Tag: US president barak obama

  • براک اوباما کی ترکی میں ناکام بغاوت کی تحقیقات میں مدد کی پیش کش

    براک اوباما کی ترکی میں ناکام بغاوت کی تحقیقات میں مدد کی پیش کش

    واشنگٹن : امریکی صدر براک اوباما نے ترک ہم منصب رجب طیب اردوگان کو ٹیلی فون کرکے ناکام بغاوت کی تحقیقات میں مدد کی پیش کش کردی ہے۔

    ترجمان وائٹ ہاؤس جوش ارنسٹ کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے ترک ہم منصب کو فون کرکے جمہوری حکومت کی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے، صدراوباما نے انقرہ کو ناکام بغاوت کی تحقیقات میں مدد کی پیش کش بھی کی۔

    صدراوباما نے ترکی پر زور دیا کہ ناکام بغاوت کے ذمہ داروں کے معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کرے۔

    جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے امریکہ میں مقیم ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا، جوش ارنسٹ نے بتایا کہ ترکی کی جانب سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کی درخواست موصول ہوگئی ہے جس کا جائزہ لیا جارہا ہے، ترک حکومت نے ناکام بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پر عائد کیا تھا۔

    یاد رہے کہ ترک فوج کے ایک گروہ نے بغاوت کی، صدر اردگان کی اپیل پر عوام فوجی بغاوت کے خلاف بھرپور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں اور سڑکوں پر گشت کرتے باغی ٹولے کے ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ ترک عوام نے ٹینکوں اور باغی دستوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا، جمہوریت کی طاقت سے باغی ٹولہ پسپا ہونے پر مجبور ہوا اور عوام نے سرکاری عمارتوں سے باغی فوجیوں کونکال باہر کردیا۔

    ترکی میں بغاوت کی کوشش کے دوران اب تک 290 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ملک میں عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں، زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔

  • افغانستان سے فوجیوں کی واپسی کا فیصلہ نئے امریکی صدر کریں گے، اوباما

    افغانستان سے فوجیوں کی واپسی کا فیصلہ نئے امریکی صدر کریں گے، اوباما

    واشنگٹن : امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے افغانستان کے مسئلےکاحل افغان حکومت اورطالبان میں مذاکرات ہیں، افغانستان کوداعش کی پناہ گاہ بننے نہیں دیں گے۔

    واشنگٹن سے جاری بیان میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نتائج حاصل کر لئے تاہم سیکیورٹی کی صورتحال اب بھی نازک ہے، انہوں نے کہا افغان افواج کی جنگی تربیت کررہے ہیں۔

    براک اوباما نے کہا کہ اگلے برس جب وہ اپنے عہدہ صدارت کی دوسری مدت پوری کر کے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہو رہے ہوں گے، تو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد آٹھ ہزار چار سو کے قریب ہو گی، فوجیوں کی تعداد سال کے آخر تک کم کردی جائے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان سے فوجیوں کی واپسی کا فیصلہ نئے امریکی صدرکریں گے۔

    اوباما کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و سلامتی امریکا میں امن و سلامتی کیلئے ناگزیر ہے، افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھیں گے، مسئلے کا اصل حل افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ہیں۔

  • امریکی صدراوباما نے آئندہ صدارت کیلئے ہلیری کلنٹن کی حمایت کردی

    امریکی صدراوباما نے آئندہ صدارت کیلئے ہلیری کلنٹن کی حمایت کردی

    واشنگٹن : امریکی صدراوباما نے آئندہ صدارت کیلئے ہلیری کلنٹن کی حمایت کردی ہے، انکا کہنا ہے کہ امریکی صدارت کیلئے ہلیری کلنٹن سے زیادہ کوئی اور قابل شخصیت نہیں۔

    امریکی صدارتی امیدوارکے طور پر نامزدگی کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی میں سابق وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن اور برنی سینڈرز کے درمیان کشمکش کا خاتمہ ہوگیا ہے، آخر کار ڈیموکریٹ صدربارک اوباما نے پارٹی کے صدارتی امیدوار کیلئے ہلیری کلنٹن کی حمایت کرتے ہوئے انہیں صدارتی عہدے کے لئے قابل شخصیت قرار دے دیا ۔

    صدراوباما نے صدارتی امیدوار کیلئے ہلیری کلنٹن کی حمایت کا فیصلہ برنی سینڈرز سے ملاقات کے بعد کیا، اس موقع پر برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ وہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ مل کرڈونلڈٹرمپ کو روکنے کیلئے کام کریں گے۔

    صدراوباما سے ملاقات کے بعد برنی سینڈرز کیپٹیل ہل روانہ ہوگئے، صدراوباما آئندہ ہفتے ونکونسن میں ہلیری کلنٹن کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لینگے۔

    صدراوباما کا کہنا تھا کہ وہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ صدارتی مہم چلانے کیلئے بے تاب ہیں۔

    دوسری جانب صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن نے صدر اوباما کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کی حمایت پر فخر ہے۔

  • صدراوباما کا روہنگیا افراد کے ساتھ غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک ختم کرنے کا مطالبہ

    صدراوباما کا روہنگیا افراد کے ساتھ غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک ختم کرنے کا مطالبہ

    واشنگٹن : امریکی صدراوباما نے روہنگیا افراد کے ساتھ غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک کو ختم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

    امریکی صدر باراک اوباما نے پریس کانفرنس سے خطاب کرنے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ برما میں اقلیتی روہنگیا افراد کے ساتھ غیرمنصفانہ اورامتیازی سلوک کیا جارہا ہے اوراس امتیازی سلوک کی وجہ سے روہنگیا اپنا ملک چھوڑنے پر مجبورہوگئے ہیں۔

    انھوں نے میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمہوری انتقال اقتدار کی کامیابی کے لیے ان لوگوں کے خلاف نسل اور عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ کرے۔

    انہوں نے روہنگیا مہاجرین کی مدد کرنے پرانڈونیشیا اور ملائیشیا کی تعریف بھی کی۔

    واضح رہے کہ میانمار کی حکومت روہنگیا کے مسلمانوں کو اقلیت ماننے کی بجائے بنگالی قرار دیدیا ہے اور انہیں بنگلہ دیش سے آنے والے غیرقانونی تارکینِ وطن قرار دیتی ہے، جن کی 13 لاکھ آبادی میانمار کے مغرب میں آباد ہے جن کی اکثریت میانمار شہریت سے محروم ہے۔

    خیال رہے کہ میانمار کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے روہنگیا مسلمانوں اور بدھ مت انتہا پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، ماضی میں بدھ متوں کو میانمار کی سکیورٹی فورسز کی حمایت حاصل رہی ہے۔2012ء میں انھوں نے مسلم اکثریتی مغربی ریاست اراکان میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور ان کے مکانوں ،دکانوں اور دیگر املاک کو نذرآتش کردیا تھا۔

  • کیوبا کا نام دہشتگردی کی معاون ریاستوں کی فہرست سے نکال دیاگیا

    کیوبا کا نام دہشتگردی کی معاون ریاستوں کی فہرست سے نکال دیاگیا

    واشنگٹن: امریکہ نےباضابطہ طورپرکیوبا کا نام دہشتگردی کو فروغ دینے والی ریاستوں کی فہرست سےنکال دیا ہےجس کےبعددونوں ملکوں کےدرمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی راہ ہموارہوگئی ہے۔

    امریکی صدرباراک اوبامانےرواں سال اپریل کے وسط میں اعلان کیا تھاکہ وہ کیوباکانام مذکورہ فہرست سےنکال دیں گے،صدراوباما کے اعلان کے بعد کانگریس کے پاس اس اقدام کوروکنےکےلئے پینتالیس روزکی آئینی مدت تھی جوانتیس مئی کوختم ہوگئی ہے۔

     کیوباکا نام دہشتگردی کی معاون ریاستوں کی فہرست سےنکالنے کااعلان جمعےکوامریکی محکمۂ خارجہ نےکیا۔

    محکمہ خارجہ کا کہنا ہےکہ کیوباکی کئی پالیسیوں اوراقدامات پرامریکہ کواب بھی تحفظات ہیں لیکن یہ اختلافات کیوباکودہشتگردوں کی معاون ریاستوں کی فہرست سےنکالنےکی راہ میں رکاوٹ نہیں۔

    کیوبا کے اخراج کےبعد اب اس فہرست میں شام، سوڈان اور ایران کے نام بچے ہیں۔

  • کیوبا کا نام دہشت گردوں کی معاونت والے ممالک کی فہرست سے خارج کرنے کا اعلان

    کیوبا کا نام دہشت گردوں کی معاونت والے ممالک کی فہرست سے خارج کرنے کا اعلان

    واشنگٹن : امریکی صدر اوباما نے کیوبا کا نام دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    امریکی صدر اوبامانے سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیےکیوبا کا نام دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    جس پر سینٹر مارکو روبیو نے مذمت کرتے ہوئے اعلان کو غیر سنجیدہ قرار دے دیا ہے۔

    دیگر سینٹ ارکان کا کہنا ہے کہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے کیوبا کو رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے پالیسیوں میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔

  • صدراوباما کی 3مسلمان طلباء کے قتل کی مذمت

    صدراوباما کی 3مسلمان طلباء کے قتل کی مذمت

    واشنگٹن :امریکی صدر براک اوباما نے نارتھ کیرولینا میں تین مسلمان طلباء کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے سفاکانہ اقدام قرار دیا ہے۔

    تین مسلمان طلباء کے قتل پر جاری بیان میں امریکی صدربراک اوباما کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو بھی اس کی رنگت یا مذہب کی بنیاد پرنشانہ نہیں بنایا جا سکتا، طلبا کا قتل ظالمانہ فعل ہے۔

    دوروزقبل چیپل ہل کے علاقے میں ایک شخص نے دوخواتین سمیت تین طلباء کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، مسلمان طلباء کے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے امریکی صدر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے پراپنا موقف واضح کریں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق قاتل نےایک روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اسلام مخالف بیانات جاری کیے تھے، جس میں مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا تھا۔ دومسلمان طالبات اور ایک طالبعلم کے قتل کو عالمی میڈیا کی جانب سے مناسب کوریج نہ دیئے جانے پر سوشل میڈیا نے اسےتنقید کا نشانہ بنایا۔

  • امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے استعفی دیدیا

    امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے استعفی دیدیا

    واشنگٹن : امریکی صدر نے وزیرِ دفاع چک ہیگل کا استعفیٰ منظور کرلیا ہے، باراک اوباما کا کہنا ہے کہ چک ہیگل کی خدمات قابل ستائش ہیں۔

    باراک اوباما نے امریکی فوجیوں سے اچھے تعلقات کے حوالے سے بھی چک ہیگل کے کردار کو سراہا ہے، چک ہیگل کا کہنا تھا کہ امریکی وزیرِ دفاع کی حیثیت سے کام کرنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔

    امریکی اخبار کے مطابق چک ہیگل دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگی حکمت عملی پراختلاف کے باعث مستعفی ہوئے ہیں، وہ عراق میں جنگ سے نمٹنے کے طریقۂ کار کے بھی سخت نقاد تھے۔

  • امریکا میں وسط مدتی الیکشن،ریپبلکنز کی کامیابی کاامکان

    امریکا میں وسط مدتی الیکشن،ریپبلکنز کی کامیابی کاامکان

    واشنگٹن: امریکہ میں وسط مدتی انتخاب میں ایوان نمائندگان کی تمام جب کہ سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں پرووٹنگ ہورہی ہے ۔

    تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ ریپبلیکنز کو کانگریس میں اکثریت حاصل ہو سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو صدراوباما آخری دو برس کے دوران نئے سیاسی تنازعات کاشکار ہوسکتےہیں۔ریپبلیکن امیدوار اُن ریاستوں میں سینیٹ کی کئی سیٹیں لے سکتے ہیں جنھیں دو برس قبل مسٹر اوباما نے کھو دیا تھا

  • امریکا میں وسط مدتی انتخابات آج ہورہے ہیں

    امریکا میں وسط مدتی انتخابات آج ہورہے ہیں

    واشنگٹن:امریکی عوام ایوان نمائندگان کے 435 اور سینٹ کے 33 اراکین کو منتخب کرنے کیلئے چار نومبر کو ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔

    امریکی عوام ایوانِ نمائندگان کے چار پینتیس ارکان اور سینیٹ کے تینتیس اراکین کو منتخب کرنے کے لئے ووٹنگ کا حق استعمال کریں گے، ان مڈٹرم انتخابات میں مختلف ریاستوں سے اڑتیس نئے گورنرز ،چھیالیس ریاستوں کے نمائندے اور لوکل باڈیز کا چناؤ عمل میں آئے گا۔

    ایک سروے کے مطابق صدر اوباما کی مخالف قوتوں کی کامیابی کی توقع زیادہ ہے۔

    عام خیال ہے کہ ری پبلیکن پارٹی ایوانِ نمائندگان میں اپنی سترہ نشستوں کی برتری نہ صرف برقرار رکھے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ اِس میں کچھ اضافہ ہو، وہ سینیٹ میں بھی زیادہ سیٹیں لے سکتی ہے، جہاں اس وقت ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے۔

    سروے کے مطابق چارنومبر کے انتخابات میں ری پبلکنز کو ڈیموکریٹس پر سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی، ری پبلکنز کو ڈیموکریٹس پر سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے کم سے کم چھ سیٹوں پر فتح حاصل کرنا ہوگی۔

    ری پبلکنز کے مطابق وہ ڈیموکریٹس سے آرکنسس، مونٹانا، ساؤتھ ڈکوٹا اور ویسٹ ورجینیا کی نشستیں حاصل کر لیں گے۔ ری پبلکنز اس وقت ڈیموکریٹس کو الاسکا، کولوراڈو، آئیوا، نیو ہیمپشائر، اور نارتھ کیرولینا میں سخت مقابلہ دے رہے ہیں۔

    سروے کے مطابق صدر اوباما کی الیکشن مہم میں تقریر بھی ڈیموکرٹیس کے امیدواروں کے لئے نقصان دے رہی ہے۔