Tag: Urdu

  • تبصرہ ناول ’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ پر

    تبصرہ ناول ’’ڈئیوس، علی اور دیا‘‘ پر

    آمنہ احسن

    یہ ناول ہے نعیم بیگ کا۔ اور یہ کہانی ہے علی کی۔ ایک ambitious ، خواب دیکھنے والا اور ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی۔

    یہ کہانی ہے علی کے زندگی میں آنے والے ان تمام کرداروں کی جنہوں نے علی کی زندگی کو ہر بار ایک نئے موڑ پر لا کر چھوڑ دیا ۔

    یہ کہانی ہے بھر پور زندگی گزارنے والوں کی، یہ کہانی ہے ہر اس شخص کی جو زندگی میں بروقت فیصلے نہیں کر پاتا اور ساری زندگی ان لمحات کو کوستا رہتا ہے، جب منزل نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہو اور وہ زندگی میں اس سے بہتر منزل کی خواہش میں آگے بڑھ گیا ہو۔

    یہ کہانی ہے ایک عام انسان کے ساتھ طاقتور  افراد کے رویے کی، معاشرے میں پھیلے انتشار کی ۔

    یہ کہانی ہے محبت کی، دیوی سے داسی کے سفر کی، معاشرے اور حالات کی تلخی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی محبت کی۔

    اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے، انسان یا تلخی بیان کر سکتا ہے یا محبت، لیکن ایک تلخ سفر میں کہیں کہیں محبت کا رنگ بھرنا اور بے حد خوبصورتی سے اسے کہانی کے ساتھ ساتھ لے کر چلنا ایک باکمال لکھاری ہی کے بس کی بات ہے ۔

    یہ ناول شاید قاری کو اس لئے بھی مختلف لگے کہ یہ ناول آج کل کے پاپولر ادب کے طرز پر نہیں لکھا گیا۔ اس کا کوئی کردار پرفیکٹ نہیں۔ ماں باپ کی آنکھ کا تارا، پڑھنے میں سب سے آگے، نیک، دین دار یا بیوی بچوں کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے والا جیسا اس ناول میں کوئی کردار نہیں ۔


    مزید پڑھیں: منطق الطیرجدید:عطار کے پرندے اور تارڑ کا عشق


    اس ناول کے کردار کچھ کچھ ہم سب جیسے ہیں۔ غلطیاں کرتے ہیں، زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش لئے کسی لیڈنگ اسٹوری کے پیچھے بھاگتے ہوۓ، محبت کو شدت سے پانے کی خواہش کے باوجود حالات کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے۔

    ہار کر رو پڑنے والے، ہار مان جانے والے اور پھر نئے سرے سے جیت کے لئے پر جوش نظر آنے والے کردار۔

    راقم کے نزدیک چاہے معاشرے کی ہر سختی نے علی کو چنا اور اس کی زندگی کو مزید مشکل کیا، لیکن اس کے باوجود علی کی زندگی کے آخری لمحات کو اس سے بہتر انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا۔

    یہ ناول آپ کو کیوں پڑھنا چاہیے؟

    سب سے بڑی وجہ یہ آج کل کے پاپولر ادب سے مختلف ہے۔ بے حد مختلف۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ناول ایک نہایت ہی سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا ہے، لیکن نعیم بیگ صاحب نے اس میں قاری کی تفریح ایسا سامان رکھا ہے کہ بات قاری تک پہنچ بھی جاتی ہے اور اسے بوریت کا احساس بھی نہیں ستاتا۔

    ایک اور وجہ جس نے اس ناول کی دلچسپی کو بڑھا دیا، وہ ہے اس میں موجود سیاحتی رنگ۔ ناول کے مختلف کردار دنیا کے مختلف کونوں میں سفر کرتے ملیں گے اور اس سفر کی داستان بے حد دل فریب ہے۔

    ناول کا پلاٹ بھی نیا ہے اور انداز بیاں بھی، ممکن ہے اس سے ملتا جلتا کوئی پلاٹ قاری کی نظر سے گزرا ہو، لیکن اس پلاٹ کو بیان کرنے کا انداز مختلف بھی ہے اور دلچسپ بھی۔

    پھر اگر قاری اس ناول کے لکھنے کی وجہ تک پہنچ جاۓ، تو معاشرے میں بڑھتی ناانصافی اور انتشار پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہو جاۓ، تو سمجھ لیجئے ادب نے معاشرے کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔

  • اردو کے ممتاز شاعر گلزار، اردو ہی کے امتحان میں‌ فیل ہوگئے تھے؟

    اردو کے ممتاز شاعر گلزار، اردو ہی کے امتحان میں‌ فیل ہوگئے تھے؟

    ممبئی: معروف بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کے بہ قول ’’ہندوستان میں اردو گلزار کے دم سے زندہ ہے‘‘، مگر یہ امر انتہائی دل چسپ ہے کہ اردو کا یہ بے بدل شاعر اردو ہی کے مضمون ہی میں فیل ہوگیا تھا.

    جی ہاں، بھارتی انڈسٹری کو یادگار گیت، اردو ادب کو دل پذیر نظمیں‌ اور یادگار افسانے دینے والے ہر دل عزیز گلزار آٹھویں جماعت میں اردو کے پرچے میں فیل ہوگئے تھے.

    اس کا تذکرہ انھوں نے جشن ریختہ کے ایک سیشن میں کیا. ان کا کہنا تھا کہ میں کوئی ماہر زبان نہیں ہوں، اردو مولوی صاحب سے اسکول میں چھڑیاں کھا کر سیکھی.

    انھوں نے بتایا کہ آٹھویں جماعت کے  ششماہی امتحان میں مولوی صاحب نے پورے اسکول کو میری امتحانی کاپی دکھا کر کہا کہ میں‌ نے کبھی کسی کو انڈہ (صفر) نہیں‌ دیا تھا، آج دے دیا.

    مزیر پڑھیں: بھارتی شاعر “گلزار” سے پاک بھارت کشیدگی پر سوال کرنا صحافی کو مہنگا پڑگیا

    گلزار صاحب کے مطابق وہیں سے ان کے اردو سے تعلق کا آغاز ہوا اور پھر آٹھویں کے سالانہ امتحان میں وہ اردو کے مضمون میں‌ پہلے نمبر پر رہے.

    انھوں نے کہا کہ جب تقسیم کے بعد کالج میں  اردو ختم کی گئی، تو فیصلہ کیا کہ اردو ہی میں لکھوں گا، اردو ہی میں پڑھوں‌گا اور یہ سلسلہ جاری ہے.

    واضح رہے کہ گلزار ایک ہدایت کار، گیت نگار اور اردو کے عاشق کی حیثیت سے دنیائے اردو میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔

  • آج اردو کی نام ور افسانہ نگار اورناول نگار قرة العین حیدر کی برسی ہے

    آج اردو کی نام ور افسانہ نگار اورناول نگار قرة العین حیدر کی برسی ہے

    اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں قرة العین حیدر کا مقام بہت بلند ہے۔ وہ مشہور انشا پرداز سید سجاد حیدر بلدرم کی صاحبزادی تھیں ، ان کا ناول’ آگ کا دریا‘ان کی شناخت کا سبب بنا۔

    قرةالعین حیدر 20 جنوری 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ بچپن کا زمانہ جزائر انڈمان میں گزارا جہاں ان کے والد ریونیو کمشنر تھے۔ اس کے بعد ڈیرہ دون کانونٹ میں تعلیم حاصل کی اور 1947ء میں لکھنو یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    قرة العین حیدر نے تقریباً اسی زمانے میں افسانہ نویسی کا آغاز کیا ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”ستاروں سے آگے“ تھا، جسے جدید افسانہ کا نقطہ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ 1947ء میں وہ پاکستان چلی آئیں جہاں وہ حکومت پاکستان کے شعبہ اطلاعات و فلم سے وابستہ ہو گئیں۔ یہاں ان کے کئی ناول شائع ہوئے جن میں میرے بھی صنم خانے، سفینہ غم دل اور آگ کا دریا قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر ناول کی اشاعت پر پاکستانی پریس نے ان کے خلاف تناسخ کے عقیدے کے پرچار پر بڑی سخت مہم چلائی جس پر وہ واپس ہندوستان چلی گئیں۔

    گارڈن، کراچی۔ تصویر بشکریہ: عقیل عباس جعفری

    ہندوستان جانے کے بعد قرة العین حیدر کے کئی افسانوی مجموعے، ناولٹ اور ناول شائع ہوئے جن میں ہاؤسنگ سوسائٹی، پت جھڑ کی آواز، روشنی کی رفتار، گل گشت، ستیا ہرن ،چائے کے باغ، اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، جہانِ دیگر، دل ربا ، گردشِ رنگ چمن اورچاندنی بیگم قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا سوانحی ناول ”کار جہاں دراز ہے“ بھی اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔

    سنہ 1989ء میں انہیں حکومت ہندوستان نے گیان پیٹھ ایوارڈ عطا کیا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ 2005ء میں حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن کے اعزاز سے سرفراز کیا۔

    قرة العین حیدر نے 21 اگست 2007ء کو دہلی کے نزدیک نوئیڈا کے مقام پر وفات پائی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں۔انہوں نے جدید ناول کو کہانی بیان کرنے کا جو انداز دیا اس نے جدید ناول کو کلاسیکی مقام پر پہنچا دیا۔

  • مزاحیہ اسٹیج شو، اپارٹمنٹ # 746

    مزاحیہ اسٹیج شو، اپارٹمنٹ # 746

    کراچی: شہر قائد کی مصروف فضا میں ان دنوں اسٹیج شو’ اپارٹمنٹ نمبر 746‘ قہقہے بکھیرنے میں مصروف ہے، کھیل کو ناظرین کی جانب سے بے پناہ پذیرائی مل رہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق کراچی کے ایف ٹی سی آڈیٹوریم میں جاری اسٹیج شو کو شائقین میں بے پناہ پذیرائی مل رہی ہےاور عوام کا کہنا ہے کہ یہ شو اس شہر کی دوبارہ بحال ہوتی رونقوں میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اپارٹمنٹ نمبر 746 درحقیقت پیٹر شیفر کے کھیل’بلیک کامیڈی‘ کو اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے اور اس کے میں مرکزی کردا رمنیب بیگ (عباس) اور فجر شیخ ( آمنہ ) ادا کررہے ہیں جبکہ دیگر اداکاروں میں فراز علی (زیوئیر)، طلال جیلانی ( عبد الحساس)، صبیحہ (زارا) اور زرقا (شکیلہ کا کردار ادا کررہے ہیں، اس شو کی ہدایت کاری کے فرائض میثم رضوی نے انجام دیے ہیں۔

    کھیل کی کہانی ایک عباس نامی ایک آرٹسٹ کے گرد گھوم رہی ہے، جس کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا اور ایک دن اسے اپنےسسر کا استقبال کرنا تھا جوکہ ایک ریٹائر آرمی جنرل ہیں، اسی دن عباس کا ایک اہم گاہک اس کی پینٹنگ خریدنے بھی آرہا تھا۔

    پھر ایسا کچھ ہوتا ہےکہ کھیل کا آئندہ ایک گھنٹہ عباس کی زندگی کا مشکل ترین ایک گھنٹہ بن جاتا ہے اور ناظرین کا یہ ایک گھنٹہ کب ہنستے ہنستے گزرگیا ، انہیں خبر بھی نہیں ہوتی۔70 منٹ دورانیے کا یہ کھیل 3 اگست سے 20 اگست تک ایف ٹی سی آڈیٹیوریم کراچی میں جاری رہے گا۔

  • اردو کا ایک اور محسن رخصت ہوا، ممتاز مترجم اور ادیب محمد عمر میمن انتقال کر گئے

    اردو کا ایک اور محسن رخصت ہوا، ممتاز مترجم اور ادیب محمد عمر میمن انتقال کر گئے

    نیویارک: امریکا میں‌ مقیم ممتاز پاکستانی محقق، مترجم اور ادیب محمد عمر میمن طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، ان کی عمر 79 برس تھی.

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادب کو پختگی اور تسلسل کے سے اردو روپ دینے والا یہ جید مترجم بیماریوں کے باوجود زندگی کے آخری برس تک کام میں‌ مصروف رہا.

    ڈاکٹر عمر میمن کے کارناموں کی فہرست طویل ہے، آدمی انگشت بدنداں رہ جائے. یہ اداروں کے کرنے کا کام تھا، جو محمد عمر میمن نے تن و تتہا انجام دیا اور صحیح معنوں میں‌ خود کو اردو کا عاشق ثابت کیا.

    جاں‌ فشانی سے اردو ادب کی خدمت کرنے والے عمر میمن نے کامیو، گبرئیل گارسیا مارکیز، میلان کنڈیرا، ماریو برگیس یوسا، اورحان پامک، نجیب محفوظ ساگاں اور باپسی سدھوا کی نمائندہ تخلیقات کو اردو روپ دیا.

    انگریزی کو اردو روپے دینے والے مترجمین تو دست یاب ہیں، البتہ عمر میمن کو اوروں پر یوں فوقیت حاصل رہی کہ ان کی  انگریزی پر بھی خوب گرفت تھی۔ انھوں نے کئی اردو ادبیوں کو عالمی دنیا میں‌ متعارف کروایا. 

    ڈاکٹر عمر میمن نے عبداللہ حسین، انتظار حسین، نیر مسعود، اسد محمد خاں، ڈاکٹر حسن منظر، اکرام اللہ سمیت متعبر فکشن نگاروں کی تخلیقات کو نہ صرف انگریزی کے قالب میں ڈھالا، بلکہ ان پر مستند انگریزی جراید میں تنقیدی مضامین بھی لکھے.

    ان کے اور محمد حمید شاہد کے درمیان ماریو برگس یوسا کی کتاب سے متعلق ہونے والی خط و کتابت بھی کتابی صورت میں شایع ہوئی.

    ڈاکٹر عمر میمن 1939 میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق گجراتی فیملی سے تھا، وہ عربی کے معروف اسکالر عبدالعزیز میمن کے بیٹے تھے، انھوں نے 1964 میں‌ ہارورڈ سے ایم اے اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.

    ڈاکٹر عمر میمن ممتاز نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی کے ساتھ

    وہ 38 برس یونیورسٹی آف وسکانسن سے متعلق رہے. انھوں نے پچیس برس تک اینو اسٹڈی آف اردو لٹریچر نامی جریدہ نکالا.


    اردو کے محسن، ممتاز مترجم شاہد حمید انتقال کر گئے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اردو مستقبل کی زبان ہے، مگر افسوس، یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی: محمد حمید شاہد

    اردو مستقبل کی زبان ہے، مگر افسوس، یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی: محمد حمید شاہد

    گو ادب کو فی زمانہ گھاٹے کا سودا اور کتاب کو بے وقعت گردانا جاتا ہے، البتہ بے قیمتی اور گرانی کے اس زمانے میں‌ بھی میدان ادب میں چند ایسی دل پذیر شخصیات سرگرم ہیں، جو ممتاز فرانسیسی ادیب والٹیر کے کردار "کاندید” کی طرح بلاچون و چرا کام میں‌ مصروف رہتی ہیں کہ ان کے نزدیک حالات کو قابل برداشت بنانے کا یہی اکلوتا طریقہ ہے.

    ایسا ہی ایک نام محمد حمید شاہد کا ہے. ان کا شمار پاکستان کے نمایاں فکشن نگار اور ناقدین میں‌ ہوتا ہے. 23 مارچ 1957 کو پنڈی میں‌ پیدا ہونے والے اس تخلیق کار نے بینکاری کا شعبہ اپنایا۔ ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں، جنھیں ناقدین اور قارئین نے یکساں سراہا. 23 مارچ 2017 کو انھیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا.

    محمد حمید شاہد کے نزدیک ادب ہمیشہ احساس کی سطح سے معاملہ کرتا ہے، فکریا ت سے کم کم، بلکہ صرف وہاں، جہاں مجموعی طور پر انسانیت کے حق میں اُسے برتا جاسکتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ ادب ہمیشہ طاقت ور کا ہتھیار بننے سے مجتنب رہا ہے۔ یہ بہ جا کہ کہانی ہو یا شعر وہ فرد کے جذبات کی تہذیب اور تشکیل میں یقینی کام کرتا ہے ۔ ادب اگرمختلف علاقوں، لسانی و نسلی گروہوں اور مختلف نظریات اور مذاہب سے متعلق لوگوں میں یکساں طور پر قابل قبول ہو جاتا ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دعوے کی زمین سے بنیادیں نہیں اٹھاتا، احساس کی سطح سے معاملہ کرتا ہے.

    البتہ قوت کے مراکز نے ادب اور ادیب کو سماج کے حاشیے پردھکیل دیا ہے۔ ادیب اس صورت حال سے مطمئن کیوں کر ہو سکتا ہے، وہ اس صورت حال سے تشکیل پانے والی رائے عامہ کا نمائندہ نہیں، اس اسٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہے۔ ایسے میں اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے والی قوتیں، ادیب کی اس رائے کو کیسے اہمیت دے سکتی ہیں جو اسٹیٹس کو پر ضرب لگانے والی ہے۔

    اس باصلاحیت قلم کار سے ہونے والا مکالمہ پیش خدمت ہے:


    سوال: کیا ادب پڑھنے والے کم ہوئے ہیں؟ کتاب کلچر متاثر ہوا ہے؟ موجودہ حالات میں ادب کیا گھاٹے کا سودا ہے؟

    محمد حمید شاہد: ادب پڑھنے والے ہر دور میں کم رہے ہیں، اس دور میں بھی کم ہیں۔ ادب اور شاعری کی کتاب کبھی فرنٹ شیلف پر نہیں رہی، تاہم تناسب کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ محض ایک تاثر ہے کہ ادب پڑھنے والے، پہلے کے مقابلے میں کم ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب کو پیچھے دھکیل کر ای کتاب نے بھی اپنی جگہ بنالی ہے، مگر پھر بھی سروے کرکے دیکھ لیں، کتاب چھاپنے کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ پہلے کے مقابلے تعداد میں زیادہ چھپ رہی ہے۔

    یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ شہروں میں قدیم بک اسٹورز بند ہوئے ہیں، مگر اس کاروبار میں نئے لوگ بھی آئے ہیں اور کتاب کی پسپائی کے تاثر کو زائل کیا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے ہاں سماجی پر سطح اس سے بڑی تبدیلی آگئی ہے، جو تبدیلی پہیے کی ایجاد سے آئی تھی، جس نے تبدیلی کے منظر نامے کو لائق توجہ بنائے رکھا ہے۔

    وہ نسل جسے جنریشن ایکس کہا جاتا ہے، اس نے دنیا کی سب سے بڑی اور بہت تیز رفتار تبدیلی کو بہ چشم سر دیکھا ہے۔ہماری آنکھوں کے سامنے ٹیلی وژن آیا اور اس کی صورت بدل گئی، بلیک اینڈ وہایٹ ٹی غائب ہو گیا۔ وی سی آر آیا اور غائب ہوا۔ ٹیپ ریکارڈر اور آڈیو کیسٹ کا چلن ہوا اور انجام کو پہنچا۔

    [bs-quote quote=”قوت کے مراکز نے ادب اور ادیب کو سماج کے حاشیے پردھکیل دیا ہے۔ ادیب اس صورت حال سے مطمئن کیوں کر ہو سکتا ہے، وہ اس صورت حال سے تشکیل پانے والی رائے عامہ کا نمائندہ نہیں، اس اسٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہے۔ ” style=”style-2″ align=”left” author_name=”محمد حمید شاہد” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/05/60×60.jpg”][/bs-quote]

    ڈائل گھمانے والے ٹیلی فون سے سیل فون تک کا سفر، ڈرون ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ایچ ڈی امیجز، فاصلے سمٹ گئے، آواز کے ساتھ تصویر سفر کرنے لگی، اخبارات اور جرائد انٹرنیٹ پر منتقل ہونا شروع ہو گئے، ای بینکنگ، ای آفس غرض اس ایکس جزیشن نے وہ کچھ بنتے اور مٹتے دیکھا ہے، جو نسل انسانی کی پوری تاریخ میں کسی نے نہ دیکھا تھا۔

    یہ سب کچھ سرمائے کی بڑھوتری کا سبب بھی بنا تو سامراج کیسے چپکے سے بیٹھ سکتا تھا، اس کے ہاں بھی نئے نئے حیلے آئے، پہلے جہاد پھر دہشت، یہ جنگ کے روپ تھے. اسلحے کے ڈھیر لگ گئے تھے، اس کے استعمال کے مواقع بنائے گئے ۔ پہلے یہ اکنامکس کا اصول ہوا کرتا تھا کہ طلب کے مطابق رسد ہو گئی، مگر اب یہ اصول بدل گیا۔ مصنوعی طلب پیدا کرنے کے طریقے ایجاد ہوئے۔اشیاء کی عمریں گھٹ گئیں۔ ڈسپوز ایبل کلچر وجود میں آگیا، وغیرہ وغیرہ۔

    اس سب کے مقابلے میں ادب تھا اور ادب ہے، اپنی دھج سے چلتا ہوا اور اپنے تخلیقی وقار سے آگے بڑھتا ہوا، کہہ لیجئے یہ گھاٹے کا سودا ہے مگر اس کا وقار اور اس کا سواد، اسی میں ہے۔

    سوال: آج کے نوجوانوں کو کن شعرا اور ادیبوں کو پڑھنا چاہیے؟

    محمد حمید شاہد: نوجوانوں کے پڑھنے کو بہت کچھ ہے۔ ہمارے ہاں شعر و ادب کی ایک پوری روایت موجود ہے۔ اتنا کچھ پڑھنے کو ہے کہ وہ اپنے اپنے مزاج کے مطابق اس میں سے انتخاب کر سکتے ہیں۔ میر و غالب سے لے کر اقبال تک اور راشد میرا جی، مجید امجد فیض و فراز سے لے کر آج کے شاعروں تک پھر فکشن کی ایک دنیا ہے پریم چند سے شروع ہو جائیں، بیدی، منٹو۔ عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، غلام عباس، اشفاق احمد، انتظارحسین، منشایاد، اسد محمد خان سے آج کے فکشن لکھنے والوں تک، کہیں کسی کمی کا یا تشنگی کا احساس نہیں ہوگا۔

    ادب ہی سے آج کے نوجوان کی مزاج سازی ممکن ہوگی۔ ہماری یونیورسٹیوں میں سوشل سائنسز کے ڈسپلنز کچھ عرصے سے نظرانداز ہو رہے ہیں، ادھر توجہ دینا ہوگی۔ اردو زبان و ادب کی طرف یونیورسٹیوں کو آنا ہوگا اور یہیں سے ہم جان سکیں گے کہ ہمارے نوجوان کو کیا پڑھنا چاہیے اور کس طرح پڑھنا چاہیے۔

    سوال: اردو کا مستقبل آپ کیا دیکھ رہے ہیں، کیا رسم الخط کو خطرات لاحق ہیں؟

    محمد حمید شاہد: میں اردو زبان کے مستقبل کے حوالے سے بہت پرُامید ہوں۔ اچھا اس امید کے معاملے میں میں اکیلا نہیں ہوں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زبان بھی بن چکی ہے۔ میں نے کاتبوں کو لیتھو پرنٹنگ کے لیے پیلے کاغذ پر کتابت کرتے دیکھا، پھر وہ بٹر پیپر پر لکھتے نظر آئے، کمپیوٹر آیا تو ان پیج کا چرچا ہوا، اب یونی کوڈ میں اردو لکھی جا رہی ہے تو ظاہر ہے اس باب میں خوب خوب سرمایہ کاری ہوئی ہے، تب ہی تو یہ منازل طے ہوئی ہیں۔

    یاد رہے، سرمایہ دار کسی ایسے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرتا جہاں اس کے سرمائے کے ڈوبنے کا اندیشہ ہو۔ سو یوں ہے کہ اردو اپنے رسم الخط کے ساتھ آپ کے کمپیوٹر سے لے کر آپ کے سیل فون تک فراہم کر دی گئی ہے کہ یہ زبان مستقبل کی زبان ہے اور اس پر لگایا جانے والا سرمایہ بھی محفوظ ہے۔

    بس اگر خرابی ہے تو یہ ہے کہ یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی۔ اس باب میں حکمرانوں کی چال، جو پہلے بے ڈھنگی تھی، اب بھی بے ڈھنگی ہے۔ اسے اگر دفتری زبان بنالیا جاتا ہے، تو اس باب کے وہ خدشات بھی دور ہو جاتے ہیں، جن کا ذکر بالعموم ہوتا ہے، مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ اس ملک کی اعلی ترین عدالتیں اس باب میں فیصلہ سنا کر خود اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کی بجائے انگریزی میں فیصلے لکھنا مناسب سمجھتی ہیں۔

    خیر ایسا کب تک ہوگا؟ یہ روش انہیں بدلنا ہی ہو گی۔ اب رہا مسئلہ رسم الحظ کا تو صاحب اسے کیوں بدلیں؟ رسم الحظ بدلنے کا مطالبہ کرنے والوں کو جاننا چاہیے کہ اس حرکت سے اردو کا حلقہ وسیع ہو گا نہ اسے لکھنا سہل ہو جائے گا۔

    میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے سے زبان سمجھنے والے سکٹر سمٹ جائیں گے، زبان کا معیار متاثر ہوگا اور بگڑی ہوئی زبان سے بھلا کون چمٹے رہنا پسند کرے گا؟ رسم الحظ کی تبدیلی زبان کے تحریری حسن اور تلفظ کو برباد کر کے رکھ دے گا۔ اس باب کی اگر کچھ مشکلات ہیں تو اس جانب توجہ دی جانی چاہیے ۔ انٹر نیٹ کی زبان بننے کے بعد بہت سے مسائل حل ہوگئے ہیں۔

    انٹرنیٹ پر ہی ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے پر کام ہو رہا ہے، یوں اس رسم الخط میں لکھنے اور اسے سمجھنے کے باب میں مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صورتیں نکل رہی ہیں، اس جانب اداروں کو کام کرنا چاہیے۔ یونیورسٹیوں اور علمی، ادبی اداروں کوعلمی ادبی کتب کا سرمایہ اردو یونی کوڈ میں انٹر نیٹ پر فراہم کرنا چاہیے۔ رسم الخط بدلنے کی بابت سوچنے کی بہ جائے ہمارے کرنے کا یہی کام ہے، اسی سے ہماری زبان، اسے بولنے والے اور اس سے محبت کرنے والے ترقی کریں گے۔

    سوال: کیا ادیب کا کام فقط ادب تخلیق کرنا ہے یا ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر اسے اپنی ذمے داری کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا؟

    محمد حمید شاہد: جب جب مجھ سے یہ سوال کیا گیا، مجھے فیض احمد فیض کاوہ جملہ یاد آیا جو انہوں نے "شاعر کی قدر” مشمولہ "میزان” میں لکھا تھا۔ یہی کہ "آرٹ کی قطعی اور واحد قدر محض جمالیاتی قدر ہے”. فیض صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ "شاعر خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اور اس کی قدریں کچھ ہی کیوں نہ ہوں، اگر اس کا کلام جمالیاتی نقطہ نظر سے کامیاب ہے، تو ہمیں اس پر حرف گیری کا حق حاصل نہیں۔”

    اب میں آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں، "ذمے داری کا دائرہ وسیع کرنے” کے مطالبے کو پڑھتا ہوں، تو مجھے یوں لگتا ہے، جیسے یہ تاثر بن گیا ہے کہ ادیب سماج کا ذمہ دار فرد نہیں ہوتا، بس اسے لکھنے سے کام ہوتا ہے، نہیں صاحب ایسا نہیں ہے۔ ادیب کا لین دین سماج سے ہے اور اس باب میں وہ پوری طرح چوکس ہے اور یہیں سے وہ ادب کی جمالیات اخذ کرتا ہے، تاہم ادب محض سماج کا آئینہ نہیں ہے۔ یہ اسٹیٹس کو پر ضرب لگاتا ہے، مگر ایسا کسی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داری کے سبب نہیں کرتا، ادب اپنی ترکیب میں ہوتا ہی ایسا ہے۔ وہ جو بیان نہیں کیا جاسکتا اسے بیانیے میں لے آنے والا ، موجود پر سوالات قائم کرنے والا اور آئندہ کی جانب احساس کی سمت موڑ دینے والا۔

    ادب اس باب میں کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ سماج سدھار نے کا علم لے کر نکلا ہے کہ تخلیقی عمل کا منصب اپنے کام سے غافل ہو کر یوں ہانکا لگانا، نعرہ مارنا یا جلوس نکالنا نہیں ہے۔ اچھا یہ بھی جاننا چاہیے کہ معاشرے کی سطح پر اٹھنے والی ہنگامی لہریں ادب کا فوری مسئلہ نہیں ہوتیں۔ یہ بہت گہرائی میں بن چکے اس مزاج سے عبارت ہے، جو زمین، زبان، روایات اور عقائد سب مل کرمرتب کرتے ہیں۔

    ظاہر ہے یہ ایسا منصب ہے جو طاقت ور کی ڈکٹیٹ کرائی گئی تاریخ، سیاست دان کی چلائی ہوئی مہم، تنقید کی ترتیب دی گئی لسانی تراکیب اور میڈیا کے تشکیل دیے گئے ہنگامی بیانیہ، اخبار کے لیے لکھی گئی خبر اور کالم سے الگ دائرہ عمل ہے، اپنی تہذیب اور اپنے سماج سے بہت گہرائی میں اور بہت ذمہ داری سے جڑا ہوا۔

    [bs-quote quote=”ادب محض سماج کا آئینہ نہیں ہے۔ یہ اسٹیٹس کو پر ضرب لگاتا ہے، مگر ایسا کسی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داری کے سبب نہیں کرتا، ادب اپنی ترکیب میں ہوتا ہی ایسا ہے۔ وہ جو بیان نہیں کیا جاسکتا اسے بیانیے میں لے آنے والا ، موجود پر سوالات قائم کرنے والا اور آئندہ کی جانب احساس کی سمت موڑ دینے والا” style=”style-2″ align=”right” author_name=”محمد حمید شاہد” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/05/60×60.jpg”][/bs-quote]

    سوال: آیندہ انتخابات کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں؟

    محمد حمید شاہد: جب تک جمہوری عمل اپنی روح کے ساتھ بحال نہیں ہوتا، جمہوریت کے نام پر کٹھ پتلیوں کا یہ تماشایوں ہی چلتا رہے گا۔ اور یہ جمہوری عمل اس وقت صاف شفاف نہیں ہوسکتا، جب تک سیاست سے پریشر گروپس ختم نہیں ہو جاتے، جو ایسے ہی طاقت کا منبع سمجھے جانے والے اداروں کی ڈکٹیشن کو لے کر غیر جمہوری اقدامات کے حق میں فضا سازی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

    یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان بننے میں مذہب کا بہت اہم کردار ہے۔ تسلیم کہ تحریک پاکستان کے پیچھے دو قومی نظریہ کام کر رہا تھا مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ تحریک جس کے پیچھے دوقومی نظر یہ کام کر رہا تھا، اس کا 14 اگست 1947 کو خوشگوار اور کامیاب انجام مسلمانوں کو ایک آزاد وطن پاکستان مل گیا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی قوم کو اس فضا سے نکل جانا چاہیے تھا۔

    اب پاکستانی ایک قوم اسی صورت میں بن سکتے ہیں کہ یہاں وطن ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرے گا۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان ہی کی مرضی چلنی ہے کہ جمہوریت کا یہی تقاضا ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ایسی جماعتوں کی کوئی گنجائش نہ تھی، جو مذہبی بنیادوں پر تعصبات کو ہوا دیتی ہیں، نہ ہی ایسی جماعتوں کی گنجائش ہے جو پاکستان کی مذہبی شناخت کو ہی ختم کرنا چاہتی ہیں۔

    موجودہ صورت حال میں جو شدت پسندی اور عدم رواداری ہے اس کی وجہ ایسی جماعتیں ہیں اور ان کے عسکری ونگز ہیں، جو خود اپنی مرضی سے مذہب اور تصور پاکستان کی تشریح کرتے اور زور زبردستی لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں فکری انتشاراور آپا دھاپی کی یہی وجوہات ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے مسئلے کی بنیادوں کو سمجھنا ہوگا۔ مجھے یہاں آصف فرخی کا ایک افسانہ یاد آتا ہے "بن کے رہےگا!” جی یہ وہ نعرہ تھا، جو تحریک پاکستان میں لگایا گیا تھا۔ بن کے رہے گا پاکستان، اور افسانے میں بتایا گیا ہے کہ ابھی تک ہم اس نعرے کی باز گشت سن رہے ہیں، پاکستان بن گیا مگر بن ہی نہیں چکتا۔ تو صاحب، اس فضا سے نکلیں حقیقی جمہوری عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔

    ہر ادارے کو اپنے دائرہ عمل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت لانا ہو گی۔ فرقے، علاقے اور زبان کے تعصب کی بنیاد پر قائم جماعتوں کو سیاسی عمل سے الگ کرنا ہوگا، تب ہی کوئی تبدیلی ممکن ہوگی اور سیاسی استحکام آئے گا۔ موجودہ صورت حال میں ایک مخلوط اور غیر مستحکم حکومت بنے گی، جو اپنے فیصلے آزادی سے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی.


    ایلف شفق، عشق اور چالیس اصول 


    دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے دس ناول


  • درد کہاں جاتے ہیں مائے

    درد کہاں جاتے ہیں مائے

    شاعری کا ظہور انسانی جذبے سے ہوتا ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ غزل کا ظہورکیسے ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ من بھیتر میں تسلیم ورضا کا بے پناہ جذبہ اس کا باعث ہے؛ اُس وقت جب ہم حسن کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں تب چاہے مسرت کا حصول ہو یا دکھ اٹھائیں۔ لیکن نظم کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یہ بالکل ایک الگ سوال ہے۔ نظیر سے لے کر اقبال اور فیض تک اور آج تک کے تقریباً تمام اہم نظم گو شعرا تک نظم کی روایت پر نگاہ دوڑائی جائے تو اس کا جنم ایک جذبۂ پیکار سے ہوتا معلوم ہوتا ہے۔جذبۂ پیکاراپنے وجود کے معروض کو بدل دینے کی تڑپ سے لب ریزجذبہ۔

    افتخار بخاری 80 کی دہائی کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نظم گوشاعروں میں نمایاں نام ہے۔ کاتب تقدیر نے ان کے لیے کوئی ایسی کہانی گھڑی کہ ان کی پہلی کتاب کو منظرعام پر آنے میں پینتیس سال لگ گئے۔ ایک طرف یہ رجحان اور ایک طرف یہ کہ ابھی شاعری کی سیڑھی پر پہلا قدم دھرا پڑا ہے اورمجموعہ بھی چھپ کر آجاتا ہے۔

    دو اہم نام شامل ہیں جواس کتاب ’درد کہاں جاتے ہیں مائے‘ کاتعارف کراتے ہیں۔ فلیپ پرفکشن کے جادوگر محمد حمید شاہد اور پیش لفظ کے طور پرعلینہ کے خالق علی محمد فرشی۔

    میں اس کتاب کی پہلی نظم کو مرکز نگاہ بناکر یہ بتانے کی سعی کرنا چاہتا ہوں کہ اس شاعری کا جنم کہاں سے ہوا ہے اوراس سلسلے میں ان دوصاحبان کے فرمودات سے مدد لے کر اپنی بات کروں گا۔

    فرشی صاحب معاصر نظم میں داخلی پیٹرن کی متنوع تشکیل کا ذکر کرتے ہیں لیکن انھوں نے افتخار بخاری کی کسی نظم میں یہ تشکیلی عمل ہمیں دکھانے سے گریز کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ دعویٰ ادھورا رہ گیا ہے کہ”افتخار کی نظم اسلوب کے ذریعے اپنی پہچان کراتی ہے۔“ ہاں، انھوں نے تاثراتی تجزیہ خوب کیا ہے۔

    اس کتاب کی پہلی نظم ہے: ”شاعری چالاک ہوتی ہے“۔

    ”شاعری چالاک ہوتی ہے
    بھیس بدل کرستم گروں کی
    نظروں سے چھپی رہتی ہے
    جب میں دوسروں کے کھیتوں میں
    ہل چلاتاہوں
    شاعری بھوک بن کرمیرے پیٹ میں ہوتی ہے۔

    مل میں محنت کرکے
    جب میں شام گھر لوٹتا ہوں
    شاعری تھکن کی صورت
    میرے لٹکے ہوئے بازوؤں میں ہوتی ہے
    اور جب میری آنکھیں
    شہر لاحاصل کے منظروں کی بیگانگی میں
    بے مصرف ہوجاتی ہیں
    شاعری مہربان عورت کا
    روپ دھار کر
    میرے خوابوں میں چلی آتی ہے۔

    جب میرے ستم گر
    شاعری کو پناہ دینے کاالزام لگا کر
    میری تلاشی لیتے ہیں
    وہ کچھ بھی برآمد نہیں کرسکتے۔
    اس وقت شاعری خوف بن کر
    ان کے دلوں میں ہوتی ہے“

    علی محمد فرشی نے افتخاربخاری کو امیجسٹ قرار دیا ہے۔ یہ خاصا سویپنگ اسٹیٹمنٹ ہے۔ دو تین نظموں میں امیجز کی جھلک ملتی ہو تو ہو لیکن باقی شاعری ایسی سادہ بیانی سے عبارت ہے جو اپنی فنی تشکیل کے لیے شبیہ سازی کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔نظم کی تنقید میں یہ اہم نکتہ نظرانداز کیا جاتا ہے کہ اس کی اپنی ضرورت کیا ہے۔ افتخاربخاری کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی جو مجھے نظر آئی ہے، وہ یہی فنی ادرا ک ہے کہ یہاں اس شاعری کی اپنی ضرورت کیا ہے۔ یہی اس نظم گو کی فنی پختہ کاری ہے کہ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ادراک کے دائرے میں ہے۔ تمام متن میں نظم کی اس سمت سے روگردانی نہیں کی گئی ہے۔ ایک کثیرالجہت امیج کی تشکیل بہ ہرحال نظم کے متن کو اُس سمت سے بالکل الگ راستے کی طرف لے جاتی ہے جہاں شاعری میں فکشن کا رنگ کارفرمائی دکھاتا ہے اور چوں کہ وہ شاعری ہے اس لیے نہ وہاں امیج بننے دیتا ہے نہ افسانے کافریم۔

    مذکورہ بالا نظم میں ہر شے بالکل واضح ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ایک داستان گو پوری وضاحت کے ساتھ کہانی سناتاہے۔ پہلے بند میں ایک کسان کا کردار بیان کیا گیا ہے اور دوسرے میں مزدور کا جو شہر کی دوڑ میں لاحاصل بھاگتا ہے‘ جو سرمایہ دارانہ نظام کا ایندھن بناہوا ہے۔ تیسراکردار ایک میٹا نریٹو کی مانند ہے جو ہے بھی اور نہیں بھی۔ جوتمام بیانیے پر غالب نظر آتا ہے۔ جسے شاعر نے شاعری کہا ہے۔ یہ کرداردراصل ایک جذبہ ہے جو کسان اور مزدور کے ساتھ ساتھ سفرکررہا ہے‘ جس سے اہلِ اقتدارخوف زدہ ہیں۔ کیا یہ جذبہ محض داخلی نوعیت کا ہے جس کے لیے نظم میں ’شاعری‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہ صرف شاعری نہیں ہے، یہاں شاعری اپنے معروض کی مزاحمت کا نام ہے۔ یہاں معروض اور موضوع کا جدلیاتی عمل واضح دکھائی دیتا ہے۔ یوں اس نظم کا کلیدی اشارہ جذبۂ پیکارہے۔ لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔

    محمد حمید شاہد نے اس شاعری کے داخلی پیٹرن کو زیادہ بہتر طورپر نشان زد کیا ہے‘ جس میں ابھرنے والے امیجزشاعرانہ سے زیادہ فسانوی ہیں۔ یہ ایک کہانی کی تجسیم کرتے ہیں جودکھ اور نارسائی سے عبارت ہے‘ جو بے تعبیر ہے۔ وہ چوں کہ خود ایک فسوں گر فسانہ گو ہیں، اس لیے زیادہ حیرانی کا باعث نہیں جوانھوں نے ایک شاعر کے متن کے داخلی پیٹرن کے ایک غالب اشارے کو پکڑلیا ہے۔ اس تناظر میں اس نظم کے اسلوب کا ایک اور اشارہ دیکھیے۔ متن کے داخلی پیٹرن سے جس جذبۂ پیکار کی جھلک ملتی ہے اس کی لسانی تشکیل کے تمام اشارے اس کی خوابیدہ کیفیت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ فعال جذبۂ پیکار نہیں ہے، یہ اپنی انقلابی حرکیات کی عدم فعالیت کے سبب اپنی نارسائی کو دکھ بناکر زیست کررہا ہے۔

    دیکھا جائے تو یہ شاعری ہمارے سماج میں عدم فعال جذبوں کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے‘ یہیں اس شاعری کا جنم ہوتا ہے۔ اسی کی طرف حمید شاہد اشارہ کرتے ہوئے نظم (شاعری) پر اتنا بڑا الزام دھرتے ہیں کہ:”جس خواب کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی، اس کی آخری پناہ گاہ کہانی نہیں، ایک نظم ہوتی ہے۔“ مذکورہ نظم اور دیگر کئی ساری نظمیں اس الزام کو تقویت فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نظم کی اس توہین آمیز بے سمتی پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقتاً یہ نظم ہی ہے جوایک بے خواب دنیا میں جنم لیتی ہے اور اسے خواب دیکھنا سکھاتی ہے اور اسے تعبیر کاشعور عطاکرتی ہے۔

    سب سے اہم نکتہ جو افتخاربخاری کی ان نظموں میں کھوجا جانا ہے، یہ ہے کہ ان کا داخلی پیٹرن نظمیت کو اپنی تشکیل کا کہاں تک حصہ بناسکا ہے۔ فی الوقت تو اسے کلیشے زدہ طرز اظہار کی نمایندہ شاعری کہا جاسکتا ہے۔ دیکھیں:
    نظم دوسری یاد: جدائی کا بے انت کہرا‘ فراموش ستارے‘ عہد رفتہ کی گردآلود آوازیں‘ مہذب جہنم‘ لہومیں بہتی آتش۔
    نظم آدمی: دیارغیر‘ پیالیوں سے اٹھتی بھاپ‘ بھید کھولنا‘ آنکھوں سے درد امنڈنا۔
    نظم زمین پر ایک دن: دل کا خموشی سے محو گفتگو ہونا‘ گلیوں کا بھٹکنا‘ کاسۂ گدائی‘ یہ سامنے کا عام خیال کہ اگر دن کا استعمال کیا جائے تو ناکامی ملے گی یا کام یابی۔
    غرض ہرنظم کی تشکیل اس طرح کی نہایت ہی مستعمل یا سامنے کی تراکیب سے ہوئی ہے۔
    علی محمد فرشی نے بالکل صائب اشارہ دیا ہے کہ ڈکشن افتخاربخاری کا مسئلہ نہیں ہے‘ یقیناً یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری بیان اور خیال کی ندرت سے تہی محسوس ہوتی ہے۔ڈکشن محض لفظوں کی کرتب بازی نہیں، ذہین تخلیق کار کے لیے جہان ِمعنی کے نئے در وا کرنے کاراستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس شاعری میں ان کا کوئی منفردلہجہ تشکیل نہیں پایا۔

    اس مجموعے میں جونظم مجھے سب سے زیادہ پسند آئی، آپ بھی ملاحظہ کریں:

    سفرمیں نیند کی خواہش

    سنو!
    جب تم کسی لمبے سفرپر جارہی ہو
    ریل گاڑی بے کشش، بے رنگ
    رستوں سے گزرتی ہو
    مسافت کی طوالت سے
    تم اکتانے لگو
    اورپھراچانک نیند آجائے
    سہاناخواب دیکھو
    اور جب جاگو
    تو یہ جانو
    کہ لمبا راستہ طے ہوچکا ہے
    تو بڑی راحت سی ملتی ہے
    مرے حق میں تمھاری آرزو بھی
    زندگانی کے سفر میں
    نیند کی خواہش تھی
    لیکن کیا کروں
    مجھ کو سفر میں نیند آئے بھی
    تو جلدی جاگ جاتا ہوں

  • ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتا کہانی کار(تبصرہ)

    ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتا کہانی کار(تبصرہ)

    ‎تحریر: آمنہ احسن

    محمد جمیل اختر سے پہلا تعارف ان کی ایک مختصر کہانی سے ہوا۔ کہانی، جسے ایک فکشن نگار نے اپنی فیس بک وال پر شیئر کیا تھا۔ وہ کہانی مصنف سے باقاعدہ دوستی کا آغاز ہوا تھا۔ میں نے مصنف کو ایک کم گو اور نفیس انسان پایا، کم الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے والا  وہ ایک پیدائشی آرٹسٹ۔

    آرٹسٹ کا خدا سے، خدا کی بنائی ہر شے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ محمد جمیل اختر کی کتاب ٹوٹی ہوئی سڑک، جو ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کی پہلی کتاب ہے، ہاتھ میں آنے اور اسے آخر تک پڑھ لینے کے دوران یہ احساس بار بار ہوتا رہا کہ مصنف کا قدرت سے، اس کی بنائی ہر شے سے اور ارد گرد موجود ہر انسان سے کتنا گہرا تعلق ہے۔

    [bs-quote quote=”جمیل اختر کے کردار درختوں، پرندوں اور ہواؤں سے باتیں کرتے ہیں۔ خوف اور خاموشی سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ ” style=”style-2″ align=”left” author_name=”آمنہ احسن” author_job=”تبصرہ نگار”][/bs-quote]

    مصنف کو کمال حاصل ہے کہ ٹرین کے ٹکٹ چیکر کی کہانی لکھتے لکھتے ایسا سماں باندھ دیتا ہے کہ آپ خود کو اس ٹرین میں بیٹھا ایک مسافر سمجھنے لگتے ہیں۔

    جمیل کے لکھے افسانے ہمارے تعفن زدہ معاشرے میں پھیلے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان افسانوں کو پڑھتے پڑھتے افسانے کے کرداروں پر رحم آتا ہے، کبھی ان کی بے بسی پر رونا آتا ہے، کبھی کبھی غصہ آنے لگتا ہے۔

    کبھی یوں لگتا، جمیل نے صرف افسردہ اور اداس لوگوں کے بارے میں ہی لکھا ہے، لیکن اپنے ارد گرد جب جمیل کے تراشے کرداروں سے مشابہ انسان چلتے پھرتے نظر اتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی اساس میں سچ لکھا ہے۔ ہر طرف اداسی ہے۔


    دنیا میں‌ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دس کتب


    ابھی ان کے افسانوں کا سحر اترا نہیں ہوتا کہ دوسرے حصے میں موجود مختصر کہانیوں کی باری آجاتی ہے۔ جمیل کم سے کم الفاظ میں بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ کوئی پیغام دینا ہو، کسی اہم مسئلے پر توجہ دلانی ہو یا کوئی درد ناک خبر سنانی ہو، مصنف سب کچھ چند الفاظ میں کہہ سکتا ہے ۔

    یہ کتاب مختصر افسانوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے اور دو گھنٹوں کی مستقل توجہ سے ایک ہی نشست میں مکمل پڑھی جاسکتی ہے۔ اور یہی شاید اس کتاب میں پائی جانے والی واحد خامی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر تشنگی رہ جاتی ہے۔ خیال آتا ہے ایک آدھ افسانہ اور ہوتا۔ چند کہانیاں مزید ہوتیں، تو اچھا ہوتا۔

    پاکستان ادب پبلشر کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کے صفحات 120 ہیں۔ کتاب کی قیمت  300 روپے ہے، اسے ڈسٹ کور کے ساتھ اچھا گیٹ اپ کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔


    اگاتھا کرسٹی، جس نے شیکسپئر کی مقبولیت کو چیلنج کر دیا تھا


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شاعری کے عالمی دن پر اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    شاعری کے عالمی دن پر اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    آج دنیا بھر میں شاعری کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہماری قومی زبان اردو نے میر تقی میر، غالب، اقبال، داغ، فیض ، فراز اور جون ایسے مایہ ناز شاعر پیدا کیے ہیں جن کے افکار سے ساری دنیا متاثر ہے۔

    شاعری کے عالمی دن پر آپ کے ذوق کو مہمیز کرنے کے لیے یہاں پر اردو کے وہ ایک سو مشہور ترین اشعار دیے جا رہے ہیں جو بہت مشہور اور زبان زد عام ہوئے، اور لوگوں نے بے حد پسند کیے۔

    1.  لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

    علامہ اقبال

    2.  بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
    تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

    مرزا غالب

    3. قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

    مولانا محمد علی جوہر

    4. نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے
    پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

    میر تقی میر

    5. خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
    خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

    علامہ اقبال

    6. دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
    تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

    کلیم عاجز

    7. قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
    خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

    میاں داد خان سیاح

    8. رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
    تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

    ابراہیم ذوق

    9. کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    مرزا غالب

    10. خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی

    11. چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
    عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

    فدوی عظیم آبادی

    12. پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
    مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

    علامہ اقبال

    13. تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
    کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

    علامہ اقبال

    14. مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
    وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

    برق لکھنوی

    15. فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
    بس ہو چکی نماز، مصلّہ اٹھایئے

    حیدر علی آتش

    16. آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
    میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا

    حیدر علی آتش

    17. مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
    مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے

    حیدر علی آتش

    18. امید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت
    کہ اس کافر کی ’ہاں‘ بھی اب ’نہیں‘ معلوم ہوتی ہے

    چراغ حسن حسرت

    19. داور حشر میرا نامہء اعمال نہ دیکھ
    اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

    محمد دین تاثیر

    20. اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
    یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

    فراق گورکھپوری

    21. ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
    اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

    عزیز الحسن مجذوب

    22. وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
    پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

    مہاراج بہادر برق

    23. چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
    چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے

    یگانہ چنگیزی

    24. دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا
    وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا

    عزیز لکھنوی

    25. اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
    بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا

    عزیز لکھنوی

    26. دینا وہ اس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
    منہ پھیر کر اُدھر کو، اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ

    نظام رام پوری

    27. یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
    یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے

    اکبر الہٰ آبادی

    28. بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
    اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
    پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

    اکبر الہٰ آبادی

    29. آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
    تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

    گمنام

    30. اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
    گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

    علامہ اقبال

    31. توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جایئے
    بندہ پرور جایئے، اچھا، خفا ہو جایئے

    حسرت موہانی

    32. تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
    مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

    مضطر خیر آبادی

    33. دیکھ آؤ مریض فرقت کو
    رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے

    حسن بریلوی

    34. خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں
    مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

    اکبر الہٰ آبادی

    35. دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
    جب تک شراب آئے کئی دور ہوگئے

    شاد عظیم آبادی

    36. ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
    راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

    الطاف حسین حالی

    37. سب لوگ جدھر وہ ہیں، ادھر دیکھ رہے ہیں
    ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

    داغ دہلوی

    38. دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
    ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

    داغ دہلوی

    39. گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد
    ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں

    امیر مینائی

    40. فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
    بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    41. ذرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے
    بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے

    علامہ اقبال

    42. ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ
    پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لایئے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    43. وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
    میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے

    مصطفیٰ خان شیفتہ

    44. لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار
    خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

    میر انیس

    45. شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
    زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے

    مومن خان مومن

    46. الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
    لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

    مومن خان مومن

    47. اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا
    کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا

    محمد رضا برق

    48. کوچہء عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
    خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے

    وزیر علی صبا

    49. دم و در اپنے پاس کہاں
    چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں

    مرزا غالب

    50. گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
    کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی

    مرزا غالب

    51. جانتا ہوں ثواب طاعتِ و زہد
    پر طبیعت ادھر نہیں آتی

    مرزا غالب

    52. غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
    ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

    مرزا غالب

    53. بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
    کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

    مرزا غالب

    54. اسی لیے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں
    اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

    خواجہ وزیر

    55. زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
    کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایماں بہہ گیا

    محمد ابراہیم ذوق

    56. ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
    مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

    اکبر الہٰ آبادی

    57. فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
    اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کیا کرے

    محمد رفیع سودا

    58. یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
    یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

    علامہ اقبال

    59. تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

    علامہ اقبال

    60. یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
    جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے

    شاد عظیم آبادی

    61. حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    مخدوم محی الدین

    62. اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
    سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

    میر تقی میر

    63. اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

    اقبال

    64. آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

    مرزاغالب

    65. اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض احمد فیض

    66. دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

    ناصر کاظمی

    67. نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیئے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی

    68. اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
    پھر ملیں گے اگر خدا لایا

    میر تقی میر

    69. شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
    عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے

    میر تقی میر

    70. بہت کچھ ہے کرو میر بس
    کہ اللہ بس اور باقی ہوس

    میر تقی میر

    71. بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
    تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

    مادھو رام جوہر

    72. عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
    دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

    بہادر شاہ ظفر

    73. بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
    جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے

    میر تقی میر

    74. ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
    آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

    میر تقی میر

    75. سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    میر تقی میر

    76. نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
    جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

    علامہ اقبال

    77. کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
    ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجیئے حضور
    ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

    ساغر صدیقی

    78. زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
    سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

    علامہ اقبال

    79. دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
    رات کٹتی نظر نہیں آتی

    سید محمد اثر

    80. تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
    اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

    میر تقی میر

    81. میرے سنگ مزار پر فرہاد
    رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد

    میر تقی میر

    82. ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ
    کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

    قائم چاند پوری

    83. زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ساغر صدیقی

    84. ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا
    یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

    نظیر اکبر آبادی

    85. پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے
    جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے

    نظیر اکبر آبادی

    86. دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
    بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں

    اکبر الہٰ آبادی

    87. کہوں کس سے قصہ درد و غم، کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے
    جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
    مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر، ترا حال اکبرِ نوحہ گر
    تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے

    اکبر الہٰ آبادی

    88. نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی
    کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی

    اکبر الہٰ آبادی

    89. مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
    ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں

    امیر مینائی

    90. اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
    الفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے

    ماہر القادری

    91. کہہ تو دیا، الفت میں ہم جان کے دھوکہ کھائیں گے
    حضرت ناصح! خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟

    ماہر القادری

    92. اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر
    مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہء نو بہار بن کر
    یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
    وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر

    ساغر صدیقی

    93. آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    ساغر صدیقی

    94. محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم
    کچھ گفتگو تو کھل کے کریں گے خدا کے ساتھ

    عبدالحمید عدم

    95. عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
    ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے

    حفیظ میرٹھی

    96. صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
    نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی

    گستاخ رام پوری

    97. چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
    اے شبِ ہجر تیرا کالا منہ
    بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
    آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ

    مومن خان مومن

    98. سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

    احمد فراز

    99. مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
    وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

    افتخار عارف

    100. اے خدا جو کہیں نہیں موجود
    کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں

    جون ایلیا

    101. بس یہی قیمتی شے تھی سو ضروری سمجھا
    جلتے گھر سے تیری تصویر اٹھا کر لے آئے

    ریحان اعظمی

    نوٹ: اگر آپ اس فہرست میں آپ اپنی پسند کے کسی شعر کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے کمنٹ میں شعر اور شاعر کا نام لکھیئے۔

  • آج احمد فرازکا 87 واں یومِ پیدائش ہے

    آج احمد فرازکا 87 واں یومِ پیدائش ہے

    اسلام آباد: اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعر فرازاحمد فرازؔ کاآج87 واں یومِ پیدائش ہے‘ آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ءکو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    [ps2id url=’#heading1′]
    احمد فراز کے مشاعرے کی ویڈیو دیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کیجئیے

    [/ps2id]

    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہردورمیں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اورجلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

    [ps2id_wrap id=’heading1′]

    [/ps2id_wrap]