Tag: Urdu

  • عالیہ بھٹ کے ساتھ بے باک مناظر ریکارڈ کروانا میری ذاتی مرضی ہے، فواد خان

    عالیہ بھٹ کے ساتھ بے باک مناظر ریکارڈ کروانا میری ذاتی مرضی ہے، فواد خان

    ممبئی: پاکستانی اداکار فواد خان کا کہنا ہے کہ بولڈ سین کرنا نہ کرنا ان کی ذاتی مرضی ہے۔

    ایک انٹرویو دیتے ہوئے فواد خان کا کہنا تھا کہ ان کی آنے والی فلم ’کپور اینڈ سنز‘ کے حوالے سے کئی دنوں تک میڈیا میں قیاس آرائیاں ہوتی رہی جس میں ان کے اور بولی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ کے درمیان بولڈ سین کی خبر پر فواد کا انکار شامل ہیں۔

    فواد کے مطابق ایسے مناظر فلمانا یہ نا فلمانا ان کی ذاتی مرضی ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں۔

    فواد خان نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کے انہیں پاکستان میں اپنے گلوکاری کے دن بہت زیادہ یاد آتے ہیں۔

    اپنے کرئیر کے حوالے سے فواد کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہت ہی مختصر کردار ادا کیے ہیں اور خوش قسمتی سے زیادہ تر میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔

    فواد کے مطابق انہوں نے زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے کچھ چیزیں مدد کرتی ہیں البتہ کچھ ایسی بھی ہیں جس کے لیے وہ دعا کرتے ہیں کہ کاش وہ انہیں نہ جانتے ہوتے۔

  • فواد خان بھارتی اداکاروں کو اردو سکھا رہے ہیں

    فواد خان بھارتی اداکاروں کو اردو سکھا رہے ہیں

    ممبئی : اداکار فواد خان آج کل بھارتی اداکاروں کو اردو زبان سکھا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی اداکار فواد خان ان دنوں نئی آنے والی بھارتی فلم کپور اینڈ سنز کی تیاریوں میں مصروف ہیں، جس میں رشی کپور، عالیہ بھٹ، سدھاتھ ملہوترااور دیگر اداکار شامل ہیں۔

    فلم میں اردو زبان کے بیشتر الفاط بھی استعمال کئے جا رہے ہیں، فلم کی شوٹنگ کے موقع پر فواد خان اردو کے حوالے سے بھارتی اداکاروں کو آگاہی فراہم کررہے ہیں۔

    بھارتی اداکار سدھاتھ ملہوترا اور فواد خان میں گہری دوستی ہوگئی ہے، سدھاتھ ملہوترا کا کہناہے کہ وہ بہت جلد پاکستان کا دورہ بھی کریں گے۔

    With the kapoor of #kapoorandsons fun night @shakunbatra @_fawadakhan_ n his Mrs #party #chilling #cast #crew

    A photo posted by Sidharth Malhotra (@s1dofficial) on

     

    Nights on #KapoorandSons

    A photo posted by Fawad Khan (@ifawadkhan) on

     

    #KapoorandSons celebrating with #Piku

    A photo posted by Fawad Khan (@ifawadkhan) on

     

    Jab we met

    A photo posted by Fawad Khan (@ifawadkhan) on

     

    At the success party of #Piku. All the very best to Deepika Padukone and her entire team!

    A photo posted by Fawad Khan (@ifawadkhan) on

     

    #Khoobsurat promotions in #Dubai

    A photo posted by Fawad Khan (@ifawadkhan) on

  • نرسوں کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    نرسوں کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    لاہور: پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج نرسوں کادن منایاجارہا ہے،نرسوں کی تنخواہیں اورگریڈ تو بڑھ گئےلیکن اس مقدس پیشےسے منسلک خواتین کوشکایات ہےکہ انہیں معاشرے میں وہ عزت نہیں دی جاتی جس کی وہ مستحق ہیں۔

    دنیا بھر میں نرسنگ کا پیشہ اس لیے مقدس سمجھا جاتا ہے،کیونکہ نرسیں ان مریضوں تک کا خیال رکھتی ہیں جنہیں ان کی بیماری کے باعث عزیز و اقارب بھی خود سے دور کر دیتے ہیں۔

    نرسیں تو خدمتِ خلق کے اپنے اس پیشے پر فخر محسوس کرتی ہیں لیکن لوگوں کا رویہ دیکھ کر دل ٹوٹ جاتا ہے پاکستان کے صوبے پنجاب میں نرسوں کی اپ گریڈیشن بھی ہو گئی ہے اور تنخواہیں بھی اچھی مل رہی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس پیشے کی وجہ سے انہیں عزت اور وقار نہیں مل پا رہا، ایمرجنسی سے لے کر انتہائی نگہداشت کے یونٹ تک نرسوں کی ڈیوٹی ہر مریض کی دیکھ بھال ہے۔

     پاکستان سمیت دنیا بھر نرسز کا عالمی دن انٹر نیشنل کونسل آف نرسز کے زیر اہتمام 1965ء سے لے کر اب تک ہر سال12مئی کو منایا جاتا ہے۔

  • شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 22 برس بیت گئے

    شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 22 برس بیت گئے

    اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب1928ء میں بھارتی پنجاب کے دسوہہ ضلع ہوشیارپورمیں پیدا ہوئےانہیں شاعرِعوام اور شاعرِ انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اینگلوعربک ہائی سکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی اور ایک نجی روزنامہ سے منسلک ہوئے، بعد ازاں لائل پورٹیکسٹائل مل میں ملازمت اختیارکرلی۔

    ،پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957میں شائع کیا،مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالاخرلاہور میں مستقل آباد ہوگئے، آپ اپنے ہی اس شعر کی عملی تفسیرتھےکہ

    یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
    جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

    آزادی کے بعد کراچی آگئے اورکچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی

    ایوب خان اور یحیٰی خان کے دورِآمریت میں متعدد بارقید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960 کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے’سرِمقتل‘ کے عنوان سے چند اشعارکہےجو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليۓ ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے1960 اور 1970 کے عشروں بہت خوبصورت شاعری کي جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپوراحتجاج کيا

    نومبر 1999 میں جب اس وقت کے حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالب کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔

    1958میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا ،1962میں اسی ایوبی آمریت نےنام نہاد دستور پیش کیا جس پرجالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگادی۔ ،

    ایسے دستورکو، صبح بےنورکو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    1970کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہی کیا بلکہ ان پرگولیاں برسایئں اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کررہا تھاتو یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہہ رہے تھے۔

    محبت گولیوں سے بورہے ہو
    وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

    1974میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسندِ اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کردیا،اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی

    قصر شاہی سے یہ حکم صادرہوا
    لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو

    ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں کہا

    ظلمت کو ضیاء صرصرکوصبا
    بندے کوخدا کیا لکھنا

    آمریت کے بعد جب پیپلزپارٹی کا پہلا دورحکومت آیا اورعوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا

    وہی حالات ہیں فقیروں کے
    دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
    ہربلاول ہے دیس کا مقروض
    پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

    آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِ خرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

    آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ تحریرپرشہرت حاصل ہوئی۔

    آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اور نشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔ آپ کی وفات 13 مارچ 1993 کو لاہور میں ہوئی۔

  • اردو زبان کی مایہ نازشاعرہ’اداجعفری‘انتقال کرگئیں

    اردو زبان کی مایہ نازشاعرہ’اداجعفری‘انتقال کرگئیں

    اردو ادب کی صفِ اول کی شاعرہ ادا جعفری گزشتہ رات کراچی میں انتقال کرگئیں۔

    ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندانی نام عزیزجہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولانا بدرالحسن کا انتقال ہوگیا جس کے بعد آپ کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمرمیں ہی شعرکہنا شروع ، وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ آپ کی شادی 1947ء میں نورالحسن جعفری سے انجام پائی شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری عموماً اخترشیرانی اوراثرلکھنوی سے اصلاح لیتی رہی۔ ان کے شعری مجموعہ’شہردرد‘کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ ’جو رہی سو بے خبری رہی‘کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔

    ادا جعفری موجودہ دور کی وہ شاعرہ ہیں جن کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔ وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں ۔ گاہے گاہے یا بطرز تفریح طبع نہیں بلکہ تواتر و کمال احتیاط کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ اور جو کچھ کہہ رہی ہیں شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہہ رہی ہیں۔ حرف و صورت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ فکرو جذبے کے اس ارتعاش کے ساتھ کہہ رہی ہیں جس کی بدولت آج سے تیس چالیس سال پہلے ان کا شعر پہچان لیا جاتاتھا۔

    جہاں خونِ جگر سیرابیِ گلشن سے کترائے

    جواں مردوں پہ ایسی زندگی الزام ہوتی ہے

    ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم کی بھونچالی فضا اور پاک و ہند کی تحریک آزادی کا پر آشوب ماحول تھا۔ یہ فضا بیسویں صدی کی پانچویں دہائی یعنی 1940ء اور 1950ء کے درمیانی عرصے سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ یہ دہائی سیاسی اور سماجی اور شعری و ادبی ، ہر لحاظ سے پرشعور و ہنگامہ خیز دہائی تھی۔ تاج برطانیہ ہندوستان سے اپنا بستر بوریا سمیٹ رہا تھا اور نئی بساط سیاست بچھ رہی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو آزاد مملکتیں وجود میں آئیں۔

    1950ء تک زندگی کے شب کدے میں ادا جعفری کو جس نور کی تلاش تھی وہ اسے مل گیا ہے اور اس نور نے ان کی بساط جسم و جاں پر بہت خوشگوار اثر ڈالا ہے۔ خواب و خیال کی دھندلی راہوں میں امید کی چاندنی چٹکا دی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دوپہر کی کڑی دھوپ میں چلنے والے تھکے ماندے مسافر کو دیوار کا سایہ میسر آگیا ہے۔ اس دیوار کے سائے میں ادا جعفری کی زندگی میں بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ داخلی دنیا کے ہنگاموں میں قدرے ٹھہراؤ آیا ہے اور خارجی دنیا پر تازہ امنگوں کے ساتھ جرات مندانہ نگاہ ڈالنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔

    میری آغوش میں ہمکتا ہوا چاند ، فردا کے خوابوں کی تعبیر ہے
    یہ نئی نسل کے حوصلوں کا امین آنے والے زمانے کی تقدیر ہے

    یہ خواب کشاں کشاں انہیں ایک نئے موڑ پر لے آیا پہلے وہ صرف درد آشنا تھیں اب’شہرِ درد‘کے بیچوں بیچ
    آبسیں۔

    ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی ہائیکو کا مجموعہ ’ساز سخن ‘شائع ہو چکا ہے۔ اس میں بھی ادا جعفری نے صنعائے حیات اور سائل کائنات کو موضوع بنایا ہے۔ اور کامیابی سے اردو ہائیکو کہیں ہیں۔ان کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انہی کی رہنمائی و پیش قدمی نے نئی آنے والی پود کو حوصلہ دیا ہے اور نئی منزلوں کا پتہ بتایا ہے بلاشبہ وہ اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

    آپ کراچی میں رہائش پذیرتھیں۔ گذشتہ کچھ دنوں سے آپ کی طبعیت ناسازتھی بالاخرگذشتہ رات12مارچ 2015 کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔

  • غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    غزل گو شاعر ناصر کاظمی کی آج 43ویں برسی منائی جارہی ہے

    ناصر کاظمی کے مداح   آج  ان کی برسی  منا رہے ہیں

    کراچی: ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا ۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اس طرح کے کئی لازوال شعر ان کی تخلیق ہیں۔ ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔

    ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔ پہلا مجموعہ "برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ۔ دوسرے دو مجموعے "دیوان” اور "پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ویلنٹائن ڈے منایا جارہا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ویلنٹائن ڈے منایا جارہا ہے

    کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج محبت سے اظہار کا دن ویلنٹائن ڈے منایا جارہا ہے۔

    یوں تو عالمی میراث کے دامن میں کیا کچھ نہیں ہے لیکن اس میں سب سے بڑا ثقافتی ورثہ شاید ویلنٹائن ڈے ہے، زمانہ قدیم کے جزبے کی اب عالمی سطح پر گونج بڑے واضح انداز میں سنی جا رہی ہے۔

    دنیا بھر میں ویلنٹائنز ڈے بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے۔ محبت کا جذبہ انمول ہی سہی لیکن محبوب سے اسکا اظہار بھی ضروری ہے اور یہی اس دن کو منانے کا مقصدہے۔

     نوجوان تو اس دن کے حوالے سے کافی پرجوش ہیں، محبت ایک سدابہار جزنہ ہے جو ہر موسم میں ہر وقت مہکتا ہے۔ نوجوانوں میں اس دن کے حوالے سے جوش کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر یہ دن روز منایا جائے تو دنیا سے نفرتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

    مورخین کے مطابق تیسری صدی عیسیوی کی سلطنت روم میں حکمران کلاڈئیس دوئم نے نوجوانی میں شادی کرنے پر پابندی عائدکردی تھی۔ کلاڈئیس کا خیال تھا کہ شادی شدہ اور بچوں والوں کی نسبت غیر شادی شدہ مرد بہتر سپاہی اور جنگجو ثابت ہوتے تھے لہٰذا اس نے نوجوانوں کو ایک مخصوص عمر سے پہلے شادی کرنے سے منع کردیا۔

     اس شاہی فرمان کے باوجود ایک عیسائی پادری سینٹ ویلنٹائن پیار کرنے والے جوڑوں کی شادیاں کرواتا رہا اور اس جرم میں شہنشاہ نے اسے پھانسی پر چڑھادیا۔ اسی پادری کی یاد میں ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگا۔

     ایک دوسری روایت کے مطابق سینٹ ویلنٹائن روم کی ایک جیل میں قید تھا اور وہ جیل کے نگران کی بیٹی کے عشق میں گرفتار تھا۔ اس نے ناظم جیل کی بیٹی کے نام محبت نامہ لکھا جس پر الفاظ تمھارا ویلنٹائن درج تھے اور اسی دن سے ویلنٹائن ڈے اور اس کے کارڈز اور تحائف کی ریت چل پڑی۔

    ویلنٹائنز ڈے کی مناسبت سے دکانوں میں تحائف خریدنے والوں کا رش بھی دیکھا گیا، کوئی چاکلیٹس پسند کرتا دکھائی دے رہا ہے تو کوئی ٹیڈی بیئر لیتا اور کوئی سرخ گلابوں کو اظہار کا ذریعہ بنانا چاہتاہے ۔

     نوجوانوں سمیت ہر عمر کے افراد کی خواہش ہے کہ وہ ویلنٹائنز ڈے کو بھرپور انداز میں منائیں اورتحفے تحائف دے کر ایک دوسے کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ویلنٹائنز ڈے کو سرخ گلاب کے ذریعے اظہار محبت کا دن بھی کہا جا تا ہے اور ہر وہ دن ویلینٹائن ڈے ہو تا ہے جب دل دل سے ملتے ہیں۔

    پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا،پاکستان کے شہری علاقوں میں اسے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے،پھولوں کی فروخت میں کئی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    جہاں دنیا بھر میں اس دن کو خوشی اور مسرت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے وہیں کئی مسلمان عالم دین کی نظر میں یہ ایک وائرس ہے جو مسلم دنیا کے نوجوانوں کے اخلاق کو تباہ کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔

  • جمالِ شعرجمال احسانی کو گزرے 17 برس بیت گئے

    جمالِ شعرجمال احسانی کو گزرے 17 برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – آج اردو زبان کے ممتاز شاعر جمال احسانی کی بر سی ہے۔ جمال 21 اپریل 1951 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے تھے۔
    انتہائی منفرد اور ممتاز لب و لہجے کے شاعر جمال احسانی کالج اوریونیورسٹی کے نوجوانوں میں بے پناہ مقبول تھے۔

    یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
    یہ رنج ہے کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

    آپ نے تین شعری مجموعے تحریر کئے جن میں تارے کو مہتاب کیا، رات کے جاگے ہوئے، ستارۂ سفر شامل ہیں۔ آپ کا تمام تر کلام کلیاتِ جمال کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

    ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگا
    سرکٹانا ہے توہتھیارنہ ڈالیں جائیں

    جمال نے اپنی ابتدائی تعلیم سرگودھا میں ہی حاصل کی اوراس کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اورپھریہیں کے ہورہے۔

    تعلیم کے بعد محکمۂ اطلاعات ونشریات ،سندھ سے منسلک ہوگئے۔اس کے علاوہ جمال احسانی روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنا پرچہ’’رازدار‘‘ بھی نکالتےرہے۔ وہ معاشی طور پر بہت پریشاں رہے۔

      تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی
    کوئی بھی عکس اگربے مثال رہ جاتا

     آپ کے کلام میں بے ساختگی اور شائستہ پن تھا اور اس کے ساتھ ہی معاشرے کی محرومیوں کا کرب بھی تھا اور ان کے کلام کا یہی جزو انہیں نوجوانوں میں منفرد بناتا تھا۔۱۹۸۱ ء میں سوہنی دھرتی رائٹرزگلڈ ایوارڈ ملا۔

    جمال احسانی 10 فروری 1998 کو 47 سال کی مختصرعمرمیں کراچی میں وفات پاگئے،انکی وفات پرمقبول شاعر جون ایلیاء نے ایک معرکتہ الارآ مختصر مرثیہ کہا تھا جس کا نمائندہ شعر کچھ یوں ہے کہ،

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب توجاکےکہیں دن سنورنے والے تھے

  • میرے  ‘پیارے’  ہمسائے کے نام

    میرے ‘پیارے’ ہمسائے کے نام

    یہ بات ہے کچھ عرصہ پہلے کی، میں گھر سے باہر تھی۔ مجھے میری بہن کا”ایس-ایم-ایس” موصول ہوا۔ اُس انگریزی ایس-ایم-ایس کا اردو رترجمہ کرنے میںمجھے کافی دِقت محسوس ہو رہی ہے لہٰذا ‘اردو’ مفہوم ہی پیشِ خدمت کئے دیتی  ہوں”ہمارے محلے میں ایک نئی فیملی رہنے کے لیےتشریف فرما ہوئی ، فیملی میں دو بھائی ایسے تھے جنکو ‘اردو’ اور پنجابی لغت کے کچھ ایسے الفاظ پر مہارت حاصل تھی جو ہم اکثر اوقات گھروں میں ماؤں بہنوں کے سامنے بولتے حتٰی کہ سُنتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں”خیر میں نے اپنی بہن کے ایس-ایم-ایس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ کافی عرصہ گزر گیا، ایک دن میرے کانوں کو کچھ ایسے الفاظ سُننے کو ملے جو معمول میںآج سے پہلے کبھی نا سنے تھے، اور اگر سُنے بھی ہونگے تو اس قسم کے’کمبینیشن’کے ساتھ تو ہرگز نہیں۔ مجھے اپنی کمر پر عجیب سے سرسراہٹ محسوس ہونےلگی۔ میں جو کہ ایک بہت ‘بولڈ’ شخصیت کی مالک ہوں فوراً یہاں وہاں دیکھنے لگی کے کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور تو نہیں؟ شکر کا سانس لیا، یہ جان کر کہ میں اکیلی ہی بیٹھی اپنی پنجابی ‘لغت’ میں نت نئے فحش الفاظ کا اضافہ کر رہی ہوں۔ شرمندگی سے میرا منہ مجھے گرم ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا اوردلکی دھڑکن اس خوف سے بڑھنے لگی کہ کہیں کوئی آ ہی نا جائے ،اس دوران میرے موبل فون پر بھی مسلسل کال آرہی تھی جسے میں اٹینڈ نہیں کر رہی تھی کیوں؟یہ تو آپ بھی باخوبی سمجھ گئے ہونگے۔۔۔۔جو الفاظ میں تنہائی میں بھی ہضم کرنے سے قاصر تھی بھلاکسی اور کے سامنے سُننے کی کیسے متحمل ہو سکتی تھی؟ کافی دیر تک دونوں بھائیوں کے درمیان اُن الفاظ تبادلہ ہوتا رہا جن میں اُنہی کی ماں بہن کے پوشیدہ حساس مقامات کا تفصیلی ذکر سننے میں آرہا تھا۔اتنا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میرے باقی گھر والے اور دیگر ہمسائے بھی یہی سب سن رہے ہیں مگر اردگرد کی خاموشی میری شرمندگی میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی چلی جا رہی تھی۔ اتنے میں میرے کانوں کو کسی صنفِ نازک کی آواز سنائی دی۔ ماصوفہ نے جو الفاظ بولے وہ لکھنے کی بھی "یہ ناچیز "ہرگز جُرت نہیں کر سکتی۔ بس اتنا کہے دیتی ہوں کہ ان دونوں بھائیوں نے اپنی زبان کی روانگی کی بدولت گھر کی عورتوں کی بھی اچھی خاصی تربیت کر ڈالی ہوئی تھی۔ پنجابی میں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ "ساریاں دے چاکے لتھ گئے ہوے سن”۔ چند گھنٹے تک ان جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا جن میں کافی زیادہ الفاظ تہذیب کی لکیر سے نیچے بلکہ کافی زیادہ نیچے تھے۔ اس بات کوغالباً دو سے تین سال گزر گئے ہونگے۔ میری بھی پنجابی لغت میں اس دوران خاطر خواں اضافہ ہوا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ابھی بھی ہو رہا ہے۔ دن میں تین سے چار راونڈ اسی قسم کی گفتوشنید پر مشتمل پورے محلے کے کانوں میں سے گزرتے ہیں۔ یہ صرف کسی ایک محلے یا کسی قصبے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے تیسرے گھر کا یہی حال ہے۔سڑکوں پر آتے جاتے ہم بے وجہ گالی گلوچ کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائے پھر رہے ہوتے ہیں ، بنا یہ دیکھے کے آس پاس سے کوئی خاتون تو نہیں گزر رہی ، ہم دل کھول کر” آزادیِ رائے” کے حق کو کیش کروا رہے ہوتے ہیں ۔ ڈرتی ہوں کہ اگر یہی حال رہا تو گھر کی شریف عوتوں کی بھی ایک دن زبان ایسی ہی ہو جائے گی۔ یہ قوم اپنی تہذیب اپنا تمدن کھو دے گی پنجابی میں کہوں تو "ساریاں دے چاکے کھل جان گے”۔ شرم و حیا ناپید ہو جائے گی اور نبیؐ کی محبت کے دعوی ٰدار ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔

    سوال میرا مختصر سا ہے، آخر اس کا حل کیا ہے؟ باحثیتِ قوم ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم جو اپنے آپ کو بہت بڑا عاشقِ رسول مانتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ ہمارے نبیؐ نے بےہودہ گفتاری کو کس قدر ناپسند فرمایا تھا؟ الفاظ کے چُناؤ میں ہم ہمیشہ ایسے الفاظ ہی کیوں چُنتے ہیں جن میں ہماری مائیں بہنیں بھی "چُنی”جاتی ہیں؟ کیا مہذب معاشروں کی یہ پہچان ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کس منہ سے ہم اپنے آپ کو مسلمان بلکہ عاشقِ رسول ﷺ کہتے ہیں؟قیامت کے روز کیا جواب دیں گے اپنے رب کو کہ آخر ” ہمارے نبیؐ کی زندگی سے ہم نے کیا سیکھا؟ زندگی اصلاح کے مواقعے بار بار نہیں دیتی، کب کہاں کیسے ” بُلاوا” آجائے،یہ نہ تو میں جانتی ہوں نہ ہی آپ، پھر کیوں نا آج سے ہی اپنے اصلاح کا آغاز کریں؟منہ سے عاشقِ رسولؐ ہونے کے دعوی چھوڑیں، عملاً ثابت کریں کہ "ہاں ہم عاشقِ رسولؐ ہیں دعا ہے کہ اللہ مجھے، آپ کو اور ہم سب کو سچ میں ایک ” سچا عاشقِ” رسولؐ بنائے۔
    آمین

  • دہشتگردوں کو شناختی کارڈ فراہم کرنے والا نادرا کا ملازم گرفتار

    دہشتگردوں کو شناختی کارڈ فراہم کرنے والا نادرا کا ملازم گرفتار

    لاہور: پولیس نے دہشت گردوں کو شناختی کارڈ تیار کرکے دینے والے نادرا کے ملازم کو گرفتار کرلیا اور اس کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔

    مغل پورہ پولیس کے مطابق نادرا میں ڈیٹا انٹری آپریٹر شاہد کا دہشت گردوں سے رابطہ تھا اور اس نے دہشت گردوں سے اکانوے شناختی کارڈ بنانے کی ڈیل کی اور اکیس شناختی کارڈ تیار کرکے ان کے حوالے کیے۔

     ملزم کے مطابق اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ دہشت گرد ہیں اس نے ایجنٹ سمجھ کر شناختی کارڈ بنائے اور اب تک چھ لاکھ روپے وصول کرچکا ہے۔

    ملزم کا کہنا ہے کہ اس کی محکمانہ کارروائی جاری تھی اسے ایک مہینہ پہلے پکڑا گیا اور اب پولیس کے حوالے گیا ہے۔