں نے عیش و عشرت میں پڑ کر عبادت کرنی چھوڑ دی ہے اور وہ دیوتاؤں کے لیے قربانیاں بھی نہیں کرتے۔

    شہر کے تاجر کہتے تھے کہ باہر سے آنے والے تاجروں کی بے ایمانیوں نے شہر کی زمین کو ناپاک کر دیا ہے اور اِسی لعنت کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے۔ غرض، جتنے مُنہ، اتنی باتیں۔ ہر شخص اپنی بات زور زور سے کہتا اور اُسے منوانے کی بھی کوشش کرتا۔

    اُس روز بھی دوپہر کو جب ٹیٹو اور بمبو بڑے چوک میں سے گزر رہے تھے، شہر کے لوگ اِسی قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ چوک لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور کان پڑی آواز سُنائی نہ دیتی تھی۔ لیکن ٹیٹو کے کان بڑے تیز تھے۔ ایک جگہ وہ ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ دو آدمی آپس میں بحث کر رہے تھے اور اُن کے گرد بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ اُن میں سے ایک کی آواز بھاری تھی اور دوسرے کی ہلکی مگر تیز۔ بھاری آواز والا کہہ رہا تھا ’’میں کہتا ہوں اب یہاں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔ تُم نے سُنا نہیں کہ آسمانی بجلی کی طرح زلزلہ بھی جہاں ایک بار آ جائے، دوبارہ نہیں آیا کرتا۔‘‘

    ’’تمہارا خیال غلط ہے۔‘‘ ہلکی آواز والے نے کہا۔ ’’تمہیں معلوم نہیں کہ پندرہ برس کے اندر سسلی میں دو مرتبہ زلزلہ آیا تھا؟ بھلا بتاؤ تو ویسوَیس پہاڑ دھواں کیوں اُگلتا رہتا ہے؟ کیا اس کا کوئی مطلب نہیں؟‘‘

    یہ سُن کر بھاری آواز والا آدمی قہقہہ مار کر ہنس پڑا اور بولا۔ ’’ارے بھائی! یہ دھواں تو ہمیشہ سے نکلتا ہے اور سچ پُوچھو تو یہ دھواں ہمارے لیے ہے بھی بڑا مفید۔ ہم اس سے موسم اور ہوا کا رُخ پہچان لیتے ہیں۔ اگر دھواں سیدھا آسمان کی طرف جائے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ موسم صاف رہے گا اور جب اِدھر اُدھر پھیلنے لگے تو اِس مطلب ہوتا ہے کہ آج کُہر پڑے گی۔ اگر دھواں مشرق کی طرف۔۔۔‘‘

    ’’اچھّا۔ اچھّا۔ بس کرو۔ میں سمجھ گیا جو تم کہنا چاہتے ہو۔‘‘ ہلکی آواز والے نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’ہمارے یہاں ایک کہاوت مشہور ہے کہ جو لوگ انسان کی نصیحت پر عمل نہیں کرتے انہیں دیوتا سبق دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن میں تمہیں ایک تنبیہ ضرور کرتا ہوں کہ جب آتش فشاں پہاڑ کا دھواں آسمان پر گھنے درخت کی صورت اختیار کر لے تو اُس وقت تم لوگ اپنی جان بچانے کی فکر کرنا! یہ کہہ کر وُہ چلا گیا۔

    ٹیٹو اُن کی یہ گفتگو سُن کر بُہت حیران ہوا۔ بمبو کتّے کا بھی یہی حال تھا۔ وہ اپنی گردن، ایک طرف جھکائے کچھ سوچ رہا تھا۔ لیکن رات ہوتے ہوتے لوگ یہ باتیں بھول بھال گئے اور اس جشن میں شامل ہو گئے جو روم کے بادشاہ سیزر کی سالگرہ کی خوشی میں منایا جا رہا تھا۔

    دوسرے دِن صبح کو بمبو ایک بیکری سے دو میٹھے کیک چرا کر لایا۔ ٹیٹو ابھی تک سو رہا تھا۔ بمبو نے زور زور سے بھونک کر اسے جگایا۔ ٹیٹو نے ناشتا کیا اور پھر سو گیا، کیونکہ رات کو بہت دیر سے سویا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد بمبو نے اُسے پھر اٹھا دیا۔ ٹیٹو نے اٹھ کر جمائی لی تو ایسا لگا جیسے فضا بہت گرم ہے۔ اسے ایک گہری دھند چاروں طرف پھیلتی ہوئی محسوس ہوئی جو سانس کے ذریعے اُس کے پھیپھڑوں میں جا رہی تھی۔ وہ کھانسنے لگا اور سمندر کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے کے لیے وہاں سے اٹھا لیکن تھوڑی ہی دور جا کر اسے محسوس ہوا کہ ہوا بے حد گرم اور زہریلی ہے۔ اُس کی ناک میں عجیب سی بُو آ رہی تھی۔ بمبو اُس کی قمیص پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اُسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ لیکن کہاں؟ ٹیٹو یہ نہ سمجھ سکا۔ گرم ہَوا کے جھونکے بار بار اُس کے چہرے سے ٹکراتے تھے۔ اُس نے محسوس کیا کہ یہ ہوا نہیں بلکہ گرم راکھ ہے جو بارش کی طرح چاروں طرف برس رہی ہے۔ یہ راکھ اتنی گرم تھی کہ ٹیٹو کے بدن کی کھال جلی جا رہی تھی۔

    اچانک اُس کے کانوں میں عجیب طرح کی ڈراؤنی آوازیں آنے لگیں۔ جیسے ہزار ہا وحشی درندے زمین کے نیچے دبے ہوئے چلّا رہے ہوں۔ پھر بہت سے لوگوں کے رونے اور چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ اب زمین درخت کے پتّے کی طرح کانپ رہی تھی اور گرج دار آوازوں سے کلیجا بیٹھا جاتا تھا۔ وہ دونوں بے تحاشا ایک طرف کو بھاگنے لگے۔

    شہر کی طرف سے آنے والی آوازیں اور ڈراؤنی ہو گئی تھیں۔ پہاڑ گرج رہا تھا، زمین ہل رہی تھی، عمارتیں دھڑا دھڑ گِر رہی تھیں اور لوگ پتّھروں کے تلے دبے چیخیں مار رہے تھے۔ جو بچ گئے تھے وہ بے تحاشا سمندر کی طرف بھاگ رہے تھے تا کہ کشتیوں میں بیٹھ کر کِسی محفوظ مقام پر پہنچ جائیں۔

    ٹیٹو اور بمبو بھی ایک طرف کو بھاگے جا رہے تھے۔ ٹیٹو زخموں سے نڈھال ہو چکا تھا۔ آگ کے شعلوں اور راکھ سے اُس کا سارا بدن جھلس گیا تھا۔ بمبو نے منہ میں اُس کی قمیص کا دامن پکڑ رکھا تھا اور اُسے اپنے ساتھ گھسٹتے لیے جا رہا تھا۔ آخر وہ اُسے لوگوں کے ہجوم سے بچاتا ایک محفوظ جگہ پر لے گیا اور یہاں وہ دونوں پتھروں کی آڑ میں بیٹھ گئے۔

    دوپہر ہو گئی۔ تکلیف، بھوک اور پیاس کے مارے ٹیٹو کا بہت بُرا حال تھا۔ اس نے بمبو کو پُکارا: ’’بمبو۔۔۔ بمبو۔۔۔!‘‘ لیکن بمبو وہاں نہیں تھا۔ اتنے میں ایک آدمی بھاگتا ہوا ٹیٹو کے پاس سے گزرا۔ اُس نے اندھے لڑکے کو اِس حال میں دیکھا تو اُسے جھپٹ کر گود میں اُٹھا لیا اور ایک کشتی میں جا کر بٹھا دیا۔ ملّاحوں نے پوری قوّت سے چپّو چلانے شروع کر دیے۔ ٹیٹو برابر اپنے کّتے کو آوازیں دیے جا رہا تھا۔ ’’بمبو!۔۔۔ بمبو!۔۔۔ میرے دوست! تم کہاں ہو؟‘‘ آخر روتے روتے اُس کی ہچکی بندھ گئی اور وہ نڈھال ہو کر کشتی میں لیٹ گیا۔

    اٹھارہ سو سال بعد۔۔۔ سائنس دانوں کی ایک جماعت پمپیائی کا سراغ لگانے کے لیے اس جگہ پہنچی جہاں صدیوں سے یہ شہر مٹّی کے نیچے دبا ہوا تھا۔ مزدوروں نے زمین کھودی تو اُس کے نیچے سے کھنڈر نکلے۔ سارا شہر برباد ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے محل اور عالی شان عمارتیں خاک کا ڈھیر ہو چکی تھیں۔ بازاروں میں قیمتی چیزیں اور سونے چاندی کے زیورات بھرے پڑے تھے۔ انسانوں کے ہزاروں ڈھانچے بھی نظر آئے۔ ایک روز کھدائی کے دوران ایک عجیب چیز بر آمد ہوئی۔ یہ ایک کتّے کا ڈھانچا تھا۔

    ایک شخص حیرت سے بولا۔ ’’ارے! اس کتّے کے منہ میں کیا چیز ہے؟‘‘ اور پھر غور سے دیکھا گیا تو وہ ایک روٹی کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا۔

    سائنس دانوں نے کہا۔ ’’یہاں ایک نانبائی کی دکان تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کُتا زلزلے کے وقت روٹی چرانے نکلا تھا مگر بے چارہ دب کر مر گیا۔‘‘

    کاش انہیں معلوم ہوتا کہ بے چارہ بمبو کس کے لیے روٹی چرانے گیا تھا!

    (از مقبول جہانگیر)

  • شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا جو بہت بوڑھا ہوگیا تھا۔

    وہ بہت کم شکار کے لیے اپنے ٹھکانے سے نکل پاتا تھا۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو وہ چلنے پھرنے سے تقریباً معذور ہو گیا۔ اس حالت میں بھوک سے جب برا حال ہوا تو اس نے اپنے غار کے آگے سے گزرنے والی ایک لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔” فکر نہ کرو، میں پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوبست کردوں گی۔”

    یہ کہہ کر لومڑی چلی گئی اور اپنے وعدے کے مطابق اس نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ لومڑی تو ایک چالاک جانور مشہور ہی ہے۔ وہ جنگل کے کسی بھی جانور سے خوش کہا‌ں تھی۔ اسے سبھی برے لگتے تھے۔ اس لیے اس نے ایسا کیا تھا۔

    یہ خبر سن کر جنگل کے جانور اس بوڑھے اور معذور کی عیادت کو آنے لگے۔ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا تھا، لیکن لومڑی کے کہنے پر روزانہ ایک ایک کرکے عیادت کے لیے آنے والے جانوروں کو کسی طرح شکار کرکے اپنی بھوک مٹانے لگا تھا۔

    ایک دن لومڑی نے خود بھی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لیے غار کے دہانے پر کھڑے ہو کر اسے آواز دی۔ اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔ اس نے لومڑی سے کہا۔” باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔”

    لومڑی جو بہت چالاک تھی، اس سے نے جواب دیا۔” نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔ میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔”

    اس حکایت سے سبق یہ ملا کہ انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

  • پُراسرار درویش

    پُراسرار درویش

    قریبی واقع تکیہ (خانقاہ) کی محراب اور قبرستان کے احاطہ کے درمیان چوک پر کھیلنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ خانقاہ کے باغ میں لگے شہتوت کے درخت بہت بھاتے ہیں۔ باغ کے پیڑوں کے ہرے بھرے پتے ہمارے محلہ کی رونق ہیں۔ ان کے کالے کالے شہتوت ہمارے ننھے دلوں کو خوب لبھاتے ہیں۔

    یہ خانقاہ گویا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو باغ سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا باغ کی جانب کھلنے والا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ اس کی کھڑکیاں بھی بند رہتی تھیں۔ اس طرح پوری عمارت اداسی اور تنہائی میں ڈوبی جدائی کی تصویر بن کر رہ گئی تھی۔

    ہمارے ہاتھ اس خانقاہ کی فصیل نما چہار دیواری کی طرف اس طرح لپکتے، جس طرح شیرخوار بچوں کے ہاتھ چاند کی طرف۔ باغ کی دیوار پر چڑھتے تو ایسا لگتا کہ ہم قلعے کے اندر پہنچ گئے ہوں۔

    اس باغ میں کبھی کبھی کوئی درویش بھی نظر آجاتا تھا جس کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تھی، اس کا چغہ ڈھیلا ڈھالا ہوتا اور ٹوپی کشیدہ کاری سے آراستہ۔ جب اس درویش کی نظر ہم بچوں پر پڑتی تو وہ مسکرا کر ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا۔ ہم سب بچّے بھی بیک زبان دعائیہ آواز سے پکارتے، ‘‘درویش! خدا تمہاری عمر دراز کرے۔’’ مگر وہ درویش کوئی جواب دیے بغیر گھاس سے لدی زمین کو گھورتے ہوئے یا چشمے کے قریب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے گزر جاتا، تھوڑی دیر میں وہ خانقاہ کے اندرونی دروازے کے پیچھے گم ہوجاتا ہے۔

    میں اکثر اپنے والد سے یہ پوچھتا ہوں، ‘‘بابا! یہ کون لوگ ہیں؟’’
    ‘‘یہ اللہ والے لوگ ہیں۔’’ جواب ملتا ہے اور پھر وہ تنبیہ کے انداز میں معنی خیز لہجہ سے کہتے، ‘‘جو انہیں تنگ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا، بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ان کو پریشان کرتے ہیں۔’’

    میں چپ ہوجاتا ہوں کیونکہ میرا دل تو صرف وہاں لگے شہتوتوں کا دیوانہ تھا۔
    ایک دن میں کھیلتے کھیلتے بہت تھک گیا۔ کھیل کے بعد میں زمین پر لیٹا اور میری آنکھ لگ گئی۔ جب میں جاگا تو مجھے احساس ہوا کہ اب میں وہاں تنہا تھا۔ سورج پرانی فصیل کے پیچھے غروب ہوچکا تھا، آسمان پر خوب صورت شفق پھیل چکی تھی اور بہار کی بھیگی بھیگی مہک سے شام کی ہوا کے جھونکے مجھے سرشار کرنے لگے تھے۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے مجھے محلے میں واپس جانے کے لیے قبرستان کے راستہ سے ہو کر گزرنا تھا۔ میں دفعتاً چھلانگ لگا کر کھڑا ہوا۔ اچانک ایک ہلکا سا احساس مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ اس پر میں ایک لطیف محویت میں ڈوب جاتا ہوں۔

    میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ میرا دل نامعلوم برکتوں سے بھر گیا ہے۔ کسی کی نظر نے مجھے محصور کیا ہوا تھا، میرے دل کو اپنی گرم نگاہ کی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ میں نے اپنا رخ خانقاہ کی طرف کیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی باغ کے درمیان والے شہتوت کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ وہ کوئی درویش تو لگتا ہے مگر اُن دوسرے درویشوں کی طرح نہیں تھا جن کو ہم گاہ بہ گاہ دیکھتے ہیں۔

    وہ کافی بوڑھا تھا، خاصے ڈیل ڈول کا دراز قامت، اس کا چہرہ چمک دمک سے پُر تھا۔ گویا نور کا سرچشمہ ہو، اس کے چغے کا رنگ سبز، اس کی لمبی ڈاڑھی، سفید پگڑی، وہ ایک پُرعظمت شخص نظر آتا تھا۔ اسے گھورتے رہنے سے مجھے جیسے نشہ سا ہوگیا۔ ایک خوب صورت خیال مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ اس جگہ کا مالک یہی ہے۔ دوسرے درویشوں کے برعکس اس کے چہرے میں دوستی اور اپنائیت کی جھلک نظر آئی ۔ میں چہار دیواری کے قریب آتا ہوں اور اسے خوشی سے کہتا ہوں….‘‘مجھے شہتوت اچھے لگتے ہیں….’’ لیکن وہ صاحب نہ تو کچھ بولے اور نہ ہی کوئی جنبش کی۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید انہوں نے سنا ہی نہیں۔ پھر میں نے تھوڑی اونچی آواز سے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا۔ ‘‘مجھے شہتوت بہت پسند ہیں۔’’ مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے مجھے شفیق نظروں سے دیکھا اور نرم اور دھیمی آواز سے کہا۔

    بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد
    ( بلبل نے اپنے جگر کا خون پیا اور پھول حاصل کیا)

    مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے میری طرف کوئی پھل پھینک دیا ہے۔ میں پھل کو ڈھونڈنے اور اٹھانے کے لیے جھکا مگر مجھے وہاں کچھ نہ ملا۔ میں سیدھا ہو کے کھڑا ہوا تو وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ خانقاہ کا اندرونی دروازہ اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آیا۔ اس واقعے کو میں نے والد صاحب سے بیان کیا۔ میری بات سن کر وہ مجھے شکی نظروں سے دیکھنے لگے، میں نے زور دے کر اپنی بات کی سچائی کا یقین دلایا تو وہ بول اٹھے، ‘‘یہ نشانیاں اور اوصاف تو صرف شیخ اکبر ہی کے ہوسکتے ہیں….مگر وہ اپنی خلوت سے کبھی باہر ہی نہیں آتے….’’

    میں نے اپنا مشاہدہ صحیح ہونے پر اصرار کیا تو والد صاحب نے پوچھا:‘‘انہوں نے کیا الفاظ کہے تھے’ میں نے طوطے کی طرح وہ الفاظ رٹ دیے: ‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    والد صاحب نے پوچھا۔ ‘‘کیا تم نے اجنبی زبان کی جس عبارت کو یاد کیا اسے سمجھتے بھی ہو….؟ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟’’

    ‘‘خانقاہ سے آنے والی درویشوں کی دعاؤں کی آوازوں میں یہ عبارت میں نے پہلے بھی کئی بار سنی ہے۔’’ میں جواب دیتا ہوں۔ میرے والد کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا: ‘‘کسی کو اس کے بارے میں مت بتانا۔’’

    اس واقعے کے بعد سے میں ہر روز سارے بچوں سے پہلے چوک پہنچ جاتا اور بچوں کی واپسی کے بعد اکیلا رہ جاتا اور باغ کے احاطے میں جاکر شیخ اکبر کا انتظار کرنے لگتا، مگر وہ نظر نہیں آتے۔ میں اونچی آواز میں کہتا:‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    مجھے کوئی جواب نہ ملتا۔ میں عجیب اذیت میں مبتلا رہتا۔ میں اس واقعہ کو یاد کرتا رہتا اور اس کی حقیقت کو جاننا چاہتا، سوچتا اور اپنے آپ سے پوچھتا کہ کیا میں نے واقعی شیخ اکبر کو دیکھا تھا؟ یا میں نے محض اسے دیکھنے کا دعوٰی کیا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکوں؟

    کیا وہ میرا کوئی ایسا تصور تھا۔ شیخ کے بارے میں جو باتیں ہمارے گھر میں ہوتی تھیں وہ مشاہدہ کیا اس وجہ سے تھا؟ نیند کی غنودگی اور گھر میں جھنجھٹ کی وجہ سے میں نے اپنے خیال میں ایک ایسی چیز کو ذہن میں بسا لیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے….؟ یہ سوالات میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے رہتے۔ میں نے سوچا کہ وہ مشاہدہ محض میرا تصور ہی ہوگا ورنہ شیخ اکبر دوبارہ نمودار کیوں نہیں ہوئے؟ ہر کوئی یہ کیوں کہتا تھا کہ شیخ اکبر اپنی خلوت سے باہر نہیں آتے؟ شاید میں نے یہ افسانہ تخلیق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

    مگر شیخ کا وہ خیالی وجود بھی کہیں میرے اندر جا کے جم چکا ہے۔ یہ خیال میری یادوں کو معصومیت سے بھر دیتا ہے، اور میرے دل و دماغ میں اس طرح چھایا رہا جس طرح شہتوت کا شوق۔

    عرصے بعد والد کے ایک دوست شیخ عمر فکری والد صاحب سے ہمارے گھر ملنے آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ وکیل اور مصنف ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ہمارے محلے میں پبلک سروس کے نام سے ایک ایجنسی کھول رکھی ہے۔ ایجنسی کا آفس محلہ کی مسجد اور مدرسے کے بیچ واقع ہے۔ یہ ایجنسی محلے کے لوگوں کی مختلف خدمات انجام دیتی ہے، کرائے پر مکان دلانا، سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرانا، تجہیز و تدفین کا انتظام کرنا اور شادی و طلاق اور خرید و فروخت۔ جب ان کو میں نے اپنے والد سے فخر کے ساتھ کہتے سنا کہ ‘‘وہ اپنے طویل تجربوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کی خدمت کرسکتے ہیں تو میرے دل میں دبی خواہش پھر سے ابھر آئی۔ میں نے پوچھا۔
    ‘‘کیا آپ میرا ایک کام کرسکتے ہیں….؟’’
    مسکرا کر انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا۔
    ‘‘بتاؤ بیٹے….! تمہیں کیا چاہیے….؟’’
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔’’ میں نے کہا
    شیخ عمر نے زور کا قہقہہ لگایا، ان کا ساتھ والد صاحب نے بھی دیا اور پھر شیخ عمر نے کہا: ‘‘میں جو کام انجام دیتا ہوں وہ زندگی سے متعلق اور ذرا سنجیدہ قسم کے ہوتے ہیں۔’’

    ‘‘لیکن آپ نے تو کہا کہ آپ زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کے کام انجام دیتے ہیں۔’’ میں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان میں نہیں آتی۔’’انہوں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان سے باہر کیسے ہوسکتی ہے….؟’’ میں نے سوال کیا اور والد صاحب نے وہ شعر سنانے کو کہا جسے میں نے خانقاہ میں سن کر یاد کرلیا تھا۔ میں نے وہ شعر خوشی سے پڑھ کر سنایا۔

    یہ سن کر شیخ عمر نے والد صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ‘‘لوگ اس شعر کو بلا سمجھے پڑھا کرتے ہیں۔’’ انہوں نے مجھ سے کہا ‘‘کیا میں اس کے کسی لفظ کو سمجھتا ہوں۔’’ انہوں نے کہا ‘‘یہ لوگ اجنبی ہیں اور ان کی زبان اجنبی ہے لیکن محلے والے ان پر فریفتہ ہیں۔’’
    میں نے کہا ‘‘مگر آپ تو ہر کام انجام دینے پر قادر ہیں۔’’
    یہ بات سن کر والد صاحب نے ‘‘استغفر اللہ’’ پڑھا اور شیخ عمر نے مجھ سے پوچھا
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ کو کیوں دیکھنا چاہتا ہوں۔’’
    میں نے جواب دیا، ‘‘صرف اس لیے کہ جو تجربہ بچپن میں مجھے ہوا تھا اس کو پھر پرکھوں اور بس۔’’
    والد صاحب نے ان کو شیخ اکبر کو میرے دیکھنے کا واقعہ سنایا تو شیخ فکری ہنسے اور بولے‘‘میں نے بھی شیخ اکبر کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔’’
    ‘‘سچ مچ۔ ’’میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے کہا، ‘‘ایک دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ سارا محلہ شیخ اکبر کا نام لیتا رہتا ہے، کسی نے بھی ان کو نہیں دیکھا ہے اس لیے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہیے۔ میں خانقاہ گیا اور کسی ذمہ دار آدمی سے ملنا چاہا۔ خانقاہ کے درویشوں نے مجھے پریشانی، حیرانی اور ناراضی سے دیکھا اور کسی قسم کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ عمر فکری صاحب کو افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ ان کو پریشان کیا۔ درویشوں کے رویے سے وہ جان گئے کہ خانقاہ کے اندر جائز طریقہ سے جانا ممکن نہیں اور ناجائز طریقہ قانون شکنی ہے اور اس لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔
    ‘‘اس لیے آپ اپنی خواہش کی تکمیل سے باز آگئے؟’’ میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے جواب دیا، ‘‘یہ بات نہیں۔ میں نے محلے کے معمر اور جانے مانے لوگوں سے پوچھا۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ شیخ اکبر کو دیکھ چکے ہیں، لیکن ہر ایک نے ان کا حلیہ مختلف بتایا جو ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہوا کہ کسی نے بھی شیخ اکبر کو نہیں دیکھا ہے۔’’
    ‘‘لیکن میں نے شیخ اکبر کو دیکھا ہے۔’’ میں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
    شیخ عمر نے کہا ‘‘تم لوگ جھوٹ تو نہیں بولتے لیکن اپنے اپنے خیال کے مطابق دیکھتے ہو۔’’
    میں نے کہا ‘‘شیخ اکبر کو دیکھنا محال نہیں۔ کیا وہ گاہ بہ گاہ خانقاہ کے باغ میں گھوم نہیں سکتے۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘لیکن تم کو کیا معلوم کہ جس کو تم نے دیکھا ہے وہ شیخ اکبر ہی تھے، کوئی دوسرا درویش بھی تو ہوسکتا ہے۔’’
    میں نے کہا ‘‘ٹھیک ہے۔ اس طرح آپ نے سوچ لیا کہ شیخ اکبر کو کسی نے دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘نہیں، ہرگز نہیں۔ میں تو ان کو دیکھنے کا بے حد مشتاق تھا۔
    ‘‘کیا شیخ اکبر کو دیکھنے کے لیے دوسرے وسیلے نہیں ہوسکتے۔’’
    شیخ فکری نے کہا، ‘‘ہاں، عقل نے مجھے جان لیوا خواہش سے آزاد کیا۔ عقل نے باور کرایا کہ خانقاہ کو ہم دیکھتے ہیں۔ درویشوں کو ہم دیکھتے ہیں لیکن شیخ اکبر کو ہم کیوں نہیں دیکھتے؟’’
    یہ بات سن کر میرے والد صاحب نے کہا ‘‘اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ شیخ اکبر کا وجود ہی نہیں؟’’
    جواب ملا ‘‘نہیں، بات یہ نہیں۔’’
    ‘‘بات تو صرف یہی ہے۔’’ میں نے کہا لیکن بلاشک کوئی وسیلہ تو ضرور ہوگا جس سے شیخ اکبر کے وجود اور ان کی روایت ثابت ہو۔’’
    جواب ملا ‘‘دراصل میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی وسیلہ خلافِ قانون ہے اور میں قانون شکنی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ بولے شیخ اکبر کو دیکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔’’
    ‘‘آخر وہ لوگ خانقاہ کے دروازے بند کیوں رکھتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔
    شیخ فکری نے جواب دیا ‘‘دراصل خانقاہ آبادی سے دور بنائی گئی تھی کیونکہ صوفیائے کرام لوگوں سے الگ تھلگ پرسکون ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اس لیے یہ خانقاہ آبادیوں میں گھر گئی۔ اب وہ درویش تنہائی کے لیے خانقاہ کے دروازے بند رکھنے لگے۔’’
    یہ بتا کر شیخ فکری نے مایوس کن مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ‘‘میں نے تم کو کئی باتیں بتا دی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شیخ سے ملنا عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان سے ملنے کی اجازت نہیں گویا ان سے ملنا ہے تو بغیر اجازت ہی خانقاہ میں داخل ہونا پڑے گا۔

    ‘‘شیخ اکبر کی یاد بھلائی نہیں جاسکتی۔ آج تک مجھ میں بغیر اجازت خانقاہ میں چلے جانے کی ہمت نہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بغیر شیخ اکبر کے خانقاہ کے وجود کو بھی تصور نہیں کرسکتا۔ اب حال یہ ہے کہ میں خانقاہ کو صرف مقبرے کی زیارت کے دنوں ہی میں دیکھتا ہوں۔ جب میں خانقاہ کو دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں اور شیخ یا جس کو میں نے کبھی شیخ سمجھا تھا کی تصویر کو یاد کرتا ہوں اور تنگ راستہ سے قبرستان کی طرف گزر جاتا ہوں۔’’

    بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔’’

    (نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کی کہانیوں کے مجموعہ ‘‘حکایاتِ حارتنا’’ (محلّہ کی کہانیاں) سے ایک منتخب کہانی کا اردو ترجمہ)

  • مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    ایک متقی و صالح شخص کسبِ معاش کے بعد اپنے مال کا ایک تہائی راہِ خدا میں خرچ کردیتے اور ایک تہائی اپنی ضروریات پر۔ اس کے علاوہ وہ اسی مال کا ایک تہائی اپنے ذریعۂ معاش پر لگا دیتے تھے۔ یہ برسوں سے ان کا معمول تھا۔

    ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے۔ انہوں نے اس سے کہا پہلے تو حلال کمانے کی جستجو کرو اور اسے یقینی بناؤ اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حلال کمائی کو خود مستحق مل جائے گا۔ دنیا دار شخص نے اس بات کو بزرگ کی مبالغہ آرائی پر محمول کیا تو شیخ نے کہا، اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے لیے تمہارے دل میں جذبۂ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا۔

    چنانچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لیے اس کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہوا اور اس نے محسوس کیا کہ یہی وہ مستحق ہے جسے صدقہ خیرات دینا چاہیے۔ اس نے اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کر دیا۔ دوسرے دن وہ اسی ضعیف اور نابینا شخص کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس وقت وہ بوڑھا اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک آدمی سے بات کررہا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ کل ایک مال دار شخص نے ترس کھا کر مجھے کچھ مال دیا تھا، جسے میں نے فلاں فلاں بدکار شخص کے ساتھ عیاشی اور شراب نوشی میں اڑا دیا۔

    وہ دنیا دار یہ سنتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور سیدھا شیخ کے پاس پہنچا۔ اس نے یہ ماجرا ان کے حضور بیان کیا۔ شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو، اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس آدمی پر پڑے یہ درہم اسے بطور خیرات دے دینا۔ اس نے یہی کیا اور شیخ کا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا اور سب سے پہلے اس کی نظر جس شخص پر پڑی وہ اسے بظاہر پیٹ بھرا اور معقول معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے پہلے تو یہ درہم اُس شخص کو دینے میں‌ ہچکچاہٹ محسوس کی، مگر شیخ کا حکم تھا، اس لیے ہمّت باندھی اور درہم اس آدمی کی طرف بڑھا دیا۔ ادھر اُس نے بھی درہم لیا اور آگے چل پڑا۔ تب وہ دنیا دار جس نے شیخ کے حکم پر یہ عمل کیا تھا، تجسس کے مارے اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ بظاہر خوش حال نظر آنے والا یہ آدمی اس درہم کو کہاں‌ خرچ کرتا ہے۔

    دنیا دار سے خیرات میں‌ درہم حاصل کرنے والا آگے بڑھتا رہا اور ایک کھنڈر کے قریب پہنچ کر اس میں داخل ہوا ور پھر وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر کی راہ پکڑی۔ جب یہ مال دار آدمی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا تو وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی، البتہ ایک مرا ہوا کبوتر اس نے ضرور دیکھا۔

    مال دار آدمی نے کھنڈر سے باہر نکلنے کے بعد کچھ آگے جاکر خیرات لینے والے کو روک لیا اور قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو؟ اور کس حال میں رہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، وہ بہت بھوکے تھے، جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی تو انتہائی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں ابھی پریشانی کے عالم میں‌ پِھر رہا تھا کہ مجھے کھنڈر میں یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا، مرتا کیا نہ کرتا؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے گوشت سے بچّوں کی کچھ بھوک مٹا سکوں، مگر پھر ایک جگہ اللہ نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت کیا تو وہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا، وہیں پھینک دیا اور اب کھانے پینے کی چیز لے کر اپنے گھر جاؤں‌ گا۔

    اب اس مال دار پر یہ بھید کُھلا کہ شیخ کا وہ قول محض جذباتی بات اور مبالغہ آرائی نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اللہ کی مرضی سے ضرور حقیقی ضرورت مند اور مستحق تک پہنچتا ہے جب کہ حرام اور ناجائز طریقے سے ہاتھ آیا مال بُری جگہ خرچ ہوتا ہے۔

    (باب صدقہ کی فضیلت، روایت از شیخ علی متقی عارف باللہ)