Tag: Urdu

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    منتہیٰ ڈورم میں ہاتھ میں کافی کا مگ لیے انتہائی دلچسپی سے سٹیفن ہاکنگ کے نئے کارنامے پڑھنے میں مصروف تھی جبکہ ساتھ والے بیڈ پر کیلی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔ کیلی ہاروورڈ سے انوائرمینٹل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ یہاں آنے سے پہلے وہ یونیورسٹی آف الاسکا میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی۔۔ بنیادی طور پر وہ ایک گونگی عورت تھی۔۔ جسے شاذو نادر ہی مسکراتے دیکھا گیا تھا۔

    منتہی سے لاتعلق کیلی اپنا کام کرنے میں مصروف تھی کہ اس کا سیل تھرتھرایا ۔ دوسری طرف کی بات سن کر وہ لیپ ٹاپ سائڈ پر ڈال کر تیزی سے باہر لپکی۔۔ منتہیٰ نے کچھ خاص تردد کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔ اسے پتا تھا۔۔۔ جواب نہیں ملنا۔ کیلی جلدی میں لیپ ٹاپ اس طرح پھینک کر گئی تھی کہ اس کی سکرین منتہیٰ کی جانب تھی ۔۔اگرچہ یہ غیر اخلاقی تھا۔۔ مگر کبھی کبھی ہر بندے کو کچھ غیر اخلاقی کام کرنے ہی پڑتے ہیں ۔۔ سکرین پر جو فائل کھلی ہوئی تھی اُسے دیکھ کر منتہیٰ کے چودہ طبق روشن ہوئے۔۔ہارپ اینڈ الاسکا یونیورسٹی ۔۔جوائنٹ وینچر ۔۔ چند منٹوں میں وہ فائل منتہیٰ کی یو ایس بی میں کاپی ہوچکی تھیں ۔۔ جب پانچ منٹ بعد کیلی ہانپتی ہوئی واپس لوٹی ۔۔تو منتہیٰ اُسی طرح بیٹھی کافی کی چسکیاں لے رہی تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    اگلے رو ز کیمبرج لائبریری کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھ کر منتہیٰ نے وہ فائل کھنگالی تھی ۔۔ اور پھر ہر آ تے دن کے ساتھ کیلی سے قریب ہونے کی اس کی کوششیں بڑھتی گئیں۔ بعض اوقات کسی کا اعتماد جیتنے کے لیے آپ کو ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور کیلی کے ساتھ الاسکا میں گزاری  گئی اس کی چھٹیاں یقیناًرائیگاں نہیں گئیں تھی۔

    **********

    ارمان فجر کی نماز کے بعد ۔ چائے کے دو کپ لے کر کمرے میں واپس آیا تو توقع کے عین مطابق منتہیٰ آتشدان کے پاس بیٹھی آگ سینک رہی تھی۔۔ ارمان نے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ اسے تھمایا ۔۔ وہ ساری رات جاگا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اسے جگا کر مزے سے سوتی رہی تھی۔۔ وہ عادی تھا ۔۔اس کی اِن عادتوں کا۔۔ وہ اب بھی ویسی ہی تھی۔

    دوسروں کو جگا کر ۔۔خوب سوئیں آپ ۔۔ارمان نے چائے کا گھونٹ بھرا
    میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ آپ ایک ہی شفٹ میں پزل حل کریں۔ سو جاتے آپ۔
    ارمان نے ہنس کر عادتاً اپنا بازو اُس کے کندھے پر پھیلایا ۔۔ مجھے صرف ایک سوال پوچھنا ہے۔۔ جواب دینا پسند کریں گی آپ۔۔؟؟
    نہیں ۔۔ میں نہیں رہتی تو پھر کس سے پوچھتے ۔ وہ پہلی جیسی بد لحاظ منتہیٰ بنی ہوئی تھی ۔۔ ارمان جانتا تھا وہ اُسے آزما رہی تھی
    تم نہ رہتیں ۔۔ تو اِس سے بڑے سوالیہ نشان میری زندگی میں در آتے ۔۔ میں خود کیسے جیتا ۔۔ وہ جذباتی ہوا۔
    جی لیتے ۔۔ منتہیٰ کی نظریں آتشدان کے لپکتے شعلوں پر تھیں۔
    تمہیں میری محبت پر شک ہے۔۔ ارمان نے سختی سے اُس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔۔
    نہیں ۔۔ مجھے آپ کی محبت پر فخر ہے ۔۔ اس نے ارمان کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ہر لفظ ٹہر ٹہر کر ادا کیا۔ ’محبت یہ نہیں ہوتی کہ آپ کسی کے نہ ملنے پر ۔یا ہمیشہ کے لیے کھو جانے پر دنیا تیاگ کر بیٹھ جائیں ۔ کیا ہوا کہ آپ کا دل ہی نہیں روح بھی زخمی ہے ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کی آنکھوں کے دیپ بجھ چکے ہیں ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کے ہونٹ مسکرانے کو ترس گئے ہیں ۔۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں آپ سے بھی زیادہ دکھی ہیں ۔۔آپ اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ بہت سے دوسروں کا سہارا بن سکتے ہیں ۔۔ بہت سے بکھرے ہوؤں کو اپنی آغوش میں پناہ دے سکتے ہیں ۔۔ محبت کا اصل مفہوم انسان اُسی وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر ۔۔اوروں کے لیے جینا شروع کرتا ہے ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرا ارمان بھی میرے بغیر جی سکتا ہے‘ ۔۔

    ارمان اپنی جگہ ساکت تھا ۔۔ یہ لڑکی جو اَب اُس کی بیوی تھی ۔۔ گزشتہ سات سال سے اُس کے ساتھ تھی ۔۔ ہر دفعہ ۔۔ ہر نئے موڑ پر وہ اُسے زندگی کے نئے مفہوم سے آشنا کراتی تھی ۔۔ وہ آل راؤنڈر تھی ۔۔ ہر دفعہ جیت جاتی تھی ۔۔
    ارمان نے جھک کراُس کی فراخ پیشانی کو چوما ۔۔ لیکن اِس بوسے میں محبت کم تھی ۔۔ احترام تھا ۔۔ عقیدت تھی ۔۔
    پھر اس نے ساتھ دھرے ہوئے لکڑی کے باکس سے ۔۔ پلاٹینم رِنگ نکال کر منتہیٰ کی طرف بڑھائی۔۔ جس میں اوپر سات آٹھ آرٹیفیشل ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے ۔۔ جن کے نیچے مائیکرو یو ایس بی ڈرائیو کی پن تھی۔۔
    اگر تم ایک سو بیس کا آئی کیو رکھتی ہو تو ایک سو اٹھارہ سے کم میں بھی نہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کے اس فلیش ڈرائیو میں کیا کچھ ہے لیکن تم نے کیلی سے روابط کیوں بڑھائے ۔۔ تم الاسکا کیا کچھ کرنے گئیں۔۔ میرے علم میں ہے ۔۔ ہارورڈ اور ایم آئی ٹی میں بھی دو چار ٹیکنیکل سیکرٹس پر تم نے ہاتھ ضرور صاف کیے ہوں گے ۔۔
    لیکن مجھے صرف ایک چیز پریشان کر رہی ہے ۔۔ ؟؟ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔
    وہ کیا ۔۔؟؟ منتہیٰ چونکی
    تمہارا یہ پیرا گلائیڈنگ کا حادثہ۔۔ منتہیٰ کو ارمان کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی ۔۔ کانوں میں سیٹیاں سی گونجیں ۔۔
    تو اعتراف کا وقت ۔۔آ ہی گیا تھا ۔۔
    منتہیٰ۔ ارمان نے اُس کے جھکے چہرے کو تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا ۔۔
    کیا یہ حادثہ پہلے سے طے شدہ کوئی منصوبہ تھا ؟؟
    ہاں ۔۔ بہت دیر بعد ۔۔اُس کی آواز بمشکل نکل پائی ۔۔ حلق میں آنسوؤں کا گولا سا اٹکا تھا۔
    ارمان نے آنکھیں سختی سے بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔ تو اس کے خدشات درست تھے
    اگر ایسا تھا اور تمہاری سرگرمیاں کسی کی نظر میں آچکی تھیں ۔۔تو انہوں نے تمہیں زندہ کیوں چھوڑا ۔۔ تمہیں پاکستان کیوں کر آنے دیا ۔۔ کیا تم اس کی کوئی قیمت ادا کر کے آئی ہو ۔۔؟؟ اس کی گہری کھوجتی آنکھیں منتہیٰ کے چہرے کو ٹٹول رہی تھیں۔
    ایسا کچھ نہیں ہوا ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اسے سختی سے گھورا
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم نے ابھی کہا کہ یہ حادثہ پری پلانڈ تھا ۔۔پھر ۔۔؟؟
    ہاں یہ حادثہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔۔ لیکن کسی اور کا نہیں ۔۔ ارمان کو اُس کا چہرہ ایک لمحے کو چٹخا ہوا لگا تھا ۔۔ یہ میرا اپنا پری پلانڈ تھا ۔۔ پیرا شوٹ میں وہ خرابی ۔۔ٹریننگ کے آخری مرحلے سے ایک رات قبل ،میں نے خود پیدا کی تھی۔
    اور ارمان کو لگا تھا کہ بہت زور کا زلزلہ آیا ہو ۔۔ دیواریں ، چھت ۔۔ ریسٹ ہاؤس کی ایک ایک چیز ۔۔اس پر گر رہی تھی ۔۔
    اور اس ملبے کے نیچے وہ فنا ہوتا جا رہا تھا ۔۔

    ***********

    رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ڈاکٹر یوسف اپنی سٹڈی میں دم بخود بیٹھے ۔اِس لڑکی کو سن رہے تھے جس کے بارے میں
    انہیں گمان تھا کہ وہ اسے دنیامیں سب سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر نہیں، اس ویڈیو کو دیکھ کر انہیں لگا تھا ۔۔ منتہیٰ دستگیر سے ان کا اصل تعارف آج ہوا ہے۔۔
    گزشتہ روز ارمان کے ساتھ مری روانہ ہونے سے پہلے منتہیٰ انہیں ایک فلیش ڈرائیو دے کر گئی تھی ۔۔اور اب وہ اِسی ڈرائیو میں سیو ویڈیو دیکھ رہے تھے جو اُس نے سیلفی کیمرے سے شاید کچھ دن پہلے ہی بنائی تھی۔

    اسلام و علیکم پاپا۔ اس ویڈیو کے ساتھ کچھ فائلز منسلک ہیں جن کے متعلق آپ نے استفسار کیا تھا ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اِن تمام سرگرمیوں کا ادراک آپ اور ارمان سمیت میری ذ ات سے وابستہ بہت سے لوگوں کا تھا ۔۔ لیکن ایک بڑی حقیقت اب تک آپ سب کی نظر سے پوشیدہ ہے ۔۔ اور وہ میری زندگی کا یہ اندوہناک حادثہ ہے جو مجھے تحفے میں یہ مفلوج ٹانگ دے کر گیا ہے ۔۔لیکن مجھے کچھ افسوس نہیں ۔ کیونکہ زندگی کی ہمیشہ سے یہی ریت رہی ہے کہ ہار کے بعد جیت مقدر بنتی ہے۔

    دنیا بھر میں ایک معتبر ادارہ سمجھا جانے والا ناسا ۔۔ اندرونِ خانہ ایک گورکھ دھندہ ہے ۔۔دنیا نہیں جانتی کہ اربوں ، کھربوں ڈالرز چاند ، مریخ اور انٹر نیشنل سپیس سٹیشن کے جن مشنز پر جھونکے جارہے ہیں اُن میں سے کتنے انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں ۔۔ وہ تمام انسانی سرگرمیاں جو موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بنی ہیں ۔۔ ناسا اُن سے کئی عشروں سے واقف ہے ۔۔وہ الینز تو ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔ مریخ پر پانی بھی تلاش کر ہے ہیں ۔۔ زحل کے لیے کیسینی جیسے مشن پر دو دہائیوں سے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن اس سیارۂ زمین کے استحکام کے لیے۔ ان کا کوئی خاص مشن اب تک سامنے نہیں آسکا۔
    میری بے پناہ صلاحیتیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔۔وہ میرے لیے ایک خاص مشن تشکیل دینے لگے تھے۔۔
    ڈاکٹر یوسف چونک کر سیدھے ہوئے۔۔ ’مجھے پیگی وٹسن کے بعد انٹرنیشنل سپیس سٹیشن میں ایک طویل عرصہ گزارنا تھا اور ناسا کے ایسٹرو بائیو لوجسٹ میرے ذریعے خلا میں پریگ نینسی ٹیسٹ کا ارادہ رکھتے تھے ۔۔ اگر میں شرعی شادی پر بضد رہتی تو میرے ساتھ ارمان کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ ان کے کسی بھی ایسے مشن کا حصہ بننے کے بعد میری ہی نہیں ارمان کی حیثیت بھی ایک ناکارہ پرزے کی ہوتی۔ یا ایک ایسا آلہ جس پر وہ دل کھول کر تجربات کر سکیں۔۔
    دو چار مشنز کے بعد جن کا مقدر سی آئی اے کے ہاتھوں کسی اندھیری سڑک ۔۔کسی گمنام ہوٹل میں خاموش موت ہوتا ۔۔ یا پھر عمر قید ۔۔ ہمیں ساری عمر اُن کی نگرانی میں کاٹنی پڑتی ۔۔ اور اپنے ہم وطنوں کے لیے جو کچھ کرنے کا عزم ہم دونوں رکھتے تھے جس کے لیے ارمان ییل یونیورسٹی میں بھی دن رات ایک کیے ہوئے تھے ۔۔ہمارے وہ خواب ادھورے رہ جاتے ۔

    زندگی کی بساط پر شہہ ہے یا مات ۔۔سو میں نے بھی ایک داؤ کھیلا تھا ۔۔ اگر میرے اللہ کو مجھ سے انسانیت کی فلاح کے لیے کچھ کروانا منظور ہے ۔۔ تو وہ مجھے کسی بھی طرح بچا لے گا ۔۔جس طرح اس نے ارمان کو بچایا تھا ۔۔ یہ حادثہ میرا اپنا منصوبہ تھا کیونکہ ناسا کا آلہ کار بننا میری انا کو قبول نہ تھا ۔۔اور فرار کے سب راستے مسدود ہو چکے تھے۔۔

    پاپا۔۔ میری یہ اعلیٰ صلاحیتیں ۔۔ یہ غیر معمولی ذہانت ۔۔ میرا پاس میرے خدا کی ا مانت ہیں۔۔ جن کے لیے میں اپنے رب کو جواب دہ ہوں کہ میں نے اس کی ان بے پایاں نوازشات کہاں اور کس مقصد کے لیئے استعمال کیا ۔۔؟؟ میرے وطن ہی نہیں دنیا بھر میں غربت، افلاس ، امراض اور آفات سے سسکتے بلکتے لوگوں کے لیئے میں کیا کچھ کر سکی ۔۔؟؟
    میں ایک عام لڑکی نہیں تھی ۔۔ میں منتہیٰ دستگیر تھی ۔۔ اگر ناسا مجھے ڈسکور کرسکتا تھا ۔۔ تو میں خود کیوں نہیں۔۔

    ڈاکٹر یوسف سانس روکے ۔۔ سب سنتے رہے ۔۔ یہ لڑکی جو کبھی ان کی شاگرد رہی تھی ۔۔آج انہیں وفا ،ایثار اور حب الوطنی کا ایک انوکھادرس دے گئی تھی۔۔۔

    ایک ایسی ہی ویڈیو چند روز قبل ڈاکٹر عبدالحق کو بھی ملی تھی ۔۔ اور اب وہ بے چینی کے ساتھ اِس دھان پان سی لڑکی کی اسلام آباد آمد کے منتظر تھے جو پاکستان کا سرمایۂ افتخار تھی ۔۔ جو آج کی یوتھ کا ایک انمول ستارہ تھی ۔۔

    دنیا بھر میں پاکستانی نوجوان ایم آئی ٹی سے ورلڈ بینک تک اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔لیکن باہر کی چمک دمک نے انہیں اپنے مٹی کی مہک ہی نہیں ۔۔وہ قرض بھی بھلا دیا ہے جو اُن پر تا عمر واجب ہے ۔ وہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز اور نامور اداروں میں جو کچھ بھی ہیں اِس وطنِ عزیز کی وجہ سے ہیں ۔۔ مگر صد حیف کے آج کی اس نوجوان نسل نے تو ماں باپ کی ان قبروں کو بھی یکسر فراموش کر دیا ہے ۔جو انکی راہ تکتیں ہیں۔ کہ کسی عید ، کسی بقر عید ، کسی شبِ برات پر۔۔کوئی اُن پر بھی فاتحہ کے دو بول پڑھنے کو لوٹے گا’۔

    ***********

    ’میری پیدائش سے قبل میری ماں اپنے ماڈلنگ کیریئر کے عروج پر تھی ۔۔اگر اُسے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ میری پیدائش کے بعد اُس کا جسم جس کی نمائش کر کے اسے پیسا ملا کرتا تھا دوسروں کے لیے وقعت کھو دیگا ۔۔ تو وہ مجھے اِس دنیا میں ہر گز نہ آنے دیتی‘۔ کیلی کی مضطرب انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ ختم ہونے کو تھا ۔۔

    وہ آئی وی یارڈ کے باہر کشادہ لان میں بیٹھی تھیں ۔۔ اور ہلکی بوند اباندی ہو رہی تھی ۔۔ میری ماں نے مجھے ابتدا سے ہی نظر انداز کیا۔جیسے ہی اس کا ماڈلنگ کیرئیر ڈوبا وہ خود کو ڈرگز اور الکوحل کے نشے میں غرق کرتی چلی گئی ۔۔ یو نو۔ مینا کہ یہاں امریکہ اور یورپ میں مجھ سمیت ہر تیسرا شخص اس فرسٹریشن کا شکار ہے کہ جب اُسے ماں باپ ہی پیار نہیں دے سکے ۔ تو کوئی اور کس طرح اس سے سچا پیار کر سکتا ہے ۔یہ خوف اب مجھے کسی سے گھلنے ملنے نہیں دیتا۔ کیلی نے کسی احساس کے زیرِ اثر نفرت
    سے ادھ بجھا سگریٹ دور اچھالا۔

    منتہیٰ کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ہم مسلمان اور ایشیائی بندوں کی اکثریت کو آنکھ کھولتے ہی ماں کی آغوش میسر آتی ہے باپ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے ۔۔ جہاں والدین جوانی تک اولاد کے لیے گھنی چھاؤں ہوتے ہیں ۔۔مگر ہم اِن مہربان رشتوں کی قدر نہیں کرتے ۔۔ اِن کی اصل قدر کیلی جیسے بے انتہا ذہین اور با صلاحیت لوگوں کے ہاں تھی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر بھی ۔۔ماں باپ کی اولین توجہ اور پیار کو ترستے تھے۔ جہاں سچے پیار کو بہت عرصے پہلے دیس نکالا مل چکا تھا ۔۔

    منتہیٰ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ۔۔کیلی تک آئی جو ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ لیئے ایک درخت سے ٹیک لگائے۔ کہیں کسی
    دوسرے جہان میں گُم تھی ۔اس نے آہستہ سے کیلی کا ہاتھ تھاما ۔۔ میں نہیں جانتی کہ تمہیں سچا پیار ۔ کب اور کہاں ملے گا ؟؟
    لیکن میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں تمہاری اِس بے چین روح کو سکون ضرور مل جا ئیگا ۔۔
    so tell me where is that meena..??
    کیلی نے تیزی سے اُس کی طرف رخ موڑا ۔
    یہ سکون تمہیں ۔۔میرے پیارے مذہب اِسلام اور سوہنے رب کی کتاب قرآن پاک میں ملے گا۔۔ جس میں ہر مضطرب دل اور بے چین روح کے لیے ابدی سکون ہے ۔۔ میں تمہاری ہر طرح کی مدد اور راہنمائی کے لیے ہمیشہ حاضر ہوں ۔۔ منتہیٰ نے ہاتھ بڑھا کر اُسے گلے لگایا ۔۔ یہ ہارورڈ چھوڑنے سے پہلے اُنکی آخری ملاقات تھی ۔

    ***********

    I am speechless my child .. you are our true asset.. dnt worry every
    wound you suffered.. will be soon heal …!!
    وہ ارمان کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق کی سٹڈی میں تھی ۔۔ جنھوں نے اُسے پورا ٹری بیوٹ دیا تھا ۔
    تھینک یو سر ۔۔ ہم اور سیو دی ارتھ آج جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔آپ کی وجہ سے ہیں۔۔ اور میں چاہوں گی کے سپارکو کی طرح پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا پلیٹ فارم بھی آج کی یوتھ کو میسرہو۔۔
    ارمان نے چونک کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ وہ پچھلے روز سے مسلسل گُم صُم تھا ۔۔
    منتہیٰ فی الحال یہ ممکن نہیں ہو سکے گا ۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ابھی پسِ منظر میں رہتے ہوئے اِن ٹیکنالوجیز پر کام کریں جن سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کسی حد تک سدِ باب کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر عبدالحق ایک جہاندیدہ سائنسدان تھے ۔ وہ ایک ساتھ بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے ۔۔
    ایگزیکٹلی سر ۔۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں کسی ایسی موزوں جگہ کی ضرورت ہے جہاں ہماری سرگرمیاں۔۔ امریکی سیٹیلائٹس سے پوشیدہ رہ سکیں ۔۔
    ہوں ۔۔ انہوں نے ہنکارا بھرا ۔۔ کوئی ایسی جگہ ہے تمہاری نظر میں ۔۔؟؟
    سر بلوچستان میں چاغی کے پہاڑی سلسلے ایک بہترین جگہ تھے ۔۔ لیکن وہاں سٹیلائٹس مانیٹرنگ کا خطرہ بھی زیادہ ہے ۔۔ میں نے کچھ علاقوں کی نشاندہی کی ہے ۔ اُس نے اپنے ساتھ لایا ہوا پاکستان کا نقشہ پھیلایا ۔
    اُن کی دو ڈھائی گھنٹے کی میٹنگ میں ارمان صرف دو چار دفعہ ہی بولا تھا ۔۔ اور اب واپسی کے سفر پر بھی وہ خاموش تھا
    منتہیٰ نے ایک ترچھی نظر اُس پر ڈالی ۔۔ یہ چپ کا روزہ کب افطار کرنا ہے ۔۔؟؟
    تم نے کچھ بولنے کے قابل کب چھوڑا ہے ۔۔ وہ بدستور ونڈ سکرین کے پار دیکھتا رہا
    ویل۔۔ اب ساری عمر کیا یونہی چپ رہنا ہے ۔۔؟؟
    جی ۔۔ بالکل ۔۔ دل کرتا ہے کہ آپ بولتی رہیں ۔۔ میں سنتا رہوں ۔۔ وہ جذباتی ہوا
    جی ۔۔ سال ، دو سال بعد آپ فرمائیں گے ۔۔اُف کتنا بولتی ہو تم ۔۔ ہونہہ
    اگر ایسا نہ ہوا تو ۔۔؟؟ ارمان نے ہنستے ہوئے اُسکا ہاتھ تھاما
    تو پھر آپ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنے کے قوی امکانات ہیں۔ برسوں تک لگاتار بیوی کو سنتے رہنے کا عالمی ریکارڈ ۔
    ارمان کا زندگی سے بھرپور اونچا قہقہہ گونجا ۔۔۔ وہ ایک نیا دور شروع کرنے جا رہے تھے ۔۔ جو پہلے سے زیادہ پُرخطر بھی تھا اور سنگین بھی ۔۔۔ لیکن انہیں یہ جوا بھی ہر حال میں کھیلنا تھا ۔۔ ’ہم غازی رہیں گے یا شہید ۔۔ لیکن ہم میدان چھوڑ کر ہر گز نہیں بھاگیں گے‘ ۔۔

    جاری ہے

    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    سلور کام والا وائٹ شرارہ اور موتیوں کے زیورات ۔۔ منتہیٰ کسی ریاست کی راج کماری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔ سارا وقت وہ سٹیج پر رشتے داروں اور دوستوں میں گھری اکیلی ہی بیٹھی رہی ۔۔ ارمان کے مہمان بہت تھے وہ صرف ایک دفعہ اپنے ییل یونیورسٹی کے ساتھی انجینئرز کو منتہیٰ سے ملوانے سٹیج پر آیا تھا ۔۔بلیک سوٹ ہمیشہ سے ہی اُس پر بہت ججتا تھا ۔۔ پر آج اس کی سج دھج ہی نرالی تھی ۔
    رات گھر پہنچ کر وہ منتہیٰ کو سہارا دے کر اندر کمرے تک لایا تھا ۔۔ اتنا بھاری شرارہ سوٹ اور پھر اس کی لرزتی بائیں ٹانگ۔۔وہ کہیں گر ہی پڑتی ۔
    میرا خیال ہے کہ ممی کو آپ کے لیے اِس بھاری شرارے کے بجائے خلا بازی کا لباس بنوانا چاہئے تھا ۔۔ تاکہ آپ آرام دہ
    محسوس کرتیں۔۔ ارمان نے اس کی کوفت دیکھ کر چھیڑا ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    منتہیٰ برا سا منہ بنا کر دھپ سے بیڈ پر بیٹھی ۔۔ بہت سا درد دانتوں تلے دبایا ۔۔ اُس کی بائیں ٹانگ بری طرح دُکھ رہی تھی ۔
    ارمان نے اُس کے ساتھ اپنی کچھ سیلفیز بنائیں۔۔ تو منتہیٰ مزیدکوفت سے پیچھے ہٹی ۔
    یار۔۔ اپنے لیے بنا رہا ہوں ۔۔ آخر اتنے سارے دن مجھے اب اپنی وائف کے بغیر جو رہنا ہے ۔
    کیا مطلب ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے رخ اس کی طرف پھیرا ۔۔بایاں پاؤں مڑا ۔
    منتہیٰ مجھے کل شام مائیکل، سٹیون اور ان کی ٹیم کے ساتھ ۔۔تھر کے لیئے روانہ ہونا ہے ۔۔ارمان نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
    کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا ۔۔ وہ یقیناً اَپ سیٹ تھا ۔
    اور منتہیٰ کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ ٹیسیں بائیں پاؤں سے اٹھی ہیں یا دل ۔۔سے ۔۔
    کتنے دن کے لیے جانا ہے ۔۔؟؟ بمشکل حلق سے آواز نکلی
    شاید ایک ماہ ۔۔ یا اُس سے کچھ کم ۔۔ ابھی کہہ نہیں سکتا ۔۔ارمان نے بیڈ پر پاؤں پھیلا کر پیچھے ٹیک لگایا ۔۔پھر اپنی جگہ گُم صُم
    بیٹھی منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ ناراض ہو ۔۔؟؟
    منتہیٰ نے صرف نفی میں سر ہلایا ۔۔ بہت سے آنسوؤں پر بند باندھ کر خود کو نارمل کیا ۔
    ارمان نے اُس کے ہاتھ تھا مے ۔۔ آئی نو کہ یہ بہت تکلیف دہ ہے ۔۔ مگر مجبوری ہے ، ہماری شادی کچھ اتنی جلدی میں ہوئی۔
    یہ سب تو کافی عرصے سے طے تھا ۔
    اِٹس اُوکے ۔۔خود کو سنبھال کر اُس نے ہاتھ چھڑایا ۔اور اٹھی ۔۔ بھاری کپڑے اور زیورات اُسے عذاب لگ رہے تھے۔
    دو قدم چل کر ہی شرارے میں پھنس کر گری۔۔ بائیں ٹانگ بری طرح مڑی تھی ۔۔ وہ درد سے بلبلائی ۔۔بہت سارے رکے
    ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے اٹھ کر اُسے سنبھالا ۔۔
    اور ارمان کے سینے سے لگی ۔۔وہ روتے روتے کب سو گئی ۔۔اُسے کچھ خبر نہیں تھی۔

    *********

    منتہیٰ نے کھڑکی کا پردہ سرکایا ۔۔ رات کی بارش کے بعد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی کئی ماہ کی دھند چھٹی تھی ۔۔اور بہت نکھرا
    اجالا پھیلا ہوا تھا۔
    ڈاکٹر یوسف اور مر یم لان میں چیئرز ڈالے دھوپ سینکنے میں مصروف تھے اور ارمان کل شام ہی جاچکا تھا ۔منتہیٰ چھوٹے چھوٹے
    قدم دھرتی لاؤنج عبور کر کے لان تک آئی۔
    آؤ بیٹا ۔۔ بیٹھو۔۔ اُسے آتے دیکھ کر وہ دونوں خوش ہوئے ۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اپنے ساتھ والی چیئر کی طرف اشارہ کیا
    کیسی نیند آئی بیٹے ۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔؟؟ مریم ارمان کے یوں چلے جانے پر خاصی خفا تھیں ۔۔ لیکن۔
    ممی میں ٹھیک ہوں ۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔منتہیٰ نے سامنے ٹیبل پڑا اخبار اٹھایا ۔۔ وہی سیاستدانوں کے کارنامے ، دہشت گردی اور لوٹ مار کی خبریں ۔
    اچھا میں تمہارے لیے ناشتہ یہیں بھجواتی ہوں ۔۔ اُس کے منع کرنے کے باوجود مریم اندر جا چکی تھیں ۔
    منتہیٰ نے اپنی بائیں ٹانگ سیدھی کر کے پھیلائی ۔۔ دھوپ پڑتے ہی سنسناہٹ جاگی تھی ۔۔ درد۔ رات سے کچھ کم تھا۔
    اس پاؤں کی کنڈیشن کیا ہے بیٹے ۔۔؟؟ ڈاکٹر یوسف کا دھیان بھی اِدھر ہی تھا۔
    پاپا۔۔ تھوڑی ریکوری ہے ۔۔ ٹائم تو لگے گا ۔۔اُس نے گول مول جواب دیا ۔۔ پتا نہیں ارمان نے انہیں کتنا بتایا تھا
    ہم۔۔ ڈاکٹر ہوسف نے ہنکارا بھرا ۔۔’’ یعنی بیٹا اور بہو میں پکی دوستی ہو چکی ہے‘‘ ۔۔ وہ مسکرائے ۔
    ایک بات پو چھوں منتہیٰ۔۔؟؟
    جی پاپا ۔۔ ضرور ۔۔اجازت کی ضرورت ہی نہیں ۔
    تم ہارورڈ ۔ ایم آئی ٹی اور الاسکا یونیورسٹی میں بہت کچھ کرتی رہی تھیں ۔۔ وہ سب کچھ گنوا آئی ہو۔۔یاتمہارےمنصوبےاور ترجیحات اب بدل گئی ہیں ۔۔؟؟ انکی گہری کھوجتی نظریں اُس کے چہرے پر تھی۔۔
    نہیں پاپا ۔۔ نہ میں بدلی ہوں نہ میرے منصوبے ۔۔
    شئیر کرنا پسند کرو گی ۔۔؟
    منتہیٰ نے چونک کر اپنے باپ جیسے عزیز استاد کو دیکھا ۔۔ آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔اُسی وقت ملازمہ ناشتے کی ٹرے لے کر نمودار ہوئی ۔۔ چلو تم ناشتہ کرو ۔۔ ڈاکٹر یوسف شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے۔۔ انہیں یقین تھا ۔۔ منتہیٰ اب کبھی انہیں مایوس نہیں کریگی ۔
    دو روز بعد وہ امی کی طرف گئی تو دادی ارمان پر بہت برہم تھیں ۔’’یہ کوئی طریقہ ہے کہ ولیمے کے اگلے روز اپنی دلہن کو چھوڑ کر چلاگیا
    ارے دادی ۔۔ باہر سے انجینئرز کی ٹیم آئی ہوئی تھی نہ ۔۔ آجائیں گے کچھ دن میں ۔۔ بہت سا درد اندر دبا کر دادی کے گلے
    میں بانہیں ڈال کر وہ مسکرائی۔
    اور یہ تم کیوں سادہ جھاڑ منہ لیے پھر رہی ہو۔۔؟؟ یہ سونی کلا ئیاں، کاٹن کا سوٹ ۔۔ارمان کو چھوڑکر ۔اب اُن کی توپوں کا
    رُخ منتہیٰ کی طرف تھا ۔
    ’’دادی نہیں پہنا جاتا مجھ سے یہ سب‘‘ ۔۔ہونہہ۔۔اُسے کوفت ہوئی
    اے لو ۔۔لڑکی پہلے کی بات اور تھی ۔۔اب ماشاء االلہ تم بیاہتا ہو ، خبردار جو اگلی دفعہ تم میرے سامنے اِس طرح آئیں ۔
    عاصمہ ۔۔او عاصمہ ۔۔انہوں نے آوازیں لگائیں ۔۔ اور پھر انہوں نے اُسے سب کچھ پہنا کر دم لیا ۔
    منتہیٰ نے آئینے میں خود کو دیکھا ۔۔ سی گرین ہلکے کام والا سوٹ ۔۔ کانوں میں ٹاپس اور اور ڈھیر ساری چوڑیاں ۔۔ آئینے میں کسی کا عکس ۔۔ کسی کی پُر اشتیاق نگاہیں اُبھریں ۔ اُس نے سر جھٹکا ۔۔ اور کچن میں امی کے پاس آ گئی ۔
    اب اُسے کسی کے لیئے تھوڑی کوکنگ بھی سیکھنا تھی۔۔امی کے منع کرنے با وجود اُس نے زندگی میں پہلی دفعہ کھانا خود بنایا ۔
    ارمان چائنیز شوق سے کھاتا تھا ۔۔وہ ممی سے تھوڑی سن گن لے چکی تھی ۔
    کھانے سے فارغ ہوکر وہ اپنے روم میں سب بلاؤں سے نجات کا سوچ ہی رہی تھی کہ سکائپ پر ارمان کی کال آئی۔
    اُس نے جھٹ لیپ ٹاپ آن کیا ۔۔ دو دن بعد یاد آئی تھی جناب کو ۔
    سوری منتہیٰ یار ۔میں رابطہ نہیں کر سکا ۔۔ایکچولی ریموٹ ایریا سے دور سگنل پرابلم تھی ۔۔ارمان نے فوراً ایکسکیوز کی۔
    اِٹس اوکے ۔۔۔ میں بھی بزی تھی ۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    اچھا واقعی۔۔کہاں بزی تھیں آپ ۔۔؟؟ ارمان نے ہنس کر پیچھے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    بہت سے کام ہوتے ہیں مجھے ۔۔ میں آپ کی طرح فارغ نہیں ہوتی ۔
    وقت نے چال بدل لی تھی ۔ اُن کے مدار الٹ گئے تھے ۔۔ ایک دور تھا جب منتہیٰ کے پاس خود اپنے لیے بھی ٹائم نہیں تھا ۔
    جی بالکل ۔۔ ویسے یہ آپ کہیں جا رہی تھیں کیا ۔۔؟؟ ارمان نے اس کی سج دھج نوٹ کی
    نہیں تو اِس وقت میں نے کہاں جانا ہے ۔۔؟؟
    تو پھر یہ تیاریاں ۔۔ اُس نے شرارت سے تیاریاں کو خوب کھینچ کر لمبا کیا ۔۔ یہ سب تو مجھے دادی نے بہت ڈانٹ ڈپٹ کر
    پہنایا ہے ۔۔ منتہیٰ نے کوفت سے منہ بنایا ۔
    اچھا ۔۔ ویسے آپ اتنی فرمانبردار پوتی تھیں تو نہیں ۔۔ارمان نے چھیڑا
    اب بن گئی ہوں۔۔ ٹھوکریں کھا کر ۔۔ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا
    اوہ کم آن ۔۔منتہیٰ ۔۔ زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ دنیا میں آج تک کوئی ایسا کامیاب انسان نہیں گزرا جس نے و قت یا زمانے کے ہاتھوں ٹھوکریں نا کھائی ہوں ۔
    منتہیٰ جھکی نگاہوں کے ساتھ انگلی میں پہنا رنگ گھماتی رہی ۔۔جوارمان نے اُسے شادی کی رات پہنایا تھا ۔
    اچھا جب میں آؤں گا تب بھی پہنو گی نہ یہ سب ۔۔۔ ارمان نے اس کا موڈ بدلنے کی سعی کی ۔
    سوچوں گی ۔
    واٹ۔۔؟؟ کیا سوچو گی ۔۔ وہ حیران ہوا
    یہی کہ یہ سب پہنوں یا نہیں ۔۔ کیونکہ ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی۔
    کیونکہ میں اچھی بیٹی اور پوتی تو بن گئی ہوں ۔۔ لیکن۔۔
    لیکن کیا ۔۔ وہ بے صبرا ہوا ۔۔
    لیکن ۔۔ میرا ابھی فرمانبردار بیوی بننے کا کوئی خاص ارادہ نہیں ۔ شرارت سے کہہ کر اُس نے سکائپ آف کرکے لیپ ٹاپ
    کی سکرین فولڈ کی۔۔ ارمان اُسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا ۔
    اگلے روز صبح اُس نے میسا چوسسٹس سے ساتھ لایا ہوا سامان سٹور سے نکالا ۔۔ جو اَب تک یونہی پڑا تھا ۔۔ اسے وقت ہی نہیں
    ملا تھا ۔۔وہ سامان الگ کرتی گئی ۔۔ کچھ ساتھ گھر لیکر جانا تھا ۔۔ اس میں لکڑی کے نفیس نقش و نگار والا وہ باکس بھی تھا ۔۔ جو
    جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے ۔۔اُس نے نینسی کے پاس اما نت رکھوایا تھا ۔۔ اسے نینسی یاد آئی ۔۔ ۔ جسے ارمان نے
    خاص طور پر شادی پر انوائٹ کیا تھا ۔۔ کتنے گُھنے تھے یہ سب ۔
    اب اسے جلدی جلدی کچھ اور اہم کام نمٹانے تھے ۔۔ وہ کمرا بند کر کے شام تک لگی رہی۔۔ پھر تھک کر سو گئی ۔
    وقت آگیا تھا ۔۔ ۔ پنڈورابکس جلد کھلنے والا تھا ۔

    ***********

    فروری کے اوائل کے باوجود تھر میں دن کا درجۂ حرارت اُن سب کے لیے نا قابلِ برداشت تھا ۔۔ ارمان اگرچہ لاہور کی شدید
    گرمی کا عادی تھا ۔۔ پھر بھی یہاں اُس کے دماغ کی دہی بنی ہوئی تھی ۔۔ جبکہ مائیکل اور اس کی ٹیم کا پہلی دفعہ اس قدر شدید موسم
    سے واسطہ پڑا تھا ۔۔اِس کے باوجود وہ سب ہی اس صحرا کو گل و گلزار کرنے اور اور یہاں کے مکینوں کی انتظار سے پتھرائی آنکھوں
    میں امید کے نئے دیپ روشن کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم بھی تھے اور پُر عزم بھی ۔
    ارمان لنچ کے بعد ٹھنڈی چھا چھ کا پورا جگ چڑھا کر سستانے کو لیٹا ہی تھا کہ سیل تھرتھرایا
    ہیلو شہری ۔۔ کیا حال ہے یار ؟؟ شدید مصروفیت کے باعث اس کا کئی روز سے کسی سے بھی رابطہ نہیں تھا
    ٹھیک ٹھاک ۔۔ تو سنا ۔۔ زندہ ہے ؟؟۔
    بس یار جی رہا ہوں ۔۔ ارمان نے ٹھنڈی آہیں بھریں ۔۔ صحرا کی گرمی آج تک صرف سنی ہی تھی ۔۔ پہلی دفعہ پتا لگا کہ صحرا
    میں سفر کیا چیز ہوتا ہے ۔
    ہاں۔۔ اور وہ بھی جب بندہ اپنا دلِ بے قرار کہیں اور بھول آیاہو ۔قسم سے پورا صحرائی اونٹ لگ رہا ہے تو ۔ شہری نے پھبتی کسی ۔
    اڑالے مذاق بیٹا ۔۔ ہونہہ ۔۔ اچھا یہ بتا۔ زید کیسا ہے۔۔؟؟ شہریار کے ڈیڑھ سالہ بیٹے میں ارمان کی جان تھی
    ٹھیک ہے ۔۔کل لے کر گیا تھا ۔اُسے بھابی کے پاس ۔آنٹی پسند آگئی ہے اُسے ۔۔ اب تیری چھٹی ۔۔ وہ ہنسا
    وہ ہے ہی ایسی جادوگرنی ۔۔ ارمان کی آنکھوں کے سامنے اُس پری وش کا سراپا لہرایا ۔
    ہم مم۔۔ خیر تیری جادوگرنی کا کام کر آیا ہوں میں ۔۔
    کام۔۔؟؟ کیسا کام ۔۔؟؟ ارمان الرٹ ہوا ۔
    اوہ تجھے نہیں بتایا بھابھی نے ۔۔ انہوں نے خود بلایا تھا ۔۔ ایک پیکٹ دیا تھا کہ یہ کانفیڈینشل ہے۔۔ اسے بہت احتیاط سےڈاکٹر عبدالحق کو اسلام آباد پہنچانا ہے ۔۔ میں ابھی وہی نمٹا کر آیا ہوں ۔۔ شہریار نے پوری بات بتائی
    ڈاکٹر عبدالحق ۔۔ارمان چونک کر سیدھا ہوا
    تو منتہیٰ بی بی فارم میں واپس لوٹنے کو ہیں ۔۔۔’’ ویلکم بیک مسز ارمان ‘‘۔

    ***********

    ارمان کو گئے تیسرا ہفتہ تھا ۔۔ وہ پاپا کے ساتھ اسپتال سے پاؤں کی تھراپی کروا کے لوٹی تھی ۔ درد کچھ اور بڑھ گیا تھا ۔۔اوراحساسِ تنہائی بھی ۔۔ رات دو بجے کا وقت تھا ۔۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔تبھی اچانک باہر کچھ کھٹکا سنائی دیا ۔پھرکھڑکی کے پاس سے سایہ گزرا ۔۔ منتہیٰ کو الرٹ ہونے میں سیکنڈ لگے تھے ۔۔ وہ تیزی سے بستر سے نکلی ۔۔ باہر جو کوئی بھی تھا وہ اب اندر آچکا تھا ۔۔ ڈورلاک میں چابی گھمانے کی آواز آئی ۔۔ تب تک منتہیٰ بھاری گلدان ہاتھ میں لیے دروازے کےپیچھے پہنچ چکی تھی ۔۔آنے والا ناب گھما کر احتیاط سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔
    ون،ٹو۔۔تھری ۔۔منتہیٰ نے پوری طاقت سے گلدان کا بھرپور وار کیا ۔۔ مگر آنے والا الرٹ تھا ۔۔جھکائی دے گیا۔
    منتہیٰ گلدان سمیت لڑھکی ۔۔ پاؤں کادرد کچھ اور سِوا ہوا ۔پھر آنے والے نے اُسے اپنے بازوؤں میں سنبھالا ۔۔ وہ ارمان تھا
    اُس کا لمس وہ اب پہچاننے لگی تھی ۔
    اٹھیے میڈم ہلاکو خانم ! پتا تھا مجھے کہ وائف ہماری کتنی بہادر اور الرٹ ہیں ۔۔ارمان نے اسے سہارا دے کر بیڈ پر بٹھایا ۔
    یہ کوئی طریقہ ہے چوروں کی طرح اپنے گھر آنے کا ۔۔منتہیٰ کا چہرہ شدتِ درد سے لال ہو رہا تھا
    لیجئے جناب ۔۔ایک تو آپ سب کی نیند کا خیال کیا ۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ۔۔ارمان نے افسوس سے سر ہلایا
    تو آپ بتا نہیں سکتے تھے کہ آپ آرہے ہیں ۔۔ابھی جو گلدان آپ کو لگ جاتا ۔۔اپنا درد بھول کر اسے فکر ستائی۔
    تو پتا ہے کیا ہوتا ۔۔ارمان نے ڈرامائی انداز میں کارپٹ پر پڑاگلدان اٹھایا۔
    ’’یہ مجھ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ۔۔ تجربہ کر کے دیکھ سکتی ہیں آپ ۔۔ارمان نے منتہیٰ کو آفر کی جو بگڑے تیوروں کے ساتھ اسے گھور رہی تھی۔ پھر وہ واش روم کی طرف جاتے ہوئے چونک کر پلٹا۔
    اُوہ میں تمہیں ایک بہت ضروری بات تو بتانا بھول ہی گیا ۔
    کیا۔۔؟؟ سب خیریت ہے نہ ۔۔ پراجیکٹ میں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ منتہیٰ اُس کے اس طرح واپس آنے پر ویسے ہی چونکی تھی
    ارمان نے سر کو پیچھے جھٹکا دے کر ایک لمحے کو آنکھیں زور سے بھینچی۔۔ یہ بیویاں بھی نہ ۔
    پھر منتہیٰ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اُس کے ہاتھ تھامے ۔ ’’مجھے یہ بتانا تھا کہ میں نے اِن تین ہفتوں میں تمہیں بے انتہامس
    کیا ۔۔بے انتہا ۔
    بعض اوقات محبت کے اظہار کے لیے الفاظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔۔محبت تو یہی ہے کہ بن کہے محسوس کی جائے ۔۔
    کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ۔۔ لفظوں میں ڈھل کر جذبے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ۔ اُس نے جھک کر منتہیٰ کی پیشانی چومی اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔
    صبح وہ ممی پاپا سے مل کر دوبارہ سو گیا ۔۔ کسی نے اُسے ڈسٹرب نہیں کیا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    دوپہر کے وقت آہٹ سے ارمان کی آنکھ کھلی ۔۔ُ اس نے کمبل سے منہ نکال کر دیکھا ۔۔منتہیٰ اس کا سفری بیگ کھول کر ۔اِس میں
    کپڑے نکال رہی تھی ۔۔ وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا ۔۔’’ آئرن لیڈی کا گرہستن پارٹ‘‘۔
    پھر کچھ سوچتے ہوئے ایک دم سے اٹھا ۔۔ارے ۔ارے یہ کیا کر رہی ہو ۔۔؟؟
    کیوں۔۔کیا ہوا ۔۔؟؟ کپڑے ہی تو نکال رہی ہوں۔۔ منتہیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا
    یار مت نکالو ۔۔میں پھر یہی بیگ لے جاؤں گا ۔
    کیا مطلب۔۔؟؟ پھر جانا ہے ۔۔کب۔۔؟؟
    کل ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    تو آئے ہی کیوں تھے ،، منتہیٰ نے غصے سے شرٹ واپس بیگ میں پھینکی ۔۔وہ رو دینے کو تھی
    ارمان دوسری سائڈ سے گھوم کر اس کے ساتھ آکر بیٹھا ۔۔پھر اُس کی طرف جھک کر سرگوشی کی ۔۔’’تمہیں لینے ‘‘۔
    موسم انگڑائی لے رہا تھا ۔۔ مری کی برف اب پگھلنے کوتھیں ۔۔وہ گزشتہ دوروزسے مری میں تھے ۔۔ارمان کے ساتھی انجینئرز
    نے اسے زبردستی واپس بھیج دیا تھا ۔
    منتہیٰ ایک اونچے پتھر پر بیٹھی تھی اورارد گرد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔۔ لیکن مری کے بے ایمان موسم کا کچھ پتا نہیں ہوتا
    کب کس لمحے بادل نمودار ہو کر برسنے لگیں ۔۔ کسی کی نگاہوں کی تپش پر وہ چونکی۔۔ارمان اس کے قریب بیٹھا بہت غور سے۔
    اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔۔بے شک وہ دل جیتنے والی پرسنالٹی رکھتا تھا۔
    ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ منتہیٰ خجل ہوئی
    منتہیٰ بی بی ۔ کوئی چار ہفتے پہلے آپ کے جملہ حقوق میرے نام لکھ دیئے گئے ہیں ۔۔میں ایسے دیکھوں یا ویسے۔۔ میری
    پراپرٹی ہے میری مرضی ۔۔ ارمان بہت اچھے موڈ میں تھا ۔
    پھر سوچ لیجئے ۔۔آپ کے رائٹس بھی میرے نام ہیں ۔۔منتہیٰ نے جواباًچوٹ کی
    اچھا۔۔تو زیادہ سے زیادہ آپ اِس خاکسار کے ساتھ کیا کر لیں گی ۔۔؟؟؟ وہ اُس کی طرف شرارت سے جھکا
    بہت کچھ ۔۔منتہیٰ نے تیزی سے پیچھے ہٹ کر اسے آنکھیں دکھائیں ۔۔ شکر تھا اس جگہ وہ اکیلے تھے۔
    ہم مم۔۔ارمان کی لمبی سی ہم پر اسے فاریہ یاد آئی تھی ۔۔ جس کے پاس ا سلام آباد انہیں اب جانا تھا ۔
    کس سوچ میں گم ہو گئیں ۔۔؟؟ارمان نے اُس کی آنکھوں سے سامنے ہاتھ لہرایا ۔
    کچھ نہیں بس یونہی ۔۔ آئیں واپس چلتے ہیں ۔۔ڈھلتی شام کے ساتھ خنکی بڑھنے لگی تھی ۔
    مگر اٹھنے کے بجائے ۔۔ارمان نے ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا۔ منتہیٰ۔ میں چاہتا ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے کے بعد تم
    واپس جاکر اپنا ناسا کا مشن مکمل کرو ۔
    اور منتہیٰ کو لگا تھا جیسے کسی نے اُسکی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ ارمان میں وہ سب چھوڑ آئی ہوں ۔۔ کبھی نا پلٹنے کے لیے ۔۔اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔
    یار منتہی ٰ ! جذباتی نہ بنو ۔۔کٹھن وقت گزر گیا۔۔ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلا۔
    ارمان !بس میں خود بدل گئی ہوں۔۔ میں یہاں رہنا چاہتی ہوں ۔۔اپنے وطن میں ، اپنے لوگوں کے ساتھ ۔۔آپ کےپاس ۔۔اُس نے ارمان نے کندھے پر سر رکھا ۔
    "اوہ آئی سی ‘‘۔ارمان نے سیٹی بجائی ۔وہ خاصہ محفوظ ہوا تھا ۔۔
    ایسا ہے مسز ارمان کے میں چند ماہ کے لیے کچھ نہ کچھ کر کے آپ پاس آجاؤں گا ۔۔ ڈونٹ یو وری ۔۔ ارمان نے اسے راہ دکھائی
    اور جو میں سپیس سے واپس ہی نہ لوٹی تو ۔۔؟؟ منتہیٰ نے خدشہ ظاہر کیا
    تب آپ کا یہ مجنوں ‘ یہ قیس‘ یہ رانجھا ۔آ جائے گا ۔انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی ۔۔ارمان نے اُس کے گرد اپنے بازو پھیلائے۔
    ناسا کے سارے ٹیسٹ پاس کرنے ہوں گے آپ کو ۔۔ منتہیٰ نے برا سا منہ بنایا
    منتہیٰ بی بی! جو عشق کے امتحان پاس کر لیں ۔اُن کے سامنے یہ ٹیسٹ کیا چیز ہیں ۔۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔
    ویسے آپ فکر مت کریں ۔۔ابھی خلائی مخلوق کا ذوق اتنا برا نہیں ہوا ۔۔ کہ آپ جیسی ضدی ، سر پھری اور بد لحاظ لڑکی کو غائب کرنے
    لگیں۔۔کوئی لے بھی گیا تو ۔۔شکریہ کے ساتھ مجھے واپس کرکے جائے گا ۔۔اپنا فضول مال اپنے پاس رکھیں ۔۔ارمان نے
    شرارت سے اسے چھیڑا ۔
    مگر منتہیٰ اپنے سپید ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہیں اور گم تھی۔۔ منتہیٰ ڈونٹ وری ۔۔مجھے یقین ہے وہ ایک ٹرائل کا موقع ضرور
    دیں گے ۔۔ یہ صرف تمہارا ہی نہیں ہم سب کا خواب تھا ۔۔یہ پاکستان کے لیے ایک اعزاز تھا ۔
    مگر دوسری طرف بدستور گہری خاموشی رہی۔۔’’ وہ اسے کیا بتاتی کہ بعض خوابوں کی تعبیر کتنی بھیانک ہوا کرتی ہے۔‘‘
    ویسے یار میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ۔۔ شاعروں ادیبوں کو اِس بھدے سے چاند میں پتا نہیں کیا رومانس نظر آتا ہے ۔۔اصل
    چارم تو یہ ہے کہ کوئی آپ سے ہزاروں میل کے فاصلے پر انٹر نیشنل سپیس سٹیشن میں بیٹھ کے دن رات آپ کو یاد کرے۔
    ارمان نے منتہیٰ کا موڈ بدلنے کی ایک سعی کی ۔
    جسٹ شٹ اَپ ارمان ۔۔ بے اختیار ہنستے ہوئے منتہیٰ نے اُسے ایک مکا مارا ۔
    آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرا ایسا کوئی ارادہ ہرگز نہیں ۔
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم مجھے مِس نہیں کروگی ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    نہیں ۔۔میرا ناسا مشن پر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔ میں وہ سب چھوڑ آئی تھی ۔
    اُف۔۔ منتہیٰ۔۔ خیر ۔ ابھی بہت ٹائم ہے ۔۔ تمہارے پوری طرح صحت یاب ہونے میں ۔۔آئی ایم شیور کے تم میری بات
    مانو گی ۔۔ آؤ چلیں ۔۔ ارمان نے اس کا ہاتھ تھام کر ریسٹ ہاؤس کے طرف قدم بڑھائے۔
    لیکن منتہیٰ اُس روز رات سونے تک اِسی طرح گم صم تھی ۔۔ ارمان نے خود کو ۔کوسا ۔۔ وہ قبل از وقت ایک موضوع چھیڑنے کی
    غلطی کر چکا تھا۔۔۔وہ آتشدان کے پاس گھنٹوں میں سر دیئے کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ارمان لیپ ٹاپ لیکر اُس کے
    پاس جا کر بیٹھا اور فلیش ڈرائیو لگا کر اسے سیو دی ارتھ کے کچھ نئے پراجیکٹس دکھانے لگا ۔۔مگر دوسری طرف ہنوز لاتعلقی
    سی تھی ۔
    ارمان کے صبر کا پیمانہ چھلکا ۔۔ یار منتہیٰ کچھ تو بولو ۔۔ ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتیں تو مجھ سمیت ۔۔کوئی بھی فورس نہیں کرے گا
    منتہیٰ نے کچھ جواب دیئے بغیر لیپ ٹاپ اُس کے ہاتھ سے لے کر سکرین فولڈ کر کے پیچھے رکھا ۔۔پھر وہ اٹھ کر اپنے ساتھ لائے
    سامان تک گئی ۔۔ارمان دم سادھے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا ۔۔اُس کی چھٹی حس خبردارکر رہی تھی ۔۔کہ کچھ انہونی
    ہونے والی تھی ۔
    منتہیٰ پلٹی ۔اُس کے ہاتھ میں لکڑی کا منقش باکس تھا ۔۔پھر واپس آتشدان تک آکر وہ ارمان کو تھمایا ۔
    یہ کیا ہے ۔۔؟؟ وہ حیران ہوا
    یہ باکس میں نے جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے نینسی کو دیا تھا ۔۔کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ۔۔وہ آپ کو دیدے
    کیا مطلب۔۔؟؟ کیا تمہیں پتا تھا کہ تمہیں کچھ ہو جائے گا ۔۔؟؟
    نہیں۔ احتیاطً رکھوایا تھا ۔۔ اچھا ۔۔لیکن اِس میں ہے کیا ۔۔ارمان اُسے کھولنے ہی لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُس کے ہاتھ روکے۔
    اِس میں ایک پزل ہے جو آپ کو خود حل کرنا تھا ۔۔ اور اب بھی آپ ہی حل کریں گے۔۔ بہت خشکی سے جواب دیکر وہ اٹھی
    کمبل اوڑھتے ہوئے ۔۔اُس نے ایک نظر ارمان پر ڈالی وہ باکس ہاتھ میں لیے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔

    ***********

    ارمان یوسف کو منتہیٰ پر پہلا شک اُس وقت ہوا تھا جب وہ ہارورڈ کی سمر ویکیشنز میں اپنی ڈورم میٹ کیلی کے ساتھ الاسکا گئی تھی ۔۔بظاہر وہ کافی عرصے سے سیو دی ارتھ سے لا تعلق تھی ۔۔لیکن الاسکا یونیورسٹی اور ہارپ میں جتنی دلچسپی منتہیٰ کورہی تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی ۔۔ وہ اُس کے لیے فکر مند تھا ۔
    اور آج اِس لکڑی کے باکس کو کھولتے ہوئے ارمان کے سب خدشات نے ایک دفعہ پھر سر ابھارا تھا۔۔۔ دھڑکتے دل کےاس نے باکس کھولا ۔۔اُس میں کچھ گفٹس تھے ۔۔ایک رنگ کیس ۔۔ایک برانڈڈ پرفیوم ۔۔کچھ فلیش ڈرائیوز ۔۔اور۔۔
    ارمان کا منتہیٰ کو دیا ہوا واحد تحفہ بریسلٹ کیس ۔۔وہ ہر شے کو کارپٹ پر انڈیلتا گیا ۔
    پھر اُس نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ فلیش ڈرائیو ز ۔۔ایک ایک کر کے لگائیں ۔۔ان میں ایس ٹی ای کے کچھ پرانےپراجیکٹس کی تفصیلات تھیں ۔۔لیکن ارما ن کو اِس جگ سا پزل کا پہلا ٹکڑا مل چکا تھا ۔۔’’ سیو دی ارتھ‘‘۔
    اب اسے مزید ٹکڑے ڈھونڈ کر اس پزل کو مکمل کرنا تھا ۔۔وہ ہر چیز کو ایک دفعہ پھر کھنگالتا گیا ۔۔ یقیناًمنتہیٰ نے اس گفٹ باکس
    کا پزل اس لیے بنایا تھاکہ نینسی کو شک نہ ہو ۔اور اِس کے ذریعے وہ کچھ ا س تک پہنچانا چاہتی تھی ۔۔ محفوظ طریقے سے۔ لیکن کیا ۔۔؟؟
    یکدم اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا ۔۔ ڈیٹا پہچانے کا بہترین سورس ۔۔فلیش ڈرا ئیوز ۔۔وہ سیکرٹ کسی فلیش ڈرائیو میں تھا ۔۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ارمان نے مڑ کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ اس کے چہرے پر بے انتہا سکون تھا ۔۔ جیسےصدیوں کی جاگی ۔آج سوئی ہو ۔۔ ارمان نے اٹھ کر غٹا غٹ پانی کے دو گلاس چڑھائے ۔۔ اسے کافی شدید طلب تھی ۔
    وہ ہمیشہ ایک چھوٹا کافی میکر اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔۔ گرما گرم کافی کے گھونٹ لیتا ہوا وہ کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا ۔
    باکس کا سارا سامان اُسی طرح کارپٹ پر بکھرا پڑا تھا ۔۔
    کچھ سوچتے ہوئے جھک کر اس نے بریسلٹ کیس اٹھایا جو اس تمام سامان میں وہ واحد گفٹ تھا جو ارمان نے منتہیٰ کو دیا تھا ۔
    جب یہ منتہیٰ نے نینسی کو دیا ۔۔تو اس میں بریسلٹ موجود ہوگا ۔۔ جو اَب ہمہ وقت ۔۔اس کی نازک سی کلائی کی زینت بنا رہتاتھا ۔۔وہ سوچتا گیا ۔۔
    کسی خیال کے تحت اُس نے کیس کے فومی کور کو دبایا ۔۔ وہ دبتا چلا گیا ۔۔ ارمان کا دورانِ خون تیز ہوا ۔۔اُس نے چٹکی سے پکڑ کر فوم کھینچا ۔۔وہ اکھڑتا چلا گیا ۔۔ کور کی دوسری جانب کچھ لکھا تھا ۔۔ وہ اِس ہینڈرائٹنگ سے بخوبی آشنا تھا ۔
    A riddle wrapped in an engima …..
    پزل کا تیسرا ٹکڑا اُسے مل چکا تھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر یہ الفاظ گوگل کیے ۔۔ یہ ونسٹن چرچل کی ایک ریڈیو سپیچ سے ماخوذ الفاظ تھے ۔جب وہ دوران جنگ رشینز کو سیکیورٹی سے متعلق کوئی خفیہ پیغام دینا چاہتا تھا۔
    ارمان یوسف نے کڑی سے کڑی ملا ئی ۔۔ سیو دی ارتھ ۔۔، فلیش ڈرائیوز ۔۔،سیکرٹ میسج ۔۔ اگرچہ پزل کا چوتھا ٹکڑا باکس میں نہیں تھا ۔۔ مگر اُس کے ذہن میں ضرور تھا ۔۔ ہارپ ۔۔ اینٹی ہارپ ٹیکنالوجی ۔۔ اور ایسی دوسری تمام ٹیکنالوجیز کا توڑجو ہماری اِس پیاری زمین کو تیزی کے ساتھ تباہی کے دہانے پر لے کر جا رہی ہیں ۔۔ وہ جانتا تھا ۔ منتہیٰ اِن کی تلاش میں آخری حدتک گئی ہوگی ۔۔ ایک سو بیس آئی کیو رکھنے والی منتہیٰ کے لیے کسی بھی ٹیکنالوجی کی جڑتک پہنچنا بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔
    اور پزل تقریباًمکمل ہو چکا تھا ۔۔یکدم بہت سارے خدشات نے سرا بھارا ۔۔ فلیش ڈرائیو اُس کے ذہن سے محو ہوچکی تھی۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    تیسرا باب

    ( ایثا ر و وفا )

    محبت میں جو قربانی دی جاتی ہے۔۔
    اُ س کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے ۔
    لیکن اُس کا ما حصل ۔۔
    ایک دائمی محبت ہے
    یہ احساس کے اوروں کے لئے جیا جائے۔۔
    محبت اور ایثار کے ساتھ
    دوسروں کے دلوں میں گھر کیا جائے۔۔
    یہ کسی دوسری روح تک رسائی کے لیے
    خدا کا ودیعت کردہ ایک موقع ہوتا ہے ۔۔
    ایک ایسی محبت ۔۔ جو زندگی کے ہر خلا کو پُر کرتی ہے۔۔
    ہم سب کی زندگیاں ۔۔
    ایک بہت بڑے دائرے کا حصہ ہیں
    جس کی ہر کڑی ۔۔ ایثار سے جڑی ہوئی ہے
    یہ احساس انسانی ذات میں تغیر لاتا ہے
    کہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر
    وفا اور ایثار کے ساتھ
    لوگوں سے ربط بڑھایا جائے
    اور اِسی سے ۔۔
    زندگی کا یہ لا محدود دائرہ مکمل ہوتا ہے۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "ناسا دنیا بھر میں خلا ئی سرگرمیوں سے متعلق مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ ایک وقت تھا جب امریکہ اور روس میں زبردست سپیس وار جاری تھی ۔۔ لیکن سرد جنگ کے اختتام کے بعد بہت سی دوسری جنگیں بھی ہمیشہ کے لیئے ٹھنڈی پڑ گئیں ۔
    گزشتہ دو دہائیوں سے خلا میں انسانی سرگرمیاں بڑھ جانے کی ایک بڑی وجہ زمین سے کم فاصلے والے مدار میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کا قیام ہے ۔
    جو امریکہ اور روس دونوں کا مشترکہ منصوبہ تھا ۔۔ ناسا کی کوشش ہےکہ وہ ۲۰۲۰ تک اس سٹیشن
    تک کمرشل فلائٹس کا آغاز کر سکے ۔ جس کے لیے وقتاٌ فوقتاٌ مختلف مشن تشکیل دیئے جاتے رہتےہیں ۔ ایک ایسے ہی مشن کے لیے ایم آئی ٹی کے ایسٹرو فزکس ڈیپارٹمنٹ نے منتہیٰ دستگیر کو ،اس کی غیر معمولی ذہانت اور انتہائی مضبوط قوتِ اارادی
    دیکھ کر نامزد کیا تھا ۔ اِس مشن کے لیے دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے تقریباٌ تیس کے قریب مرد اور خواتین کا انتخاب کیا گیا تھا جنھیں نا سا کے فٹنس اور دیگر ٹیسٹس پاس کر کے چھ ماہ کی انتہائی پیچیدہ ٹریننگ مراحل سےگزر کر مشن کے
    لیے کلیئرنس حاصل کرنا تھی”۔
    "اور منتہیٰ دستگیر اِس وقت ایک دوراہے پر کھڑی تھی ۔۔ ایک طرف بین الاقوامی اعزاز تھا اور خواب تھے، تو دوسری طرف اپنی پیاری دھرتی اور مفلوک الحال عوام کی تقدیر بدلنے کے اُس کے پختہ عزائم ۔۔ جس کے لیے وہ بہت آگے تک جا چکی تھی
    لیکن اِن سب سے بڑھ کر اہم ارمان تھا ۔ وہ یقیناًاپنے منصوبوں کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر سکتی تھی ۔ پسِ منظر میں رہ کر سیو دی ارتھ کے ذریعے اُن کو جاری رکھ سکتی تھی۔
    ” لیکن ارمان ۔ اُسے اب اور کتنا انتظار کرنا ہوگا "۔۔؟؟ اِس سوال کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا ۔
    ذہن میں اٹھتے ہر سوال اور خدشے کو جھٹک کر ہارورڈ میں فائنل ڈیفی اینس سے پہلے منتہیٰ ناسا کے ایسٹراناٹ فٹنس اینڈ کلیئرنس ٹیسٹ دے آئی تھی ۔
    "پاکستان کی پہلی خاتون خلا باز۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا ۔ اور اِس سنگِ میل کو بھی اس نے اب ہر حال میں عبور کرنا تھا ‘‘۔
    لیکن ابھی تک اِس کی خبر کسی کو بھی نہیں تھی۔بے انتہا ذہین یہ لڑکی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکی تھی ۔رشتوں اور محبتوں کے معاملے میں ہنوز کوری تھی ۔

    *********************

    ارمان ییل یونیورسٹی میں اپنی شدیدمصروفیات کے با وجو د اُس کی سرگرمیوں سے بے خبر نہیں تھا ۔۔
    منتہیٰ ہاسٹن سے فٹنس ٹیسٹ دے کر واپس میسا چوسٹس لوٹی ہی تھی ۔۔ کہ ارمان کی کال آئی ۔
    "ہیلو”۔۔”آگئیں آپ واپس "۔۔؟؟ ارمان کا لہجہ اجنبی اور برفیلا تھا
    "جی” ۔۔ اُس نے بمشکل تھوک نگلا ۔۔ اب جو بھی تھا۔۔۔ فیس تو کرنا تھا۔۔
    "پھر کب تک آرہا ہے ایسٹراناٹ ٹیسٹ کا رزلٹ "۔۔۔؟؟؟
    "جب آپ کو سب پتا ہے تو یہ بھی پتا ہوگا "۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی
    ارمان کو شاک ہوا ۔۔ "منتہیٰ ضدی تو تھی۔۔ لیکن وہ ہٹ دھرم کبھی بھی نہیں تھی” ۔۔
    "ہم سب سے اپنی اِن سرگرمیوں کو خفیہ رکھنے کی وجہ بتانا پسند کریں گی آپ "۔۔؟؟۔۔ اب کہ ارمان کا لہجہ مزید سرد ہوا
    "ارمان”۔۔ "سپیس ٹریول میرا خواب ہے نہ "۔۔
    "تو ۔۔ہم میں سے کوئی بھی آپ کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ بننے کا ارادہ نہیں رکھتا "۔۔
    "آپ کی ممی کو شادی کی جلدی ہے” ۔۔ منتہیٰ نے اُسے جتایا
    "وہ آپ کی اپنی امی کو بھی ہے "۔۔
    "میں اپنی امی کو سنبھال سکتی ہوں "۔۔
    "میں بھی اپنی ممی کو سمجھا سکتا ہوں” ۔۔
    "آپ۔۔ اُن کی اکلوتی اولاد ہیں ۔۔ ان کو ۔۔ ان کو مزید انتظار مت کروائیں "۔۔ منتہیٰ دل کڑا کر کے اصل موضوع پر آئی۔۔
    "کیا مطلب” ۔۔؟؟۔۔ ارمان چونک کر سیدھا ہوا
    "آپ ۔۔ آپ کسی اور سے شادی کر لیں ۔۔ میرا انتظار مت کریں "۔۔۔
    اور دوسری طرف ارمان کو لگا تھا کہ کسی نے اُس کی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ سائیں سائیں کرتے کانوں نے ساتھ اس نے انتہائی بے یقینی سے سیل کی سکرین کو دیکھا ۔
    "منتہیٰ "۔۔ "کیا کہا ہے آپ نے ابھی”۔۔؟ اس نے تصدیق چاہی
    "وہی جو آپ نے سنا ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ کتنا عرصہ مجھے ناسا کے مشن پر لگ جائے ۔۔ آپ آنٹی ،انکل کو مزید انتظارمت کروائیں ۔۔ شادی کر لیں "۔۔ اُس نے رسان سے کہا ۔۔ لیکن دوسری طرف ارمان کا پارہ چڑھ چکا تھا
    صاف بات کیجئے’’ منتہیٰ بی بی ‘‘کہ ناسا تک پہنچ کر ارمان یوسف آپ کو خود سے بہت چھوٹا لگنے لگا ہے ۔۔ "بہت مل جائیں گےاب آپ کو اپنے لیول کے "۔۔۔ وہ نہ جانے کیوں اتنا بد گمان ہو ا تھا ۔
    "جسٹ شٹ اَپ ارمان "۔۔۔ "میں نے ایسا کچھ نہ سوچا ہے ۔۔ نہ کہا ہے "۔۔ منتہیٰ کو طیش آیا
    "یو ٹو شٹ اَپ "۔۔۔ جواباٌ وہ بہت زور سے گرجا تھا ۔۔ منتہیٰ سہم سی گئی ۔۔
    ارمان کا یہ روپ اس کے لیے بالکل نیا تھا ۔۔ "وہ بہت ٹھنڈے مزاج کا ایک شائستہ لڑکا تھا "۔۔
    "مس منتہیٰ "۔۔ "ہمارا یہ رشتہ ہمارے بڑوں نے طے کیا تھا ۔ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ اپنے طور پر اتنے بڑے فیصلے کرنے لگ جائیں۔۔۔؟؟ کیا آپ دنیا کو اور پاکستان میں آپ کی کامیابیوں کے لئے ہمہ وقت دعا گو والدین کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ
    ناسا تک پہنچ کر آپ بہت خود مختار ہو گئی ہیں ۔۔ اپنے فیصلے خود کر سکتی ہیں "۔۔۔؟؟ وہ گرجا
    "ارمان میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے اور فیصلہ یقیناًہمارے بڑے ہی کریں گے ۔۔ میں نے آپ سے صرف اتنا کہا ہے کہ آپ کی ممی شادی میں جلدی چاہتی ہیں ۔۔ آپ ان کی بات مان کر کسی اور سے شادی کر لیں ۔ میں آپ سب کو انتظار میں نہیں ڈالنا
    چاہتی ۔۔ جب میرے پاس بتانے کو کوئی مدت بھی نہیں ۔۔ خلافِ مزاج بہت کول رہ کر منتہیٰ نے رسانیت سے اسے سمجھانےکی ایک اورسعی کی "۔
    لیکن دوسری طرف ارمان اس کی بات پوری ہونے سے پہلی ہی کال کاٹ چکا تھا ۔۔۔ منتہیٰ نے پیشانی مسلتے ہوئے کئی دفعہ کال بیک کی ۔۔ پھر مسلسل تین روز تک وہ اسے کال کرتی رہی ۔۔۔ لیکن ارمان کا نمبر بند تھا ۔۔
    "وہ شاید ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا تھا "۔۔ بہت دکھ سے منتہیٰ نے اپنی انگلی میں پہنی رِنگ اتاری ۔”چھ سال کا ساتھ تھا ان کا ۔۔ شریک ِزندگی نہ سہی وہ دوست تو رہ سکتے تھے مگر”۔ ۔وہ کیا چاہ رہا تھا۔۔” منتہیٰ سمجھنے سے قاصر تھی اور رابطے کے سارے دَراب بند ہو چکے تھے "۔

    *********************

    ارمان یوسف کے لیے وہ رات زندگی کی کٹھن ترین راتوں میں سے ایک تھی ۔۔۔ منتہیٰ سے بات اَدھوری چھوڑ کر اُس نےاپنا سیل بہت زور سے دیوار پر کھینچ مارا تھا ۔
    "کوئی اذیت سی اذیت تھی ۔۔۔ وہ لڑکی جو اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی ‘یوں ریجیکٹ کر دے گی "۔۔؟؟ ۔۔”صرف اپنےمستقبل ۔۔اپنے خوابوں کے لیے ۔۔ اُس کی زندگی میں میرا کوئی حصہ کبھی تھابھی یا نہیں "۔۔۔؟
    "وہ اُن مردوں میں سے ہر گز نہیں تھا جو عورت کی صلاحیتوں کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا کر انہیں آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں ۔۔وہ ناسا جوائن کرنا چاہتی ہے۔۔ ضرور کرے ۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کا کوئی مشن شروع کرنا چاہتی ہے۔۔ ’’بصد شوق‘‘۔۔
    وہ ایک دفعہ مجھ سے بات تو کرتی ۔ لیکن اُس نے صرف فیصلہ سنایا تھا ۔۔۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہے "۔۔
    "شایدِ اس لیے کہ اُس کے مستقبل میں ۔۔میری حیثیت صرف ایک آپشن کی سی تھی "۔۔۔ ارمان دکھ سے سوچتا گیا ۔۔
    "تین سال کے رشتے کو اُس نے تین منٹ میں ختم کر دیا ۔۔ کیا اُس کے دل میں میرے لیے آج تک کوئی جگہ نہیں بن سکی "۔۔؟؟
    "وہ زندگی میں آج تک کبھی نہیں رویا تھا ۔ پر اُس رات ۔۔۔ وہ رات اس پر بہت بھاری گزری تھی ۔۔
    "ییل یونیورسٹی سے کچھ فاصلے پر نیم منجمد ’پیل لیک‘کے کنارے شدید ٹھنڈ میں ارمان ساری رات گھٹنوں میں سر دیئے روتا رہا تھا "۔۔
    "دنیا کہتی ہے کہ مرد رویا نہیں کرتے ۔لیکن ہر مرد اپنی زندگی میں ایک دفعہ اذیت کی انتہا پر پہنچ کر ضرور روتا ہے ۔نا جانے کیوں آنسوؤں کا رشتہ صرف عورت ذات سے جوڑ دیا گیا ہے ۔۔ ورنہ مرد جذبوں سے نا آشنا تو نہیں ہوتے "۔۔۔
    اجنبی شہر کے اجنبی راستے ، میری تنہائی ہر مسکراتے رہے۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
    "سچا مرد زندگی میں صرف ایک دفعہ محبت کرتا ہے ۔۔۔ میں نے بھی وہ محبت صرف تم سے کی تھی منتہیٰ ۔۔ میرے دل کے سارے تار آخری سانس تک صرف تمہارے نام سے جڑے ہیں ۔۔یہ نام ہے تو ساز بجیں گے ۔۔ ورنہ آج کے بعد سارے
    مدھرُ سر تال ۔۔ ساری کیف آفریں دھنیں۔۔ ہمیشہ کے لیے گونگی ہو جائیں گی۔۔ تم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں”۔۔
    وہ جھیل کے ٹھنڈے پانیوں کو ۔۔ اپنے سارے رت جگوں ۔۔اپنے سارے آنسوؤں کا گواہ بنا کر علی الصبح لوٹ آیا تھا ۔۔
    زہر ملتا رہا ۔زہر پیتے رہے ، روز مرتے رہے روز جیتے رہے
    زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اِسے آزماتے رہے۔۔
    کئی روز تک وہ خود کو یونیورسٹی سے ڈورم تک گھسیٹتا رہا ۔۔ سیل اُس رات سے دیوار تلے ٹوٹا پڑا تھا ۔۔ مگر ہوش کس کو تھا ۔۔؟۔۔کوئی اس کا نام لے کر بھی پکارتا ، تو وہ یوں خالی نظروں سے اُسے دیکھتا ۔۔ جسے ارمان نام کے کسی بندے کو وہ جانتا ہی نہیں ۔۔
    شام ڈھلے ۔۔وہ شدید ٹھنڈ میں ایک شرٹ میں باہر نکل جاتا ۔۔۔اور ساری رات کبھی جھیل کنارے ۔۔ کبھی کسی پارک میں ۔۔توکبھی مرغابیوں کے جھنڈ میں بیٹھ کر کاٹ آتا ۔
    کل کچھ ایسا ہوا میں بہت تھک گیا ۔۔اِس لیے سن کہ بھی اَن سنی کر گیا۔
    کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں ، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے
    لیکن زندگی ابھی ختم نہیں ہو ئی تھی ۔۔ اُسے خود کو سنبھالنا تھا ۔ ییل یونیورسٹی میں اُس نے اپنی فاؤنڈیشن کے لیے انتہائی اہمسپانسرزحاصل کیے تھے ۔۔وہ اُن کم نصیبوں میں سے ہر گز نہیں تھا جن کی زندگی چند لوگوں ، کچھ خواہشات اور روزمرہ کے
    معمول کا محور ہوتی ہے ۔۔ اُسے اب اپنے ویران دل اور اجڑے ارمانوں کے ساتھ اوروں کے لیے جینا تھا ۔
    زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا ، زندگی کی طرف اِک دریچہ کھلا۔۔
    ہم بھی گویا کسی ساز کے تار تھے، چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے
    اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے

    *********************

    You rocked Meena….!
    نینسی سمیت منتہیٰ کے سب ہی کلاس فیلوز نے ناسا کے فٹنس ٹیسٹ پاس کرنے اور مشن کے لیے منتخب ہو جانے پر اُسے بھرپور ٹری بیوٹ دیا تھا ۔ فائنل ڈیفی اینس اور تھیسز سے فارغ ہوکر وہ سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹنے کو تھے ۔
    جبکہ نینسی کا ارادہ ایم آئی ٹی جوائن کرنے کا تھا ۔۔
    منتہیٰ کا ستا ہوا چہرہ اور آنکھوں کی بجھی جوت کو نینسی کئی دن سے نوٹ کر رہی تھی ۔
    Is everything okay Meena..??
    منتہی ٰنے جذبات چھپاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔
    مگر نینسی اتنے عرصے میں اس کی رگ رگ سے واقف ہو چکی تھی ۔”کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور تھی "۔۔۔
    "کیا تمہاری ارمان سے لڑائی ہوئی ہے”۔۔۔؟؟ نینسی نے اندھیرے میں تیر چھوڑا
    وہ جان ہارورڈ سٹیٹیو کے پاس ایک نسبتاٌ پر سکون گوشے میں بیٹھی تھیں ۔۔۔اور ارد گرد بہت چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔۔
    منتہیٰ نے کچھ سوچتے ہوئے مختصراٌ اسے ارمان سے اپنی جھڑپ کے بارے میں بتایا ۔۔۔
    Oh no silly girl .. Why did you do that??
    مینا تم نے کبھی ارمان کی آنکھوں پر غور کیا ہے ۔۔ اُس میں تمہارے لیے سچی اور بے لوث محبت صاف جھلکتی ہے ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے "۔۔۔؟؟
    مجھے یقین ہے وہ تمہارا انتظار کرے گا ۔۔ اور بہت جلد تم دونوں کا دوبارہ ملاپ ہو جائیگا ۔۔ میرا دل کہتا ہے تم دونوں ایک دوسرےکے لیے بنائے گئے ہو” ۔۔
    منتہیٰ نے بہت غور سے نینسی کو دیکھا ۔۔’’ وہ بولتی ،ہمہ وقت بہت کچھ کہتی نگاہیں ‘‘۔۔جنھیں تین، چار سال میں بھی وہ نہیں پڑھ سکی تھی ،انہیں نینسی نے ارمان سے صرف ایک مختصر ملاقات میں پڑھ لیا تھا۔۔’’ لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی
    گزر چکا تھا ۔۔ اور وہ ٹائم مشین اب تک ایجاد نہیں ہوئی تھی جو بیتے وقت کو انسان کے لیے واپس لا سکے ۔‘‘
    منتہیٰ نے بہت سے آنسو اندر اتار ے ۔۔اور بیگ کھول کر لکڑی کا ایک نفیس نقش و نگار والا باکس نینسی کی طرف بڑھایا ۔۔
    کیا تم میری ایک امانت اپنے پاس رکھ سکتی ہو ۔۔۔؟؟
    Yeah.. Why not … but what’s here inside..??
    نینسی نے با کس کو تھام کر جانچنے کے انداز میں پکڑا کہ اُس کے اندر کیا ہے ۔۔؟؟
    اس میں کچھ گفٹس ہیں جو ارمان مجھے دیتا رہا ۔۔ کیا تم یہ اسے لوٹا دو گی ۔۔؟؟
    Don’t do that Meena .. Everything will be soon fine… Just wait and have
    faith my dear.
    نینسی نے اُسے سمجھانے کی آخری کوشش کی ۔۔۔
    "آل رائٹ”۔ ۔”لیکن یہ تمہارے پاس میری امانت ہے ۔۔ اگر ناسا ٹریننگ کے دوران مجھے کچھ ہو جائے ۔۔ تو یہ ارمان کو واپس کر دینا ۔۔ ورنہ پھر میں واپس آکر تم سے لے جاؤں گی ۔۔۔ یُو نو ۔میں ہاسٹن یہ ساتھ نہیں لے جا سکتی "۔۔۔
    Sure why not Darling …
    نینسی نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر گال چومے ۔۔۔ اور منتہیٰ اِس بلائے نا گہانی پر پہلے ششدرہ ہوئی ۔۔۔ پھر سرخ چہرے کے ساتھ نینسی کو زور سے دکھا دیا ۔
    Oh no… You are so shy girl. ..
    "نینسی بہت دیر تک گود میں باکس رکھے لوٹ پوٹ ہوتی رہی تھی "۔۔

    *********************

    "انسان جب کبھی اپنے ذات سے منسلک پیارے رشتوں کو نظر انداز کر کے صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے تو جلد یا بدیر ۔۔نتائج اس کی توقع کے برخلاف ہی آتے ہیں ۔۔ بہت دنوں سے کسی کچھوے کی طرح اپنے خول میں بند وہ جس صورتحال سے
    بچنے کی کوشش کر رہی تھی اب اُس کا سامنا کرنے کا وقت آپہنچا تھا "۔
    رات اس نے گھر کال کی تو خلافِ توقع ابو نے فون اٹھایا ۔۔ "ابو مجھے آپ کو ایک بہت بڑی خوش خبری سنانی ہے”۔۔۔ شدتِ جذبات سے اس کی آواز بوجھل تھی ۔
    "جانتا ہوں "۔۔ ابو کی آوازبہت سرد تھی ۔
    ’’اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ تمہیں اتنی دور اکیلا بھیج کر میں رو ز سکون سے سو جاتا ہو ں تو یہ تمہاری بھول ہے۔۔ گزشتہ دو سال سےتمہارے باپ کو اُسی وقت نیند آتی ہے جب اُسے اپنے ذرائع سے تمہاری خیریت کی اطلاع ملتی ہے۔۔ تم بتاؤ یا نہیں لیکن
    تمہاری ہر سرگرمی میرے علم میں ہوتی ہے ‘‘۔۔ ان کا لہجہ بدستور برفیلا تھا
    "ابو آپ۔۔آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں میں نے سوچا تھا میں سب کو سرپرائز دوں گی "۔۔۔ منتہیٰ نے بمشکل تھوک نگلا
    "ہاں بہت اچھا لگا تمہارا سرپرائز ۔۔ ماشاء اللہ اب تم خود مختار ہو اپنے فیصلے خود کر سکتی ہو” ۔۔
    "ابو پلیز ۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔ آپ کو پتا ہے نہ سپیس ٹریول میرا خواب تھا ۔۔ اور یہ پاکستان کے لیے بھی بہت بڑا اعزازہوگا "۔۔ہمیشہ لاڈ اٹھانے والا باپ آج پہلی دفعہ اُس سے خفا ہوا تھا ۔
    مگردوسری طرف بہت دیر خاموشی رہی تھی ۔۔۔ فاروق کو منتہیٰ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھی ۔۔ جس نے کامیابیوں کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ہمیشہ ان کا مان رکھا تھا ۔وہ اس کی ہر خطا کسی ایکسکیوز کے بغیر بھی معاف کر سکتے تھے ۔۔ لیکن یہ نا فرمانی بڑھ نہ جائے
    سوانہوں نے اپنا لہجہ سخت رکھا تھا ۔
    "منتہیٰ تم جانتی ہو کہ ماں باپ اپنی ہونہار اولاد پر اُسی وقت خفا ہوتے ہیں ۔۔ جب اُس کے کسی روئیے سے انہیں دکھ پہنچا ہو مجھے کبھی تم پر پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ میری بیٹی نے کبھی میرا سر جھکنے نہیں دیا "۔۔ لیکن ۔۔آج ۔۔۔
    ’’آج یہ مان پہلی دفعہ ٹوٹا ہے ۔۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ آخری دفعہ بھی ہوگی ‘‘۔ رسانیت سے اپنی بات مکمل کر کے فاروق صاحب کال کاٹ چکے تھے "۔۔۔اور منتہیٰ اپنی جگہ گُم صُم بیٹھی تھی۔۔
    بہت دیر بعد چونک کر اُس نے سیل دوبارہ تھاما ۔۔ اور ڈاکٹر یوسف کا نمبر پنچ کیا ۔۔
    ’’مبارکباد مائی ڈیئر‘‘ ۔۔کال ریسیو ہوتے ہی دوسری طرف سے آواز آئی جو اُس کی توقع کی عین مطابق بے حد سرد تھی ۔
    منتہیٰ کے حلق میں جیسے کانٹے سے اُگ آئے ۔۔بہت سے خشک آنسو آنکھوں میں اُترے ۔۔” کبھی کبھی انسان کو اپنے خوابوںکو پانے کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے "۔۔
    "چپ کیوں ہو منتہیٰ”۔۔؟۔ ڈاکٹر یوسف نے بہت دیر کی خاموشی کے بعد اُسے پکارا
    "انکل کیا ارمان نے آپ کو کچھ بتایا ہے "۔۔؟؟
    "بہت دنوں سے جو خدشات ذہن میں کیڑوں کی طرح کلبلا رہے تھے ۔ بالا آخروہ لبوں پر آہی گئے "۔۔اور دوسری طرف ڈاکٹریوسف بری طرح چونک کر سیدھے ہوئے تھے ۔۔۔’’ ارمان ‘‘۔۔؟؟
    اگرچہ ارمان نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔ لیکن گزشتہ مہینے وہ اسکی وجہ سے کافی پریشان رہے تھے ۔۔۔ کئی روز تک اُس کا نمبر آف تھا۔ مجبوراٌ انہیں اس کے ڈیپارٹمنٹ کال کرکے رابطہ کرنا پڑا ۔
    وہ ٹھیک نہیں تھا ۔۔ یہ جاننے میں انہیں دیرنہیں لگی تھی ، مگر وہ گھُنااُن کو کچھ بتا نے پر آمادہ ہی نہ تھا ۔۔۔
    "ہاں بتایا تھا "۔۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اندھیرے میں تیر چھوڑا ۔۔۔ ’’یہ کل کے بچے آخر ہمیں سمجھتے کیا ہیں‘‘ ۔۔۔ "ہونہہ”
    ایک لمحے کو منتہیٰ کا سانس تھما ۔۔۔ پھر اُس نے خود کو سنبھالا۔
    "انکل پلیز آپ تو میری بات سمجھیں ۔۔ میں نے ۔۔ میں نے ارمان سے صرف اس لیے کہا کہ میں آپ لوگوں کی درمیان خلیج نہیں بننا چاہتی ۔۔ آپ لوگ ان کی کہیں اور شادی کر دیں”۔بے انتہا پر اعتماد رہنے والی منتہیٰ بمشکل اپنی بات واضح کر پائی۔۔
    ’’آپ کتنے ہی بڑے ہو جائیں ۔کامیابیوں کی کتنی ہی چوٹیاں عبور کر لیں ، اگر آپ میں رشتوں کا احترام کرنے کا سلیقہ ہےتو والدین اوراستاد دو افراد کے سامنے بہت سے مواقع آپ کو گو نگا کر دیتے ہیں ۔۔دنیا جہان میں تقریریں جھاڑ نے والوں
    کے سارے الفاظ اُس وقت دم توڑ دیتے ہیں ۔جب ماں باپ یا بہت عزیز استاد میں سے کوئی آپ سے خفا ہو‘‘ ۔۔
    اور دوسری طرف پروفیسر یوسف کا سر چکرایا تھا ۔۔۔ وہ شاک میں تھے ۔۔ "انکل پلیز کچھ بولیں "۔۔۔ اُن کی بہت دیر کی خاموشی پر منتہیٰ رو دینے کو تھی ۔
    "کیا تم یہی سمجھتی ہو کہ میرے یا مریم کے کہنے پر ارمان کسی اور سے شادی پر آمادہ ہو جائے گا "۔۔؟ بہت دیر بعد ڈاکٹر یوسف نے اُس سے ایک صرف ایک سوال پوچھا ۔۔
    "جی انکل "۔۔ وہ ۔۔ "وہ ایک فرمانبردار بیٹے ہیں "۔۔
    اور ڈاکٹر یوسف نے بہت گہرا سانس لیکر صوفے کی پشت سے سر ٹکایا تھا ۔۔ "اگر تم ایسا سمجھتی ہو ۔۔ تو تم دنیا کی احمق ترین لڑکی ہو” ۔۔ "اور وہ دیوانہ "۔ انہوں نے سر جھٹک کر بات اَدھوری چھوڑی ۔
    ’’کتابوں ، تھیوریز اور ریسرچ سے باہر بھی ایک دنیا ہے میری بچی ۔۔ دنیا والوں اور اُن کے روئیوں کو سمجھنا بھی ایک علم ہے ۔کبھی اپنی ذات سے منسلک لوگوں کو بھی وقت دیا کرو ۔۔ یہ نہ ہو کہ اپنے خوابوں کو پانے کی دھن میں تم رشتوں کی دنیا میں بالکل اکیلی رہ جاؤ ۔۔ اور مسرت کا خوبصورت پرندہ ہمیشہ کے لیے تمہاری زندگی سے رخصت ہو جائے‘‘۔
    بہت مدلل انداز میں اپنی بات مکمل کر کے ڈاکٹر یوسف کال کاٹ چکے تھے ۔۔ اورمنتہیٰ اپنی جگہ گنگ بیٹھی تھی ۔
    کیا واقعی۔اِن خوابوں اور سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ۔۔ وہ تنہا رہ گئی تھی "۔۔۔؟؟؟؟

    جاری ہے

    *******

  • کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے

    کراچی: انوکھےفقرے اور نت نئی تاویلات برتنے والے شاعر ِ بے بدل جون ایلیا کو پیوند ِخاک ہوئے پندرہ برس کا عرصہ ہو گیا،ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، ’’جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتے تھے۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی‘‘۔‏

    جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنیفات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب
    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

     ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

    ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا
    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائلِ اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کرسکیں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
    میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا
    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ پژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا
    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے
    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • دورہ پاکستان: ورلڈ الیون کے اسکواڈ کا اعلان

    دورہ پاکستان: ورلڈ الیون کے اسکواڈ کا اعلان

    لاہور: چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے ورلڈ الیون کے اسکواڈ کا اعلان کردیا، ورلڈ الیون کی ٹیم میں 7 ممالک کے کھلاڑی شامل ہیں، ورلڈ الیون کی قیادت فاف ڈوپلیسی کریں گے، تین ٹی ٹوئنٹی میچز 12، 13 اور 15 ستمبر کو لاہور میں کھیلے جائیں گے۔

    قذافی اسٹیڈیم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے ورلڈ الیون کے اسکواڈ کا اعلان کیا، ورلڈ الیون کی قیادت جنوبی افریقی کھلاڑی ڈوپلیسی کریں گے۔

    ٹیم میں بھارت کا کوئی کھلاڑی شامل نہیں ہے، ورلڈ الیون کی ٹیم ان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، فاف ڈوپلیسی (کپتان)، عمران طاہر، ہاشم آملہ، جارج بیلی، پال کولنگ ووڈ، گرانٹ ایلیٹ، ڈیوڈ ملر، بین کٹنگ، مورنی مورکل، تھسارا پریرا، سیموئل بدری، ڈیرن سیمی، تمیم اقبال اور ٹیم پین، جبکہ کوچنگ کے فرائض اینڈی فلاور انجام دیں گے۔

    چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے محفوظ ہے، تمام غیر ملکی کھلاڑیوں نے سیکیورٹی کے حوالے سے اقدامات پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: پاکستان بمقابلہ ورلڈ الیون‘ گرانٹ ایلیٹ نے دستیابی ظاہر کردی

    انہوں نے کہا کہ پہلا قدم بہت مشکل تھا کوئی ٹیم پاکستان نہیں آنا چاہتی تھی، ہم کامیاب ہوگئے ہیں انٹرنیشنل ٹیمیں پاکستان آنا شروع ہوں گی، پی ایس ایل کا میچ ٹاسک تھا جو مکمل کیا۔

    نجم سیٹھی نے کہا کہ ورلڈ الیون کی ٹیم کے بعد سری لنکا کی ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کرے گی، سری لنکا کی ٹیم کے دورہ پاکستان کے بعد ساری ٹیمیں پاکستان آٗئیں گی۔

    چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ آئی سی سی اپنی سیکورٹی ٹیم پاکستان اور خصوصاً کراچی بھیج رہا ہے، ہماری پوری کوشش ہے کہ کراچی میں پی ایس ایل اور انٹرنیشنل میچز ہوں، کراچی میں کھیلنے کے لیے انٹرنیشنل کھلاڑی مان گئے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

    اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
    ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا

    اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
    زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

    موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
    ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا

    تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
    ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

    آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
    راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا

    زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
    اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا

    کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
    دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

    ***********

  • زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

    زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
    دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

    ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
    اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

    اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
    شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

    دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
    دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

    **********

  • جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

    بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
    اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

    چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی
    اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا

    اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
    پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا

    اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
    اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا

    عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
    جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

    **********

  • کنزرویٹو پارٹی کی نصرت غنی نے برطانوی پارلیمنٹ میں اردو میں حلف اٹھایا

    کنزرویٹو پارٹی کی نصرت غنی نے برطانوی پارلیمنٹ میں اردو میں حلف اٹھایا

    لندن : برطانیہ کے عام انتخابات میں پاکستانی نژاد امیدواروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کامیابی بھی حاصل کی، کنزرویٹو پارٹی کی نصرت غنی نے برطانوی پارلمنٹ میں اردو میں حلف اٹھایا۔

    برطانوی پارلمنٹ میں اردو زبان کے چرچے، کنزرویٹو پارٹی کی نصرت غنی نے برطانوی پارلمنٹ میں اردو میں حلف اٹھایا، نصرت غنی کے اس اقدام کو سوشل میڈیا پر خوب سراہا جارہا ہے۔

    نصرت غنی کنزرویٹو پارٹی سے ویلڈن سے نشست حاصل کرنے میں کامیا ب رہیں جبکہ وہ 2015 میں بھی برطانوی پارلمنٹ کی رکن منتخب ہو ئی تھیں،

    نصرت غنی ایک عرصے سے ٹوری جماعت کے ساتھ ہیں، وہ اپنے خاندان کی واحد خاتون ہیں جنھوں نے لیڈز یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے جبکہ نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ بھی کام کرچکی ہے۔


    مزید پڑھیں : برطانوی انتخابات پاکستانی امیدواروں نے میدان مارلیا


    یاد رہے کہ برطانیہ کے عام انتخابات میں پاکستانی نژاد امیدواروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 11 امیدواروں نے کامیابی بھی حاصل کی، جن میں شبانہ محمود، یاسمین قریشی ، افضل خان، ناز شاہ، روزینہ خان ، محمد یاسین اور ساجد جاوید شامل ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • چینی جامعات میں اردو اورفارسی کی تعلیم کا آغاز

    چینی جامعات میں اردو اورفارسی کی تعلیم کا آغاز

    سنکیانگ: چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور کی دوجامعات نے انڈر گریجویٹ نصاب میں اردو اور فارسی کو شامل کرنے کا اعلان کردیا۔

    پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سنکیانگ صوبے کے دارالحکومت ارومچی میں واقع شی ہیزی یونیورسٹی اور سنکیانگ نارمل یونیورسٹی بالترتیب اردو اور فارسی ڈیپارٹمنٹ شروع کرنے اور ملک بھر سے ان شعبوں میں طالب علموں کے داخلے کا آغاز کرنے والی ہے۔

    اس بات کا اعلان شی ہیزی یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کیا گیا۔


    اردو کے 100 مشہور اشعار


     یاد رہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، 2013 میں چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبے کا آغاز ہوا تھا جس کے تحت 3 ہزار کلو میٹر طویل سڑکوں، ریلوے ٹریکس اور پائپ لائنز کا جال بچھایا جائے گا اور پاکستان کے گوادر پورٹ کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملایا جائے گا۔

    دوسری جانب فارسی ایران اور تاجکستان کی سرکاری زبان ہے جبکہ افغانستان میں بھی زیادہ تر لوگ فارسی بولتے اور سمجھتے ہیں۔

    اس وقت چین میں صرف 6 جامعات ایسی ہیں جہاں فارسی کو بطور علیحدہ مضمون پڑھایا جاتا ہے اور پورے چین میں صرف 500 افراد ایسے ہیں جو فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔

    یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق چونکہ سنکیانگ کواردواورفارسی بولنے والے ممالک کے ساتھ تجارت اور انسداد دہشت گردی آپریشن کی وجہ سے پہلے سے زیادہ روابط رکھنے کی ضرورت ہے لہٰذا ملک میں اردو اورفارسی بولنے اور سمجھنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔